آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 24 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-6

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

(چھَٹی محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن

علم سے محبت:
حضورؐ کی خدمت میں اصحابِ صفہ رہتے جن کا کام ہی دین کا سیکھنا سکھانا تھا۔حضور دین کی تعلیم دیتے اور ایک صحابی تھے جو لکھنا پڑھنا سکھاتے۔
جو لوگ مدینہ آکر مسلمان ہوتے حضورؐ ان کو روک لیتے اور چند ماہ رکھ کر خود تعلیم دیتے۔
حضورؐ نے بتایا کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پرفرض ہے۔

بات کا پاس و لحاظ:
حضورؐ بات کے بہت پکے تھے۔ نہ کسی سے کوئی جھوٹا وعدہ کیا اور نہ کسی وعدہ کو توڑا۔حدیبیہ میں مکہ والوں سے اور حضورؐ سے صلح ہوگئی تھی۔ ابھی صلح نامہ لکھا بھی نہیں گیا تھا کہ ایک مسلمان موقع پاکر مکہ سے بھاگ آئے۔ مکہ والے کہتے ہیں کہ تصفیہ تو یہ ہے کہ مکہ سے کوئی مسلمان بھاگ کر آئے گا تو اس کو واپس کر دیا جائے گا۔  چنانچہ حضورؐ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسلمان کو واپس کر دیتے ہیں۔
جنگ بدر میں حصہ لینے کے لئے دو مسلمان مکہ سے آتے ہیں۔ راستہ میں کافروں نے پکڑا اور ان کو اس شرط پر چھوڑا کہ وہ لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے حضورؐ کو  معلوم ہوا تو ان مسلمانوں کو اجازت نہیں دی کہ لڑائی میں حصہ لیں۔
مکہ میں ایک شخص کچھ بات کرتے کرتے یہ کہ کر چلا گیا کہ میں ابھی آتا ہوں۔ جانے کے بعد وه بھول گیا کہ اس نے کیا کہا تھا تین دنوں کے بعد اسے یاد آیا اور دوڑا ہوا اس جگہ پہنچا تو دیکھتا ہے کہ حضورؐ وہاں موجود ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میں یہاں تین دنوں سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔

اراده:
حضورؐ جیسے بات کے پکے تھے ویسے ہی ارادہ کے بھی پکے تھے۔جس کام کو شروع کرتے اس کو چھوڑ تے نہ تھے۔ کوئی اذیت پہنچتی تو گھبراتے نہ تھے،بڑی بہادری سے سہہ لیتے۔ اسلام کی بات اللہ کے حکم سے پہنچانا اور پھیلانا شروع کیا تو ساری دنیاخلاف ہوگئی۔ ساری دنیا  لڑنے مرنے کو تیار ہوگئی۔ کیسا کیسا دکھ اٹھایا،کیسی کیسی مصیبتیں سہیں،کس طرح گھر بار چھوڑا،کس طرح فاقوں میں بسرکیا، دوست احباب،عزیز رشتہ دار سب کو کس طرح سب کو ستایا گیا، اس کی بڑی درد بھری کہانی ہے،لیکن جو قدم حضورؐ نے آگے بڑھایا تھا وہ پیچھے نہ ہٹا۔ حضورؐ تعلیم دیتے تھے کہ ایمان،عمل سالح،سچائی کی حمایت اور تبلیغ اور  یہ تبلیغ کہ سچائی کی حمایت میں دکھ سہتے رہنا لیکن سچائی کو چھوڑنا،یہی باتیں ہیں جو انسان کو کامیاب کرتی ہیں اور گھاٹے اور خسارے سے بچاتی ہیں۔ مکہ میں حضورؐ کے ساتھی دکھ اٹھاتے اٹھاتے گھبرا گئے تو حضورؐ سے درخواست کرنے لگے،کہ الله تعالی سے دعا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا :۔
تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا تھا اور وہ یہ سب اللہ کے دین کے لیے برداشت کرتے تھے۔
ابوطالب کو جو حضورؐ کے چچا تھے کافروں نے دھمکیاں دیں تو انھوں نے فرمایا کہ بھتیجے!مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میں اٹھا نہ سکوں۔ حضورؐ نے جواب دیا۔
  اگر لوگ میرے دائیں ہاتھ پر ....... سورج اور بائیں ہاتھ پر ........ چاند بھی رکھ دیں اور مجھ سے چاہیں کہ میں اللہ کا کام نہ کروں تو بھی میں اللّٰہ کا کام نہیں چھوڑوں گا۔ جنگ احد میں آپؐ نے صحابہ سے مشورہ کیا اور مشورہ کے مطابق زرہ پہن کر، ہتھیار لگا کر گھر سے باہر نکلے۔ صحابہ نے عرض کیا حضورؐ اس کو ناپسند فرماتے ہیں کہ مدینہ چھوڑ کر نکلا جائے تو مدینہ ہی میں ٹھہرنا مناسب ہے۔ باہر نکلنے کا ارادہ ترک فرما دیجئے۔ حضورؐ جواب دیتے ہیں:۔
”نبی کے لئے مناسب نہیں کہ زرہ پہن کر بے لڑے اتار دے“
(جاری)
/div>

