آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday, 11 September 2022

Mir Baqir Ali Dastango-Shahid Ahmad Dehlvi

میر باقر علی داستان گو

 سوال 1: مصنف نے میر باقر علی کا جو حلیہ بیان کیا ہے اسے اپنے لفظوں میں لکھئے؟ 

جواب:مصنف نے میر باقر علی کا حلیہ اس انداز میں بیان کیا ہے ۔ ’دبلے پتلے سے آدمی تھے ۔سفید چھوٹی سی داڑھی، سر پر دو پلی ، پاؤں میں دیسی جوتی ، انگرکھا اور چست پاجامہ پہنتے تھے ۔ عمر ساٹھ اور ستر کے درمیان ، کھلتا ہوا رنگ ،سواسی ناک ، میانہ قد ، با تیں کرتے تو منہ سے پھول جھڑتے ۔“

سوال2: میر باقر علی داستان کس طرح سنایا کرتے تھے؟ 

جواب:میر صاحب بزم اور رزم کو اس انداز سے بیان کرتے کہ آنکھوں کے سامنے پورا نقشہ کھینچ جاتا۔ داستان کہتے جاتے اور موقع بہ موقع ایکٹنگ کرتے جاتے ۔ آواز کے زیروبم اور لب و لہجے سے بھی اثر بڑھاتے ۔ امیر حمزہ اور عیاروں کا جب بیان کرتے تو ہنساتے ہنساتے لٹادیتے ۔ ہتھیاروں کے نام گنانے شروع کرتے تو سوڈیڑھ سو نام ایک سانس میں لے جاتے ۔ پھر کمال یہ کہ نا م صرف طوطے کی طرح رٹے ہوۓ نہیں ہوتے تھے بلکہ آپ جب چاہیں ، ٹوک کر کسی ہتھیار کی شکل اور اس کا استعمال دریافت کر سکتے تھے۔ میر صاحب پو چھنے سے چڑتے نہ تھے بلکہ خوش ہوتے اور تفصیل سے بتاتے ۔ مثلا منجنیق کو بیان کرنے ہی میں  پندرہ منٹ صرف کر دیتے ۔عورت کا حسن بیان کرنے پر آئیں تو زمین آسمان کے قلابے ملا دیں اور کچھ نہیں تو چال کی ہی سیکڑوں قسمیں بتاتے ۔ بیگم بن سنور کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آ رہی ہیں ۔ ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ، بیگم دہلیش نہیں پھلانگتی ۔ پھر کیا مجال کہ آپ میر صاحب کے بیان سے اپرانے یا اکتانے لگیں ۔

سوال3: میر باقر علی کی داستان سننے کیلئے کیا کیا اہتمام کیا جا تا تھا؟

 جواب:میر صاحب کی داستان جہاں ہوتی وہاں اجلی چاندنیوں کا فرش بچھا یا جاتا ۔ میر صاحب کے لئے تخت بچھا یا جا تا۔ جس پر قالین اور گاؤ تکیہ لگا ہوتا ۔ مہمانوں کے لئے بھی گاؤ تکیوں کا اہتمام کیا جا تا تھا۔ گرمیوں میں شربت اور سردیوں میں چاۓ سے مہمانوں کی خاطر مدارات کی جاتی تھی ۔ میر صاحب افیون کا انٹا کھاتے اور چائے پی کر داستان گوئی کا آغاز کیا کرتے تھے۔

سوال4:میر باقر علی نے اپنے گھر پر داستانیں کہنی کیوں شروع کیں؟

 جواب : ایک دور ایسا آیا کہ لوگوں کو دوروپے بھی اکھر نے لگے تو میر صاحب نے اپنے گھر پر داستان کہنی شروع کر دی اور ایک آنہ ٹکٹ لگا دیا۔ دس بیس شائقین آجاتے اور میر صاحب کو روپیہ سوا روپیہ مل جاتا۔ جب میر صاحب دہلی میں کہیں داستان کہنے جاتے تو دو روپے لیا کرتے تھے۔ جب لوگوں کو دو رو پے بھی اکھر نے لگے تو میر صاحب نے گھر پر ہی داستان کہنی شروع کر دی ۔کسی ایک داستان کا میر صاحب کو رو پیہ سوا رو پیہ مل جا تا ۔

سوال5 میر باقر علی نے کون کون سی کتابیں لکھیں؟

جواب:میر باقر علی نے گاڑے خان نے ململ جان کو طلاق دے دی‘’ پاجی پڑوس‘’مولا بخش ہاتھی“ جیسی کتابیں لکھیں ۔

سوال6: چاۓ کی خوبی یہ ہے کہ وہ لب بند ،لب ریز اورلب سوز ہو، ان الفاظ کی وضاحت کیجئے 

جواب: لب بند سے مراد میٹھی ،لب ریز سے مراد بھری ہوئی پیالی اورلب سوز سے مراد بہت زیادہ گرم ہے ۔ مراد یہی ہے کہ صاحب بھری ہوئی پیالی میں میر میٹھی اور گرم چائے پیا کرتے تھے

