آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 16 January 2021

Chutti Ka Din By Hamid Hasan Quadri NCERT Urdu Class 9Jaan Pehchan

 چھٹی کا دن 
حامد حسن قادری


حامد حسن قادری
(1887 - 1964)
مولوی حامد حسن قادری قصبہ بچھراؤں ضلع مراد آباد کے ایک زمین دار خاندان میں پیدا ہوئے۔ بچھراؤں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ عالیہ، رام پور میں داخل ہوئے۔ 1909 میں دسویں درجہ کا امتحان پاس کیا۔ منشی کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی سے 1910 میں اول پوزیشن حاصل کر کے کامیاب ہوئے ۔ منشی فاضل اور اردو میں خصوصی صلاحیت کے امتحانات 1911 میں لاہور سے پاس کیے۔
مہو چھاونی کے ایک پارسی اسکول میں 1912 میں بحیثیت استاد تقرر ہوا۔ اگلے سال اسلامیہ ہائی اسکول، اٹاوہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1927 - 1913 کے دوران حلیم مسلم ہائی اسکول، کان پور کے ہیڈ مولوی کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ سینٹ جانس کالج، آگرہ میں 1927 میں لکچرر مقرر ہوئے اور 1945 میں اسی کالج میں صدر، | شعبہ فارسی اور اردو مقرر ہوئے۔ 1954 میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔ موصوف اردو زبان کے ادیب، ناقد ، مبصر، شاعر، مترجم، مؤرخ اور تاریخ گو تھے۔ انھوں نے لگ بھگ 60 کتابیں تصنیف کیں ۔ جس زمانے میں وہ کان پور میں مقیم
تھے اسی عرصے میں انھوں نے بچوں کا اردو رسالہ ”سعید" جاری کیا جو کئی برس تک جاری رہا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے بہت ہی سبق آموز کہانیاں تصنیف کیں ۔ کئی اہم فارسی کی کتابوں کے ترجمے اردو میں شائع کیے۔
موصوف کی نہایت اہم تصنیف ”داستان تاریخ اردو " ہے جس میں اردو نثر کی تاریخ ابتدائی دور سے لے کر 1960 تک مع نمونہ نثر دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔

Saturday, 26 December 2020

Waqt By Deputy Nazir Ahmad NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

وقت
ڈپٹی نذیر احمد
دنیا میں ہر چیز کی کچھ نہ کچھ تلافی ہے۔ مگر نہیں ہے تو وقت کی ۔ جو گھڑی گزرگئی وہ کسی طرح تمھارے قابو میں نہیں آسکتی اور وقت کے گزر جانے پرغور کریں تو اسے کسی چیز کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جاسکتی ۔ وقت ریل سے زیادہ تیز ہے، ہوا سے بڑھ کر اڑنے والا، بجلی سے سوا بھاگنے والا اور دبے پاؤں نکلا جاتا ہے کہ خبر نہیں ہوتی صبح ہوئی ، سوکر اٹھے جب تک معمولی ضرورتوں سے فراغت حاصل کرو، ذرا ناشتہ وغیرہ کھاؤ پیو، پھر دن چڑھ آیا۔ پھر گھڑی دو گھڑی ادھر ادھر اٹھے بیٹھے، گپ شپ اڑائی تو دس بجنے کو آئے۔ مدرسہ جانے کو دیر ہوتی ہے۔ جلد کھایا پیا، مدر سے گئے۔ وہاں دوستوں سے ہنسی مذاق کرتے رہے۔ استاد کی تاکید سے دو ایک مرتبہ بری بھلی طرح سبق پڑھا، چلو شام ہوئی ۔ دن رخصت ہوا گھر آئے تو پھر کھانے کو سوجھی، کھانا کھانے سے کسل پیدا ہوا، ذرا لیٹے تو پھر صبح موجود۔ کام تو کچھ بھی نہ ہوا، لیکن چوبیس گھنٹے گزرتے ہوئے معلوم نہ ہوئے اور ایک چوبیس گھنٹے کیا، ایسے ایسے صد ہا ہزاروں چوبیس گھنٹے اسی طرح گزر جاتے ہیں۔ بیت:
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں  ہی تمام  ہوتی ہے
جب وقت کی بے ثباتی کا یہ حال ہے اور جو وقت گزرا وہ ہمارے اختیار سے باہر ہوا تو نہایت ضروری ہے کہ وقت پر ہمارا اختیار ہو۔ اس کو ضائع نہ ہونے دیں۔ یہی وقت ہے کہ سونے اور کھیلنے میں گزر جاتا ہے اور آدمی کو سست اور غبی، رسوا اور خوار اور محتاج اور طرح طرح کے امراض میں مبتلا اور بداخلاقیوں میں گرفتار کر دیتا ہے۔
یہی وقت ہے کہ اگر اس کو اچھے شغل، اچھے کام، اچھی بات میں لگایا جائے تو انسان کو عالم، فاضل، لائق، ہنرمند، نام ور محترم، نیک ہر دل عزیز بنا کر طرح طرح کی خوبیوں اور بھلائیوں سے آراستہ کر سکتا ہے۔
اے لڑکو! یہ فراغت کا وقت جو تم کو اب میسر ہے بس غنیمت سمجھو۔ اب نہ تم کو کھانے کی فکر ہے نہ کپڑے کا سوچ۔ جو کچھ تم سے سیکھتے اور حاصل کرتے بن پڑے لگ لپٹ کر جلد سیکھ ساکھ لو کہ آئندہ تمھارے کام آئے ۔ ورنہ پھر کہاں تم اور کہاں یہ فراغت ۔ اس وقت تم سر پر ہاتھ رکھ کر روؤ گے اور رونا کچھ سود مند نہ ہوگا۔ بہت پچھتاؤ گے اور پچھتانا کچھ فائدہ نہ بخشے گا۔ بہت افسوس کرو گے اور افسوس سے کچھ نہ ہو گا۔ یہ وقت جو تم کو اب حاصل ہے ان وقتوں کی مانند نہیں، جو جوانی اور پیری میں تم کو آئندہ پیش آئیں گے۔ لڑکپن کا وقت جو تنے اور بونے کا وقت ہے اور جوانی اور پیری کا وقت کاٹنے اور گا ہنے کا ۔ اگر اس وقت میں تم کچھ جوت بو رکھوگے تو جوانی اور پیری دونوں میں کاٹ سکو گے۔ اس وقت کو اس طرح صرف کرو کہ جوانی اور پیری دونوں میں آرام آسائش سے رہو اور چا ہو تو اس وقت کو ایسا اکارت کرو کہ جوانی بھی خراب ہو اور پیری بھی برباد ہو۔ ایک وقت وہ آرہا ہے کہ تم فرصت کو ڈھونڈو گے اور فرصت کا پتہ نہ پاؤ گے اور فراغت کی تلاش کرو گے اور فراغت کا سراغ نہ ملے گا۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ دنیا کا بار تمھاری پیٹھ پر لدا ہوگا۔ خانہ داری کے بکھیڑوں میں تم اس طرح پھنسے ہوگے جس طرح دلدل میں گدھا۔ ایک طرف تو فکر معاش تم کو سر کھجانے کی مہلت نہ دے گی اور دوسری طرف انتظام تعلقات تم کو دم نہ لینے دے گا۔ اس وقت کسب کمال کا کیا مذکور، اگر حواس بجا رکھ کر ان ہی کاموں سے عہدہ بر آ ہو جاؤ تو صد آفریں۔
بس یہ خیال ہرگز اپنے دل میں مت آنے دو کہ ابھی سیکھنے کا بہت وقت آرہا ہے ۔ ایسی کیا بھا گڑ مچی ہے کہ رات دن لکھنے پڑھنے کے پیچھے مر مٹے۔ اگلا حال کچھ کسی کو معلوم نہیں ۔ کون جانے کہ تندرستی رہے نہ رہے۔ زمانہ فرصت دے یا نہ دے۔ یہ سب سامان جواب میسر ہیں ، میسر ہوں یا نہ ہوں ۔ بے شک وقت کی قدر و قیمت اور اس کی بھاگا بھاگ تو یہ چاہتی ہے کہ تم خواب و خور اپنے اوپر حرام کر کے رات دن کتاب پر سے سر نہ اٹھاؤ لیکن انسان کی طبیعت کو خدا نے تازگی پسند بنایا ہے۔ کیسا ہی کوئی دل چسپ شغل ہو ایک عرصے کے بعد ضرور اس سے جی گھبرا اٹھتا ہے اور طبیعت اکتانے لگتی ہے اور اگر طبیعت کو مجبور کر کے اس کام پر لگائے رہو تو وہ کام بھی اچھی طرح نہیں ہوتا اور حواس بھی کند ہو جاتے ہیں ۔ اس واسطے مناسب ہے کہ کتاب کا مطالعہ ایسے اعتدال کے ساتھ جاری رکھو کہ تندرستی کو خلل نہ پہنچے اور ہمیشہ چند قسم کا شغل رکھو۔ مثلاً نظم و نثر، تاریخ و جغرافیہ اور حساب ایک ساتھ پڑھو ۔ جب نثر سے طبیعت ملول ہوئی نظم دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر تاریخ پڑھی ۔ کچھ دیر جغرافیہ کی سیر کی، پھر حساب میں طبع آزمائی کی۔ ان سب سے گھبرائے تو کچھ لکھنے بیٹھ گئے۔ جب رات کو سونے لگو تو ضرور سوچو کہ آج ہم نے کون سی نئی بات حاصل کی ۔ اگر معلوم ہو کہ آج کچھ نہیں سیکھا تو جانو کہ دن رائیگاں گیا اور اس نقصان کی تلافی اپنے ذمے لازم سمجھو۔ کسی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ جس کے دو دن برابر ہوں یعنی ایک شخص جیسا کل تھا آج بھی ویسا ہی رہے اور اپنی حالت دیروز ہ میں ترقی نہ کرے تو وہ خسارے میں ہے۔
         
