Saturday, 10 October 2020
Do Bail By Munshi Prem Chand
Premchand Firaq Ki Nazar Mein
Friday, 9 October 2020
Chaar Bahre
Saturday, 3 October 2020
Sunday, 27 September 2020
Jamia Millia Islamia School and University Admission Schedule 2020
Ehsaan Ka Badla Ehsaan By Dr.Zakir Hussain NCERT Urdu Class IX
بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے اور دعا فریب بہت
ہی کم تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔
کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا تھا اور جو جس کا حق ہوتا تھا، اسے
مل جایا کرتا تھا ۔ ان دنوں ایک شہر تھا: عادل آباد۔ اس عادل آباد
میں ایک بہت دولت مند دکان دار تھا۔ دور دور کے ملکوں سے اس کا لین
دین تھا۔ اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اس نے بہت دام دے کر ایک عرب
سے خریدا تھا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار
ہو کر جارہا تھا کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل گیا اور ایک
جنگل میں جا نکلا ۔ ابھی یہ اپنی دھن میں آگے جاہی رہا تھا کہ
پیچھے سے چھے آدمیوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس نے ان کے دو ایک وار
تو خالی دیے لیکن جب دیکھا کہ وہ چھے ہیں تو سوچا کہ اچھا نہیں ہے
کہ ان سے بچ کرنکل چلوں ۔ اس نے گھوڑے کو گھر کی طرف پھیرا ، لیکن
ڈاکوؤں نے بھی اپنے گھوڑے پچھے ڈال دیے۔ اب تو عجیب حال تھا۔ سارا
جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا ۔ سچ یہ ہے کہ دکان دار کے
گھوڑے نے اسی دن اپنے دام وصول کرادیے۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کے
گھوڑے پیچھے رہ گئے ۔ گھوڑا دکان دار کی جان بچا کر اسے گھر لے
آیا۔
اس روز گھوڑے نے اتنا زور لگایا کہ اس کی ٹانگیں بے کار ہو گئیں ۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دنوں بعد غریب کی آنکھیں بھی جاتی
رہیں ۔ لیکن دکان دار کو اپنے وفادار گھوڑے کا احسان یاد تھا۔ چناں
چہ اس نے سائیس کو حکم دیا کہ جب تک گھوڑا جیتا رہے، اس کو روز صبح
وشام چھ سیر دانہ دیا جائے اور اس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔
لیکن سائیس نے اس حکم پر عمل نہ کیا۔ وہ روز بروز گھوڑے کا دانہ
کم کرتا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک روز اسے اپاہج اور اندھا سمجھ کر
اصطبل سے نکال دیا۔ بے چارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا، بارش اور
طوفان میں باہر کھڑا رہا۔ جب صبح ہوئی تو جوں توں کر کے وہاں سے چل
دیا۔
اسی شہر عادل آباد میں ایک بڑی مسجد تھی اور ایک بڑا مندر ۔ ان
میں نیک ہندو اور مسلمان آ کر اپنے اپنے ڈھنگ سے عبادت کرتے اور
خدا کو یاد کرتے تھے۔ مندر اور مسجد کے بیچ ایک بہت اونچا مکان تھا
اس کے بیچ میں ایک بڑا سا کمرا تھا۔ کمرے میں ایک بہت بڑا گھنٹا
لٹکا ہوا تھا اور اس میں ایک لمبی سی رسی بندھی ہوئی تھی ۔ اس گھر
کا دروازہ دن رات کھلا رہتا۔ شہر عادل آباد میں جب کوئی کسی پر ظلم
