آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 7 June 2020

Hindu Musalman By Tilok Chand Mehroom NCERT Class IX Chapter 1

ہندو مسلمان
تلوک چند محروم

ہندو مسلمان، ہیں بھائی بھائی
تفریق کیسی، کیسی لڑائی 
ہندو ہو کوئی یا ہو مسلماں
 عزت کے قابل ہے بس وہ انساں 
نیکی ہو جس کا کار نمایاں 
اوروں کی مشکل ہو جس سے آساں
ہر اک سے نیکی ، سب سے بھلائی
ہندو مسلمان سب بھائی بھائی 
دونوں کا مسکن ہندوستاں ہے
 دوو بلبلیں ہیں اک گلستاں ہے
 اک سر زمیں ہے اک آستاں ہے
 دونوں کا یک جا سود و زیاں ہے
نا اتفاقی آزار جاں ہے
مل جل کے رہنا ہے کامرانی
 ہندو مسلمان، قومیں پرانی

تلوک چند محروم
(1887 – 1966)
تلوک چند محروم ، دریائے سندھ کے مغربی کنارے تحصیل عیسیٰ خیل، ضلع میاں والی میں پیدا ہوئے۔ وہیں ابتدائی تعلیم پائی۔ پھر بی۔ اے کی سند حاصل کی۔ 1908 میں مشن ہائی اسکول، ڈیرہ اسماعیل خاں میں استاد کے عہدے پر تقرر ہوا۔ 1944 سے 1947 تک کا رڈن کالج، راولپنڈی میں اردو ، فارسی کے لیکچرر رہے۔ 1948 میں کیمپ کا لج دہلی میں اردو کے لیکچرر بنے۔ شعر و شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ محروم قادر الکلام شاعر تھے۔ انھوں نے کئی شعری اصناف میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کلام رباعیات محروم، گنج معانی کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

مشق
معنی یاد کیجیے:
تفریق : فرق
کارِ نمایاں : وہ کام جس سے سب واقف ہوں،بڑا اور تعاریف کے قابل کام
مسکن : رہنے کی جگہ،گھر
گلستاں : باغ
سرزمیں : زمین،وطن
یک جا : ایک جگہ
سود و زیاں : فائدہ اور نقصان
نا اتفاقی : میل جول نہ ہونا
آزارِ جاں : جان کا دکھ
کامرانی : کامیابی
سوچیے اور بتائیے:
1.عزت کے قابل کون ہیں؟
جواب : شاعر نے عزت کے قابل اُسے بتایا ہے جو نیک ہو اور دوسروں کا بھلا چاہتا ہو۔  اور جس کی وجہ سے اوروں کا کام آسان ہوتا ہو۔
2.نظم میں بلبلیں اور گلستان کے الفاظ کس کے لیے استعمال کیے گئے ہیں؟
جواب: اس نظم میں بلبلیں سے مراد اس ملک میں رہنے والے  ہندو اور مسلماان ہیں اور گلستان سے مراد ہندوستان ہے۔ جس طرح دو بلبلیں ایک باغ کو خوش نما بناتی ہیں  ویسے ہی ہندو اور مسلمان  ہندوستان کی شان بڑھاتے ہیں۔ شاعر نے ہندو اور مسلم کے لیے بلبل کی مثال دی ہے اور گلستاں یعنی ہندوستان کو ان کا مسکن قرار دیا ہے۔ 
3. نااتفاقی کو آزارِ جاں کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: شاعر نے نااتّفاقی کو آزارِ جان اس لیے کہا ہے کہ اس سے انسان کے لیے بہت ساری مشکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر آپس میں اتفاق نہ ہو تو دشمن آپ پر بہت جلد قابو پا لیتا ہے اور آپ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔
4. کامرانی کا راز کیا ہے؟
جواب: آپس میں مل جل کر رہنا ہی کامرانی کا راز ہے۔ شاعر نے اس نظم میں ہندوؤں اور مسلمانوں سے آپس میں مل جل کر رہنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ اسی میں ملک کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔ شاعر نے دونوں ہی قوموں کو بھائی چارے کا سبق سکھایا ہے۔
غور کیجیے:
٭ مل جل کر رہنے میں ہی کامیابی ہے۔لڑائی جھگڑے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ تمام قوموں کو مل جُل کر رہنا چاہیے۔
نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے واحد بنائیے:
اَوروں : اَور
بلبلیں : بلبل
قومیں : قوم
نیکیاں : نیکی

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے:
اتفاق : نااتفاقی، نفاق 
آسان : مشکل
آسماں : زمیں
کامرانی :ناکامی
عزت : ذلت

عملی کام
* اس نظم کو زبانی یاد کیجیے۔

Saturday 6 June 2020

Nawa e Urdu Class 10 Content

(اس صفحہ پر کام جاری ہے)
ترتیب
(جن اسباق پر لال نشان لگا ہے وہ اس سال جامعہ ملیہ اسلامیہ کےسلیبس سےباہر ہے۔)
افسانہ
بھولا  راجندر سنگھ بیدی
نیا قانون  سعادت حسن منٹو
بھیک حیات اللہ انصاری

سوانح
 سرسید کا بچپن  الطاف حسین حالی
 ڈراما
 آزمائش  محمد مجیب
 آپ بیتی
 چوری اور اس کا کفّارہ  سید عابد حسین
مضمون
عورتوں کے حقوق  سر سید احمد خاں
مخلوط زبان  مولوی عبد الحق
چکبست لکھنوی آلِ احمد سرور
اشتہارات’ضروری نہیں ہے‘ کے  ابن انشا
ماحول بچائیے محمد اسلم پرویز

حصّہ نظم
 غزل
بہار بے سپر جام و یار گزرے ہے  سودا
لائی حیات آئے قضا لے چلی، چلے  ذوق
 ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ،ملنے کو نہیں نایاب ہیں ہم  شاد عظیم آبادی
 دنیا میری بلا جانے،مہنگی ہے یا سستی ہے  فانی
آلامِ روزگار کو آساں بنا دیااصغر گونڈوی
 ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا  یاس یگانہ چنگیزی
 نظم
 جلوۂ دربارِ دہلی  اکبر الہ آبادی
 حقیقتِ حسن  اقبال
 گرمی اور دیہاتی بازار  جوش
او دیس سے آنے والے بتا  اختر شیرانی
آندھی کیفی اعظمی

رباعی
 گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں انیس
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہےانیس
فطرت کی دی ہوئی مسرت کھو کر تلوک چند محروم
مذہب کی زباں پر ہے نکوئی کا پیام تلوک چند محروم
اک حلقۂ زنجیر تو زنجیر نہیں فراق
ہر عیب سے مانا کہ جدا ہوجائے فراق

Jaan Pehchan Class 9 Urdu

via GIPHY

ترتیب
ہندو مسلمان تلوک چند محروم
بہادر شاہ کا ہاتھی میر باقر علی دہلوی
نادان دوست منشی پریم چند
اوس خواجہ حسن نظامی
ایک دیہاتی لڑکی کا گیت اختر شیرانی
چڑیا گھر کی سیر ادارہ
بہادر بنو(نظم) سورج نرائن مہر
احسان کا بدلہ احسان ڈاکٹر ذاکر حسین
جنگل کی زندگی ادارہ
بانسری والا( ڈرامہ،جرمن کہانی) ترجمہ
ایک پودا اور گھاساسمٰعیل میرٹھی
ریڈ کراس سوسائٹی ماخوذ
سند باد جہازی کا ایک سفرترجمہ
کہاوتوں کی کہانیفرقت کاکوروی
چھٹی کا دن(نظم) حامد حسن قادری
تنکا تھوڑی ہواسے اڑ جاتا ہے محمد مجیب
دوہے کبیر
مصنوعی سیاّرہ ادارہ
بہار کے دنافسر میرٹھی
گاؤں پنچایت ماخوذ
ملا نصر الدین احمد جمال پاشا
وقتڈپٹی نذیر احمد

Bahadur Shah Ka Hathi By Mir Baqar Ali Dehlavi NCERT Class IX Chapter 2

(اس صفحہ پر کام ابھی جاری ہے)
بہادر شاہ کا ہاتھی
سوچیے اور بتائیے
1. بہادر شاہ نے لاہوری دروازہ کیوں توڑ وایا؟
جواب: بہادر شاہ کے پاس ایک بہت  بڑا ہاتھی تھا جس کا نام مولا بخش تھا۔ یہ ہاتھی اتنا اونچا تھا کہ جب اس پر عماری کسی جاتی تھی تو وہ دلّی کے کسی بھی دروازہ سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ وہ چاروں گھٹنے ٹیک کے شہر سے باہر جاتا تھا اور اسی طرح اندر داخل ہوتا تھا۔ اس لیے بہادر شاہ بادشاہ نے اسی کہ واسطے لاہوری دروازہ توڑوا کر اسے اونچا کروادیا تھاتاکہ وہ آسانی سے باہر نکل سکے۔۔

2. مولا بخش کے پاس بچّے کیوں آتے تھے؟
جواب: جب مولا بخش نے سید صاحب کو مستی میں پاؤں کے نیچے کچل دیا تو ان کی بیوہ اپنے بچے کے ساتھ آئی اور بچے کو اُسکے سامنے رکھ دیا تب تک مولا بخش کی مستی ختم ہو گئی تھی اُس کی  سید صاحب کہ بچےسے دوستی ہو گئی۔ ہاتھی کو بچّے سے کھیلتا دیکھ کر اُس بچے کے ساتھ باقی بچے بھی آنے لگے۔ مولا بخش ان بچّوں کے ساتھ کھیلتا تھا اور وہ جو کہتے تھے کرتا تھا۔

3. ہاتھی کی روٹی کیسی تھی؟
 جواب: ہاتھی کی روٹی بہت موٹی ہوتی تھی اور وہ اتنی سخت ہوتی تھی کہ بہت مشکل  سے ٹوٹتی تھی۔

