Saturday 28 November 2020
Farozan Part 1 Class 6 Bihar School Text Book
ترتیب
شعرا و ادبا | اصناف | عنوانات |
الطاف حسین حالی | نظم | حمد |
منشی پریم چند | کہانی | دو بیل |
علامہ اقبال | نظم | جگنو |
ماخوذ | مضمون | حضرت عمر بن عبدالعزیز |
ڈاکٹر ذاکر حسین | کہانی | احسان کا بدلہ احسان |
افسر میرٹھی | نظم | وطن کا راگ |
ماخوذ | مضمون | گنگا ندی |
رابندر ناتھ ٹیگور | کہانی | کابلی والا |
ماخوذ | مضمون | گاندھی جی |
ماخوذ | مضمون | کمپیوٹر |
الطاف حسین حالی | نظم | کہنا بڑوں کا مانو |
ماخوذ | مضمون | نینی تال |
ماخوذ | راجستھانی کہانی | کنجوس کی کہانی |
مرزا غالب | غزل | غزل |
ماخوذ | مضمون | دہلی کی جامع مسجد |
ماخوذ | تبت کی کہانی | غریب بچّہ اور جادوگر |
اسماعیل میرٹھی | نظم | برسات |
ماخوذ | انشائیہ | شکر کا چکر |
شاد عظیم آبادی | غزل | غزل |
ماخوذ | سوانح | شہید پیر علی |
کلیم عاجز | غزل | غزل |
میر قربان علی دہلوی | مضمون | بہادر شاہ کا ہاتھی |
Sunday 22 November 2020
Mahol Bachaiye by Aslam Parvez NCERT Class 10 Nawa e Urdu
ماحول بچایئے
محمد اسلم پرویز
ایک عام آدمی کی نظر میں ماحولیاتی مسئلہ بھی ایک "سائنسی مسئلہ " ہے جس پر سائنس داں بحث کرتے رہتے ہیں۔ اس کے خیال میں یہ کوئی ایا مسئلہ نہیں ہے جس میں وہ دلچسپی لے یا جس پر غور وفکر کیا جائے۔ لیکن ذرا بتایئے کہ کیا ہم کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ آج کل کینسر کا مرض اتنی شدت کیوں اختیار کر گیا ہے، دل کے امراض کیوں عام ہورہے ہیں، لوگوں کو سانس کی تکلیف کیوں ہورہی ہے ، موسموں کا چلن کیوں بگڑ گیا ہے، برسات کی وہ رتیں اور جھڑیاں کیوں ختم ہوگئی ہیں، دریاؤں کا پانی گدلا اور کنوؤں کا پانی زہریلا کیوں ہو گیا ہے، تازہ ہوا کے وہ جھو نک کہاں چلے گئے کہ جو روح کو شاد کر جایا کرتے تھے، موتی کی طرح شفاف پانی کے وہ قدرتی چشمے کہاں کھو گئے جن کی تہہ کا حال اوپر سے ہی نظر آتا تھا۔ یقیناً یہ ایسے مسائل ہیں کہ جن کا تعلق ہم سے اور ہماری فنا و بقا سے ہے۔ اور اب اگر یہ کہا جائے کہ ان تمام مسلوں کا سیدھا واسطہ ہمارے بگڑتے ہوئے ماحول سے ہے تو کیا اب بھی آپ ماحولیاتی مسئلے کو سائنسی مسئلہ کہیں گے؟
قدرت نے دنیا کی ہر چیز کو ضرورت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ یہاں ہر ایک چیز دوسری چیز کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتی ہے۔ اس آپسی تعلق کو سمجھنے اور سمجھانے کا نام ” ماحولیاتی سائنس" ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان اس تعلق سے نہ صرف بخوبی واقف تھا بلکہ اس کی زندگی ان قدرتی وسائل کے گرد گھومتی تھی ۔ وہ پانی کے ذخیروں کے پاس بستیاں قائم کرتا تھا تا کہ قدرتی پانی اسے حاصل ہوتا رہے۔ جنگلات سے وہ لکڑی، چارہ اور غذا حاصل کرتا تھا ۔ زمین وسیع تھی اور آبادیاں کم تھیں۔ رفتہ رفتہ انسانی آبادی بڑھنے لگی تو ان وسائل کی مانگ بڑھی، ان پر دباؤ بڑھا اور ان کے لیے آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں ۔ کسی ملک کے زرخیز اور سر سبز و شاداب علاقوں نے وہاں حملہ آوروں کو بلا لیا تو کسی ملک کے جانور اور چراگا ہیں دشمن کی نظروں میں آ گئیں، طاقتور قوتیں اور ممالک کمزوروں کے وسائل پر قابض ہوکر انھیں بے دریغ استعمال کرنے لگے۔ قدرتی وسائل پر دوسرا حملہ صنعتی انقلاب کے دوران ہوا۔ صنعتی انقلاب نے انسان کو مشینوں سے روشناس کرایا۔ مشینوں کی مدد سے اگر چہ پیدا وار میں زبردست اضافہ ہوا اور ایسا ضروری بھی تھا کیوں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات بڑھتی جارہی تھیں ۔ لیکن اس اضافہ نے خام مال کی مانگ اور بھی بڑھا دی۔ جہاں کا غذ بنانے کے کارخانے لگے تو وہ علاقے جنگلات سے پاک ہو گئے کیونکہ تمام لکڑی کاغذ بنانے کی نذر ہوگئی۔ جہاں کسی دھات سازی کا کام ہوا تو وہاں کان کنی اتنی ہوگئی کہ تمام زمین کھود کھود کر بنجر بنادی گئی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی نئی تر قیات ہوتی گئیں اور انسانی زندگی پر مشینوں کی گرفت بڑھتی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو قدرتی توازن اس دنیا کے مکینوں کے در میان تھا، وہ برباد ہوگیا۔
انسان کے اردگرد اس کے اہم ترین ساتھی زمین، ہوا، پانی، جنگلات اور دیگر جاندار ہیں۔ یہی اس کا ماحول کہلاتے ہیں، ان سبھی کا آپس میں ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ یعنی اگر زمین خراب ہوگئی تو انسان اس سے متاثر ہوگا اور اگر انسان کا رویہ زمین کے تئیں بگڑے گا تو زمین خراب ہوگی ۔ انسان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مشینی دور کی آمد نے اس آپسی تعلق کو تہس نہس کردیا۔ کارخانوں اور فیکٹریوں نے نہ صرف یہ کہ خام مال کی شکل میں قدرتی وسائل کو بے تحاشہ استعمال کیا۔ بلکہ ان سے نکلنے والے زہریلے مادوں نے ہوا، پانی اور زمین کو زہر یلا کرنا شروع کر دیا۔ کارخانوں کی چمنیوں اور موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں اورگیسوں نے ہوا کو آلودہ کر دیا۔ جب فیکٹریاں اور گاڑیاں کم تھیں تو کم گیسیں فضا میں خارج ہوتی تھیں اور یہ تھوڑی سی مقدار بہت جلد ہوا میں گھل مل کر اتنی ہلکی ہوجاتی تھی کہ اس کا زہر یلا پن ختم ہو جاتا تھا۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے، اب اتنی زیادہ مقدار میں یہ گیسیں ہوا میں خارج ہوتی ہیں کہ ان کا پھیلنا اور تحلیل ہونا ناممکن ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام زہریلی گیسیں خطرناک حد تک ہوا میں جمع ہورہی ہیں۔ شہری اور صنعتی علاقوں کے اوپر کی گیسیں ایک غلاف کی مانند چھائی رہتی ہیں۔ ایسی ہوا میں جب ہم لوگ سانس لیتے ہیں تو یہ سب کیمیائی مادے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے کارخانوں اور موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والی گیسوں میں زیادہ مقدار کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی ہوتی ہے۔ ان سبھی کیسوں کی زیادتی ہمارے قدرتی ماحول کے لیے مضر ہے۔ ان میں سے کچھ گیسیں تیزاب کی شکل میں زمین پر آتی ہیں ۔ ایسی بارش کو "تیزابی بارش‘‘ کہا جاتا ہے اور کئی ممالک کو ان بارشوں کا تجربہ ہو چکا ہے اور ہورہا ہے۔ تیزابی بارش کی سب سے اہم وجہ سلفرڈائی آکسائیڈ گیس ہے۔ فضا میں اس گیس کی زیادتی خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ تیز ابی بارشیں نہ صرف یہ کہ پیڑ پودوں اور جانداروں کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ان سے عمارتیں اور دیگر سامان بھی متاثر ہوتا ہے۔
موٹر گاڑیوں سے نکلنے والی کثافت نے نہ صرف ہوا کو ہی متاثر کیا ہے بلکہ کارخانوں کا فضلہ ہوا کے علاوہ پانی اور زمین کو بھی خراب کرتا ہے۔ جب کارخانے کم تھے تو ان کا تھوڑا سا فضلہ پانی میں تحلیل ہو جاتا تھا لیکن جیسے جیسے کارخانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا پانی میں آلودگی بڑھتی گئی۔ آج یہ حال ہے کہ کسی بھی دریا کو ہم پوری طرح صاف اور صحت مند نہیں کہہ سکتے کسی کا پانی سڑ رہا ہے تو کسی کا پانی رنگین ہو گیا ہے، کسی میں گاد بہت ہے تو کسی کے پانی میں تیزابیت اتنی ہے کہ اس میں رہنے والے سبھی جاندار ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہوا اور پانی کی کثافت کو قابو میں رکھنے کے لیے قدرت نے بڑا اچھا انتظام کر رکھا ہے۔ زمین کے سینے میں پھیلے ہوئے جنگلات یہ کام بخوبی انجام دیتے ہیں ۔ ہوا کی آلودگی کو درخت اور دیگر پودے جذب کر لیتے ہیں نیز ان ہرے جانداروں سے خارج ہونے والی آکسیجن گیس ہوا کے زہریلے پن کو کم بھی کر دیتی ہے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ جنگلات بھی انسان کی دسترس سےمحفوظ نہ رہے۔ کہیں پر رہائش کے لیے جنگلات کو صاف کیا گیا تو کہیں کھیتی باڑی کے لیے جنگلات کاٹے گئے یا پھر کارخانوں اور فیکٹریوں کو قائم کرنے کے لیے جنگلات کو ختم کیا گیا۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین کا یہ ہرا غلاف اترنے لگا جس کی وجہ سے آلودگی میں مزید اضافہ ہوا۔
................................ بھلا ہم میں سے کون ہے جسے اپنی صحت عزیز نہ ہو۔ تو پھر یہ بے حسی کیسی ہے ۔ ہم کیوں انتظار کریں کہ جب چیکنگ اور چالان شروع ہوں تبھی اپنی گاڑیوں اور کارخانوں کو درست کریں۔ اگر ہم کو اپنی صحت پیاری ہے اور اپنے ننھے منے مسکراتے بچوں کو صحت مند فضا مہیا کرنی ہے تو ہمیں یہ بے حسی اور لاپروائی چھوڑنی ہوگی ۔ ورنہ یقین کریں کہ ہم اپنے معصوم بچوں کو ورثے میں ایک ایسی زہریلی فضا اور ماحول دیں گے جس میں وہ بھی مسکرا نہ سکیں گے اور شاید اگلی نسل کی مسکراہٹ تو دیکھ بھی نہ سکیں۔ (تلخیص)
قدرت نے دنیا کی ہر چیز کو ضرورت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ یہاں ہر ایک چیز دوسری چیز کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتی ہے۔ اس آپسی تعلق کو سمجھنے اور سمجھانے کا نام ” ماحولیاتی سائنس" ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان اس تعلق سے نہ صرف بخوبی واقف تھا بلکہ اس کی زندگی ان قدرتی وسائل کے گرد گھومتی تھی ۔ وہ پانی کے ذخیروں کے پاس بستیاں قائم کرتا تھا تا کہ قدرتی پانی اسے حاصل ہوتا رہے۔ جنگلات سے وہ لکڑی، چارہ اور غذا حاصل کرتا تھا ۔ زمین وسیع تھی اور آبادیاں کم تھیں۔ رفتہ رفتہ انسانی آبادی بڑھنے لگی تو ان وسائل کی مانگ بڑھی، ان پر دباؤ بڑھا اور ان کے لیے آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں ۔ کسی ملک کے زرخیز اور سر سبز و شاداب علاقوں نے وہاں حملہ آوروں کو بلا لیا تو کسی ملک کے جانور اور چراگا ہیں دشمن کی نظروں میں آ گئیں، طاقتور قوتیں اور ممالک کمزوروں کے وسائل پر قابض ہوکر انھیں بے دریغ استعمال کرنے لگے۔ قدرتی وسائل پر دوسرا حملہ صنعتی انقلاب کے دوران ہوا۔ صنعتی انقلاب نے انسان کو مشینوں سے روشناس کرایا۔ مشینوں کی مدد سے اگر چہ پیدا وار میں زبردست اضافہ ہوا اور ایسا ضروری بھی تھا کیوں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات بڑھتی جارہی تھیں ۔ لیکن اس اضافہ نے خام مال کی مانگ اور بھی بڑھا دی۔ جہاں کا غذ بنانے کے کارخانے لگے تو وہ علاقے جنگلات سے پاک ہو گئے کیونکہ تمام لکڑی کاغذ بنانے کی نذر ہوگئی۔ جہاں کسی دھات سازی کا کام ہوا تو وہاں کان کنی اتنی ہوگئی کہ تمام زمین کھود کھود کر بنجر بنادی گئی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی نئی تر قیات ہوتی گئیں اور انسانی زندگی پر مشینوں کی گرفت بڑھتی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو قدرتی توازن اس دنیا کے مکینوں کے در میان تھا، وہ برباد ہوگیا۔