 ڈپٹی نذیر احمد
(1831 - 1912)
ڈپٹی نذیر احمد اتر پردیش کے ضلع بجنور، تحصیل نگینہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ریہڑ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مولوی سعادت علی تھا۔ نذیر احمد کی ابتدائی تعلیم بجنور مظفر نگر اور دہلی میں ہوئی ۔ اعلی تعلیم دلی کالج میں ہوئی جو اب ذاکر حسین کالج کے نام سے مشہور ہے۔
1854 میں تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے پنجاب کے ایک مدرسے میں مدرسی کا پیشہ اختیار کیا۔ انگریز حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں' شمس العلما' کا خطاب دیا۔ 1902 میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ۔ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔
ڈپٹی نذیر احمد ترجمہ نگار، ادیب، ناول نگار اور مقرر بھی تھے۔ اردو ادب میں ان کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ وہ اردو کے پہلے ناول نگار ہیں۔ "مراۃ العروس" بنات النعش"،" توبتہ النصوح‘‘ اور" ابن الوقت" ان کے اہم ناول ہیں۔ ان کے ناول حقیقت پسندی ، اخلاقی تربیت اور دلچسپ کرداروں سے بھر پور ہیں۔ لہجہ پر جوش اور اثر انگیز ہے۔

Mulla Nasruddin By Ahmad Jamal Pasha NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehhan

ملا نصرالدین
ملا نصرالدین کے بارے میں عجیب و غریب روایتیں ہیں۔ مثلا یہ کہ سیر و سفر کے رسیا اس ازلی سیاح نے اپنے سست رفتار گدھے پر دنیا کا سفر کیا تھا۔ ملا نے ٹٹو پر دنیا کا سفر کیا یا نہیں مگر اپنے لطائف کے دوش پر یہ سفر ضرور پورا کر لیا۔ ملا کا گدھا کسی بھی صورت میں ڈان کو یکزاٹ اور خوبی کے ٹٹو سے کم نہیں ۔ ملا کا سفر ابد تک جاری رہے گا۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ملا کے واقعات ، فیصلے ، لطیفے ، حکایتیں ، مضحک واقعات اور سفر نامے ترجمہ ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔
ملا نصرالدین اپنی حاضر جوابی ، خوش باشی، زندہ دلی کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں ۔ ملا کا مزاح لا فانی ہے اور اس وقت تک کبھی پرانا نہ ہوگا جب تک کہ ایسے لوگ باقی ہیں جو ایک ستھرے اور شستہ مذاق کو پسند کرتے ہیں ۔ ملا کے ان پر لطف واقعات اور باتوں پر آج بھی لوگ اسی طرح ہنستے ہیں جیسے ملا کے زمانے میں ان پر لوگ ہنسا کرتے تھے۔ ملا سے متعلق روایات کے مطابق انھوں نے مختلف ملکوں کا سفر کیا تھا اور مختلف در باروں سے وابستہ رہے تھے۔ اکثر تذکروں میں ملا کے تر کی ، ایران، عرب، ہندوستان، روس، چین جانے کے بارے میں روایتیں ہیں مگر آن روایتوں کی حیثیت قیاس آرائی سے زیادہ نہیں۔ ملا کب کس زمانے میں اور بادشاہ کے عہد میں کس ملک میں رہے اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔
ملا کا باقاعدہ گھر بار ہے جو بار بار بستا اور آجڑ تا ہے۔ اس میں ویرانی کے بجائے ایک چہل پہل اور فاقہ مستی ہے۔ ملا کے بیوی بچوں سے لے کر گدھے تک سب اسی رنگ میں سرشار نظر آتے ہیں۔
ملا ہر فن مولا ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا پیشہ ہو جسے ملا نے اختیار نہ کیا ہو کبھی وہ معلم کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں، کبھی منبر پر وعظ دیتے نظر آتے ہیں۔ کبھی ایک تاجر کی حیثیت سے مصروف نظر آتے ہیں کبھی معمار کی شکل میں مکان بناتے ملتے ہیں۔ کبھی درزی کی حیثیت سے کپڑے سیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی قاضی کی حیثیت سے دونوں فریقوں کے حق میں فیصلہ کرتے ہو تے ہیں اور کبھی ایک سیاح کی طرح جہاں گردی میں ٹٹو پر سوار نظر آتے ہیں ۔ ان کی زندگی ایک مسلسل سفر ہے۔
ملا نصر الدین کوئی خیالی کردار نہیں۔ البتہ بے شمار من گھڑت واقعات اس کی ذات سے منسوب کر دیے گئے ہیں۔ ملا کی زندگی میں ایسے واقعات بہت ہوئے جو اپنے انوکھے پن اور ذہانت کی وجہ سے ہمیشہ دل چسپی کا باعث رہیں گے ۔ یہی واقعات ملا کی ہر دل عزیزی اور لا زوال شہرت کا باعث ہیں۔ ہر محفل کو گرم کرنے کے لیے آج بھی ملا کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
مالا ہنسی ہنسی میں اہم اور ٹیڑھی باتیں اور بار یک نکتے ، بالکل سیدھے سادے طور پر سمجھادیتا تھا۔ اس کا مزاح اور طنز آمیز باتیں دل پر فوراً اثر کرتیں ۔ سننے والے ہنستے ہنستے زندگی کی کسی بڑی حقیقت پر غور کرنے لگتے۔
ملا نے سنجیدہ فکر کو بیدار کرنے کے لیے کبھی پند و نصائح سے کام نہیں لیا حالاں کہ ملا نے زندگی بھر صرف نصیحتیں ہی کیں مگر براہ راست نہیں۔
ملا کا نظریہ یہ تھا کہ اس رونی منہ بسورتی دنیا میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی سمجھ کے مطابق بات کی جائے اور بات سمجھانے کے لیے ہنسی مذاق کو اپنا شعار بنایا جائے ۔ ملا نصر الدین نے اپنے اس نظریے کو اس حد تک عملی جامہ پہنایا کہ وہ خود جان بوجھ کر ظرافت کے اس عمل سے گزرتے رہے جس میں تماشے اور تماشائی میں فرق نہیں رہ جاتا اور ہنسانے والے کی اعلی ظرفی اپنے اوپر قہقہے لگانے اور لگوانے پر بھی قادر ہوجاتی ہے۔ اس طور پر ملا نے عقل مندی کے ساتھ لوگوں کو اچھی باتیں ذہن نشین کرا کے لطیفے کے افادی مر تبے کو بہت بلند منزل عطا کردی۔
(احمد جمال پاشا)
 احمد جمال پاشا
(1929 -1987)
احمد جمال پاشا کا اصلی نام محمد نزہت پاشا تھا۔ وہ الہ آباد میں پیدا ہوئے ۔ لکھنو یو نیورسٹی سے بی اے اور علی گڑھ مسلم یونیورٹی سے ایم ۔ اے کیا۔ لکھنؤ سے اودھ پنچ نکالنا شروع کیا جسے اس کا تیسرا دور کہا جاتا ہے۔ بعد میں قومی آواز اخبار کے شعبہ ادارت سے منسلک ہو گئے ۔ 1976 میں سیوان (بہار) منتقل ہوگئے، جہاں ذکیہ آفاق اسلامیہ کالج میں اردو کے استاد کے طور پر خدمات انجام دیں ۔ پٹنہ میں انتقال ہوا۔
احمد جمال پاشا نے 1950 سے لکھنا شروع کیا۔ زمانہ طالب علمی میں علی گڑھ کے رسالے ” اسکالر " کے مدیر ہوئے اور اس کے ’’ پیروڈی نمبر " کی وجہ سے شہرت پائی۔ "اندیشہ شہر" ، " ستم ایجاد"، "لذت آزار"،" مضامین پاشا"، "چشم حیران" اور" پتیوں پر چھڑ کاو" وغیرہ ان کی مشہور مزاحیہ کتابیں ہیں ۔ ” ظرافت اور تنقید"  ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
احمد جمال پاشا کو ادبی خدمات کے لیے غالب ایوارڈ اور بہار اردو اکادمی کا اختر اور نیوی ایوارڈ دیا گیا۔

غور کیجیے :
لطیفے، چٹکلے یوں تو ہنسنے ہنسانے کے لیے ہوتے ہیں لیکن ان کے پیچھے سماجی ، تہذیبی اور اخلاقی مقاصد بھی پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ اسی لیے ملا نصرالدین کے لطیفے صرف ہنسنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان سے ہماری سماجی برائیوں کی اصلاح بھی ہوتی ہے۔
سوچیے اور بتایئے:
1. ملا نصر الدین کے بارے میں کیا کیا روایتیں مشہور ہیں؟
2. ملا نصر الدین کا نام آج بھی کیوں زندہ ہے؟
3۔ ملا نصر الدین کو ہرفن مولا کیوں کہا جاتا ہے؟
4۔ ملا نصر الدین کی باتیں دل پر کیوں اثر کرتی تھیں؟ 5۔ ملا نصر الدین نے ہنسی مذاق کو اپنا شعار کیوں بنایا؟

