آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday 21 April 2020

Istaqbal e Ramzan - Shah Hasan Usmani

استقبال ماہِ رمضان دراصل پروفیسر شاہ حسن عثمانیؒ کا وہ خطبہ ہے جو انہوں نےمسجد ادارہ مدینة العلوم ، ذاکر نگر، جمشید پور میں دیا تھا۔ جو ایک کتابچہ کی شکل میں شائع ہوا ہے۔ آئینہ اس خطبہ کو افادۂ عام کے لیے پیش کر رہا ہے۔ اس سال مہلک کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے علما نے رمضان المبارک کی عبادات و مشغولیات کے لیے کچھ ہدایات جاری کی ہیں ان کے پیش نظر اس خطبہ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔(آئینہ)

استقبال ماہِ رمضان
پروفیسر شاہ حسن عثمانی
بعد خطبہ مسنونہ
محترم بزرگو، دوستو اور عزیز نوجوانو
اللہ کا بڑا فضل اور اس کا احسان ہے کہ اس سال بھی ہمیں اور آپ کو رمضان المبارک کا یہ مہینہ نصیب ہوا ہے ۔ اورہمیں اس کا موقع ملا ہے کہ ہم اس مہینہ سے زیادہ سے زیادہ برکات حاصل کر سکیں۔ اگر آپ غور کریں اور اپنے گردو پیش  پرنظر ڈالیں تو آپ کو کتنے ایسے لوگ ملیں گے جو گذشتہ رمضان المبارک میں موجود تھے اور وہ آج ہم میں نہیں ہیں ۔ یہ ہماری اور آپ کی خوش قسمتی ہے کہ الله تعالی ٰنے ہمیں اور آپ کو زندہ رکھا اور اس مبارک مہینہ میں جس کا مقصد ہی تقویٰ حاصل کرنا ہے۔ اس کا موقع نصیب کیا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ تقویٰ کی زندگی بسر کرسکیں۔
حضرات !
جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرتے تھے اور آپ خود کمرکس کر عبادت و ریاضت کے لئے تیار ہوتے تھے۔ ہم رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے اسی  اسوہ کے مطابق چند باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو دراصل رمضان المبارک کی تیاری کے سلسلے کی چند تجاویز اور تدابیر ہیں ۔ جنہیں اگر ہم استعمال میں لائیں تو ہم رمضان المبارک سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ہم نے جو کچھ پڑھا لکھا ہے اور جو ہماری سوچ ہے ان باتوں کو بہت ہی اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ٰمیری بات کو آپ کے دلوں میں اتار دے۔ اور اس سے آپ کی زندگی میں جو اچھے اثرات مرتب ہوں وہ آپ کے لئے بھی دین و دنیا میں فلاح کا سبب اور میرے لئے بھی مغفرت کی موجب ہوں ۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ اگر آپ ان باتوں کو اپنے لئے نافع پائیں تو دعا کریں کہ اللہ تعالی ٰمیرا خاتمہ ایمان پر کرے اور مجھے اپنی مغفرت میں ڈھانپ لے۔
بہ شکریہ رومی عثمانی
حضرات ! ایک دفعہ پھر رمضان المبارک کا مہینہ ہمارےاوپر سایہ فگن ہے اور اس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو سیراب کرنے کے لئے برس رہی ہے۔ اس ماہ کی عظمت و برکت کا کیا ٹھکانا جسے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی بڑی عظمت والا اور بڑی برکت والا مہینہ بتایا ہے۔ اس ماہ کی ہر گھڑی میں فیض و برکت کا اتنا خزانہ پوشیدہ ہے کہ نفل اعمال صالحہ فرض اعمال صالحہ کے درجہ کو  پہنچ جاتے ہیں اور فرائض ستر (۷۰) گونہ زیادہ وزنی اور بلند ہو جاتے ہیں ۔ رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور نیکی کے راستوں پر چلنے کی سہولت اور توفیق نصیب ہوتی ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور روزہ بدی کے راستوں کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ پس بشارت دی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جورمضان المبارک میں روزے رکھے کہ اس کے سارے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ اور اس شخص کو جو راتوں میں نماز کے لئے کھڑا ہے اس کے بھی گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ اور وہ جو شب قدر میں قیام کر کے اس کے بھی۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی باتوں اور وعدوں کو سچ جانے اور عمل صالح کرتا رہے۔
حضرات !
اس مہینہ کی عظمت اور برکت بلا شبہ عظیم ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر اس شخص کے حصہ میں آ گئیں جو اس مہینہ کو پالے۔ جب بارش ہوتی ہے تو مختلف ندی، نالے اور تالاب اپنی اپنی وسعت اور گہرائی کے مطابق ہی اس کے پانی سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ زمین کے مختلف ٹکڑے بھی اپنی استعداد کے مطابق ہی فصل دیتے ہیں۔ بارش سب پر یکساں برستی ہے مگر ایک چھوٹے سے گڑھے کے حصے میں اتنا وافر پانی نہیں آتا جتنا ایک لمبے چوڑے تالاب میں بھر جاتا ہے۔ اسی طرح جب پانی کسی چٹان یا بنجر زمین پر گرتا ہے تو اس کے اوپر ہی سے بہہ جا تا ہے اور اس کو کوئی نفع نہیں پہنچاتا لیکن اگر زمین زرخیز ہو تو وہ  لہلہا اٹھتی ہے۔ یہی حال انسانوں کی فطرت اور اس کے نصیب کا ہے۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ کو اچھی طرح یادرکھئے ۔ کتنے روزے دار ہیں جن کو اپنے روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اور کتنے راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں جن کو اپنی نمازوں سے رات کی جگائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
حضرات!
ہمیں اب غور کرنا ہے کہ کون کون سی تدابیر اختیار کریں جس سےہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔ اور ہمارے اندرصحیح معنوں تقویٰ کی صفت پیدا ہو جائے ۔ جو اصل مطلوب ہے۔
اس سلسہ میں پہلی چیز  نیت اور پکا ارادہ ہے۔ نیت صحیح بھی ہونی چاہئے اور خالص بھی ۔ لیکن ہر کام صرف اللہ تعالی ٰکی رضا کے حصول کے لئے اور اس کے اجر و انعام حاصل کرنے کے لئے کرنا چا ہئے۔ اگر آپ کی نیت خالص نہ ہوگی اور آپ کا  م صرف الله تعالی کی رضا کے لئے نہ کریں گے تو وہ قبول نہ ہو گا ۔ اور آپ کی محنت کا اجر ضائع کیا جا سکتا ہے۔ اللہ محفوظ رکھے۔
اس مقصد کے لئے بہت مفید ہوگا۔ اگر آپ رمضان المبارک کے آغاز سے ایک دن پہلے یا آغاز کے فورا ًبعد پہلی ہی رات میں تھوڑی دیر تنہائی میں بیٹھ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور خود کو حاضر جا نیں۔ اس کی حمد کریں۔ اس کے نبی پر در و دبھیجیں۔ اپنے گناہوں سے استغفار کریں ۔ اس کے بعد پورے ماہ کوشش اور محنت کی نیت اور ارادہ کریں: اللہ تعالی ٰسے توفیق اور اعانت طلب کریں اور دعا کریں کہ وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کے آپ کو اپنی راہ پر چلائے۔
