آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday, 29 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-11

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

(گیارہویں محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح پاک
  حضور ۱۲ ربیع الاول روز سوموار کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوا پانچ سو برس بعد مکہ میں پیدا ہوئے۔ حضور کے والد کا حضور کے پیدا ہونے سے پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ حضور کے پیدا ہونے کے کچھ عرصہ بعد حضور کی والدہ بھی چل بسیں۔ دایہ حلیمہ نے حضور کو دیہات لے جاکر رکھا اور دودھ پلایا۔حضور نے کچھ روز بکریاں چرائیں۔ حضور اپنے دادا کی نگرانی میں تھے۔ دادا کا انتقال ہوا تو حضور کے چچا ابو طالب نے حضور کی دیکھ بھال کی حضور جوان ہوئے تو اپنے چچا کے ساتھ ملک شام میں تجارت کے لئے گئے،پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ  کا مال لے کر تجارت کے لئے جاتے تھے۔ ۲۵ برس کےتھے،کہ حضور کی حضرت خدیجہ سے شادی ہوگئی جو چالیسں برسی کی تھیں اور بیوہ تھیں۔ حضرت خدیجہ سے کئی اولادیں ہوئیں۔ حضور چالیس برس کے ہو چکے تو اللّٰہ نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو نبی بنایا،تب تیرہ برس تک مکہ میں اسلام کی تبلیغ کی،پھرگھر بار چھوڑ کر مدینہ چلے آئے اور یہاں رہ کر اسلام پھیلاتے رہے۔حضور کی مشرکوں اور یہودیوں سے کئی لڑائیاں ہوئیں،اللّٰہ نے آخر فتح دی۔ دنیا کی دو بڑی سلطنتوں سے آپ کی لڑائی ہونے والی ہی تھی اور ایک لڑائی ہو بھی چکی تھی کہ ۶۳ برس کی عمر میں آپ کا انتقال ہوگیا اور آپ کی پاک بیوی حضرت عائشه صدیقہ رضی اللہ عنہ کی کوٹھری میں آپ کو دفن کیا گیا۔انتقال کے وقت حضور کی ۹ بیویاں تھیں۔اللّٰہ نے حضور کو ۹ بیویاں رکھنے کی اجازت اس لئے دی ہوگی،کہ حضور کی تربیت سے ایسی عورتیں تیار ہو جائیں جو عورتوں میں دین اسلام پھیلا سکیں اور دنیا میں یہ گواہی دے سکیں کہ حضور کی گھر کی زندگی بھی ایسی ہی پاک تھی جیسی باہر کی زندگی۔پھر جن خاندانوں کی عورتیں بیاہ کر آئی تھیں ان خاندانوں نے حضور کی مدد بھی کی تھی۔
 حضور کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا۔
حضور کے بیٹے کمسنی میں انتقال کر گئے۔ بیٹیاں بھی کئی تھیں لیکن صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے سلسلہ نسب جاری ہوا۔
درود کی فضیلت:
ایسے پاک نبی اور مہربان نبی پر درود و سلام بھیجنا ہی چاہیئے جنھوں نے لوگوں کو اچھا راستہ بتانے کے لئے ہر طرح کی تکلیف اٹھائی۔ الله تعالی فرماتا ہے اللّٰہ اور فرشتے حضور پر درود بھیجتے ہیں۔اے مسلمانو!تم بھی حضور پر درود بھیجو۔جو حضور پر درود نہیں بھیجتے،ان کو حضور نے بخیل کہا ہے۔درود پڑھ کر دعا کرنے سے دعا قبول ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالی درود پڑھنے سے مشکلوں کو دور کرتا اور پڑھنے والوں کے درجوں کو بلند کرتا ہے۔

Wednesday, 28 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-10

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

(دسویں محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
معجزات:
حضور صلی الله علیہ وسلم ایسا کام بھی کر جاتے تھے جو دوسرے نہیں کر پاتے تھے اور جو آدمی کے بس سے باہر ہے، اسی کو معجزہ کہتے ہیں ۔ حضور یہ سب اللہ کی مدد سے کرتے تھے، اور جب اللہ کی مرضی ہوتی تھی تب ہی کر پاتے تھے۔
    ایسا کام ایک تو اللہ کی کتاب قرآن ہے جو آپ پر اتاری گئی اور جس سے اچھی کوئی کتاب نہیں۔ دوسرے آپ کا عمل ہے جو ہر طرح کی برائیوں سے پاک ہے۔
تیسرے معراج ہے، یعنی آپ کا ایک رات میں آسمان کی سیر کرنا، اللہ کے دربار میں حاضر ہونا، نبیوں سے ملاقات کرنا وغیره۔ چوتھے آپؐ کا انگلیوں کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دینا اور اسی طرح کے اور بھی بہت سے کام ہیں جو ہم نہیں کر سکتے اور سمجھتے ہیں کہ کوئی آدمی نہیں کرسکتا، لیکن اللّٰہ نے اپنی قدرت سے یہ نشانیاں حضورؐ کو دیں تاکہ آپ کی سچائی ثابت ہو اور اسلام کا بول بالا ہو۔
معراج:
نبوت کے دسویں سال ۲۷ رجب کو خدا نے آپ ؐ کو ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی۔ پہلے آپؐ بیت المقدس تشریف لے گئے۔ پھر مختلف آسمانوں پر ہوتے اور مختلف نبیوں سے ملاقات کرتے ہوئے خدا کے حضور میں پہنچے۔اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بات چیت کی عزت بخشی۔ واپسی میں پانچ وقت کی نماز کا تحفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لائے۔اس سے پہلے صرف دو وقت یعنی فجر اور عصر کی نمازیں مسلمانوں پر فرض کی گئیں تھیں۔
اسی واقعہ کانام معراج ہے۔ مسلمان اس واقعہ کی یعنی ۲۷ رجب کی رات کو بہت مبارک رات سمجھتے ہیں۔
(جاری)