Gaon Panchayat NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

گاؤں پنچایت
کسی زمانے میں ہمارے ملک میں گاؤں کا انتظام گاؤں والوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ گاؤں کی حفاظت ، صفائی، کھیتی تعلیم کا بندوبست گاؤں والے خود کر لیا کرتے تھے۔ جب انگریزوں کی حکومت آئی تو گاؤں کا انتظام سرکار نے اپنے ذمے لیا۔
مہاتما گاندھی چاہتے تھے کہ گاؤں کے انتظام میں گاؤں والوں کا پورا ہاتھ ہو۔ اس لیے آزادی کے بعد ہماری سرکارنے گاؤں کی طرف دھیان دیا۔ ہماری ریاستوں میں پنچایت راج قانون بنایا گیا، جس سے گاؤں والوں کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ اپنے گاوں کا انتظام خود کریں۔
اس قانون کے مطابق ہر اس گاؤں میں گاؤں سبھا بنائی جاتی ہے جس کی آبادی ڈھائی سو یا اس سے زیادہ ہو گاؤں سبھا کی ہر سال دو بیٹھکیں ہوتی ہیں۔ ایک خریف میں اور ایک ربیع میں ۔ خریف میں گاؤں سبھا آئندہ سال کا بجٹ منظور کرتی ہے اور ربیع کی بیٹھک میں پچھلے سال کے حساب کی جانچ کرتی ہے۔
گاؤں سبھا اپنے ممبروں میں سے پردھان اور گرام پنچایت کا چناؤ کرتی ہے۔ اس انتظامیہ کمیٹی کا نام گاؤں پنچایت ہے۔ اس میں پندرہ سے تیس ممبر تک ہوتے ہیں ۔ ان ممبروں کا چناو پانچ سال کے لیے ہوتا ہے ۔ گاؤں پنچایت کے ممبر ہر سال اپنا ایک’ اپ پر دھان' چنتے ہیں ۔اگر گاؤں سبھا کسی وقت یہ دیکھے کہ پردھان اور اپ پردھان اس کی ہدایتوں کے مطابق کام نہیں کر رہے ہیں تو اسے یہ اختیار بھی رہتا ہے کہ انھیں ان کے عہدوں سے ہٹا دے۔
گاؤں سبھا کا پردھان ہی گاؤں پنچایت کی بیٹھکوں کی صدارت کرتا ہے۔ پردھان اور اپ پردھان کے علاوہ گاؤں پنچایت کا ایک سکریٹری بھی ہوتا ہے جسے سرکار مقرر کرتی ہے۔ یہی گاؤں پنچایت ، گاؤں سبھا کی نگرانی میں گاؤں کا انتظام کرتی ہے۔ گاؤں میں اسکول ، ریڈنگ روم اور کتب خانے کھولنا، علاج اور صفائی کا انتظام کرنا کھتی اور دست کاری کو ترقی دینا، سڑکیں اور چھوٹے چھوٹے پل بنانا، میلے اور بازارلگوانا، مویشیوں کی دیکھ بھال اور علاج کا انتظام کرنا، درخت لگوانا اور گاؤں کی حفاظت کے لیے رضا کار بنانا گاؤں پنچایت کے خاص کام ہیں ۔ گاؤں پنچایت کو ان کاموں کے لیے کچھ روپے سرکار سے ملتے ہیں اور کچھ ٹیکس وغیرہ کے ذریعے پنچایت خود حاصل کرتی ہے۔
گاؤں کے جھگڑے طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے جسے" پنچایتی عدالت“ کہتے ہیں۔ اس کا چناؤ ہر پانچویں سال ہوتا ہے۔ اس کے صدر کو سر پنچ اور نائب صدر کو نائب سرپنچ کہتے ہیں۔ پنچایتی عدالت میں پانچ پنچوں کی چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں ہوتی ہیں جو پنچ منڈل کہلاتی ہیں۔ یہ پنچ منڈل سال بھر کام کرتے ہیں اور پھر ان کے ممبروں کو تبد یل کر دیا جاتا ہے۔ جب کوئی مقد مہ پنچایتی عدالت کے سامنے آتا ہے تو سرپنچ اس کو ایک پنچ منڈل کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس طرح اب گاؤں کے لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے تھانے اور کچہری نہیں دوڑ نا پڑتا۔ سنچائی، مینڈ ، لین دین اور مار پیٹ کے جھگڑے گاؤں ہی میں طے ہو جاتے ہیں ۔ گاؤں کے اس انتظام کے دو فائدے ہیں ۔ ایک تو اس میں کسی طرف سے وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی اور دوسرے پنچ گاؤں ہی کے ہوتے ہیں اس لیے وہ معاملے کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور انصاف کر سکتے ہیں۔
پنچایتی راج قائم کرنے سے ہمارے گاوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ لیکن اس نظام سے جہاں ہمارے گاؤں والوں کو بڑے بڑے اختیار ملے ہیں وہاں ان کی ذمے داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔
گاؤں پنچایت کے ممبران کا فرض ہے کہ وہ مل کر گاؤں کی ترقی کے لیے کوشش کریں۔ وہ دن دور نہیں کہ گاؤں کی زندگی ویسی ہی بن جائے گی جیسی گاندھی جی چاہتے تھے۔

.
غور کیجیے:

پنچایت راج گاندھی جی کے خیالات کا حصہ ہے۔ اس کے ذریعے گاؤں والوں کو بہت سے فائدے حاصل ہورہے ہیں۔
سوچیے اور بتایئے:
1۔ انگریزی حکومت سے پہلے ہمارے گاؤں کا انتظام کیسے ہوتا تھا؟
  2۔ آزادی کے بعد ہمارے گاؤں کے انتظام میں کیا تبدیلی آئی؟
  3۔ پنچایت راج قانون کے مطابق گاؤں کا انتظام کس طرح کیا جاتا ہے؟
  4۔ گاؤں پنچایت کے کیا کیا کام ہیں؟
  5۔ گاؤں پنچایت سے کیا فائدے ہیں؟
  6۔ گاؤں پنچایت سے گاندھی جی کا خواب کس طرح پورا ہور ہا ہے؟

Bahaar Ke Din By Afsar Merathi NCERT Class 9 Jaan Pechan

بہار کے دن
 حامد اللہ افسر میرٹھی
(1898 - 1974)

حامد اللہ افسر میرٹھی میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ 1930 میں میرٹھ کا لج میرٹھ سے بی۔ اے کیا۔ پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایل ۔ ایل۔ بی کے لیے داخل ہوئے۔ اسی دوران جبلی کا لج لکھنؤ میں اردو کے استاد مقرر ہوئے اور ترقی پا کر وہیں وائس پرنسپل بنائے گئے ۔ 1950 میں وہاں سے سبک دوش ہوئے۔ ان کا انتقال لکھنؤ میں ہوا۔

انھوں نے بچوں کے لیے اسمعیل میرٹھی کی طرح چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھی ہیں ۔ بچے ان کی نظمیں دل چسپی سے پڑھتے ہیں ۔ ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہوتی ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے سولہ کتابیں لکھی ہیں جن میں سے آسمان کا ہم سایہ ' لوہے کی چپل' ،' درسی کتب',' پیام روح' اور نقد الادب بہت مقبول ہیں۔

غور کیجیے:

* اس نظم میں ہر شعر کے قافیے بدل جاتے ہیں، قافیہ شعر کے آخر میں آنے والے ان لفظوں کو کہتے ہیں جن کی

آوازیں یکساں ہوتی ہیں ۔ جیسے بہار/ نکھار، چٹک/ مہک، خوش بور / ہر سو، و غیره


سوچنے اور بتایئے:

1- بہار کے زمانے میں باغ کا منظر کیسا ہوتا ہے؟

2۔ آدمی پر بہار کا کیا اثر ہوتا ہے؟

3. بہار کی صبح ، شام اور رات کیسی ہوتی ہے؟


قواعد:

نظم کے یہ مصرعے پڑھیے

1۔ شاخوں کا بنالیا ہے جھولا

2۔ چادر ایک نور کی تنی ہے

ان مصرعوں میں ’’ شاخوں‘‘ کو جھولے سے اور" نور " کو چادر سے تشبیہ دی گئی ہے۔

عملی کام:

اس نظم کے پانچ شعر زبانی یاد کر کے استاد کو سنایئے۔


Tinka Thoda Hawa Se Udd Jata Hai NCERT Class 9 Jaan Pehchan

تنکا تھوڑی ہوا سے اڑ جاتا ہے
ایک عقاب گھٹاؤں کو چیرتا ہوا ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا اور چگر پر چکر لگا کر صدیوں پرانے ساگوان کے ایک درخت پر بیٹھ گیا۔ وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا، اس کی خوب صورتی میں وہ کھو سا گیا اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے رکھی ہوئی ہے۔ کہیں دریا میدانوں میں بل کھاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔
کہیں جھیلیں آئینے کی مانند چمک رہی ہیں۔ کہیں پھولوں سے ہے پیڑ پودے جھوم رہے ہیں اور کہیں سمندر غصے کے عالم میں اپنی پیشانی پر بل ڈالے ہوئے اپنے منہ سے جھاگ اڑا رہا ہے۔
اے خدا ! عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا: میں کس طرح تیرا شکر ادا کروں؟ تو نے مجھے پرواز کی ایسی طاقت عطا کی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں جہاں میری رسائی نہ ہو سکے۔ میں فطرت کے حسین مناظر کا لطف ایسے مقام پر بیٹھ کر اٹھا ل سکتا ہوں، جہاں کسی اور کا گذر ممکن نہیں ۔ عقاب اور کچھ کہنا چاہتا تھا کہ نزدیک ہی سے ایک مکڑی بول اٹھی: اے عقاب! تو آخر کیوں اپنے منہ مٹھو بنتا ہے؟ کیا میں تجھ سے کچھ کم ہوں؟
اس آواز پر عقاب چوکنا ہوا اور ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ۔ دیکھتا کیا ہے کہ نزدیک ہی ایک مکڑی بیٹھی جالا تن رہی ہے۔
عقاب نے پوچھا: تو اس سر بہ فلک چوٹی پرکس طرح پہنچی؟ وہ پرندے جو اپنی بلند پروازی پر ناز کرتے ہیں، وہ بھی یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں  رکھتے۔ تو تو مکڑی ہے، پر بھی نہیں تیرے، جو اڑ سکے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تو رینگتی رینگتی یہاں تک آگئی؟
  مکڑی نے جواب دیا: نہیں ، میں رینگتی رینگتی یہاں نہیں پہنچی۔
  عقاب : پھر تو یہاں کیسے آگئی؟
  مکڑی: جب تو اڑنے لگا، میں تیری دم سے چپک گئی ۔ اس طرح تو نے خود مجھے یہاں تک پہنچا دیا لیکن اب میں تیری مدد کے بغیر یہاں تیرے برابر ٹھہر سکتی ہوں ۔ تو اکیلا ہی یہاں سر بلند نہیں، میں بھی تیرے ساتھ ہوں۔
  اتنے میں ایک طرف سے تیز وتند ہوا کا جھونکا آیا اور مکڑی پہاڑ کی چوٹی سے زمین پر آرہی ۔ عقاب اپنی جگہ بیٹھا رہا۔
  دنیا میں ایسے آدمی بھی ہیں جو مکڑی کی خصلت کے ہوتے ہیں ۔ اور اپنے کسی ہنر یا اپنی کسی قابلیت کے بغیر کسی بڑی شخصیت سے چمٹ کر سماج میں اپنا مقام پیدا کر لیتے اور سینہ پھلا کر ایسا چلتے ہیں گویا انھوں نے اپنے ذاتی جوہر کی وجہ سے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ غرور ان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ جس طرح مکڑی ہوا کے ایک جھونکے کی تاب نہ لاسکی، وہ بھی دنیا کی آزمائشوں کے مقابلے میں اپنا مقام کھو سکتے ہیں۔
  . (روسی کہانی سے ترجمہ)

پروفیسر محمد مجیب
(1902 -1985)
پروفیسر محمد مجیب لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لیے 1919 میں آکسفورڈ یونیورسٹی، لندن
گئے۔ وہاں جدید تاریخ میں بی ۔ اے (آنرز) کیا اور فرانسیسی زبان سیکھی۔ برلن جا کر انھوں نے جرمن اور روسی زبانیں سیکھیں۔ ہندوستان واپسی کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں تدریسی اور انتظامی امور سے وابستہ ہوگئے۔ 1948 میں جامعہ کے وائس چانسلر بنائے گئے۔
پروفیسر محمد مجیب کا شمار اردو کے ممتاز نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ مورخ ، ڈراما نگار اور مترجم بھی تھے۔ مجیب صاحب نے آٹھ ڈرامے لکھے جن کے عنوانات کھیتی ، انجام ، خانہ جنگی، حبہ خاتون، ہیروئن کی تلاش، دوسری شام، آزمائش اور آؤ ڈراما کر یں، ہیں۔
پروفیسر محمد مجیب اپنی منصبی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام مسلسل کرتے رہے۔ انھوں نے دو سو سے بھی زیادہ مضامین لکھے۔ اردو اور انگریزی میں ان کی تینتالیس (43) کتابیں شائع ہوئیں۔
پیش نظر سبق روسی کہانی سے محمد مجیب کا ترجمہ ہے۔

Masnuyi Sayyara NCERT Urdu Jaan Pehchan Class 9

مصنوعی سیاره

اگر آپ کو ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا شوق ہے تو آپ نے وہ ٹکٹ ضرور حاصل کرلیا ہوگا جسے بھارت سرکار نے 19 اپریل 1975 کو جاری کیا تھا۔ اس ٹکٹ کے آدھے حصے میں زمین کا کنارہ دکھایا گیا ہے۔ پیچھے گہرا نیلا آسان ہے۔ بیچ میں ہلکے آسمانی رنگ کا نگینے جیسا ایک مصنوعی سیارہ ہے۔ دائیں طرف ہندی اور انگریزی میں ’’ آریہ بھٹ 1975 ‘‘ لکھا ہے۔ ایسے ٹکٹوں کو یادگاری ٹکٹ کہتے ہیں۔ یہ آریہ بھٹ کے خلا میں بھیجے جانے کے موقعے پر جاری کیا گیا تھا۔