Friday, 23 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-5

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

(پانچویں محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
رہبانیت سے نفرت:
اللہ نے آدمی کو زمین پر اپنا خلیفہ یعنی نائب اور جانشین بنایا ہے۔ اسے دنیا کا انتظام کرنا ہے۔ آسمان اور زمین کے درمیان جتنی چیزیں ہیں سب اس کے تابع ہیں- یہ چرند، یہ پرند، یہ پیڑ، یہ دریا،یہ پہاڑ سب سے آدمی کام لیتا ہے اور سب کا انتظام کرتا ہے، اس لئے اگر کوئی آدمی دنیا سے بھاگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی اور اپنے فرض سے بھاگتا ہے۔ اسلام کے سوا دوسرے مذہبوں میں جو لوگ دنیا کا بوجھ نہیں اٹھاتے ہیں، جنگلوں میں مارے مارے پھرتے ہیں، اپنی جان کو اذیت دیتے ہیں،  لوگوں سے مانگ کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں اور رہبانیت اختیار کرلیتے ہیں وہ اپنے مذہب میں اچھے سمجھے جاتے ہیں، اسلام نے ان کو اچھا نہیں بتایا۔ اسلام نے لوگوں کو ان کی ڈیوٹی بتائی اور الله تعالیٰ کی نعمتوں کی کھوج لگا نے کو کہا، دنیا سے بھاگنا برا بتایا۔ حکم ہوا کہ اپنی جان کا،بیوی بچوں کا،بزرگوں اور عزیزوں کا،گاوؤں والوں کا اور نوع انسان کا اور ساری کائنات کا حق ہے۔ اچھا آدمی وہ ہے جو ان سب کا حق ادا کرے اور اس راہ میں جواذیت ہو اس کو بِرداشت کرے۔ دنیا سے بھاگنے کو اور اس کا بوجھ نہ اٹھانے کو رہبانیت کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔  ایسی مشغولی جس سے دنیاوی فرائض ادا نہ ہوں آپؐ نے پسند نہیں فرمایا ہدایت فرمائی کہ اپنی جان کو عذاب نہ دو۔میں کھاتا بھی ہوں، میں نے شادی بھی کی ہے، میں سوتا بھی ہوں؛ پس جو میرے طریقہ پر نہیں وہ میرا نہیں۔
مساوات:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کوئی امتیاز اور بڑائی نہیں چاہی، جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے ۔ پھر حضورؐ اس کو کیسے پسند کرتے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے پر بڑائی جتائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دولت کی بنیاد پر یا خاندان کی بنیاد پر کسی کو کوئی حق زیادہ نہیں ملتا تھا۔ سب کا حق برابر تھا کسی میں کوئی فرق نہ کرتے۔ شادی بیاہ میں بھی آپؐ نے معاش يا ذات کی بناء پر کسی کو ترجیح نہیں دی۔ اپنی پھوپھی زاد بہن کی شادی اپنے گھر کے غلام سے کر دی ۔ فرماتے لوگ حسن ، ذات اور دولت کو شادی بیاہ میں پیش نظر رکھتے ہیں مسلمانوں کو چاہیے کہ دین داری کو پیش نظر رکھیں یعنی جو لڑکا یا لڑکی دین دار ہو ، شادی کے لیے اس کو پسند کریں ۔
مرض الموت کے زمانہ میں حضورؐ نے ایک فوج مرتب کی جس کا سردار ایک غلام کو بنایا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد آپؐ کے خلیفہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس فوج کو شام بھیجا۔ لوگوں نے کہا۔ غلام کے بدلے کسی دوسرے کو سردار بنائیے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس کو سردار بنا چکے ہیں اسے سرداری سے کیونکر ہٹا سکتا ہوں۔
حضورؐ کے یہاں کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے میں کسی کا کوئی فرق نہ تھا ۔ ہاں قرآن نے کہا ہے اِنَّ اَکرمکم عند اللّٰہ اتقکم (  تم میں بزرگ وہی ہے جو متقی اور پرہیزگار ہے)۔ یعنی جو لوگ دین کے لئے دکھ اور اذیت سہتے رہے اور ہر لمحہ جہاد کے لئے آمادہ اور تیار رہے اور اسلام قبول کرنے میں اور اسلام کا جھنڈا اونچا کرنے میں جنھوں نے پہل کیا اور جو آگے آگے رہے ان کا درجہ بڑا ہے لیکن یہ وہ بڑائی ہے جو ہر ذات اور برادری کا آدمی ہمت کر کے حاصل کرسکتا تھا اور جو لوگ ان اچھی اچھی باتوں میں بڑے تھے، ہمارے حضورؐ نے ان کی کوئی ایسی الگ اور ممتاز برادری قائم نہیں کی جن کے لڑکوں اور لڑکیوں  کا عقدان کے آپس ہی میں محدود ہو اور جن کو جماعت میں کوئی معاشی تفوّق دیا گیا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،کہ عربی کو عجمی پر،کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت اور بڑائی نہیں ہے مگر تقویٰ  کی وجہ سے۔
بلا معاوضہ کام لینا یا چیز لینا:
حضورؐ فرماتے جب کسی سے کوئی کام یا چیز لو تو اس کو اس کا بدلہ دو اور اگر بدلہ نہ دے سکو تو کم از کم دعاء ہی کردو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی سےکوئی چیز مفت لینا پسند نہیں فرماتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپؐ کے جاں نثار دوست تھے لیکن ہجرت کے موقع پر حضورؐ کو اونٹ بغیر قیمت کے اور مفت دینا چاہا تو حضورؐ نے قبول نہیں کیا اور اس کی پوری قیمت دی۔

Thursday, 22 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-4

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

(چوتھی محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن

سادگی: 
آپؐ بہت سادہ رہتے، موٹا کھاتے ، موٹا پہنتے اور چھوٹی سی جگہ میں رہتے۔ در و دیوار پر کپڑے ٹانگنے کومنع فرماتے۔ فرماتے ایک بچھونا اپنے لئے ، ایک بیوی کے لئے اور ایک مہمان کے لئے؛ چوتھا شیطان کا حصہ ہے۔
بناوٹی اور سناوے کی باتوں کو ناپسند فرماتے اور دکھاوے کے کام کو بھی برا جانتے۔ اپنی تعریف پسند نہ فرماتے تھے۔ کہتے اللہ نے جو مرتبہ مجھ کو دیا ہے ، میں نہیں چاہتا کہ تم مجھ کو اس سے بڑھاؤ ۔
آپؐ اپنا کام آپ کرتے۔ پھٹے کپڑوں کوسینا ، پیوند لگانا، گھرمیں جھاڑو دینا، صفائی کرنا، دودھ دوہنا ، بازار سے سودا لانا ، جوتا گانٹھ لینا، یہ سب کام اپنے ہاتھوں سے کرتے کبھی کبھی آٹا بھی گوندھ لیتے۔ مسجد نبوی اور مسجد قبا کی تعمیرمیں آپؐ بھی مزدوروں کی طرح کام کرتے۔آپؐ نے سرِراہ بیٹھ کراپنی چپل کا تسمہ جوڑا ہے۔ ایک صحابی نے اس کام کو کرنا چاہا تو راضی نہ ہوئے، اور فرمایا یہ خود پسندی ہے۔
بہت سے لوگ اپنا کام آپ کرنا برا سمجھتے ہیں، حالانکہ اپنا کام آپ کرنا اچھا ہے اور دوسروں کا کام کردینا اس سے بھی اچھا ہے۔

بیمارپُرسی:
مریضوں کو دیکھنے جانا اور حال چال پوچھنا، بیمار پُرسی اور عیادت ہے۔ جب کوئی بیمار پڑتا توآپؐ دیکھنے جاتے، اس کا حال پوچھتے اور اس کی خدمت کرتے۔

معاف کردینا:
بدلہ لینا تو دور کی بات ہے، کوئی قصور کرتا تو آپؐ اس سے پوچھتے بھی نہیں۔ مکہ فتح ہوا۔ دشمن قابو میں ہوئے تو سب تکلیف بھول گئے اور سب کو معاف کر دیا۔ ایک بدو نے مسجد میں پیشاب کرنا شروع کیا، لوگ مارنے کو  دوڑے۔ آپؐ نے منع فرمایا اور کہا کہ لوگو! پیشاب کو دهو دو سختی نہ کرو۔ اللہ نے تم کو سختی کے لئے نہیں بنایا ہے، نرمی کے لئے بنایا ہے۔ حضورؐ نے اس کے بعد بدو کو بھی سمجھایا کہ مسجد میں پیشاب پاخانہ نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ آپؐ کا کام کرتے تھے۔ وہ چھوٹے سے تھے۔ ایک دن آپؐ نے کام کو کہا لیکن حضرت انس رضی اللہ عنہ کھیل میں مشغول ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ بولے اور وہ کام خود کرلیا۔
ایک روز آپؐ مسجد سے نکل رہے تھے۔ ایک بدونے آپؐ کے گلے میں چادر ڈال کر آپؐ کو اس زور سے کھینچا کہ آپ کی گردن لال ہوگئی۔ اس کے بعد کہا کہ تیرے پاس جو کچھ ہے نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا، میرے دو اونٹ غلوں سے لادو۔آپ خفا کیا ہوتے کہ الٹے دو اونٹ کھجوروں سے لدوادیئے۔
ایک دشمن نے زہر میں بجھا ئی تلوار لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا چھپ کر مدینہ آیا لوگ اُسے پکڑ کر آپ کے پاس لائے۔ آپ نے اسے اپنے پاس بٹھایا، جو اس کا ارادہ تھا وہ بھی بتادیا اور کچھ نہ کہا۔

