آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday, 17 January 2021

Dhoondo ge agar mulkon mulkon by Shad Azimabadi Class10 Nawa e Urdu

 ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
شاد عظیم آبادی

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے نفسو!وہ خواب ہیں ہم 

اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا 
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم 

ہے دل میں تڑپتے جی بھر کر پر ضعف نے مشکیں کس دی ہیں 
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم 

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر 
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم 

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو اک 
اے اہل زمانہ قدر کرو، نایاب نہیں کم یاب ہیں ہم 

مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے 
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

شادعظیم آبادی
(1846- 1927)
علی محمد شاد عظیم آباد(پٹنہ ) میں پیدا ہوئے۔ گھر پر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصے تک انگریزی بھی پڑھی علوم اسلامی کی تحصیل کے ساتھ ساتھ انھوں نے عیسائیوں، پارسیوں اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا۔
نثر ونظم دونوں میں شادنے کئی تصانیف اپنی یادگار چھوڑیں ہیں ۔ شاد کی غزلوں کا دیوان ان کی وفات کے بعد 1938 میں" نغمہ الہام‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں ان کی خودنوشت اور متعدد مجموعے منظر عام پر آئے۔
شاد نے مثنوی، غزل ، قصیده، مرثیہ اور دوسری اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی شہرت کا اصل باعث ان کی ساده ، مترنم اور شیریں غزلیں ہیں۔

Saturday, 16 January 2021

Adab Ne Dil Ke Taqaze Uthaye Hain Kya Kya By Yaas Yagana Changezi

 ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیاکیا
یاس یگانہ چنگیزی
ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا 
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور 
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا 
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے 
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا 
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا 
خوشی میں اپنے قدم چوم لوں تو زیبا ہے 
وہ لغزشوں پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا
خدا ہی جانے یگانہؔ میں کون ہوں کیا ہوں 
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا

یاس یگانہ چنگیزی
(1883 - 1956)
مرزا واجد حسین نام، پہلے یاس تخلص کرتے تھے، بعد میں یگانہ ہو گئے۔ ابتدا میں مولوی سید علی خاں بیتاب سے اصلاح سخن لیتے تھے۔ بعد میں شاد عظیم آبادی کے شاگرد ہو گئے ۔ 1904 میں کلکتہ گئے، وہاں بیماری نے طول کھینچا تو علاج کے لیے لکھنؤ آئے لکھنؤ ہی میں شادی کی اور یہیں بس گئے لکھنؤ کے زمانہ قیام میں کئی ہم عصروں سے ان کے معرکے رہے۔ لکھنؤ میں غالب کے کلام کی مقبولیت کے باعث یگانہ مرزا غالب کے خلاف ہو گئے ۔ خود کو غالب شکن کہتے تھے۔
ان کی شخصیت میں خود پسندی بہت تھی۔ آزاده روی ان کے مزاج کی خاصیت تھی ۔ کلام میں قوت اور زور کے ساتھ ساتھ تلخی بہت ہے۔ ان کی شاعری میں ایک خاص طرح کی انفرادیت کا رنگ حاوی ہے۔ بول چال کے ایسے الفاظ بھی جو ادبی زبان کا حصہ نہیں ہیں، معنی میں تیزی اور تندی لانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان کی رباعیاں بھی مشہور ہیں ۔ کلام کے مجموعے ” آیات وجدانی‘‘ اور" گنجینہ" کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کا کلیات اردو کے نامور محقق مشفق خواجہ نے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔

Sindbad Jahazi Ka Ek Safar NCERT Class 9

 سندباد جہازی کا ایک سفر

سوچیے اور بتائیے:
سوال: لکڑہارے نے خدا سے کیا شکایت کی؟
جواب: لکڑہارے نے شکایت کی کہ اے خدا یہ کہاں کا انصاف ہے؟ میں صبح سے شام تک محنت کرتا ہوں پھر بھی پیٹ بھر روٹی نہیں ملتی اور امیر لوگ سارا دن آرام کرتے ہیں پھر بھی روزانہ ہزاروں پیسہ اڑاتے ہیں-

سوال:لکڑہارے نے سندباد کے محل میں کیا دیکھا؟
جواب: لکڑہارے نے سندباد کہ محل  میں دیکھا کہ دسترخوان بچھا ہوا ہے اور اس پر طرح طرح کے کھانے لگے ہیں اور وہاں بہت سے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ طرح طرح کےکھانوں کا لطف اٹھا رہے ہیں اور انہوں نے قیمتی کپڑے پہن رکھے ہیں۔

سوال 3 : سند باد جزیرے پر اکیلا کیوں رہ گیا تھا؟
جواب:
سوال:لوگ گھاٹی سے جواہرات کیسے حاصل کرتے تھے؟
جواب:لوگ گھاٹی میں گوشت کے ٹکڑے پھینکتے تھے ان ٹکڑوں پر جواہرات چپک جاتے تھے۔ پرندے گوشت کو اپنے گھونسلے ۔یں لاتے تھے جس میں چپک کر جوہرات جھونپڑوں میں آجاتے اوروہاں سے لوگ جواہرات چن لیتے تھے۔

  سوال:رخصت ہوتے وقت سند باد نے لکڑہارے سے کیا کہا ؟
جواب:رخصت ہوتے وقت سندباد نے لکڑہارے سے کہا محنت کے بغیر انسان کو راحت نصیب نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر زندگی میں امن و سکون کے لیے خوب محنت کرنی چاہیے۔

Kahawaton Ki Kahani By Furqat Kakorvi NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