Savere Jo Kal Aankh Meri Khuli- Putras Bukhari

 سویرے جو کل آنکھ میری کھلی

 سوال 1: سویرے جو کل آنکھ میری کھلی میں مصنف نے کیا پیغام دیا ہے؟

 جواب: اس مضمون میں کاہلوں اور دل لگا کر نہ پڑھنے والوں پرطنز ہے جو مزاج میں بھی شدت پیدا کرتا ہے اورایسے لوگوں کو دل لگا کر پڑھنے کی ترغیب و تحریص بھی دلاتا ہے۔

سوال 2: لفظ ”قم اور حضرت عیسی میں کیا تعلق ہے؟

جواب: یہ ایک تلمیح ہے جس کا تعلق حضرت عیسی سے ہے ۔ حضرت عیسی مردوں کوقم باذن اللہ  (اٹھ اللہ کے حکم سے ) کہہ کر زندہ کر دیا کرتے تھے۔

سوال 3: لالہ جی نے مصنف کو جگانے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا؟ 

جواب: لالہ جی نے زورزور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ جس سے مصنف نیند سے ںیدار ہو جائیں

سوال 4: سبق کے آخر میں مصنف نے صبح اٹھنے کا مسئلہ کس طرح طے کیا ؟ 

جواب: سبق کے آخر میں مصنف نے صبح اٹھنے کا مسئلہ اس طرح طے کیا کہ پہلے لالہ جی کہ پکارنے پر چھ بجے اٹھ جاتے تھے اور پھر دوبارہ سو جاتے تھے اور دس بجے اٹھتے تھے اور اگر اس بیچ لالہ جی ان کو آواز دیتے تھے تو وہ نماز کا بہانا بنا دیا کرتے تھے۔

Saturday, 10 September 2022

Mirza Mazhar Jaan e Jaanan - Mohammad Husain Azaad

مرزا مظہر جان جاناں

 سوال 1: مصنف نے مرزا مظہر جان جاناں کے نام ونسب سے متعلق کیا اظہار خیال کیا؟ 

جواب: مرزا مظہر جان جاناں کے والد عالمگیر کے دربار میں صاحب منصب تھے ۔ نسب ان کا باپ کی طرف سے محمد حنیفہ سے ملتا ہے جو کہ حضرت علی کے بیٹے تھے ۔ ماں بہالپور کے شریف گھرانے سے تھیں ۔دادس بھی دربارشاہی میں صاحب منصب تھے ۔دادی اسد خاں وزیر کی خالہ زاد بہن تھیں۔ پر دادا سے اکبر بادشاہ کی بیٹی منسوب ہوئی تھیں ۔ ان رشتوں سے میموری خاندان کے نواسے تھے۔

سوال 2: محمدحسین آزاد نے مرزا مظہر جان جاناں کی شخصیت کے کن پہلوؤں کواجاگر کیا ہے؟ 

جواب: مصنف نے مرزا مظہر جان جاناں کی نازک مزاجی ، لطافت مزاج ،سلامتی طبع ، وضعداری سلیقے  توکل اور قناعت جیسے اوصاف کو جوان کی شخصیت کے جز تھے اجاگر کیا ہے ۔

3: مرزا مظہر کا نام جان جاناں کس نے رکھا اور کیوں؟

 جواب : اس زمانے میں آئین سلطنت تھا کہ امراء کی اولاد کا نام بادشاہ رکھا کرتا تھا چنانچہ حسب روایت عالمگیر نے کہا کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے ۔ باپ مرزا جان ہے ۔اس لئے اس کا نام ہم نے جان جاناں رکھ دیا۔۔

سوال 4: مرزا مظہر جان جاناں بے ڈھنگی بات کو پسند نہ کرتے تھے ۔اس بیان کی دلیل میں کوئی مثال پیش کیجئے

جواب: جس چار پائی میں کان ہو اس پر بیٹھا نہ جاتا تھا،گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ چنانچہ دلی دروازے کے پاس ایک دن ہوادار میں سوار چلے جارہے تھے ۔راہ میں ایک بننے کی چار پائی کے کان پر نظر جا پڑی۔ وہیں ٹھہر گئے اور جب تک اس کی کان نہ نکلوالی آگے نہ بڑھے ۔اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا مظہر جان جاناں کوئی بے ڈھنگی بات پسند نہ کرتے تھے۔

سوال5: مرزا مظہر جان جاناں پر چند جملے لکھئے اوران کے انتقال کا واقعہ اپنے الفاظ میں لکھئیے