غریبوں سے محبت:
آپؐ غریبوں سے محبت کرتے اور غریبوں سے محبت کر نے کی تعلیم دیتے۔ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا :۔
”کسی غریب کو اپنے دروازہ سے خالی ہاتھ واپس نہ کرو ۔ کچھ نہ کچھ دے دو۔غریبوں سے محبت کرو گی تو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔ “
آپ کمزوروں اور غریبوں کو اٹھانا اور ان کو زمین کا وارث اور حاکم بنانا چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہےکہ پہلے پہل غریبوں نے آپ کے دین کو قبول کیا۔
عیسائی بادشاہ ہرقل نے ملک شام میں حضرت ابوسفیان سے پوچها تھا ( یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کہ رسول کے ماننے والے زیادہ غریب ہیں یا امیر ؟ تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ غریب ہیں۔
ایک دفعہ کچھ لوگ آئے؛ ننگے سر، ننگے پاؤں، کپڑے پھٹے ہوئے؛ حضورؐ بےچین ہو گئے-- مسجد نبوی میں لوگوں کو ان کی امداد کے لئے ابھارا اوران کی مدد کی۔

قناعت:
آپؐ نے لوگوں کی بھلا ئی اور لوگوں کی اصلاح کے لئے جتنی مصیبتیں سہی ہیں اگر اتنی مصیبت اپنے آرام و آسائش کے لئے اٹھاتے تو دنیا کی دولت اکھٹی کر لیتے۔ مگر آپؐ نے کبھی مال و دولت کی لالچ نہیں کی۔ کم سے کم سامان میں اپنی ضرورت پوری کی اور اکثر فاقوں میں گزارا۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے سونے کا زیور پسند نہ فرمایا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دروازہ پر پردہ پڑا پایا تو واپس ہوگئے کہ ایسا کیوں ہے۔

Wednesday, 21 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-3

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

(تیسری محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن


لین دین :
لین دین اور حساب کتاب میں جس کو معاملہ کہتے ہیں، آپ بہت کھرے اور صاف تھے اور اسی وجہ سے رسول بننے کے پہلے ہی آپ کو لوگ  ”امین“ کہتے تھے۔
ایک شخص  سے آپ نے ایک سواری کا اونٹ قرض لیا اور جب واپس کیاتواس سےبہتر اونٹ دیا اورفرمایا:
” اچھے وہ لوگ ہیں جو قرض کو عمدہ طریقہ پر ادا کرتے ہیں۔“ 
ایک شخص سے  ایک پیالہ لیا تھا وہ گم ہوگیا تو دوسرا پیالہ منگواکر اس کے گھر بھیج دیا۔
ایک بار ایک دیہاتی( بدّو) گوشت بیچ رہا تھا، آپ نےکھجوروں کے بدلے میں اس سے گوشت لینا طے کرلیا۔ جب گھر آئے تو معلوم ہواکہ کھجوریں بالکل نہیں ہیں۔بدّو برابھلا کہنے لگا۔ لوگوں نے اس کو روکنا چاہا تو حضور ؐنے منع فرمایا اور کہا اس کو بولنے کا حق ہے۔ پھر دوسری جگہ سے کھجوریں منگوا کر اس کو دیں۔

ملنا جُلنا:
سلام کرنے میں آپ ہمیشہ پہل فرماتے۔ کثرت سے سلام کرتے۔ سلام کے بعد مصافحہ کرتے اور دور سے آنے والوں سے گلے ملتے ۔کسی کے یہاں جاتے تو پہلے سلام کرتے تب اندر داخل ہونے کی اجازت مانگتے۔آپ سب کے برابر بیٹھتے۔ ممتاز اور نمایاں جگہ اپنے لئے خاص نہ کرتے۔ آپ کے لئے کوئی تعظیم کے طور پر کھڑا ہوتا تو منع فرماتے۔

انصاف:
کسی مقدمہ کے فیصل کرنے میں یا کسی جرم کی سزا دینے میں آپ کسی کی رو رعایت نہ فرماتے۔ اس میں دوست دشمن، امیر غریب کسی کا خیال نہ تھا۔
ایک دفعہ ایک عورت نے چوری کی۔ وہ قریش خاندان کی تھی۔ لوگ چاہتے تھے، کہ یہ معاملہ دب جائے اور اس عورت کو سزانہ ہو ورنہ قریش کی ناک کٹ جائے گی۔ عالی خاندان جو ہوئے۔چنانچہ  حضورؐکے پاس سفارشیں آئیں۔ آپ غصّہ ہوئے اور بولے:۔
 ”بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہو ئے کہ وہ غریبوں کو تو سزادیتے تھے اور امیروں کو چھوڑ دیتے۔ اگر میری بیٹی فاطمہ  یہی حرکت کرتی تواس کو بھی یہی سزادی جاتی۔“

سخاوت : 
غریبوں اور حاجت مندوں کی تکلیف دیکھ کر آپ بے قرار ہو جاتے تھے۔ سائل کوجھڑکتےنہیں اور کچھ دے کر واپس کرتے ۔ زیادہ سے زیادہ دیتے۔دینے کی کو ئی حد نہیں تھی۔
ایک مرتبہ آپ کی بکریوں کا گلّہ  چَر رہا تھا۔ ایک شخص نے دیکھ کر سوال کیا۔ آپ نے ساری بکریاں دے دیں۔ وہ خوش خوش واپس ہوا۔
ایک بار بحرین سےخراج میں  اتنا مال آیا کہ مدینہ میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ آپ نے سب مسجد میں رکھوادیا اور بعد نماز تقسیم کر دیا اور دامن جھاڑ کر اٹھ گئے۔

ایثار :
آپ اپنانقصان کرکے دوسروں کی مدد کرتے تھے اور مدد کرتے وقت آپ کو اپنی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی اسی کو ایثار کہتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گھر کے کام کاج کے لئے ایک خدمت کرنے والی کی ضرورت حضورؐ کے سامنے بیان کی ۔ معاملہ اپنی لڑکی کا تھا لیکن آپ نے فرمایا--- ابھی میں اصحابِ صُفّہ کی ضروت کا سامان کر رہا ہوں، جب تک یہ کام نہ ہوجائے میں کسی اور طرف دھیان نہیں دے سکتا۔
ایک شخص نے اپنے سات باغ آپ کو دیئے۔ آپ نے سب باغوں کو وقف کر دیا۔ جو کچھ پیدا ہوتا فقیروں اور مسکینوں کو دے دیا جاتا۔
ایک دفعہ آپ کے یہاں ایک مہمان آئے۔ آپ کے پاس بکری کے دودھ کے سوا کچھ نہ تھا۔ آپ نے مہمان کو وہ دودھ پلا دیا اور خود بھوکے رہے۔

مہمان نوازی :
آپؐ کے پاس جوبھی آجاتا آپ بغیر کھلائے اس کو واپس نہ کرتے۔ مہمانوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ خود خدمت کے لئے کھڑے ہوجاتے اور اس میں دوست دشمن کا کوئی فرق نہ کرتے۔
(جاری)

