آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 26 December 2020

Waqt By Deputy Nazir Ahmad NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

وقت
ڈپٹی نذیر احمد
دنیا میں ہر چیز کی کچھ نہ کچھ تلافی ہے۔ مگر نہیں ہے تو وقت کی ۔ جو گھڑی گزرگئی وہ کسی طرح تمھارے قابو میں نہیں آسکتی اور وقت کے گزر جانے پرغور کریں تو اسے کسی چیز کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جاسکتی ۔ وقت ریل سے زیادہ تیز ہے، ہوا سے بڑھ کر اڑنے والا، بجلی سے سوا بھاگنے والا اور دبے پاؤں نکلا جاتا ہے کہ خبر نہیں ہوتی صبح ہوئی ، سوکر اٹھے جب تک معمولی ضرورتوں سے فراغت حاصل کرو، ذرا ناشتہ وغیرہ کھاؤ پیو، پھر دن چڑھ آیا۔ پھر گھڑی دو گھڑی ادھر ادھر اٹھے بیٹھے، گپ شپ اڑائی تو دس بجنے کو آئے۔ مدرسہ جانے کو دیر ہوتی ہے۔ جلد کھایا پیا، مدر سے گئے۔ وہاں دوستوں سے ہنسی مذاق کرتے رہے۔ استاد کی تاکید سے دو ایک مرتبہ بری بھلی طرح سبق پڑھا، چلو شام ہوئی ۔ دن رخصت ہوا گھر آئے تو پھر کھانے کو سوجھی، کھانا کھانے سے کسل پیدا ہوا، ذرا لیٹے تو پھر صبح موجود۔ کام تو کچھ بھی نہ ہوا، لیکن چوبیس گھنٹے گزرتے ہوئے معلوم نہ ہوئے اور ایک چوبیس گھنٹے کیا، ایسے ایسے صد ہا ہزاروں چوبیس گھنٹے اسی طرح گزر جاتے ہیں۔ بیت:
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں  ہی تمام  ہوتی ہے
جب وقت کی بے ثباتی کا یہ حال ہے اور جو وقت گزرا وہ ہمارے اختیار سے باہر ہوا تو نہایت ضروری ہے کہ وقت پر ہمارا اختیار ہو۔ اس کو ضائع نہ ہونے دیں۔ یہی وقت ہے کہ سونے اور کھیلنے میں گزر جاتا ہے اور آدمی کو سست اور غبی، رسوا اور خوار اور محتاج اور طرح طرح کے امراض میں مبتلا اور بداخلاقیوں میں گرفتار کر دیتا ہے۔
یہی وقت ہے کہ اگر اس کو اچھے شغل، اچھے کام، اچھی بات میں لگایا جائے تو انسان کو عالم، فاضل، لائق، ہنرمند، نام ور محترم، نیک ہر دل عزیز بنا کر طرح طرح کی خوبیوں اور بھلائیوں سے آراستہ کر سکتا ہے۔
اے لڑکو! یہ فراغت کا وقت جو تم کو اب میسر ہے بس غنیمت سمجھو۔ اب نہ تم کو کھانے کی فکر ہے نہ کپڑے کا سوچ۔ جو کچھ تم سے سیکھتے اور حاصل کرتے بن پڑے لگ لپٹ کر جلد سیکھ ساکھ لو کہ آئندہ تمھارے کام آئے ۔ ورنہ پھر کہاں تم اور کہاں یہ فراغت ۔ اس وقت تم سر پر ہاتھ رکھ کر روؤ گے اور رونا کچھ سود مند نہ ہوگا۔ بہت پچھتاؤ گے اور پچھتانا کچھ فائدہ نہ بخشے گا۔ بہت افسوس کرو گے اور افسوس سے کچھ نہ ہو گا۔ یہ وقت جو تم کو اب حاصل ہے ان وقتوں کی مانند نہیں، جو جوانی اور پیری میں تم کو آئندہ پیش آئیں گے۔ لڑکپن کا وقت جو تنے اور بونے کا وقت ہے اور جوانی اور پیری کا وقت کاٹنے اور گا ہنے کا ۔ اگر اس وقت میں تم کچھ جوت بو رکھوگے تو جوانی اور پیری دونوں میں کاٹ سکو گے۔ اس وقت کو اس طرح صرف کرو کہ جوانی اور پیری دونوں میں آرام آسائش سے رہو اور چا ہو تو اس وقت کو ایسا اکارت کرو کہ جوانی بھی خراب ہو اور پیری بھی برباد ہو۔ ایک وقت وہ آرہا ہے کہ تم فرصت کو ڈھونڈو گے اور فرصت کا پتہ نہ پاؤ گے اور فراغت کی تلاش کرو گے اور فراغت کا سراغ نہ ملے گا۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ دنیا کا بار تمھاری پیٹھ پر لدا ہوگا۔ خانہ داری کے بکھیڑوں میں تم اس طرح پھنسے ہوگے جس طرح دلدل میں گدھا۔ ایک طرف تو فکر معاش تم کو سر کھجانے کی مہلت نہ دے گی اور دوسری طرف انتظام تعلقات تم کو دم نہ لینے دے گا۔ اس وقت کسب کمال کا کیا مذکور، اگر حواس بجا رکھ کر ان ہی کاموں سے عہدہ بر آ ہو جاؤ تو صد آفریں۔
بس یہ خیال ہرگز اپنے دل میں مت آنے دو کہ ابھی سیکھنے کا بہت وقت آرہا ہے ۔ ایسی کیا بھا گڑ مچی ہے کہ رات دن لکھنے پڑھنے کے پیچھے مر مٹے۔ اگلا حال کچھ کسی کو معلوم نہیں ۔ کون جانے کہ تندرستی رہے نہ رہے۔ زمانہ فرصت دے یا نہ دے۔ یہ سب سامان جواب میسر ہیں ، میسر ہوں یا نہ ہوں ۔ بے شک وقت کی قدر و قیمت اور اس کی بھاگا بھاگ تو یہ چاہتی ہے کہ تم خواب و خور اپنے اوپر حرام کر کے رات دن کتاب پر سے سر نہ اٹھاؤ لیکن انسان کی طبیعت کو خدا نے تازگی پسند بنایا ہے۔ کیسا ہی کوئی دل چسپ شغل ہو ایک عرصے کے بعد ضرور اس سے جی گھبرا اٹھتا ہے اور طبیعت اکتانے لگتی ہے اور اگر طبیعت کو مجبور کر کے اس کام پر لگائے رہو تو وہ کام بھی اچھی طرح نہیں ہوتا اور حواس بھی کند ہو جاتے ہیں ۔ اس واسطے مناسب ہے کہ کتاب کا مطالعہ ایسے اعتدال کے ساتھ جاری رکھو کہ تندرستی کو خلل نہ پہنچے اور ہمیشہ چند قسم کا شغل رکھو۔ مثلاً نظم و نثر، تاریخ و جغرافیہ اور حساب ایک ساتھ پڑھو ۔ جب نثر سے طبیعت ملول ہوئی نظم دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر تاریخ پڑھی ۔ کچھ دیر جغرافیہ کی سیر کی، پھر حساب میں طبع آزمائی کی۔ ان سب سے گھبرائے تو کچھ لکھنے بیٹھ گئے۔ جب رات کو سونے لگو تو ضرور سوچو کہ آج ہم نے کون سی نئی بات حاصل کی ۔ اگر معلوم ہو کہ آج کچھ نہیں سیکھا تو جانو کہ دن رائیگاں گیا اور اس نقصان کی تلافی اپنے ذمے لازم سمجھو۔ کسی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ جس کے دو دن برابر ہوں یعنی ایک شخص جیسا کل تھا آج بھی ویسا ہی رہے اور اپنی حالت دیروز ہ میں ترقی نہ کرے تو وہ خسارے میں ہے۔
         
 ڈپٹی نذیر احمد
(1831 - 1912)
ڈپٹی نذیر احمد اتر پردیش کے ضلع بجنور، تحصیل نگینہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ریہڑ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مولوی سعادت علی تھا۔ نذیر احمد کی ابتدائی تعلیم بجنور مظفر نگر اور دہلی میں ہوئی ۔ اعلی تعلیم دلی کالج میں ہوئی جو اب ذاکر حسین کالج کے نام سے مشہور ہے۔
1854 میں تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے پنجاب کے ایک مدرسے میں مدرسی کا پیشہ اختیار کیا۔ انگریز حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں' شمس العلما' کا خطاب دیا۔ 1902 میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ۔ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔
ڈپٹی نذیر احمد ترجمہ نگار، ادیب، ناول نگار اور مقرر بھی تھے۔ اردو ادب میں ان کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ وہ اردو کے پہلے ناول نگار ہیں۔ "مراۃ العروس" بنات النعش"،" توبتہ النصوح‘‘ اور" ابن الوقت" ان کے اہم ناول ہیں۔ ان کے ناول حقیقت پسندی ، اخلاقی تربیت اور دلچسپ کرداروں سے بھر پور ہیں۔ لہجہ پر جوش اور اثر انگیز ہے۔

Mulla Nasruddin By Ahmad Jamal Pasha NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehhan

ملا نصرالدین
ملا نصرالدین کے بارے میں عجیب و غریب روایتیں ہیں۔ مثلا یہ کہ سیر و سفر کے رسیا اس ازلی سیاح نے اپنے سست رفتار گدھے پر دنیا کا سفر کیا تھا۔ ملا نے ٹٹو پر دنیا کا سفر کیا یا نہیں مگر اپنے لطائف کے دوش پر یہ سفر ضرور پورا کر لیا۔ ملا کا گدھا کسی بھی صورت میں ڈان کو یکزاٹ اور خوبی کے ٹٹو سے کم نہیں ۔ ملا کا سفر ابد تک جاری رہے گا۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ملا کے واقعات ، فیصلے ، لطیفے ، حکایتیں ، مضحک واقعات اور سفر نامے ترجمہ ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔
ملا نصرالدین اپنی حاضر جوابی ، خوش باشی، زندہ دلی کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں ۔ ملا کا مزاح لا فانی ہے اور اس وقت تک کبھی پرانا نہ ہوگا جب تک کہ ایسے لوگ باقی ہیں جو ایک ستھرے اور شستہ مذاق کو پسند کرتے ہیں ۔ ملا کے ان پر لطف واقعات اور باتوں پر آج بھی لوگ اسی طرح ہنستے ہیں جیسے ملا کے زمانے میں ان پر لوگ ہنسا کرتے تھے۔ ملا سے متعلق روایات کے مطابق انھوں نے مختلف ملکوں کا سفر کیا تھا اور مختلف در باروں سے وابستہ رہے تھے۔ اکثر تذکروں میں ملا کے تر کی ، ایران، عرب، ہندوستان، روس، چین جانے کے بارے میں روایتیں ہیں مگر آن روایتوں کی حیثیت قیاس آرائی سے زیادہ نہیں۔ ملا کب کس زمانے میں اور بادشاہ کے عہد میں کس ملک میں رہے اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔
ملا کا باقاعدہ گھر بار ہے جو بار بار بستا اور آجڑ تا ہے۔ اس میں ویرانی کے بجائے ایک چہل پہل اور فاقہ مستی ہے۔ ملا کے بیوی بچوں سے لے کر گدھے تک سب اسی رنگ میں سرشار نظر آتے ہیں۔
ملا ہر فن مولا ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا پیشہ ہو جسے ملا نے اختیار نہ کیا ہو کبھی وہ معلم کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں، کبھی منبر پر وعظ دیتے نظر آتے ہیں۔ کبھی ایک تاجر کی حیثیت سے مصروف نظر آتے ہیں کبھی معمار کی شکل میں مکان بناتے ملتے ہیں۔ کبھی درزی کی حیثیت سے کپڑے سیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی قاضی کی حیثیت سے دونوں فریقوں کے حق میں فیصلہ کرتے ہو تے ہیں اور کبھی ایک سیاح کی طرح جہاں گردی میں ٹٹو پر سوار نظر آتے ہیں ۔ ان کی زندگی ایک مسلسل سفر ہے۔
ملا نصر الدین کوئی خیالی کردار نہیں۔ البتہ بے شمار من گھڑت واقعات اس کی ذات سے منسوب کر دیے گئے ہیں۔ ملا کی زندگی میں ایسے واقعات بہت ہوئے جو اپنے انوکھے پن اور ذہانت کی وجہ سے ہمیشہ دل چسپی کا باعث رہیں گے ۔ یہی واقعات ملا کی ہر دل عزیزی اور لا زوال شہرت کا باعث ہیں۔ ہر محفل کو گرم کرنے کے لیے آج بھی ملا کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
مالا ہنسی ہنسی میں اہم اور ٹیڑھی باتیں اور بار یک نکتے ، بالکل سیدھے سادے طور پر سمجھادیتا تھا۔ اس کا مزاح اور طنز آمیز باتیں دل پر فوراً اثر کرتیں ۔ سننے والے ہنستے ہنستے زندگی کی کسی بڑی حقیقت پر غور کرنے لگتے۔
ملا نے سنجیدہ فکر کو بیدار کرنے کے لیے کبھی پند و نصائح سے کام نہیں لیا حالاں کہ ملا نے زندگی بھر صرف نصیحتیں ہی کیں مگر براہ راست نہیں۔
ملا کا نظریہ یہ تھا کہ اس رونی منہ بسورتی دنیا میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی سمجھ کے مطابق بات کی جائے اور بات سمجھانے کے لیے ہنسی مذاق کو اپنا شعار بنایا جائے ۔ ملا نصر الدین نے اپنے اس نظریے کو اس حد تک عملی جامہ پہنایا کہ وہ خود جان بوجھ کر ظرافت کے اس عمل سے گزرتے رہے جس میں تماشے اور تماشائی میں فرق نہیں رہ جاتا اور ہنسانے والے کی اعلی ظرفی اپنے اوپر قہقہے لگانے اور لگوانے پر بھی قادر ہوجاتی ہے۔ اس طور پر ملا نے عقل مندی کے ساتھ لوگوں کو اچھی باتیں ذہن نشین کرا کے لطیفے کے افادی مر تبے کو بہت بلند منزل عطا کردی۔
(احمد جمال پاشا)
 احمد جمال پاشا
(1929 -1987)
احمد جمال پاشا کا اصلی نام محمد نزہت پاشا تھا۔ وہ الہ آباد میں پیدا ہوئے ۔ لکھنو یو نیورسٹی سے بی اے اور علی گڑھ مسلم یونیورٹی سے ایم ۔ اے کیا۔ لکھنؤ سے اودھ پنچ نکالنا شروع کیا جسے اس کا تیسرا دور کہا جاتا ہے۔ بعد میں قومی آواز اخبار کے شعبہ ادارت سے منسلک ہو گئے ۔ 1976 میں سیوان (بہار) منتقل ہوگئے، جہاں ذکیہ آفاق اسلامیہ کالج میں اردو کے استاد کے طور پر خدمات انجام دیں ۔ پٹنہ میں انتقال ہوا۔
احمد جمال پاشا نے 1950 سے لکھنا شروع کیا۔ زمانہ طالب علمی میں علی گڑھ کے رسالے ” اسکالر " کے مدیر ہوئے اور اس کے ’’ پیروڈی نمبر " کی وجہ سے شہرت پائی۔ "اندیشہ شہر" ، " ستم ایجاد"، "لذت آزار"،" مضامین پاشا"، "چشم حیران" اور" پتیوں پر چھڑ کاو" وغیرہ ان کی مشہور مزاحیہ کتابیں ہیں ۔ ” ظرافت اور تنقید"  ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
احمد جمال پاشا کو ادبی خدمات کے لیے غالب ایوارڈ اور بہار اردو اکادمی کا اختر اور نیوی ایوارڈ دیا گیا۔