کرتا یا کسی کا مال دبالیتا یا کسی کا حق مار لیتا تو وہ اس گھر
میں جاتا، رسی پکڑ کر کھینچتا۔ یہ گھنٹا اس زور سے بچتا کہ سارے
شہر کو خبر ہو جاتی ۔ گھنٹے کے بجتے ہی شہر کے سچے ، نیک دل
ہندومسلمان وہاں آجاتے اور فریادی کی فریاد سن کر انصاف کرتے ۔
اتفاق کی بات کہ اندھا گھوڑا بھی صبح ہوتے ہوتے اس گھر کے دروازے
پر جا پہنچا۔ دروازے پر کچھ روک ٹوک تو تھی نہیں ، گھوڑا سیدھا گھر
میں گھس گیا۔ بیچ میں رسی تھی۔ یہ غریب مارے بھوک کے ہر چیز پر منھ
چلاتا تھا، رسی جو اس کے بدن سے لگی تو وہ اسی کو چبانے لگا۔ رسی
جو ذرا کھنچی تو گھنٹا بجا۔ مسلمان مسجد میں نماز کے لیے جمع تھے۔
پجاری مندر میں پوجا کر رہے تھے۔ گھنٹا جو بجا تو سب چونک پڑے اور
اپنی اپنی عبادت ختم کر کے اس گھر میں آن کر جمع ہو گئے ۔ شہر کے
پنچ بھی آگئے ۔ پنچوں نے پوچھا : ” یہ اندھا گھوڑا کس کا ہے؟‘‘
لوگوں نے بتایا: ’’ یہ فلاں تا جر کا ہے۔ اس گھوڑے نے تاجر کی جان
بچائی تھی ۔‘‘ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر
کیا ہے۔ پنچوں نے تاجر کو بلوایا ۔ ایک طرف اندھا گھوڑا تھا، اس کی
زبان نہ تھی جو شکایت کرتا۔ دوسری طرف تاجر کھڑا تھا، شرم کے مارے
اس کی آنکھیں جھکی تھیں ۔ پنچوں نے کہا: تم نے اچھا نہیں کیا ۔ اس
گھوڑے نے تمھاری جان بچائی اور تم نے اس کے ساتھ کیا کیا ؟ تم آدمی
ہو، یہ جانور ہے آدمی سے اچھا تو جانور ہی ہے۔ ہمارے شہر میں ایسا
نہیں ہوتا ۔ ہر ایک کو اس کا حق ملتا ہے اور احسان کا بدلہ احسان
سمجھا جا تا ہے۔
تاجر کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔
بڑھ کر اس نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈال دیا۔
قواعد:
گھوڑے پر سوار ہو کر جارہا تھا۔
بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے۔
معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر کیا ہے۔
اوپر دیے گئے جملوں میں جن کاموں کے بارے میں بتایا جارہا ہے وہ پہلے ہو چکے ہیں یعنی یہ گزرے ہوئے وقت
کی باتیں ہیں ۔ گزرے ہوئے وقت / زمانہ کو ماضی کہتے ہیں
Chidiya Ghar Ki Sair NCERT Class 9 Jaan Pehchaan
چڑیا گھر کی سیر
سوچیے اور بتائیے
1.پانڈے کو گھنے بالوں سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟
جواب:پانڈا ٹھنڈے ملک کا جانور ہے پانڈے کے گھنے بال اسے ٹھنڈے سے بچاتے ہیں۔ گرمی کے دنوں میں پانڈے کو گرمی بہت ستاتی ہے اس لیے چڑیا گھر میں پانڈے کے پنجڑے کو ٹھنڈا رکھا جاتا ہے۔
2.کنگارو اپنے پیٹ پر بنی تھیلی سے کیا کام لیتا ہے؟
جواب:کنگارو اپنے پیٹ پر بنی تھیلی میں اپنے بچے کو رکھتا ہے۔اس میں بچے کو بیٹھا کر یہ خوب تیز بھاگ سکتا ہے۔
3.کنگارو کی غذا کیا ہے؟
جواب:کنگارو پھل، پتیاں اور سبزیاں بڑے شوق سے کھاتا ہیں اور اسے گیہوں بھی بہت پسند ہے۔
4.پیٹ بھرنے کے بعد شیر کیا کرتا ہے؟
جواب:پیٹ بھرنے کے بعد شیر کسی پیڑ کے نیچے سوجاتا ہے۔
5.چمپانزی کو گرمی کیوں ستاتی ہے ؟
جواب:چمپانزی ٹھنڈے ملک کا جانور ہے اس لیے ہندوستان میں اسے گرمی بہت ستاتی ہے۔
6.حامد اور اس کی بہن نے چڑیا گھر میں کون کون سے جانور دیکھے؟