Tuesday, 20 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-2

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

(دوسری محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن

کھانے میں آپ کو گھی، پنیراورکھجور میں ڈال کر پکائی ہوئی غذا بہت پسند تھی۔ سرکہ، شہد، حلوا،روغن زیتون اور کدوکی طرف رغبت تھی۔ کھجوراور روٹی بہت شوق سے کھاتے۔
گوشت میں مرغ، بٹیڑ، بکری، دنبہ ،بھیڑ اور اونٹ وغیرہ کا گوشت کھاتے۔ مچھلی بھی آپؐ نے کھائی ہے۔ فرماتے سب کھانوں میں سردار کھانا گوشت ہے ۔ اس سے یہ دھوکہ نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم برابر مرغ اور بٹیر کھاتے  تھے۔ ان پسندیدہ کھانوں کا موقع بہت کم آتھا ۔حضورؐ کے دن اکثر روزوں میں اور فاقوں میں بسر ہوتے تھے ۔
کھانا کھا کر دعاء فرماتے کہ اے اللہ اس سے بہتر کھانا دے لیکن جب دودھ پیتے تو فرماتے اے اللہ! ایسی ہی نعمت پھر دے۔ دودھ کبھی خالص استعمال فرماتے اور کبھی اس میں ذرا سا پانی ملادیتے۔ ٹھنڈا پانی بہت پسندتھا۔ کشمش، کھجور یا انگور کبھی پانی میں بھگو دیئے جاتے اوراسی سے پانی کو نتھار کر  آپؐ پیتے ۔تربوز کو کبھی کبھی کھجور کے ساتھ نوش فرماتے۔ آپ تین انگلیوں سے کھاتے تھے۔ کسی اونچی جگہ پر رکھ کر کھانا کھانا آپؐ کو پسند نہ تھا۔ بہت آہستہ آہستہ  چبا کر کھانا کھاتے۔ جو کچھ سامنے ہوتا، اسی کو کھاتے۔ کبھی اکڑوں بیٹھتے اور بھی ایک زانو پر بیٹھتے ۔لہسن اور پیاز سے بہت نفرت کرتے۔ مٹی کی چھوٹی  سی کوٹھری تھی جو آپ کا گھر تھا۔ زینت کے لئے ایک بار دیوار پر چادر لٹکائی گئی تو آپ نے منع فرمايااور  بتایا کہ کپڑے اس لیے نہیں کہ دیواروں کی زینت ہوں۔
گھوڑے کی سواری آپ کو بہت پسندتھی۔ گھوڑوں اور اونٹوں کو دوڑانے کے مقابلہ  میں آپ شریک ہوتے۔ تیراندازی کے مشق میں  بھی حصّہ لیتے۔آپ کشتی بھی لڑے ہیں اورعرب کے مشہور پہلوان رکانہ کو آپ نے کئی بار پچھاڑا ہے۔
آپ کبھی کبھی مزاح بھی فرماتے۔ ایک شخص نے آپؐ سے سواری مانگی۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں تم کو اونٹنی کا بچّہ دوں گا۔ اس نے کہا حضورمیں اونٹنی  کا بچہ کیا کروں گا۔ آپ نے فرما یاکوئی  اونٹ ایسا بھی ہے جواونٹنی کا بچّہ  نہ ہو؟
ایک بار ایک بوڑھی عورت نے درخواست کی کہ آپؐ اس کے لئے جنت کی دعاء فرمادیں۔ آپؐ نے کہا بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ وہ عورت یہ جواب سُن کر روتی ہوئی واپس ہوئی، تو آپ نے فرمایا کہ اُس کو پکا رکر کہہ دو کہ بوڑھی عورتیں جنت میں جوان ہو کر جائیں گی، بوڑھی نہیں رہیں گی۔
اُسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
آپ فرماتے، میں اچھے اخلاق کو مکمل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ یعنی  اچھی عادتوں کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں۔ قرآن میں ہے ”بے شک اچھی عادتوں میں آپؐ کا درجہ بڑا ہے۔“ اور قرآن میں یہ بھی ہے کہ اے لوگو! رسول کی زندگی میں ایسی باتیں ہیں جن کی تم پیروی کرو۔ اور یہ بھی ہے کہ اے لوگو تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آئے ہیں‘وہ ایسے نرم دل ہیں کہ تمہاری تکلیف دیکھ کر ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ ان کو لالچ ہے تو اس بات کی کہ وہ تمہارا کچھ بھلا کر دیں۔ اور وہ ایمان والوں پر شفقت اور مہربانی فرماتے ہیں۔ اور قرآن میں یہ بھی ہے کہ اللہ کی مہربانی سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نرم دل بناکر بھیجا گیا ہے۔ اگر آپ دل کے سخت ہوتے تو لوگ آپ کے چاروں طرف جمع نہ ہوتے( اور لوگ اچھی باتیں  جان نہ سکتے )۔ آپ کی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنها کا کہنا ہے کہ آپ کی عادتیں وہی تھیں جن کی تعلیم قرآن میں ہے۔
رعایت مروت:
ایک مرتبہ آپ اونٹ پر سوار تھے۔ ایک صحابی( یعنی آپ کے سنگ میں رہنے والے) آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا”آؤ سوار ہو لو ۔“انھوں نے اس وجہ سے انکار کیا کہ حضور کی بے ادبی ہوگی۔ آپ نے کئی بار کہا ۔ جب نہ مانے تو آپؐ اتر گئے۔ مجبوراً صحابی کو سوار ہونا پڑا۔
حضرت زینبؓ کے نکاح میں آپ نے دعوت ولیمہ کی ،کچھ لوگ دعوت کے  بعدبھی بیٹھے رہے۔حضرت زینبؓ بھی وہیں تھیں( اس وقت تک پردہ کا حکم نہیں ہوا تھا)۔ آپؐ چاہتے تھے کہ لوگ چلے جائیں۔ لوگوں کو خیال نہیں تھا۔ آپؐ کبھی باہر جاتے کبھی اندر آتے لیکن زبان سے لوگوں کو کہہ  نہ سکے کہ چلے جاؤ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ میں کتنی مروت تھی اور آپ چپ چاپ کتنی تکلیف اٹھا لیتے تھے۔
مدینہ میں ایک مرتبہ کال پڑا۔ ایک شحض بھوک سے نڈھال ہو کر ایک کھجور کے باغ میں گھس گیا۔ خوب کھجوریں کھائیں اور کچھ گھرلانے کے لئے رکھیں۔ اتنے میں باغ کا مالک آپہنچا اور سب کچھ چھین لیا۔ آپ کو جب معلوم ہوا تو باغ کے مالک کو بلا بھیجا اور فرمایا ”یہ بے چارہ جاہل تھا اسے تم بتاتے ، یہ بھوکا تھا اس کو کھانا کھلاتے۔“ اور پھر کھجوروں کے بدلہ میں باغ کے  مالک کو حضور نے غلّہ دیا۔ حضورؐ ہمیشہ اسی طرح لوگوں کے ساتھ رعایت اور مہربانی سے پیش  آتے تھے۔
ایک شخص آپؐ کے پاس آیا۔ آپؐ نے بڑی نرمی اورمحبت سے بات چیت کی۔ جب وہ چلا گیا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ تو اس شخص کو اچھانہیں سمجھتے تھے۔حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :۔
” اللہ سب سے برا اس کو سمجھتا ہے جس کی بات چیت کڑی اور سخت ہو اور اس کی سخت بات سے لوگ اس کے پاس اُٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیں ۔“
نیک برتاؤ اور اچھا سلوک کرنے میں آپؐ مسلمان، کافر، دوست، دشمن  سب کو برابر سمجھتے۔ ہر سے ایک طرح  ملتے۔
(جاری : کل تیسری محفل میں پڑھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر اوصاف)

Monday, 19 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-1

  مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(پہلی محفل)
وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
بشکریہ حسنین مبشر
میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

میلاد کا مقصد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کو  سنیں اور ان کو اپنی زندگی کے لیے نمونہ بنائیں اس لیے
ضروری ہدایت 
مجلس میں ادَب سے با وضو بیٹھنا چاہئے، فضول باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے، شور نہیں مچانا چاہئے، جھگڑا نہیں کرنا چاہئے، آہستہ آہستہ درُود پڑھنا چاہیے، توجہ سے میلاد کے مضامین کو سننا چاہئے، میلاد کی کتاب کے کئی حصّے کرکے پڑھیں تو بہتر ہے۔ آخر میں خوب جی لگاکر عاجزی و انکساری سے دعاء کرنی چاہئے۔ 
حمد باری تعالیٰ
وحده لا شریک، تیرے سوا
نہ زمیں تھی نہ یہ زمانہ تھا