غور کیجیے :
لطیفے، چٹکلے یوں تو ہنسنے ہنسانے کے لیے ہوتے ہیں لیکن ان کے پیچھے سماجی ، تہذیبی اور اخلاقی مقاصد بھی پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ اسی لیے ملا نصرالدین کے لطیفے صرف ہنسنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان سے ہماری سماجی برائیوں کی اصلاح بھی ہوتی ہے۔
سوچیے اور بتایئے:
1. ملا نصر الدین کے بارے میں کیا کیا روایتیں مشہور ہیں؟
2. ملا نصر الدین کا نام آج بھی کیوں زندہ ہے؟
3۔ ملا نصر الدین کو ہرفن مولا کیوں کہا جاتا ہے؟
4۔ ملا نصر الدین کی باتیں دل پر کیوں اثر کرتی تھیں؟ 5۔ ملا نصر الدین نے ہنسی مذاق کو اپنا شعار کیوں بنایا؟

Gaon Panchayat NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

گاؤں پنچایت
کسی زمانے میں ہمارے ملک میں گاؤں کا انتظام گاؤں والوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ گاؤں کی حفاظت ، صفائی، کھیتی تعلیم کا بندوبست گاؤں والے خود کر لیا کرتے تھے۔ جب انگریزوں کی حکومت آئی تو گاؤں کا انتظام سرکار نے اپنے ذمے لیا۔
مہاتما گاندھی چاہتے تھے کہ گاؤں کے انتظام میں گاؤں والوں کا پورا ہاتھ ہو۔ اس لیے آزادی کے بعد ہماری سرکارنے گاؤں کی طرف دھیان دیا۔ ہماری ریاستوں میں پنچایت راج قانون بنایا گیا، جس سے گاؤں والوں کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ اپنے گاوں کا انتظام خود کریں۔
اس قانون کے مطابق ہر اس گاؤں میں گاؤں سبھا بنائی جاتی ہے جس کی آبادی ڈھائی سو یا اس سے زیادہ ہو گاؤں سبھا کی ہر سال دو بیٹھکیں ہوتی ہیں۔ ایک خریف میں اور ایک ربیع میں ۔ خریف میں گاؤں سبھا آئندہ سال کا بجٹ منظور کرتی ہے اور ربیع کی بیٹھک میں پچھلے سال کے حساب کی جانچ کرتی ہے۔
گاؤں سبھا اپنے ممبروں میں سے پردھان اور گرام پنچایت کا چناؤ کرتی ہے۔ اس انتظامیہ کمیٹی کا نام گاؤں پنچایت ہے۔ اس میں پندرہ سے تیس ممبر تک ہوتے ہیں ۔ ان ممبروں کا چناو پانچ سال کے لیے ہوتا ہے ۔ گاؤں پنچایت کے ممبر ہر سال اپنا ایک’ اپ پر دھان' چنتے ہیں ۔اگر گاؤں سبھا کسی وقت یہ دیکھے کہ پردھان اور اپ پردھان اس کی ہدایتوں کے مطابق کام نہیں کر رہے ہیں تو اسے یہ اختیار بھی رہتا ہے کہ انھیں ان کے عہدوں سے ہٹا دے۔
گاؤں سبھا کا پردھان ہی گاؤں پنچایت کی بیٹھکوں کی صدارت کرتا ہے۔ پردھان اور اپ پردھان کے علاوہ گاؤں پنچایت کا ایک سکریٹری بھی ہوتا ہے جسے سرکار مقرر کرتی ہے۔ یہی گاؤں پنچایت ، گاؤں سبھا کی نگرانی میں گاؤں کا انتظام کرتی ہے۔ گاؤں میں اسکول ، ریڈنگ روم اور کتب خانے کھولنا، علاج اور صفائی کا انتظام کرنا کھتی اور دست کاری کو ترقی دینا، سڑکیں اور چھوٹے چھوٹے پل بنانا، میلے اور بازارلگوانا، مویشیوں کی دیکھ بھال اور علاج کا انتظام کرنا، درخت لگوانا اور گاؤں کی حفاظت کے لیے رضا کار بنانا گاؤں پنچایت کے خاص کام ہیں ۔ گاؤں پنچایت کو ان کاموں کے لیے کچھ روپے سرکار سے ملتے ہیں اور کچھ ٹیکس وغیرہ کے ذریعے پنچایت خود حاصل کرتی ہے۔
گاؤں کے جھگڑے طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے جسے" پنچایتی عدالت“ کہتے ہیں۔ اس کا چناؤ ہر پانچویں سال ہوتا ہے۔ اس کے صدر کو سر پنچ اور نائب صدر کو نائب سرپنچ کہتے ہیں۔ پنچایتی عدالت میں پانچ پنچوں کی چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں ہوتی ہیں جو پنچ منڈل کہلاتی ہیں۔ یہ پنچ منڈل سال بھر کام کرتے ہیں اور پھر ان کے ممبروں کو تبد یل کر دیا جاتا ہے۔ جب کوئی مقد مہ پنچایتی عدالت کے سامنے آتا ہے تو سرپنچ اس کو ایک پنچ منڈل کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس طرح اب گاؤں کے لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے تھانے اور کچہری نہیں دوڑ نا پڑتا۔ سنچائی، مینڈ ، لین دین اور مار پیٹ کے جھگڑے گاؤں ہی میں طے ہو جاتے ہیں ۔ گاؤں کے اس انتظام کے دو فائدے ہیں ۔ ایک تو اس میں کسی طرف سے وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی اور دوسرے پنچ گاؤں ہی کے ہوتے ہیں اس لیے وہ معاملے کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور انصاف کر سکتے ہیں۔
پنچایتی راج قائم کرنے سے ہمارے گاوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ لیکن اس نظام سے جہاں ہمارے گاؤں والوں کو بڑے بڑے اختیار ملے ہیں وہاں ان کی ذمے داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔
گاؤں پنچایت کے ممبران کا فرض ہے کہ وہ مل کر گاؤں کی ترقی کے لیے کوشش کریں۔ وہ دن دور نہیں کہ گاؤں کی زندگی ویسی ہی بن جائے گی جیسی گاندھی جی چاہتے تھے۔

.
غور کیجیے:

پنچایت راج گاندھی جی کے خیالات کا حصہ ہے۔ اس کے ذریعے گاؤں والوں کو بہت سے فائدے حاصل ہورہے ہیں۔
سوچیے اور بتایئے:
1۔ انگریزی حکومت سے پہلے ہمارے گاؤں کا انتظام کیسے ہوتا تھا؟
  2۔ آزادی کے بعد ہمارے گاؤں کے انتظام میں کیا تبدیلی آئی؟
  3۔ پنچایت راج قانون کے مطابق گاؤں کا انتظام کس طرح کیا جاتا ہے؟
  4۔ گاؤں پنچایت کے کیا کیا کام ہیں؟
  5۔ گاؤں پنچایت سے کیا فائدے ہیں؟
  6۔ گاؤں پنچایت سے گاندھی جی کا خواب کس طرح پورا ہور ہا ہے؟

Bahaar Ke Din By Afsar Merathi NCERT Class 9 Jaan Pechan

بہار کے دن
 حامد اللہ افسر میرٹھی
(1898 - 1974)

حامد اللہ افسر میرٹھی میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ 1930 میں میرٹھ کا لج میرٹھ سے بی۔ اے کیا۔ پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایل ۔ ایل۔ بی کے لیے داخل ہوئے۔ اسی دوران جبلی کا لج لکھنؤ میں اردو کے استاد مقرر ہوئے اور ترقی پا کر وہیں وائس پرنسپل بنائے گئے ۔ 1950 میں وہاں سے سبک دوش ہوئے۔ ان کا انتقال لکھنؤ میں ہوا۔

انھوں نے بچوں کے لیے اسمعیل میرٹھی کی طرح چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھی ہیں ۔ بچے ان کی نظمیں دل چسپی سے پڑھتے ہیں ۔ ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہوتی ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے سولہ کتابیں لکھی ہیں جن میں سے آسمان کا ہم سایہ ' لوہے کی چپل' ،' درسی کتب',' پیام روح' اور نقد الادب بہت مقبول ہیں۔

غور کیجیے:

* اس نظم میں ہر شعر کے قافیے بدل جاتے ہیں، قافیہ شعر کے آخر میں آنے والے ان لفظوں کو کہتے ہیں جن کی

آوازیں یکساں ہوتی ہیں ۔ جیسے بہار/ نکھار، چٹک/ مہک، خوش بور / ہر سو، و غیره


سوچنے اور بتایئے:

1- بہار کے زمانے میں باغ کا منظر کیسا ہوتا ہے؟

2۔ آدمی پر بہار کا کیا اثر ہوتا ہے؟

3. بہار کی صبح ، شام اور رات کیسی ہوتی ہے؟


قواعد:

نظم کے یہ مصرعے پڑھیے

1۔ شاخوں کا بنالیا ہے جھولا

2۔ چادر ایک نور کی تنی ہے

ان مصرعوں میں ’’ شاخوں‘‘ کو جھولے سے اور" نور " کو چادر سے تشبیہ دی گئی ہے۔

عملی کام:

اس نظم کے پانچ شعر زبانی یاد کر کے استاد کو سنایئے۔


Tinka Thoda Hawa Se Udd Jata Hai NCERT Class 9 Jaan Pehchan

تنکا تھوڑی ہوا سے اڑ جاتا ہے
ایک عقاب گھٹاؤں کو چیرتا ہوا ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا اور چگر پر چکر لگا کر صدیوں پرانے ساگوان کے ایک درخت پر بیٹھ گیا۔ وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا، اس کی خوب صورتی میں وہ کھو سا گیا اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے رکھی ہوئی ہے۔ کہیں دریا میدانوں میں بل کھاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔
کہیں جھیلیں آئینے کی مانند چمک رہی ہیں۔ کہیں پھولوں سے ہے پیڑ پودے جھوم رہے ہیں اور کہیں سمندر غصے کے عالم میں اپنی پیشانی پر بل ڈالے ہوئے اپنے منہ سے جھاگ اڑا رہا ہے۔
اے خدا ! عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا: میں کس طرح تیرا شکر ادا کروں؟ تو نے مجھے پرواز کی ایسی طاقت عطا کی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں جہاں میری رسائی نہ ہو سکے۔ میں فطرت کے حسین مناظر کا لطف ایسے مقام پر بیٹھ کر اٹھا ل سکتا ہوں، جہاں کسی اور کا گذر ممکن نہیں ۔ عقاب اور کچھ کہنا چاہتا تھا کہ نزدیک ہی سے ایک مکڑی بول اٹھی: اے عقاب! تو آخر کیوں اپنے منہ مٹھو بنتا ہے؟ کیا میں تجھ سے کچھ کم ہوں؟
اس آواز پر عقاب چوکنا ہوا اور ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ۔ دیکھتا کیا ہے کہ نزدیک ہی ایک مکڑی بیٹھی جالا تن رہی ہے۔
عقاب نے پوچھا: تو اس سر بہ فلک چوٹی پرکس طرح پہنچی؟ وہ پرندے جو اپنی بلند پروازی پر ناز کرتے ہیں، وہ بھی یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں  رکھتے۔ تو تو مکڑی ہے، پر بھی نہیں تیرے، جو اڑ سکے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تو رینگتی رینگتی یہاں تک آگئی؟
  مکڑی نے جواب دیا: نہیں ، میں رینگتی رینگتی یہاں نہیں پہنچی۔
  عقاب : پھر تو یہاں کیسے آگئی؟
  مکڑی: جب تو اڑنے لگا، میں تیری دم سے چپک گئی ۔ اس طرح تو نے خود مجھے یہاں تک پہنچا دیا لیکن اب میں تیری مدد کے بغیر یہاں تیرے برابر ٹھہر سکتی ہوں ۔ تو اکیلا ہی یہاں سر بلند نہیں، میں بھی تیرے ساتھ ہوں۔
  اتنے میں ایک طرف سے تیز وتند ہوا کا جھونکا آیا اور مکڑی پہاڑ کی چوٹی سے زمین پر آرہی ۔ عقاب اپنی جگہ بیٹھا رہا۔
  دنیا میں ایسے آدمی بھی ہیں جو مکڑی کی خصلت کے ہوتے ہیں ۔ اور اپنے کسی ہنر یا اپنی کسی قابلیت کے بغیر کسی بڑی شخصیت سے چمٹ کر سماج میں اپنا مقام پیدا کر لیتے اور سینہ پھلا کر ایسا چلتے ہیں گویا انھوں نے اپنے ذاتی جوہر کی وجہ سے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ غرور ان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ جس طرح مکڑی ہوا کے ایک جھونکے کی تاب نہ لاسکی، وہ بھی دنیا کی آزمائشوں کے مقابلے میں اپنا مقام کھو سکتے ہیں۔
  . (روسی کہانی سے ترجمہ)