 جواب: مرزا مظہر جان جاناں بہت ہی وضع دار انسان تھے۔ وہ کوئی بے ڈھنگی بات پسند نہ کرتے تھے۔ ٹیڑھی ٹوپی پہن لینے سے ان کے سر میں درد ہو جا تا تھا۔ جب دنیا نے دلی کو چھوڑا تو بھی آپ نے بزرگوں کے آستانے کو نہ چھوڑا۔ ساتویں محرم کی رات کے وقت ایک شخص مٹھائی لے کر آیا اور اس نے مرید بن کر آواز دی اور انہیں باہر آنے کو کہا۔ وہ باہر نکلے تو ایک قراین ماری کی گولی سینے کے پار ہوگئی اور بھاگ گیا ۔ کافی زخم آیا ، تین دن تک زندہ ہے اوراپنے قاتل کو سزا نہ دینے کی وصیت کرتے ہوۓ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔

Dastan-Sargazisht Azad Bakht Badshah ki-Mir Amman-NCERT Urdu Solutiona Class 11

سر گذشت آزاد بخت بادشاہ کی

 سوال 1: داستان کسے کہتے ہیں اور اس کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟

جواب: داستان ایک طویل اور مسلسل قصے کو کہتے ہیں ۔اس میں واقعات کو پرکشش انداز میں پیش کیا جا تا ہے تا کہ پڑھنے والے کی دلچسپی  برقرار رہے اور پڑھنے والا سوچتا رہے کہ آگے کیا ہوگا ۔ داستان میں سیدھی سادی باتوں کے علاوہ مافوق الفطری واقعات بھی پیش کیے جاتے ہیں ۔حسن وعشق کی باتیں، شہزادوں اور پریوں کی ملاقاتیں، زندگی کی چھوٹی بڑی وارداتیں، پیچیدگیاں ، الجھنیں اور عجیب وغریب باتیں ہوتی ہیں ۔ زبان و بیان کی دلکشی اور لطف داستان کے لیے ضروری ہے ۔ عام طور سے داستانوں کے اندر کئی قصے  ہوتے ہیں یا ایک قصے کے اندر دوسرے قصے بیان کیے جاتے ہیں ۔

سوال 2: میرامن کے طرز تحریر کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟

 جواب: میر امن کا طرز تحریر سادہ سلیس اور رواں دواں ہے ان کے اسلوب میں شگفتگی اور تازگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ان کی عبارت سے اجنبیت ظاہر نہیں ہوتی ۔ ان کی زبان سادہ سلیس اور با محاورہ زبان ہے ۔ان کی تحریر میں آج کی سی تازگی اور رعنائی ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بول چال کی آسان زبان استعمال کی ہے مثلا شب برات کو  انہوں نے شبرات لکھنا زیادہ پسند کیا ہے ۔اس لئے آج بھی ان کے اسلوب کی دلکشی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ میر امن کا اسلوب سادہ پسلیس اور رواں دواں ہے یا یوں کہئے کہ میر امن کے یہاں سادگی میں پر کاری نظر آتی ہے۔

سوال 3: بادشاہ نے سوداگرکو کیا کیا سہولتیں دے رکھی تھیں؟

 جواب : بادشاہ نے سوداگر کوسند راه داری لکھ کر دی تھی جس کا مطلب تھا وہ اس کے پورے ملک میں بغیر روک ٹوک تجارت کر سکتا تھا اور اس سے کوئی ٹیکس وصول نہ کیا جائے ۔اس کے علاوہ ہر جگہ اس کے آرام کا خیال رکھا جاۓ ۔ بادشاہ نے سوداگر کو دربار میں حاضر ہونے کی بھی اجازت دے رکھی تھی۔

سوال 4: وزیر نے بادشاہ کو کیا نصیحت کی؟

 جواب : وزیر نے بادشاہ کو یہ نصیحت کی کہ بادشاہوں کو ایک حقیر سے پتھر کی اس قدر تعریف نہیں کرنی چاہئے کیونکہ آپ کے دربار میں بہت سے ملکوں کے سفیر حاضر ہیں جب یہ لوگ اپنے ملکوں میں جا کر آپ کے اس عمل کے بارے میں بتائیں گے تو وہاں کے لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے۔

سوال: بادشاہ نے وزیرکوسزا کیوں دی؟

 جواب : وزیر نے بادشاہ کو بتایا کہ آپ کے جواہر سے بڑے سات جواہر ایک سوداگر نے اپنے کتے کے پٹے میں لگا کر اس کے گلے میں ڈال رکھے ہیں ۔ بادشاہ کو وزیر کی یہ بات پسند نہیں آئی بلکہ اسے یہ بات بالکل جھوٹ لگی ۔اس لئے اس نے وزیر کوسزادی

سوال: فرنگ کے بادشاہ کے سفیر نے وزیرکوسزاۓ موت سے کیسے بچایا؟ 

جواب: فرنگ کے بادشاہ کے سفیر نے کہا کہ جب تک اس کا جرم ثابت نہ ہو جاۓ اس وقت تک اسے سزاۓ موت نہ دی جاۓ اور اس طرح اس نے وزیرکوموت کی سزا سے بچالیا۔