دوسری چیز قرآن مجید کی تلاوت و سماعت اورعلم وفہم کے حصول کا اہتمام ہے۔ اس مہینہ کا اصل حاصل ہی قرآن سننا اور پڑھنا۔ قرآن سیکھنا اور اس پرعمل کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ اس لئے آپ کو سب سے زیادہ اہتمام جس چیز کا کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن مجید کی صحبت و معیت میں بسر کریں۔ یہ وقت اس طرح بسر کریں کہ ایک طرف آپ کو معلوم ہو کہ اللہ تعالی ٰنے آپ سے کیا کہا ہے۔ دوسری طرف آپ کا دل اور آپ کی سوچ قرآن کو جذب کرلے۔ اور آپ کے اندر اس کے مطابق عمل کے لئے آمدگی پیدا ہو۔ نماز تراویح کی پابندی سے کم از کم اتنا ضرور حاصل ہوتا ہے کہ آپ پورا قرآن ایک بار سن لیتے ہیں ۔ اللہ کے حضور کھڑے ہو کر اللہ کے کلام سننے کا روحانی فائدہ اپنی جگہ بہت قیمتی ہے ۔ لیکن عربی نہ جاننے کی وجہ سے آپ اس عبادت سے یہ فائدہ نہیں حاصل کر پاتے کہ آپ قرآن کے پیغام اور مضامین سے واقف ہو جائیں۔ ان کو تازہ کر لیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ اس مقصد کے لئے کچھ زیادہ محنت کریں اور کچھ اس سے زیادہ وقت قرآن کے لئے لگا ئیں جتنا وقت آپ تر اویح میں لگاتے ہیں ۔ یعنی روزانہ قرآن کا کچھ حصہ تر جمہ سے سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں ۔ سمجھ کر پڑھنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ قرآن مجید کو اپنے اندر جذب کریں اور اس کے ساتھ اپنے دل اور روح کے تعلق کو گہرا کریں اور پروان چڑھائیں ۔ قرآن مجید نے خود اپنے پڑھنے اور سننے والوں کی جو صفات بیان کی ہیں وہ صرف ذہن سے سمجھ کر پڑھنے تک محدود نہیں ہے۔ قرآن کا اپنا بیان ہے کہ جب ان کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو سننے اور پڑھنے والوں کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور نرم پڑ جاتے ہیں ۔ ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ ان پر گریہ و زاری طاری ہو جاتا ہے۔ ان کا ایمان بڑھتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ جب قرآن مجید پڑھوتو روو ٔ اور اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو ۔ اس لئے کہ قرآن حزن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔
تیسری چیز ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی خصوصی کوشش ہے۔ روزہ کا مقصد تقوی ٰپیدا کرنا ہے، اور رمضان المبارک کا مہینہ تقویٔ کی افزائش کے لئے بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لئے اس مہینہ میں اللہ تعالی ٰکی نافرمانی سے بچنے کی خصوصی کوشش کرنا ضروری ہے۔ یوں تو یہ کوشش زندگی کے ہر معاملہ میں کرنا چاہئے ۔ لیکن دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرتی روابط کے معاملہ میں خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ وہ آدمی بڑاہی بد قسمت ہوگا جو بڑے اہتمام سے روزے رکھے ۔ نمازیں پڑھے۔ صدقے کرے ، قرآن پڑھے اور پھر قیامت کے دن اللہ کے حضور اس حال میں آئے کی گردن پر لوگوں کی طرف سے دعوؤں کا ایک انبار ہو۔ کسی کو مارا۔ کسی کو گالی دی ۔ کسی کی بے عزتی کی۔ کسی کا دل دکھایا۔ کسی کا مال ناحق کھایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں اصل مفلس ایسا ہی شخص ہے۔ اس کی تمام نیکیاں دعوے داروں کو دیدی جائیں گی ۔ پھر بھی ختم نہ ہوئے تو دعویٰ داروں کے گناہ اس کے سر ڈال دئے جا ئیں گے ۔ اور اس کو سر کے بل جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اللہ تعالی ٰ ہم سبھوں کو اس سے محفوظ  رکھے۔ اچھی طرح جان لیجئے کہ روز ہ صرف پیٹ کا روزہ نہیں ہے۔ آنکھ کا بھی روزہ ہے۔ کان کا بھی روزہ ہے۔ زبان کا بھی روزہ ہے۔ ہاتھ کا بھی روزہ ہے۔ پاؤں کا بھی روزہ ہے۔ وہ روز ہ یہ ہے کہ آنکھ وہ نہ دیکھے، کان وہ نہ سنے، زبان وہ نہ بولے۔ ہاتھ پاؤں وہ کام نہ کریں جو اللہ تعالی کو نا پسند ہیں ۔ اور جن سے اس نے منع فرمایا ہے۔
چوتھی چیز قیام لیل ہے۔ رات کا قیام اور تلاوت قرآن۔ اپنا احتساب اور استغفار۔ تقویٰ کے حصول کے لئے بہت ضروری اور کارگر نسخہ ہے۔ یہ متقیوں کی صفت اور علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ متقی وہ ہیں جو راتوں کو کم سوتے ہیں اور سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں۔ رمضان کے مہینہ میں تھوڑا سا اہتمام کر کے رات کے اس آخری حصہ میں آپ قیام لیل کی  برکت حاصل کر سکتے ہیں ۔ اس کا طریقہ بڑا آسان ہے۔ سحری کے لئے تو آپ اٹھتے ہی ہیں۔ پندرہ بیس منٹ پہلے اٹھ کر وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لیں...................یہ رات کا وہ حصہ ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ الله تعالیٰ دنیا والوں کے بہت قریب آتا ہے اور پکارتا ہے۔ کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے جو مانگے وہ دوں، کون ہے جو مجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہے کہ میں اس کو معاف کر دوں ۔ ایک روایت میں تو دل کو تڑپا دینے والے یہ الفاظ آتے ہیں کہ رات کو اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ پھیلا دیتا ہے اور کہتا ہے۔ کون ہے جو ایسی ذات کو قرض دے جو فقیر ہے نہ ظالم اورصبح تک یہی کہتا رہتا ہے۔ جب الله تعالی ٰنے اپنی رحمت کا ہاتھ اس طرح پھیلا رکھا ہو اور آپ کھانے پینے کے لئے بستر سے اٹھ ہی رہے ہوں تو اس سے زیادہ آسان خوش نصیبی کی راہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ چند منٹ اور زیادہ لگا کر اپنے گناہ بخشوالیں اور جو مانگیں وہ پالیں۔
پانچویں چیز اللہ کی راہ میں فیاضی سے خرچ کرنا ہے۔ نماز کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے، جو کچھ الله تعالیٰ نے بخشا ہے وہ سب خرچ کرنا۔ وقت بھی اور جسم و جان کی قوتیں بھی۔ لیکن سب سے بڑھ کر مال خرچ کرنا۔ اس لئے کہ مال دنیا میں سب سے بڑھ کرمحبوب اور مرغوب ہوتا ہے اور دنیا کی محبت ہی ساری کمزوریوں کا سرچشمہ ہے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سارے انسانوں سے زیادہ فیاض اورسخی تھے۔ لیکن جب رمضان المبارک آتا اور حضور کی ملاقات حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہوتی تو پھر آپ کی سخاوت اور دادو دہش کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ آپ اپنی فیاضی میں بارش لانے والی ہوا کے مانند ہو جایا کرتے تھے۔ قیدیوں کو رہا فرماتے اور ہر مانگنے والے کو عطا کرتے ۔ پس آپ بھی رمضان میں اپنی مٹھی کھول دیں۔ اللہ کے دین کی اقامت وتبلیغ کے لئے ، اقرباء کے لئے ۔یتیموں اور مسکینوں کے لئے جتنا مال بھی اللہ کی راہ میں نکال سکیں نکالیں ۔ بھوک اور پیاس تو برداشت کرتے ہی ہیں کچھ تنگی اورسختی جیب کے معاملہ میں بھی برداشت کیجیے۔ لیکن جو کچھ دیجیےصرف اللہ کے لئے دیجیے۔ کسی سے بدلہ اور شکریہ کی خواہش آپ کے دل میں نہ ہو لا مزيد فكم جزا ًولا شکرا ً ہم تم سے نہ بدلا چا ہتے ہیں نہ شکریہ۔ اس سے کیا فائدہ کے آپ مال نکالیں ۔ سرمایہ کاری کریں اور اپنے ہی ہاتھوں سرمایہ اور نفع دونوں ضائع کر دیں۔ دعا ہے کہ الله تعالی ہم لوگوں کو اس سے محفوظ رکھے ۔ اور رمضان المبارک میں وہ تقوی ٰحاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم قرآن مجید کی ہدایت کے مستحق ہوں ۔ ہم قرآن کا علم حاصل کریں ۔ اس پرعمل کریں۔ اللہ تعالی ہمیں قرآن کا پیغام لے کر کھڑا ہونے اور اس کو قائم کرنے کے لئے حوصلہ، عزم اور شوق ولولہ عطا فرمائے۔ آمین
وآخر و دعونا عن الحمد لله رب العالمين