نہ ستاروں کی تھیں یہ قندیلیں
آسماں کا نہ شامیانہ تھا 

ابخرے تھے، کہیں نہ  دَل بادل
بجلیوں کا نہ تازیانہ   تھا

نہ ملک تھے کہیں نہ آدم زاد
نہ کسی کا کہیں ٹھکانہ تھا

 نہ کہیں نام تھاعناصِر کا
نہ کہیں اس کا آشیانہ تھا

 نہ کہیں ہائے  وہوئے مستانہ
نہ کہیں نالہ عاشقانہ تھا 

نہ کہیں گل  نہ بلبلوں کا ہجوم
گلشنِ دہربے ترانہ تھا 

ہائے  کیا جی میں آگیا تیرے
دَم کے دَم میں یہ کارخانہ تھا

 دُرّ و گو ہروجودکے نکلے 
گویا مدفون اک خزانہ تھا
(حافظ عظیم آبادیؒ)

اَنبیاء علیہم السَّلام اور حَضرت محمّد رسُول اللہ صَلّی اللہ عَلیہ وسَلم
ایک اور پاک اور بے عیب اللہ نے ہم کو پیدا کیا اور ہماری ہدایت اور ہمیں اچھی باتیں بتانے اور بُری باتوں سے روکنے کے لئے ہم ہی میں سے رسول اورنبی بھیجے۔
یہ نبی اور رسول  اللہ کے حکم پرخود چلتے اور ہم کو چلاتے اور ہم  سے ان کو کوئی گزندبھی پہنچتا، کوئی تکلیف بھی ہوتی تو اس کی کوئی پروا نہیں کرتے اور ہم کو برابر بُری باتوں پرٹوکتے اور اچھی باتوں کی ترغیب دیتے۔
یہ  نبی اور رسول ہر زمانہ  میں اور ہر ملک میں پیدا ہوئے ۔ ان میں مشہورنبی اور رسول یہ نو ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام 
حضرت نوح علیہ السلام 
حضرت ابراہیم علیہ السلام
 حضرت یوسف علیہ السلام 
حضرت موسیٰ  علیہ السلام 
حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت سلیمان علیہ السلام 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم 
حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی اور رسول ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں پر ہماری ہدایت کے لئے کتابیں بھی ا تاریں۔ حضرت محمد رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کا نام قرآن (شریف) ہے ۔ قرآن الله تعالىٰ کی آخری کتاب ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی کو ئی کتاب نازل نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔
حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے  جتنےنبی اور رسول آئے  ان کا پورا پوراحال اب کسی کو معلوم نہیں کیونکہ وہ اپنے زمانہ اور اپنے علاقہ کی ہدایت اور رہنمائی  کے لئے آئے تھے۔ ان کا کام ہر زمانہ اور ہر ملک کے لئے نہ تھا۔ ان پر جو کتابیں اتریں، نہ ہمارے زمانہ میں ان کی ضرورت ہے، نہ اپنی شکل میں پوری پوری موجود ہیں ۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں اوران کی ہدایت رہتی دنیا تک  اورساری دنیا کے لئے ہے ، اس لئے ان کا پورا پورا حال کتابوں میں موجود ہے اور ہم سب پران کی پیروی لازم ہے اور ان پر جو کتاب اُتری وہ بھی اسی لئے اپنی اصلی شکل میں حرف حرف اور لفظ لفظ موجود ہے اور اس میں سرمو کوئی فرق نہیں ہوا ہے۔
ہم پر اللہ تعالی ٰکا شکر واجب ہے جس نے ہم کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی  اُمّت میں بنایا ۔ 
الحمد للہ الذی ھدانا لھٰذا قف وما کنا لنھتدی لو لا ان ھدانا اللہ۔
(سب حمد ہے اس اللہ تعالٰ ی کے لئے جس نے ہمیں ہدایت دی اور اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم ہدایت نہ پاتے)
وَصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وَّ اٰلہ و اصحابہ وبارک وسلم
سراپائے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نہ بہت  لانبے تھے  نہ بہت چھوٹے۔ آپ کا قد بیچ بیچ میں  تھا۔جلد کا رنگ سرخ و سپید تھا، پیشانی چوڑی تھی، ناک اونچی اور خوبصورت، دانت صاف اور الگ الگ، گردن لانبی، سر بڑا ، سینہ چوڑا ،آنکھیں سیاہ اورسرمگیں، پلکیں بڑی بڑی، داڑھی  گھنی اور چہرے پر ہر وقت روشنی معلوم ہوتی تھی۔
سر کے بال گھنگھریالے تھے لیکن ان میں زیادہ بل نہ تھا۔ یہ بال کبھی کانوں کی لَو تک لٹکتے اور کبھی بڑھ کر کندھوں تک آجاتے ۔ہاتھ کی ہتھیلیاں گوشت سے بھری ہوئی اور چوڑی تھیں، پاؤں کے تلوے اتنے خالی تھے، کہ اندر سے پانی نکل جاتا تھا ۔آپ کا شکم مبارک  ہموار تھا اور پیٹ اور سینہ کے درمیان بالوں کا ایک باریک خط تھا۔
آپ کے پسینے سے ایک خاص قسم کی خوشبو آتی تھی۔  سر میں  اکثر تیل ڈالتے اور تیسرے دن کنگھی کرتے اوربیچ سے مانگ نکالتے۔
آپ زیادہ تر  کُرتا اور تہبند (لنگی) استعمال کرتے، کُرتاپر چادر پڑی ہوتی، سرسے سٹی ہوئی ٹوپی اور اس پر  پگڑی ہوتی۔ کبھی عبا بھی زیب تن فرماتے، پاوؤں میں موزوں کی عادت نہ تھی۔ شاہ نجاشی نے آپ کو موزے بھیجے تھے  تو آپ  نے استعمال فرمالیاتھا۔
 بچھونا چمڑے کاگدّا ہوتا جس میں کھجور کے پتّے بھرے ہوتے اوربان کی بُنی ہوئی چارپائی۔ پاوؤں  میں چپّل پہنتے جس میں تسمے لگے ہوتے۔
خوشبو آپ کو پسندتھی۔ برابر عطر لگاتے،  سر میں خوشبودار تیل ڈالتے، اپنے یہاں خوشبو کی انگیٹھیاں جلواتے، صاف کپڑے پہنتے، ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتے، بولی میٹھی تھی۔ سُننے والے کا جی نہیں بھرتا۔ بات کرتے وقت کبھی کبھی ہاتھ بھی ہلاتے۔ 
خوشی کے وقت آنکھیں  نیچی ہو جاتیں اور ہنسی آتی تو ذرا سا مسکرا دیتے۔
(جاری)

Sunday, 18 October 2020

Meelad e Rasool Maqboolﷺ

میلاد رسول مقبول ﷺ 
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

آج ہلال عید (میلادالنبی ﷺ)مطلع انوار پر جلوہ  افروزہوکر دنیا کوامن و سلامتی، محبت و خلوص اور آفات و بلا سے نجات کا پیغا م دے رہا ہے۔ یہ ماہ مقدس پیغمبر آخرالزماں،رحمةللعالمین ، سید المرسلین، آقائے دوجہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مہینہ ہے۔

اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے دنیائے انسانیت کواپنے مقبول رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺکے ذریعہ اپنی وحدت کا سچّا انعام دیا اور ایسے رسول کی امت بنایا جو سب نبیوں اور رسولوں سے افضل ہیں اور جن پر خود اللہ اور اس کے فرشتے درود  پڑھتے ہیں۔