پروفیسر محمد مجیب
(1902 -1985)
پروفیسر محمد مجیب لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لیے 1919 میں آکسفورڈ یونیورسٹی، لندن
گئے۔ وہاں جدید تاریخ میں بی ۔ اے (آنرز) کیا اور فرانسیسی زبان سیکھی۔ برلن جا کر انھوں نے جرمن اور روسی زبانیں سیکھیں۔ ہندوستان واپسی کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں تدریسی اور انتظامی امور سے وابستہ ہوگئے۔ 1948 میں جامعہ کے وائس چانسلر بنائے گئے۔
پروفیسر محمد مجیب کا شمار اردو کے ممتاز نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ مورخ ، ڈراما نگار اور مترجم بھی تھے۔ مجیب صاحب نے آٹھ ڈرامے لکھے جن کے عنوانات کھیتی ، انجام ، خانہ جنگی، حبہ خاتون، ہیروئن کی تلاش، دوسری شام، آزمائش اور آؤ ڈراما کر یں، ہیں۔
پروفیسر محمد مجیب اپنی منصبی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام مسلسل کرتے رہے۔ انھوں نے دو سو سے بھی زیادہ مضامین لکھے۔ اردو اور انگریزی میں ان کی تینتالیس (43) کتابیں شائع ہوئیں۔
پیش نظر سبق روسی کہانی سے محمد مجیب کا ترجمہ ہے۔

Masnuyi Sayyara NCERT Urdu Jaan Pehchan Class 9

مصنوعی سیاره

اگر آپ کو ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا شوق ہے تو آپ نے وہ ٹکٹ ضرور حاصل کرلیا ہوگا جسے بھارت سرکار نے 19 اپریل 1975 کو جاری کیا تھا۔ اس ٹکٹ کے آدھے حصے میں زمین کا کنارہ دکھایا گیا ہے۔ پیچھے گہرا نیلا آسان ہے۔ بیچ میں ہلکے آسمانی رنگ کا نگینے جیسا ایک مصنوعی سیارہ ہے۔ دائیں طرف ہندی اور انگریزی میں ’’ آریہ بھٹ 1975 ‘‘ لکھا ہے۔ ایسے ٹکٹوں کو یادگاری ٹکٹ کہتے ہیں۔ یہ آریہ بھٹ کے خلا میں بھیجے جانے کے موقعے پر جاری کیا گیا تھا۔

آریہ بھٹ ہمارے ملک ہندوستان کا پہلا مصنوعی سیارہ تھا جو 19 اپریل 1975 کو خلا میں بھیجا گیا تھا۔ اس مصنوعی سیارے کا نام قدیم ہندوستان کے مشہور ریاضی داں آریہ بھٹ کے نام پر رکھا گیا ہے۔

ہندوستان سے پہلے روس، امریکہ، برطانیہ، کناڈا، اٹلی ، فرانس، آسٹریلیا ، مغربی جرمنی، چین اور جاپان اپنے مصنوعی سیارے خلا میں بھیج چکے تھے۔ ہندوستان گیارھواں ملک ہے جس نے مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا۔

کم لوگ جانتے ہیں کہ مصنوعی سیارہ کسے کہتے ہیں؟ یہ کیسے اور کیوں اڑایا جاتا ہے؟ ہمارے عہد میں سائنس کی مدد سے جو بڑی بڑی ایجادیں ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہم ایجاد مصنوعی سیارہ بھی ہے۔ مصنوعی سیارہ دھات کا بنا ہوا ایک طرح کا دو یا تین منزلہ مکان ہوتا ہے ۔ اس میں مختلف کاموں کے لیے سائنسی آلات لگائے جاتے ہیں۔ اسے زمین کی قوت کشش کے اصولوں کی روشنی میں بنایا گیا ہے۔

مصنوعی سیارے کو راکٹ کی مدد سے خلا میں بھیجا جاتا ہے۔ را کٹ آتش بازی کی ’ ہوائی‘‘ جیسا ہوتا ہے اور اسی طرح کام بھی کرتا ہے۔ مصنوعی سیارے کو خلا میں بھیجنے کے لیے دو یا تین منزلہ راکٹ استعمال کیے جاتے ہیں ۔ جب پہلی منزل کا ایندھن ختم ہو جاتا ہے تو وہ کٹ کر گر جاتی ہے اور دوسری منزل اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔ راکٹ کے ایندھن میں اتنی توانائی ہوتی ہے کہ وہ مصنوعی سیارے کو زمینی کشش کی حد سے باہر خلا میں پہنچا دیتا ہے پھر زمینی مرکز سے سائنس داں اسے خلا میں مناسب جگہ پر نصب کر دیتے ہیں۔

مصنوعی سیارہ ایک نہایت مفید ایجاد ہے۔ اس میں لگائے گئے طاقت ور کیمروں کی مدد سے زمین کو ہر طرف سے دیکھا جاسکتا ہے اور صحیح نقشہ بنایا جاسکتا ہے۔ مصنوعی سیارے کی مدد سے دنیا کے مختلف حصوں میں موسم کے بدلتے ہوئے حالات کا پہلے سے اندازہ ہو جاتا ہے ۔ اس کی مدد سے سمندری طوفانوں کی پیشین گوئی کرنا آسان ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی زمین کے اندر آتش فشاں اور زلزلے کے مرکز کا علم بھی ہوجاتا ہے۔

مصنوعی سیارے میں لگے ہوئے پیغام رسانی کے آلات کی مدد سے ریڈیو اور ٹیلی فون کا نظام بہت بہتر ہو گیا ہے۔ اب آوازوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے کسی بھی حصے کی تصویریں ، وہاں کے حالات اور واقعات کو پلک جھپکتے دنیا کے گوشے گوشے میں دیکھا اور دکھایا جا سکتا ہے ۔ ٹیلی ویژن کی شکل میں یہ سہولت ہمیں مصنوعی سیارے کے ذریعے ہی حاصل ہوئی ہے۔ اس ایجاد نے دنیا کے سارے ملکوں کو اس طرح جوڑ دیا ہے کہ ساری دنیا ایک گاؤں معلوم ہونے لگی ہے۔


سوچنے اور بتایئے:

1۔ 19 اپریل 1975 کو جاری کیے گئے ٹکٹ کی کیا خصوصیات ہیں؟

2۔ ہندوستان کے پہلے مصنوعی سیارے کا کیا نام ہے؟

3۔ آریہ بھٹ کون تھے؟

4۔ ہندوستان سے پہلے کن ملکوں نے خلا میں مصنوعی سیارے بھیجے؟

5۔ مصنوعی سیارے کے کیا فائدے ہیں؟

  6۔ ساری دنیا ایک گاؤں میں کیسے تبدیل ہوگئی ہے؟ 


عملی کام :

  مصنوعی سیارے سے متعلق پانچ جملےلکھیے۔


Saturday 5 December 2020

Farozan Part 2 Class 7 Bihar School Text Book

ترتیب
شعرا و ادبا اصناف عنوانات
شفیع الدین نیرنظم خدا سے دعا
ماخوذکہانی بہادر بچّہ

صرف پڑھنے کے لیے ایک دوڑ ایسی بھی
اے پی جے عبد الکلام مضمونمیرے بچپن کے دن
احمد رضا خاں بریلوی نظمسب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ
ماخوذ مضمونخدا بخش لائبریری
ضرف پڑھنے کے لیے ایک چھوٹا سا لڑکا
ماخوذ مضمون ہمارا بہار
ماخوذ کہانی(فن لینڈ) حیرت انگیز ٹوپی
چکبست لکھنوی نظم ہمارا وطن
ماخوذ مضمون حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ
داغ دہلوی غزل سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
ماخوذ مضمون مجاہد آزادی شہید اشفاق اللہ خان
ماخوذ بہار کی کہانی عقلمند لڑکا
ضرف پڑھنے کے لیے جنگلی ہاتھی
اسماعیل میرٹھی نظمگرمی کا سماں
محمد اسلم پرویز مضمونآؤ ہم ماحول بچائیں
ضرف پڑھنے کے لیےہم بادل کہلاتے ہیں
ٹالسٹائے کہانیدو گز زمین

صرف پڑھنے کے لیے ہماری خواہش
ماخوذ مضمون بیگم حضرت محل
انیس اعظمیڈراما دادی اماں مان جاؤ
شفق عماد پورینظم علم اور عقل
ماخوذکہانی فضول خرچی

صرف پڑھنے کے لیے مکھی چوس
کرشنا سوبتی آپ بیتی (میرا بچپن(ترجمہ
میر انیس نظم صبر کی اہمیت

Saturday 28 November 2020

Farozan Part 1 Class 6 Bihar School Text Book

ترتیب
شعرا و ادبا اصناف عنوانات
الطاف حسین حالی نظم حمد
منشی پریم چند کہانی دو بیل
علامہ اقبال نظم جگنو
ماخوذ مضمون حضرت عمر بن عبدالعزیز
ڈاکٹر ذاکر حسین کہانی احسان کا بدلہ احسان
افسر میرٹھی نظم وطن کا راگ
ماخوذ مضمون گنگا ندی
رابندر ناتھ ٹیگور کہانی کابلی والا
ماخوذ مضمون گاندھی جی
ماخوذ مضمون کمپیوٹر
الطاف حسین حالی نظم کہنا بڑوں کا مانو
ماخوذ مضمون نینی تال
ماخوذ راجستھانی کہانی کنجوس کی کہانی
مرزا غالب غزل غزل
ماخوذ مضمون دہلی کی جامع مسجد
ماخوذ تبت کی کہانی غریب بچّہ اور جادوگر
اسماعیل میرٹھی نظم برسات
ماخوذ انشائیہ شکر کا چکر
شاد عظیم آبادی غزل غزل
ماخوذ سوانح شہید پیر علی
کلیم عاجز غزل غزل
میر قربان علی دہلوی مضمون بہادر شاہ کا ہاتھی