Sunday 19 April 2020

Khushhaal Nama - Nazeer Akbarabadi

خوشحال نامہ
نظیر اکبر آبادی

جوفقر میں پورے ہیں وہ ہر حال میں خوش ہیں 
ہر کام میں ہر دام میں ہر جال میں خوش ہیں
 گرمال دیا یار نے  تو مال میں خوش ہیں
 بے زر جو کیا تو اسی احوال میں خوش ہیں
اجلاس میں اد بار میں اقبال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں

 چہر ے پہ ملامت نہ جگر میں اثر غم 
ماتھے پہ کہیں چین  نہ ابرو میں کہیں خم
 شکوہ نہ زباں پر نہ کبھی چشم ہوئی نم
غم میں بھی وہی عیش الم میں بھی وہی دم
ہر بات ہر اوقات ہرا فعال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں

گر اس نے دیاغم تواسی غم میں رہے خوش
اور اس نے جو ماتم د یا ماتم میں رہے خوش 
کھانے کو ملاکم تو اسی کم میں رہےخوش
جس طور کہا اس نے اس عالم میں رہے خوش
دکھ درد میں آفات میں جنجال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں

جینے کانہ اندوه نہ مرنے کا ذرا غم
یکساں ہے انہیں زندگی اور موت کا عالم 
وا قف نہ برس سے نہ مہینے سے وہ اک دم 
نہ  شب کی مصیبت نہ کبھی روز کا ماتم
دن رات گھڑی پہر مہ و سال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں

قشقے کا ہوا حُکم تو قشقہ وہیں کھینچا
جُبّےکی رضا دیکھی توجُبّہ و ہیں پہنا
آزاد کہا ہو تو و ہیں سر کو منڈایا 
جو رنگ کہا اس نے وہی رنگ  رنگا یا
کیا زرد میں کیا سبز میں کیا لال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں

Saturday 18 April 2020

Ishq Phir Rang Woh Laya Hae Ke Ji Jane hae - Nazeer Akbarabadi

غزل
نظیر اکبر آبادی

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے 
دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانے ہے 

ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائیں لیکن 
لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانے ہے 