4. مولا بخش نے کھانا کیوں بند کردیا تھا؟
جواب: جب فيل بان نے بادشاہ سے کہا کہ مولا بخش اپنا سارا کھانا بچوں میں بانٹ دیتا ہے اور ان کی ساری باتیں مانتا ہے اس لیے آپ حکم کیجیے کہ کوئی بچّہ اُس کے پاس نہ آئے۔ اگلے دن مولا بخش بچوں کا انتظار کرتا رہا جب کوئی بچّہ اُس کے قریب نہیں آیا تو مولا بخش نے کھانا کھانا چھوڑ دیا۔

5.بادشاہ اور مولا بخش میں کونسی باتیں ملتی جلتی تھی؟
جواب: بادشاہ اور مولا بخش میں ایک ہی بات ملتی تھی کہ بادشاہ بھی اپنا کھانا بانٹ کر کھاتا تھا اور مولا بخش بھی اپنا کھانا بچوں میں بانٹ کر کھاتا تھا۔ 

نیچے لکھے محاوروں سے جملے بنائیے
آنکھ سے اوجھل ہونا : تیز رفتار ہاتھی دیکھتے ہی دیکھتے آنکھ سے اوجھل ہوگیا

 ٹس سے مس نہ ہونا  : فضا پختہ ارادے والی لڑکی ہے ایک بار فیصلہ کرلے تو ٹس سے مس نہیں ہوتی ہے۔
 نظریں بچانا: رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر چور سپاہی سے نظریں بچانے لگا

نیچے لکھے لفظوں کے متضاد لکھیے
بلند : پست
غافل (جمع۔ غافلین) : ہوشیار، با خبر
بے قابو : قابو
سربلند : سرنگوں
صبح : شام