Sunday 22 November 2020

Mahol Bachaiye by Aslam Parvez NCERT Class 10 Nawa e Urdu

ماحول بچایئے
محمد اسلم پرویز
ایک عام آدمی کی نظر میں ماحولیاتی مسئلہ بھی ایک "سائنسی مسئلہ " ہے جس پر سائنس داں بحث کرتے رہتے ہیں۔ اس کے خیال میں یہ کوئی ایا مسئلہ نہیں ہے جس میں وہ دلچسپی لے یا جس پر غور وفکر کیا جائے۔ لیکن ذرا بتایئے کہ کیا ہم کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ آج کل کینسر کا مرض اتنی شدت کیوں اختیار کر گیا ہے، دل کے امراض کیوں عام ہورہے ہیں، لوگوں کو سانس کی تکلیف کیوں ہورہی ہے ، موسموں کا چلن کیوں بگڑ گیا ہے، برسات کی وہ رتیں اور جھڑیاں کیوں ختم ہوگئی ہیں، دریاؤں کا پانی گدلا اور کنوؤں کا پانی زہریلا کیوں ہو گیا ہے، تازہ ہوا کے وہ جھو نک کہاں چلے گئے کہ جو روح کو شاد کر جایا کرتے تھے، موتی کی طرح شفاف پانی کے وہ قدرتی چشمے کہاں کھو گئے جن کی تہہ کا حال اوپر سے ہی نظر آتا تھا۔ یقیناً یہ ایسے مسائل ہیں کہ جن کا تعلق ہم سے اور ہماری فنا و بقا سے ہے۔ اور اب اگر یہ کہا جائے کہ ان تمام مسلوں کا سیدھا واسطہ ہمارے بگڑتے ہوئے ماحول سے ہے تو کیا اب بھی آپ ماحولیاتی مسئلے کو سائنسی مسئلہ کہیں گے؟
قدرت نے دنیا کی ہر چیز کو ضرورت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ یہاں ہر ایک چیز دوسری چیز کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتی ہے۔ اس آپسی تعلق کو سمجھنے اور سمجھانے کا نام ” ماحولیاتی سائنس" ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان اس تعلق سے نہ صرف بخوبی واقف تھا بلکہ اس کی زندگی ان قدرتی وسائل کے گرد گھومتی تھی ۔ وہ پانی کے ذخیروں کے پاس بستیاں قائم کرتا تھا تا کہ قدرتی پانی اسے حاصل ہوتا رہے۔ جنگلات سے وہ لکڑی، چارہ اور غذا حاصل کرتا تھا ۔ زمین وسیع تھی اور آبادیاں کم تھیں۔ رفتہ رفتہ انسانی آبادی بڑھنے لگی تو ان وسائل کی مانگ بڑھی، ان پر دباؤ بڑھا اور ان کے لیے آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں ۔ کسی ملک کے زرخیز اور سر سبز و شاداب علاقوں نے وہاں حملہ آوروں کو بلا لیا تو کسی ملک کے جانور اور چراگا ہیں دشمن کی نظروں میں آ گئیں، طاقتور قوتیں اور ممالک کمزوروں کے وسائل پر قابض ہوکر انھیں بے دریغ استعمال کرنے لگے۔ قدرتی وسائل پر دوسرا حملہ صنعتی انقلاب کے دوران ہوا۔ صنعتی انقلاب نے انسان کو مشینوں سے روشناس کرایا۔ مشینوں کی مدد سے اگر چہ پیدا وار میں زبردست اضافہ ہوا اور ایسا ضروری بھی تھا کیوں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات بڑھتی جارہی تھیں ۔ لیکن اس اضافہ نے خام مال کی مانگ اور بھی بڑھا دی۔ جہاں کا غذ بنانے کے کارخانے لگے تو وہ علاقے جنگلات سے پاک ہو گئے کیونکہ تمام لکڑی کاغذ بنانے کی نذر ہوگئی۔ جہاں کسی دھات سازی کا کام ہوا تو وہاں کان کنی اتنی ہوگئی کہ تمام زمین کھود کھود کر بنجر بنادی گئی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی نئی تر قیات ہوتی گئیں اور انسانی زندگی پر مشینوں کی گرفت بڑھتی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو قدرتی توازن اس دنیا کے مکینوں کے در میان تھا، وہ برباد ہوگیا۔
انسان کے اردگرد اس کے اہم ترین ساتھی زمین، ہوا، پانی، جنگلات اور دیگر جاندار ہیں۔ یہی اس کا ماحول کہلاتے ہیں، ان سبھی کا آپس میں ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ یعنی اگر زمین خراب ہوگئی تو انسان اس سے متاثر ہوگا اور اگر انسان کا رویہ زمین کے تئیں بگڑے گا تو زمین خراب ہوگی ۔ انسان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مشینی دور کی آمد نے اس آپسی تعلق کو تہس نہس کردیا۔ کارخانوں اور فیکٹریوں نے نہ صرف یہ کہ خام مال کی شکل میں قدرتی وسائل کو بے تحاشہ استعمال کیا۔ بلکہ ان سے نکلنے والے زہریلے مادوں نے ہوا، پانی اور زمین کو زہر یلا کرنا شروع کر دیا۔ کارخانوں کی چمنیوں اور موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں اورگیسوں نے ہوا کو آلودہ کر دیا۔ جب فیکٹریاں اور گاڑیاں کم تھیں تو کم گیسیں فضا میں خارج ہوتی تھیں اور یہ تھوڑی سی مقدار بہت جلد ہوا میں گھل مل کر اتنی ہلکی ہوجاتی تھی کہ اس کا زہر یلا پن ختم ہو جاتا تھا۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے، اب اتنی زیادہ مقدار میں یہ گیسیں ہوا میں خارج ہوتی ہیں کہ ان کا پھیلنا اور تحلیل ہونا ناممکن ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام زہریلی گیسیں خطرناک حد تک ہوا میں جمع ہورہی ہیں۔ شہری اور صنعتی علاقوں کے اوپر کی گیسیں ایک غلاف کی مانند چھائی رہتی ہیں۔ ایسی ہوا میں جب ہم لوگ سانس لیتے ہیں تو یہ سب کیمیائی مادے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے کارخانوں اور موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والی گیسوں میں زیادہ مقدار کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی ہوتی ہے۔ ان سبھی کیسوں کی زیادتی ہمارے قدرتی ماحول کے لیے مضر ہے۔ ان میں سے کچھ گیسیں تیزاب کی شکل میں زمین پر آتی ہیں ۔ ایسی بارش کو "تیزابی بارش‘‘ کہا جاتا ہے اور کئی ممالک کو ان بارشوں کا تجربہ ہو چکا ہے اور ہورہا ہے۔ تیزابی بارش کی سب سے اہم وجہ سلفرڈائی آکسائیڈ گیس ہے۔ فضا میں اس گیس کی زیادتی خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ تیز ابی بارشیں نہ صرف یہ کہ پیڑ پودوں اور جانداروں کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ان سے عمارتیں اور دیگر سامان بھی متاثر ہوتا ہے۔
موٹر گاڑیوں سے نکلنے والی کثافت نے نہ صرف ہوا کو ہی متاثر کیا ہے بلکہ کارخانوں کا فضلہ ہوا کے علاوہ پانی اور زمین کو بھی خراب کرتا ہے۔ جب کارخانے کم تھے تو ان کا تھوڑا سا فضلہ پانی میں تحلیل ہو جاتا تھا لیکن جیسے جیسے کارخانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا پانی میں آلودگی بڑھتی گئی۔ آج یہ حال ہے کہ کسی بھی دریا کو ہم پوری طرح صاف اور صحت مند نہیں کہہ سکتے کسی کا پانی سڑ رہا ہے تو کسی کا پانی رنگین ہو گیا ہے، کسی میں گاد بہت ہے تو کسی کے پانی میں تیزابیت اتنی ہے کہ اس میں رہنے والے سبھی جاندار ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہوا اور پانی کی کثافت کو قابو میں رکھنے کے لیے قدرت نے بڑا اچھا انتظام کر رکھا ہے۔ زمین کے سینے میں پھیلے ہوئے جنگلات یہ کام بخوبی انجام دیتے ہیں ۔ ہوا کی آلودگی کو درخت اور دیگر پودے جذب کر لیتے ہیں نیز ان ہرے جانداروں سے خارج ہونے والی آکسیجن گیس ہوا کے زہریلے پن کو کم بھی کر دیتی ہے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ جنگلات بھی انسان کی دسترس سےمحفوظ نہ رہے۔ کہیں پر رہائش کے لیے جنگلات کو صاف کیا گیا تو کہیں کھیتی باڑی کے لیے جنگلات کاٹے گئے یا پھر کارخانوں اور فیکٹریوں کو قائم کرنے کے لیے جنگلات کو ختم کیا گیا۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین کا یہ ہرا غلاف اترنے لگا جس کی وجہ سے آلودگی میں مزید اضافہ ہوا۔
................................ بھلا ہم میں سے کون ہے جسے اپنی صحت عزیز نہ ہو۔ تو پھر یہ بے حسی کیسی ہے ۔ ہم کیوں انتظار کریں کہ جب چیکنگ اور چالان شروع ہوں تبھی اپنی گاڑیوں اور کارخانوں کو درست کریں۔ اگر ہم کو اپنی صحت پیاری ہے اور اپنے ننھے منے مسکراتے بچوں کو صحت مند فضا مہیا کرنی ہے تو ہمیں یہ بے حسی اور لاپروائی چھوڑنی ہوگی ۔ ورنہ یقین کریں کہ ہم اپنے معصوم بچوں کو ورثے میں ایک ایسی زہریلی فضا اور ماحول دیں گے جس میں وہ بھی مسکرا نہ سکیں گے اور شاید اگلی نسل کی مسکراہٹ تو دیکھ بھی نہ سکیں۔ (تلخیص)
محمد اسلم پرویز
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز
(1954)
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کا شمار ملک کی اہم تعلیمی اور سائنسی شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم دہلی کی معروف درس گاہ اینگلو عربک اسکول اور اعلی تعلیم دہلی یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ نباتیات میں ایم ایس سی ، پلانٹ فزیولوجی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین دہلی کالج میں بحیثیت سائنس لیکچرار ملازمت کا آغاز کیا۔ 2005 سے 2015 تک اسی کالج کے پر نسپل رہے۔ اکتوبر 2015 سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں۔
ڈاکٹر اسلم پرویز نے تعلیم اور سائنس کے شعبوں میں کئی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔ پاپولر سائنس کے فروغ نیز ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ اردوزبان میں سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ اسلامک فاؤنڈیشن فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کے ڈائرکٹر بھی رہے ہیں۔ 1994 سے ماہنامہ ”سائنس“ اردو زبان میں پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ مختلف سائنسی اور ماحولیاتی موضوعات پر ان کی کئی کتا ہیں اور تقریباً چارسو تحقیقی مضامین ملک اور بیرون ملک کے اہم جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔

غور کرنے کی بات:
اس مضمون میں مصنف نے معاشرے کے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آج جانے یا انجانے ہم اپنے ماحول کو بگاڑ رہےہیں اور اپنے لیے بہت سے خطرات پیدا کر رہے ہیں مگر ہم میں سے اکثر اس سے بے خبر ہیں۔
سوالوں کے جواب لکھے:
1۔ "صنعتی انقلاب‘‘ سے ہمارے قدرتی وسائل کس طرح متاثر ہوئے ہیں؟ بیان کیجیے۔
2۔ ' تیزابی بارش'  کسے کہتے ہیں؟ اس کے اسباب پر روشنی ڈالیے؟
3۔ ہمیں اپنے ماحول کو بچانے کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
4۔ ماحول بچانا کیا صرف سائنس دانوں ہی کا کام ہے یا ہر شہری کا۔ مختصراً لکھیے۔
عملی کام :
اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ماحول بچاؤ تحریک شروع کریں ۔ لوگوں کو پیڑ پودے لگانے ، آلودگی کو کم کرنے ، گاڑیوں اور کارخانوں کی زہریلی گیسوں کو دور کرنے کے لیے تا کید کریں ۔ ایک پوسٹر بنائیے جس پرمختلف رنگوں سے لکھیے :
" بچوں کی مسکان بچائیں
آؤ   ہم   ماحول سجائیں "