جیسا ہمارا دین سچّا، مکمل اور اللہ کی سب نعمتوں کا خزانہ ہے ویسے ہی اس دین کے لانے والے پیغمبربھی پورے کامل اور پروردگار کی نعمتوں سے بھر پور ہیں۔ اور ان کو ہم مسلمانوں کے ساتھ جو ان کی امت ہیں بڑی محبت ہے۔

خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں:

اگرچہ اب وہ خدا کے اچھے رسولﷺجسم کی زندگی میں زمین پر موجود نہیں مگر اُن کی باطنی اور روحانی زندگی اب بھی اس دنیا میں موجود ہے اور ہماری حالتوں کی خبر خدا کی دی ہوئی قوت سےان کو رہتی ہے۔آٹھ دن کے اندر دو دفعہ امت کے نیک و بد حالات کی اطلاع فرشتے ان کو دیتے ہیں  اور جب وہ اپنی امت کی نیکی دیکھتے ہیں اچھے عمل ملاحظہ فرماتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور ہمارے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں۔اور جب ہمارے گناہوں کی خبر ان کو دی جاتی ہے تو بہت رنجیدہ ہوتے ہیں۔اور ان کے دل کو بہت تکلیف ہوتی ہے کیوں کہ وہ اپنی امت کی بھلائی کےعاشق زار ہیں۔وہ گوارا نہیں کرسکتے کہ ان کی امت برے کام کرکےدوزخ میں جائے اور قیامت کے دن کالے منہ ہوکر اٹھے۔

پس جب ہمارے رسول ﷺ کو ہمارا ایسا خیال ہے تو ہم کو یہی چاہیے کہ اپنے محبت کرنے والے پیغمبر خداﷺکو ہمیشہ یاد رکھیں اور ہر ہفتہ یا ایک مہینہ یا ایک سال میں تو اُن کا ذکر خیر ضرور کریں۔ آپ ﷺ کی اچھی باتیں سنیں۔اُن ﷺسے جی لگائیں اور جہاں تک ہو سکے اُن کی پیروی کریں۔ جن باتوں کا انہوںﷺ نےحکم دیا ہے اُن کو مانیں،جن سے منع کیا ہے ان کو نہ کریں۔ 

میلاد شریف کی محفلیں اسی ذکر خیر کے لیے ہوتی ہیں تاکہ مسلمانوں کے چھوٹوں ،بڑوں ،عورت ،مرد میں ہادی رسولﷺکی یاد قائم رہے۔

آئینہ محسن انسانیت ہادی برحق کی سیرت پاک اور اسوۂ حسنہ سے آپ کے قلوب کو روشن ومنور کرنے کے لیے آج سے 12 ربیع الاول تک روزانہ سیرت مبارکہ ﷺ پر ایک باب آسان زبان میں لے کر حاضر ہو رہاہے۔  اپنے بچّوں اور اہل خانہ کو بلند آواز میں پڑھ کر سنائیں  یا اُن سے سنیں تاکہ ہم سب کے دل جو زنگ آلود ہوچکے ہیں آپ ﷺ کے ذکر کی برکت سے روشن ہوسکیں اور ہم پر مسلط کی گئیں دنیاوی پریشانیوں سے ہمیں نجات ملے اور ہمارا دل اپنے رسول ﷺ کی محبت میں سرشار ہوکر ایک بار پھر خوشیوں اور خوشحالیوں سے لبریز ہو۔

دینی و دنیاوی فائدے کے لیےمیلادرسول ﷺ کی پاک محفلیں  آج وقت کی اہم ضرورت ہیں۔نام نمود اور نمائش اور ڈھول تاشوں  سے پاک عشق رسول ﷺسے منورو مامور پاکیزہ ماحول میں سادہ طور پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ  سیرت النبیﷺ کا ذکر کریں۔ کثرت سے درود پڑھیں اور اللہ سے انسانیت کی بھلائی، امن و امان،دشمنوں کے شر سے حفاظت، وباؤں اور بلاؤں سے نجات کی دعا کریں۔ 

سلام
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

سلام اس پرکہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

سلام اس پر کہ دشمن کو حیات جاوداں دے دی
سلام اس پر، ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی

سلام اس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اس پر، ہوا مجروح جو بازار طائف میں

سلام اس پر، وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے

سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا

سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اس پر، جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا

سلام اس پر، جو امت کے لئے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر، جو فرش خاک پر جاڑے میں سوتا تھا

سلام اس پر جو دنیا کے لئے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے

سلام اس پر کہ جس نے جھولیاں بھردیں فقیروں کی
سلام اس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی

سلام اس پر کہ جس کی چاند تاروں نے گواہی دی
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی

سلام اس پر، شکستیں جس نے دیں باطل کی فوجوں کو
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی

سلام اس پر کہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا
سلام اس پر کہ جو خود بدر کے میدان میں آیا

سلام اس ذات پر، جس کے پریشاں حال دیوانے
سناسکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے

درود اس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی

درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں

درود اس پر، جسے شمع شبستان ازل کہئے
درود اس ذات پر، فخرِ بنی آدم جسے کہئے​
​​
(ماہر القادری)
(جاری)

Parts of Urdu Poetry

 شاعری کے اجزاء

قافیہ اور ردیف
قافیہ:
قافیہ ان حروف اور حرکت کا وہ مجموعہ ہےجو ہم آواز ہوتے ہیں مگر الفاظ بدلے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ غیر مستقل طور پر اشعار کے دوسرے مصرعے کے آخر میں مگر ردیف سے پہلے بار بار آتے ہیں۔
ردیف:
  ردیف وہ حرف یا حروف ہیں جو شعر کے دوسرے مصرعے کے سب سے آخر میں یعنی قافیہ کے بعد مستقل طور پر آتے ہیں۔ ردیف کے حرف یا حروف بدلتے نہیں۔
ذیل کی غزل کے چند اشعار سے ردیف اور قافیہ  دونوں کی مثالیں واضح ہو جائیں گی۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اوپر کی غزل کے دوسرے مصرعےمیں ہم آواز الفاظ کاروبار،یار، غمگسار،دار ایسے الفاظ ہیں جو تقریباً ہم آواز ہیں مگر الفاظ بدلے ہوئے ہیں۔ یہی قافیہ کہلاتے ہیں جو ردیف ”چلے“ سے پہلے آتے ہیں۔اسی طرح ہر شعر کے دوسرے مصرعہ کے آخر میں لفظ ”چلے“ بار بار آیا ہے یہی ردیف ہیں جو قافیہ کے بعد بار بار آتے ہیں۔
مطلع:
 مطلع کے لغوی معنی ہیں طلوع ہونے کی جگہ مگر علم بیان میں غزل یا قصیدے کے سب سے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم ردیف اور ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ مثلاً فیض کی مذکورہ غزل کا سب سے پہلا شعر
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
مطلع کا شعر ہے آپ اس میں دیکھیں گے کہ دونوں مصرعوں میں قافیہ بہار اور " کاروبار موجود ہے اس کے علاوہ دونوں مصرعے ہم ردیف ہیں یعنی دونوں مصرعوں میں چلے ردیف ہے۔ مطلع اور مقطع کے علاوہ غزل کے باقی اشعار فرد کہلاتے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ان دونوں مصرعوں میں ہم ردیف یا ہم قافیہ نہیں ہیں۔
حسنِ مطلع
غزل میں مطلع اوّل کے فوراً بعد جو مطلع کا شعر آتا ہے اس کو حسنِ مطلع کہتے ہیں۔ کبھی کبھی غزل میں حسنِ مطلع کے بعد بھی مطلع کے اشعار آجاتے ہیں وہ الترتیب مطلع ثانی اور مطلع ثالث کہلاتے ہیں۔
شاہ بیت: 
غزل کا سب سے عمدہ شعر شاہ بیت یا بیت الغزل کہلاتا ہے مثلاً مومن کی غزل کا مندرجہ ذیل شعر شاہ بیت کہلاتا ہے اسی شعر کو سن کر مرزا غالب نے اتنا پسند کیا تھا کہ انھوں نے مومن سے کہا کہ تم میرا پورا دیوان لے لو اور  یہ شعر مجھے دے دو
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مقطع: 
مقطع غزل یا قصیدہ کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص لاتا ہے مقطع کہلاتا ہے
جیسے جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