Tuesday, 27 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-9

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

(نویں محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
تبلیغ اسلام:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کام دین اسلام کا پھیلانا تھا، اسی لئے اللّٰہ نے حضور کو بھیجا تھا۔ جضور تن من دھن سے اس کام میں لگے رہتے تھے اور حضور کے ساتھی بھی۔ سب اس کام میں بہت دکھ اٹھاتے۔ جو اسلام کو نہیں مانتے وہ طرح طرح کی اذیت پہنچاتے،گالیاں دیتے،غصہ ہوتے،مارتے، بائیکاٹ کرتے، جان کے درپے ہوتے اور طرح طرح سے حضور کو گزند پہنچانے اور ذلیل کرنے پر لگے رہتے۔ ایک دفعہ حضور کا اور حضورؐ کے ساتھیوں کا سبھوں کا بائیکاٹ کر دیا توحضورؐ کے چچا سبھوں کو لے کر ایک گھاٹی میں چلے گئے جس کا نام شعب ابوطالب ہے۔ وہاں حضور اور حضور کے ساتھی درختوں کے پتے چباکر رہتے۔ بائیکاٹ کے علاوہ حضورؐ نماز پڑھتے تو حضور پر اوجھڑی لاکر ڈال دی جاتی،حضورکے گلے میں پھندا لگا کر کھینچا جاتا،حضورؐ راہ چلتے تو کانٹے ڈال دیئے جاتے،حضورؐ کے پاک بدن پر کوڑا پھینکا جاتا، حضورؐ کو جھٹلایا جاتا اور پاگل اور جادوگر کہا جاتا(نعوذ باللہ) ، حضور کے ساتھیوں کو ریتیلی گرم گرم زمین پر ننگے بدن لٹاکر اوپر سے  گرم پتھر رکھ دیا جاتا،چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں دیا جاتا۔ اور بھی بہت بہت تکلیف دی جاتی۔ کتنے تو اللّٰہ کے یہاں سدھارے،جو بچے وہ اپنی بات پر جمے رہے۔حضورؐ نے بھی دکھوں کی پرواہ نہیں کی اور اپنا کام کرتے رہے اور تشدد کا عدم تشدد سے جواب دیا۔ یہاں تک کہ کافروں نے طے کر لیا کہ حضورؐ کو قتل کردیا جائے، لیکن اللّٰہ نے حضورؐ کو بچا لیا حضورؐ مدینہ چلے گئے۔ کافروں نے وہاں بھی بار بار حملہ کیا۔ اب حضورؐ نے اور مسلمانوں نے تلوار  اٹھائی اور سب کا مقابلہ کیا۔ اللّٰہ نے آپ کو کامیاب کیا۔ تبلیغ اسلام میں دشمن رکاوٹ نہ ڈال سکے، اور اپنے ارادے میں ناکام رہے۔ عرب میں اسلام پھیل چکا تو اللّٰہ نے حضور کو بلا لیا۔حضور کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ دین اسلام پھیلانے کا کام اب حضور کی امت مسلمانوں پر ہے۔ مسلمانوں کا درجہ اللّٰہ نے  دوسروں سے اسی لئے اونچا کیا ہے کہ ان کو دین اسلام پھیلانا ہے یعنی لوگوں کو کہنا ہے کہ اچھا کام کرو اور برا کام مت کرو۔
(جاری)