Chori Aur Uska Kaffara by Syed Abid Hussain NCERT Class 10 Nawa e Urdu

چوری اور اس کا کفاره
مترجم : سید عابد حسین 
ہائی اسکول میں جن لڑکوں سے مجھ سے مختلف اوقات میں دوستی رہی ان میں سے دوقلبی دوست کہے جا سکتے ہیں ۔ ایک سے میری دوستی زیادہ دن نہیں رہی۔ میں نے اسے نہیں چھوڑا بلکہ اس نے مجھے چھوڑ دیا، اس قصور پر کہ میں نے دوسرے سے میل جول پیدا کیا۔ اس دوسری دوستی کو میں اپنی زندگی کا ایک الم ناک واقعہ سمجھتا ہوں ۔ یہ بہت دن قائم رہی۔ میں نے اسے اصلاح کے جوش میں شروع کیا تھا۔
میرا یہ رفیق اصل میں میرے منجھلے بھائی کا دوست تھا۔ یہ دونوں ہم سبق تھے۔ میں اس کی کمزوریوں سے واقف تھا، مگر اسے وفادار دوست سمجھتا تھا۔ میری ماں نے، میرے بڑے بھائی نے ، میری بیوی نے مجھے متنبہ کیا کہ تمھاری صحت خراب ہے۔ بیوی کی بات تو میں شوہر ی کے غرور میں کب سنتا تھا، لیکن ماں اور بڑے بھائی کی رائے کے خلاف عمل کرنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ پھر بھی میں نے ان سے عذر معذرت کی اور کہا میں جانتا ہوں کہ اس میں وہ کمزوریاں ہیں جو آپ نے بتائیں مگر آپ کو اس کی اچھائیوں کی خبر نہیں ۔ وہ مجھے گمراہ نہیں کرسکتا کیوں کہ میں اس سے اس نیت سے ملتا ہوں کہ اس کی اصلاح کروں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اپنے اطوار درست کرے تو بڑا اچھا آدمی ہو جائے گا۔ میری التجا ہے کہ آپ میری طرف سے تردد نہ کریں‘‘
اس سے ان کا اطمینان تو نہیں ہوا مگر انھوں نے میری توجیہہ مان لی اور مجھے میری راہ چلنے دیا۔ آگے چل کر مجھے معلوم ہوا کہ میرا اندازہ غلط تھا۔ جو شخص کسی کی اصلاح کرنا چاہتا ہے وہ اس کے ساتھ شیر وشکر ہو کر نہیں رہ سکتا۔ سچی دوستی روحانی اتحاد کا نام ہے جو اس دنیا میں بہت کم ہوتا ہے۔ صرف ان ہی لوگوں میں جن کی طبیعت ایک سی ہو، دوستی پوری طرح مکمل اور پائدار ہوسکتی ہے۔ دوستوں میں ہر ایک کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے، اسی لیے دوستی میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ میری رائے میں کسی ایک شخص سے ایک جان دو قالب ہو جانے سے پرہیز کرنا چاہیے، کیوں کہ انسان پر بہ نسبت نیکی کے بدی کا اثر جلد پڑتا ہے اور جو شخص خدا کا دوست ہونا چاہتا ہے اسے لازم ہے کہ یا تو اکیلا رہے یا ساری دنیا سے دوستی کرے ممکن ہے کہ میری رائے غلط ہو مگر مجھے تو قلبی دوستی پیدا کرنے میں ناکامی ہوئی۔
جن دنوں میں میری ملاقات اس دوست سے ہوئی، راج کوٹ میں’ریفارم‘‘ کا بڑا زور تھا، اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے بہت سے استاد چھپ کر شراب اور گوشت کا استعمال کرتے ہیں ۔ اس نے راج کوٹ کے بہت مشہور آدمیوں کے نام بھی لیے جو اس جماعت میں شریک تھے۔ اس نے کہا کہ اس زمرے میں ہائی اسکول کے بعض لڑکے بھی ہیں۔
مجھے یہ سن کر تعجب اور رنج ہوا۔ میں نے اپنے دوست سے اس کا سبب پوچھا تو اس نے کہا ” ہماری قوم گوشت نہیں کھاتی اس لیے کمزور ہے۔ انگریز لوگ گوشت کھاتے ہیں، اسی لیے وہ ہم پرحکومت کرنے کے قابل ہیں ۔ تم جانتے ہو میں کیسا مضبوط ہوں اور کتنا تیز دوڑتا ہوں ۔ اس کا سبب یہی ہے کہ میری غذا گوشت ہے۔ گوشت کھانے والوں کے پھوڑے پھنسی نہیں نکلتے اور بھی نکل بھی آئیں تو جلد اچھے ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے استاد اور ہمارے دوسرے بڑے آدمی جو گوشت کھاتے ہیں، احمق نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس میں کیا خوبیاں ہیں تمھیں بھی اس کی تقلید کرنا چاہیے۔ آخر آزمائش کرنے میں کیا حرج ہے ۔تم آزما کر دیکھو کہ گوشت کھانے سے کیسی طاقت آتی ہے۔
گوشت کھانے کی تائید میں یہ ساری دلیلیں ایک ہی نشست میں پیش نہیں کی گئیں۔ یہ اس طول طویل استدلال کا خلاصہ ہے جس سے میرا دوست مجھ پر وقتاً فوقتاً اثر ڈالتا رہا۔ میرے منجھلے بھائی پہلے ہی مغلوب ہو چکے تھے۔ اس لیے وہ میرے دوست کی دلیلوں کی تائید کرتے تھے۔ میں واقعی اپنے بھائی اور اس دوست کے مقابلے میں بالکل مریل معلوم ہوتا تھا۔ وہ مجھ سے زیادہ قوی اور جفاکش بھی تھے اور جری بھی۔ اس دوست کے کارناموں نے مجھ پر جادو سا کر دیا۔ وہ بہت دور تک اور بڑی تیزی سے دوڑ سکتا تھا، کود پھاند میں مشتاق اور سخت سے سخت جسمانی سزا برداشت کر لیتا تھا۔ وہ مجھے اکثر اپنے کارنامے دکھایا کرتا تھا اور یہ قاعدے کی بات ہے کہ انسان دوسروں میں وہ صفتیں دیکھ کر جو اس میں نہ ہوں، دنگ رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد میرے دل میں ولولہ اٹھا کہ اس کے جیسا بنوں ۔ میں نہ کود سکتا تھا، نہ دوڑ سکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں بھی اس کی طرح مضبوط کیوں نہ ہو جاؤں؟
پھر میں بزدل بھی تھا۔ مجھے ہر وقت چوروں، بھوتوں اور سانپوں کا کھٹکا رہتا تھا۔ رات کو گھر سے باہر قدم رکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ اندھیرے سے میری روح فنا ہوتی تھی۔ میرے لیے اندھیرے میں سونا تقر یب ناممکن تھا، کیوں کہ مجھے وہم ہوتا تھا کہ ایک
طرف سے بھوت چلے آرہے ہیں، دوسری طرف سے چور ، تیسری طرف سے سانپ، بغیر کمرے میں روشنی رکھے مجھے سوتے نہ بنتا تھا۔ میں اپنے خوف کو اپنی کمسن بیوی پر کیوں کر ظاہر کرتا؟ میں جانتا تھا کہ ان میں مجھ سے زیادہ ہمت ہے اور مجھے اپنے اوپر شرم آتی تھی۔ انھیں سانپوں اور بھوتوں کا کوئی ڈر نہ تھا۔ وہ اندھیرے میں ہر جگہ چلی جاتی تھیں۔ میرے دوست کو میری ان کمزوریوں کا حال معلوم تھا۔ وہ کہتا تھا کہ میں زندہ سانپ ہاتھ پر رکھ سکتا ہوں ۔ چوروں کا مقابلہ کرسکتا ہوں اور بھوتوں کا قائل ہی نہیں ہوں ۔ یہ گوشت کھانے کی برکت ہے۔
ان سب باتوں کا مجھ پر کافی اثر پڑا۔ میں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ مجھے رفتہ رفتہ یقین ہونے لگا کہ گوشت کھانا اچھا ہے اس سے مجھ میں قوت اور جرات پیدا ہو جائے گی اور اگر سارا ملک گوشت کھانے لگے تو انگریز مغلوب ہو جائیں گے۔
اب تجر بہ شروع کرنے کے لیے ایک دن مقرر ہوا۔ اسے پوشیدہ رکھنا بہت ضروری تھا۔ سارا گاندھی خاندان ویشنو تھا اور میرے والدین تو بڑے پکے ویشنو تھے ۔ وہ پابندی سے "حویلی‘‘ جایا کرتے تھے، بلکہ خود ہمارے خاندان کے جداگانہ مندر بھی تھے۔ جین مت کا گجرات میں بہت زور تھا اس کا اثر ہر وقت ہر جگہ نظر آتا تھا۔ گجرات کے جین اور ویشنو لوگوں کو گوشت کھانے سے جتنی سخت نفرت تھی اس کی مثال نہ ہندوستان میں ملتی ہے اور نہ کسی اور ملک میں میری ولادت اور پرورش اس ماحول میں ہوئی تھی اور مجھے اپنے والدین سے بڑی محبت تھی ۔ میں جانتا تھا کہ جس دم وہ میرے گوشت کھانے کی خبر سن پائیں گے، صدے کے مارے مر جائیں گے۔ سچائی کی محبت نے مجھے اور بھی زیادہ احتیاط پرمجبور کر دیا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اس وقت اس کا احساس نہ تھا کہ اگر میں نے گوشت کھانا شروع کر دیا تو والدین کو دھوکا دینا پڑے گا لیکن میں نے دل میں ٹھان لی کہ" ریفارم“ ضرور کروں گا۔ اس میں زبان کی چاٹ کو دخل نہ تھا۔ میں نے گوشت کے مزے کی کوئی خاص تعریف نہیں سنی تھی، مگر میں چاہتا تھا کہ میں قوی اور بہادر ہو جاؤں اور میرے دیس کے لوگ بھی ایسے ہی ہو جائیں تاکہ ہم انگریزوں کو شکست دیں اور ہندوستان کو آزاد کرالیں۔’ سوراج‘‘ کا لفظ میں نے اب تک نہیں سنا تھا، مگر آزادی کے معنی جانتا تھا۔ ریفارم‘‘ کے جوش نے مجھے اندھا کر دیا۔ میں نے اس بات کو مخفی رکھنے کا بندوبست کیا، اور اپنے دل کو سمجھا لیا کہ محض اس فعل کو والدین سے چھپانا حق سے انحراف نہیں ہے۔
آخر وہ دن آ گیا۔ اس وقت میرا جو حال تھا اسے پوری طرح بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک طرف تو ’’ ریفارم‘‘ کا جوش اور زندگی میں ایک اہم تبدیلی کی جدت کا لطف تھا اور دوسری طرف اسی کام کو چوروں کی طرح چھپ کر کرنے کی شرم تھی ۔ میں نہیں کہہ سکتا دونوں میں سے کون سی چیز مجھ پر غالب تھی ۔ ہم نے دریا کے کنارے جا کر ایک گوشہء تنہائی ڈھونڈا اور میں نے اپنی عمر میں پہلی بار گوشت دیکھا۔ اس کے ساتھ تنوری روٹی بھی تھی۔ مجھے دونوں چیزوں میں سے کوئی چیز پسند نہ آئی ۔ بکری کا گوشت چھڑے کی طرح سخت تھا مجھ سے کسی طرح نہیں کھایا جاتا تھا۔ مجھے قے ہوگئی اور کھانا چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔
اس کے بعد کی رات بڑی بری طرح گزری۔ مجھے بڑا ہولناک خواب نظر آیا۔ جب آنکھ لگتی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زندہ بکری میرے پیٹ کے اندر ممیارہی ہے اور میں گھبرا کر اچھل پڑتا تھا۔ مگر میں اپنے دل کو سمجھاتا تھا کہ گوشت کا کھانا فرض ہے اور اس سے مجھے کچھ تسکین ہو جاتی تھی۔
میرا دوست آسانی سے ہار ماننے والا نہ تھا۔ اب عمدہ مسالے ڈال کر گوشت کے مزیدار کھانے پکانے لگا۔ کھانا کھانے کے لیے ہمیں ایک دریا کے کنارے سونی جگہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ ایک ریاست کے مکان میں کھاتے تھے جس میں کھانے کا علاحدہ کمرہ میز کرسی سے سجا ہوا تھا۔ میرے دوست نے وہاں کے بڑے باور چی سے ساز باز کر کے یہ انتظام کیا تھا۔
میں اس لالچ میں آ گیا۔ مجھے بوٹی سے کراہت تھی وہ دور ہوگئی ۔ بکری پر ترس آتا تھا وہ جاتا رہا اور اب گوشت کی بوٹی میں تو نہیں مگر سالن میں مزا آنے لگا۔ یہ سلسلہ قریب قریب ایک سال تک چلتا رہا، لیکن اس عرصہ میں گوشت کی دعوتیں سب مل کر چھے سے زیادہ نہیں ہوئیں، کیوں کہ ریاست کا مکان روز روز نہیں ملتا تھا اور پھر یہ دقت بھی تھی کہ مزیدار کھانوں میں اکثر صرفہ بہت ہوتا تھا۔ میرے پاس اس ریفارم کی قیمت ادا کرنے کے لیے دام نہ تھے اس لیے ہر مرتبہ خرچ کا انتظام میرے دوست ہی کو کرنا پڑتا تھا۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کہاں سے اتنا رو پیہ لاتا ہے مگر کسی نہ کسی طرح وہ لے ہی آتا تھا، کیوں کہ وہ اس پر تلا ہوا تھا کہ مجھے گوشت کھانے کا عادی کر دے۔ مگر آخر اس کی آمدنی بھی محدود ہی ہوگی، اس لیے بہت کم دعوتیں ہوسکیں اور وہ بھی طویل وقفوں کے بعد۔ جب کبھی میں یہ چوری کی دعوتیں اڑاتا تھا تو ظاہر ہے کہ گھر آ کر کھانا نہیں کھا سکتا تھا۔ میری والدہ قدرتی طور پر کھانے کے لیے اصرار کرتی تھیں اور خواہش نہ ہونے کا سبب پوچھتی تھیں۔ میں ان سے کہ دیتا تھا۔ "آج مجھے بھوک نہیں ہے۔ میرے ہاضمے میں کچھ خرابی ہے۔" یہ بہانے کرنے پر میرا دل مجھے ملامت کرتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ جھوٹ بول رہا ہوں اور وہ بھی اپنی والدہ سے۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اگر میرے باپ کو میرے گوشت کھانے کی خبر ہوگئی تو انھیں بہت سخت صدمہ ہوگا۔ یہ خیال میرے لیے سوہان روح تھا۔
اس لیے میں نے اپنے دل میں کہا۔ اگر چہ گوشت کھانا بہت ضروری چیز ہے اور یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ملک میں غذا کی اصلاح کی جائے ، لیکن اپنے ماں باپ کو دھوکا دینا اور ان سے جھوٹ بولنا گوشت نہ کھانے سے بھی بدتر ہے۔ جب تک وہ زندہ ہیں گوشت کھانا ممکن نہیں جب وہ نہ رہیں گے اور میں آزاد ہو جاؤں گا تو کھلم کھلا گوشت کھاؤں گا لیکن میں اس وقت تک اس سے پرہیز کروں گا۔ اس پر خلوص خواہش کی وجہ سے کہ اپنے والدین سے جھوٹ نہ بولوں میں نے گوشت چھوڑ دیا مگر اپنے دوست کی صحبت نہ چھوڑی ۔ اس کی اصلاح کرنے کے جوش نے مجھے برباد کردیا تھا مگر مجھے اس کا بالکل احساس نہ تھا۔
مجھے ابھی اپنی چند اور لغزشوں کا ذکر کرنا ہے جو گوشت کھانے کے زمانے میں اور اس سے پہلے مجھ سے سرزد ہوئیں۔ ان کا سلسلہ میری شادی کے وقت سے یا اس کے تھوڑے ہی دن بعد شروع ہوتا ہے۔
میرے ایک عزیز کو اور مجھے سگریٹ پینے کا چسکا لگ گیا۔ یہ بات نہ تھی کہ ہم اس عادت کو اچھا سمجھتے ہوں یا سگریٹ کی خو شبو پر ریجھے ہوں ۔ ہمیں تو صرف منھ سے دھواں نکالنے میں ایک خیالی لطف آتا تھا۔ میرے چچا اس کے عادی تھے اور جب ہم انھیں سگریٹ پیتے دیکھتے تھے تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ ان کی طرح ہم بھی پئیں مگر ہمارے پاس دام تو تھے ہیں اس لیے ہم نے ابتدا اس طرح کی کہ ہم سگریٹ کے ٹکڑے جو ہمارے چچا پی کر پھینک دیتے تھے چرا لاتے تھے۔
مگر یہ ٹکڑے ہر وقت نہیں مل سکتے تھے اور ان سے دھواں بھی زیادہ نہیں نکلتا تھا۔ اس لیے ہم نے نوکروں کے جیب خرچ میں سے پیسے چرانا شروع کیے کہ ہندوستانی سگریٹ خریدیں مگر مصیبت یہ تھی کہ انھیں رکھیں کہاں، کیوں کہ ظاہر ہے کہ ہم بڑوں کے سامنے تو سگریٹ پی نہیں سکتے تھے۔ چند ہفتے تک تو ہم کسی نہ کسی طرح ان چرائے ہوئے پیسوں سے کام چلاتے رہے۔ اس عرصے میں ہم نے سنا کہ ایک درخت کی ڈال میں مسامات ہوتے ہیں اور اس کے ٹکڑے سگریٹ کی طرح پیے جاسکتے ہیں۔ ہم انھیں لے آئے اور پینا شروع کر دیا۔
لیکن ان چیزوں سے ہماری تسلی نہ ہوتی تھی۔ آزادی نہ ہونا ہمیں کھلنے لگا۔ ہم سے یہ برداشت نہ ہوتا تھا کہ ہم بغیر بڑوں کی اجازت کے کچھ نہ کر سکیں۔ آخر زندگی سے متنفر ہو کر ہم نے خودکشی کی ٹھان لی۔
مگر اب یہ سوال تھا کہ خودکشی کیسے کی جائے؟ زہر کھائیں تو زہر کہاں سے لائیں؟ ہم سے کسی نے کہا کہ دھتورے کے بیج زہر قاتل ہیں ۔ ہم دوڑے ہوئے جنگل میں گئے اور بیج لے آئے ۔ ہم نے شام کے وقت کو اس کام کے لیے مبارک سمجھا۔ ہم ”کیدار جی مندر" میں گئے۔ وہاں کے چراغ میں گھی ڈالا ۔’’ درشن‘‘ لیے اور کوئی سونی جگہ ڈھونڈنے لگے۔ مگر ہماری ہمت نے جواب دے دیا۔ فرض کرو کہ ہم فوراً نہ مرے! اور آخر مرنے سے فائدہ ہی کیا؟ آزادی نہیں ہے تو نہ سہی، اسی حالت کو کیوں نہ برداشت کریں؟ پھر بھی ہم دوتین بیج نگل ہی گئے ۔ ہم دونوں موت سے ڈر گئے اور ہم نے طے کیا کہ "رام جی مندر" جا کر حواس درست کریں اور خودکشی کا خیال چھوڑ دیں۔
مجھے معلوم ہو گیا کہ خودکشی کرنا اتنا سہل نہیں جتنا اس کا ارادہ کرنا اور اس دن سے جب کبھی میں سنتا ہوں کہ فلاں شخص خودشی کی دھمکی دے رہا ہے تو مجھ پر بہت کم اثر ہوتا ہے۔
خودکشی کے خیال کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دونوں نے سگریٹ کے ٹکڑے پینا اور سگریٹ کے لیے نوکروں کے پیسے چرانا چھوڑ دیا۔ جب سے میں بالغ ہوا ہوں مجھے کبھی تمباکو پینے کی خواہش نہیں ہوئی، اور میں اس عادت کو تہذیب کے خلاف ، صفائی کے خلاف اور مضر سمجھتا ہوں ۔ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہ آئی کہ ساری دنیا میں لوگ تمباکو پینے پر کیوں جان دیتے ہیں ۔ مجھ سے تو ریل کے ڈبے میں جہاں تمباکو پینے والے بھرے ہوں نہیں بیٹھا جاتا۔ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔
لیکن اس سے کہیں بڑی چوری کا میں کچھ دن بعد مرتکب ہوا جب میں نے پیسے چرائے تو میری عمر بارہ تیرہ سال کی بلکہ اس سے بھی کم تھی۔ دوسری چوری کے وقت میں پندرہ برس کا تھا۔ اس بار میں نے اپنے گوشت کھانے والے بھائی کے بازوبند سے ایک سونے کا تکڑا چرایا۔ یہ بھائی پچیس روپے کے مقروض تھے۔ وہ بازو پر خالص سونے کا باز و بند باندھا کرتے تھے۔ اس میں سے ایک ٹکڑا کاٹ لینا کوئی مشکل بات نہ تھی۔
چنانچہ ایسا کیا گیا اور قرض ادا ہوگیا لیکن اتنا سنگین جرم تھا کہ مجھ سے کسی طرح برداشت نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے عہد کرلیا کہ پھر کبھی چوری نہ کروں گا۔ میرا یہ بھی ارادہ ہوا کہ اپنے والد کے سامنے جرم کا اعتراف کرلوں مگر ہمت نہ پڑتی تھی۔ یہ بات نہ تھی کہ مجھے والد کے ہاتھ سے مار کھانے کا ڈر ہو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے انھوں نے ہم لوگوں کو کبھی نہیں مارا۔ خوف تھا تو یہ کہ انھیں بہت دکھ ہوگا۔
آخر میں یہ فیصلہ کیا کہ میں اعتراف نامہ لکھ کر اپنے والد کو دوں اور ان سے معافی کی درخواست کروں ۔ میں نے سارا واقعہ ایک کاغذ پر لکھا اور خود لے جا کر انھیں دیا۔ اس رقعے میں میں نے نہ صرف اپنے جرم کا اعتراف کیا بلکہ یہ خواہش بھی کی کہ مجھے اس کی کافی سزا دی جائے اور آخر میں ان سے درخواست کی کہ میرے قصور کے بدلے وہ اپنا دل نہ کڑھائیں۔ میں نے اس بات کا عہد کیا کہ پھر کبھی چوری نہ کروں گا۔
میں نے اعتراف نامہ انھیں دیا تو میں کانپ رہا تھا۔ وہ ان دنوں ناسور میں مبتلا تھے اور صاحب فراش تھے۔ ایک کھرے تخت پر لیٹے رہتے تھے۔ میں نے رقعہ انہیں دے دیا اور چوکی کے سامنے بیٹھ گیا۔
انھوں نے اسے اول سے آخر تک پڑھا اور موتیوں کے قطرے ٹپ ٹپ ان کے رخساروں پر اور کاغذ پر گرنے لگے۔ دم بھر وہ آنکھیں بند کر کے سوچتے رہے اس کے بعد انہوں نے رقعہ پچھاڑ کر پھینک دیا۔ وہ اسے پڑھنے کے لیے پہلے بیٹھ گئے تھے اب وہ پھر لیٹ گئے۔ میں بھی رونے لگا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ انھیں کیسا دکھ ہے۔ اگر میں نقاش ہوتا تو آج اتنے دن کے بعد بھی پورے منظر کی تصویر کھینچ دیتا۔ اس واقعہ کی یاد میرے دل میں اب تک تازہ ہے۔
ان محبت کے موتیوں نے میرے دل کو پاک کر دیا اور میرے گناہ کو دھوڈالا۔ اس محبت کو وہی خوب جانتا ہے جس نے اس کا لطف اٹھایا ہے۔
یہ میرے لیے' اہمسا' کاعملی سبق تھا۔ اس وقت تو مجھے اس میں سوائے باپ کی محبت کے کچھ نظر نہ آتا تھا، مگر آج میں جانتا ہوں کہ یہ خالص 'اہمسا' تھا۔ جب یہ 'اہمسا' ہمہ گیر ہو جا تا ہے تو جس چیز کو چھوتا ہے اس کی کایا پلٹ دیتا ہے۔ اس کی قوت کی کوئی انتہا نہیں ۔
اس طرح کا شاندار عفو میرے والد کی طبیعت سے بعید تھا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ خفا ہو جائیں گے ، سر پیٹ لیں گے ۔ مجھے سخت سست کہیں گے لیکن ان کا سکون دیکھ کر حیرت ہوتی تھی اور یقیناً اس کی وجہ یہی تھی کہ میں نے صاف صاف اپنے گناہ کا اعتراف کرلیا ۔ گناہ کا پورا اعترف اور آئندہ اس سے باز رہنے کا عہد ، ایسے شخص کے سامنے جو انھیں قبول کرنے کا اہل ہے ، تو بہ کی خالص ترین صورت ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے اس اعتراف سے والد کو میری طرف سے پورا اطمینان ہو گیا اور انھیں مجھ سے جو محبت تھی وہ بے انتہا بڑھ گئی۔
سید عابد حسین
(1896 - 1978)
ڈاکٹر سید عابد حسین کا وطن داعی پور ضلع فرخ آباد ( اتر پردیش) تھا۔ عابد حسین کی پیدائش بھوپال (مدھیہ پردیش) میں ہوئی، جہاں ان کے دادا اور والد ملازمت کرتے تھے۔ سید عابد حسین کی والدہ کا تعلق لکھنؤ کے ایک تعلقہ دار گھرانے سے تھا۔ ان کا بچپن داعی پور اور لکھنؤ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں اور ثانوی تعلیم بھوپال میں حاصل کی ۔ الہ آباد یونیورسٹی سے بی۔ اے پاس کیا اور پھر اعلی تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ اور برن یونیورسٹی ، جرمنی میں حاصل کی ۔ سید عابد حسین نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ جرمنی سے واپس آ کر ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کام کرنے لگے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عابد حسین تصنیف و تالیف کا کام بھی کرتے رہے۔ انھوں نے سب سے پہلے 1926 میں ایک ڈراما ” پرده غفلت‘ لکھا۔ جرمن زبان کی کئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ جن میں گوئٹے کی ’’ فاؤسٹ‘‘ سب سے اہم ہے۔ ڈاکٹر عابدحسین نے مہاتما گاندھی کی خودنوشت کا ترجمہ تلاش "حق‘‘ کے نام سے اور پنڈت جواہرلعل نہرو کی ڈسکوری آف انڈیا کا ترجمہ "تلاش ہند" کے نام سے اردو میں کیا۔ اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی کئی کتابیں لکھیں جن میں "قومی تہذیب کا مسئلہ" اور" ہندوستانی مسلمان آئینۂ ایام میں " اردو انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے اردو کے علمی سرمایے میں قابل قدر اضافہ کیے۔ وہ دومشہور جرائد "اسلام اور عصر جدید " اور " اسلام اینڈ دی موڈرن ایج " کے بانی مدیر بھی رہے۔
'چوری اور اس کا کفارہ' گاندھی جی کی آپ بیتی کے اردو ترجمے سے ماخوذ ہے۔ 
  