انسان کے اردگرد اس کے اہم ترین ساتھی زمین، ہوا، پانی، جنگلات اور دیگر جاندار ہیں۔ یہی اس کا ماحول کہلاتے ہیں، ان سبھی کا آپس میں ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ یعنی اگر زمین خراب ہوگئی تو انسان اس سے متاثر ہوگا اور اگر انسان کا رویہ زمین کے تئیں بگڑے گا تو زمین خراب ہوگی ۔ انسان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مشینی دور کی آمد نے اس آپسی تعلق کو تہس نہس کردیا۔ کارخانوں اور فیکٹریوں نے نہ صرف یہ کہ خام مال کی شکل میں قدرتی وسائل کو بے تحاشہ استعمال کیا۔ بلکہ ان سے نکلنے والے زہریلے مادوں نے ہوا، پانی اور زمین کو زہر یلا کرنا شروع کر دیا۔ کارخانوں کی چمنیوں اور موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں اورگیسوں نے ہوا کو آلودہ کر دیا۔ جب فیکٹریاں اور گاڑیاں کم تھیں تو کم گیسیں فضا میں خارج ہوتی تھیں اور یہ تھوڑی سی مقدار بہت جلد ہوا میں گھل مل کر اتنی ہلکی ہوجاتی تھی کہ اس کا زہر یلا پن ختم ہو جاتا تھا۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے، اب اتنی زیادہ مقدار میں یہ گیسیں ہوا میں خارج ہوتی ہیں کہ ان کا پھیلنا اور تحلیل ہونا ناممکن ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام زہریلی گیسیں خطرناک حد تک ہوا میں جمع ہورہی ہیں۔ شہری اور صنعتی علاقوں کے اوپر کی گیسیں ایک غلاف کی مانند چھائی رہتی ہیں۔ ایسی ہوا میں جب ہم لوگ سانس لیتے ہیں تو یہ سب کیمیائی مادے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے کارخانوں اور موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والی گیسوں میں زیادہ مقدار کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی ہوتی ہے۔ ان سبھی کیسوں کی زیادتی ہمارے قدرتی ماحول کے لیے مضر ہے۔ ان میں سے کچھ گیسیں تیزاب کی شکل میں زمین پر آتی ہیں ۔ ایسی بارش کو "تیزابی بارش‘‘ کہا جاتا ہے اور کئی ممالک کو ان بارشوں کا تجربہ ہو چکا ہے اور ہورہا ہے۔ تیزابی بارش کی سب سے اہم وجہ سلفرڈائی آکسائیڈ گیس ہے۔ فضا میں اس گیس کی زیادتی خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ تیز ابی بارشیں نہ صرف یہ کہ پیڑ پودوں اور جانداروں کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ان سے عمارتیں اور دیگر سامان بھی متاثر ہوتا ہے۔
موٹر گاڑیوں سے نکلنے والی کثافت نے نہ صرف ہوا کو ہی متاثر کیا ہے بلکہ کارخانوں کا فضلہ ہوا کے علاوہ پانی اور زمین کو بھی خراب کرتا ہے۔ جب کارخانے کم تھے تو ان کا تھوڑا سا فضلہ پانی میں تحلیل ہو جاتا تھا لیکن جیسے جیسے کارخانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا پانی میں آلودگی بڑھتی گئی۔ آج یہ حال ہے کہ کسی بھی دریا کو ہم پوری طرح صاف اور صحت مند نہیں کہہ سکتے کسی کا پانی سڑ رہا ہے تو کسی کا پانی رنگین ہو گیا ہے، کسی میں گاد بہت ہے تو کسی کے پانی میں تیزابیت اتنی ہے کہ اس میں رہنے والے سبھی جاندار ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہوا اور پانی کی کثافت کو قابو میں رکھنے کے لیے قدرت نے بڑا اچھا انتظام کر رکھا ہے۔ زمین کے سینے میں پھیلے ہوئے جنگلات یہ کام بخوبی انجام دیتے ہیں ۔ ہوا کی آلودگی کو درخت اور دیگر پودے جذب کر لیتے ہیں نیز ان ہرے جانداروں سے خارج ہونے والی آکسیجن گیس ہوا کے زہریلے پن کو کم بھی کر دیتی ہے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ جنگلات بھی انسان کی دسترس سےمحفوظ نہ رہے۔ کہیں پر رہائش کے لیے جنگلات کو صاف کیا گیا تو کہیں کھیتی باڑی کے لیے جنگلات کاٹے گئے یا پھر کارخانوں اور فیکٹریوں کو قائم کرنے کے لیے جنگلات کو ختم کیا گیا۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین کا یہ ہرا غلاف اترنے لگا جس کی وجہ سے آلودگی میں مزید اضافہ ہوا۔
................................ بھلا ہم میں سے کون ہے جسے اپنی صحت عزیز نہ ہو۔ تو پھر یہ بے حسی کیسی ہے ۔ ہم کیوں انتظار کریں کہ جب چیکنگ اور چالان شروع ہوں تبھی اپنی گاڑیوں اور کارخانوں کو درست کریں۔ اگر ہم کو اپنی صحت پیاری ہے اور اپنے ننھے منے مسکراتے بچوں کو صحت مند فضا مہیا کرنی ہے تو ہمیں یہ بے حسی اور لاپروائی چھوڑنی ہوگی ۔ ورنہ یقین کریں کہ ہم اپنے معصوم بچوں کو ورثے میں ایک ایسی زہریلی فضا اور ماحول دیں گے جس میں وہ بھی مسکرا نہ سکیں گے اور شاید اگلی نسل کی مسکراہٹ تو دیکھ بھی نہ سکیں۔ (تلخیص)
محمد اسلم پرویز
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز
(1954)