Friday 5 June 2020

Sir Syed Ka Bachpan By Altaaf Hussain Hali NCERT Class 10 Chapter 4

(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
سرسید کا بچپن
خواجہ الطاف حسین حالی
سرسیّد کے خاندان کا حال جس قدر ہم نے لکھا ہے شاید ناظرین کتاب اس کو قدرے ضرورت سے زیادہ خیال کریں لیکن بائیوگرافی کا اصل مقصد جو ہیرو کے اخلاق و عادات و خیالات کا دنیا پر روشن کرنا ہے وہ اْس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک یہ نہ کہا جائے کہ ہیرو میں اخلاق و عادات اور خیالات کہاں سے آئے؟ اور اْن کی بنیاد اْس میں کیونکر پڑی؟ انسان میں کچھ خصلتیں جبلّی ہوتی ہیں جو آباواجداد سے بطور میراث کے اْس کو پہنچتی ہیں ۔ اور زیادہ تر وہ اخلاق و عادات ہوتے ہیں جو بچپن میں نامعلوم طور پر وہ اپنے خاندان کی سوسائٹی سے اکتساب کرتا ہے اور جو رفتہ رفتہ اس درجہ تک پہنچ جاتے ہیں جس کی نسبت حدیث میں آیا ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو ٹل جائے لیکن آدمی اپنی جبلّت سے نہیں ٹل سکتا۔ پس ہیرو کے خاندان کا حال جس میں وہ پیدا ہوا اور اْس سوسائٹی کا حال جس میں اس نے نشوونما پائی درحقیقت ہیرو کے اخلاق و عادات پر ایک ایسی روشنی ڈالتا ہے جس کے بعد کسی اور ثبوت کے پیش کرنے کی چنداں ضرورت باقی  نہیں رہتی ۔
         سرسیّد کے پیدا ہونے ے پہلےان کی بہن صفیتہ النسااور ان کے بھائی سیّد محمد خاں پیدا ہو چکے تھے۔ سید محمد خاں کے پیدا ہونے کی اْن کو نہایت خوشی ہوئی۔ سرسیّد سے چند مہینے پہلے اْن کے ماموں نواب زین العابدین خان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جس کا نام حاتم علی خاں تھا۔ سرسیّد کو اوّل حاتم علی خان کی والدہ نے دودھ پلایا اور پھر خود سرسیّد کی والدہ نے۔ وہ اپنے خاندان کے اکثربچوں کی نسبت ز یا دہ قوی  اور توانا اور ہاتھ پاؤں سے تندرست پیدا ہوۓ تھے۔
             سرسیّد کے بیان سےمعلوم ہوتا تھا کہ ان کے بچپن میں جسمانی صحت اور فزیکل قابلیت کے سوا کوئی ایسی خصوصیت جس سے اْن کے بچپن کو معمولی لڑکوں کے بچپن پر بے تکلف فوقیت دی جا سکےنہیں پائی جا تی تھی ۔یعنی جیسے کہ بعضے بچےابتدامیں نہایت ذکی اور طبّاع اور اپنے ہمجولیوں میں سب سے زیادہ تیز اور ہوشیار ہوتے ہیں سرسید میں کوئی اس قسم کا صریح امتیاز نہ تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے قوائے ذہنیہ کومحض دماغی ریاضت اور لگاتار غور وفکر سے بتدریج ترقی دی تھی اور اسی لیے ان کی لائف کا آغاز معمولی آدمیوں کی زندگی سے کچھ زیاد و چمکدار معلوم نہیں ہوت۔لیکن جس قدر آگے بڑھتے جایئے اْسی قدر اس میں زیاد وعظمت پیدا ہوتی جاتی ہے ، یہاں تک کہ  ہیرو کو  معمولی آدمیوں کی سطح سے بالاتر کر دیتی ہے۔ اسی لیے بعض حکما کی یہ رائے ہے کہ محنت سے آدمی جو چاہے سو ہوسکتا ہے۔  
      سرسیّد کو مسماة ماں بی بی نے جو ایک قدیم خیر خواہ خادمہ اْن کے گھرانے کی تھی، پالا تھا۔ اس لیے ان کو ماں بی بی سے نہایت محبت تھی۔ وہ پانچ برس کے تھے جب ماں بی بی کا انتقال ہوا۔ اْن کا بیان ہے کہ "مجھے خوب یاد ہے ماں بی بی مرنے سے چند گھنٹے پہلے فالسے کا شربت مجھ کو پلا رہی تھی۔ جب وہ مرگئی تو مجھے اْس کے مرنے کا نہایت رنج ہوا۔ میری والدہ نے مجھے سمجھایا کہ وہ خدا کے پاس گئی ہے۔ بہت اچھے مکان میں رہتی ہے۔ بہت سے نوکر چاکر اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کی بہت آرام سے گزرتی ہے تم کچھ رنج مت کرو۔ مجھ کو ان کے کہنے سے پورا یقین تھا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے۔ مدت تک ہر جمعرات کو اْس کی فاتحہ ہوا کرتی تھی اور کسی محتاج کو کھانا دیا جاتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ سب کھانا ماں بی بی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس نے مرتے وقت کہا کہ میرا تمام زیور سیّد کا ہے مگر میری والدہ اس کو خیرات میں دینا چاہتی تھیں۔ ایک دن انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر تم کہو تو یہ گہنا ماں بی بی کے پاس بھیج دوں ، میں نے کہا ہاں بھیج دو۔ والدہ نے وہ سب گہنا مختلف طرح سے خیرات میں دے دیا۔
     بچپن میں سرسیّد پر نہ تو ایسی قید تھی کہ کھلنے کودنے کی بالکل بندی ہو اور نہ ایسی کی آزادی تھی کہ جہاں چاہیں اور جن کے ساتھ چاہیں کھیلتے کودتے پھر یں ۔ ان کی بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ خود ان کے ماموں ان کی خالہ اور دیگر نزدیکی رشتہ داروں کے چودہ پندرہ لڑکے ان کے ہم عمر تھے جو آپس میں کھیلنے کودنے کے لیے کافی تھے۔ اس لیے ان کو نوکروں اور اجلافوں کے بچوں اور اشرافوں کے آوارہ لڑکوں سے ملنے جلنے اور ان کے ساتھ کھیلنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ ان کے بزرگوں نے یہ اجازت دے رکھی تھی کہ جس کھیل کو تمھارا جی چاہے شوق  سے کھیلومگرکسی کھیل کو چھپا کر مت کھیلو ۔ اس لیے سب لڑ سکے جو کھیل کھیلتے تھے اپنے بڑوں کے سامنے کھیلتے تھے۔ ان کے کھیلوں میں کوئی بات ایسی نہ ہوتی تھی جو اپنے بزرگوں کے سامنے نہ کرسکیں ۔ خواجہ فرید کی حویلی جس میں وہ اور ان کے ہم عمر لڑکے رہتے تھے اس کا چوک اور اس کی چھتیں ہرقسم کی بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے لیے کافی تھیں ۔ ابتدا میں وہ اکثر گیند،
بلا، کبڈی ، گیڑ یاں، آنکھ مچولی، چیل چلو وغیرہ کھیلتے تھے۔ اگر چہ گیڑیاں کھیلنےکواشراف معیوب جانتے تھے مگر ان کے بزرگوں نے اجازت دے رکھی تھی کہ آپس میں سب بھائی مل کر گیڑیاں بھی کھیلوتو کچھ مضائقہ نہیں۔
           ان کا بیان تھا کہ" باوجود اس قدر آزادی کے بچپن میں مجھے تنہا باہر جانے کی اجازت نہ تھی ، جب میری والدہ نے اپنے رہنے کی جداحویلی بنائی اور وہاں آرہیں تو باوجود یہ کہ اس حویلی میں اور نانا صاحب کی حویلی میں صرف ایک سڑک در میان تھی۔ جب کبھی میں اْن کی حویلی میں جاتا تو ایک آدمی میرے ساتھ جاتا۔ اسی لیے بچپن میں مجھے گھر سے باہر جانے اور عام صحبتوں میں بیٹھنے یا آوارہ پھرنے کا بالکل اتفاق نہیں ہوا۔ٗ ٗ
           سرسید لکھتے ہیں کہ " میرے نانا صبح  کا کھانا اندر زنانے میں کھاتے تھے ۔ ایک چوڑا  چکلا دسترخوان بچھتا تھا۔ بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور بیٹوں کی بیویاں سب ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، بچوں کے آ گےخالی رکابیاں ہوتی تھیں ۔ نانا صاحب ہرایک سے پوچھتے تھے کون سی چیز کھاؤ گے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اس کی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے بہت ادب اور صفائی سے ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئی چیز گرنے نہ پائے ہاتھ کھانے میں زیادہ نہ بھرے، اور نوالا چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ باہر دیوان خانے میں کھاتے تھے۔ زنانہ ہو جاتا تھا، میری والدہ اور میری چھوٹی خالا کھانا کھلانے آتی تھیں ۔ ہم سب لڑ کے ان کے سامنے بیٹھتے تھے۔ ہم کو بڑی مشکل پڑتی تھی۔ کسی کے پائوں کا دھبّا سفید چاندنی پر لگ جاتا تھا تو نہایت ناراض ہوتے تھے۔ روشنائی وغیرہ کا دھبّا کسی کے کپڑے پر ہوتا تھا تو اس سے بھی ناخوش ہوتے تھے۔ شام کو چراغ جلنے کے بعد اْن کے پوتے اور نواسے جو مکتب میں پڑھتے تھے اور جن میں سے ایک میں بھی تھا، ان کوسبق سنانے جاتے تھے۔ جس کا سبق اچھا یا د ہوتا اس کو کسی قسم کی عمدہ مٹھائی ملتی اور جس کو یاد نہ ہوتا اس کو کچھ نہ دیتے اور گْھڑک دیتے۔"
          گرمی اور برسات کے موسم میں اب بھی دلّی کے اکثر باشندے سہ پہر کو جمنا پر جا کر پانی کی سیر دیکھتے ہیں اور تیرنے والے تیرتے ہیں ، مگر پچاس برس پہلے وہاں اشراف تیرنے والوں کے بہت دلچپ جلسے ہوتے تھے۔ سرسیّد کہتے تھے کہ میں نے اور بڑے بھائی نے اپنے والد سے تیرنا سیکھا تھا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ایک طرف دلّی کے مشہور  تیراک مولوی علیم اللہ کا غول ہوتا تھا جن میں مرزا مغل اور مرز الطفل بہت سر برآورده نامی تھے ۔ اور دوسری طرف ہمارے والد کے ساتھ سوسواسو شاگردوں کا گروہ ہوتا تھا۔ یہ سب ایک ساتھ دریا میں کودتے تھے اور مجنوں کے ٹیلے سے شیخ محمدکی بائیں تک یہ سارا گروہ تیرتا جاتا تھا۔ پھر جب ہم دونوں بھائی تیرنا سیکھتے تھے تو اس زمانے میں بھی تیس چالیس آدمی والد کے ساتھ ہوتے تھے۔ انھیں دونوں میں نواب اکبر خاں اور چند اور رئیس زادے بھی تیرنا سیکھتے تھے۔ زینت المساجد کے پاس نواب احمد بخش خاں کے باغ کے نیچے جمنا بہتی تھی۔ وہاں سے تیرنا شروع ہوتا تھا۔ مغرب کے وقت سب تیراک زینت المساجد میں جمع ہوجاتے تھے اور مغرب کی نماز جماعت سے پڑھ کر اپنے اپنے گھر چلے آتے تھے۔ میں ان جلسوں میں اکثر شریک ہوتا تھا ۔‘‘
     تیراندازی کی صحبتیں بھی سرسید کے ماموں زین العابدین خاں کے مکان پر ہوتی تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے اپنے ماموں اور والد کے شوق کا وہ زمانہ جب کہ نہایت دھوم دھام سے تیر اندازی ہوتی تھی یا دنہیں ۔مگر جب دوباره تیراندازی کا چرچا ہوا وہ بخوبی یاد ہے۔ اس زمانے میں دریا کا جانا موقوف ہو گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد تیراندازی شروع ہوتی تھی ۔ نواب فتح اللہ بیگ خاں، نواب سید عظمت اللہ خاں ، نواب ابراہیم علی خاں اور چند شاہزادے اور رئیس اور شوقین اس جلسہ میں شریک ہوتے تھے۔ نواب شمس الدین خاں رئیس فیروز پور جھر کہ جب دلّی میں ہوتے تھے تو وہ بھی آتے تھے۔ میں نے بھی اسی زمانے میں تیراندازی سیکھی اور مجھ کو خاصی مشق ہوگئی تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ میر ا   نشا نہ جوتو دے میں نہایت صفائی اور خوبی سے جا کر بیٹھا تو والد بہت خوش ہوئے اور کہا مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے" یہ جلسہ  برسوں تک رہا پھر موقوف ہو گیا۔
        دلّی سے سات کوس مغل پور ایک جاٹوں کا گاؤں ہے ۔ وہاں سرسیّد کے والد کی کچھ ملک بطور معافی کے تھی۔ اگر کبھی فصل کے موقع پر ان کے والد مغل پور جاتے تو ان کو بھی اکثر اپنے ساتھ لے جاتے اور ایک ہفتہ گاؤں میں رہتے۔ سرسید کہتے تھے کہ "اس عمر میں گاؤں میں جا کر رہنا، جنگل میں پھرنا، عمدہ دودھ اور دہی اور تازہ تازگھی اور جاٹنیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی باجرے یا مکئی کی روٹیاں کھانا نہایت ہی مزہ دیتا تھا۔ ٗ           ٗ
        سرسیّد کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا۔ مگر اخیر میں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، انھوں نے دربار کا جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سرسید کو باوجود یہ کہ ان کی عمرکم تھی دلوانا شروع کر دیا تھا۔ سر سید کہتے تھے کہ ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا اتفاق ہوا کہ والد بہت سویرے اٹھ کر قلعے چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اٹھا ۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہوگئی ۔ جب لال پردے کے قریب پہنچا تو قاعدے کے موافق اوّل دربار میں جا کر آداب بجالانے کا وقت نہیں رہا تھا ۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو در بار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اٹھ کر ہوادار پر سوار ہوچکے تھے  بادشاہ نے مجھےدیکھ والد سے جواس وت ہوادارک پاس ہی تھے کہا کہ تمہارابیٹا ہے؟‘انھوں نے کہا"  حضور کا خانہ زاد ٗ                     بادشاه چپکے ہور ہے ۔ لوگوں نے جانا کہ بس اب محل میں چلے جائیں گے مگر جب تسبیح خانے میں پہنچے تو وہاں ٹھہرگئے تسبیح خانے میں بھی ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی در بار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترے پر بیٹھ گئے، جواہر خانے کے داروغہ کو کشتی جواہرحاضر کرنے کاحکم ہوا ، میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا ۔ بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلایا اورکمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا  کہ دیر کیوں کی ؟ حاضرین نے کہا عرض کروکہ تقصیرہوئی مگر میں چپکا کھڑا رہا۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ سو گیا تھا۔ بادشاہ مسکرائے اور فرمایا بہت سویرے اٹھا کرو۔ اور ہاتھ چھوڑ دیے۔ لوگوں نے کہا آداب بجا لاؤ میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے بنائیں۔ میں نے نذ ردی اور بادشاہ اٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلےگئے۔ تمام درباری میر والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے۔ سرسیّد کہتے تھے کہ اس زمانے میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی۔ تقر یبّا انھیں دنوں میں راجہ رام موہن رائے جو بر ہموسماج کے بانی تھے، ان کو اکبرشاه نے کلکتہ سے بلایا تھا تا کہ اضافئہ پنشن بادشاہی کے لیے ان کو لندن بھیجا جائے۔ چنانچہ وہ بادشاہ کی طرف سے لندن بھیجے گئے اور 1831 ء میں وہاں پہنچے۔ سرسیّد نے لندن جانے سے پہلے ان کو متعدد  دفعہ دربار شاہی میں دیکھا تھا۔
         سرسیّد کہتے تھے کہ "مجھ کو اپنی بسم اللہ کی تقریب بخوبی یاد ہے۔ سہ پہر کا وقت تھا اور آدمی کثرت سے جمع تھے۔ خصوصاً حضرت شاہ غلام علی صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ مجھ کو لا کر حضرت کے سامنے بٹھا دیا تھا۔ میں اس  مجمع کو دیکھ کر ہکّا بکّا سا ہوگیا۔ میر ے سامنےتختی رکھی گئی اور غا لباً شاه صاحب ہی نے فرمایا کہ پڑھو بسم الله الرحمٰن الرحیم ۔ میں کچھ نہ بولا اور حضرت صاحب کی طرف دیکھتا رہا۔ انھوں نے اٹھا کر مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ ہمارے پاس بیٹھ کر پڑھیں گے اور اوّل بسم اللہ پڑھ کر اقراء کی اوّل آیتیں مالم یعلم تک پڑھیں ۔ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ پڑھتا گیا۔ سرسیّد نے جب  یہ ذکر کیا بطور فخر کے اپنا یہ فارسی شعر جو خاص اسی موقع کے لیے انھوں نے بھی کہا تھا ، پڑھا۔

 بہ مکتب  رفتم  و  آموختم اسرار یزدانی
 زفیضِ      نقش   بندِ  وقت جان ِجان  جانانی