خلاصہ:
خلاصه:- چوری اور اس کا کفاره گاندھی جی کی آپ بیتی ' تلاش حق ' سے ماخوذ ہے۔ مہاتما گاندھی ۔ کی کتاب انگریزی میں My Experiment with Truth کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر عابد حسین نے کیا تھا۔یہ مہاتما گاندھی کی آپ بیتی ہے اور اس آپ بیتی میں سب سے بڑی
خوبی یہ ہے کہ مہاتما گاندھی نے اپنی خوبیوں ، خرابیوں اور کمزوریوں کو بلا جھجھک بیان کیا ہے۔ اس سے اس کتاب کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
گاندھی جی راج کوٹ میں تھے اور وہاں ریفارم کا بڑا زور تھا۔ وہیں ان کی ملاقات اپنے منجھلے بھائی کے ایسے دوست سے ہوئی جو گوشت کھاتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ گوشت کھانے سے آدمی طاقتور رہتا ہے اور جو لوگ
گوشت نہیں کھاتے وہ ہماری قوم کی طرح کمزور ہوتے ہیں۔ مجھلے بھائی کا یہ دوست گاندھی جی کا بھی رفق بن گیا اور اس نے مہاتما گاندھی کو گوشت کھانے پر آمادہ کر لیا۔ گاندھی جی بچپن میں چوروں، بھوتوں اور سانپوں سے ڈرتے تھے۔ اور انہیں ان سے خوف محسوس ہوتا تھا۔ گاندھی جی کے رفیق نے انہیں بتایا کہ اگر گوشت کھانا شروع کردیا تو پھر وہ چوروں اور زندہ سانپ سے مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ گاندھی جی نے گوشت کھانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ طاقتور بن جائیں اور ریفارم کر کے انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرائیں۔
ایک دن دریا کے کنارے جا کر ایک مکان میں گاندھی جی نے گوشت کھایا۔ پہلی مرتبہ گوشت کھا نے کے بعد گاندھی جی کو رات میں خواب میں ایک بکری نظر آئی اور بڑے بھیانک خواب نظر آئے۔ اس کے بعد بھی گاندھی جی نے چار پائج مرتبہ مختلف اوقات میں گوشت کھایا۔ حالانکہ ان کے والد اور پورا خاندان ویشنو تھا اور سبھی سخت مذہبی تھے۔ گاندھی جی کو لگا کہ اس طرح ریفارم کے چکر میں انہوں نے اپنے خاندان والوں کو دھوکہ دیا۔ گوشت کھانے کے بعد ان کے ایک دوست نے سگریٹ پلایا، اور گاندھی جی کو سگریٹ پینے کیلئے چوری بھی کرنی پڑی۔ ان سب واقعات نے گاندھی جی کو ذہنی طور پر پریشان کیا اور ان کا ضمیر کچوکے لگاتا رہا۔ انہوں نے اعتراف گناہ اور خطا کی معافی کیلئے اپنے والد صاحب کے نام ایک خط لکھا۔ اور اس میں سب کچھ صاف صاف بتا دیا۔ گاندھی جی نے دیکھا کہ خط پڑھ کر ان کے والد صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ گاندھی جی کا خیال تھا کہ ان کے والد صاحب ان سے ناراض ہو جائیں گے اور سخت سست کہیں گے۔ چونکہ گاندھی جی نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا، اور ان کا خط پڑھ کر والد صاحب کو اطمینان ہو گیا تھا کہ گاندھی جی آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ اسلئے وہ گاندھی جی سے اور محبت کرنے لگے۔ گاندھی جی کہتے ہیں کے والد صاحب کا یہ عمل میرے لئے اہنسا کے عمل کا پہلا سبق تھا۔

غور کرنے کی بات:
یہ مضمون مہاتما گاندھی کی آپ بیتی My Experiments with Truth کے اردو تر جمے’’ تلاش حق‘‘ سے لیا گیا ہے۔ مضمون پڑھتے وقت آپ کو کسی بھی سطر پر ہی شبہہ نہیں ہوگا کہ یہ ترجمہ ہے۔ اچھے اور کامیاب ترجمے کی یہی خوبی ہے کہ اس پر اصل کا گمان ہو۔
مہاتما گاندھی نے اپنی سوانح لکھتے وقت اپنی شخصی کمزوریوں کو چھپایا نہیں ان پر کسی طرح کا پردہ نہیں ڈالا اور کھلے دل سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کیا اور خود ہی اپنی اصلاح کی ۔ ایک اچھی آپ بیتی کی پہلی خوبی یہی ہے کہ اس میں کسی طرح کا تصنع نہ ہو۔ اس طرح کی آپ بیتیاں پڑھنے والے کے لیے لطف کے ساتھ ساتھ عبرت اور اصلاح کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں۔
سوالوں کے جواب لکھیے:
1 ۔ "انسان پر بہ نسبت نیکی کے بدی کا اثر جلد پڑتا ہے"، ایسا کیوں؟ واضح کیجیے۔
2۔ مہاتما گاندھی نے اپنی غلطیوں کے کفارے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا؟
3۔ گاندھی جی کا اعتراف نامہ پڑھ کر ان کے والد پر کیا اثر ہوا؟
عملی کام:
ایک مضمون لکھیے۔ "چوری ایک بری عادت ہے۔“
گاندھی جی کی زندگی سے متعلق کتابیں حاصل کر کے ان کا مطالعہ کیجیے۔

                   

Tuesday 17 November 2020

Makhlut Zaban By Maulavi Abdul Haq NCERT Class 10 Nawa e Urdu

 مخلوط زبان

مولوی عبدالحق
ردو پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ مخلوط زبان ہے ۔ اس سے تو کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ یہ ٹھیٹ ہندوستانی زبان ہے۔ اب رہی یہ بات کہ یہ مخلوط ہے تو مخلوط ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ ایک اعتبار سے خوبی ہے۔

یوں تو دنیا میں کوئی زبان خالص نہیں ہر زبان نے کسی نہ کسی زمانے میں دوسری زبانوں سے کچھ نہ کچھ لفظ لیے ہیں یہاں تک کہ جو زبانیں مقدس کہلاتی ہیں وہ بھی اچھوتی نہیں ........... مخلوط زبان میں ہوتا یہ ہے کہ غیر زبان جو کسی قوم کو سیکھنی پڑتی ہے مخلوط نہیں ہوتی بلکہ اس کی اپنی زبان غیرزبان کے میل سے مخلوط ہو جاتی ہے۔ بعینہ یہی حال مسلمانوں کے آنے کے بعد ہوا، فارسی مخلوط نہیں ہوئی بلکہ مقامی زبان فارسی سے مخلوط ہوکر ایک نئی زبان بن گئی ہے۔