طول غم حیات سے گھبرانہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو
مصرعہ:
شاعری کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔موزوں کلام کی ایک سطر (لائن) کو مصرعہ کہا جاتا ہے۔
شعر:
موزوں کلام کی دو سطروں یعنی دو مصرعوں کو ملا کر ایک شعر بنتا ہے پہلا مصرعہ اوّل اور دوسرا مصرعہ ثانی کہلاتا ہے۔
وزن و بحر:
وزن کی شرط،پہلے شاعری کے لئے ضروری سمجھی جاتی تھی۔اب بے وزن اور نثری شاعری بھی کی جاتی ہے۔ وزن سے مراد وہ مقررہ پیمانہ ہے جس پر ہم شعر کو پرکھتے ہیں۔عروض(شعر کے پہلے مصرعے کا آخری جز) کے ماہروں نے کچھ پیمانے یا اوزان مقرر کیے ہیں۔ ہر شعر کا کسی پیمانے کے مطابق ہونا ضروری ہے۔شاعری میں آہنگ اور نغمگی پیدا کرنے کے لئے اور نثر سے فرق پیدا کرنے کے لیے اوزان کی پابندی کی جاتی ہے جب یہ اوزان قافیے کی پابندی کے ساتھ استعمال کیے جاتی ہیں تو بحر کہلاتے ہیں۔گویا وزن اور قافیہ ہم آہنگ ہو کر بحر پیدا کرتے ہیں۔
تخلص:
وہ مختصر نام جو شاعر اپنے نام کی جگہ اپنی پہچان کے لئے شاعری میں لاتا ہے،تخلص کہلاتا ہے۔
مثلاً اسداللہ خاں کا تخلص غالب۔کبھی شاعر اپنے نام کا ہی کوئی حصہ اپنا تخلص بنا لیتا ہے۔مثلاً میر تقی کا تخلص میر اور مومن خاں کا تخلص مومن ہے۔تخلص کی پہچان کے لیے اس پر ایک مخصوص نشان بنا دیا جاتا ہے۔

Saturday, 17 October 2020

Red Cross Society NCERT Class 9 Jaan Pehchan

 ریڈ کراس سوسائٹی

جوڑ کا لال نشان آپ نے اکثر دیکھا ہوگا۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ شان کس طرح ڈاکٹروں کے لیے مخصوص ہو گیا۔ یہ بھی جاننا مناسب ہوگا کہ کس طرح کسی ایک شخص کے ذہن میں خدمت خلق کا جذ بہ ادارے کی شکل میں بدل جاتا ہے۔ اور بڑھتے بڑھتے دنیا کے ہر گوشے میں پھیل جاتا ہے ۔ آج ریڈ کر اس سوسائٹی صرف علاج کا ادارہ نہیں بلکہ انسانی ہمدردی اور خدمت کا سب سے بڑا عوارمی مور چہ بھی ہے ۔ آیئے اس سوسائٹی اوراس کے قائم کرنے والےکے بارے میں بعض معلومات حاصل کریں۔
      سو سال پہلے کی بات ہے۔ اٹلی کے ایک چھوٹے شہر سلفر ینو پر آسٹریا کی طاقتور فوج کا قبضہ تھا۔ فرانس نے اپنے دوست ممالک کی مدد سے آسٹریا کی فوج پر حملہ کر دیا۔ بڑی خوں ریز لڑائی ہوئی ۔ صرف پندرہ گھنٹے کی لڑائی کے نتیجے میں دونوں طرف کے چالیس ہزار سپاہی زخمی ہو چکے تھے۔ پورا میدان جنگ لاشوں اور زخمیوں سے اٹا پڑا تھا۔ لڑائی بند ہونے کے بہ ظاہر کوئی آثارنظرنہ آتے تھے۔ لیکن بارش اور ہوا کا ایک طوفان آیا اور اس رحمت خداوندی نے فریقین کو جنگ بند کرنے پر مجبور کردیا۔
         انھی دنوں سلفر ینو میں فرانس کے کسی بینک کا ایک عہدے دار جین ہنری ڈونان بھی موجود تھا۔ وہ شہنشاہ فرانس نیپولین سے ملنے سلفرینوگیا تھا۔ ڈو نان کو الجزائر میں اپنے کیمپوں میں پانی کا معقول بندوبست کرنا تھا۔ اور اسی لیے وہ نپولین سے مل کر خاص سہولتیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ڈونان نے جب جنگ کی ان تباہ کاریوں کو دیکھا تو وہ اپنا کام بھول بیٹھا۔ ہزاروں سپاہیوں کو خاک و خون میں نہ تڑپتا ہوا دیکھ کر اس کا دل رو پڑا۔ زمین آب پاشی، بینک اب اسے کوئی چیز یاد نہ رہی ۔ اب اس کے سامنے یہی مقصد تھا کہ وہ کسی طرح ان تڑپتے ہوئے زخمی سپاہیوں کی مدد کرے اور انھیں موت سے بچائے ۔ اسی مقصد کے لیے وہ فوراً سلفرینو کی سمت روانہ ہو گیا۔ وہاں اور اس کے قریب کے گاؤں کے لوگوں سے ملا۔ انھیں انسانیت بھائی چارے کا واسطہ دے کر اس بات پر راضی کیا کہ وہ زخمی سپاہیوں کی خبرگیر کرنے میں اسکاہاتھ بٹائیں۔"ہم سب بھائی ہیں"۔ ڈوٹان کے اس نعرے نے آخر لوگوں کے دلوں میں محبت کا جذبہ پیدا کردیا۔ تین سو افراد اکٹھا ہوئے ۔ بہت سی خواتین نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
        میدان جنگ میں ہزاروں زخمی سپاہی بھوک، پیاس اور درد کی تکلیف میں کراہتے نیم مردہ پڑے تھے۔ ڈونان کے گروہ نے زخمیوں کی مرہم پٹی کی اور ابتدائی طبی امداد بہم پہنچائیں زخمی سپاہیوں کو اٹھا کر قریب کے  دیہاتوں میں لے جایاگیا جہاں ان کا باقاعدہ علاج کیا گیا۔