      سرسید کہتے تھے کہ شاہ صاحب اپنی خانقاہ سے کبھی نہیں اْٹھتے تھے اور کسی کے ہاں نہیں جاتے تھے۔ الا ماشاء اللہ۔ صرف میرے والد پر جو غایت درجہ کی شفقت تھی اس لیے کبھی کبھی ہمارے گھر قدم رنجہ فرماتے تھے۔ بسم اللہ ہونے کے بعد سرسید نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔ ان کی ننھیال میں قدیم سے کوئی نہ کوئی استانی نو کر رہتی تھی ۔ سرسید نے استانی ہی سے جو ایک اشراف گھر کی پردہ نشین بی بی تھی ، سارا قرآن ناظرہ پڑھا تھا۔ وہ کہتے تھے میرا قرآن ختم ہونے پر ہد یےکی مجلس جو زنانہ میں ہوئی تھی وہ اس قدر دلچسپ اور عجیب تھی کہ پھرکسی ایسی مجلس میں وہ کیفیت میں نے نہیں دیکھی ۔ قرآن پڑھنے کے بعد وہ باہر مکتب میں پڑھنے لگے ۔ مولوی حمید الدین ایک ذی علم اور بزرگ آدمی ان کے نانا کے ہاں نوکر تھے جنھوں نے ان کے ماموں کو پڑھایا تھا۔ اْن سے معمولی کتا بیں کر یما، خالق باری، آمد نامہ وغیرہ پڑھیں ۔ جب مولوی حمید الدین کا انتقال ہو گیا تو اور لوگ پڑھانے پر نوکر ہوتے رہے۔ اْنھوں نے فارسی میں گلستاں، بوستاں، اور ایسی ہی ایک آدھ اور کتاب سے زیادہ نہیں پڑھا۔ پھر عربی پڑھنی شروع کی ۔ مگر طالب علموں کی طرح نہیں بلکہ نہایت بے پروائی اور کم توجہی کے ساتھ ۔ اس کے بعد اْن کو اپنے خاندانی علم یعنی ریاضی پڑھنے کا شوق ہوا جس میں ان کی ننھیال کے لوگ دلّی میں اپنا مثل نہ رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے ماموں 
نواب زین العابدین خاں سے حساب کی  معمولی درسی کتاب چند مقالے پڑھے ۔ اْسی زمانے میں طب پڑھنے کا شوق ہو گیا۔ جب انھوں نے پڑھنا چھوڑا ہے اس وقت ان کی عمر اٹھارہ انیس برس کی تھی۔ اس کے بعد بطور خود کتابوں کے مطالعے کا برابر شوق رہا۔ اور دلی  میں جواہل علم اور فارسی دانی میں نام آور تھے جیسے صہبائی، غالب، اور آزردہ وغیرہ ان سے ملنے کا اورعلمی مجلسوں میں بیٹھنےاکثرموقع ملتا رہا۔(تلخیص(


سوالوں کے جواب لکھیے :
1. سرسید نے اپنا بچپن کیسے گزارا؟
جواب: سرسید نے اپنا بچپن ایک معتدل ماحول میں گزارا۔ نہ تو ان کو اتنی آزادی تھی کہ وہ جہاں چاہیں آزادانہ گھوم پھر سکیں اور نہ ہی اُن پر ایسی پابندی تھی کہ وہ کھیلنے بھی نہ جا سکیں۔انہوں نے اپنے بچپن ہی میں  تیراندازی اور تیراکی کا فن بھی سیکھا۔ بچپن میں سرسید کو تنہا باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

2. سرسید کے نانا کے یہاں دستر خوان کے آداب کیا تھے؟
جواب: سرسید کے نانا صبح کا کھانا اندر زنانے میں کھاتے تھے ۔ ایک چوڑا چکلا دسترخوان بچھتا تھا۔ بیٹے بیٹیاں ، پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں اور بیٹوں کی بیویاں سب ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، بچوں کے آگے خالی رکا بیاں ہوتی تھیں ۔ نانا صاحب ہر ایک سے پوچھتے تھے کہ کون سی چیز کھاؤ گے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اس کی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے بہت ادب اور صفائی سے ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئی چیز گرنے نہ پائے ، ہاتھ میں کھانا زیادہ نہ بھرے، اور نوالا چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ باہر دیوان خانے میں کھاتے تھے۔

3.  سرسید نے بچپن میں کون کون سے کھیل کھیلے؟
جواب: سرسید نے بچپن میں  اکثر گیند ، بلا ، کبڈی ، گیڑیاں، آنکھ مچولی، چیل چِلو وغیرہ کھیلتے تھے۔انہیں تیر اندازی کا فن بھی آتا تھا۔اُن کو ہر طرح کا کھیل کھیلنے کی آزادی تھی۔بس اُن کھیلوں پر پابندی تھی جو چھپا کر کھیلیں جائیں۔

4. سرسید کو گاوں میں جا کر رہنا کیوں پسند تھا؟
جواب: سرسید کو گاؤں میں جا کر رہنااس لیے بہت پسند تھا کہ وہاں انہیں  جنگل میں  آزاد پھرنے کا موقع ملتا ، ساتھ ہی گاؤں میں انہیں عمدہ دودھ اور دہی  اور تازہ تازہ گھی  اور جاٹنیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی باجرے یا مکئی کی روٹیاں کھانا نہایت ہی مزہ دیتا تھا۔

Tuesday 2 June 2020

Lal Batti Jal Gaya By Tasneem Usmani Simlawi


تسنیم عثمانی سملوی

مضمون کی ” سرخی “  ذرا بے تکی اور بے قاعدہ معلوم ہو رہی ہوگی ، مگر اس سرخی کے پس منظر بہت ہی خوبصورت ، پیاری اور دلکش و دل نشین یادیں ہیں ، جنہیں جان کر یقیناً آپ بھی کہہ اٹھیں گے ” لال بتی جل گیا “،” لال بتی جل گیا “۔
رمضان المبارک کے ایام ہیں، عصر کے بعد کا وقت ہے۔ ” دارالشرف “ (ہمارا مسکن، اوپر کلہی جھریا ) کا صدردروازہ کھول دیا جاتا  ہے تاکہ روزہ دار مہمان تشریف لے آئیں۔افطار کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ، امی جان مدظلہا اور چھوٹی بہن زنیرہ سلمہا کے خلوص و محبت بھرے ہاتھوں سے روزہ داروں کی ضیافت کے لیے بنائی ہوئی اشیاء جیسے پھلکیاں ، گلگلے ، گھنگھنی( تلے ہوئے چنے)، کچے چنے، بونٹ (چنا) کی میٹھی دال، نمکین دال،کچی بھی اور تلی ہوئی بھی،کچے چنے لیمون اور پیاز کے ساتھ ، کھجور اور انڈوں وغیرہ کے سموسے، بیگنیاں، کونہڑے کے پکوڑے، سنگھاڑے (تکونے)،  دہی بڑے، منگوچھیاں(رس گلوں کی طرح ہوتی ہیں اور ہمارے یہاں صرف  رمضان المبارک میں بنائی جاتی ہیں )، ان سب کے علاوہ موسم کے پھل جیسے کیلے، تربوز، خربوزے، امرود،ناشپاتی، سیب،سنترے وغیرہ، الغرض جس دن جو میسر ہوتا دسترخوان پر چنا جاتا ۔
     اب دسترخوان کے اطراف بیٹھنے کا حال سنیے۔۔۔باہر بڑے کمرے یا برآمدہ میں دسترخوان بچھایا جاتا  ۔ حضرت اباجان  رحمة الله عليه (تاج العرفان حضرت مولانا الحاج حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی، زیب سجادہ  خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ،اورنگ آباد، بہار) کی نشست مخصوص تھی، دسترخوان کے آخری سرے پر  پچھم کی جانب اس طرح تشریف فرما ہوتے کہ مسجد نظروں کے سامنے ہو، بڑے بزرگ اور سبھی مہمان اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتے،ہم  سب بھائی اور گھر کے دوسرےبچے دسترخوان پر ایسی جگہوں پر بیٹھنا چاہتے جہاں اپنی اپنی پسند کی چیزیں ہوں، دسترخوان پر بڑی ترتیب سے ساری اشیاء رکھی جاتیں ،مہمان آتے جاتے دسترخوان لمبا ہوتا جاتا اور ہم سب سمٹتے چلے جاتے،  افطار کا وقت قریب ہوتا ، سب لوگ افطار کی دعا پڑھتے،بڑوں  کی نظریں گھڑیوں پر اور توجہ مغرب کی اذان کی طرف ، اور بچوں کی نگاہیں ”چھوٹی مسجد“........جو پتہ نہیں کس زلزلہ میں چھوٹی مسجد سے ”نوری مسجد“ ہوگئی........کے درمیانی گنبد سےبندھے بانس پر ٹک جاتیں، افطار کا وقت جیسے جیسے قریب ہوتا جاتا محلہ کے بچے گھروں  سے  باہر آکر اپنے اپنے دروازوں، برآمدوں اور ہمارے گھر کے چبوترے پر کھڑے ہو جاتے جہاں سے مسجد صاف نظر آتی ،سب کی نگاہیں مسجد کے بانس پرہوتیں ، جیسے ہی افطار کا وقت ہوتا بانس پر بندھی لال بتی جل جاتی، سارے بچے چیختے چلاتے اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگتے ”لال بتی جل گیا“، ”لال بتی جل گیا “ .........لال بتی عام طور سے رکنے اور ٹھہر جانے کا اشارہ ہوتی
 ہے مگر یہ عجیب لال بتی ہے جو شروع ہو جانے کی علامت ہے۔
خاندانی روایت کے مطابق سب لوگ پہلے آب زم زم سے روزہ کھولتے ،پھر حصول برکت کے لئے مدینہ منورہ کی کھجوریں کھائی جاتیں، بچے اپنی اپنی پسند کے مطابق تاک لگائے افطار کرتے، ایک پھلکی منھ میں دوسری ہاتھ میں ایک نشانہ پر ، اگر کسی اور نے اسے شکار کرلیا تو فوراً کسی تیسرے پر نشانہ سادھ لیا جاتا، پسند کی چیزیں ختم اور سارے بچے یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھ دیکھ کراٹھ جاتے اور اندر جاکر زنانہ دسترخوان پر دھاوا بول دیتے، بڑے ہماری حرکتوں پر مسکراتے اور چنے چباتے رہتے، برا ماننے یا ڈانٹنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا، بلکہ مغرب کی باجماعت نماز کے بعد چائے کا دور چلتا اور ہماری حرکتوں پر تبصرے اور خوش گپیاں اور کچھ نصیحتیں ہوتیں،  پھر سب عشاء کی نماز اور تراویح کی تیاری میں لگ جاتے۔۔۔۔۔       
  ہمارے نانا ابا حضرت مولانا الحاج قاری حکیم شاہ محمد ابراہیم عثمانی فردوسی دیوروی رحمة الله عليه ( زیب سجادہ خانقاہ برہانیہ کمالیہ ، حضرت دیورہ،گیا ) کو ہمارے جھریا شہر کا رمضان اور تراویح بہت پسند تھی اور اس ماہ مبارک میں یہاں ضرور تشریف لاتے تھے، ٹھیک اسی طرح بڑے ماموں جان حضرت مولانا الحاج قاری حکیم شاہ منصور احمد عثمانی فردوسی دیوروی رحمة الله عليه (زیب سجادہ خانقاہ برہانیہ کمالیہ، حضرت دیورہ ،گیا) بھی ماہ رمضان کے مبارک ایام جھریا میں گزارنا پسند فرماتے تھے، افطار کےبعد ، مغرب کی نماز کبھی حضرت ابا جانؒ اور کبھی حضرت بڑے ماموں جانؒ کی اقتدا میں ادا کی جاتی ، جب ناچیز اس لائق ہوا تو اسے بھی یہ سعادت حاصل ہوئی۔۔تراویح اور رات کے کھانے کے بعد حضرت بڑے ماموں جان  پوری پوری رات دین کی باتیں اور بزرگوں کے واقعات سنایا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔                        
ہر سال 20 رمضان المبارک کوافطار کی ایک  دعوت کا اہتمام ہوتا جس میں کولفیلڈ یعنی شہر جھریا   اور اس کے  اطراف جیسے ہورلا ڈیہہ، بنیاہر،پھوس بنگلہ، لودنا،جاما ڈوبا، رمضان پور، پاتھر ڈیہہ،سودام ڈیہہ،  سندری ، کتراس موڑ، ائینہ کوٹھی، دھنباد،وغیرہ کے عوام و خواص،اعزا و اقربا،حضرت ابا جان کے مریدین و معتقدین اور اُن کے احباب شرکت کرتے  جن کی فہرست یہاں ممکن نہیں ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد مولائے کائنات  سیدنا حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا سالانہ فاتحہ نہایت تزک و احتشام کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس دعوت اور فاتحہ کی سادگی اور رونق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔جس نے شرکت کی ہے وہی جانتا ہے۔
یہی ہیں وہ یادیں اور وہ باتیں، خدا بھلا کرے اس لاک ڈاؤن کا ، جس نے سب کچھ تو ” لاک ڈاؤن ” کررکھا ہے لیکن اس نے یادوں کے جھروکوں کو پوری طرح ” ان لاک ” کردیا ہے۔۔ جی چاہتا ہے پھر وہی وقت ہوتا، ویسے ہی لوگ ہوتے ، ویسی ہی سحر ہوتی، ویسے ہی جگانے والے مخلص اور سریلے درویش اور سنجیدہ قافلے ہوتے، حلال وحرام کے بے جا فتووں سے محفوظ و مامون محبت بھری اور میٹھی میٹھی عید ہوتی اور افطار کے وقت بچوں کی ویسی ہی پیاری  پیاری چیخ و پکار ہوتی ” لال بتی جل گیا،  لال بتی جل گیا “
  