یہ بھی ایک مسلم ثبوت ہے کہ غیر زبان کے لفظ جو کسی زبان میں داخل ہوجاتے ہیں یا کسی زبان کو مخلوط کرتے ہیں تو اصلی زبان کے صرف و نحو کو ہاتھ نہیں لگاتے ۔ یہی صورت اس مخلوط زبان اردو میں پیش آئی کہ فارسی کا اثر اسماء وصفات تک رہا البته بعض حروف عطف مثلاً اگر، مگر، اگر چہ ، لیکن وغیرہ آگئے اصل صرف و نحو بالکل دیسی زبان کی رہی اور جب ضرورت پڑی فارسی ، عربی، لفظوں کو ہندی قالب میں ڈھال کر اپنا لیا۔ مثلاً عربی الفاظ بدل، کفن، دفن، قبول سے بدلنا، کفنانا، دفنانا، قبولنا، مصدر بنا لیے۔ اسی طرح فارسی سے بخشنا، فرمانا، نواز نا، داغنا وغیرہ بنا لیے گئے یہ سب اردو ہو گئے فارسی ، عربی نہیں رہے۔ . بدیسی لفظوں سے زبان خراب نہیں ہوتی بلکہ برخلاف اس کے اس میں وسعت، قوت اور شان پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ سچ ہے

کہ بہت سے غیر ضروری الفاظ بھی باہر سے آ کر داخل ہوجاتے ہیں ۔ غیرضروری سے میری مراد ان لفظوں سے ہے جن کے ہم معنی لفظ پہلے سے زبان میں موجود ہیں ۔ لیکن مترادف الفاظ سے کوئی نقصان نہیں بلکہ زبان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور زبان کی فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ ایک مدت کے استعمال کے بعد مترادف الفاظ کے مفہوم میں خود بخود ایسے نازک فرق پیدا ہو جاتے ہیں جس سے زبان کی لطافت بڑھ جاتی ہے اور جو لفظ پہلے غیر ضروری سمجھے جاتے تھے ضروری ہوجاتے ہیں۔

یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ بد یسی الفاظ سے زبان بوجھل اور بھدی ہو جاتی ہے۔ وہ لفظ جو غیر زبان سے آ کر داخل ہو جاتے ہیں وہ اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں اور ان کی اجنبیت بالکل جاتی رہتی ہے۔ اس لیے وہ زبان پر بارنہیں ہوتے ۔ بلکہ ان میں اور دیسی لفظوں میں آسانی اور وسعت پیدا کرتے ہیں۔

انسانی خیال کی کوئی تھاہ نہیں اور نہ اس کے تنوع اور وسعت کی کوئی حد ہے۔ زبان کیسی ہی وسیع اور بھر پور ہو، خیال کی گہرائیوں اور باریکیوں اور نازک حرفوں کو صحت کے ساتھ ادا کرنے میں قاصر رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ادا کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے جاتے ہیں۔ مترادف الفاظ ایسے موقعوں پر بہت کام آتے ہیں ۔ مترادف الفاظ سب ہم معنی نہیں ہوتے۔ ان کے مفہوم اور استعمال میں کچھ نہ کچھ ضرور فرق ہوتا ہے۔ اس لیے اداۓ مطالب میں ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے خاص کر شاعری کے اغراض کے لیے مترادف الفاظ کا کثرت سے ہونا بہت کام آتا ہے۔ شاعر ان کے ذریعہ سے لطیف سے لطیف خیال اور نازک سے نازک جذبات کو ادا کر سکتا ہے، پھر اس سے ردیف و قافیے کے لیے بہت سہولت ہو جاتی ہے۔

ادیب اور شاعر کے لیے لفظ کا انتخاب بڑی اہمیت اور قدر و قیمت رکھتا ہے۔ ایک برمحل صحیح لفظ کا انتخاب کلام میں جان ڈال دیتا ہے۔ مخلوط زبان میں انتخاب کی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ ذوق کا شعر ہے

مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
مسیح  و خضر  بھی مرنے کی آرزو کرتے

خاصا شعر ہے مگر کوئی خاص بات نہیں ۔ میرتقی میر اسی مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں ۔

لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا
کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزا  جانا

یہاں ' کھپا جانا‘‘ کے لفظ نے کیا کام کیا ہے! کوئی دوسرا لفظ رکھ کر دیکھیے یہ بات نہیں آئے گی ۔ اس شعر میں لذت او رمزه دومترادف لفظ ہیں ۔ اگر ایک ہی لفظ دونوں جگہ استعمال ہوتا تو شعرسست اور بے مزہ ہو جاتا ہے۔

محبت ہے یا کوئی جی کا ہے روگ
 سدا  میں  تو رہتا  ہوں بیمار  سا

ہماری زبان میں مرض، بیماری ، روگ، عارضہ مترادف ہیں لیکن ایک سچا شاعر یا ادیب خوب سمجھتا ہے کہ کون لفظ کہاں استعمال کرنا چاہیے۔ اس شعر میں جی کے ساتھ" روگ‘‘ کی جگہ "مرض" یا بیمار لطف نہ دے گا۔

غرض فارسی کے میل سے ہماری لغت میں بے بہا اضافہ ہوا ہے۔ الفاظ کے ساتھ ساتھ خیالات بھی آجاتے ہیں ۔

 لفظوں کا ذخیرہ کوئی چیز نہیں ۔ بڑی چیز ان کا استعمال ہے جو خیال کے صحیح طور پر ادا کرنے مترادفات کے نازک فرق ، خیالات میں صفائی اور صحت بیان پیدا کرنے میں بڑی مدد دیتے ہیں ۔ اور یہ نہ بھی ہو تو ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بار بار ایک لفظ کے اعادے سے جو بیان میں بھدا پن آجاتا ہے وہ رفع ہو جا تا ہے اور کالام میں حسن پیدا ہو جاتا ہے۔

اگر زبان کی قدر و منزلت ان مقاصد کے پورا کرنے میں ہے جن کے لیے زبان بنی ہے تو ہمیں اس امر کو ماننا پڑے گا کہ غیر زبان کے الفاظ داخل ہونے سے ہماری زبان کو بے انتہا فائدہ پہنچتا ہے ۔ عوام کی زبان یعنی کھڑی بولی جس پر اردو کی بنیاد ہے اس قدر محدود تھی کہ اگر اس میں فارسی عنصر شریک نہ ہوتا تو وہ کبھی علم وادب کے کوچے سے آشنا نہ ہوتی اور اس وقت جو اردو میں اظہار خیال کے نئے ڈھنگ پیدا ہو گئے ہیں وہ ان سے محروم رہتی۔

اردو میں ہندی اور فارسی لفظ مل جل کر شیر وشکر ہوگئے ہیں اور عام بول چال محاوروں اور کہاوتوں میں بے تکلف آگئے ہیں، مثلاً تم کس باغ کی مولی ہو، اشرفیاں لٹیں اور کولوں پر مہر، ایک آنکھ میں شہد ایک آنکھ میں زہر، لاکھ کا گھر خاک ہو گیا ، اللہ کا دیا سرپر، خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ، بد اچھا بدنام برا، بدن پر نہیں لتا پان کھائیں البتہ وغیرہ وغیرہ سیکڑوں کہاوتیں ہیں۔ یہی حال محاوروں کا ہے۔ مثلا آنکھوں میں خارلگنا، خدالگتی کہنا، آنکھوں پر پردہ پڑ جانا،  لہولگا کے شہیدوں میں ملنا، اللہ میاں کی گائے ہونا۔

مخلوط زبان میں ایک آسانی مرکب الفاظ کے بنانے میں بھی ہوتی ہے ۔ دیکھیے ہندی فارسی کے میل سے کیسے اچھے اچھے مرکب لفظ بن گئے ہیں، مثلاً دل لگی ، نیک چلن ، جگت استاد بھتیج داماد، گھر داماد، سمجھدار گنڈے دار، اگالدان، عجائب گھر ، کفن چوری جیب گھڑ ی، امام باڑہ، منہ زور وغیرہ ہزاروں مرکبات ہیں۔

مخلوط زبانوں کے بننے کے دوران میں ایک اور بات بھی عمل میں آتی ہے جو قابل غور ہے۔ یعنی  ان میں سے ہر زبان کو اس خیال سے جانیں کہ ایک دوسرے کی بات آسانی سے اور جلد سمجھ میں آجائے۔ اپنی بعض خصوصیات ترک کرنی پڑتی ہیں اور صرف ایسی صورت باقی رکھنی پڑتی ہے جو یا تو مشترک ہوتی ہیں یا جن کا اختیار کرنا دونوں کے لیے سہل ہوتا ہے اور اس طرح دونوں میں توازن سا پیدا ہو جاتا ہے ۔ جو فریقین کے لیے سہولت کا باعث ہوتا ہے۔ اردو کے بننے میں بھی یہی ہوا۔ فریقین یعنی ہندو مسلمان دونوں نے اپنی اپنی زبانوں میں کتر بیونت کی ۔ اپنی مخصوص خصوصیات ترک کیں اور اس قربانی کے بعد جو زبان بنی اسے اختیار کرلیا، جو اب بھی ہماری ملکی اور قومی زبان ہے اور ہندوستان کی مشترک اور عام زبان ہونے کا درجہ حاصل کر چکی ہے، ہم نے اسے قربانی دے کر حاصل کیا ہے، اور کسی کا منہ نہیں ہوسکتا کہ ہم سے چھڑا لے۔

ایک حکیم کا قول ہے کہ غیر اقوام کے لوگوں کو اپنی قوم میں اس طرح جذب کر لینا کہ اپنے اور غیر میں امتیاز نہ رہے، بلاشبہ

مشکل کام ہے لیکن غیر زبان کے الفاظ کو اپنی زبان میں اس طرح جذب کر لینا کہ معلوم تک نہ ہو کہ یہ غیر ہیں اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ یہ استعداد اردو میں بہ درجہ کمال موجود ہے اس میں سیکڑوں ہزاروں لفظ غیر زبانوں کے اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ بولنے اور پڑھنے والوں کو خبر تک نہیں ہوتی کہ دیسی ہیں یا بد یسی ، اپنے ہیں یا پرائے۔۔

غرض ہماری زبان ایک خوش رنگ اور ہرا بھرا گلدستہ ہے جس میں رنگ برنگ کے خوبصورت پھول اور نازک پتیاں ہیں ۔ کیا ہم اس وہم سے کہ اس میں گلاب بدیسی ہے اور کچھ پتیاں باہر کے پودوں کی ہیں انہیں نوچ کر پھینک دیں گے؟ اگر کوئی ایسا کرے تو سراسر نادانی ہے۔

مجھے سر تیج بہادر سپرو کے اس قول سے حرف بہ حرف اتفاق ہے کہ" یہی زبان جسے ہم اردو کہتے ہیں ، تنہا وسیلہ ہے جس سے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی تہذیب کو مجھ سکتے ہیں یہی وہ ذریعہ ہے جس سے ہندو مسلمان میں اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں اس سے بڑھ کر کوئی غلطی نہیں ہو سکتی کہ اس زبان کو مٹانے اور اس رشتے کوتوڑنے کی کوشش کی جائے۔“ (تلخیص)
___ مولوی عبدالق

مولوی عبدالحق

(1870 - 1961)

بابائے اردو مولوی عبدالق اردو زبان کے ان شیدائیوں میں سے تھے جنھوں نے اپنی ساری زندگی اس زبان کی خدمت میں صرف کر دی۔ وہ قصبہ ہاپوڑ میں پیدا ہوئے ۔ بچپن ہی سے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ 1894 میں ایم ۔ اے ۔ او۔ کالج علی گڑھ سے بی۔ اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد پنجاب اور حیدرآباد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے ۔ عثمانیہ کالج اورنگ آباد میں بطور پرنسپل کام کیا۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے صدر اور پروفیسر رہے۔ انجمن ترقی اردو کے سکریٹری مقرر ہوئے اور زندگی بھر اس ادارے کی ترقی اور کامیابی کے لیے جی جان سے کوشش کرتے رہے۔ انجمن کی جانب سے مولوی عبدالحق کی ادارت میں ایک سہ ماہی ادبی رسالہ" اردو" جاری ہوا، جس نے تحقیقی, علمی اور ادبی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔ حیدر آباد یونیورسٹی نے ایل۔ ایل ۔ ڈی اور علی گڑھ یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں دے کر مولوی عبد الحق کی مجموعی خدمات کا اعتراف کیا۔ آزادی کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔

مولوی عبدالق ایک محقق ، سوانح نگار ، زبان داں ،لغت نویس، ماہر قواعد اور صاحب طرز انشا پرداز تھے ۔ ان کی تحریروں پر حالی کا سب سے زیادہ اثر ہے ۔ بول چال کی سادہ زبان میں پر خلوص جذبات کا بے لاگ اظہار کرتے ہیں۔ ہر بات خوب سوچ سمجھ کر لکھتے ہیں ۔ عبارت میں الجھاو نہیں مشکل زبان لکھنے والوں کو وہ اردو کا دشمن کہتے تھے اور آسان زبان لکھنے پر زور دیتے تھے۔ اردو ادب میں قدیم کتابوں کی تدوین، ترتیب اور اشاعت ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ان کتابوں پر ان کے مقدمات اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انگریزی اردو لغت اور اردو زبان کی قواعد کا بنیادی کام بھی مولوی عبدالحق کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔


غور کرنے کی بات:
مولوی عبد الحق کے اس مضمون سے اردو زبان کی بنیادی خصوصیات پر روشنی پڑتی ہے۔
اردو زبان کی سب سے بڑی خوبی اس کی وسعت ہے۔ اس میں غیر زبانوں کے بہت سے الفاظ اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ بولنے اور پڑھنے والوں کو احساس تک نہیں ہوتا ۔ یہ اندازہ لگانا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سے الفاظ دیسی ہیں اور کون سے الفاظ بد یسی۔
سوالوں کے جواب لکھیے :
1. مخلوط زبان سے کیا مراد ہے؟ وضاحت کیجیے۔
جواب:
2۔ زبان میں بدیسی الفاظ داخل ہونے کے کیا فائدے بیان کیے گئے ہیں؟
جواب:
3۔ اس مضمون میں اردو زبان کی کن خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے؟
جواب:
عملی کام :
ذیل میں دیئے گئے الفاظ اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
مخلوط۔    مترادف     قدر و منزلت     بے بہا
سبق میں جومحاورے اور کہاوتیں بیان کی گئی ہیں ان کی فہرست بنائیے۔
اس مضمون میں سر تیج بہادر سپرو نے اردو زبان کے بارے میں جو کہا ہے اسے اپنے لفظوں میں بیان کیجیے۔