Sunday, 10 July 2022

Paigham e Eid - Dr. Shah Hasan Usmani

عید کا پیغام
پروفیسر شاہ حسن عثمانی

قربانی کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ سے بے پناہ محبت وتعلق کا اظہار کرے۔ وہ اس کی محبت کو دنیا کی تمام چیزوں کی محبت پر ترجیح دے۔ وہ اس کے لئے اپنی محبوب سے محبوب چیز کو قربانی کرنے میں دریغ نہ محسوس کرے۔ ابراہیم علیہ السلام کو جو قربانی کا حکم دیا گیا تھا اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ جب تک انسان اپنے آپ کو اس مرحلہ تک نہ پہنچاتا اس وقت تک اس کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا اور اس کے اندر ایمان کی حلاوت پیدا نہیں ہوسکتی۔ ایمان کی شرط ہے۔ ”اللہ اور اس کے رسولﷺ انسان کی نظر میں ساری دنیا سے محبوب ہوجائیں“ (بخاری) 
دوسرا اصل مقصر تو نفس کی قربانی ہے۔ جانور کا ذبح کرنا تو صرف ایک علامت ہے۔ اصل چیز تو یہ دیکھنا ہے کہ آدمی نے خود کو کتنا پاک کرلیا ہے۔ خدا تک پہنچنے میں کوئی چیز حائل تو نہیں ہے۔ وہ غیر اللہ سے بالکل کٹ چکا یا نہیں ۔ اس نے اپنے آپ کو دامن میں چھپے ہوۓ شیطان سے نجات دلا یا نہیں۔ اس نے اپنے کعبہ دل کے لات و منات کو توڑا کی ہیں۔ اگر قربانی کرنے کے بعد بھی انسان ان برائیوں سے پاک نہیں ہوا کہ وہ اللہ کے علاوہ دوسری باطل قوتوں پر بھی اعتماد کرتا ہے۔ وہ غیر اللہ کی مدد بھی چاہتا ہے۔ وہ اللہ کے احکام کی پابندی بھی نہیں کرتا۔ اس کے دل میں اسلام پر پورے طور پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ بھی نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے ایسی قربانی کیا کام آسکتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی قربانی کے جانور اور اس کے خون کو نہیں دیکھتا۔ وہ تو دراصل حسن نیت،تقویٰ، پاکیزگی اور سپردگی کو دیکھتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اللہ تک تمہارے جانوروں کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا۔ لیکن تقویٰ ضرور پہنچتا ہے۔“ (سورہ الحج)۔
 یہی وجہ ہے کہ جب قربانی کا وقت آتا ہے تو بندہ پوری عاجزی و انکساری کے ساتھ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ خدا ہی کے لئے سب کچھ ہے۔ وہی آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہی حاکم اور مختار کل ہے۔ اسی کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے۔ ہم اسی کے حکم کے پیرو ہیں۔ میری نماز، میری قربانی ، میرا مرنا، میرا جینا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔
تیسرے یہ کہ ان ہی دنوں میں حجاج کرام منیٰ میں ایام تشریق گزارتے ہیں اور طواف و قربانی کرتے ہیں اور عام مسلمان اپنے گھر میں قربانی کرتے ہیں تو گویا یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ہم گو حالات حج میں نہیں ہیں مگر حاجیوں کے شریک حال ضرور ہیں۔ قربانی کی اس اہمیت کے بعد کون ایسا بد نصیب ہوگا جو استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی سے اعراض کرتا ہوگا۔ احادیث میں ایسے لوگوں کو موردعتاب ٹھہرایا گیا ہے جو قدرت کے باوجود قربانی نہیں کرتے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو  شخص طاقت رکھتا ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے"۔

(پروفیسر شاہ حسن عثمانی کے خطبات پر مبنی کتابچہ” استقبال ِ رمضان و عیدین“ سے ماخوذ)

Friday, 8 July 2022

Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-8)

 اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام 

کےحالاتِ زندگی 

اعلانِ حج

حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر سے فارغ ہو گئے تو جبریل علیہ السلام آئے، تمام مقامات حج کی نشاندہی کی، اور اسی موقع پر اللہ کا حکم پہنچا کہ لوگوں کو حج کے لیے پکارو! قرآن کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے:-

( لوگوں میں اعلان کردو حج کے لیے، وہ آئیں گے پیدل اور دُبلی اونٹنیوں پر سوار، جو آئیں گی ہر چوڑے اور گہرے راستے سے) 

 صاحب تفسیر ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ:-

جب خدا کا حکم ابراہیم کو پہنچا تو انھوں نے عرض کیا پروردگار میری آواز لوگوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے۔ ارشاد ہوا، تم پکارو! ہم تمھاری آواز لوگوں تک پہنچا دیں گے۔

صاحب تفسیر جلالین نے لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جبل بوقبیس پر پڑھ کر اس طرح اعلان کیا:-

”لوگو اللہ نے ایک گھر بنایا ہے اور تم پر حج فرض کیا ہے لہذا تم اپنے پروردگار کی پکار پر لبیک کہو“