آریہ بھٹ ہمارے ملک ہندوستان کا پہلا مصنوعی سیارہ تھا جو 19 اپریل 1975 کو خلا میں بھیجا گیا تھا۔ اس مصنوعی سیارے کا نام قدیم ہندوستان کے مشہور ریاضی داں آریہ بھٹ کے نام پر رکھا گیا ہے۔

ہندوستان سے پہلے روس، امریکہ، برطانیہ، کناڈا، اٹلی ، فرانس، آسٹریلیا ، مغربی جرمنی، چین اور جاپان اپنے مصنوعی سیارے خلا میں بھیج چکے تھے۔ ہندوستان گیارھواں ملک ہے جس نے مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا۔

کم لوگ جانتے ہیں کہ مصنوعی سیارہ کسے کہتے ہیں؟ یہ کیسے اور کیوں اڑایا جاتا ہے؟ ہمارے عہد میں سائنس کی مدد سے جو بڑی بڑی ایجادیں ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہم ایجاد مصنوعی سیارہ بھی ہے۔ مصنوعی سیارہ دھات کا بنا ہوا ایک طرح کا دو یا تین منزلہ مکان ہوتا ہے ۔ اس میں مختلف کاموں کے لیے سائنسی آلات لگائے جاتے ہیں۔ اسے زمین کی قوت کشش کے اصولوں کی روشنی میں بنایا گیا ہے۔

مصنوعی سیارے کو راکٹ کی مدد سے خلا میں بھیجا جاتا ہے۔ را کٹ آتش بازی کی ’ ہوائی‘‘ جیسا ہوتا ہے اور اسی طرح کام بھی کرتا ہے۔ مصنوعی سیارے کو خلا میں بھیجنے کے لیے دو یا تین منزلہ راکٹ استعمال کیے جاتے ہیں ۔ جب پہلی منزل کا ایندھن ختم ہو جاتا ہے تو وہ کٹ کر گر جاتی ہے اور دوسری منزل اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔ راکٹ کے ایندھن میں اتنی توانائی ہوتی ہے کہ وہ مصنوعی سیارے کو زمینی کشش کی حد سے باہر خلا میں پہنچا دیتا ہے پھر زمینی مرکز سے سائنس داں اسے خلا میں مناسب جگہ پر نصب کر دیتے ہیں۔

مصنوعی سیارہ ایک نہایت مفید ایجاد ہے۔ اس میں لگائے گئے طاقت ور کیمروں کی مدد سے زمین کو ہر طرف سے دیکھا جاسکتا ہے اور صحیح نقشہ بنایا جاسکتا ہے۔ مصنوعی سیارے کی مدد سے دنیا کے مختلف حصوں میں موسم کے بدلتے ہوئے حالات کا پہلے سے اندازہ ہو جاتا ہے ۔ اس کی مدد سے سمندری طوفانوں کی پیشین گوئی کرنا آسان ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی زمین کے اندر آتش فشاں اور زلزلے کے مرکز کا علم بھی ہوجاتا ہے۔

مصنوعی سیارے میں لگے ہوئے پیغام رسانی کے آلات کی مدد سے ریڈیو اور ٹیلی فون کا نظام بہت بہتر ہو گیا ہے۔ اب آوازوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے کسی بھی حصے کی تصویریں ، وہاں کے حالات اور واقعات کو پلک جھپکتے دنیا کے گوشے گوشے میں دیکھا اور دکھایا جا سکتا ہے ۔ ٹیلی ویژن کی شکل میں یہ سہولت ہمیں مصنوعی سیارے کے ذریعے ہی حاصل ہوئی ہے۔ اس ایجاد نے دنیا کے سارے ملکوں کو اس طرح جوڑ دیا ہے کہ ساری دنیا ایک گاؤں معلوم ہونے لگی ہے۔


سوچنے اور بتایئے:

1۔ 19 اپریل 1975 کو جاری کیے گئے ٹکٹ کی کیا خصوصیات ہیں؟

2۔ ہندوستان کے پہلے مصنوعی سیارے کا کیا نام ہے؟

3۔ آریہ بھٹ کون تھے؟

4۔ ہندوستان سے پہلے کن ملکوں نے خلا میں مصنوعی سیارے بھیجے؟

5۔ مصنوعی سیارے کے کیا فائدے ہیں؟

  6۔ ساری دنیا ایک گاؤں میں کیسے تبدیل ہوگئی ہے؟ 


عملی کام :

  مصنوعی سیارے سے متعلق پانچ جملےلکھیے۔


Saturday, 5 December 2020

Farozan Part 2 Class 7 Bihar School Text Book

ترتیب
شعرا و ادبا اصناف عنوانات
شفیع الدین نیرنظم خدا سے دعا
ماخوذکہانی بہادر بچّہ

صرف پڑھنے کے لیے ایک دوڑ ایسی بھی
اے پی جے عبد الکلام مضمونمیرے بچپن کے دن
احمد رضا خاں بریلوی نظمسب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ
ماخوذ مضمونخدا بخش لائبریری
ضرف پڑھنے کے لیے ایک چھوٹا سا لڑکا
ماخوذ مضمون ہمارا بہار
ماخوذ کہانی(فن لینڈ) حیرت انگیز ٹوپی
چکبست لکھنوی نظم ہمارا وطن
ماخوذ مضمون حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ
داغ دہلوی غزل سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
ماخوذ مضمون مجاہد آزادی شہید اشفاق اللہ خان
ماخوذ بہار کی کہانی عقلمند لڑکا
ضرف پڑھنے کے لیے جنگلی ہاتھی
اسماعیل میرٹھی نظمگرمی کا سماں
محمد اسلم پرویز مضمونآؤ ہم ماحول بچائیں
ضرف پڑھنے کے لیےہم بادل کہلاتے ہیں
ٹالسٹائے کہانیدو گز زمین

صرف پڑھنے کے لیے ہماری خواہش
ماخوذ مضمون بیگم حضرت محل
انیس اعظمیڈراما دادی اماں مان جاؤ
شفق عماد پورینظم علم اور عقل
ماخوذکہانی فضول خرچی

صرف پڑھنے کے لیے مکھی چوس
کرشنا سوبتی آپ بیتی (میرا بچپن(ترجمہ
میر انیس نظم صبر کی اہمیت