جواب: حامد اور اس کی بہن نے چڑیا گھر میں شیر، ہاتھی، بھالو،ژراف،کنگارو، ہرن، چمپانزی، بندر اور کئی دوسرے جانور دیکھے۔
7.جانوروں کو بیماری سے بچانے کے لیے کیا کیا جاتا ہے؟
جواب:ان کہ پنجڑے اور کٹہروں کو روز صاف کیا جاتا ہے اور سردی گرمی سے بچانے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔کھانے میں مناسب غذائیں دی جاتی ہیں اور کبھی کبھی ایسی دوائیں بھی دی جاتی ہے کہ کوئی جانور بیمار نہ پڑے۔ پھر بھی اگر کوئی جانور بیمار پڑ جاتا ہے تواسے جانوروں کے اسپتال لے جایا جاتا ہے اور اس کا علاج کرایا جاتا ہے۔
نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد الفاظ لکھیے
| سردی | : | گرمی |
| پسند | : | نا پسند |
| سفید | : | سیاہ |
| خوش | : | اداس |
| بیمار | : | تندرست |
| مناسب | : | غیرمناسب |
Saturday, 26 September 2020
Taleemi Taash is now ALFAAZ - Aaina Special
پیارے بچّو!
پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل بھی ضروری ہے۔ کھیل دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جنہیں تم گھر سے باہر اسکول کے میدان اور دوسرے میدانوں میں کھیلتے ہو اور دوسرا وہ جو تم اپنے گھر میں کھیلتےہو۔ گھر میں کھیلا جانے والا کھیل انڈور گیم کہلاتا ہے۔ اور گھر کے باہر کھیلا جانے والا آؤٹ ڈور گیم۔ اب کھیل کی ایک اور قسم آگئی ہے وہ موبائل گیم کہلاتی ہے۔ جس کی جانب بچّوں کا رجحان اب خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں آؤٹ ڈور گیم میں فٹبال، کرکٹ، والی بال، بیڈ منٹن اورباسکیٹ بال وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ یہ کھیل آپ کے جسم کو چاق و چوبند اور متحرک بناتے ہیں۔ اور ان سے آپ کے جسم کی ورزش بھی ہوجاتی ہے اس لیے ان کھیلوں کو صحت و تندرستی کے لیے اچھا مانا جاتا ہے۔ گھریلو کھیلوں میں کیرم بورڈ، لوڈو، سانپ سیڑھی، لڑکیوں کے لیے گوٹیوں اور اسٹاپو کا کھیل وغیرہ پسندیدہ کھیل ہیں۔ لیکن جب سے موبائل گیم کی شروعات ہوئی ہے سبھی طرح کے کھیل پیچھے ہوتے جارہے ہیں اور موبائل گیمس نے بچّوں کیا بڑوں کے دل و دماغ پر قبضہ جما لیا ہے۔ یہ کھیل آپ کے لیے کتنا نقصاندہ ہیں اس جانب ابھی آپ کی توجہ نہیں گئی ہے۔ اس سے آپ کے ذہن و دماغ میں تیزی تو آتی ہے لیکن اس کا رجحان کس جانب ہے وہ آپ کے ذہن سے بالاتر ہے۔ اس مضمون میں موبائل گیمس کے نقصانات پر بحث مطلوب نہیں بلکہ یہاں آپ کو ہم ایسے کھیل کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جو اب آہستہ آہستہ ناپید ہوتا جارہا ہے اور بہت سے بچّے تو اب اس کا نام بھی نہیں جانتے۔