Saturday 30 May 2020

Dil Phir Tawaaf e Koye Aqeedat Ko jaye Hai - A memory on Urs e Makhdoom jehan - Chiraghaan۔p4

دل پھر طواف کوئے ”عقیدت“ کو جائے ہے
حضرت مخدوم جہاں ؒ کے ”چراغاں“ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے نکلی ایک تحریر
(4)

1975 سے 1995ء کا دور بہار کی تین خانقاہوں   کا زریں  دور رہا ہے۔خانقاہ معظم مخدوم جہاں بہار شریف کے جنابحضور سید شاہ محمد امجاد فردوسی ، خانقاہ برہانیہ کمالیہ،دیورہ کے سجادہ نشیں حضرت مولانا شاہ منصور احمد فردوسیؒ،اور خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ ،سملہ کے  سجادہ نشیں حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ  کی ذات گرامی نے بہار کی خانقاہوں میں چار چاند لگا دیے دنیا کی نگاہیں ان کی جانب متوجہ ہونے لگیں۔ دنیائے تصوف کے یہ تین درخشاں ستارے ایک سال رجب المرجب میں   خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کےسالانہ  عرس کے موقع پر یکجا ہوئے تو ا ن کی تابانی دیکھنے کے قابل تھی۔ اس سال پہلی بار خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ میں جنابحضور سید شاہ محمد امجاد فردوسی   ؒ کی شرکت کا پروگرام بنا تھا۔ اباجان اور ہم سب بھائیوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ جناب حضور کو لانے کے لیے بڑے بھائی جان شاہ محمد صہیب عثمانی فردوسی ابّاجان کی  ذاتی  ایمبیسڈر کار کو خود چلاکر جنابحضور کو لانے کے لیے بہار شریف گئے تھے مقصد صرف ”سارتھی“ بننے کی سعادت حاصل کرنا تھا۔وہ بڑی محبت و عقیدت سے جنابحضور کو سملہ لے کر آئے۔ جنابحضور ؒ نے عرس کی سبھی تقریبات میں انتہائی ذوق و شوق سے حصّہ لیا۔ مریدین جب اپنے پیر کی جنابحضور سے یہ محبت و عقیدت دیکھتے تو پھر اُن کی وارفتگی کا بھی ٹھکانہ نہ رہتا۔اُس سال عرس میں مخدوم جہاں کا خاص فیضان جاری تھا۔ عرس کی مجالس میں ان تینوں بزرگوں کی نشست کا انداز یہ تھا کہ وسط میں جنابحضور سید شاہ امجاد فردوسی ؒ تشریف رکھتے تھے۔اُن کے بائیں طرف اباجان پیر و مرشد حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانیؒ اور دائیں طرف  بڑے ماموں جان حضرت  شاہ منصور احمد فردوسی ؒ بیٹھتے۔ بچّوں اور دیگر عزیزان کوحجرۂ قطب العصر کے صحن میں جگہ ملتی اور مریدین و متوسلین ایک دائرے کی شکل میں حجرہ اور مسجد سے ملحق سماع خانے میں بیٹھتے۔سامنے میدان، مسجد اور سڑک مریدین کے ہجوم سے بھری ہوئی تھی۔ ۸ رجب کو پیران سلاسل کے فاتحہ کے دوران مجھے اتفاقاً کسی کام سے اٹھ کر باہر جانا پڑا۔حجرے کی جانب واپس آتے ہوئے جب سامنے سے میری نظر ان تین بزرگوں پر پڑی تو یہ حسین اور بارعب  منظر میرے دل میں نقش ہوگیا۔ وہ منظر کتنا حسین تھا اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ فردوسی سلسلہ کے ان تین بزرگوں کے چہروں کی تابانی کا کیا عالم تھا اسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ہمیں ناز ہے  ان آنکھوں پر کہ جس نے  ان بزرگوں کو نہ صرف اتنے قریب سے دیکھا  بلکہ ان کی صحبت سے فیض بھی اٹھایا۔اور اُن سے خوب دعائیں بھی لیں۔
گاہے گاہے بازخواں ایں قصّہ پارینہ را۔

(جاری)

Dil Phir Tawaaf e Koye Aqeedat Ko jaye Hai - A memory on Urs e Makhdoom jehan - Chiraghaan۔p3

دل پھر طواف کوئے ”عقیدت“ کو جائے ہے
حضرت مخدوم جہاں ؒ کے ”چراغاں“ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے نکلی ایک تحریر
(3)
خانقاہ معظم مخدوم جہاں ؒ کی قدیم عمارت میں چاروں جانب بڑے بڑے دروازے تھے۔جب ہم وہاں پہنچتے مجلس شروع ہوچکی ہوتی۔
ڈھولک کی تھاپ پر قوال کی صدائیں بلند ہو رہی ہوتیں۔ 
میرے پیر شرف تیری نگری  سلامت
تیری نگری سلامت تیری ڈیوڑھی سلامت
حضرت مخدوم جہاں ؒ کا فیضان جاری ہوتا۔  شاہ قسیم الدین فردوسیؒ اور جناب حضورؒ  اور اُن کے بھائیوں اور خانقاہ کےدیگر عزیزوں کےحال فرمانے منظر بڑا ہی روح پرور ہوتا۔ قوالی کے دوران ہم کیا چیز ہیں، ہمارے بزرگ بھی ہاتھ باندھے نظریں نیچے کیے با ادب کنارے کھڑے ہوتے۔ بہار کی دو بڑی خانقاہوں کے سجادہ ہونے کے باوجود کبھی کسی پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش نہ ہوتی اور نہ ہی جناب حضور کے قریب یا برابر کھڑے ہونے کی ہمت۔ جنابحضور کی نظر فیض جب متوجہ ہوتی تبھی بڑے ماموں جانؒ یا ابّا جانؒ حال کرتے۔ورنہ اسی طرح خاموشی سے نظریں نیچی کیے فیضیاب ہوتے رہتے۔ہم سب دل کی نگاہوں سے اس متبرک مجلس کا لطف اٹھاتے۔وہ سبھی شخصیتیں ہماری نگاہوں میں آج بھی زندہ ہیں۔
یہ مجلس فجر کی اذان اور نماز تک جاری رہتی۔ وسط مجلس میں فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ایک بار پھر قوالی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ۔
یا شاہ شرف اک نگاہ طلبم
از بارگہِ تو زاد راہےطلبم
تو محرم راز ہائے الا ہستی
شاہا ز تو لا الٰہے طلبم
(حضرت شاہ قسیم الدین فردوسی بہاری ؒ)
یہ سلسلہ سورج نکلنے تک جاری رہتا۔
 مجلس کے فوراً بعد گاگر کی تیاری شروع ہوجاتی۔ گاگر مٹی کا ایک برتن ہوتا جس میں گھر کے عزیزان اور ہم جیسے راندۂ درگاہ گاگر لے کر حضرت مخدوم کے کنویں سے فاتحہ کے لیے پانی لے کر آتے۔ قوال گاگر گاتا ، سب پانیہریا بھر بھر گیلی اپنی اپنی......اور ہم سب اُس کے ساتھ کنویں تک جاتے۔ گاگر سے واپسی کے بعد ہم آزاد ہوتے۔گاگر، فاتحہ کی روٹی  اور حلوہ جسے لوٹنے کے لیے ہجوم ٹوٹا پڑتا تبرک کے طور پرہمیں مل جاتی اور اسے ہم سب اسے اپنے گھر والوں کے لیے توشہ سمجھ کر اپنے سامان میں رکھ لیتے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ ہم اب اپنے گھر جانے کے لیے آزاد ہیں۔
یہ روحانی مناظر آج بھی نظروں کے سامنے ہیں۔ایک بار خوبی قسمت سے دوران حال بڑےجناب حضور کے بھائی کی نظر کرم اس ناچیز پر پڑی، معانقہ میں لیا پھر حال میں اُن کے ہاتھ جب اوپر آسمان کی جانب اٹھتے تو دل کی کیفیت کیا بیان کروں دل آج بھی اُس لذت کو نہیں بھولا ہے۔ بزرگوں کے فیضان کی یہ شکل لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی ایسا لگا جیسے ہوا میں پرواز کر رہا ہوں۔ 
من کہ در لنگر عشق تو تلالہ زدہ ام
سکّہ بر عین دوعالم بہ تجلیٰ زدہ ام
چوں بہ خلوت گہ صوفی بجز الا نہ بود
غم اِلا نہ خورم زانکہ ہم اعلیٰ زدہ ام
یعلم اللہ بہ طفیل شرف الحق امروز
خیمہ بر طارم گردون معلّٰی زدہ ام
(کلام حضرت مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی فردوسی قدس سرہ)
عشق کی ایسی لذت تھی جو بیان سے باہر ہے۔یہ باتیں صرف اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ یہ آج کی جدید تہذیب کے دلدادہ ایک شخص کا ذاتی تجربہ ہے۔اس لیے جو لوگ صوفیوں کے حال و قال پر زیر لب مسکراتے ہیں وہ اپنی اصلاح کرلیں۔