Saturday, 28 November 2020

Farozan Part 1 Class 6 Bihar School Text Book

ترتیب
شعرا و ادبا اصناف عنوانات
الطاف حسین حالی نظم حمد
منشی پریم چند کہانی دو بیل
علامہ اقبال نظم جگنو
ماخوذ مضمون حضرت عمر بن عبدالعزیز
ڈاکٹر ذاکر حسین کہانی احسان کا بدلہ احسان
افسر میرٹھی نظم وطن کا راگ
ماخوذ مضمون گنگا ندی
رابندر ناتھ ٹیگور کہانی کابلی والا
ماخوذ مضمون گاندھی جی
ماخوذ مضمون کمپیوٹر
الطاف حسین حالی نظم کہنا بڑوں کا مانو
ماخوذ مضمون نینی تال
ماخوذ راجستھانی کہانی کنجوس کی کہانی
مرزا غالب غزل غزل
ماخوذ مضمون دہلی کی جامع مسجد
ماخوذ تبت کی کہانی غریب بچّہ اور جادوگر
اسماعیل میرٹھی نظم برسات
ماخوذ انشائیہ شکر کا چکر
شاد عظیم آبادی غزل غزل
ماخوذ سوانح شہید پیر علی
کلیم عاجز غزل غزل
میر قربان علی دہلوی مضمون بہادر شاہ کا ہاتھی

Sunday, 22 November 2020

Mahol Bachaiye by Aslam Parvez NCERT Class 10 Nawa e Urdu

ماحول بچایئے
محمد اسلم پرویز
ایک عام آدمی کی نظر میں ماحولیاتی مسئلہ بھی ایک "سائنسی مسئلہ " ہے جس پر سائنس داں بحث کرتے رہتے ہیں۔ اس کے خیال میں یہ کوئی ایا مسئلہ نہیں ہے جس میں وہ دلچسپی لے یا جس پر غور وفکر کیا جائے۔ لیکن ذرا بتایئے کہ کیا ہم کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ آج کل کینسر کا مرض اتنی شدت کیوں اختیار کر گیا ہے، دل کے امراض کیوں عام ہورہے ہیں، لوگوں کو سانس کی تکلیف کیوں ہورہی ہے ، موسموں کا چلن کیوں بگڑ گیا ہے، برسات کی وہ رتیں اور جھڑیاں کیوں ختم ہوگئی ہیں، دریاؤں کا پانی گدلا اور کنوؤں کا پانی زہریلا کیوں ہو گیا ہے، تازہ ہوا کے وہ جھو نک کہاں چلے گئے کہ جو روح کو شاد کر جایا کرتے تھے، موتی کی طرح شفاف پانی کے وہ قدرتی چشمے کہاں کھو گئے جن کی تہہ کا حال اوپر سے ہی نظر آتا تھا۔ یقیناً یہ ایسے مسائل ہیں کہ جن کا تعلق ہم سے اور ہماری فنا و بقا سے ہے۔ اور اب اگر یہ کہا جائے کہ ان تمام مسلوں کا سیدھا واسطہ ہمارے بگڑتے ہوئے ماحول سے ہے تو کیا اب بھی آپ ماحولیاتی مسئلے کو سائنسی مسئلہ کہیں گے؟
قدرت نے دنیا کی ہر چیز کو ضرورت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ یہاں ہر ایک چیز دوسری چیز کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتی ہے۔ اس آپسی تعلق کو سمجھنے اور سمجھانے کا نام ” ماحولیاتی سائنس" ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان اس تعلق سے نہ صرف بخوبی واقف تھا بلکہ اس کی زندگی ان قدرتی وسائل کے گرد گھومتی تھی ۔ وہ پانی کے ذخیروں کے پاس بستیاں قائم کرتا تھا تا کہ قدرتی پانی اسے حاصل ہوتا رہے۔ جنگلات سے وہ لکڑی، چارہ اور غذا حاصل کرتا تھا ۔ زمین وسیع تھی اور آبادیاں کم تھیں۔ رفتہ رفتہ انسانی آبادی بڑھنے لگی تو ان وسائل کی مانگ بڑھی، ان پر دباؤ بڑھا اور ان کے لیے آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں ۔ کسی ملک کے زرخیز اور سر سبز و شاداب علاقوں نے وہاں حملہ آوروں کو بلا لیا تو کسی ملک کے جانور اور چراگا ہیں دشمن کی نظروں میں آ گئیں، طاقتور قوتیں اور ممالک کمزوروں کے وسائل پر قابض ہوکر انھیں بے دریغ استعمال کرنے لگے۔ قدرتی وسائل پر دوسرا حملہ صنعتی انقلاب کے دوران ہوا۔ صنعتی انقلاب نے انسان کو مشینوں سے روشناس کرایا۔ مشینوں کی مدد سے اگر چہ پیدا وار میں زبردست اضافہ ہوا اور ایسا ضروری بھی تھا کیوں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات بڑھتی جارہی تھیں ۔ لیکن اس اضافہ نے خام مال کی مانگ اور بھی بڑھا دی۔ جہاں کا غذ بنانے کے کارخانے لگے تو وہ علاقے جنگلات سے پاک ہو گئے کیونکہ تمام لکڑی کاغذ بنانے کی نذر ہوگئی۔ جہاں کسی دھات سازی کا کام ہوا تو وہاں کان کنی اتنی ہوگئی کہ تمام زمین کھود کھود کر بنجر بنادی گئی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی نئی تر قیات ہوتی گئیں اور انسانی زندگی پر مشینوں کی گرفت بڑھتی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو قدرتی توازن اس دنیا کے مکینوں کے در میان تھا، وہ برباد ہوگیا۔
انسان کے اردگرد اس کے اہم ترین ساتھی زمین، ہوا، پانی، جنگلات اور دیگر جاندار ہیں۔ یہی اس کا ماحول کہلاتے ہیں، ان سبھی کا آپس میں ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ یعنی اگر زمین خراب ہوگئی تو انسان اس سے متاثر ہوگا اور اگر انسان کا رویہ زمین کے تئیں بگڑے گا تو زمین خراب ہوگی ۔ انسان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مشینی دور کی آمد نے اس آپسی تعلق کو تہس نہس کردیا۔ کارخانوں اور فیکٹریوں نے نہ صرف یہ کہ خام مال کی شکل میں قدرتی وسائل کو بے تحاشہ استعمال کیا۔ بلکہ ان سے نکلنے والے زہریلے مادوں نے ہوا، پانی اور زمین کو زہر یلا کرنا شروع کر دیا۔ کارخانوں کی چمنیوں اور موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں اورگیسوں نے ہوا کو آلودہ کر دیا۔ جب فیکٹریاں اور گاڑیاں کم تھیں تو کم گیسیں فضا میں خارج ہوتی تھیں اور یہ تھوڑی سی مقدار بہت جلد ہوا میں گھل مل کر اتنی ہلکی ہوجاتی تھی کہ اس کا زہر یلا پن ختم ہو جاتا تھا۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے، اب اتنی زیادہ مقدار میں یہ گیسیں ہوا میں خارج ہوتی ہیں کہ ان کا پھیلنا اور تحلیل ہونا ناممکن ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام زہریلی گیسیں خطرناک حد تک ہوا میں جمع ہورہی ہیں۔ شہری اور صنعتی علاقوں کے اوپر کی گیسیں ایک غلاف کی مانند چھائی رہتی ہیں۔ ایسی ہوا میں جب ہم لوگ سانس لیتے ہیں تو یہ سب کیمیائی مادے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے کارخانوں اور موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والی گیسوں میں زیادہ مقدار کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی ہوتی ہے۔ ان سبھی کیسوں کی زیادتی ہمارے قدرتی ماحول کے لیے مضر ہے۔ ان میں سے کچھ گیسیں تیزاب کی شکل میں زمین پر آتی ہیں ۔ ایسی بارش کو "تیزابی بارش‘‘ کہا جاتا ہے اور کئی ممالک کو ان بارشوں کا تجربہ ہو چکا ہے اور ہورہا ہے۔ تیزابی بارش کی سب سے اہم وجہ سلفرڈائی آکسائیڈ گیس ہے۔ فضا میں اس گیس کی زیادتی خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ تیز ابی بارشیں نہ صرف یہ کہ پیڑ پودوں اور جانداروں کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ان سے عمارتیں اور دیگر سامان بھی متاثر ہوتا ہے۔
موٹر گاڑیوں سے نکلنے والی کثافت نے نہ صرف ہوا کو ہی متاثر کیا ہے بلکہ کارخانوں کا فضلہ ہوا کے علاوہ پانی اور زمین کو بھی خراب کرتا ہے۔ جب کارخانے کم تھے تو ان کا تھوڑا سا فضلہ پانی میں تحلیل ہو جاتا تھا لیکن جیسے جیسے کارخانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا پانی میں آلودگی بڑھتی گئی۔ آج یہ حال ہے کہ کسی بھی دریا کو ہم پوری طرح صاف اور صحت مند نہیں کہہ سکتے کسی کا پانی سڑ رہا ہے تو کسی کا پانی رنگین ہو گیا ہے، کسی میں گاد بہت ہے تو کسی کے پانی میں تیزابیت اتنی ہے کہ اس میں رہنے والے سبھی جاندار ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہوا اور پانی کی کثافت کو قابو میں رکھنے کے لیے قدرت نے بڑا اچھا انتظام کر رکھا ہے۔ زمین کے سینے میں پھیلے ہوئے جنگلات یہ کام بخوبی انجام دیتے ہیں ۔ ہوا کی آلودگی کو درخت اور دیگر پودے جذب کر لیتے ہیں نیز ان ہرے جانداروں سے خارج ہونے والی آکسیجن گیس ہوا کے زہریلے پن کو کم بھی کر دیتی ہے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ جنگلات بھی انسان کی دسترس سےمحفوظ نہ رہے۔ کہیں پر رہائش کے لیے جنگلات کو صاف کیا گیا تو کہیں کھیتی باڑی کے لیے جنگلات کاٹے گئے یا پھر کارخانوں اور فیکٹریوں کو قائم کرنے کے لیے جنگلات کو ختم کیا گیا۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین کا یہ ہرا غلاف اترنے لگا جس کی وجہ سے آلودگی میں مزید اضافہ ہوا۔
................................ بھلا ہم میں سے کون ہے جسے اپنی صحت عزیز نہ ہو۔ تو پھر یہ بے حسی کیسی ہے ۔ ہم کیوں انتظار کریں کہ جب چیکنگ اور چالان شروع ہوں تبھی اپنی گاڑیوں اور کارخانوں کو درست کریں۔ اگر ہم کو اپنی صحت پیاری ہے اور اپنے ننھے منے مسکراتے بچوں کو صحت مند فضا مہیا کرنی ہے تو ہمیں یہ بے حسی اور لاپروائی چھوڑنی ہوگی ۔ ورنہ یقین کریں کہ ہم اپنے معصوم بچوں کو ورثے میں ایک ایسی زہریلی فضا اور ماحول دیں گے جس میں وہ بھی مسکرا نہ سکیں گے اور شاید اگلی نسل کی مسکراہٹ تو دیکھ بھی نہ سکیں۔ (تلخیص)
محمد اسلم پرویز
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز
(1954)
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کا شمار ملک کی اہم تعلیمی اور سائنسی شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم دہلی کی معروف درس گاہ اینگلو عربک اسکول اور اعلی تعلیم دہلی یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ نباتیات میں ایم ایس سی ، پلانٹ فزیولوجی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین دہلی کالج میں بحیثیت سائنس لیکچرار ملازمت کا آغاز کیا۔ 2005 سے 2015 تک اسی کالج کے پر نسپل رہے۔ اکتوبر 2015 سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں۔
ڈاکٹر اسلم پرویز نے تعلیم اور سائنس کے شعبوں میں کئی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔ پاپولر سائنس کے فروغ نیز ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ اردوزبان میں سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ اسلامک فاؤنڈیشن فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کے ڈائرکٹر بھی رہے ہیں۔ 1994 سے ماہنامہ ”سائنس“ اردو زبان میں پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ مختلف سائنسی اور ماحولیاتی موضوعات پر ان کی کئی کتا ہیں اور تقریباً چارسو تحقیقی مضامین ملک اور بیرون ملک کے اہم جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔

غور کرنے کی بات:
اس مضمون میں مصنف نے معاشرے کے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آج جانے یا انجانے ہم اپنے ماحول کو بگاڑ رہےہیں اور اپنے لیے بہت سے خطرات پیدا کر رہے ہیں مگر ہم میں سے اکثر اس سے بے خبر ہیں۔
سوالوں کے جواب لکھے:
1۔ "صنعتی انقلاب‘‘ سے ہمارے قدرتی وسائل کس طرح متاثر ہوئے ہیں؟ بیان کیجیے۔
2۔ ' تیزابی بارش'  کسے کہتے ہیں؟ اس کے اسباب پر روشنی ڈالیے؟
3۔ ہمیں اپنے ماحول کو بچانے کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
4۔ ماحول بچانا کیا صرف سائنس دانوں ہی کا کام ہے یا ہر شہری کا۔ مختصراً لکھیے۔
عملی کام :
اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ماحول بچاؤ تحریک شروع کریں ۔ لوگوں کو پیڑ پودے لگانے ، آلودگی کو کم کرنے ، گاڑیوں اور کارخانوں کی زہریلی گیسوں کو دور کرنے کے لیے تا کید کریں ۔ ایک پوسٹر بنائیے جس پرمختلف رنگوں سے لکھیے :
" بچوں کی مسکان بچائیں
آؤ   ہم   ماحول سجائیں "

خوش خبری