پیارے بچّو! جانتے ہو جب ہم چھوٹے تھے تو ہماری تربیت کس طرح کی جاتی تھی۔سب سے پہلے تو ہماری بسم اللہ ہوتی اور پھر ہماری مادری زبان سے ہمارے علمی سفر کا آغاز ہوتا۔ خاندان کے بزرگ پیدائش کے چھٹے دن ہی اپنے دست مبارک سے ہماری قلم چھلائی کی رسم کراتے۔ ہمارا نام رکھا جاتا اور اس کی تفصیل ایک کاپی میں درج کی جاتی۔اس کی برکت تا عمر ہمارے ساتھ رہتی۔ قلم سے لکھی جانے والی ابجد اردو میں ہوتی اور یہی ہماری بنیاد ہوتی۔ عمر کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان سے رغبت دلانے کا یہ سلسلہ ہمارے بڑے ہونے تک جاری رہتا۔ اس طرح ہم اپنی مادری زبان سے ذہنی اور جذباتی طور پر جڑ جاتے تھے۔ اس کے ساتھ بنیادی مذہبی تعلیم ہمارے کیرکٹر کو اور پختہ بنادیتی تھی پھر شروع ہوتا تھا ہمارے عصری تعلیم کا سلسلہ۔ جس میں انگریزی، ہندی، حساب، سائنس سبھی کچھ شامل تھا اور درجات بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ اور دراز ہوتا جاتا تھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس زمانے کی نسل آج کم از کم چار سے پانچ زبانوں سے واقف ہے اور کم از کم وہ تین زبانیں تو اچھی طرح لکھنے، بولنے اور پڑھنے پر قادر ہے۔ لیکن افسوس آج تربیت کی یہ ترتیب اپنا وجود کھو چکی ہے۔ آج جب ایک نئے نصاب تعلیم کی بات چل رہی ہے تو یہ لازم ہے کہ ہم اپنے اس نظام تربیت کو واپس لائیں جس میں مادری زبان کا علم بنیادی حیثیت رکھتا تھا اور باقی نصاب اس سے جڑے ہوئے ہوتے تھے۔ مادری زبان ہماری شخصیت کا حصّہ ہوتی تھی۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ زبان جو ان کے وجود سے جڑی ہے اس طرح بے یار و مددگار نہ ہو جائے انہیں اردو کو اپنے بچوں کی بنیاد کا حصّہ بنانا چاہیے۔
میں بات کررہی تھی تربیت کے طریقے کی۔ ویب سائٹ کے پہلے صفحہ پر آپ نے آئینہ کا سلوگن دیکھا ہوگا جس میں صاف لکھا ہے ”ہم اردو پڑھاتے ہیں، ہم تہذیب سکھاتے ہیں“ یعنی ہمارا مقصد صرف آپ کو پڑھانا نہیں بلکہ اپنی تہذیب سے روشناس کرانا بھی ہے۔ اردو کی شدبد ہوتے ہی ہمارے اندر الفاظ سے دوستی کا رجحان بڑھتا جاتا ہے روز ہم نئے نئے الفاظ سیکھتے۔ہمارے بڑے اس میں معاون ہوتے۔ گھر میں کوئی نہ کوئی رسالہ پابندی سے آتا۔ اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ چھوٹے اور بڑے دونوں عمر کے بچّوں کے لیے رسالہ موجود ہو لہٰذا ایک طرف جہاں ہلال ہوتا وہیں دوسری طرف نور بھی ہوتا۔ اس طرح ہمارے اندر پڑھنے کی لگن بچپن سے ہی پڑجاتی۔ اب پڑھنا ہمارا شوق بن چکا ہوتا۔ اسکول کی پڑھائی اپنی جگہ اور کہانیوں کی کتابیں پڑھنا اپنی جگہ۔ افسوس اب یہ رجحان والدین اور بچّوں دونوں میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ تب پڑھنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس سے کیا مالی منفعت ہوگی افسوس اب بچّہ کنڈر گارڈن میں ہی ہوتا ہے کہ ہماری نگاہ اس بچّے کی تعلیم میں مستقبل کی مالی منفعت پر ہوتی ہے۔ اسی رجحان نے ہمیں تہذیبی اور علمی طور پر کھو کھلا کردیا ہے۔
میں پھرموضوع سے بھٹک گئی۔ میں آپ کو بتانے جارہی تھا اس کھیل کے بارے میں جو ہماری تربیت کا حصّہ تھا ۔ جب ہم نے حروف کو پہچان لیا تو ہمارے لیے الفاظ کو پہچاننے کی قواعد شروع ہوئی۔ بڑے بھائیوں اور والدین نے ہمارے لیے کہانیوں کی کتابیں لانا شروع کیں۔ وہ جب چھٹیوں میں گھر آتے تو ہم بہن بھائیوں کے لیے تحفے میں کہانیوں کی کتابیں لاتے۔ گھر میں نسیم بکڈپو اور مکتبہ الحسنات کی سبق آموز اور دلچسپ کہانیوں کا ایک ذخیرہ اکٹھا ہو چکا تھا۔ ایک ایک کتاب ہم کئی کئی بار پڑھتے۔ اب الفاظ ہمارے ذہن کا حصّہ بنتے جارہے تھے۔ اب اس میں مزید تنوع لانے اور ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کے لیے ایک ایسے گھریلو کھیل سے روشناس کرایا گیا جو واقعی نہ صرف دلچسپ تھا بلکہ اس نے ہمارے ذہن و دماغ کو جلا بخشی۔