      لڑائی ختم ہوگئی لیکن ڈونان کی بے چینی قائم رہی۔ اس نے جنیوا میں دوبارہ اپنے کاروبار میں دلچسپی لینے کی کوشش کی لیکن زخمی سپاہیوں کا دکھ اور تکلیف دہ نہ بھول سکا۔ اب وہ ایک ایسی با قاعدہ تنظیم کا خواب دیکھنے لگا جو عالمی پیمانے پر زخمی سپاہیوں کی مدد کر سکے۔ 1861 میں اس نے " سلفرینو کی یاد میں“ نامی ایک کتابچہ تیار کیا اوراس کی ہزاروں کا پیاں چھپوا کر یوروپ میں تقسیم کروادیں ۔ اس کتابچے نے یوروپ میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ جنگ کے بھیانک نتائج کو پڑھ کر با شعور طبقہ چونک پڑا اور سبھوں نے ایسی سوسائٹی کی ضرورت محسوس کی جو زخمی سپاہیوں کی مدد کے لیے منظم طریقے سے کچھ کر سکے ۔ ڈونان نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ایک کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی نے جنیوا میں ایک کانفرنس بلائی ۔ ڈونان نے اس کی کامیابی کے لیے انتھک کوشش کی ۔ وہ لوگوں سے ملتا۔ انھیں کانفرنس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا اور اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے ان کی مدد مانگتا۔ اس نے ہزاروں خطوط دنیا بھر میں بھیجے۔ اس کی مخالفت بھی ہوئی لیکن وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔ آخر اکتوبر 1863 میں کانفرنس ہوئی ۔ جس میں سترہ ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ جلسے میں سوسائٹی کے اغراض و مقاصد پر غور کیا گیا۔ اس کے بعد جنیوا کی دوسری میٹنگ میں ایک تجویز منظور ہوئی۔ ایک عالمی قانون بنایا گیا ۔ آج تک اس قانون کی پابندی ہوتی ہے۔ اس طرح ریڈ کراس سوسائٹی وجودمیں آئی1864 سے ریڈ کراس کے افراد کو اسی نشان سے پہچانا جانے لگا۔
   ریڈ کراس سوسائٹی اس طرح اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور اس کی ترقی ہوتی گئی۔ لیکن اس کی کامیابی کے پیچھے ہنری ڈونان کی قربانی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ریڈ کراس سوسائٹی کی وجہ سے وہ اپنے کاروبار پر توجہ نہ دے سکا۔ اس کا کاروبار تباہ ہو گیا ۔ سب سے تکلیف دہ بات تو یہ ہوئی کہ ریڈ کراس سوسائٹی نے اسے کچھ عرصے کے لیے نظر انداز کر دیا اور ڈو نان کسی نامعلوم جگہ پر چلا گیا۔
    پندرہ سال بعد سوسائٹی کا سالانہ اجلاس روم میں ہوا۔ اجلاس جاری تھا کہ صدر کو کسی اسکول کے ایک معلم کا خط موصول ہوا جس میں ڈونان کا پتہ درج تھا۔ سوسائٹی کے افراد نے یہ محسوس کیا کہ ڈونان کو قابل عزت جگہ دی جانی چاہیے۔ اسے نوبل پرائز دیا گیا لیکن پندرہ سال کے اس عرصے میں اس کی صحت کافی گر چکی تھی ۔ وہ دوبارہ صحت یاب نہ ہوسکا۔ آخر 1910 میں اس کا انتقال ہوگیا۔
    ریڈ کراس سوسائٹی انسانیت کی خدمت آج بھی اسی طرح کر رہی ہے۔ یہ سوسائٹی دنیا کے ہر ملک میں قائم ہے۔ کہیں سیلاب آجاۓ ، قدرتی آفات میں انسانی زندیگی کا  نقصان ہوجائے یا قتل وخون ک واقعات ہوں ہر جگہ ریڈ کراس سوسائٹی کی شاخیں انسانی خدمت کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔
غور کیجیے
خدمت خلق کو اپنی زندگی میں مشن بنا لینا بڑا کام ہے۔ ذاتی نقصانات کے باوجود ڈونان نے دنیا کے لیے جو نمایاں کام کیےایسے کاموں کی زیادہ مثال نہیں ملتی۔ ایسے لوگ قابل قدر ہوتے ہیں ۔
ڈونان نے ایک چھوٹے سے شہر میں جس کام کی بنیاد رکھی ، وہ پوری دنیا میں پھیلا ۔ اس کا پیغام آج ہر خاص و عام جانتا ہے ۔
 

سوچیے اور بتائیے:

سوال1:ہنری ڈونان نپولین سے کس مقصد سے ملنے گیا تھا؟

جواب: ہنری ٹونان شہنشاہ فرانس نپولین سے ملنے خاص سلفرینوگیا تھا۔ ڈونان کو الجزائر میں اپنے کیمپوں میں پانی کا معقول بندوبست کرنا تھا۔ اور اسی لیے وہ نپولین سے مل کر خاص سہولتیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔

سوال2:ڈونان کو ریڈ کراس سوسائیٹی قائم کرنے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟

جواب:میدان جنگ میں ہزاروں زخمی سپاہی بھوک، پیاس اور درد کی تکلیف میں کراہتے اور نیم مردہ  دیکھ کر ٹوان کا دل کانپ اٹھا اور اس نے ایک ٹیم بناکرزخمیوں کی مرہم پٹی کی اور ابتدائی طبی امداد بہم پہنچائیں زخمی سپاہیوں کو اٹھا کر قریب کے  دیہاتوں میں لے جایاگیا جہاں ان کا باقاعدہ علاج کیا گیا۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد بھی ڈونان کی بے چینی قائم رہی۔ اس نے جنیوا میں دوبارہ اپنے کاروبار میں دلچسپی لینے کی کوشش کی لیکن زخمی سپاہیوں کا دکھ اور تکلیف دہ نہ بھول سکا۔ اب وہ ایک ایسی با قاعدہ تنظیم کا خواب دیکھنے لگا جو عالمی پیمانے پر زخمی سپاہیوں کی مدد کر سکے۔ اور اسی طرح اسے ریڈ کراس سوسائٹی قائم کرنے کا خیال آیا۔

سوال3:ریڈ کراس سوسائی کے مقاصد کیا ہیں؟

جواب: ریڈ کراس سوسائٹی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔  یہ سوسائٹی دنیا کے ہر ملک میں قائم ہے۔ کہیں سیلاب آجاۓ ، قدرتی آفات میں انسانی زندیگی کا  نقصان ہوجائے یا قتل وخون ک واقعات ہوں ہر جگہ ریڈ کراس سوسائٹی کی شاخیں انسانی خدمت کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔

سوال4:ڈونان کو کون سا انعام دیا گیا اور کیوں؟

جواب:ٹونان کو ریڈ کراس سوسئٹی کے قیام کے اعتراف میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔



Bansuri Wala NCERT Class 9 Chapter 10

بانسری والا


 سوال 1 : لوگ چوہوں کی شرارت سے کیوں تنگ آگئے تھے؟ 

جواب: لوگ چوہوں کی شرارت سے اس لیے تنگ آگئے تھے کیونکہ چوہے کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑوں کو کتر کرخراب کردیتے تھے۔ سوتے ہوئے بچوں کو کاٹ لیتے تھے۔


سوال 2 : چوہوں کو بھگانے کے لیے کون سی ترکیب نکالی گئی؟ 

جواب: چوہوں کو بھگانے کے لیے لوگوں نے یہ ترکیب نکالی کہ وہ بانسری والے کو بلائیں گے جو اپنی بانسری کی دھن پر چوہوں کو کہ یہاں سے کہیں دور لے جائے گا۔


سوال3:بانسری والے نے چوہوں کو بھگانے کے لیے کون سی شرط ر کھی؟ 

جواب:بانسری والے نے شرط رکھی کہ وہ چوہے بھگانے کا  ایک ہزار گولڈر لے گا۔


سوال4:بانسری والے نے وعدہ پورا نہ ہونے پر کیا کیا؟

جواب:بانسری والے نے ایسی بانسری بجائی کہ سارے بچے اس کہ پیچھے چلنے لگے اور اس طرح اس نے سارے بچوں کو ایک غار میں قید کر دیا

خوش خبری