زخم اس تیغ نگہ کا مرے دل نے ہنس کر 
اس مزے داری سے کھایا ہے کہ جی جانے ہے 

اس کی دزدیدہ نگہ نے مرے دل میں چھپ کر 
تیر اس ڈھب سے لگایا ہے کہ جی جانے ہے 

بام پر چڑھ کے تماشے کو ہمیں حسن اپنا 
اس تماشے سے دکھایا ہے کہ جی جانے ہے 

اس کی فرقت میں ہمیں چرخ ستم گار نے آہ 
یہ رلایا ،یہ رلایا ہے کہ جی جانے ہے 

حکم چپی کا ہوا شب تو سحر تک ہم نے 
رتجگا ایسا منایا ہے کہ جی جانے ہے 

تلوے سہلانے میں گو اونگھ کے جھک جھک تو پڑے 
پر مزا بھی وہ اڑایا ہے کہ جی جانے ہے 

رنج ملنے کے بہت دل نے سہے لیکن نظیرؔ 
یار بھی ایسا ملایا ہے کہ جی جانے ہے

Friday 17 April 2020

Mian Dil Tujhe Le Chale Husn Wale - Nazeer Akbarabadi

غزل
نظیر اکبر آبادی

میاں دل تجھے لے چلے حسن والے
کہوں اور کیا ، جا خدا کے حوالے

 ادھر آ ذرا تجھ سے مل کر میں رولوں
تو مجھ سے ذرا مل کر آنسو بہا لے

چلا اب تو ساتھ ان کے تو بے بسی سے
لگا میرے پہلو میں فرقت کے بھالے 

خبردار ان کے سوا زلف و رخ کے
کہیں مت نکلنا اندھیرے اجالے

ترے اور بھی ہيں طلب گار کتنے
مبادا کوئی تجھ کو واں سے اڑالے

کسی کا تو کچھ بھی نہ جاوے گا لیکن
پڑیں گے مجھے اپنےجینے کے لالے

 تری کچھ سفارش میں ان سے بھی کردوں
کرے گا تو کیا یاد مجھ کو بھلا لے 

 سنو دلبرو ، گل رخو ، مہ جبینو!
میں تم پاس آیا ہوں اک التجا لے

خدا کی رضا یا محبت سے اپنی
 پڑا اب تو آ کر تمہارے یہ پالے

تم اپنے ہی قدموں تلے اس کو رکھیو
تسلی دلاسے میں ہر دم سنبھالے

 کبھی اس کو تکلیف ایسی نہ دیجو
کہ غم  میں یہ رہ کر کرے آه و نالے 

تمہارے یہ سب ناز اٹھاوے گا لیکن
وہی بوجھ رکھیو جسے یہ اٹھالے

 نظیر آہ  دل کی جدائی بری ہے
بہیں کیوں نہ آنکھوں سےآنسوکے نالے

 اگر دسترس ہو تو  کیجیے منادی
 کہ پھر کوئی سینے میں دل کو نہ پالے



Thursday 16 April 2020

Aaina e Irfaan

 Aaina e Irfaan

مشمولات
حمد تاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی ؒ
شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی ؒ طیب عثمانی ندوی
حضرت مولانا حکیم شاہ منصور احمد فردوسی شاہ ہلال احمد قادری
اردو شاعری میں رنگ تصوف شاہ رشاد عثمانی
حضرت شاہ کمال ڈاکٹر امین چند شرما
مولانا طیب عثمانی ندوی کے اذکار صوفیانہ شاہ ہلال احمد قادری
حصرت خواجہ اجمیری کا ذوق سماع حضرت مولانا سید شاہ محمد آیت اللہ قادری
گیارہویں شریف امیمہ قادری
المجیب: خانقاہ مجیبیہ کی خدمات نمبر شاہ محمد تسنیم عثمانی فردوسی
کیا وقت تھا کیالوگ تھے ابن طاہر
کیا وقت تھا کیالوگ تھے۔2 ابن طاہر
حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیریؒ ابن طاہر
غیر مسلم شعرا کی نعت نگاری ڈاکٹر کے وی نکولن
ٹوٹ گئے ستار کے تار ادارہ
شاعر اسلام اقبال۔ شخصیت اور پیام طیب عثمانی ندوی
حمد، نعت،عارفانہ کلام
موئے رسول پاکؐ دکھانا بھی نعت ہے امیمہ قادری
نمی دانم چہ منزل بود شب جائیکہ من بودم حضرت امیر خسرو
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس جگر مراد آبادی
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ناصر کاظمی
بہک بھی سکتا ہوں توبہ کی چاہتیں لکھ دے جوگا سنگھ انور
ہم چپکے چپکے اشک بہانے سے بچ گئے تاجور سلطانہ
ہولی نظیر اکبر آبادی
اک مس سیمیں بدن سے کرلیا لندن میں عقد اکبر الہ آبادی

Wednesday 15 April 2020

Ek Miss Seemin Badan Se - Akbar Allahabadi


ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد

اکبر الہ آبادی

ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد
 اس خطا پر سن رہا ہوں طعنہ ہائے دل خراش

 کوئی کہتا ہے کہ بس اس نے بگاڑی نسل قوم
 کوئی کہتا ہے کہ یہ ہے  بدخصال و بدمعاش

 دل میں کچھ انصاف کرتا ہی نہیں کوئی بزرگ
 ہو کے اب مجبور خود اس راز کو کرتا ہوں فاش

 ہوتی تھی تاکید لندن جاؤ انگریزی پڑھو
 قوم انگلش سے ملو سیکھو وہی وضع  تراش

 جگمگاتے ہوٹلوں کا جا کے نظارہ کرو 
سوپ و کاری کے مزے لو۔ چھوڑ کر یخنی و آش

 لیڈیوں سے مل کے دیکھو ان کے انداز و طریق
ہال میں ناچو کلب میں جا کے کھیلو ان سے تاش

 باده تہذیب یورپ کے چڑھاؤ خم کے خم
 ایشیا کے شیشۂ تقویٰ کو کردو  پاش پاش

 جب عمل اس پر کیا پر یوں کا سایہ ہو گیا
 جس سے تھا دل کی حرارت کو سراسر انتعاش

 سامنے تھیں لیڈیاں زہرہ  وش جادو نظر
 یاں جوانی کی امنگ اور ان کو عاشق کی تلاش

 اس کی چتون سحر آگیں اس کی باتیں دل ربا
چال اس کی فتنہ خیز اس کی نگاہیں برق پاش

 وہ فروغ آتشِ رخ جس کے آگے آفتاب
 اس طرح جیسے کہ پیش شمع پروانے کی لاش

 جب یہ صورت تھی تو ممکن تھا کہ اک برق بلا
 دست سیمیں کو بڑھاتی اور میں کہتا دور باش؟

 دونوں جانب تھا رگوں میں جوش خونِ فتنہ زا
 دل ہی تھا آخر نہیں تھی برف کی یہ کوئی قاش

 بار بار آتا ہے اکبر میرے دل میں یہ خیال
 حضرت سیّد سے جا کر عرض کرتا کوئی کاش

 درمیان قعر دریا تختہ بندم کرده  ای
باز میگوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
(دریا کی منجدھار میں مجھے تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار ہشیار رہنا تمھارا دامن تر نہ ہونے پائے۔)

Ghazal- Us ke sharar e husn - Nazeer Akbarabadi


غزل
نظیر اکبر آبادی

اس کے شرار حسن نے جلوہ جو اک دکھادیا
 طور کو سر سے پاؤں تک پھونک دیا جلا دیا

پھر کے نگاہ چارسو، ٹھہری اسی کے روبرو
اس نے تو میری چشم کو قبلہ نما بنا دیا

 میں ہوں پتنگ کاغذی ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا!! اِدھر گھٹا! لیا!، !چاہا !!اُدهر!بڑھا! دیا

تیشے کی کیا مجال تھی، یہ  کہ تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیا

 نکلے جو راهِ دَیر سے اک ہی نگاہ مست میں
گبر کا صبر کھو دیا، بُت کو بھی بُت بنا دیا

Guzra Hua Zamana - Sir Syed - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Guzra hua Zamana by Sir Syed Ahmad Khan Chapter 1 NCERT Solutions Urdu
گزرا ہوا زمانہ
سرسید احمد خاں

برس کی اخیر رات کو ایک بڈّھا اپنے اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے ، رات بھی ڈراونی اور اندھیری ہے ، گھٹا چھا رہی ہے بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے، آندھی بڑے زور سے چلتی ہے، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے ۔ بڈّھا نہایت غمگین ہے مگر اس کاغم نہ اندھیرے گھر پر ہے، نہ اکیلے پن پر اور نہ اندھیری رات اور بجلی کی کڑک اور آندھی کی گونج پر اور نہ برس کی اخیر رات پر۔ وہ اپنے پچھلے زمانے کو یاد کرتا ہے اور جتنا زیادہ یاد آتا ہے اتنا ہی زیادہ اس کا غم بڑھتا ہے۔ ہاتھوں سے ڈھکے ہوئے منہ پر آنکھوں سے آنسوبھی بہے چلے جاتے ہیں ۔
پچھلا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے، اپنا لڑکپن اس کو یاد آتا ہے، جب کہ اس کو کسی چیز کا غم اور کسی بات کی فکر دل میں نہ تھی۔ روپے،اشرفی کے بدلے ریوڑی اور مٹھائی اچھی لگتی تھی۔ سارا گھر ماں باپ، بھائی بہن اس کو پیار کرتے تھے۔ پڑھنے کے لیے چھٹی کا وقت جلد آنے کی خوشی میں کتابیں بغل میں لیے مکتب میں چلا جاتا تھا۔ مکتب کا خیال آتے ہی اس کو اپنے ہم مکتب یادآتے تھے۔ وہ زیادہ غمکین ہوتا تھا اور بے اختیار چلاّ اٹھتا تھا ”ہائے وقت، ہائے وقت! گزرے ہوئے زمانے! افسوس کہ میں نے تجھے بہت دیر میں یاد کیا۔“
پھر وہ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا تھا۔ اپنا سرخ سفید چہرہ، سڈول ڈیل بھرا بھرا بدن ، رسیلی آنکھیں ، موتی کی لڑی سے دانت ، امنگ میں بھرا ہوا دل، جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھائے ہوئے زمانے میں ماں باپ جو نصیحت کرتےتھے، نیکی اور خدا پرستی کی بات بتاتے تھے اور یہ کہتا تھا ”اُہ ابھی بہت وقت ہے“ اور بڑھاپے کے آنے کا کبھی خیال بھی نہ کرتا تھا۔ اس کو یاد آتا تھا اور افسوس کرتا تھا کہ کیا اچھا ہوتا اگر جب ہی میں اس وقت کا خیال کرتا اور خدا پرستی  اور نیکی سے اپنے دل کو سنوارتا اور موت کے لیے تیار رہتا ۔ آه وقت گزر گیا، آہ وقت گزر گیا۔ اب پچھتائے کیا ہوتا ہے۔ افسوس میں نے آپ اپنے تئیں ہمیشہ یہ کہہ کر برباد کیا کہ ”ابھی وقت بہت ہے۔“
یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اورٹٹول ٹٹول کرکھڑکی تک آیا۔ کھڑکی کھولی ، د یکھا کہ رات ویسی ہی ڈراونی ہے، اندھیری گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی کی کڑک سے دل پھٹا جاتا ہے، ہولناک آندھی چل رہی ہے، درختوں کے پتے اڑتے ہیں اور ٹہنے ٹوٹتے ہیں، تب وہ چلا کر بولا ”ہائے ہائے میری گزری ہوئی زندگی بھی ایسی ہی ڈراونی ہے جیسی یہ رات“ یہ کہہ کر پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔
اتنے میں اس کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست آشنا یاد آئے جن کی ہڈیاں قبروں میں گل کر خاک ہو چکی تھیں ۔ ماں گویا محبت سے اس کو چھاتی سے لگائے آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑی ہے۔ یہ کہتی ہوئی کہ ہائے بیٹا وقت گزر گیا۔ باپ کا نورانی چہرہ اس کے سامنے ہے اور اس میں سے یہ آواز آتی ہے کہ کیوں بیٹا ہم تمھارے ہی بھلے کے لیے نہ کہتے تھے۔ بھائی بہن دانتوں میں انگلی دیے ہوئے خاموش ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہے۔ دوست آشنا سب غمگین کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔
ایسی حالت میں اس کو اپنی وہ باتیں یاد آتی تھیں جو اس نے نہایت بے پروائی اور بے مروتی اور کج خلقی سے اپنے ماں باپ، بھائی ، بہن ، دوست آشنا کے ساتھ برتی تھیں ۔ ماں کو رنجیدہ رکھنا، باپ کو ناراض کرنا، بھائی بہن سے بے مروت رہنا، دوست آشنا کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا یاد آتا تھا اور اس پر ان گلی ہڈیوں میں سے ایسی محبت کا دیکھنا اس کے دل کو پاش پاش کرتا تھا۔ اس کا دم چھاتی میں گھٹ جا تا تھا اور یہ کہہ کر چلا اٹھتا تھا کہ ہائے وقت نکل گیا، ہائے وقت نکل گیا، اب کیوں کر اس کا بدلہ ہو!
 وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑ ا اور ٹکرا تا لڑکھڑاتا کھڑکی تک پہنچا۔ اس کو کھولا اور دیکھا کہ ہوا کچھ ٹھہری ہے اور بجلی کی کڑک کچھ تھمی ہے پر رات ویسی ہی اندھیری ہے۔ اس کی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی اور پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔
اتنے میں اس کو اپنا ادھیڑ پن یاد آیا جس میں کہ نہ وہ جوانی رہی تھی اور نہ وہ جوانی کا جوبن، نہ وہ دل رہا تھا اور نہ دل کے ولولوں کا جوش ، اس نے اپنی اس نیکی کے زمانے کو یاد کیا جس میں وہ بہ نسبت بدی کے نیکی کی طرف زیادہ مائل تھا۔ وہ اپنا روزہ رکھنا ، نمازیں پڑھنی ، حج کرنا ، زکوٰة دینی، بھوکوں کو کھلانا، مسجدیں اور کنویں بنوانا یاد کر کر اپنے دل کو تسلی دیتا تھا۔ فقیروں اور درویشوں کو جن کی خدمت کی تھی، اپنے پیروں کی جن سے بیعت کی تھی اپنی مد دکو پکارتا تھا مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے۔ بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں ، مسجدیں ٹوٹ کر یا تو کھنڈر ہیں اور یا پھر ویسے ہی جنگل ہیں ۔ کنویں اندھے پڑے ہیں ۔ نہ پیر اور فقیر ، کوئی اس کی آواز نہیں سنتا اور نہ مدد کرتا ہے۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیا جو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔ یہ پچھلی سمجھ پہلے ہی کیوں نہ سوجھی ، اب کچھ بس نہیں چلتا اور پھر یہ کہہ کر چلا اٹھا ”ہائے وقت ، ہائے وقت میں نے تجھ کو کیوں کھودیا؟“
وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا۔ اس کے پٹ کھولے تو دیکھا کہ آسمان صاف ہے، آندھی تھم گئی ہے۔ گھٹا کھل گئی ہے، تارے نکل آئے ہیں، ان کی چمک سے اندھیرا بھی کچھ کم ہو گیاہے۔ وہ دل بہلانے کے لیے تاروں بھری رات کو دیکھ رہا تھا کہ  یکایک اس کو آسمان کے بیچ میں ایک روشنی دکھائی دی اور اس میں ایک خوبصورت دلہن نظر آئی۔ اس نے ٹکٹکی باندھ اسے دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ اسے دیکھتا تھا وہ قریب ہوتی جاتی تھی، یہاں تک کہ وہ اس کے بہت پاس آ گئی۔ وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور نہایت پاک دل اور محبت کے لہجے سے پوچھا کہ تم کون ہو، وہ بولی کہ میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں ۔ اس نے پوچھا کہ تمھاری تسخیر کا بھی کوئی عمل ہے ۔ وہ بولی ہاں ہے، نہایت آسان پر بہت مشکل ۔ جو کوئی خدا کے فرض اس بدوی کی طرح جس نے کہا کہ ”والله لا از ید و لاانقص‘‘ ادا کر کر انسان کی بھلائی اور اس کی بہتری میں سعی کرے اس کی میں مسخر ہوتی ہوں ۔ دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے، انسان ہی ایسی چیز ہے جو اخیر تک رہے گا ۔ پس جو بھلائی کہ انسان کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے وہی نسل درنسل اخیر تک چلی آتی ہے۔ نماز ، روزہ ، حج، زکوٰة  اسی تک ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی موت ان سب چیزوں کو ختم کردیتی ہے۔ مادّی چیزیں بھی چند روز میں فنا ہو جاتی ہیں مگر انسان کی بھلائی اخیر تک جاری رہتی ہے۔ میں تمام انسانوں کی روح ہوں، جو مجھ کو تسخیر کرنا چاہے انسان کی بھلائی میں کوشش کرے کم سے کم اپنی قوم کی بھلائی میں تو دل و جان ومال سے ساعی ہو۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہوگئی اور بڈھا پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔
اب پھر اس نے اپنا پچھلا زمانہ یاد کیا اور دیکھا کہ اس نے اپنی پچپن برس کی عمر میں کوئی کام بھی انسان کی بھلائی اور کم سے کم اپنی قومی بھلائی کا نہیں کیا تھا۔ اس کے تمام کام ذاتی غرض پرمبنی تھے۔ نیک کام جو کیے تھے ثواب کے  لالچ اور گویا خدا کو رشوت دینے کی نظر سے کیے تھے۔ خاص قومی بھلائی کی خالص نیت سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
اپنا حال سوچ کر وہ اس دل فریب دلہن کے ملنے سے مایوس ہوا۔ اپنا اخیر زمانہ دیکھ کر آ ئندہ کرنے کی بھی کچھ امید نہ پائی ۔ تب تو نہایت مایوسی کی حالت میں بے قرار ہو کر چلا اٹھا ”ہائے وقت، ہائے وقت، کیا پھر تجھے میں بلا سکتا ہوں؟ ہائے میں دس ہزار دیناریں دیتا اگر وقت پھر آتا اور میں جوان ہوسکتا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک آہ سرد بھری اور بے ہوش ہوگیا۔
تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کے کانوں میں میٹھی میٹھی باتوں کی آواز آنے لگی۔ اس کی پیاری ماں اس کے پاس آ کھڑی ہوئی، اس کو گلے لگا کر اس کی ببّی لی ۔ اس کا باپ اس کو دکھائی دیا۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہن اس کے گرد آ کھڑےہوئے ۔ ماں نے کہا کہ بیٹا کیوں برس کے برس دن روتا ہے؟ کیوں تو بے قرار ہے؟ کس لیے تیری ہچکی بندھ گئی ہے؟ اُٹھ منھ ہاتھ دھو  کپڑے پہن ، نوروز کی خوشی منا، تیرے بھائی بہن تیرے منتظر کھڑے ہیں۔ تب وہ لڑکا جاگا اور سمجھا کہ میں نے خواب دیکھا اور خواب میں بڈّھا ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سارا خواب اپنی ماں سے کہا۔ اس نے سن کر اس کو جواب دیا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا کہ اس پشیمان بڈّھے نے کیا ، بلکہ ایسا کر جیسا تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔
یہ سن کر وہ لڑ کا پلنگ پر سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا کہ او یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے، میں کبھی اس بڈّھے کی طرح نہ پچھتاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے ایسا خوبصورت اپنا چہرہ مجھ کو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔ اوخدا، او خدا تو میری مدد کر، آمین۔
پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو! اور اے میری قوم کے بچّو، اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تا کہ اخیر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤ۔ ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے، آمین۔