کہاوتوں کی کہانی
غلام احمد فرقت کا کوروی
ہم روز مرہ اپنی آپس کی بول چال میں ایسی کہاوتیں اور محاورے بولتے ہیں جن کا مطلب تو سمجھ لیتے ہیں مگر ہم کو نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کہاوتیں اور محاورے کس طرح ہماری زبان میں آئے اور انھیں ہم کب سے بولتے چلے آرہے ہیں ۔ تم کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ان محاوروں اور کہاوتوں میں بعض ایسے ہیں جن کے پیچھے بڑے دل چسپ لطیفے اور قصے چھپے ہوئے ہیں۔
ہم اپنی روز مرہ کی گفتگو میں"  وہی مرغے کی ایک ٹانگ" بولتے ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی بس اپنی ہی بات پر اڑا رہے، چاہے حقیقت اس کے خلاف ہو۔ اس مقولے کے پیچھے جو قصہ چھپا ہے، وہ بڑا دلچسپ ہے۔
  ایک انگریز کے یہاں ایک خانساماں نے ایک مسلم مرغ پکا کر اس کی ایک ٹانگ خود کھالی اور ایک اپنے صاحب کے سامنے کھانے کی میز پر رکھ دی ۔ صاحب نے ایک ٹانگ دیکھ کر کہا:
  ’’ول خانساماں! اس مرغ کی ایک ٹانگ کہاں ہے۔؟“ "حضور! اس مرغے کی ایک ہی ٹانگ تھی۔ "خانساماں نے جواب دیا۔"
  اس پر صاحب کو ہنسی تو آئی مگر وہ خاموش ہو کر برآمدے میں ٹہلنے لگا۔ برآمدے کے سامنے کچھ مرغ اور مرغیاں دا ناچنگ رہی تھیں۔ ان میں ایک مرغ اپنا ایک پاؤں سمیٹے دوسرے پاؤں سے کھڑا تھا۔ خانساماں کو اچھا موقع ملا۔ اس نے کہا۔” دیکھیے صاحب یہ مرغ بھی ایک ہی ٹانگ کا ہے۔‘‘
  یہ سن کر صاحب، مرغ کے پاس گئے اور انھوں نے ہش ہش‘‘ کیا۔ مرغ نے دوسری ٹانگ بھی نکال دی۔ خانساماں نے یہ دیکھ کر کہا۔ ”حضور ! کھانا کھاتے وقت سرکار سے بڑی چوک ہوگئی ۔ اگر آپ اس پکے ہوئے مرغ کے سامنے ” ہش ہش" کرتے تو وہ بھی اپنی دوسری ٹانگ نکال لیتا‘‘
  اس وقت سے یہ فقره ضرب المثل بن گیا۔
  اسی طرح ایک دوسری مثل ہے” اونٹ کس گل بیٹھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھیے کیا ظہور میں آتا ہے اور کیا انجام ہوتا ہے۔ اس سے متعلق یہ مشہور ہے کہ ایک کمھار اور ایک سبزی فروش نے مل کر ایک اونٹ کرائے پرلیا اور اس کے ایک ایک طرف اپنا سامان لاد دیا۔ راستے میں سبزی بیچنے والے کی ترکاری کو اونٹ گردن موڑ کر کھانے لگا۔ یہ دیکھ کر کمھار مسکراتا رہا۔ جب اونٹ منزل پر پہنچا تو جدھر کمھار کے برتنوں کا بوجھ تھا، اونٹ اسی کروٹ بیٹھا جس سے بہت سے برتن ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اس وقت سبزی بیچنے والے نے کمھار سے ہنس کر کہا۔
  کیوں گھبراتے ہو، دیکھو اب آئندہ اونٹ کس کل بیٹھتا ہے؟‘‘
  ہم اکثر کہتے ہیں "حضور آپ ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے"۔ یہ فقره اس وقت بولتے ہیں جب بہت زیادہ انکساری ظاہر کرنی ہوتی ہے۔ اب اس مقولے سے متعلق جو لطیفہ ہے اسے سن لیجیے۔ ایک مرتبہ ایک مسخرے کو دل لگی سوجھی۔ جھٹ پٹ اس نے چند دوستوں کی دعوت کردی۔ جب وہ لوگ آ کر بیٹھ گئے تو اس نے سب کے جوتے لے کر ایک شخص کے حوالے کیے۔ اسے پہلے ہی سے مقرر کر رکھا تھا۔ وہ شخص سارے جوتے کباڑی بازار میں جا کر بیچ آیا۔ یہ رقم دعوت کے کھانے کی تیاری میں کام آئی۔ جب دستر خوان پر کھانا چنا گیا تو سب مہمانوں نے مسخرے سے کہا۔ آپ نے اتنی تکلیف کیوں کی؟" مسخرے نے نہایت عاجزی سے کہا۔ ” یہ سب آپ ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔"
   کھانا کھانے کے بعد جب سب لوگ جوتے پہننے کے لیے اٹھے تو جوتے غائب تھے۔ اس پر مسخرے نے کہا۔ "حضور! وہ تو میں آپ سے پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ یہ سب آپ کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔“
   ایک اور کہاوت ہے” اونٹ کے گلے میں بلی"۔ یہ مقولہ اس وقت بولا جاتا ہے جب انسان کسی مشکل میں پڑ جاتا ہے اور اس سے نکلنے کی فکر کرتا ہے ۔ چناں چہ مشہور ہے کہ ایک شخص کا اونٹ کھو گیا ۔ جب با وجود انتہائی تلاش کے اونٹ نہ ملا تو اس نے قسم کھائی کہ اگر اونٹ مل جائے گا تو اسے ٹکے کا بیچ دے گا۔ اتفاق سے وہ اونٹ مل گیا۔ اس وقت یہ شخص گھبرا گیا کہ اب تو بہ ہر حال اونٹ کو ایک ٹکے میں بیچنا پڑے گا۔ یہ دیکھ کر ایک آدمی نے اس کو یہ صلاح دی ۔ ” تم اس کے گلے میں ایک بلی باندھ دو اور اس طرح آواز لگاؤ کہ ایک ٹکے کا اونٹ ہے اور سو روپے کی بلی، لیکن یہ دونوں ایک ساتھ بکیں گے۔ اس شخص نے ایسا ہی کیا جس کے بعد اس کو مصیبت سے نجات مل گئی۔