خدا کی قدرت آپ کا یہ اعلان یورپ ،پچھم ، اُتّر، دکھن کی آخری حدوں تک سنا گیا اور سننے والوں نے لبیک کہا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام خود بھی ہر سال حج کے لیے آتے، آپ کے بعد انبیا اور ان کی اُمّتیں حج کے لیے آتی رہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اپنے تمام حج پیدل کیے۔

ایک روایت ہے کہ پچھتر انبیائے کرام علیہم السلام نے حج کیا اور منیٰ میں نماز ادا کی۔

عجائبات کا ظہور 

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بہت سے عجائبات کا تعلق ہے ان سب کا احاطہ اس میں نہیں کیا جا سکتا، صرف چند کا اختصار کے ساتھ یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔ 

(۱) سب سے پہلے آپ نے مکہ کو آ باد کیا، اپنی اولاد کو وہاں بسایا،پہلے وہاں کوئی آبادی نہ تھی۔

(۲) خانہ کعبہ جو ایک سرخ ٹیلا کی شکل میں تھا اسے تعمیر کیا۔ 

(۳)کعبہ کی تعمیر کے بعد، اللہ کے حکم سے آپ حج کا اعلان کیا اور اللہ تعالی نے آپ کے اعلان کی آواز کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔

عمر میں اختلاف

وقت وفات، آپ کی عمر کے بارے میں کئی قول ہیں، کسی مورخ نے ایک سو پچھتر سال، کسی نے نوّے اور کسی نے دو سو سال بتائی ہے۔

 حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق نے حضرت سارہ کی قبر کے پاس آپ کو دفن کیا۔ 

Thursday, 7 July 2022

Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-7)

 اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام 
کےحالاتِ زندگی

سیده با جرہ کو خود سیدہ سارہ نے حضرت ابراہیم کی زوحبت میں دیا تھا۔ نکاح کے پہلے سال ہی حضرت اسماعیل کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ابھی آپ شکم مادری میں تھے کہ اللہ تعالی نے فرشتہ کے ذریہ بشارت دی اور فرشتے نے رو برو آ کر یہ خوش خبری دی کہ آپ کے ہاں بیٹا تولد ہو گا۔ بحکم الہی اس کا نام اسماعیل رکھنا اور یہ بھی خوش خبری سنائی کہ اس کی اولا داس کثرت سے پھیلے گی کہ گنی نہ جا سکے گی۔
تعمیرِکعبہ
حںضرت ابراہیم پہلی دو بار جب حضرت اسماعیل کے گھر گئے تب خیریت پوچھی اور واپس ہو گئے لیکن تیسری باری آئے تو اس خدائی حکم کے ساتھ کہ ملہ میں قیام کر کے خانہ کعبہ کی تعمیر کریں ۔ مکہ آئے تو حضرت اسماعیل کو ایک درخت کےنیچے زم زم کے قریب اس حال میں دیکھا کہ بیٹھے تیر بنارہے ہیں حضرت اسماعیل باپ کو دیکھتے ہی فورا کھڑے ہو گئے اور سلام کے بعد گلے ملے ۔ حضرت ابراہیم نے کہا:-
بیٹا ! اللہ تعالی نے مجھے ایک حکم دیا ہے۔ 
عرض کیا۔ تو اطاعت کہیے۔
 فرمایا، تم میری مدد کرو گے؟
عرض کیا، کیوں نہیں
فرما یا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے، کہ یہاں ایک گھر بناوں جس میں خدا کی عبادت کی جائے۔ عرض کیا ضرور۔
 تعمیر کی کیفیت
اس گفتگو کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کر دی گئی۔حضرت اسماعیل  پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور حضرت ابراہیم خدا کا گھر بناتے جاتے ۔ جب دیوار ذرا اونچی ہو گئی تو حضرت اسماعیل ایک بڑا سا پتھر اٹھا کر لائے اور دیوار کے پاس رکھ دیا۔ تاکہ حضرت ابرا ہیم اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کا کام انجام دیں۔ اسی پتھر کا مع اس جگہ کے جہاں یہ پتھر رکھا گیا تھا، ”مقام ابراہیم“ نام ہے ۔ تعمیر کے وقت باپ بیٹے کی زبان پر یہ دعا
”اے ہمارے پالن ہار! ہم سے قبول فرما ، تو سنے والا، جاننے والا ہے“۔
اس تعمیر میں مٹی چونے کا استعمال نہیں ہوا تھا، بس پتھر پر پتھر رکھ دیے گئے تھے ، چھت بھی نہیں تھی ، تعمیر کے وقت حضرت اسماعیل کی عمر بیس سال کی تھی حضرت ابراہیم نے کعبہ سے متصل مقام حجر میں، حضرت اسماعیل کی بکریوں کے لیے باڑا بنا دیا تھا۔ اس پر پیلو کی لکڑیوں کی چھت تھی تعمیر سے پہلے کعبہ ایک سرخ ٹیلا تھا، جسے سیلاب ادھر ادھر سے کاٹتا رہتا تھا۔
حجر اسود کی حقیقت
جب تعمیر کعبہ اختتام کو پہنچ رہی تھی ، توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل سے کہا کوئی ایسا پتھر لا‎‎‎ؤ جسے طواف کرنے والوں کے لیے بطور علامت رکھ دوں، تاکہ وہیں سے طواف کا آغاز کیا جائے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس پتھر کو حضرت جبریل علیہ السلام جبل بو قبیس سے لائے تھے، یہ بھی روایت ہے کہ یہ بہت روشن تھا، غرض کہ یہ پھر حضرت ابراہیم نے دیوار کعبہ میں اس مقام پر رکھ دیا جہاں وہ اب بھی موجود ہے۔