انشائیہ
انگریزی میں انشائیہ اور مضمون دونوں کے لیے Essay کی اصطلاح  رائج ہے۔ انشائیہ ادیب کی ذہنی اور ادبی اسلوب کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ انشائیہ نگار زندگی کی عام یا خاص بات یا کیفیت کو اپنی افتاد طبع ،علمیت اور شگفتہ نگاری سے پرلطف انداز میں بیان کردیتا ہے۔ ابتدا میں تمثیلی انشائیےبھی لکھے گئے۔ انہیں رمزیے( Allegory) کہا جاتا ہے۔ ان کی بہترین مثال محمد حسین آزاد کی کتاب ”نیرنگ خیال“ ہے۔ سرسید ،شبلی ، حالی اور خواجہ حسن نظامی سے لے کر نیاز فتح پوری ، سید عابد حسین، خواجہ غلام السیدین، محمد مجیب ، رشید احمد صدیقی اور ان کے بعد کے لکھنے والوں کی بعض تحریریں انشائیہ بھی کہی جاسکتی ہیں اور مضمون بھی ۔ کنہیالال کپور، مشتاق احمد یوسفی ، یوسف ناظم، وزیرآغا اورمجتبیٰ حسین وغیرہ ہمارے زمانے کے ممتاز انشائیہ نگار ہیں۔