غلام احمد فرقت کا کوروی
(1910 - 1973)
فرقت کا کوروی کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ بچپن میں ہی باپ کے سایے سے محروم ہو جانے کی وجہ سے ابتدائی عمر معاشی تشنگی میں بسر ہوئی مگر تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ لکھنؤ اور علی گڑھ کی دانش گاہوں سے ایم اے، بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تاریخ کے استاد کے طور پر انگلو عربک اسکول ، دہلی میں تقر یا تیس سال تک درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔
طنز و مزاح ان کا خاص میدان تھا۔ وہ نثر ونظم دونوں میں یکساں قدرت رکھتے تھے۔ ان کا طرز تحریر دل چسپ اور عام فہم ہے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ادیبوں میں ہوتا ہے۔
’’كف گل فروشان، " قد مچے"، ناروا" ان کے نثری اور شعری مجموعے ہیں۔

 

Chutti Ka Din By Hamid Hasan Quadri NCERT Urdu Class 9Jaan Pehchan

 چھٹی کا دن 
حامد حسن قادری


حامد حسن قادری
(1887 - 1964)
مولوی حامد حسن قادری قصبہ بچھراؤں ضلع مراد آباد کے ایک زمین دار خاندان میں پیدا ہوئے۔ بچھراؤں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ عالیہ، رام پور میں داخل ہوئے۔ 1909 میں دسویں درجہ کا امتحان پاس کیا۔ منشی کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی سے 1910 میں اول پوزیشن حاصل کر کے کامیاب ہوئے ۔ منشی فاضل اور اردو میں خصوصی صلاحیت کے امتحانات 1911 میں لاہور سے پاس کیے۔
مہو چھاونی کے ایک پارسی اسکول میں 1912 میں بحیثیت استاد تقرر ہوا۔ اگلے سال اسلامیہ ہائی اسکول، اٹاوہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1927 - 1913 کے دوران حلیم مسلم ہائی اسکول، کان پور کے ہیڈ مولوی کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ سینٹ جانس کالج، آگرہ میں 1927 میں لکچرر مقرر ہوئے اور 1945 میں اسی کالج میں صدر، | شعبہ فارسی اور اردو مقرر ہوئے۔ 1954 میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔ موصوف اردو زبان کے ادیب، ناقد ، مبصر، شاعر، مترجم، مؤرخ اور تاریخ گو تھے۔ انھوں نے لگ بھگ 60 کتابیں تصنیف کیں ۔ جس زمانے میں وہ کان پور میں مقیم
تھے اسی عرصے میں انھوں نے بچوں کا اردو رسالہ ”سعید" جاری کیا جو کئی برس تک جاری رہا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے بہت ہی سبق آموز کہانیاں تصنیف کیں ۔ کئی اہم فارسی کی کتابوں کے ترجمے اردو میں شائع کیے۔
موصوف کی نہایت اہم تصنیف ”داستان تاریخ اردو " ہے جس میں اردو نثر کی تاریخ ابتدائی دور سے لے کر 1960 تک مع نمونہ نثر دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔

Saturday, 26 December 2020

Waqt By Deputy Nazir Ahmad NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