Wednesday, 6 July 2022

Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-6)

 اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام 
کےحالاتِ زندگی
حقوق العباد کا لحاظ
 حضرت ابراہیمؑ علی السلام ، اپنے حکم اور رفیق القلبی ، شفقت اور باپ سے تعلن خاطر کی بنا پر، حسب وعدہ اپنے باپ کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہے اگرچہ ان سے الگ ہو گئے تھے مگر اللہ تعالی نے حضرت ابراہیمؑ کو مطلع کیاکہ آ زر اپنی عقل واستعداد کوغلط راہوں پر ڈال چکا ہے اور راہ راست پر آنے کی
تمام صلاحیتیں ختم کر ڈالی ہیں اور اب وہ ایمان نہیں لائے گا ۔۔۔۔ خدا کی طرف سے اس اطلاع کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے آزر کے لیے استغفار کو ترک کر دیا۔ سوره توبه  قرآن مجید میں حضرت ابرہیم  کے ترک استنفار کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ناحق ایذارسانی کے با وجود بندہ مومن حقوق العباد کا کس قدر پاس ع لحاظ رکھتا ہے حضرت ابراہیمؑ کا عمل، اس کی بین شہادت ہے
فلسطین و مصر
غرض کہ حضرت ابراہیمؑ علی اسلام اسی طرح دعوت حق  کے سلسلے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔ کچھ دنوں بعد آپ فلسطین پہنے ، اس سفر میں بھی حضرت لوط حضرت ساره اور حضرت لوط کی اہلیہ ، آپ کے ہمراہ تھیں فلسطین کی مغر بی سمت آپ نے سکونت اختیار کی ۔ اس زمانے میں اس علاقے پر کنعانیوں کی حکومت تھی۔ یہاں سے آپ شکیم نا بلس تشریف لے گئے۔ کچھ دنوں قیام کے بعد پھر سفر شروع کیا۔ اور مصر پہنچے جہاں فراعنہ کی حکومت تھی۔ اس وقت کے فرعون نے حضرت سارہؑ کے ساتھ نامناسب حرکت کا مرتکب ہونا چاہا لیکن خدانے آپ کو محفوظ رکھا۔ حدیث کی مشہور کتب بخاری و مسلم نے تفصیلکے ساتھ اس واقعے کو بیان کیا ہے، تورات میں بھی اس کا مفصل ذکرہے، حدیث اور تورات کے بیان واقعہ میں جزوی اختلاف ضرور پایا جاتا ہے مگر مدعا دونوں کا ایک ہی ہے، وہ یی کہ شاہ مصر فرعون جس کا تعلق نسبا سامی خاندان سے تھا اور اسی لیے حضرت ابراہیمؑ سے جو سامی تھے ، خاندانی قرابت رکھتا تھا، جب حضرت ابرا ہیم آپ کے بھتیجے لوط اور آپ کی بیوی سارہؑ مصر پہنچے اور فرعون سے ملاقات ہوئی تو کوئی بات اس نے ضرور ایسی دیکھی جس سے اس کو یقین ہوگیا کہ ابراہیمؑ اور ان کا خاندان مقبول بارگاہ خداوندیہے اور اسی لیے اس نے آپ کا بہت اعزاز واکرام کیا ، مال و متاع سے نوازا اور خاندانی تعلق کو استحکام بخشنے کے لیے اس نے اپنی بیٹی ہاجره ووالده حضرت اسماعیل کو آپ کی زوجیت میں دے دیا۔ جو اس زمانے کے رواج کے مطابق حضرت ساره آپ کی پہلی اور بڑی بیوی کی خادمہ قرار پائیں حضرت ہاجرہؑ ، فرعون کی بیٹی تھیں ، لونڈی نہیں ۔ ان کے لونڈی ہونے کا وہم اس لیے ہوتا ہے کہ فرعون نے حضرت سارہؑ اور حضرت ابراہیمؑ کو اپنی بیٹی حوالے کرتے وقت یہ کہا تھا کہ وہ سارہؑ کی خدمت گزار ر ہے گی خدمت گزار کا وہ مفهوم نہیں جوزرخرید  یا خاندانی لونڈی کا ہوتا تھا حضرت ہاجرہؑ کی طرف خادمہ کی نسبت سے، حضرت اسماعیل کی اولاد کو کم درجے کا سمجھ کر یا ظا ہر کر کے بنی اسرائیل کا اپنے خاندانی علو مرتب پر فخر بالکل نا مناسب جوصرف تحریف تورات کا کرشمہ ہے کہ واقعے کی تفصیلات حذف کر کے حضرت ہاجره کے بارے میں صرف لونڈی کا لفظ رہنے دیا گیا۔