Monday, 26 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-8

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

(آٹھویں محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا بتایا(۲)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ زنا،چوری،جوا،شراب نوشی، کم تولنا، بے انصافی کرنا، جھوٹ بولنا، وعدہ پورا نہ کرنا،چغلی کھانا،بہتان باندھنا،جن چیزوں کو اللہ نے حرام کیا ہے ان کو کھانا،بے قصور کسی کو قتل کرنا،جھگڑے اور فساد پھیلانا گناہ کے کام ہیں، ان سے بچنا چاہیئے۔ 
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ مسلمان کو دل سے یقین رکھنا چاہیئے کہ اللہ ایک ہے اور محمد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور زبان سے اس کا اعلان کرنا چاہیئے۔
 حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ مسلمان کو پانچ وقت کی نماز پڑھنی چاہیئے۔  اللہ نے سب سے زیادہ تاکید نماز کی کی ہے اور کوئی مجبوری نہ ہو تو جماعت سے نماز پڑھنی چاہیئے۔ عورتوں کے لئے جماعت ضروری نہیں ہے۔عورتیں اگر گھروں میں نماز پڑھیں تو زیادہ اچھا ہے۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ جو مسلمان عاقل بالغ ہیں ان کو رمضان میں ایک مہینہ کا روزہ رکھنا چاہئے۔ رمضان کا  ۲۹ کا چاند دیکھے تو امیر کے پاس یا قاضی کے پاس یا امام کے پاس جاکر گواہی دے کہ اس نے چاند دیکھا اور امیر یا قاضی یا امام کی تشفی ہو جائے اور وہ اعلان کر دے تو سب مسلمانوں کو روزہ رکھنا چاہیئے۔
حضوؐر نے بتایا کہ جس کے پاس سال بھر میں ضروری حاجتوں سے چالیس روپے زائد ہوں تو وه ایک روپیہ زکٰوة ادا کرے اور اسی طرح ہر چالیس روپے پر ایک روپیہ زکٰوۃ ادا  کیا کرے جہاں جماعتی زندگی قائم ہو چکی ہو وہاں امیر کے یہاں زکٰوة کی رقم جمع  کرنی واجب ہے۔ عام لوگ زکٰوة کا مصرف جانتے بھی نہیں ہیں اور بڑی غلطیاں کرتے ہیں، اس لیے بھی اچھا ہے کہ امیر کو زکٰوة کی رقم صحیح  مدمیں خرچ کرنے کے لئے دے دی جائے۔ ا للہ نے نماز  کے بعد سب سے زیاده تاکید زکٰوۃ ہی کی کی ہے۔
حضورؐ نے بتایا کہ زندگی میں ایک دفعہ ہر مسلمان جو مکّہ پہنچ سکے ضرور حج کرے۔    
یہ پانچ ارکان اسلام کہلاتے ہیں اور  ہر مسلمان کے لئے بہت ضروری ہیں۔
حضوؐر نے بتایا کہ اللہ کی ایک مخلوق فرشتے ہیں جو گناہ نہیں کرتے۔ انہیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اللہ نے  ان کے ذمّے جو کام لگا دیئے ہیں وہی کرتے رہتے ہیں۔ ان ہی فرشتوں میں ایک حضرت جبرئیل ہیں جوحضوؐر کے پاس اور حضوؐر سے پہلے دوسرے نبیوں کے پاس اللہ کا حکم لاتے تھے، جس کو وحی کہتے ہیں۔
حضوؐر نے جن جن باتوں کی خبر دی ہے ان کو سچ ماننا ، اللہ کی اور حضوؐر  کی نافرمانی نہ کرنا  ہر مسلمان کے لئے ضروری ہیں۔
حضورؐ نے بتایا ہے کہ شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، وہ انسان کو بری باتوں کے کرنےکا شوق دلاتا ہے اور نیک کاموں سے روکتا ہے۔ برائی کا شوق دلانے والے اور دلوں میں وسوسہ ڈالنے والے جنوں میں سے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔
جِن بھی اللہ کی ایک مخلوق ہیں جن کو انسان نہیں دیکھ سکتے۔ جنوں میں سے ایک شیطان ہے جس کو ابلیس کہتے ہیں۔ 
حضورؐ کی بتائی ہوئی سب باتوں کے ٹھیک ماننے کو ایمان کہتے ہیں اور حضورؐ کے بتائے ہوئے پرچلنے کو عمل صالح کہتے ہیں۔ ایمان اور عمل صالح انسان کی نجات کے لئے ضروری ہیں۔
حضورؐ نے بتایا کہ مسلمانوں کو پاک صاف اور طاہر رہنا چاہیے۔ طاہر نہ رہنے پر بہت نقصان ہے۔ پاک اور طاہر رہنے کا طریقہ حضورؐ نے بتادیا ہے، جو مسائل کی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔ 
حضورؐ نے سَتر کو یعنی بدن کے خاص حصّوں کو چھپانا ضروری بتایا ہے مردوں کو کمر سے گھٹنے تک چھپانا اور عورتوں کو کلائی سے انگلیوں تک چھوڑ کر اور  چہرہ چھوڑ کر سارا بدن چھپانا ضروری ہے۔ 
مسلمانوں کو چاہیئے کہ رسولؐ کی زندگی کو  نمونہ  بنائیں۔ 
حضورؐ کہتے کہ نیک کام کرنے میں جان بھی چلی جائے تو نہ گھبراؤ۔جان جانے سے شہادت کا درجہ ملتا ہے اور یہ بہت بڑا درجہ ہے۔ تن من دھن سے نیک کام میں مصروف ہونا اور ہر طرح کی اذیّت  سہہ لینا جہاد ہے اور اس کا بہت ثواب ہے۔
(جاری)

Sunday, 25 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-7

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

(ساتویں محفل)



وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
رائے مشوره:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر بات میں لوگوں سے مشورہ کرتے تھے اور زیادہ لوگ جو رائے دیتے تھے یا جس کی رائے سب سے اچھی معلوم ہوتی تھی اس کو مانتے تھے اور اسی پر عمل کرتے تھے۔ ہٹ اور ضد سے کام نہیں لیتے تھے۔
بدر کی لڑائی سے پہلے آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا اور سب کی رائے سے بدر پہنچے جہاں اپنی رائے سے حضورؐ نے قیام کیا تھا،حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو وہ جگہ پسند نہ تھی۔ حضورؐ سے پوچھا کہ یہ اللّٰہ کا حکم ہے یا آپ کی رائے ہے؟ حضورؐ نے جواب دیا میری رائے ہے۔حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ فلاں جگہ زیادہ بہتر ہے۔ حضورؐ نے ان کی رائے کو مان لیا اور اسی جگہ جا کر پڑاؤ کیا۔
لڑائی میں کافر گرفتار ہو کر آئے تو آپ نے سب سے مشورہ کیا اور حضرت ابوبکر کی جو رائے ہوئی وہی سبھوں نے پسند کی۔
خندق کی لڑائی میں آپ نے مشورہ لیا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے کو سبھوں نے مان لیا اور ان ہی کی رائے پر عمل کیا گیا۔
غرض کہ آپ ہر بات میں مسلمانوں سے مشورہ کرتے اور مشورہ کر کر کے کام کرتے۔ آپ قرآن کی اس آیت کا برابر خیال رکھتے تھے۔ وامرھم شعرا بینھم ”وہ سب اپنے کاموں میں آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا بتایا
حضورؐ نے ہم کو بتایا کہ اللہ ایک ہے۔ سب سے بڑا ہے۔ اس میں ہر طرح کی خوبیاں ہیں۔نہ اس کے ماں باپ ہیں،نہ بیٹا بیٹی، نہ بیوی۔اس جیسا کوئی نہیں۔ وہ سب کا مالک اور پیدا کرنے والا ہے۔ وہی جس کو چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے مارتا ہے۔ جب تک اس حکم نہ ہو، ایک پتی بھی ہل نہیں سکتی۔ اچھائی اور برائی سب اسی کی طرف سے ہے۔ ہم کو اسی سے ڈرنا چاہیئے، اسی سے محبت کرنی چاہئیے،اسی کا حکم ماننا چاہیئے۔ اللہ کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ ایک دن آئے گا جب یہ دنیا ختم ہو جائے گی۔ سب لوگ اپنے کئے کا حساب دینے کو اللّٰہ کے روبرو حاضر ہوں گے، اس دن کو قیامت کا دن یا فیصلہ کا دن کہتے ہیں۔ اس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا اور نہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اللہ سے کسی کی سفارش کر سکے گا۔ جو دنیا میں اچھے کام کرتے رہے ہیں اور اسلام پر مرے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا اور جنت میں داخل ہونے والے بڑے آرام سے رہیں گے اور جنھوں نے برا کام کیا اور شرک و کفر کرتے رہے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں داخل کریں گے اور دوزخ میں داخل ہونے والے بہت تکلیف میں رہیں گے۔
حضورؐ نے بتایا کہ اللہ تعالی نے ہمیشہ اچھی بات بتانے کے لیے نبی اور رسول بھیجے ہیں اور دنیا میں جتنے نبی اور رسول آئے سب کی عزت کرنی چاہیئے اور سب کو سچا ماننا اور جاننا چاہئے۔ جو یہ کہے کہ فلاں رسول کو مانیں گے اور فلاں رسول کو نہ مانیں گے وہ مسلمان نہیں ہے،اور اللّٰہ نے جو کتابیں بھیجیں ان سب کتابوں کو بھی سچ ماننا چاہئیے اور ان کی عزت کرنی چاہیئے۔ اللہ نے ہر جگہ اور ہر زمانے میں نبی اور رسول بھیجے ہیں،جن نبیوں کا ذکر قرآن میں ہے ان کو نام لے کر ہم رسول اور نبی کہتے ہیں۔ جن نبیوں کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، ان کو بھی ہم سچا مانتے ہیں لیکن ہم کسی کا نام لے کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نبی تھے اور یہ نہ تھے۔ جن کے بارے میں اللہ نے کچھ نہیں بتایا ان کے بارے میں ہم یقین سے کیا کہہ سکتے ہیں؟
حضورؐ نے بتایا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ کسی کے آگے سر نہ جھکاؤ۔ ڈرو تو اسی سے ڈرو لو لگاؤ تو اسی سے لو لگاؤ۔ بندگی کے لائق وہی ہے۔ جو اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا کرتے ہیں وہ مشرک ہیں اور اللہ مشرکوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
(جاری)
div dir="rtl" style="text-align: right;"> مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم(نویں محفل)

Saturday, 24 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-6

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

(چھَٹی محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن

علم سے محبت:
حضورؐ کی خدمت میں اصحابِ صفہ رہتے جن کا کام ہی دین کا سیکھنا سکھانا تھا۔حضور دین کی تعلیم دیتے اور ایک صحابی تھے جو لکھنا پڑھنا سکھاتے۔
جو لوگ مدینہ آکر مسلمان ہوتے حضورؐ ان کو روک لیتے اور چند ماہ رکھ کر خود تعلیم دیتے۔
حضورؐ نے بتایا کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پرفرض ہے۔