وقت
ڈپٹی نذیر احمد
دنیا میں ہر چیز کی کچھ نہ کچھ تلافی ہے۔ مگر نہیں ہے تو وقت کی ۔ جو گھڑی گزرگئی وہ کسی طرح تمھارے قابو میں نہیں آسکتی اور وقت کے گزر جانے پرغور کریں تو اسے کسی چیز کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جاسکتی ۔ وقت ریل سے زیادہ تیز ہے، ہوا سے بڑھ کر اڑنے والا، بجلی سے سوا بھاگنے والا اور دبے پاؤں نکلا جاتا ہے کہ خبر نہیں ہوتی صبح ہوئی ، سوکر اٹھے جب تک معمولی ضرورتوں سے فراغت حاصل کرو، ذرا ناشتہ وغیرہ کھاؤ پیو، پھر دن چڑھ آیا۔ پھر گھڑی دو گھڑی ادھر ادھر اٹھے بیٹھے، گپ شپ اڑائی تو دس بجنے کو آئے۔ مدرسہ جانے کو دیر ہوتی ہے۔ جلد کھایا پیا، مدر سے گئے۔ وہاں دوستوں سے ہنسی مذاق کرتے رہے۔ استاد کی تاکید سے دو ایک مرتبہ بری بھلی طرح سبق پڑھا، چلو شام ہوئی ۔ دن رخصت ہوا گھر آئے تو پھر کھانے کو سوجھی، کھانا کھانے سے کسل پیدا ہوا، ذرا لیٹے تو پھر صبح موجود۔ کام تو کچھ بھی نہ ہوا، لیکن چوبیس گھنٹے گزرتے ہوئے معلوم نہ ہوئے اور ایک چوبیس گھنٹے کیا، ایسے ایسے صد ہا ہزاروں چوبیس گھنٹے اسی طرح گزر جاتے ہیں۔ بیت:
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں  ہی تمام  ہوتی ہے
جب وقت کی بے ثباتی کا یہ حال ہے اور جو وقت گزرا وہ ہمارے اختیار سے باہر ہوا تو نہایت ضروری ہے کہ وقت پر ہمارا اختیار ہو۔ اس کو ضائع نہ ہونے دیں۔ یہی وقت ہے کہ سونے اور کھیلنے میں گزر جاتا ہے اور آدمی کو سست اور غبی، رسوا اور خوار اور محتاج اور طرح طرح کے امراض میں مبتلا اور بداخلاقیوں میں گرفتار کر دیتا ہے۔
یہی وقت ہے کہ اگر اس کو اچھے شغل، اچھے کام، اچھی بات میں لگایا جائے تو انسان کو عالم، فاضل، لائق، ہنرمند، نام ور محترم، نیک ہر دل عزیز بنا کر طرح طرح کی خوبیوں اور بھلائیوں سے آراستہ کر سکتا ہے۔
اے لڑکو! یہ فراغت کا وقت جو تم کو اب میسر ہے بس غنیمت سمجھو۔ اب نہ تم کو کھانے کی فکر ہے نہ کپڑے کا سوچ۔ جو کچھ تم سے سیکھتے اور حاصل کرتے بن پڑے لگ لپٹ کر جلد سیکھ ساکھ لو کہ آئندہ تمھارے کام آئے ۔ ورنہ پھر کہاں تم اور کہاں یہ فراغت ۔ اس وقت تم سر پر ہاتھ رکھ کر روؤ گے اور رونا کچھ سود مند نہ ہوگا۔ بہت پچھتاؤ گے اور پچھتانا کچھ فائدہ نہ بخشے گا۔ بہت افسوس کرو گے اور افسوس سے کچھ نہ ہو گا۔ یہ وقت جو تم کو اب حاصل ہے ان وقتوں کی مانند نہیں، جو جوانی اور پیری میں تم کو آئندہ پیش آئیں گے۔ لڑکپن کا وقت جو تنے اور بونے کا وقت ہے اور جوانی اور پیری کا وقت کاٹنے اور گا ہنے کا ۔ اگر اس وقت میں تم کچھ جوت بو رکھوگے تو جوانی اور پیری دونوں میں کاٹ سکو گے۔ اس وقت کو اس طرح صرف کرو کہ جوانی اور پیری دونوں میں آرام آسائش سے رہو اور چا ہو تو اس وقت کو ایسا اکارت کرو کہ جوانی بھی خراب ہو اور پیری بھی برباد ہو۔ ایک وقت وہ آرہا ہے کہ تم فرصت کو ڈھونڈو گے اور فرصت کا پتہ نہ پاؤ گے اور فراغت کی تلاش کرو گے اور فراغت کا سراغ نہ ملے گا۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ دنیا کا بار تمھاری پیٹھ پر لدا ہوگا۔ خانہ داری کے بکھیڑوں میں تم اس طرح پھنسے ہوگے جس طرح دلدل میں گدھا۔ ایک طرف تو فکر معاش تم کو سر کھجانے کی مہلت نہ دے گی اور دوسری طرف انتظام تعلقات تم کو دم نہ لینے دے گا۔ اس وقت کسب کمال کا کیا مذکور، اگر حواس بجا رکھ کر ان ہی کاموں سے عہدہ بر آ ہو جاؤ تو صد آفریں۔
بس یہ خیال ہرگز اپنے دل میں مت آنے دو کہ ابھی سیکھنے کا بہت وقت آرہا ہے ۔ ایسی کیا بھا گڑ مچی ہے کہ رات دن لکھنے پڑھنے کے پیچھے مر مٹے۔ اگلا حال کچھ کسی کو معلوم نہیں ۔ کون جانے کہ تندرستی رہے نہ رہے۔ زمانہ فرصت دے یا نہ دے۔ یہ سب سامان جواب میسر ہیں ، میسر ہوں یا نہ ہوں ۔ بے شک وقت کی قدر و قیمت اور اس کی بھاگا بھاگ تو یہ چاہتی ہے کہ تم خواب و خور اپنے اوپر حرام کر کے رات دن کتاب پر سے سر نہ اٹھاؤ لیکن انسان کی طبیعت کو خدا نے تازگی پسند بنایا ہے۔ کیسا ہی کوئی دل چسپ شغل ہو ایک عرصے کے بعد ضرور اس سے جی گھبرا اٹھتا ہے اور طبیعت اکتانے لگتی ہے اور اگر طبیعت کو مجبور کر کے اس کام پر لگائے رہو تو وہ کام بھی اچھی طرح نہیں ہوتا اور حواس بھی کند ہو جاتے ہیں ۔ اس واسطے مناسب ہے کہ کتاب کا مطالعہ ایسے اعتدال کے ساتھ جاری رکھو کہ تندرستی کو خلل نہ پہنچے اور ہمیشہ چند قسم کا شغل رکھو۔ مثلاً نظم و نثر، تاریخ و جغرافیہ اور حساب ایک ساتھ پڑھو ۔ جب نثر سے طبیعت ملول ہوئی نظم دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر تاریخ پڑھی ۔ کچھ دیر جغرافیہ کی سیر کی، پھر حساب میں طبع آزمائی کی۔ ان سب سے گھبرائے تو کچھ لکھنے بیٹھ گئے۔ جب رات کو سونے لگو تو ضرور سوچو کہ آج ہم نے کون سی نئی بات حاصل کی ۔ اگر معلوم ہو کہ آج کچھ نہیں سیکھا تو جانو کہ دن رائیگاں گیا اور اس نقصان کی تلافی اپنے ذمے لازم سمجھو۔ کسی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ جس کے دو دن برابر ہوں یعنی ایک شخص جیسا کل تھا آج بھی ویسا ہی رہے اور اپنی حالت دیروز ہ میں ترقی نہ کرے تو وہ خسارے میں ہے۔
         