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کا شمار ملک کی اہم تعلیمی اور سائنسی شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم دہلی کی معروف درس گاہ اینگلو عربک اسکول اور اعلی تعلیم دہلی یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ نباتیات میں ایم ایس سی ، پلانٹ فزیولوجی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین دہلی کالج میں بحیثیت سائنس لیکچرار ملازمت کا آغاز کیا۔ 2005 سے 2015 تک اسی کالج کے پر نسپل رہے۔ اکتوبر 2015 سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں۔
ڈاکٹر اسلم پرویز نے تعلیم اور سائنس کے شعبوں میں کئی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔ پاپولر سائنس کے فروغ نیز ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ اردوزبان میں سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ اسلامک فاؤنڈیشن فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کے ڈائرکٹر بھی رہے ہیں۔ 1994 سے ماہنامہ ”سائنس“ اردو زبان میں پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ مختلف سائنسی اور ماحولیاتی موضوعات پر ان کی کئی کتا ہیں اور تقریباً چارسو تحقیقی مضامین ملک اور بیرون ملک کے اہم جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔
غور کرنے کی بات:
اس مضمون میں مصنف نے معاشرے کے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آج جانے یا انجانے ہم اپنے ماحول کو بگاڑ رہےہیں اور اپنے لیے بہت سے خطرات پیدا کر رہے ہیں مگر ہم میں سے اکثر اس سے بے خبر ہیں۔
سوالوں کے جواب لکھے:
1۔ "صنعتی انقلاب‘‘ سے ہمارے قدرتی وسائل کس طرح متاثر ہوئے ہیں؟ بیان کیجیے۔
2۔ ' تیزابی بارش' کسے کہتے ہیں؟ اس کے اسباب پر روشنی ڈالیے؟
3۔ ہمیں اپنے ماحول کو بچانے کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
4۔ ماحول بچانا کیا صرف سائنس دانوں ہی کا کام ہے یا ہر شہری کا۔ مختصراً لکھیے۔
عملی کام :
اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ماحول بچاؤ تحریک شروع کریں ۔ لوگوں کو پیڑ پودے لگانے ، آلودگی کو کم کرنے ، گاڑیوں اور کارخانوں کی زہریلی گیسوں کو دور کرنے کے لیے تا کید کریں ۔ ایک پوسٹر بنائیے جس پرمختلف رنگوں سے لکھیے :
" بچوں کی مسکان بچائیں
آؤ ہم ماحول سجائیں "
Chori Aur Uska Kaffara by Syed Abid Hussain NCERT Class 10 Nawa e Urdu
چوری اور اس کا کفاره
مترجم : سید عابد حسین
ہائی اسکول میں جن لڑکوں سے مجھ سے مختلف اوقات میں دوستی رہی ان میں سے دوقلبی دوست کہے جا سکتے ہیں ۔ ایک سے میری دوستی زیادہ دن نہیں رہی۔ میں نے اسے نہیں چھوڑا بلکہ اس نے مجھے چھوڑ دیا، اس قصور پر کہ میں نے دوسرے سے میل جول پیدا کیا۔ اس دوسری دوستی کو میں اپنی زندگی کا ایک الم ناک واقعہ سمجھتا ہوں ۔ یہ بہت دن قائم رہی۔ میں نے اسے اصلاح کے جوش میں شروع کیا تھا۔
میرا یہ رفیق اصل میں میرے منجھلے بھائی کا دوست تھا۔ یہ دونوں ہم سبق تھے۔ میں اس کی کمزوریوں سے واقف تھا، مگر اسے وفادار دوست سمجھتا تھا۔ میری ماں نے، میرے بڑے بھائی نے ، میری بیوی نے مجھے متنبہ کیا کہ تمھاری صحت خراب ہے۔ بیوی کی بات تو میں شوہر ی کے غرور میں کب سنتا تھا، لیکن ماں اور بڑے بھائی کی رائے کے خلاف عمل کرنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ پھر بھی میں نے ان سے عذر معذرت کی اور کہا میں جانتا ہوں کہ اس میں وہ کمزوریاں ہیں جو آپ نے بتائیں مگر آپ کو اس کی اچھائیوں کی خبر نہیں ۔ وہ مجھے گمراہ نہیں کرسکتا کیوں کہ میں اس سے اس نیت سے ملتا ہوں کہ اس کی اصلاح کروں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اپنے اطوار درست کرے تو بڑا اچھا آدمی ہو جائے گا۔ میری التجا ہے کہ آپ میری طرف سے تردد نہ کریں‘‘
اس سے ان کا اطمینان تو نہیں ہوا مگر انھوں نے میری توجیہہ مان لی اور مجھے میری راہ چلنے دیا۔ آگے چل کر مجھے معلوم ہوا کہ میرا اندازہ غلط تھا۔ جو شخص کسی کی اصلاح کرنا چاہتا ہے وہ اس کے ساتھ شیر وشکر ہو کر نہیں رہ سکتا۔ سچی دوستی روحانی اتحاد کا نام ہے جو اس دنیا میں بہت کم ہوتا ہے۔ صرف ان ہی لوگوں میں جن کی طبیعت ایک سی ہو، دوستی پوری طرح مکمل اور پائدار ہوسکتی ہے۔ دوستوں میں ہر ایک کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے، اسی لیے دوستی میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ میری رائے میں کسی ایک شخص سے ایک جان دو قالب ہو جانے سے پرہیز کرنا چاہیے، کیوں کہ انسان پر بہ نسبت نیکی کے بدی کا اثر جلد پڑتا ہے اور جو شخص خدا کا دوست ہونا چاہتا ہے اسے لازم ہے کہ یا تو اکیلا رہے یا ساری دنیا سے دوستی کرے ممکن ہے کہ میری رائے غلط ہو مگر مجھے تو قلبی دوستی پیدا کرنے میں ناکامی ہوئی۔
جن دنوں میں میری ملاقات اس دوست سے ہوئی، راج کوٹ میں’ریفارم‘‘ کا بڑا زور تھا، اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے بہت سے استاد چھپ کر شراب اور گوشت کا استعمال کرتے ہیں ۔ اس نے راج کوٹ کے بہت مشہور آدمیوں کے نام بھی لیے جو اس جماعت میں شریک تھے۔ اس نے کہا کہ اس زمرے میں ہائی اسکول کے بعض لڑکے بھی ہیں۔