بات کا پاس و لحاظ:
حضورؐ بات کے بہت پکے تھے۔ نہ کسی سے کوئی جھوٹا وعدہ کیا اور نہ کسی وعدہ کو توڑا۔حدیبیہ میں مکہ والوں سے اور حضورؐ سے صلح ہوگئی تھی۔ ابھی صلح نامہ لکھا بھی نہیں گیا تھا کہ ایک مسلمان موقع پاکر مکہ سے بھاگ آئے۔ مکہ والے کہتے ہیں کہ تصفیہ تو یہ ہے کہ مکہ سے کوئی مسلمان بھاگ کر آئے گا تو اس کو واپس کر دیا جائے گا۔  چنانچہ حضورؐ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسلمان کو واپس کر دیتے ہیں۔
جنگ بدر میں حصہ لینے کے لئے دو مسلمان مکہ سے آتے ہیں۔ راستہ میں کافروں نے پکڑا اور ان کو اس شرط پر چھوڑا کہ وہ لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے حضورؐ کو  معلوم ہوا تو ان مسلمانوں کو اجازت نہیں دی کہ لڑائی میں حصہ لیں۔
مکہ میں ایک شخص کچھ بات کرتے کرتے یہ کہ کر چلا گیا کہ میں ابھی آتا ہوں۔ جانے کے بعد وه بھول گیا کہ اس نے کیا کہا تھا تین دنوں کے بعد اسے یاد آیا اور دوڑا ہوا اس جگہ پہنچا تو دیکھتا ہے کہ حضورؐ وہاں موجود ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میں یہاں تین دنوں سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔

اراده:
حضورؐ جیسے بات کے پکے تھے ویسے ہی ارادہ کے بھی پکے تھے۔جس کام کو شروع کرتے اس کو چھوڑ تے نہ تھے۔ کوئی اذیت پہنچتی تو گھبراتے نہ تھے،بڑی بہادری سے سہہ لیتے۔ اسلام کی بات اللہ کے حکم سے پہنچانا اور پھیلانا شروع کیا تو ساری دنیاخلاف ہوگئی۔ ساری دنیا  لڑنے مرنے کو تیار ہوگئی۔ کیسا کیسا دکھ اٹھایا،کیسی کیسی مصیبتیں سہیں،کس طرح گھر بار چھوڑا،کس طرح فاقوں میں بسرکیا، دوست احباب،عزیز رشتہ دار سب کو کس طرح سب کو ستایا گیا، اس کی بڑی درد بھری کہانی ہے،لیکن جو قدم حضورؐ نے آگے بڑھایا تھا وہ پیچھے نہ ہٹا۔ حضورؐ تعلیم دیتے تھے کہ ایمان،عمل سالح،سچائی کی حمایت اور تبلیغ اور  یہ تبلیغ کہ سچائی کی حمایت میں دکھ سہتے رہنا لیکن سچائی کو چھوڑنا،یہی باتیں ہیں جو انسان کو کامیاب کرتی ہیں اور گھاٹے اور خسارے سے بچاتی ہیں۔ مکہ میں حضورؐ کے ساتھی دکھ اٹھاتے اٹھاتے گھبرا گئے تو حضورؐ سے درخواست کرنے لگے،کہ الله تعالی سے دعا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا :۔
تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا تھا اور وہ یہ سب اللہ کے دین کے لیے برداشت کرتے تھے۔
ابوطالب کو جو حضورؐ کے چچا تھے کافروں نے دھمکیاں دیں تو انھوں نے فرمایا کہ بھتیجے!مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میں اٹھا نہ سکوں۔ حضورؐ نے جواب دیا۔
  اگر لوگ میرے دائیں ہاتھ پر ....... سورج اور بائیں ہاتھ پر ........ چاند بھی رکھ دیں اور مجھ سے چاہیں کہ میں اللہ کا کام نہ کروں تو بھی میں اللّٰہ کا کام نہیں چھوڑوں گا۔ جنگ احد میں آپؐ نے صحابہ سے مشورہ کیا اور مشورہ کے مطابق زرہ پہن کر، ہتھیار لگا کر گھر سے باہر نکلے۔ صحابہ نے عرض کیا حضورؐ اس کو ناپسند فرماتے ہیں کہ مدینہ چھوڑ کر نکلا جائے تو مدینہ ہی میں ٹھہرنا مناسب ہے۔ باہر نکلنے کا ارادہ ترک فرما دیجئے۔ حضورؐ جواب دیتے ہیں:۔
”نبی کے لئے مناسب نہیں کہ زرہ پہن کر بے لڑے اتار دے“
(جاری)
/div>