 ڈپٹی نذیر احمد
(1831 - 1912)
ڈپٹی نذیر احمد اتر پردیش کے ضلع بجنور، تحصیل نگینہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ریہڑ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مولوی سعادت علی تھا۔ نذیر احمد کی ابتدائی تعلیم بجنور مظفر نگر اور دہلی میں ہوئی ۔ اعلی تعلیم دلی کالج میں ہوئی جو اب ذاکر حسین کالج کے نام سے مشہور ہے۔
1854 میں تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے پنجاب کے ایک مدرسے میں مدرسی کا پیشہ اختیار کیا۔ انگریز حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں' شمس العلما' کا خطاب دیا۔ 1902 میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ۔ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔
ڈپٹی نذیر احمد ترجمہ نگار، ادیب، ناول نگار اور مقرر بھی تھے۔ اردو ادب میں ان کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ وہ اردو کے پہلے ناول نگار ہیں۔ "مراۃ العروس" بنات النعش"،" توبتہ النصوح‘‘ اور" ابن الوقت" ان کے اہم ناول ہیں۔ ان کے ناول حقیقت پسندی ، اخلاقی تربیت اور دلچسپ کرداروں سے بھر پور ہیں۔ لہجہ پر جوش اور اثر انگیز ہے۔

Mulla Nasruddin By Ahmad Jamal Pasha NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehhan

ملا نصرالدین
ملا نصرالدین کے بارے میں عجیب و غریب روایتیں ہیں۔ مثلا یہ کہ سیر و سفر کے رسیا اس ازلی سیاح نے اپنے سست رفتار گدھے پر دنیا کا سفر کیا تھا۔ ملا نے ٹٹو پر دنیا کا سفر کیا یا نہیں مگر اپنے لطائف کے دوش پر یہ سفر ضرور پورا کر لیا۔ ملا کا گدھا کسی بھی صورت میں ڈان کو یکزاٹ اور خوبی کے ٹٹو سے کم نہیں ۔ ملا کا سفر ابد تک جاری رہے گا۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ملا کے واقعات ، فیصلے ، لطیفے ، حکایتیں ، مضحک واقعات اور سفر نامے ترجمہ ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔
ملا نصرالدین اپنی حاضر جوابی ، خوش باشی، زندہ دلی کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں ۔ ملا کا مزاح لا فانی ہے اور اس وقت تک کبھی پرانا نہ ہوگا جب تک کہ ایسے لوگ باقی ہیں جو ایک ستھرے اور شستہ مذاق کو پسند کرتے ہیں ۔ ملا کے ان پر لطف واقعات اور باتوں پر آج بھی لوگ اسی طرح ہنستے ہیں جیسے ملا کے زمانے میں ان پر لوگ ہنسا کرتے تھے۔ ملا سے متعلق روایات کے مطابق انھوں نے مختلف ملکوں کا سفر کیا تھا اور مختلف در باروں سے وابستہ رہے تھے۔ اکثر تذکروں میں ملا کے تر کی ، ایران، عرب، ہندوستان، روس، چین جانے کے بارے میں روایتیں ہیں مگر آن روایتوں کی حیثیت قیاس آرائی سے زیادہ نہیں۔ ملا کب کس زمانے میں اور بادشاہ کے عہد میں کس ملک میں رہے اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔
ملا کا باقاعدہ گھر بار ہے جو بار بار بستا اور آجڑ تا ہے۔ اس میں ویرانی کے بجائے ایک چہل پہل اور فاقہ مستی ہے۔ ملا کے بیوی بچوں سے لے کر گدھے تک سب اسی رنگ میں سرشار نظر آتے ہیں۔
ملا ہر فن مولا ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا پیشہ ہو جسے ملا نے اختیار نہ کیا ہو کبھی وہ معلم کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں، کبھی منبر پر وعظ دیتے نظر آتے ہیں۔ کبھی ایک تاجر کی حیثیت سے مصروف نظر آتے ہیں کبھی معمار کی شکل میں مکان بناتے ملتے ہیں۔ کبھی درزی کی حیثیت سے کپڑے سیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی قاضی کی حیثیت سے دونوں فریقوں کے حق میں فیصلہ کرتے ہو تے ہیں اور کبھی ایک سیاح کی طرح جہاں گردی میں ٹٹو پر سوار نظر آتے ہیں ۔ ان کی زندگی ایک مسلسل سفر ہے۔
ملا نصر الدین کوئی خیالی کردار نہیں۔ البتہ بے شمار من گھڑت واقعات اس کی ذات سے منسوب کر دیے گئے ہیں۔ ملا کی زندگی میں ایسے واقعات بہت ہوئے جو اپنے انوکھے پن اور ذہانت کی وجہ سے ہمیشہ دل چسپی کا باعث رہیں گے ۔ یہی واقعات ملا کی ہر دل عزیزی اور لا زوال شہرت کا باعث ہیں۔ ہر محفل کو گرم کرنے کے لیے آج بھی ملا کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
مالا ہنسی ہنسی میں اہم اور ٹیڑھی باتیں اور بار یک نکتے ، بالکل سیدھے سادے طور پر سمجھادیتا تھا۔ اس کا مزاح اور طنز آمیز باتیں دل پر فوراً اثر کرتیں ۔ سننے والے ہنستے ہنستے زندگی کی کسی بڑی حقیقت پر غور کرنے لگتے۔
ملا نے سنجیدہ فکر کو بیدار کرنے کے لیے کبھی پند و نصائح سے کام نہیں لیا حالاں کہ ملا نے زندگی بھر صرف نصیحتیں ہی کیں مگر براہ راست نہیں۔
ملا کا نظریہ یہ تھا کہ اس رونی منہ بسورتی دنیا میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی سمجھ کے مطابق بات کی جائے اور بات سمجھانے کے لیے ہنسی مذاق کو اپنا شعار بنایا جائے ۔ ملا نصر الدین نے اپنے اس نظریے کو اس حد تک عملی جامہ پہنایا کہ وہ خود جان بوجھ کر ظرافت کے اس عمل سے گزرتے رہے جس میں تماشے اور تماشائی میں فرق نہیں رہ جاتا اور ہنسانے والے کی اعلی ظرفی اپنے اوپر قہقہے لگانے اور لگوانے پر بھی قادر ہوجاتی ہے۔ اس طور پر ملا نے عقل مندی کے ساتھ لوگوں کو اچھی باتیں ذہن نشین کرا کے لطیفے کے افادی مر تبے کو بہت بلند منزل عطا کردی۔
(احمد جمال پاشا)
 احمد جمال پاشا
(1929 -1987)
احمد جمال پاشا کا اصلی نام محمد نزہت پاشا تھا۔ وہ الہ آباد میں پیدا ہوئے ۔ لکھنو یو نیورسٹی سے بی اے اور علی گڑھ مسلم یونیورٹی سے ایم ۔ اے کیا۔ لکھنؤ سے اودھ پنچ نکالنا شروع کیا جسے اس کا تیسرا دور کہا جاتا ہے۔ بعد میں قومی آواز اخبار کے شعبہ ادارت سے منسلک ہو گئے ۔ 1976 میں سیوان (بہار) منتقل ہوگئے، جہاں ذکیہ آفاق اسلامیہ کالج میں اردو کے استاد کے طور پر خدمات انجام دیں ۔ پٹنہ میں انتقال ہوا۔
احمد جمال پاشا نے 1950 سے لکھنا شروع کیا۔ زمانہ طالب علمی میں علی گڑھ کے رسالے ” اسکالر " کے مدیر ہوئے اور اس کے ’’ پیروڈی نمبر " کی وجہ سے شہرت پائی۔ "اندیشہ شہر" ، " ستم ایجاد"، "لذت آزار"،" مضامین پاشا"، "چشم حیران" اور" پتیوں پر چھڑ کاو" وغیرہ ان کی مشہور مزاحیہ کتابیں ہیں ۔ ” ظرافت اور تنقید"  ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
احمد جمال پاشا کو ادبی خدمات کے لیے غالب ایوارڈ اور بہار اردو اکادمی کا اختر اور نیوی ایوارڈ دیا گیا۔