مزار جنابحضور سید شاہ امجاد فردوسی ؒ
حوادث زمانہ نے کئی برسوں سے عرس میں شرکت کا موقع نہیں دیا ہے۔شاید یہ جسمانی دوری صرف اس لیے ہے  کہ ہمارے دلوں میں مخدوم جہاںؒ سے عشق کی یہ تڑپ اسی طرح بڑھتی رہے اور دن بہ دن اس کی تابانی میں اور اضافہ ہوتا جائے۔ پہلے تو  یہ ڈر تھا کہ شاید یہ ہماری کسی کوتاہی کی سزا ہے لیکن برسوں بعد جب اپنی بھانجی عریشہ عثمانی بنت ہمشیرہ زنیرہ و شاہ مثنیٰ عثمانی کی جناب حضور سید شاہ سیف الدین فردوسی مدظلہ العالی کے ایک عزیز عزیزی سید معراج الحق سلمہ ابن جناب سید شاہ مسعود الحق کے ساتھ شادی  کے بعد ولیمہ کی  تقریب میں بہار شریف جانا ہوا تو ایک عرصہ بعد حضرت مخدوم جہاںؒ کی بارگاہ میں جیسا والہانہ اور مشفقانہ استقبال ہوا اس سے پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔بہ ظاہر تو ہم اپنے سمدھیانے کے مہمان تھے لیکن بباطن ہم حضرت مخدوم جہاں ؒکے مہمان تھے۔ ہم شاندار ہوٹل میں ٹھہرائے گئے۔ہم سب نے دیگر تقریبات سے فارغ ہو کر آستانے پر حاضری دی ۔سلام و قدمبوسی کے بعد فاتحہ پڑھی۔ جناب حضور حضرت شاہ سجاد فردوسیؒ و حضرت شاہ امجاد فردوسی ؒ کی مزارات پر حاضری دی۔ پرانی یادیں آنسوؤں کا سیلاب لے کر آگئیں۔ جناب حضور سید شاہ امجاد فردوسی ؒ کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات ایک ایک کرکے آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔بچھڑ کرملنے کا غم اس وقت مارے ڈال رہا تھا۔ایک ایک لمحہ اِس وقت بھی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ انگلیاں لیپ ٹاپ کے بٹن پر چل رہی ہیں لیکن یادیں آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپک رہی ہیں۔ آستانہ سے کچھ دیر کے لیے خانقاہ معظم میں حاضری کے لیے گیا۔ جناب حضور سید شاہ سیف الدین فردوسی مدظلہ بہار شریف میں موجود نہیں تھے۔ چھوٹے بھائی مبشر عثمانی سلمہ نے ان سے فون پر بات کر لی تھی۔اور اپنے بزرگوں کی تواضع کی روش کے مطابق انہوں نے اپنے اہل خانہ کو ہم سب کے آمد کی اطلاع اور بھرپور خیال رکھنے کی ہدایات دے دی تھیں ۔وہاں سبھی عزیزان سے بصد احترام ملاقات ہوئی ۔ اُن سب کی آنکھوں میں بھی اپنے مشفق والد کی یادیں تازہ ہو چکی تھیں ۔ہم غلاموں کی یہ عزت و توقیر میرے بزرگوں کی حضرت مخدوم جہاںؒ سے والہانہ عشق کا انعام تھیں۔دن کے کھانے کا اصرار تھا لیکن ہمارے پاس وقت کی کمی تھی ۔واپسی کے لیے بہار شریف سے جمشید پور تک کاطویل سفر طے کرنا تھا۔برادر محترم شاہ تسنیم عثمانی فردوسی آستانہ پر ہی رُک گئے تھے۔ انہیں یہ خبر مل چکی تھی کہ جناب حضور بہار شریف میں موجود نہیں ہیں اس لیے انہوں نے کچھ اور وقت مخدوم جہاں کی بارگاہ میں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہم سب واپس پہنچے۔وہ آستانہ کے باہر صدر دروازہ پر شیرینی اور پھولوں کی ایک دوکان پر پان کی گلوریوں کا لطف اٹھا رہے تھے۔ ہم سب کو دیکھتے ہی کہا دیکھو مخدوم جہاں کے دربار میں کیسا اعزاز ہو رہا ہے تم سب ادھر چلے گئے اور میں یہاں چائے اور پان سے نوازا جارہا ہوں۔ہمیں بھی رشک ہوا ۔ اتنے میں وہ دوکاندار جو ان کی خدمت پر مامور تھا ہمارے لیے بھی چائے اور پان کی گلوریاں لے کر حاضر ہوگیا۔ خوشی سے دل باغ باغ ہوگیا۔
یادوں کے جھروکے سے آنے والے باد صبا کے ان جھونکوں کی خوشبو کو قید کرتے ہوئے آج ہمیں اپنے اُن دو بھائیوں شاہ محمد صہیب عثمانی فردوسی اور شاہ محمد خبیب عثمانی فردوسی کی بے پناہ یاد آرہی ہے جنہوں نے حضرت مخدوم جہاں اور اُن کے سجادگان کے عشق و محبت میں گرفتار دل قضائے الٰہی کے آگے پیش کردیے۔ آ ج اُن کی روحیں یقیناً ا پنے بزرگوں  کے ہمراہ اُس آستانے کے گرد چکر لگاتی ہوں گی اور اُن سب کی قدم بوسی کرتی ہوں گی۔حضرت مخدو م کی دعاؤں کے صدقے ہمارے بزرگان  کو یقیناً حضرت مخدوم جہاں  کا ساتھ نصیب ہوگا۔اور سب بارگاہ ِ الٰہی میں سرخ رو ہوں گے۔
عرس کی یہ تقریبات آج بھی جناب حضور حضرت مولانا سید شاہ سیف الدین فردوسی مدظلہ العالی کی سربراہی میں اسی طرح  تزک و احتشام سے منائی جارہی ہیں اور مخدوم جہاں ؒ کا فیضان اسی طرح جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی عمر میں برکت عطا کرے۔اور حضرت مخدوم جہاںؒ کے فیضان کو جاری رکھے۔ اور مخدوم جہاںؒ اور ان کے سجادگان کی ہم فقیروں پر نظر عنایت کا سلسلہ بھی اسی طرح جاری و ساری رکھے۔

Dil Phir Tawaaf e Koye Aqeedat Ko jaye Hai - A memory on Urs e Makhdoom jehan - Chiraghaan۔p2

دل پھر طواف کوئے ”عقیدت“ کو جائے ہے
حضرت مخدوم جہاں ؒ کے ”چراغاں“ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے نکلی ایک تحریر
(2)
ہو بہو یہی سراپا اور یہی شخصیت جنابحضور سیدشاہ محمد امجاد فردوسی ؒ کی تھی۔غالباً ملاقات کے ایک یا دو ہی سال میں بڑے جناب حضورؒ کا انتقال ہو گیا وہ ایک بڑا سانحہ تھا جو ہمارے بزرگوں پر گذرا ۔ہم چھوٹے تھے اس لیے یہ یاد ذرا دھندلی ہے اور اُس  یادکی جگہ جناب حضور سید شاہ محمد امجاد فردوسی کی باوقار شخصیت نے لے لی ہے۔جناب حضور ؒ کی خدمت میں زیادہ  حاضر ہو نے کا موقع ملا۔ دونوں بزرگوں جناب حضور سید شاہ سجاد فردوسیؒ اور سید شاہ محمد امجاد فردوسی ؒ کی شخصیت اور سراپا میں بہت زیادہ فرق نہیں تھا بلکہ اگر کوئی آپ کو نہ بتاتا کے بڑے جناب حضور ؒکا انتقال ہوگیا ہے تو لمبے عرصہ بعد ملنے والا شخص یہی سمجھتا کہ وہ بڑے جناب حضور کی خدمت میں حاضرہے۔ دونوں کی شکل و شباہت اور مزاج بالکل یکساں تھا۔دونوں ہی انتہائی کم سخن۔بس سارا کام نظروں اور دل سے۔دل اس شدت سے اُن کی جانب کھنچتا کہ جی چاہتا کہ بس قدم پکڑے بیٹھے رہیں۔