Friday, 23 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-5

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

(پانچویں محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
رہبانیت سے نفرت:
اللہ نے آدمی کو زمین پر اپنا خلیفہ یعنی نائب اور جانشین بنایا ہے۔ اسے دنیا کا انتظام کرنا ہے۔ آسمان اور زمین کے درمیان جتنی چیزیں ہیں سب اس کے تابع ہیں- یہ چرند، یہ پرند، یہ پیڑ، یہ دریا،یہ پہاڑ سب سے آدمی کام لیتا ہے اور سب کا انتظام کرتا ہے، اس لئے اگر کوئی آدمی دنیا سے بھاگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی اور اپنے فرض سے بھاگتا ہے۔ اسلام کے سوا دوسرے مذہبوں میں جو لوگ دنیا کا بوجھ نہیں اٹھاتے ہیں، جنگلوں میں مارے مارے پھرتے ہیں، اپنی جان کو اذیت دیتے ہیں،  لوگوں سے مانگ کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں اور رہبانیت اختیار کرلیتے ہیں وہ اپنے مذہب میں اچھے سمجھے جاتے ہیں، اسلام نے ان کو اچھا نہیں بتایا۔ اسلام نے لوگوں کو ان کی ڈیوٹی بتائی اور الله تعالیٰ کی نعمتوں کی کھوج لگا نے کو کہا، دنیا سے بھاگنا برا بتایا۔ حکم ہوا کہ اپنی جان کا،بیوی بچوں کا،بزرگوں اور عزیزوں کا،گاوؤں والوں کا اور نوع انسان کا اور ساری کائنات کا حق ہے۔ اچھا آدمی وہ ہے جو ان سب کا حق ادا کرے اور اس راہ میں جواذیت ہو اس کو بِرداشت کرے۔ دنیا سے بھاگنے کو اور اس کا بوجھ نہ اٹھانے کو رہبانیت کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔  ایسی مشغولی جس سے دنیاوی فرائض ادا نہ ہوں آپؐ نے پسند نہیں فرمایا ہدایت فرمائی کہ اپنی جان کو عذاب نہ دو۔میں کھاتا بھی ہوں، میں نے شادی بھی کی ہے، میں سوتا بھی ہوں؛ پس جو میرے طریقہ پر نہیں وہ میرا نہیں۔
مساوات:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کوئی امتیاز اور بڑائی نہیں چاہی، جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے ۔ پھر حضورؐ اس کو کیسے پسند کرتے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے پر بڑائی جتائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دولت کی بنیاد پر یا خاندان کی بنیاد پر کسی کو کوئی حق زیادہ نہیں ملتا تھا۔ سب کا حق برابر تھا کسی میں کوئی فرق نہ کرتے۔ شادی بیاہ میں بھی آپؐ نے معاش يا ذات کی بناء پر کسی کو ترجیح نہیں دی۔ اپنی پھوپھی زاد بہن کی شادی اپنے گھر کے غلام سے کر دی ۔ فرماتے لوگ حسن ، ذات اور دولت کو شادی بیاہ میں پیش نظر رکھتے ہیں مسلمانوں کو چاہیے کہ دین داری کو پیش نظر رکھیں یعنی جو لڑکا یا لڑکی دین دار ہو ، شادی کے لیے اس کو پسند کریں ۔
مرض الموت کے زمانہ میں حضورؐ نے ایک فوج مرتب کی جس کا سردار ایک غلام کو بنایا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد آپؐ کے خلیفہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس فوج کو شام بھیجا۔ لوگوں نے کہا۔ غلام کے بدلے کسی دوسرے کو سردار بنائیے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس کو سردار بنا چکے ہیں اسے سرداری سے کیونکر ہٹا سکتا ہوں۔
حضورؐ کے یہاں کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے میں کسی کا کوئی فرق نہ تھا ۔ ہاں قرآن نے کہا ہے اِنَّ اَکرمکم عند اللّٰہ اتقکم (  تم میں بزرگ وہی ہے جو متقی اور پرہیزگار ہے)۔ یعنی جو لوگ دین کے لئے دکھ اور اذیت سہتے رہے اور ہر لمحہ جہاد کے لئے آمادہ اور تیار رہے اور اسلام قبول کرنے میں اور اسلام کا جھنڈا اونچا کرنے میں جنھوں نے پہل کیا اور جو آگے آگے رہے ان کا درجہ بڑا ہے لیکن یہ وہ بڑائی ہے جو ہر ذات اور برادری کا آدمی ہمت کر کے حاصل کرسکتا تھا اور جو لوگ ان اچھی اچھی باتوں میں بڑے تھے، ہمارے حضورؐ نے ان کی کوئی ایسی الگ اور ممتاز برادری قائم نہیں کی جن کے لڑکوں اور لڑکیوں  کا عقدان کے آپس ہی میں محدود ہو اور جن کو جماعت میں کوئی معاشی تفوّق دیا گیا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،کہ عربی کو عجمی پر،کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت اور بڑائی نہیں ہے مگر تقویٰ  کی وجہ سے۔
بلا معاوضہ کام لینا یا چیز لینا:
حضورؐ فرماتے جب کسی سے کوئی کام یا چیز لو تو اس کو اس کا بدلہ دو اور اگر بدلہ نہ دے سکو تو کم از کم دعاء ہی کردو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی سےکوئی چیز مفت لینا پسند نہیں فرماتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپؐ کے جاں نثار دوست تھے لیکن ہجرت کے موقع پر حضورؐ کو اونٹ بغیر قیمت کے اور مفت دینا چاہا تو حضورؐ نے قبول نہیں کیا اور اس کی پوری قیمت دی۔