غور کیجیے :
لطیفے، چٹکلے یوں تو ہنسنے ہنسانے کے لیے ہوتے ہیں لیکن ان کے پیچھے سماجی ، تہذیبی اور اخلاقی مقاصد بھی پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ اسی لیے ملا نصرالدین کے لطیفے صرف ہنسنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان سے ہماری سماجی برائیوں کی اصلاح بھی ہوتی ہے۔
سوچیے اور بتایئے:
1. ملا نصر الدین کے بارے میں کیا کیا روایتیں مشہور ہیں؟
2. ملا نصر الدین کا نام آج بھی کیوں زندہ ہے؟
3۔ ملا نصر الدین کو ہرفن مولا کیوں کہا جاتا ہے؟
4۔ ملا نصر الدین کی باتیں دل پر کیوں اثر کرتی تھیں؟ 5۔ ملا نصر الدین نے ہنسی مذاق کو اپنا شعار کیوں بنایا؟

Gaon Panchayat NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

گاؤں پنچایت
کسی زمانے میں ہمارے ملک میں گاؤں کا انتظام گاؤں والوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ گاؤں کی حفاظت ، صفائی، کھیتی تعلیم کا بندوبست گاؤں والے خود کر لیا کرتے تھے۔ جب انگریزوں کی حکومت آئی تو گاؤں کا انتظام سرکار نے اپنے ذمے لیا۔
مہاتما گاندھی چاہتے تھے کہ گاؤں کے انتظام میں گاؤں والوں کا پورا ہاتھ ہو۔ اس لیے آزادی کے بعد ہماری سرکارنے گاؤں کی طرف دھیان دیا۔ ہماری ریاستوں میں پنچایت راج قانون بنایا گیا، جس سے گاؤں والوں کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ اپنے گاوں کا انتظام خود کریں۔
اس قانون کے مطابق ہر اس گاؤں میں گاؤں سبھا بنائی جاتی ہے جس کی آبادی ڈھائی سو یا اس سے زیادہ ہو گاؤں سبھا کی ہر سال دو بیٹھکیں ہوتی ہیں۔ ایک خریف میں اور ایک ربیع میں ۔ خریف میں گاؤں سبھا آئندہ سال کا بجٹ منظور کرتی ہے اور ربیع کی بیٹھک میں پچھلے سال کے حساب کی جانچ کرتی ہے۔
گاؤں سبھا اپنے ممبروں میں سے پردھان اور گرام پنچایت کا چناؤ کرتی ہے۔ اس انتظامیہ کمیٹی کا نام گاؤں پنچایت ہے۔ اس میں پندرہ سے تیس ممبر تک ہوتے ہیں ۔ ان ممبروں کا چناو پانچ سال کے لیے ہوتا ہے ۔ گاؤں پنچایت کے ممبر ہر سال اپنا ایک’ اپ پر دھان' چنتے ہیں ۔اگر گاؤں سبھا کسی وقت یہ دیکھے کہ پردھان اور اپ پردھان اس کی ہدایتوں کے مطابق کام نہیں کر رہے ہیں تو اسے یہ اختیار بھی رہتا ہے کہ انھیں ان کے عہدوں سے ہٹا دے۔
گاؤں سبھا کا پردھان ہی گاؤں پنچایت کی بیٹھکوں کی صدارت کرتا ہے۔ پردھان اور اپ پردھان کے علاوہ گاؤں پنچایت کا ایک سکریٹری بھی ہوتا ہے جسے سرکار مقرر کرتی ہے۔ یہی گاؤں پنچایت ، گاؤں سبھا کی نگرانی میں گاؤں کا انتظام کرتی ہے۔ گاؤں میں اسکول ، ریڈنگ روم اور کتب خانے کھولنا، علاج اور صفائی کا انتظام کرنا کھتی اور دست کاری کو ترقی دینا، سڑکیں اور چھوٹے چھوٹے پل بنانا، میلے اور بازارلگوانا، مویشیوں کی دیکھ بھال اور علاج کا انتظام کرنا، درخت لگوانا اور گاؤں کی حفاظت کے لیے رضا کار بنانا گاؤں پنچایت کے خاص کام ہیں ۔ گاؤں پنچایت کو ان کاموں کے لیے کچھ روپے سرکار سے ملتے ہیں اور کچھ ٹیکس وغیرہ کے ذریعے پنچایت خود حاصل کرتی ہے۔