اس کھیل کا نام ہے ”تعلیمی تاش“ ۔یہ کھیل تاش کے پتّوں کی طرح کے کارڈس سے کھیلا جاتا ہے ۔ اس میں الگ الگ پتّوں پر حروف تہّجی لکھے گئے ہیں۔ اس کھیل کو چار سے پانچ یا چھ بچّے ایک ساتھ کھیلتے ہیں۔ حروف پر ابجد کے قاعدے کے حساب سے نمبر لکھے ہوتے ہیں۔ بچّے ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اور ان میں برابر برابر پتّے تقسیم کردیے جاتے ہیں ۔ہر کھلاڑی کے پاس پانچ یا چھ پتّے ہوتے ہیں۔ اتنا ہی پتّہ کھلاڑیوں کے سامنے ہوتا ہے۔ ہر کھلاڑی دوسروں سے اپنے پتّے چھپاکر رکھتا ہے۔ اور پھر ایک کھلاڑی نیچے پڑے پتوں سے اپنے ایک پتّے کو ملاکر الفاظ بنانے کا سلسلہ شروع کرتا ہے مثلاً کسی کھلاڑی کے سامنے پڑے 6 پتّوں میں ل اور م ہیں اور اس کھلاڑی کے پاس ظ ہے تو وہ اپنی باری آنے پر ظلم بنا سکتا ہے۔ اور پھر بنائے گئے لفظ کے پتّوں کو اپنے پاس ایک طرف رکھ لیتا ہے۔ اور اس کے بعد وہیں پر پلٹ کر رکھے ہوئے تاش کے پتّوں میں سے ایک خود لیتا ہے اور دو پتے جو وہاں سامنے رکھے پتّوں میں کم ہوئے ان میں ملادیتا ہے۔ اب اس کے داہنی طرف بیٹھے کھلاڑی کی باری ہوتی ہے اور وہ اپنے کسی ایک پتّے سے وہاں سامنے رکھے پتّوں سے ملاکر کوئی دوسرا لفظ بناتا ہے۔ اگر وہ لفظ نہیں بنا پاتا تو اپنے کسی ایک پتے کو سامنے پڑے پتوں کے ساتھ ڈال دیتا ہے اور پھر اس کے داہنے بیٹھے کھلاڑی کی باری ہوتی ہے اس طرح یہ کھیل دائرے کی شکل میں گھومتا رہتا ہے یہاں تک کے سارے پتّے ختم ہو جاتے ہیں ۔ اب باری آتی ہے بنائے گئے الفاظ کے پتّوں کے نمبروں کو جوڑنے کی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ جن حروف کا نمبر 100 اور اس سے زیادہ ہوتا ہے صرف انہیں اعداد کو جوڑا جاتا ہے اس لیے 100 اور اس سے اوپر نمبر والے حروف قیمتی سمجھے جاتے ہیں۔ اس طرح جس کھلاڑی کے کل نمبر سب سے زیادہ ہوتے ہیں وہی فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ اس کھیل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کھیل ہی کھیل میں آپ کا ذخیرۂ الفاظ بڑھتا جاتا ہے ساتھ ہی حساب بھی مضبوط ہوتا ہے۔ انگریزی میں یہ کھیل اسکریبل کے نام سے جانا جاتا ہے جو اس سے بہت حد تک ملتا جلتا ہے۔
تعلیمی تاش کے حروف کے نمبرات جدول ابجد کے حساب سے ہوتے ہیں
ابجد
| ا | ب | ج چ | د |
| 1 | 2 | 3 | 4 |
| ہ | و | زژ |
| 5 | 6 | 7 |
| ح | ط | ی |
| 8 | 9 | 10 |
| ک | ل | م | ن |
| 20 | 30 | 40 | 50 |
| س | ع | ف | ص |
| 60 | 70 | 80 | 90 |
| ق | ر ڑ | ش | ت |
| 100 | 200 | 300 | 400 |
| ث | خ | ذ |
| 500 | 600 | 700 |
| ض | ظ | غ |
| 800 | 900 | 1000 |
بچّوں سے گزارش!