مجھے یہ سن کر تعجب اور رنج ہوا۔ میں نے اپنے دوست سے اس کا سبب پوچھا تو اس نے کہا ” ہماری قوم گوشت نہیں کھاتی اس لیے کمزور ہے۔ انگریز لوگ گوشت کھاتے ہیں، اسی لیے وہ ہم پرحکومت کرنے کے قابل ہیں ۔ تم جانتے ہو میں کیسا مضبوط ہوں اور کتنا تیز دوڑتا ہوں ۔ اس کا سبب یہی ہے کہ میری غذا گوشت ہے۔ گوشت کھانے والوں کے پھوڑے پھنسی نہیں نکلتے اور بھی نکل بھی آئیں تو جلد اچھے ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے استاد اور ہمارے دوسرے بڑے آدمی جو گوشت کھاتے ہیں، احمق نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس میں کیا خوبیاں ہیں تمھیں بھی اس کی تقلید کرنا چاہیے۔ آخر آزمائش کرنے میں کیا حرج ہے ۔تم آزما کر دیکھو کہ گوشت کھانے سے کیسی طاقت آتی ہے۔
گوشت کھانے کی تائید میں یہ ساری دلیلیں ایک ہی نشست میں پیش نہیں کی گئیں۔ یہ اس طول طویل استدلال کا خلاصہ ہے جس سے میرا دوست مجھ پر وقتاً فوقتاً اثر ڈالتا رہا۔ میرے منجھلے بھائی پہلے ہی مغلوب ہو چکے تھے۔ اس لیے وہ میرے دوست کی دلیلوں کی تائید کرتے تھے۔ میں واقعی اپنے بھائی اور اس دوست کے مقابلے میں بالکل مریل معلوم ہوتا تھا۔ وہ مجھ سے زیادہ قوی اور جفاکش بھی تھے اور جری بھی۔ اس دوست کے کارناموں نے مجھ پر جادو سا کر دیا۔ وہ بہت دور تک اور بڑی تیزی سے دوڑ سکتا تھا، کود پھاند میں مشتاق اور سخت سے سخت جسمانی سزا برداشت کر لیتا تھا۔ وہ مجھے اکثر اپنے کارنامے دکھایا کرتا تھا اور یہ قاعدے کی بات ہے کہ انسان دوسروں میں وہ صفتیں دیکھ کر جو اس میں نہ ہوں، دنگ رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد میرے دل میں ولولہ اٹھا کہ اس کے جیسا بنوں ۔ میں نہ کود سکتا تھا، نہ دوڑ سکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں بھی اس کی طرح مضبوط کیوں نہ ہو جاؤں؟
پھر میں بزدل بھی تھا۔ مجھے ہر وقت چوروں، بھوتوں اور سانپوں کا کھٹکا رہتا تھا۔ رات کو گھر سے باہر قدم رکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ اندھیرے سے میری روح فنا ہوتی تھی۔ میرے لیے اندھیرے میں سونا تقر یب ناممکن تھا، کیوں کہ مجھے وہم ہوتا تھا کہ ایک
طرف سے بھوت چلے آرہے ہیں، دوسری طرف سے چور ، تیسری طرف سے سانپ، بغیر کمرے میں روشنی رکھے مجھے سوتے نہ بنتا تھا۔ میں اپنے خوف کو اپنی کمسن بیوی پر کیوں کر ظاہر کرتا؟ میں جانتا تھا کہ ان میں مجھ سے زیادہ ہمت ہے اور مجھے اپنے اوپر شرم آتی تھی۔ انھیں سانپوں اور بھوتوں کا کوئی ڈر نہ تھا۔ وہ اندھیرے میں ہر جگہ چلی جاتی تھیں۔ میرے دوست کو میری ان کمزوریوں کا حال معلوم تھا۔ وہ کہتا تھا کہ میں زندہ سانپ ہاتھ پر رکھ سکتا ہوں ۔ چوروں کا مقابلہ کرسکتا ہوں اور بھوتوں کا قائل ہی نہیں ہوں ۔ یہ گوشت کھانے کی برکت ہے۔
ان سب باتوں کا مجھ پر کافی اثر پڑا۔ میں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ مجھے رفتہ رفتہ یقین ہونے لگا کہ گوشت کھانا اچھا ہے اس سے مجھ میں قوت اور جرات پیدا ہو جائے گی اور اگر سارا ملک گوشت کھانے لگے تو انگریز مغلوب ہو جائیں گے۔
اب تجر بہ شروع کرنے کے لیے ایک دن مقرر ہوا۔ اسے پوشیدہ رکھنا بہت ضروری تھا۔ سارا گاندھی خاندان ویشنو تھا اور میرے والدین تو بڑے پکے ویشنو تھے ۔ وہ پابندی سے "حویلی‘‘ جایا کرتے تھے، بلکہ خود ہمارے خاندان کے جداگانہ مندر بھی تھے۔ جین مت کا گجرات میں بہت زور تھا اس کا اثر ہر وقت ہر جگہ نظر آتا تھا۔ گجرات کے جین اور ویشنو لوگوں کو گوشت کھانے سے جتنی سخت نفرت تھی اس کی مثال نہ ہندوستان میں ملتی ہے اور نہ کسی اور ملک میں میری ولادت اور پرورش اس ماحول میں ہوئی تھی اور مجھے اپنے والدین سے بڑی محبت تھی ۔ میں جانتا تھا کہ جس دم وہ میرے گوشت کھانے کی خبر سن پائیں گے، صدے کے مارے مر جائیں گے۔ سچائی کی محبت نے مجھے اور بھی زیادہ احتیاط پرمجبور کر دیا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اس وقت اس کا احساس نہ تھا کہ اگر میں نے گوشت کھانا شروع کر دیا تو والدین کو دھوکا دینا پڑے گا لیکن میں نے دل میں ٹھان لی کہ" ریفارم“ ضرور کروں گا۔ اس میں زبان کی چاٹ کو دخل نہ تھا۔ میں نے گوشت کے مزے کی کوئی خاص تعریف نہیں سنی تھی، مگر میں چاہتا تھا کہ میں قوی اور بہادر ہو جاؤں اور میرے دیس کے لوگ بھی ایسے ہی ہو جائیں تاکہ ہم انگریزوں کو شکست دیں اور ہندوستان کو آزاد کرالیں۔’ سوراج‘‘ کا لفظ میں نے اب تک نہیں سنا تھا، مگر آزادی کے معنی جانتا تھا۔ ریفارم‘‘ کے جوش نے مجھے اندھا کر دیا۔ میں نے اس بات کو مخفی رکھنے کا بندوبست کیا، اور اپنے دل کو سمجھا لیا کہ محض اس فعل کو والدین سے چھپانا حق سے انحراف نہیں ہے۔
آخر وہ دن آ گیا۔ اس وقت میرا جو حال تھا اسے پوری طرح بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک طرف تو ’’ ریفارم‘‘ کا جوش اور زندگی میں ایک اہم تبدیلی کی جدت کا لطف تھا اور دوسری طرف اسی کام کو چوروں کی طرح چھپ کر کرنے کی شرم تھی ۔ میں نہیں کہہ سکتا دونوں میں سے کون سی چیز مجھ پر غالب تھی ۔ ہم نے دریا کے کنارے جا کر ایک گوشہء تنہائی ڈھونڈا اور میں نے اپنی عمر میں پہلی بار گوشت دیکھا۔ اس کے ساتھ تنوری روٹی بھی تھی۔ مجھے دونوں چیزوں میں سے کوئی چیز پسند نہ آئی ۔ بکری کا گوشت چھڑے کی طرح سخت تھا مجھ سے کسی طرح نہیں کھایا جاتا تھا۔ مجھے قے ہوگئی اور کھانا چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔
اس کے بعد کی رات بڑی بری طرح گزری۔ مجھے بڑا ہولناک خواب نظر آیا۔ جب آنکھ لگتی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زندہ بکری میرے پیٹ کے اندر ممیارہی ہے اور میں گھبرا کر اچھل پڑتا تھا۔ مگر میں اپنے دل کو سمجھاتا تھا کہ گوشت کا کھانا فرض ہے اور اس سے مجھے کچھ تسکین ہو جاتی تھی۔
میرا دوست آسانی سے ہار ماننے والا نہ تھا۔ اب عمدہ مسالے ڈال کر گوشت کے مزیدار کھانے پکانے لگا۔ کھانا کھانے کے لیے ہمیں ایک دریا کے کنارے سونی جگہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ ایک ریاست کے مکان میں کھاتے تھے جس میں کھانے کا علاحدہ کمرہ میز کرسی سے سجا ہوا تھا۔ میرے دوست نے وہاں کے بڑے باور چی سے ساز باز کر کے یہ انتظام کیا تھا۔
میں اس لالچ میں آ گیا۔ مجھے بوٹی سے کراہت تھی وہ دور ہوگئی ۔ بکری پر ترس آتا تھا وہ جاتا رہا اور اب گوشت کی بوٹی میں تو نہیں مگر سالن میں مزا آنے لگا۔ یہ سلسلہ قریب قریب ایک سال تک چلتا رہا، لیکن اس عرصہ میں گوشت کی دعوتیں سب مل کر چھے سے زیادہ نہیں ہوئیں، کیوں کہ ریاست کا مکان روز روز نہیں ملتا تھا اور پھر یہ دقت بھی تھی کہ مزیدار کھانوں میں اکثر صرفہ بہت ہوتا تھا۔ میرے پاس اس ریفارم کی قیمت ادا کرنے کے لیے دام نہ تھے اس لیے ہر مرتبہ خرچ کا انتظام میرے دوست ہی کو کرنا پڑتا تھا۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کہاں سے اتنا رو پیہ لاتا ہے مگر کسی نہ کسی طرح وہ لے ہی آتا تھا، کیوں کہ وہ اس پر تلا ہوا تھا کہ مجھے گوشت کھانے کا عادی کر دے۔ مگر آخر اس کی آمدنی بھی محدود ہی ہوگی، اس لیے بہت کم دعوتیں ہوسکیں اور وہ بھی طویل وقفوں کے بعد۔ جب کبھی میں یہ چوری کی دعوتیں اڑاتا تھا تو ظاہر ہے کہ گھر آ کر کھانا نہیں کھا سکتا تھا۔ میری والدہ قدرتی طور پر کھانے کے لیے اصرار کرتی تھیں اور خواہش نہ ہونے کا سبب پوچھتی تھیں۔ میں ان سے کہ دیتا تھا۔ "آج مجھے بھوک نہیں ہے۔ میرے ہاضمے میں کچھ خرابی ہے۔" یہ بہانے کرنے پر میرا دل مجھے ملامت کرتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ جھوٹ بول رہا ہوں اور وہ بھی اپنی والدہ سے۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اگر میرے باپ کو میرے گوشت کھانے کی خبر ہوگئی تو انھیں بہت سخت صدمہ ہوگا۔ یہ خیال میرے لیے سوہان روح تھا۔
اس لیے میں نے اپنے دل میں کہا۔ اگر چہ گوشت کھانا بہت ضروری چیز ہے اور یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ملک میں غذا کی اصلاح کی جائے ، لیکن اپنے ماں باپ کو دھوکا دینا اور ان سے جھوٹ بولنا گوشت نہ کھانے سے بھی بدتر ہے۔ جب تک وہ زندہ ہیں گوشت کھانا ممکن نہیں جب وہ نہ رہیں گے اور میں آزاد ہو جاؤں گا تو کھلم کھلا گوشت کھاؤں گا لیکن میں اس وقت تک اس سے پرہیز کروں گا۔ اس پر خلوص خواہش کی وجہ سے کہ اپنے والدین سے جھوٹ نہ بولوں میں نے گوشت چھوڑ دیا مگر اپنے دوست کی صحبت نہ چھوڑی ۔ اس کی اصلاح کرنے کے جوش نے مجھے برباد کردیا تھا مگر مجھے اس کا بالکل احساس نہ تھا۔
مجھے ابھی اپنی چند اور لغزشوں کا ذکر کرنا ہے جو گوشت کھانے کے زمانے میں اور اس سے پہلے مجھ سے سرزد ہوئیں۔ ان کا سلسلہ میری شادی کے وقت سے یا اس کے تھوڑے ہی دن بعد شروع ہوتا ہے۔
میرے ایک عزیز کو اور مجھے سگریٹ پینے کا چسکا لگ گیا۔ یہ بات نہ تھی کہ ہم اس عادت کو اچھا سمجھتے ہوں یا سگریٹ کی خو شبو پر ریجھے ہوں ۔ ہمیں تو صرف منھ سے دھواں نکالنے میں ایک خیالی لطف آتا تھا۔ میرے چچا اس کے عادی تھے اور جب ہم انھیں سگریٹ پیتے دیکھتے تھے تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ ان کی طرح ہم بھی پئیں مگر ہمارے پاس دام تو تھے ہیں اس لیے ہم نے ابتدا اس طرح کی کہ ہم سگریٹ کے ٹکڑے جو ہمارے چچا پی کر پھینک دیتے تھے چرا لاتے تھے۔
مگر یہ ٹکڑے ہر وقت نہیں مل سکتے تھے اور ان سے دھواں بھی زیادہ نہیں نکلتا تھا۔ اس لیے ہم نے نوکروں کے جیب خرچ میں سے پیسے چرانا شروع کیے کہ ہندوستانی سگریٹ خریدیں مگر مصیبت یہ تھی کہ انھیں رکھیں کہاں، کیوں کہ ظاہر ہے کہ ہم بڑوں کے سامنے تو سگریٹ پی نہیں سکتے تھے۔ چند ہفتے تک تو ہم کسی نہ کسی طرح ان چرائے ہوئے پیسوں سے کام چلاتے رہے۔ اس عرصے میں ہم نے سنا کہ ایک درخت کی ڈال میں مسامات ہوتے ہیں اور اس کے ٹکڑے سگریٹ کی طرح پیے جاسکتے ہیں۔ ہم انھیں لے آئے اور پینا شروع کر دیا۔
لیکن ان چیزوں سے ہماری تسلی نہ ہوتی تھی۔ آزادی نہ ہونا ہمیں کھلنے لگا۔ ہم سے یہ برداشت نہ ہوتا تھا کہ ہم بغیر بڑوں کی اجازت کے کچھ نہ کر سکیں۔ آخر زندگی سے متنفر ہو کر ہم نے خودکشی کی ٹھان لی۔
مگر اب یہ سوال تھا کہ خودکشی کیسے کی جائے؟ زہر کھائیں تو زہر کہاں سے لائیں؟ ہم سے کسی نے کہا کہ دھتورے کے بیج زہر قاتل ہیں ۔ ہم دوڑے ہوئے جنگل میں گئے اور بیج لے آئے ۔ ہم نے شام کے وقت کو اس کام کے لیے مبارک سمجھا۔ ہم ”کیدار جی مندر" میں گئے۔ وہاں کے چراغ میں گھی ڈالا ۔’’ درشن‘‘ لیے اور کوئی سونی جگہ ڈھونڈنے لگے۔ مگر ہماری ہمت نے جواب دے دیا۔ فرض کرو کہ ہم فوراً نہ مرے! اور آخر مرنے سے فائدہ ہی کیا؟ آزادی نہیں ہے تو نہ سہی، اسی حالت کو کیوں نہ برداشت کریں؟ پھر بھی ہم دوتین بیج نگل ہی گئے ۔ ہم دونوں موت سے ڈر گئے اور ہم نے طے کیا کہ "رام جی مندر" جا کر حواس درست کریں اور خودکشی کا خیال چھوڑ دیں۔