گاؤں کے جھگڑے طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے جسے" پنچایتی عدالت“ کہتے ہیں۔ اس کا چناؤ ہر پانچویں سال ہوتا ہے۔ اس کے صدر کو سر پنچ اور نائب صدر کو نائب سرپنچ کہتے ہیں۔ پنچایتی عدالت میں پانچ پنچوں کی چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں ہوتی ہیں جو پنچ منڈل کہلاتی ہیں۔ یہ پنچ منڈل سال بھر کام کرتے ہیں اور پھر ان کے ممبروں کو تبد یل کر دیا جاتا ہے۔ جب کوئی مقد مہ پنچایتی عدالت کے سامنے آتا ہے تو سرپنچ اس کو ایک پنچ منڈل کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس طرح اب گاؤں کے لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے تھانے اور کچہری نہیں دوڑ نا پڑتا۔ سنچائی، مینڈ ، لین دین اور مار پیٹ کے جھگڑے گاؤں ہی میں طے ہو جاتے ہیں ۔ گاؤں کے اس انتظام کے دو فائدے ہیں ۔ ایک تو اس میں کسی طرف سے وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی اور دوسرے پنچ گاؤں ہی کے ہوتے ہیں اس لیے وہ معاملے کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور انصاف کر سکتے ہیں۔
پنچایتی راج قائم کرنے سے ہمارے گاوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ لیکن اس نظام سے جہاں ہمارے گاؤں والوں کو بڑے بڑے اختیار ملے ہیں وہاں ان کی ذمے داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔
گاؤں پنچایت کے ممبران کا فرض ہے کہ وہ مل کر گاؤں کی ترقی کے لیے کوشش کریں۔ وہ دن دور نہیں کہ گاؤں کی زندگی ویسی ہی بن جائے گی جیسی گاندھی جی چاہتے تھے۔

.
غور کیجیے:

پنچایت راج گاندھی جی کے خیالات کا حصہ ہے۔ اس کے ذریعے گاؤں والوں کو بہت سے فائدے حاصل ہورہے ہیں۔
سوچیے اور بتایئے:
1۔ انگریزی حکومت سے پہلے ہمارے گاؤں کا انتظام کیسے ہوتا تھا؟
  2۔ آزادی کے بعد ہمارے گاؤں کے انتظام میں کیا تبدیلی آئی؟
  3۔ پنچایت راج قانون کے مطابق گاؤں کا انتظام کس طرح کیا جاتا ہے؟
  4۔ گاؤں پنچایت کے کیا کیا کام ہیں؟
  5۔ گاؤں پنچایت سے کیا فائدے ہیں؟
  6۔ گاؤں پنچایت سے گاندھی جی کا خواب کس طرح پورا ہور ہا ہے؟

Bahaar Ke Din By Afsar Merathi NCERT Class 9 Jaan Pechan

بہار کے دن
 حامد اللہ افسر میرٹھی
(1898 - 1974)

حامد اللہ افسر میرٹھی میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ 1930 میں میرٹھ کا لج میرٹھ سے بی۔ اے کیا۔ پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایل ۔ ایل۔ بی کے لیے داخل ہوئے۔ اسی دوران جبلی کا لج لکھنؤ میں اردو کے استاد مقرر ہوئے اور ترقی پا کر وہیں وائس پرنسپل بنائے گئے ۔ 1950 میں وہاں سے سبک دوش ہوئے۔ ان کا انتقال لکھنؤ میں ہوا۔

انھوں نے بچوں کے لیے اسمعیل میرٹھی کی طرح چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھی ہیں ۔ بچے ان کی نظمیں دل چسپی سے پڑھتے ہیں ۔ ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہوتی ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے سولہ کتابیں لکھی ہیں جن میں سے آسمان کا ہم سایہ ' لوہے کی چپل' ،' درسی کتب',' پیام روح' اور نقد الادب بہت مقبول ہیں۔

غور کیجیے:

* اس نظم میں ہر شعر کے قافیے بدل جاتے ہیں، قافیہ شعر کے آخر میں آنے والے ان لفظوں کو کہتے ہیں جن کی

آوازیں یکساں ہوتی ہیں ۔ جیسے بہار/ نکھار، چٹک/ مہک، خوش بور / ہر سو، و غیره


سوچنے اور بتایئے:

1- بہار کے زمانے میں باغ کا منظر کیسا ہوتا ہے؟

2۔ آدمی پر بہار کا کیا اثر ہوتا ہے؟

3. بہار کی صبح ، شام اور رات کیسی ہوتی ہے؟


قواعد:

نظم کے یہ مصرعے پڑھیے

1۔ شاخوں کا بنالیا ہے جھولا

2۔ چادر ایک نور کی تنی ہے

ان مصرعوں میں ’’ شاخوں‘‘ کو جھولے سے اور" نور " کو چادر سے تشبیہ دی گئی ہے۔

عملی کام:

اس نظم کے پانچ شعر زبانی یاد کر کے استاد کو سنایئے۔


Tinka Thoda Hawa Se Udd Jata Hai NCERT Class 9 Jaan Pehchan

تنکا تھوڑی ہوا سے اڑ جاتا ہے
ایک عقاب گھٹاؤں کو چیرتا ہوا ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا اور چگر پر چکر لگا کر صدیوں پرانے ساگوان کے ایک درخت پر بیٹھ گیا۔ وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا، اس کی خوب صورتی میں وہ کھو سا گیا اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے رکھی ہوئی ہے۔ کہیں دریا میدانوں میں بل کھاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔
کہیں جھیلیں آئینے کی مانند چمک رہی ہیں۔ کہیں پھولوں سے ہے پیڑ پودے جھوم رہے ہیں اور کہیں سمندر غصے کے عالم میں اپنی پیشانی پر بل ڈالے ہوئے اپنے منہ سے جھاگ اڑا رہا ہے۔
اے خدا ! عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا: میں کس طرح تیرا شکر ادا کروں؟ تو نے مجھے پرواز کی ایسی طاقت عطا کی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں جہاں میری رسائی نہ ہو سکے۔ میں فطرت کے حسین مناظر کا لطف ایسے مقام پر بیٹھ کر اٹھا ل سکتا ہوں، جہاں کسی اور کا گذر ممکن نہیں ۔ عقاب اور کچھ کہنا چاہتا تھا کہ نزدیک ہی سے ایک مکڑی بول اٹھی: اے عقاب! تو آخر کیوں اپنے منہ مٹھو بنتا ہے؟ کیا میں تجھ سے کچھ کم ہوں؟
اس آواز پر عقاب چوکنا ہوا اور ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ۔ دیکھتا کیا ہے کہ نزدیک ہی ایک مکڑی بیٹھی جالا تن رہی ہے۔
عقاب نے پوچھا: تو اس سر بہ فلک چوٹی پرکس طرح پہنچی؟ وہ پرندے جو اپنی بلند پروازی پر ناز کرتے ہیں، وہ بھی یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں  رکھتے۔ تو تو مکڑی ہے، پر بھی نہیں تیرے، جو اڑ سکے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تو رینگتی رینگتی یہاں تک آگئی؟
  مکڑی نے جواب دیا: نہیں ، میں رینگتی رینگتی یہاں نہیں پہنچی۔
  عقاب : پھر تو یہاں کیسے آگئی؟
  مکڑی: جب تو اڑنے لگا، میں تیری دم سے چپک گئی ۔ اس طرح تو نے خود مجھے یہاں تک پہنچا دیا لیکن اب میں تیری مدد کے بغیر یہاں تیرے برابر ٹھہر سکتی ہوں ۔ تو اکیلا ہی یہاں سر بلند نہیں، میں بھی تیرے ساتھ ہوں۔
  اتنے میں ایک طرف سے تیز وتند ہوا کا جھونکا آیا اور مکڑی پہاڑ کی چوٹی سے زمین پر آرہی ۔ عقاب اپنی جگہ بیٹھا رہا۔
  دنیا میں ایسے آدمی بھی ہیں جو مکڑی کی خصلت کے ہوتے ہیں ۔ اور اپنے کسی ہنر یا اپنی کسی قابلیت کے بغیر کسی بڑی شخصیت سے چمٹ کر سماج میں اپنا مقام پیدا کر لیتے اور سینہ پھلا کر ایسا چلتے ہیں گویا انھوں نے اپنے ذاتی جوہر کی وجہ سے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ غرور ان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ جس طرح مکڑی ہوا کے ایک جھونکے کی تاب نہ لاسکی، وہ بھی دنیا کی آزمائشوں کے مقابلے میں اپنا مقام کھو سکتے ہیں۔
  . (روسی کہانی سے ترجمہ)

پروفیسر محمد مجیب
(1902 -1985)
پروفیسر محمد مجیب لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لیے 1919 میں آکسفورڈ یونیورسٹی، لندن
گئے۔ وہاں جدید تاریخ میں بی ۔ اے (آنرز) کیا اور فرانسیسی زبان سیکھی۔ برلن جا کر انھوں نے جرمن اور روسی زبانیں سیکھیں۔ ہندوستان واپسی کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں تدریسی اور انتظامی امور سے وابستہ ہوگئے۔ 1948 میں جامعہ کے وائس چانسلر بنائے گئے۔
پروفیسر محمد مجیب کا شمار اردو کے ممتاز نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ مورخ ، ڈراما نگار اور مترجم بھی تھے۔ مجیب صاحب نے آٹھ ڈرامے لکھے جن کے عنوانات کھیتی ، انجام ، خانہ جنگی، حبہ خاتون، ہیروئن کی تلاش، دوسری شام، آزمائش اور آؤ ڈراما کر یں، ہیں۔
پروفیسر محمد مجیب اپنی منصبی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام مسلسل کرتے رہے۔ انھوں نے دو سو سے بھی زیادہ مضامین لکھے۔ اردو اور انگریزی میں ان کی تینتالیس (43) کتابیں شائع ہوئیں۔
پیش نظر سبق روسی کہانی سے محمد مجیب کا ترجمہ ہے۔

خوش خبری