حضرت مخدوم جہاں کا مزار مبارک
ذکر ہو رہا تھا” چراغاں“ کا تو آئیے اب ”چراغاں“ کی کچھ یادیں تازہ کریں۔ شوال کا چاند نظر آتا اور والد ماجدحضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی ؒ  حضرت مخدوم جہاں ؒکے عرس میں حاضری کی تیاریاں شروع کردیتے۔ہم سب بھائی خوشی خوشی عرس میں شرکت کے لیے تیار ہوتے۔ عید کا کرتا پاجامہ حضرت مخدوم جہاں کے عرس کے موقع پر پہننے کےلیے استری کراکر بکس میں رکھ  دیا جاتا۔ بہار شریف میں ٹھہرنے کا پروگرام ایک ہی رات کا رہتا اس لیے کپڑے وغیرہ کا اہتمام زیادہ نہیں رہتا۔بہار شریف پہنچنے پر ہم اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں صرف سامان رکھنے کی غرض سے جاتے اور وہاں سے ضروریات سے فراغت کے بعد تیار ہوکر خانقاہ معظم پہنچتے اور جناب حضور کے در دولت پر حاضری دیتے۔ اس وقت سے ہم خانقاہ کے باضابطہ مہمان ہوتے۔بڑے ماموں جان حضرت شاہ منصور احمد فردوسیؒ بھی عرس مخدوم جہاںؒ میں شرکت کے لیے بہار شریف تشریف لا چکے ہوتے۔ ہم جناب حضور کے حجرے کے سامنے کھڑے ہوتے،   وہیں ماموں جان سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ اُس کے بعد وہاں  حجرے میں ایسا والہانہ استقبال ہوتا  کہ ہم غلاموں کی طبیعت خوش ہوجاتی۔ ایک تو حضرت مخدوم کے سجادہ سے بے پناہ محبت و عقیدت اور دوسری جانب اُن کی وہ والہانہ نظر و توجہ ایسا لگتا جیسے دونوں جہان کی نعمت ہاتھ آگئی ہو۔آج بھی وہ منظر جب آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو شدت جذبات سے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ والد ماجد حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی ؒاور بڑے ماموں جان حضرت مولا نا شاہ منصور احمد فردوسیؒ کا مخدوم جہاں اور سجادۂ مخدوم جہاں سے بے پناہ عشق اور اُن کا آپس میں ملنا اور ایک دوسرے کی عزت و تکریم کرنا آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو دل تیز تیز دھڑکنے لگتا  ہے۔ میرے بزرگوں نے مخدوم جہاںؒ سے اپنی عقیدت و محبت اپنے خون کے ساتھ ہی ہماری رگوں میں منتقل کردی ہیں اور ہم سب بھائی آج بھی غلامی کا یہ تاج بڑے فخر سے اپنے سروں پر سجائے پھرتے ہیں ۔مشغولیات کے سبب اب شرکت پہلے کی طرح نہیں ہو پاتی لیکن آج بھی ہمارا دل وہیں رہتا ہے۔خاص طور سےعرس کے دنوں میں ہمارا جسم وہا ں ہو نہ ہو دل وہیں رہتا ہے۔اور ہمیں یقین ہے کہ مخدوم جہاں کا فیضان آج بھی ہمارے اوپر اسی طرح جاری و ساری ہے۔بہر حال ہم سب بھائی، بڑے  ماموں جانؒ اور اباجانؒ  جناب حضور سید شاہ محمد امجاد فردوسی ؒ کی دست بوسی کے بعد اُن کے حجرے کے سامنے حضرت سید شاہ  قسیم الدین فردوسی ؒ کے کمرے میں دست بوسی کے لیے حاضر ہوجاتے۔ اُف کیا خوب شخصیت تھی۔کیسے بلند پایہ بزرگ تھے۔ علم کا سمندر لیکن خاموشی ایسی کہ سطح آب پر کوئی ہلچل نہیں۔مخدوم جہاں کے عشق کی آگ میں تپی ہوئی یہ شخصیتیں آج بھی نظروں کے سامنے پھرتی ہیں، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ایسی شخصیات کے دیدار اور ان کی محفلوں سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا جو بارگاہ الٰہی اور بارگاہ نبویﷺ میں مقبول ہیں۔ماموں جان اور اباجان سے علمی گفتگو شروع ہوجاتی ماموں جانؒ اور اباجان ؒ زیادہ تر خاموش رہتے اور وہ مکتوبات حضرت مخدوم جہاں کی تشریح فرماتے جاتے۔  یہ باتیں ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتیں لیکن ہم اس گفتگو کا فیض صاف محسوس کرتے۔ دل ان مجلسوں سے اٹھنا گوارہ نہ کرتا  لیکن وقت کی مجبوری ہوتی عرس کی دیگر تقریبات میں شرکت  کرنی ہوتی۔بعد مغرب ہم سب آستانہ مخدوم کی جانب روانہ ہوجاتے۔بازار میں کافی چہل پہل ہوتی لوگوں کا ایک ہجوم آستانہ کی جانب جاتا اور ادھر سے واپس آتا نظر آتا۔ شہر والوں کی جانب سے چادروں کا تانتا  لگا رہتا۔ہم درگاہ پہنچتے اُس وقت آستانے کے باہری گیٹ کی تعمیر نہیں ہوئی تھی ۔ایک عرصہ بعد اس سال مخدوم جہاںؒ کے آستانے پر حاضری کا موقع ملا اب نقشہ پہلے سے کافی بدل گیا ہے لیکن ذہن و دماغ میں وہ پرانی تصویر آج بھی اسی طرح  تازہ ہے۔درگاہ کے اندرونی حصّے میں پہنچ کر میرے بزرگوں کے دل کی عجیب کیفیت ہوتی۔  ایسالگتا جیسے ابھی جا کر حضرت مخدوم کی قبر مبارک سے لپٹ جائیں گے۔اُن کی چادر مبارک کو تھام لیں گے۔وہاں پہنچ کر وہ  سلام پیش کرکے مزار مبارک کو بوسہ دے کر ایک جانب کھڑے ہوجاتے اور فاتحہ پڑھنے میں مشغول ہوجاتے ۔وہ حضرت مخدوم جہاں کے فیضان سے فیضیاب ہونے کی دعائیں مانگتے اور ہم سب اُن کی تقلید کرتے۔ فاتحہ اور حاضری سے فارغ ہوکر مزار مبارک
حضرت مخدوم جہاں کا مصلہ
کے سامنے ہم سب اُس جگہ جمع ہوجاتے جہاں حضرت مخدوم جہاںؒ کا پتھر کا مصلّہ ہے۔ سب باری باری دو رکعت نماز نفل ادا کرتے۔ سامنے آج جہاں ایک بڑی مسجد تعمیر ہو رہی ہے وہاں ایک بڑا سائبان تھا جس میں بلخی حضرات قل فاتحہ و مجلس کرتےتھے۔ہم سب عشاء کی نماز کے بعد آستانہ کے گنبد کے سامنے اس حسین گھڑی کے انتظار میں جگہ لے کر بیٹھ جاتے جب اچانک شور اٹھتا جناب حضور کی سواری آرہی ہے۔ یہ رات کے بارہ بجے سے کچھ پہلے کا وقت ہوتا۔جناب حضور خانقاہ  معظم سے پالکی پر سوار ہوکر حضرت مخدوم کے آستانے پر تشریف لاتے ۔ پالکی کے چاروں جانب خدام کی بھیڑ ہوتی یہ پہلوان نما مریدین ہوتے جن کا کام یہ تھا کہ جناب حضور کی دست بوسی کے لیے مجمع کو بے قابو نہ ہونے دیں اور اس بھیڑ سے اُن کی حفاظت کریں۔ جناب حضور کی آمد کی خبر پر ہی ہم ہوشیار ہوجاتے۔ اس وقت خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ ،سملہ اور خانقاہ برہانیہ کمالیہ ،دیورہ کی یہ خدمت تھی کہ وہ آستانہ کے سامنے سجادۂ مخدوم کے بیٹھنے کے لیے اُس جگہ پر چادر بچھائیں جہاں پر قل و فاتحہ ہوتا ہے۔ ہم سب وہاں  بچھانے کے لیےنئی چادر لیے سجادۂ مخدوم کے انتظار میں بے تابانہ کھڑے ہوتے اور جیسے ہی آمد کی خبر ہوتی ہم چادر بچھاکر اُس جگہ کو پوری طرح گھیر لیتے۔ سجادہ مخدوم پالکی سے اتر کر اُس جگہ تشریف لاتے اور اِس چادر کو رونق بخشتے۔یہ خدمت برسوں تک  ان دونوں خانقاہوں کے ذمّے رہی۔فاتحہ شروع ہوتا۔ فاتحہ ختم ہونے پر سجادۂ مخدوم دعا کرتے۔صرف لبوں کی جنبش پرآستانہ آمین کی صداؤں سے گونجنے لگتا۔ صاف محسوس ہوتا دعائیں مقبول بارگاہ ہو رہی ہیں۔دعا ختم ہوتی اور قُل کی مٹھائی جناب حضور کی خدمت میں پیش کی جاتی  آپ اسے اپنی زبان سے لگاتے اور یہ وقت ہماری دھڑکنیں تیز کردیتا ہم سب جناب حضور کی جانب متوجہ ہوجاتے نگاہیں ان کے دست مبارک پر ہوتیں وہ بھی دل کا حال جانتے اور یہ تبرک ہم بھائیوں میں کسی ایک کے ہاتھ میں آجاتا اس دست شفقت کو ہم کبھی بھلا نہ سکیں گے۔ ہم سب بھائی اس نعمت کو آپس میں تقسیم کرلیتے۔ مٹھائی کا وہ چھوٹا سا دانہ ہم بھائیوں اور ہمارے بزرگوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ ہوتا۔ بتاتے ہیں کہ ایک بار ہمارے دادا ابّا حضرت شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی ؒ کو حضرت مخدوم جہاں ؒ کے عرس کے موقع پر ایک چاول گرا ہوا ملا۔آپ نے چاول کے اُس دانے کوکاغذ کے ایک ٹکڑے میں لپیٹ لیا۔گھر آنے پر اس دانے کو پانی میں دھو دھو کر خیر و برکت کی نیت سے گھر کے ہر فرد کو پلایا۔  نہ جانے ہماری ان دو خانقاہوں کی چادر بچھانے کی اس خدمت کو کس کی نظر لگ گئی ۔حاضرین محفل ہماری اس خدمت کورشک کی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ آستانہ پر قل و فاتحہ کے بعد جناب حضور کی دست بوسی کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا کے خدام کو اُن کو محفوظ رکھنے میں پسینے  آجاتے۔کسی طرح وہ پالکی میں سوار ہوکر ہجوم سے بچنے میں کامیاب ہو پاتے۔یہ سارا منظر آج بھی دل کو گرما دیتا ہے۔اس کے بعد ہم سب خانقاہ معظم کے لیے روانہ ہوجاتے۔