مجھے معلوم ہو گیا کہ خودکشی کرنا اتنا سہل نہیں جتنا اس کا ارادہ کرنا اور اس دن سے جب کبھی میں سنتا ہوں کہ فلاں شخص خودشی کی دھمکی دے رہا ہے تو مجھ پر بہت کم اثر ہوتا ہے۔
خودکشی کے خیال کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دونوں نے سگریٹ کے ٹکڑے پینا اور سگریٹ کے لیے نوکروں کے پیسے چرانا چھوڑ دیا۔ جب سے میں بالغ ہوا ہوں مجھے کبھی تمباکو پینے کی خواہش نہیں ہوئی، اور میں اس عادت کو تہذیب کے خلاف ، صفائی کے خلاف اور مضر سمجھتا ہوں ۔ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہ آئی کہ ساری دنیا میں لوگ تمباکو پینے پر کیوں جان دیتے ہیں ۔ مجھ سے تو ریل کے ڈبے میں جہاں تمباکو پینے والے بھرے ہوں نہیں بیٹھا جاتا۔ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔
لیکن اس سے کہیں بڑی چوری کا میں کچھ دن بعد مرتکب ہوا جب میں نے پیسے چرائے تو میری عمر بارہ تیرہ سال کی بلکہ اس سے بھی کم تھی۔ دوسری چوری کے وقت میں پندرہ برس کا تھا۔ اس بار میں نے اپنے گوشت کھانے والے بھائی کے بازوبند سے ایک سونے کا تکڑا چرایا۔ یہ بھائی پچیس روپے کے مقروض تھے۔ وہ بازو پر خالص سونے کا باز و بند باندھا کرتے تھے۔ اس میں سے ایک ٹکڑا کاٹ لینا کوئی مشکل بات نہ تھی۔
چنانچہ ایسا کیا گیا اور قرض ادا ہوگیا لیکن اتنا سنگین جرم تھا کہ مجھ سے کسی طرح برداشت نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے عہد کرلیا کہ پھر کبھی چوری نہ کروں گا۔ میرا یہ بھی ارادہ ہوا کہ اپنے والد کے سامنے جرم کا اعتراف کرلوں مگر ہمت نہ پڑتی تھی۔ یہ بات نہ تھی کہ مجھے والد کے ہاتھ سے مار کھانے کا ڈر ہو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے انھوں نے ہم لوگوں کو کبھی نہیں مارا۔ خوف تھا تو یہ کہ انھیں بہت دکھ ہوگا۔
آخر میں یہ فیصلہ کیا کہ میں اعتراف نامہ لکھ کر اپنے والد کو دوں اور ان سے معافی کی درخواست کروں ۔ میں نے سارا واقعہ ایک کاغذ پر لکھا اور خود لے جا کر انھیں دیا۔ اس رقعے میں میں نے نہ صرف اپنے جرم کا اعتراف کیا بلکہ یہ خواہش بھی کی کہ مجھے اس کی کافی سزا دی جائے اور آخر میں ان سے درخواست کی کہ میرے قصور کے بدلے وہ اپنا دل نہ کڑھائیں۔ میں نے اس بات کا عہد کیا کہ پھر کبھی چوری نہ کروں گا۔
میں نے اعتراف نامہ انھیں دیا تو میں کانپ رہا تھا۔ وہ ان دنوں ناسور میں مبتلا تھے اور صاحب فراش تھے۔ ایک کھرے تخت پر لیٹے رہتے تھے۔ میں نے رقعہ انہیں دے دیا اور چوکی کے سامنے بیٹھ گیا۔
انھوں نے اسے اول سے آخر تک پڑھا اور موتیوں کے قطرے ٹپ ٹپ ان کے رخساروں پر اور کاغذ پر گرنے لگے۔ دم بھر وہ آنکھیں بند کر کے سوچتے رہے اس کے بعد انہوں نے رقعہ پچھاڑ کر پھینک دیا۔ وہ اسے پڑھنے کے لیے پہلے بیٹھ گئے تھے اب وہ پھر لیٹ گئے۔ میں بھی رونے لگا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ انھیں کیسا دکھ ہے۔ اگر میں نقاش ہوتا تو آج اتنے دن کے بعد بھی پورے منظر کی تصویر کھینچ دیتا۔ اس واقعہ کی یاد میرے دل میں اب تک تازہ ہے۔
ان محبت کے موتیوں نے میرے دل کو پاک کر دیا اور میرے گناہ کو دھوڈالا۔ اس محبت کو وہی خوب جانتا ہے جس نے اس کا لطف اٹھایا ہے۔
یہ میرے لیے' اہمسا' کاعملی سبق تھا۔ اس وقت تو مجھے اس میں سوائے باپ کی محبت کے کچھ نظر نہ آتا تھا، مگر آج میں جانتا ہوں کہ یہ خالص 'اہمسا' تھا۔ جب یہ 'اہمسا' ہمہ گیر ہو جا تا ہے تو جس چیز کو چھوتا ہے اس کی کایا پلٹ دیتا ہے۔ اس کی قوت کی کوئی انتہا نہیں ۔
اس طرح کا شاندار عفو میرے والد کی طبیعت سے بعید تھا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ خفا ہو جائیں گے ، سر پیٹ لیں گے ۔ مجھے سخت سست کہیں گے لیکن ان کا سکون دیکھ کر حیرت ہوتی تھی اور یقیناً اس کی وجہ یہی تھی کہ میں نے صاف صاف اپنے گناہ کا اعتراف کرلیا ۔ گناہ کا پورا اعترف اور آئندہ اس سے باز رہنے کا عہد ، ایسے شخص کے سامنے جو انھیں قبول کرنے کا اہل ہے ، تو بہ کی خالص ترین صورت ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے اس اعتراف سے والد کو میری طرف سے پورا اطمینان ہو گیا اور انھیں مجھ سے جو محبت تھی وہ بے انتہا بڑھ گئی۔
سید عابد حسین
(1896 - 1978)
ڈاکٹر سید عابد حسین کا وطن داعی پور ضلع فرخ آباد ( اتر پردیش) تھا۔ عابد حسین کی پیدائش بھوپال (مدھیہ پردیش) میں ہوئی، جہاں ان کے دادا اور والد ملازمت کرتے تھے۔ سید عابد حسین کی والدہ کا تعلق لکھنؤ کے ایک تعلقہ دار گھرانے سے تھا۔ ان کا بچپن داعی پور اور لکھنؤ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں اور ثانوی تعلیم بھوپال میں حاصل کی ۔ الہ آباد یونیورسٹی سے بی۔ اے پاس کیا اور پھر اعلی تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ اور برن یونیورسٹی ، جرمنی میں حاصل کی ۔ سید عابد حسین نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ جرمنی سے واپس آ کر ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کام کرنے لگے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عابد حسین تصنیف و تالیف کا کام بھی کرتے رہے۔ انھوں نے سب سے پہلے 1926 میں ایک ڈراما ” پرده غفلت‘ لکھا۔ جرمن زبان کی کئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ جن میں گوئٹے کی ’’ فاؤسٹ‘‘ سب سے اہم ہے۔ ڈاکٹر عابدحسین نے مہاتما گاندھی کی خودنوشت کا ترجمہ تلاش "حق‘‘ کے نام سے اور پنڈت جواہرلعل نہرو کی ڈسکوری آف انڈیا کا ترجمہ "تلاش ہند" کے نام سے اردو میں کیا۔ اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی کئی کتابیں لکھیں جن میں "قومی تہذیب کا مسئلہ" اور" ہندوستانی مسلمان آئینۂ ایام میں " اردو انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے اردو کے علمی سرمایے میں قابل قدر اضافہ کیے۔ وہ دومشہور جرائد "اسلام اور عصر جدید " اور " اسلام اینڈ دی موڈرن ایج " کے بانی مدیر بھی رہے۔
'چوری اور اس کا کفارہ' گاندھی جی کی آپ بیتی کے اردو ترجمے سے ماخوذ ہے۔
خلاصہ:
خلاصه:- چوری اور اس کا کفاره گاندھی جی کی آپ بیتی ' تلاش حق ' سے ماخوذ ہے۔ مہاتما گاندھی ۔ کی کتاب انگریزی میں My Experiment with Truth کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر عابد حسین نے کیا تھا۔یہ مہاتما گاندھی کی آپ بیتی ہے اور اس آپ بیتی میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مہاتما گاندھی نے اپنی خوبیوں ، خرابیوں اور کمزوریوں کو بلا جھجھک بیان کیا ہے۔ اس سے اس کتاب کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ گاندھی جی راج کوٹ میں تھے اور وہاں ریفارم کا بڑا زور تھا۔ وہیں ان کی ملاقات اپنے منجھلے بھائی کے ایسے دوست سے ہوئی جو گوشت کھاتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ گوشت کھانے سے آدمی طاقتور رہتا ہے اور جو لوگ گوشت نہیں کھاتے وہ ہماری قوم کی طرح کمزور ہوتے ہیں۔ مجھلے بھائی کا یہ دوست گاندھی جی کا بھی رفق بن گیا اور اس نے مہاتما گاندھی کو گوشت کھانے پر آمادہ کر لیا۔ گاندھی جی بچپن میں چوروں، بھوتوں اور سانپوں سے ڈرتے تھے۔ اور انہیں ان سے خوف محسوس ہوتا تھا۔ گاندھی جی کے رفیق نے انہیں بتایا کہ اگر گوشت کھانا شروع کردیا تو پھر وہ چوروں اور زندہ سانپ سے مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ گاندھی جی نے گوشت کھانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ طاقتور بن جائیں اور ریفارم کر کے انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرائیں۔ ایک دن دریا کے کنارے جا کر ایک مکان میں گاندھی جی نے گوشت کھایا۔ پہلی مرتبہ گوشت کھا نے کے بعد گاندھی جی کو رات میں خواب میں ایک بکری نظر آئی اور بڑے بھیانک خواب نظر آئے۔ اس کے بعد بھی گاندھی جی نے چار پائج مرتبہ مختلف اوقات میں گوشت کھایا۔ حالانکہ ان کے والد اور پورا خاندان ویشنو تھا اور سبھی سخت مذہبی تھے۔ گاندھی جی کو لگا کہ اس طرح ریفارم کے چکر میں انہوں نے اپنے خاندان والوں کو دھوکہ دیا۔ گوشت کھانے کے بعد ان کے ایک دوست نے سگریٹ پلایا، اور گاندھی جی کو سگریٹ پینے کیلئے چوری بھی کرنی پڑی۔ ان سب واقعات نے گاندھی جی کو ذہنی طور پر پریشان کیا اور ان کا ضمیر کچوکے لگاتا رہا۔ انہوں نے اعتراف گناہ اور خطا کی معافی کیلئے اپنے والد صاحب کے نام ایک خط لکھا۔ اور اس میں سب کچھ صاف صاف بتا دیا۔ گاندھی جی نے دیکھا کہ خط پڑھ کر ان کے والد صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ گاندھی جی کا خیال تھا کہ ان کے والد صاحب ان سے ناراض ہو جائیں گے اور سخت سست کہیں گے۔ چونکہ گاندھی جی نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا، اور ان کا خط پڑھ کر والد صاحب کو اطمینان ہو گیا تھا کہ گاندھی جی آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ اسلئے وہ گاندھی جی سے اور محبت کرنے لگے۔ گاندھی جی کہتے ہیں کے والد صاحب کا یہ عمل میرے لئے اہنسا کے عمل کا پہلا سبق تھا۔ |
غور کرنے کی بات:
یہ مضمون مہاتما گاندھی کی آپ بیتی My Experiments with Truth کے اردو تر جمے’’ تلاش حق‘‘ سے لیا گیا ہے۔ مضمون پڑھتے وقت آپ کو کسی بھی سطر پر ہی شبہہ نہیں ہوگا کہ یہ ترجمہ ہے۔ اچھے اور کامیاب ترجمے کی یہی خوبی ہے کہ اس پر اصل کا گمان ہو۔
مہاتما گاندھی نے اپنی سوانح لکھتے وقت اپنی شخصی کمزوریوں کو چھپایا نہیں ان پر کسی طرح کا پردہ نہیں ڈالا اور کھلے دل سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کیا اور خود ہی اپنی اصلاح کی ۔ ایک اچھی آپ بیتی کی پہلی خوبی یہی ہے کہ اس میں کسی طرح کا تصنع نہ ہو۔ اس طرح کی آپ بیتیاں پڑھنے والے کے لیے لطف کے ساتھ ساتھ عبرت اور اصلاح کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں۔
سوالوں کے جواب لکھیے:
1 ۔ "انسان پر بہ نسبت نیکی کے بدی کا اثر جلد پڑتا ہے"، ایسا کیوں؟ واضح کیجیے۔
2۔ مہاتما گاندھی نے اپنی غلطیوں کے کفارے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا؟
3۔ گاندھی جی کا اعتراف نامہ پڑھ کر ان کے والد پر کیا اثر ہوا؟
عملی کام:
ایک مضمون لکھیے۔ "چوری ایک بری عادت ہے۔“
گاندھی جی کی زندگی سے متعلق کتابیں حاصل کر کے ان کا مطالعہ کیجیے۔