Tuesday, 5 July 2022

Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-5)

 اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام 
کےحالاتِ زندگی
آگ کا سرد ہونا
عقل و دلیل کی تمام سرحدوں کو توڑ کر ، شاہ اور قوم، جب ظلم و جبر کی منزل پر اُتر آئے اور دہکتی آگ کے شعلے، حق گوئی کی سزا تجویز کر دی گئی، ایک طرف یہ ہو رہا تھا، دوسری طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے کہ گھر اور باہر سب طرف مخالفت ہی مخالفت کا ہجوم تھا۔ کسی طرف سے ہمدردی کی مدھم سی آواز کی بھی توقع نہ ره گئی تھی، تمام
مادّی سہارے مفقود تھے، ایسے وقت میں حضرت ابراہیمؑ کو جس زبردست سہارے نے قوی دل اور جواں ہمت بنائے رکھا، وہ خداے بزرگ و برتر کی ذاتِ اقدس تھی،جس کے مقابلے میں بڑی سے بڑی مادّی طاقتیں ہیچ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ یہی سہارا ہمیشہ حق کا ساتھی رہا ہے، اور اسی سہارے نے حق گویوں کو ظلم و باطل پر فتح دلائی ہے۔ یہی سہارا اس نازک وقت میں حضرت ابراہیمؑ کے کام آیا۔
سزا کے لیے ایک خاص جگہ تیار کی گئی۔ لکڑیوں کا ایک انبار اکٹھا کیا گیا، مسلسل کئی دن تک آگ دہکائی گئی، جس کی گرمی کا یہ حال تھا کہ دور دور تک اس کی حدّت سے چیزیں جھلس گئی تھیں۔ اس آگ میں ایک خاص ڈھنگ سے اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے حضرت ابراہیمؑ کو پھینک دیا گیا۔
قرآن مجید، جس کی صداقت شک و شبہ سے بالاتر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا حال اس طرح بیان کرتا ہے کہ ایک طرف نمرود اور اس کی قوم اپنے ہلاکت آفریں مادّی کی انتظام پر مطمئن تھے کہ اب ابراہیمؑ کے بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ جس نے آگ کو جلانے، پانی کو آگ بجھانے اور ہوا کو سرد کرنے کی اور کائنات کی ہر چیز کو کوئی نہ کوئی خاصیت اور طاقت بخشی ہے، جو اتنی عظیم قدرت کا، بلا شرکت غیرے مالک ہے، وہ اس بات کی بھی پوری پوری قدرت رکھتا ہے کہ وہ جب چاہے اور جس چیز سے چاہے اپنی دی ہوئی طاقت و خاصیت کو سلب کرلے۔ اگر وہ صرف دینے کی طاقت رکھے اور سلب کر لینے کی نہ رکھے۔ تو یہ عقل میں نہ آنے والی بات
ہے، تو اس خداے قادر و توانا نے، آگ کو حکم دیا کہ
”اے آگ! ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی بن جا“ آگ نے امر الٰہی کی تعمیل کی اور حضرت ابراہیمؑ کا بال بیکا نہ ہوا۔
ترک وطن
اب وہ وقت آگیا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ ،دلائل و براہین کی ساری قوّتیں صرف کرنے کے بعد یہ سوچیں کہ ان کی قوم قبول حق کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتی، کیوں کہ اس نے اپنی عقلی و فکری صلاحیتوں کو صحیح راہ پر صرف کرنے کے بجاے، اپنی خواہشات و مرضیات کا تابع بنالیا تھا اور ان کے اختیار فکری و عقلی نے ضلالت و گمراہی کو ہی ان کی نظروں میں پسندیده بنا دیا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اعلان و تبلیغ حق کے لیے کسی دوسری سرزمین کا رُخ کریں۔ چنانچہ آپ نے اپنے وطن قصبہ اُور کو خیر باد کہا اور اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السّلام (لوط بن ہازن بن آزار) اور اپنی بیوی حضرت سارہؓ (اس وقت تک یہ ہی دو آپ پر ایمان لائے تھے) کے ساتھ، اُور کلدانیین میں پہنچے جو فرات کے مغربی کنارے کے قریب ایک بستی تھی، یہاں کچھ دنوں قیام فرمایا، پھر بیوی اور بھتیجے کے ساتھ حرّان چلے گئے اور اپنا وقت وہاں کے لوگوں کے سامنے پیغام حق پہنچانے میں صرف کرنے لگے۔
(جاری)

Monday, 4 July 2022

Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-4)

 اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام 
کےحالاتِ زندگی
نمرود سے مکالمہ 
بادشاہ وقت نمرود کے کانوں تک یہ بات پہنچ چکی تھی، اس نے سوچا کہ اس دعوت و تبلیغ کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو میری شہنشاہی و خداوندی کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے، اسے فوراً ختم کرنا چاہیے یہ سوچ کر اس نے ابراہیم علیہ السلام کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دربار میں شاہ نمرود کے سامنے لائے گئے۔ 
نمرود:- تم باپ دادا کے دین کی مخالفت کیوں کرتے ہو؟ اور مجھے رَب ماننے سے کیوں انکار کرتے ہو؟
ابراہیمؑ:- میں صرف خدائے واحد کا پرستار ہوں۔ کسی کو اس کا شریک نہیں مانتا، وہی ساری کائنات کا خالق ہے۔ میرا بھی وہ اسی طرح خالق ہے جس طرح سب کا۔ تو پھر تو ”رب“ کس طرح ہوسکتا ہے اور یہ گونگے بہرے لکڑی اور پتھر کے گھڑے ہوئے بُت بھی؟ میں نے جو راه اختیار کی ہے وہی حق ہے اور تم سب کی غلط۔
 نمرود:- میرے علاوہ اگر تمھارا کوئی اور ”رب“ ہے تو اس کا کوئی ایسا وصف بیان کرو جو مجھ میں نہ پایا جاتا ہو۔ 
ابراہیم:- میرا رب وہ ہے جس کے قبضے میں موت و حیات ہے، جس کو چاہتا ہے زندگی بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے موت دیتا ہے۔ 
نمرود:- یہ کیا بڑی بات ہے یہ تو میں بھی کرتا ہوں اور کر سکتا ہوں۔ یہ کہہ کر اُسی وقت ایک شخص کے بارے میں جلّاد کو حکم دیا کہ اس کی گردن اڑا دو۔ جلّاد نے اُسی وقت تعمیل کی، پھر ایک مجرم کو جیل خانے سے بلا کر حکم دیا کہ جاؤ! ہم نے تمھاری جان بخشی کی، یہ سب کرنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف دیکھ کر کہا، دیکھو! میں بھی زندگی بخش سکتا ہوں اور مار سکتا ہوں
ابراہیمؑ سمجھ گئے کہ وہ یا تو موت و حیات کی حقیقت کو نہیں سمجھتا یا پھر اپنی قوم کو مغالطہ دینا چاہتا ہے، حالانکہ موت و حیات اس عمل کا نام نہیں جو نمرود نے بھرے دربار میں کر دکھایا۔ بلکہ زندگی نام ہے عدم سے وجود میں لانے کا، نیست سے ہست کرنے کا اور موت نام ہے، اس وجود پر عدم طاری کرنے کا اور ہست کو نیست کرنے کا ، خواہ اس عدم کا کوئی ظاہری سبب ہو یا نہ ہو۔ جس مخلوق کو جس قدر زندگی خدا نے دی ہے، اتنی مدّت پوری کرنے کے بعد پھر اس کی روح قبض کرلی جاتی ہے اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اور پھر کسی طاقت کے بس میں یہ بات نہیں کہ اس کی زندگی کو پھر واپس کر دے یا اس کو ختم نہ ہونے دے۔
اگر ایسا ہوتا تو خدائی کے دعوے داروں کی اولاد کو کبھی اپنے باپ کے تخت خدائی پر بیٹھنے کی نوبت ہی نہ آتی،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کی سیاسی حال کو فوراً سمجھ لیا کہ وہ مباحثے اور مناظرے کی دلدل میں پھنسا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، اس لیے آپ نے استدلال کے انداز کو بدل دیا اور فرمایا:
دلیل کا نیا انداز
”میں جس ہستی کو اللہ کہتا ہوں مانتا ہوں وہ سورج  کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے اور مغرب کی طرف لے جاتا ہے، پس اگر تم اپنے خدائی کے دعوے میں سچے ہو، تو تم سورج کو مشرق کی بجاے مغرب سے نکالو اور مشرق کی طرف لے جاؤ“۔ اب نمرود لاجواب تھا اور خاموشی کے سوا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا نہ مقابلے کی طاقت اور نہ اپنی قوم کو مزید مغالطے میں پھنسانے کے لیے کوئی سبیل رہ گئی تھی۔
شاہ وقت، باپ اور قوم کے دلوں نے تو اس بات کا اقرار کرلیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے .... اور بتوں کی خدائی کے معاملے میں تو وہ کھلّم کھلّا اس بات کے اقراری تھے کہ ابراہیمؑ جو کچھ کہتے ہیں وہی درست ہے لیکن اس کے باوجود وہ قبول حق اور راہِ مستقیم اختیار کرنے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ نہ کر سکے، بلکہ حق کے خلاف ان کی رگِ عصبیت بھڑک اٹھی۔ شاہ و رعایا، سب نے متفقہ فیصلہ کردیا کہ دیوتاؤں کی توہین والے کو آگ میں جلا دیا جائے کیونکہ تحقیرِ دینِ آبا جیسے سخت جرم کی یہ ہی سزا ہوسکتی ہے۔

خوش خبری