Friday 29 May 2020

Dil Phir Tawaaf e Koye Aqeedat Ko jaye Hai - A memory on Urs e Makhdoom jehan - Chiraghaan

دل پھر طواف کوئے ”عقیدت“ کو جائے ہے
حضرت مخدوم جہاں ؒ کے ”چراغاں“ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے نکلی ایک تحریر

آستانہ حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری ؒ
بہار و بنگال وجھارکھنڈ  کے لوگوں کے لیے شوال المکرم کا چانددوہری خوشیاں لے کر آتا ہے۔ایک تو عید کی خوشی  دوسرے بہار کے مشہور بزرگ حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری ؒ کے سالانہ عرس مبارک جسے عرف عام میں ”چراغاں“ کہا جاتا ہے میں شرکت کی خوشی۔ لوگوں کو سال بھر چراغاں کی آمد کا انتظار رہتا ہے اور عرس مبارک کی تقریبات نہایت تزک و احتشام سے ادا کی جاتی ہیں۔کل جیسا کہ اندازہ تھا یہ خبر ملی کہ اس سال کورونا جیسی مہلک وبا کی وجہ سے اس سال عرس میں عوامی شرکت کو ممنوع قرا دیا گیا ہے تو دل پر ایک عجیب سی اداسی چھا گئی اور ذہن کے پردے پرحضرت مخدوم جہاںؒ  کی بارگاہ سے نسبت اور خانقاہ معظم کے سجادگان کی ہما رے بزرگوں اور ان کی اولاد   پر نگاہ شفقت و عنایت  نظروں کے سامنے گھومنے لگیں۔  کیا وقت تھا اور کیسے کیسے لوگ تھے۔وقت کی سوئی مجھے برسوں قبل لے گئی  جب میں چھوٹا تھا۔ اس زمانے کی بہت ساری باتیں اب یاد نہیں لیکن جو باتیں اتنی دلپذیر ہوں کہ آپ کے دل و دماغ پر ثبت ہوجائیں تو وہ یادیں گردش زمانہ سے آپ کی نظروں سے مدھم تو ہوجاتی ہیں لیکن ایک ہلکی سی ہوا بھی اس گرد کو صاف و شفاف کر دیتی ہے۔ بچپن کے دن تھے کہ والد ماجد جنہیں ہم بھائی بہن ابّا جان کہہ کر مخاطب کرتے سے یہ اطلاع ملی کہ سجادۂ مخدوم  جہاں  جناب حضورحضرت  سیدشاہ   سجاد فردوسی ؒ جھریا تشریف لا رہے ہیں۔میرے والد کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہ تھا۔ہم سب کو حضرت مخدوم جہاںؒ کی غلامی کا شرف حاصل تھا اور میرے والد حضرت مخدو م جہاں کے سلسہ فردوسیہ کی ایک خانقاہ کے سجادہ نشیں اور ایک بلند پایہ بزرگ تھے۔اُن کا حضرت مخدوم جہاں اور ان کے سجادہ نشیں سے عشق کا یہ عالم تھا کہ یہ خبر سن  کرمقامی لفظوں میں بولائے بولائے پھرتے تھے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ اپنے گھر لائیں تو ان کو کہاں اٹھائیں اور کہاں بٹھائیں۔خبر ملی تھی کہ جھریا میں سب سے پہلے ان کی آمد محلہ کے ایک ذی حیثیت شخص جناب محمود صاحب کی رہائش گاہ پر ہوگی۔غالباً عصر کے قریب اُن کے آنے کا پروگرام تھا۔ جیسے جیسے اُن کی آمد کا وقت قریب ہورہا تھا والد محترم کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی ۔خدا خدا کرکے عصر کا وقت ہوا اور والد محترم حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانیؒ  محمود صاحب کے مکان پر جناب حضور کی دست بوسی کے لیے نکل پڑے۔ ہم سب بھائی بھی ساتھ تھے۔ دل میں ایک عجیب سی تڑپ تھی کہ جس عظیم شخصیت کی دست بوسی و قدم بوسی کے لیے جارہے ہیں وہ شخصیت دیکھنے میں کیسی ہوگی۔  دماغ میں ایک تصویر تھی کہ بہترین لباس میں کوئی شخصیت ہوگی جو جبہ و دستار سے لیس ہوگی ۔اب تک ہم نے جھریا کے جلسوں میں ایسی ہی شخصیتیں دیکھی تھیں۔جب ہم سب وہاں پہنچے تو جناب حضور (سجادۂ مخدوم کے لیے ہمارے یہاں احتراماً یہی لفظ رائج تھا  جو آج بھی اسی طرح باقی ہے۔اللہ تعالیٰ اس نسبت کو تا قیامت ایسے ہی قائم رکھے)عصر سے فارغ ہوکر مریدوں کے درمیان تشریف فرما تھے۔والد محترم اُن کی جانب بے تابانہ بڑھے اور وہ بھی گرم جوشی سے ابّا جان سے ملنے کی خاطراُن کی جانب متوجہ ہوئے دست بوسی کے بعد ہم سب نے باری باری جناب حضور کی دست  بوسی کا شرف حاصل کیا۔ اُن کا چہرہ فرط مسرت سے چمک رہا تھا۔انتہائی صاف ستھرا لباس غالباً اچکن کا انگرکھا نما کرتا تھا۔اور شانے پر ایک بڑا سفید رومال اور سر پر بہار شریف کی ایک خاص انداز کی ٹوپی جو ذرا سی کج رہتی ہے۔یہی لباس آج بھی سجادگان مخدوم کا تین پشتوں سے پسندیدہ لباس ان آنکھوں نے دیکھا ہے۔ذہن میں جو تصویر تھی وہ ایک لمحہ میں غائب ہوگئی سامنے ایک ایسی شخصیت تھی جس کے چہرے پر اپنے پن کا ایک ایسا احساس تھا کہ جیسے وہ اپنے عزیزوں سے مل رہے ہوں۔اتنی بڑی بارگاہ کے سجادہ کی ہم جیسے غلاموں پر یہ نظر عنایت یقیناً ایک بڑا کرم تھا جس کا نشہ آج بھی قائم ہے۔ایسی باوقار اور کم گو شخصیت اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ مزاج میں خاموشی ایسی تھی کہ جیسے جسم کا رواں رواں بول رہا ہو۔اور سامنے والا اپنے دل کے کانوں سے اس آواز  کو سن رہا ہو۔ ایسی روحانی مجلس میں شرکت کا یہ پہلا موقع تھا۔ ہم سب با ادب فرش پر دو زانو بیٹھے تھے اور قلب کی صفائی و ستھرائی کا کام جاری تھا ،نہ کسی وعظ کی ضرورت تھی اور نہ وظیفہ کی تلقین۔ بس خاموش فیض سے دل و دماغ سرشار ہو رہا تھا۔وہاں سے اٹھنے کا دل نہیں تھا لیکن جناب حضور کو بھی شاید کہیں اور جانا تھا۔ بہرحال والد محترم نے دوسرے دن اپنے غریب خانے”دارلشرف“ تشریف لانے کی دعوت دی جو فوراً قبول کرلی گئی۔جناب حضور حضرت سجاد فردوسی ؒ کے ساتھ اُن کے پوتے موجودہ سجادہ نشیں جنابحضور سید شاہ سیف الدین فردوسی مدظلہ جنہیں ہم سیفو بابوکہا کرتے، بھی تشریف لائے تھے جو اس وقت کافی کمسن تھے۔دوسرے دن جناب حضور ہمارے غریب خانہ پر تشریف لائے اور پھر کھانے وغیرہ  کےبعد گفتگو کا دور شروع ہوا۔ اس بات کا ذکر ہوا کہ موجودہ وقت میں لوگ خانقاہوں کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں   کہ خانقاہوں میں اب عالم کم ہوتے جارہے ہیں  لہذا ظاہری طور پر زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنے بچّوں کو بڑے دینی مدرسوں میں بھیجا جائے۔اس  زمانے میں ندوة العلما اپنے معتدل نظریے کےسبب زیادہ مقبول تھا۔اور سملہ خانقاہ سے وابستہ افراد وہاں زیر تعلیم رہ چکے تھے اور کچھ تعلیم حاصل کر رہے تھے جن میں خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کے موجودہ سجادہ نشیں  برادر محترم شاہ محمد تسنیم عثمانی فردوسی بھی شامل ہیں۔ تذکرہ جناب حضور سید شاہ سیف الدین فردوسی مدظلہ کی تعلیم کا تھا۔ والد ماجد نے فرمایا ”حضور سیفو بابو کو بھی ندوہ بھیج دیا جائے وہاں غلام پہلے سے موجود ہے کوئی تکلیف نہ ہوگی۔“اشارہ برادر محترم تسنیم عثمانی فردوسی کی جانب تھا۔جناب حضور فوراً والد  ماجدکی طرف متوجہ ہوئے اور کہا” غلام نہیں ، بھائی کہیے“ بہر حال مشورہ قبول کیا گیا اور والد ماجد کے کہنے پر جناب حضور سید شاہ سیف الدین فردوسی مدظلہ کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے ندوہ بھیجا گیا جہاں سے آپ نے سند فراغت حاصل کی۔


خوش خبری