سرسید احمد خاں
(1898 – 1817)

سید احمد خاں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ سید احمد نے اپنے زمانے کے اہل کمال سے فیض حاصل کیا۔ 1839ء میں انھوں نے انگریزی سرکار کی ملازمت اختیار کی اورمختلف مقامات پر کام کیا۔ 1862ء میں جب وہ غازی پور میں تھے، انھوں نے ایک انجمن ”سائنٹفک سوسائٹی“ کے نام سے بنائی ۔ اس انجمن کا مقصد یہ تھا کہ مختلف علوم ، خاص کر سائنس کے علوم کا مطالعہ کیا جائے اور ان علوم کو ہندوستانیوں میں عام کیا جائے ۔ 1869ء میں سید احمد خاں ایک سال کے لیے انگلستان گئے۔ واپس آ کر انھوں نے انگریزی کے علمی اور سماجی رسالوں کی طرز پر اپنا ایک رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ نکالنا شروع کیا۔
انگلستان سے واپس آ کر سید احمد خاں نے علی گڑھ میں 1875ء میں ایک اسکول کھولا ۔ یہ اسکول 1878ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ اور پھر 1920 ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہندوستان کا ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن گیا۔
1878ء میں سید احمد خاں کو ’سر‘ کا خطاب ملا۔ اس لیے لوگ انھیں سرسید کے نام سے جانتے ہیں ۔ سرسید آخر عمر تک قومی کام کاج کی دیکھ بھال اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔ ان کی متعدد تصانیف میں ”آثار  الصنادید“،   ”اسباب بغاوت ہند“ اور ”سرکشی ضلع بجنور“ خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں ۔ ان کے مضامین کئی جلدوں میں مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سائنس، فلسفه، مذہب اور تاریخ سے متعلق مضامین ہیں۔
جدید اردو نثر کی بنیاد ڈالنے کے ساتھ ساتھ سرسید نے اردو میں مختصر مضمون نگاری کو بھی فروغ دیا۔ لمبی لمبی تحریروں کے بجائے چندصفحات میں کام کی بات کہنے کا فن سرسید نے عام کیا۔ سرسید اپنے زمانے کے مفکر اور مصلح تھے اور ان کی نثر میں، وہی وزن اور وقار ہے جو ان کی شخصیت میں تھا۔
Guzra hua Zamana by Sir Syed Ahmad Khan Chapter 1 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ و معنی

مکتب : مدرسہ
کج خلقی : مزاج کا کڑوا پن، روکھا پن
بیعت کرنا : مرید بننا، اطاعت کا عہد لینا
تسخیر : قابو میں کرنا، فتح کرنا
بدوی : عرب کے وہ باشندے جو گھر نہیں بناتے، ریگستانوں میں رہتے ہیں اور زیادہ تر زندگی اونٹوں پر یا خیمے میں گزارتے ہیں۔
واللہ لاازیدولاانقص : (عربی فقرہ) خدا کی قسم نہ میں زیادہ کروں گا اور نہ کم
سعی : کوشش
ساعی : کوشش کرنے والا
مبنی : منحصر
پشیمان : شرمندہ، پچھتانے والا

 غور کرنے کی بات
* سرسید اپنے زمانے کے مفکر اور مصلح تھے۔ ان کی نثر میں وہی سنجیدگی ، وزن اور وقار ہے جو ان کے کردار میں تھا۔
* اس مضمون میں سر سیّد کا اسلوب بڑا افسانوی ہے۔ آخری اقتباس سے قبل یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سرسید کی کہانی کا ہیرو کوئی بوڑھا نہیں بلکہ ایک کم عمر لڑکا ہے۔
* سرسید وقت کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اپنی تحریروں کے ذریعے وہ قوم کےنوجوانوں کو وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتے رہتے تھے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے
 1. بوڑھا اپنی جوانی کے زمانے کو کن لفظوں میں یاد کرتا ہے؟
جواب: بوڑھا اپنی جوانی کے زمانے کو یاد کرتاہے اسے اپنا سرخ چہرہ، ڈیل ڈول، بھرا بھرا بدن، رسیلی آنکھیں، موتی کی لڑی سے دانت، امنگ میں بھرا ہوا دل، جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی ہیں۔
 2. سرسید نے برس کی اخیر رات کا ذکر کس طرح کیا ہے؟
جواب: سر سید نے برس کے اخیر رات کا ذکر اس کا اندھیراپن، ڈراؤناپن، رات کی ہولناکی اور اس کی خوفناکی بتلا کر کیا ہے مثلاً جس میں تیز آندھیاں چل رہی ہوں بجلیاں کڑ کڑا رہی ہوں اور چاروں طرف  خوفناک اندھیرا ہی  اندھیرا ہو۔
3. بوڑھے کو جو خوبصورت دلہن نظر آئی، اس سے مصنف کی کیا مراد ہے؟
جواب: خوبصورت دلہن سے مصنف کی مراد ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہے۔
4. ماں نے لڑکے کو کیا نصیحت کی؟
جواب: ماں نے بیٹے سے کہا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا کہ اس پشیمان بڈھے نے کیا بلکہ ایسا کر جیسا کہ تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔
5. لڑکے نے کیا عہد کیا؟
جواب: لڑکا اپنی ماں کی نصیحت سننے کے بعد پلنگ سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا‌ کہ یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے میں کبھی اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے اپنا خوبصورت چہرہ مجھکو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔
 6. آخری پیراگراف میں سرسید نے قوم کے نوجوانوں کو کیا نصیحت کی ہے؟
جواب: سر سید احمد خان اپنی قوم کے نوجوانان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اۓ میری قوم کے نوجوان بچوں اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ اخیر وقت میں تمہیں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتانا  پڑے ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی کے لیے سعی کرے۔

عملی کام
سبق کی بلندخوانی کیجیے۔
مضمون میں نیکی بدی، آسان مشکل جیسے متضاد الفاظ ایک ساتھ استعمال کیے گئے ہیں ۔ آپ اسی طرح کے کچھ متضادالفاظ سوچ کر لکھیے۔
جواب:روشنی تاریکی، خوبی خرابی، اچھا برا،جنت جہنم، اونچ نیچ،

 مندرجہ ذیل محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
 دل پاش پاش ہونا: اپنے گناہوں کو یاد کر بوڑھے کا دل پاش پاش ہوگیا۔
 ہچکی بندھنا: بوڑھے کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔
ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا: بوڑھا اس حسین عورت کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔

 مندرجہ ذیل لفظوں میں سے مذکر اور مونث الگ الگ کیجیے:
اندھیرا،  زندگی،  آشنا،  جوبن،  کھڑکی،  گھٹا،  بجلی،  بادل،

مذکر: اندھیرا، آشنا، جوبن، بادل
مونث: زندگی،کھڑکی،  گھٹا،  بجلی
خلاصہ:
سرسید کا انشائیہ’ گزرا ہوا زمانہ ‘ ایک ایسے بوڑھے کی کہانی بیان کرتا ہے جسے اپنی پوری زندگی کو بیکار کے کاموں میں گنوا دینے کا افسوس ہے۔اس انشایئے میں انہوں نے ایک ایسے انسان کےدرد و کرب کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ ہر انسان کی نظروں کے سامنے اس کی اپنی پوری زندگی سامنے آجاتی ہے۔ وہ اس بوڑھے میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے جسے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ یاد آ رہا ہے۔ برس کی آخری رات ہے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور وہ بوڑ ھا اپنی زندگی کے بیتے ہوئے دنوں کا حساب کر رہا ہے۔ اس بوڑھے کواپنا بچپن یاد آتا ہے اور اس کے رونے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بچپن کی شرارتیں روٹھنا ،اسکول جانا اورچھٹی کے وقت خوشی خوشی گھر واپس آنا۔ اپنے ہم جماعتوں کی یاد یں ایک ایک کر کے اسے ستارہی ہیں۔اُسے شدّت سے اس بات کا احساس ہے کہ اس نے اپنے بچپن کو فضول کے کاموں میں گنوا دیا ہے۔اپنا سارا وقت اس نے کھیل کود میں ضائع کردیا ہے۔ پھر اسے جوانی کی یادیں ستاتی ہیں ۔ ان میں بھری راتیں اور جوانی کے دن یاد آتے ہیں۔ ماں باپ کی نصیحتیں یاد آتی ہیں اور اپنالا ابالی پن یا دآ تا ہے۔ ساتھ ہی اسے وقت کے ہاتھ سے نکل جانے کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اس کے پاس ندامت اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ اسے اپنے ماں باپ ،بھائی بہن، دوست آشنا، سب یاد آتے ہیں۔ جیسے اس سے کہہ رہے ہوں دیکھو ہم تمہیں کتنا سمجھاتے تھے مگر تم نے ہماری باتوں پر توجہ نہ دی ۔ اسے اپنی بے مروتی اور کج خلقی بھی یاد آتی ہے۔ جوانی سے اس کی یادیں ادھیڑ عمر میں پہنچ جاتی ہیں ۔ جہاں اس کی طبیعت قدرے نیکی کی طرف مائل ہوتی تھی ۔ عمر کی اس منزل میں کئے ہوئے کچھ نیکی کے کام سے یاد آتے ہیں اورتسلی ہوتی ہے کہ شاید یہی کام اس کی عاقبت سنوار دیں مگر اسے اپنے ہی کام ناکافی لگنے لگتے ہیں اور وہ پھر چلا اٹھتا ہے ہائے وقت ہائے وقت۔ اچانک اس کے سامنے ایک خوبصورت دلہن آجاتی ہے وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر خوش بھی ہوتا ہے ا اور حیران بھی ہوتا ہے۔ پوچھنے پر وہ اسے بتاتی ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں اور مجھے حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال ہی کام آتے ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہوجاتی ہے۔ اس کے کانوں میں لوگوں کی باتیں کرنے کی میٹھی میٹھی آوازیں آئیں ۔ دیکھا تو اس کی ماں اسے جگا رہی تھی اور بھائی بہن پاس کھڑے تھے۔ اس نے دیکھا ہوا خواب ماں کو سنایا اور پرجوش انداز میں پلنگ سے اتر ا، کہنے لگا میر ےپاس وقت ہے میں خوبصورت دلہن کو ضرور حاصل کروں گا۔ سرسید نے اس انشائیے میں ڈرامائی رنگ اختیار کیا ہے۔ قاری آخر تک کہانی کے اختتام سے بے خبر رہتا ہے۔ وہ کردار کے ساتھ اس کی آہ و فغاں میں گم ہوتا جاتا ہے اور اچانک ڈرامائی طور پر جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک خواب دیکھ رہا ہے تو اسے حیرت اور خوشی کا ایک ملا جلا احساس ہوتا ہے۔ یہاں سرسید اس بوڑھے کے ساتھ ساتھ قاری کو یہ احساس کرا دینا چاہتے ہیں کہ وقت ابھی گزرا نہیں ہے۔وہ وقت کو غنیمت جانیں اور اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے کچھ نیکی کرلیں۔اس انشائیے میں سرسید نوجوانوں بالخصوص طلبہ کو نصیحت کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ انھیں بھی اس بوڑھے کی طرح پچھتانا پڑے لہٰذا وہ وقت کو غنیمت جانیں اور نیکی اور لوگوں کی بھلائی کا کام کریں۔

انشائیہ ’گزرا ہوا زمانہ‘ کا مرکزی خیال لکھیں۔
گزرا ہوا زمانہ مضمون سر سید احمد خان نے لکھا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی سنجیدہ مضمون ہے جس میں سر سید احمد خان نے انسان کی ایک مکمل عملی زندگی کا تجزیہ کیا ہے اور وقت کی اہمیت اس کا صحیح استعمال اور اس کی قدروقیمت پر روشنی ڈالی ہے یعنی ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے پھر جوان ہوتا ہےاور بوڑھا ہوتا ہے  پھر مر جاتا ہے۔ ماں کی گود سے گور تک اس نے جو بھی عمل کیا اس کا عملی اور شرعی جائزہ مکمل حیات زندگی میں ماں باپ بھائی بہن، دوست واحباب،یارورشتہ دار کے ساتھ اخلاق و رسوم کا جائزہ، وقت کا صحیح استعمال و اس کی قدروقیمت، اس کے گذر جانے کے بعد افسوس، غرض ایک انسان کی مکمل زندگی کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور اس کو انسانی خواب کے ذریعہ تصور کرایا ہے مزید یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے نیک اور صالح اعمال ہی باقی ہیں وقت کا صحیح استعمال اور شرعی احکام کے مطابق زندگی گزارنے والے لوگ ہی اللہ کے نزدیک برگزیدہ اور قابل قبول ہیں۔

کلک برائے دیگر اسباق

Monday 13 April 2020

Ghazal Natiya - Rakhshan Abdali




خوش خبری