Thursday, 22 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-4

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

(چوتھی محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن

سادگی: 
آپؐ بہت سادہ رہتے، موٹا کھاتے ، موٹا پہنتے اور چھوٹی سی جگہ میں رہتے۔ در و دیوار پر کپڑے ٹانگنے کومنع فرماتے۔ فرماتے ایک بچھونا اپنے لئے ، ایک بیوی کے لئے اور ایک مہمان کے لئے؛ چوتھا شیطان کا حصہ ہے۔
بناوٹی اور سناوے کی باتوں کو ناپسند فرماتے اور دکھاوے کے کام کو بھی برا جانتے۔ اپنی تعریف پسند نہ فرماتے تھے۔ کہتے اللہ نے جو مرتبہ مجھ کو دیا ہے ، میں نہیں چاہتا کہ تم مجھ کو اس سے بڑھاؤ ۔
آپؐ اپنا کام آپ کرتے۔ پھٹے کپڑوں کوسینا ، پیوند لگانا، گھرمیں جھاڑو دینا، صفائی کرنا، دودھ دوہنا ، بازار سے سودا لانا ، جوتا گانٹھ لینا، یہ سب کام اپنے ہاتھوں سے کرتے کبھی کبھی آٹا بھی گوندھ لیتے۔ مسجد نبوی اور مسجد قبا کی تعمیرمیں آپؐ بھی مزدوروں کی طرح کام کرتے۔آپؐ نے سرِراہ بیٹھ کراپنی چپل کا تسمہ جوڑا ہے۔ ایک صحابی نے اس کام کو کرنا چاہا تو راضی نہ ہوئے، اور فرمایا یہ خود پسندی ہے۔
بہت سے لوگ اپنا کام آپ کرنا برا سمجھتے ہیں، حالانکہ اپنا کام آپ کرنا اچھا ہے اور دوسروں کا کام کردینا اس سے بھی اچھا ہے۔

بیمارپُرسی:
مریضوں کو دیکھنے جانا اور حال چال پوچھنا، بیمار پُرسی اور عیادت ہے۔ جب کوئی بیمار پڑتا توآپؐ دیکھنے جاتے، اس کا حال پوچھتے اور اس کی خدمت کرتے۔

معاف کردینا:
بدلہ لینا تو دور کی بات ہے، کوئی قصور کرتا تو آپؐ اس سے پوچھتے بھی نہیں۔ مکہ فتح ہوا۔ دشمن قابو میں ہوئے تو سب تکلیف بھول گئے اور سب کو معاف کر دیا۔ ایک بدو نے مسجد میں پیشاب کرنا شروع کیا، لوگ مارنے کو  دوڑے۔ آپؐ نے منع فرمایا اور کہا کہ لوگو! پیشاب کو دهو دو سختی نہ کرو۔ اللہ نے تم کو سختی کے لئے نہیں بنایا ہے، نرمی کے لئے بنایا ہے۔ حضورؐ نے اس کے بعد بدو کو بھی سمجھایا کہ مسجد میں پیشاب پاخانہ نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ آپؐ کا کام کرتے تھے۔ وہ چھوٹے سے تھے۔ ایک دن آپؐ نے کام کو کہا لیکن حضرت انس رضی اللہ عنہ کھیل میں مشغول ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ بولے اور وہ کام خود کرلیا۔
ایک روز آپؐ مسجد سے نکل رہے تھے۔ ایک بدونے آپؐ کے گلے میں چادر ڈال کر آپؐ کو اس زور سے کھینچا کہ آپ کی گردن لال ہوگئی۔ اس کے بعد کہا کہ تیرے پاس جو کچھ ہے نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا، میرے دو اونٹ غلوں سے لادو۔آپ خفا کیا ہوتے کہ الٹے دو اونٹ کھجوروں سے لدوادیئے۔
ایک دشمن نے زہر میں بجھا ئی تلوار لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا چھپ کر مدینہ آیا لوگ اُسے پکڑ کر آپ کے پاس لائے۔ آپ نے اسے اپنے پاس بٹھایا، جو اس کا ارادہ تھا وہ بھی بتادیا اور کچھ نہ کہا۔

غریبوں سے محبت:
آپؐ غریبوں سے محبت کرتے اور غریبوں سے محبت کر نے کی تعلیم دیتے۔ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا :۔
”کسی غریب کو اپنے دروازہ سے خالی ہاتھ واپس نہ کرو ۔ کچھ نہ کچھ دے دو۔غریبوں سے محبت کرو گی تو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔ “
آپ کمزوروں اور غریبوں کو اٹھانا اور ان کو زمین کا وارث اور حاکم بنانا چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہےکہ پہلے پہل غریبوں نے آپ کے دین کو قبول کیا۔
عیسائی بادشاہ ہرقل نے ملک شام میں حضرت ابوسفیان سے پوچها تھا ( یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کہ رسول کے ماننے والے زیادہ غریب ہیں یا امیر ؟ تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ غریب ہیں۔
ایک دفعہ کچھ لوگ آئے؛ ننگے سر، ننگے پاؤں، کپڑے پھٹے ہوئے؛ حضورؐ بےچین ہو گئے-- مسجد نبوی میں لوگوں کو ان کی امداد کے لئے ابھارا اوران کی مدد کی۔

قناعت:
آپؐ نے لوگوں کی بھلا ئی اور لوگوں کی اصلاح کے لئے جتنی مصیبتیں سہی ہیں اگر اتنی مصیبت اپنے آرام و آسائش کے لئے اٹھاتے تو دنیا کی دولت اکھٹی کر لیتے۔ مگر آپؐ نے کبھی مال و دولت کی لالچ نہیں کی۔ کم سے کم سامان میں اپنی ضرورت پوری کی اور اکثر فاقوں میں گزارا۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے سونے کا زیور پسند نہ فرمایا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دروازہ پر پردہ پڑا پایا تو واپس ہوگئے کہ ایسا کیوں ہے۔