پیارے بچّوں! آپ اپنے علم کا دائرہ سمٹنے نہ دیں۔خوب پڑھیں اور مفید گیم کھیلیں۔ چاہے وہ تعلیمی تاش ہو یا اسکریبل۔ جان بوجھ کر اپنی مادری زبان کو کمتر نہ سمجھیں۔ احساس کمتری سے باہر آئیں۔ یہ زبان کتنی امیر ہے اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ اپنے اندر اس نے کیسے کیسے خزانے چھپا رکھے ہیں اس کا آپ کو ابھی علم نہیں۔ اگر آپ کہانیاں پڑھنے پر آئیں گے تو عربیَن نائٹس اپنی اصل شکل میں عربی و اردو میں ہی ملے گی۔آپ خوب انگریزی پڑھیں، ہندی پڑھیں، حساب پڑھیں، سائنس پڑھیں لیکن ساتھ ساتھ اردو بھی پڑھیں جو کہ آپ کی ماں کی زبان ہے اور جن سے آپ یقیناً محبت کرتے ہیں۔
اوپر ہم نے حروف کے نمبرات کا قاعدہ درج کیا ہے تاکہ آپ اگر گھر میں تعلیمی تاش بنانا چاہیں تو بنالیں اور اسے اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ کھیلیں۔ اب فیملی چھوٹی ہونے لگی ہے اس لیے آپ دو بھائی بہن بھی اس کھیل کو آسانی سے کھیل سکتے ہیں۔
اور اب والدین سے ایک گزارش!
ہو سکتا ہے اس کھیل کے غیر مقبول ہونے میں اس کے نام میں تاش جیسے لفظ کا شامل ہونا ہو۔ تاش کو ایک ناپسندیدہ اور معیوب کھیل سمجھا جاتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اس وجہ سے اس کھیل کو ترک کرنے کے بجائے اس کا ایک اچھا سا نام تلاش کرلیا جاتا اور ایک بار پھر اس کھیل کی تجدید کی جاتی۔ کاش کوئی اردو کا عاشق اس کھیل کا ایپ بنا دیتا اور بےکار گیمس کی جگہ ایک مفید گیم کا اضافہ ہوجاتا۔ اگر تعلیمی تاش دستیاب ہو تو اسے اپنے بچّوں کو ضرور لاکر دیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچّوں کی تربیت اسی طرح کریں جیسے اُن کے والدین نے اُن کی کی ہے، یہی اُن کا اپنے والدین کو بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
اردو کو اپنی گھریلو تہذیب کا حصّہ بنائیے اور ادب کے اس ذخیرے کو دوام عطا کیجیے۔
اردو کو مالی منفعت کے لیے نہیں بلکہ اپنے تہذیبی خزانے کی حفاظت کے لیے زندہ رکھیے۔
بھلے اردو کو اپنی عصری تعلیم کا حصّہ مت بنائیے لیکن خدارا اس نعمت کو اپنے گھر سے جانے بھی مت دیجیے۔
زبان ایک نعمت ہے اور آپ ایک بہترین زبان کے قدرتی مالک ہیں۔
Thursday, 24 September 2020
Ghazaliyaat e Wali For MA Jamia Millia Islamia
Saturday, 19 September 2020
AkbarAllahabadi Tanz o Islah Ka shayr
اکبر الہ آبادی طنز و اصلاح کا شاعر