Wednesday, 21 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-3

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

(تیسری محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن


لین دین :
لین دین اور حساب کتاب میں جس کو معاملہ کہتے ہیں، آپ بہت کھرے اور صاف تھے اور اسی وجہ سے رسول بننے کے پہلے ہی آپ کو لوگ  ”امین“ کہتے تھے۔
ایک شخص  سے آپ نے ایک سواری کا اونٹ قرض لیا اور جب واپس کیاتواس سےبہتر اونٹ دیا اورفرمایا:
” اچھے وہ لوگ ہیں جو قرض کو عمدہ طریقہ پر ادا کرتے ہیں۔“ 
ایک شخص سے  ایک پیالہ لیا تھا وہ گم ہوگیا تو دوسرا پیالہ منگواکر اس کے گھر بھیج دیا۔
ایک بار ایک دیہاتی( بدّو) گوشت بیچ رہا تھا، آپ نےکھجوروں کے بدلے میں اس سے گوشت لینا طے کرلیا۔ جب گھر آئے تو معلوم ہواکہ کھجوریں بالکل نہیں ہیں۔بدّو برابھلا کہنے لگا۔ لوگوں نے اس کو روکنا چاہا تو حضور ؐنے منع فرمایا اور کہا اس کو بولنے کا حق ہے۔ پھر دوسری جگہ سے کھجوریں منگوا کر اس کو دیں۔

ملنا جُلنا:
سلام کرنے میں آپ ہمیشہ پہل فرماتے۔ کثرت سے سلام کرتے۔ سلام کے بعد مصافحہ کرتے اور دور سے آنے والوں سے گلے ملتے ۔کسی کے یہاں جاتے تو پہلے سلام کرتے تب اندر داخل ہونے کی اجازت مانگتے۔آپ سب کے برابر بیٹھتے۔ ممتاز اور نمایاں جگہ اپنے لئے خاص نہ کرتے۔ آپ کے لئے کوئی تعظیم کے طور پر کھڑا ہوتا تو منع فرماتے۔

انصاف:
کسی مقدمہ کے فیصل کرنے میں یا کسی جرم کی سزا دینے میں آپ کسی کی رو رعایت نہ فرماتے۔ اس میں دوست دشمن، امیر غریب کسی کا خیال نہ تھا۔
ایک دفعہ ایک عورت نے چوری کی۔ وہ قریش خاندان کی تھی۔ لوگ چاہتے تھے، کہ یہ معاملہ دب جائے اور اس عورت کو سزانہ ہو ورنہ قریش کی ناک کٹ جائے گی۔ عالی خاندان جو ہوئے۔چنانچہ  حضورؐکے پاس سفارشیں آئیں۔ آپ غصّہ ہوئے اور بولے:۔
 ”بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہو ئے کہ وہ غریبوں کو تو سزادیتے تھے اور امیروں کو چھوڑ دیتے۔ اگر میری بیٹی فاطمہ  یہی حرکت کرتی تواس کو بھی یہی سزادی جاتی۔“

سخاوت : 
غریبوں اور حاجت مندوں کی تکلیف دیکھ کر آپ بے قرار ہو جاتے تھے۔ سائل کوجھڑکتےنہیں اور کچھ دے کر واپس کرتے ۔ زیادہ سے زیادہ دیتے۔دینے کی کو ئی حد نہیں تھی۔
ایک مرتبہ آپ کی بکریوں کا گلّہ  چَر رہا تھا۔ ایک شخص نے دیکھ کر سوال کیا۔ آپ نے ساری بکریاں دے دیں۔ وہ خوش خوش واپس ہوا۔
ایک بار بحرین سےخراج میں  اتنا مال آیا کہ مدینہ میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ آپ نے سب مسجد میں رکھوادیا اور بعد نماز تقسیم کر دیا اور دامن جھاڑ کر اٹھ گئے۔

ایثار :
آپ اپنانقصان کرکے دوسروں کی مدد کرتے تھے اور مدد کرتے وقت آپ کو اپنی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی اسی کو ایثار کہتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گھر کے کام کاج کے لئے ایک خدمت کرنے والی کی ضرورت حضورؐ کے سامنے بیان کی ۔ معاملہ اپنی لڑکی کا تھا لیکن آپ نے فرمایا--- ابھی میں اصحابِ صُفّہ کی ضروت کا سامان کر رہا ہوں، جب تک یہ کام نہ ہوجائے میں کسی اور طرف دھیان نہیں دے سکتا۔
ایک شخص نے اپنے سات باغ آپ کو دیئے۔ آپ نے سب باغوں کو وقف کر دیا۔ جو کچھ پیدا ہوتا فقیروں اور مسکینوں کو دے دیا جاتا۔
ایک دفعہ آپ کے یہاں ایک مہمان آئے۔ آپ کے پاس بکری کے دودھ کے سوا کچھ نہ تھا۔ آپ نے مہمان کو وہ دودھ پلا دیا اور خود بھوکے رہے۔

مہمان نوازی :
آپؐ کے پاس جوبھی آجاتا آپ بغیر کھلائے اس کو واپس نہ کرتے۔ مہمانوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ خود خدمت کے لئے کھڑے ہوجاتے اور اس میں دوست دشمن کا کوئی فرق نہ کرتے۔
(جاری)

خوش خبری