Naya Qanoon by Saadat Hasan Manto NCERT Class 10 Nawa e Urdu

نیا قانون
  سعادت حسن منٹو
منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند سمجھا جاتا تھا گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابرتھی اور اس نے کبھی اسکول کا منھ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہورہا ہے استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔
پچھلے دنوں جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی افواہ سنی تھی تو اس نے گاما چودھری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبرانہ انداز میں پیشین گوئی کی تھی ۔” دیکھ لینا چودھری تھوڑے ہی دنوں میں اسپین میں جنگ چھڑ جائے گی۔"
اور جب گاما چودھری نے اس سے یہ پوچھا کہ اسپین کہاں واقع ہے تو استاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا تھا۔ ”ولایت میں اور کہاں ؟‘‘ اسپین میں جنگ چھڑی اور جب ہر شخص کو اس کا پتہ چل گیا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کو چوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے ، دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے اور استاد منگو اس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگہ چلاتے ہوئے اپنی سواری سے تازہ ہندو مسلم فساد پر تبادلہ خیال کر رہا تھا۔
استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ اس کے ہندوستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں مگر اس کے تنفر کی سب سے بڑی وجہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ
گورے کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھتا تو اسے متلی سی آجاتی۔ نہ معلوم کیوں وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے کو دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آجاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلی گل گل کر جھڑ رہی ہو۔
جب کسی شرابی گورے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا تو سارا دن اس کی طبیعت مکد رہتی اور وہ شام کو اڈے میں آ کر ہل مار کہ سگریٹ پیتا یا حقے کے کش لگاتے ہوئے اس گورے کو جی بھر کر سنایا کرتا۔
یہ موئی گالی دینے کے بعد وہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہتا تھا۔" آگ لینے آئے تھے اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں ۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے ۔ یوں رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں ۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا وہ اپنے سینے کی آگ اگلتا رہتا۔
’’ شکل دیکھتے ہو نا تم اس کی جیسے کوڑھ ہورہا ہے۔ بالکل مردار ، ایک دھپے کی مار اور گٹ پٹ گٹ پٹ یوں بک رہا تھا جیسے مار ہی ڈالے گا۔ تیری جان کی قسم، پہلے پہل جی میں آئی کہ ملاعون کی کھوپڑی کے پرزے اڑادوں لیکن اس خیال سے ٹل گیا کہ اس مردود کو مارنا اپنی ہتک ہے۔“ یہ کہتے کہتے تھوڑی دیر کے لیے وہ خاموش ہو جاتا اور ناک کو خا کی قمیص کی آستین سے صاف کرنے کے بعد پھر بڑ بڑانے لگ جاتا۔
"قسم ہے بھگوان کی ، ان لاٹ صاحبوں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تنگ آگیا ہوں ۔ جب کبھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانون وانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے ۔ تیری قسم جان میں جان آجائے ۔"
اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لا دیں اور ان کی گفتگو سے اس کو پتہ چلا کہ ہندوستان میں جدید آئین نافذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
وہ مارواڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میں آئے تھے گھر جاتے ہوئے جدید آئیں یعنی انڈیا ایکٹ کے بارے میں آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ "سنا ہے پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔ کیا ہر چیز بدل جائے گی ؟" "ہر چیز تو نہیں بدلے گی مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا۔ اور ہندوستانیوں کو آزادی مل جائے گی ۔"
” کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہوگا ؟"
ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابل بیان خوشی پیدا کر رہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا اور چا بک سے بہت بری طرح پیٹا کرتا تھا مگر اس روز وہ بار بار پیچھے مڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتا اور اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں
کے بال ایک انگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ او نیچے کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کر تے ہوئے بڑے پیار سے کہتا۔ ”چل بیٹا، ذرا ہوا سے باتیں کر کے دکھا دے۔“
مارواڑیوں کو ان کے ٹھکانے پہنچا کر اس نے انارکلی میں دینو حلوائی کی دکان پر آدھ سیر دہی کی لسی پی کر ایک بڑی ڈکار لی اور مونچھوں کو منہ میں دبا کر ان کو چوستے ہوئے ایسے ہی بلند آواز میں کہا۔ "ہت تیری ایسی کی تیسی ۔‘‘
شام کو جب وہ اڈے کو لوٹا تو خلاف معمول اسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اس کے سینے میں ایک عجیب وغریب طوفان برپا ہوگیا ، آج وہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سنانے والا تھا۔ بہت بڑی خبر اور اس خبر کو اپنے اندر سے باہر نکالنے کے لیے وہ سخت بے چین تھا۔ لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔
آدھ گھنٹے تک وہ چا بک بغل میں دبائے اسٹیشن کے اڈے کی آہنی چھت کے نیچے بے دلی کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دماغ میں بڑے اچھے اچھے خیالات آرہے تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کی خبر نے اس کو ایک نئی دنیا میں لا کھڑا کر دیا تھا۔ وہ اس نئے قانون کے متعلق جو پہلی اپریل کو ہندوستان میں نافذ ہونے والا تھا، اپنے دماغ کی تمام بتیاں روشن کر کے غور وفکر کر رہا تھا۔ اس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ" کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہوگا ؟‘‘ بار بار گونج رہا تھا اور اس کے تمام جسم میں مسرت کی ایک لہر دوڑا رہا تھا۔
    وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اس وقت اس کے دل کو بہت ٹھنڈک پہنچی جب وہ خیال کرتا کہ گوروں ، سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آتے ہی بلوں میں ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں گی۔
جب نتھو گنجا پگڑی بغل میں دبائے اڈے میں داخل ہوا تو استاد منگو بڑھ کر اس سے ملا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا۔ "لاہاتھ ادھر ........ ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے ۔ تیری اس گنجی کھوپڑی پر بال اگ آئیں۔"
اور یہ کہہ کر منگو نے بڑے مزے لے لے کر نئے قانون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کر دیں ۔ دوران گفتگو میں اس نے کئی مرتبہ نتھو گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپناہاتھ مار کر کہا "تو دیکھتارہ کیا بنتا ہے، یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضرور کر کے رہے گا۔"
استاد منگو موجودہ سوویت نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیز یں بہت پسند تھیں ، اسی لیے اس نے ’’روس والے بادشاہ" کو انڈیا ایکٹ“ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملا دیا اور پہلی اپریل کو پرانے نظام میں جونئی تبدیلیاں پیدا ہونے والی تھیں وہ انھیں’’روس والے بادشاہ " کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔
کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سرخ پوشوں کی تحریک جاری تھی ۔ استاد منگو نے اس تحریک کو اپنے دماغ میں ”روس والے بادشاہ اور پھر نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی کسی سے سنتا کہ فلاں شہر میں اتنے بم ساز پکڑے گئے ہیں یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے تو ان تمام واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا تھا۔
ایک روز اس کے تانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کر رہے تھے اور وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا۔
جدید آئین کا دوسرا حصہ فیڈ ریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا۔ اسی فیڈریشن دنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سنی نہ دیکھی گئی ہے۔ سیاسی نظریے کے اعتبار سے بھی یہ فیڈ ریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں‘‘
آن بیرسٹروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی چوں کہ اس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے۔ اس سے استاد منگو صرف اوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اس نے خیال کیا یہ لوگ ہندوستان میں نئے قانون کی آمد کو برا سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔ چناں چہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر دل ہی دل میں کہا ’ ٹوڈی چے! "
جب کبھی وہ کسی کو دبی زبان میں "ٹوڈی بچہ" کہتا تو دل میں یہ محسوس کر کے بڑا خوش ہوتا تھا کہ اس نے اس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے۔ اور یہ کہ وہ شریف آدمی اور’’ ٹوڈی بچے‘‘ میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
اس واقعے کے تیسرے روز گورنمنٹ کالج  کے تین طلبا کو اپنے تانگے میں بٹھا کر مزنگ جارہا تھا کہ اس نے ان تین لڑکوں کو آپس میں یہ باتیں کرتے سنا۔
نئے آئین نے میری امیدیں اور بڑھادی ہیں ۔ اگر.................. صاحب اسمبلی کے ممبر ہو گئے تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضرور مل جائے گی ۔
ویسے بھی بہت سی جگہیں نکلیں گی ۔ شاید اسی گڑ بڑ میں ہمارے ہاتھ بھی کچھ آجائے۔"
‘‘ ہاں ہاں کیوں نہیں ۔"
"وہ بے کار گریجویٹ جو مارے مارے پھر رہے ہیں ان میں کچھ تو کی ہوگی ؟“
اس گفتگو نے استاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیت اور بھی بڑھا دی اور وہ اس کو ایسی "چیز‘‘ سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو" نیا قانون ۔!‘‘ اور وہ دن میں کئی بار سوچتا۔" یعنی کوئی نئی چیز ! " اور ہر بار اس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وہ نیا ساز آجاتا جو اس نے دو برس ہوئے چودھری خدا بخش سے بڑی اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اس ساز پر جب وہ نیا تھا جگہ جگہ لوہے کی نکل چڑھی ہوئی کیلیں چمکتی تھیں اور جہاں جہاں پتیل کا کام تھا وہ تو سونے کی طرح دمکتا تھا۔ اس لحاظ سے بھی " نئے قانون‘‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضروری تھا۔
پہلی بار اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا مگر اس کے متعلق جو تصور وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اس کو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ضرور ٹھنڈک پہنچے گی۔
آخرکار مارچ کے اکتیس دن ختم ہوگئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے ۔ موسم خلاف معمول سرد تھا اور ہوا میں تازگی تھی ۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا اور اصطبل میں جا کر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر مسرور تھی ۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔
اس نے صبح کے سرد دھند لکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی ۔ آسمان کی طرح پرانی۔ اس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں مگر سوائے اس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پروں سے بنی تھی اور اس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہوئی تھی اور سب چیزیں پرانی نظر آتی تھیں ۔ یہ نئی کلغی اس نے نئے قانون کی خوشی میں 31 /مارچ کو چودھری خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنے میں خریدی تھی۔
گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز کالی سڑک اور اس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہوئے بجلی کے کھمبے ، دکان کے بورڈ ، اس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگرو کی جھنجھناہٹ ، بازار میں چلتے پھرتے آدی ......... ان میں سے کون سی چیز نئی تھی ،ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں لیکن استاد منگو مایوس نہیں تھا۔
"ابھی بہت سویرا ہے۔ دکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں" ۔ اس خیال سے اسے تسکین تھی۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتا تھا۔ ” ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے۔ اب اس سے پہلے نئے قانون کا کیا نظر آئے گا ؟"
جب اس کا تانگہ گورنمنٹ کالج کے دروازے پر پہنچا تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے ۔ جو طلبا کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے خوش پوش تھے۔ مگر استاد منگو کو نہ جانے ان کے کپڑے میلے میلے سے کیوں نظر آئے ۔ شاید اس کی وجہ تھی کہ اس کی نگاہیں آج کسی خیرہ کن جلوے کا نظارہ کرنے والی تھیں۔
تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر انارکلی میں تھا۔ بازار کی آدھی دکا نیں کھل چکی تھیں اور اب لوگوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی تھی ۔ حلوائی کی دکانوں پر گاہکوں کی خوب بھیڑ تھی ۔ منہاری والوں کی نمائشی چیز یں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی تھیں اور بجلی کے تاروں پر کئی کبوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے مگر استاد منگو کے لیے ان تمام چیزوں میں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ وہ نئے قانون کو دیکھنا چاہتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔
استاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ وہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا نہ صرف خواہش مند تھا بلکہ متجسس تھا۔ اس کی بیوی گنگاوتی اس کی اس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طور پر یہ کہا کرتی۔
" ابھی کنواں کھودا نہیں گیا اور پیاس سے بے حال ہورہے ہو۔“
کچھ بھی ہو مگر استاد منگو نئے قانون کے انتظار میں اتنا بے قرار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ آج نئے قانون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلتا تھا۔
لیڈروں کی عظمت کا اندازہ استاد منگو ہمیشہ ان کے جلوس کے ہنگاموں اور ان کے گلے میں ڈالے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی لیڈر گیندے کے پھولوں سے لدا ہو تو استاد منگو کے نزدیک وہ بڑا آدمی ہے اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بھیٹر کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں تو اس کی نگاہوں میں وہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانون کو وہ اپنے ذہن کے اسی ترازو میں تولنا چاہتا تھا۔
انارکلی سے نکل کر وہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دکان کے پاس اسے چھاونی کی ایک سواری مل گئی ۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو چا بک دکھایا اور دل میں یہ خیال کیا۔
” چلو یہ بھی اچھا ہوا۔ شاید چھاؤنی ہی سے نئے قانون کا کچھ پتہ چل جائے ۔"
چھاؤنی پہنچ کر استاد منگو نے سواری کو اس کی منزل مقصود پر اتار دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر بائیں ہاتھ کی آخری دو انگلیوں میں دبا کر سلگایا اور اگلی نشست کے گدے پر بیٹھ گیا۔ جب استاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی یا اسے کسی بیتے ہوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا تو وہ عام طور پر اگلی نشست چھوڑ کر پچھیلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کا گھوڑا تھوڑا سا ہنہنانے کے بعد بڑی دھمیی چال چلنا شروع کردیتا تھا۔ گویا اسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چھٹی مل گئی ہے گھوڑے کی چال اور استاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سست تھی، جس طرح گھوڑا آہستہ قدم اٹھا رہا تھا اسی طرح استاد کے ذہن میں نئے قانون کے متعلق نئے قیاسات داخل ہورہے تھے۔
وہ نئے قانون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر ملنے کے طریقے پر غور کر رہا تھا۔ اور اس قابل غور بات کو آئین جدید کی روشنی میں دیکھنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ اس سوچ بچار میں غرق تھا۔ اسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی سواری نے اسے بلایا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اسے سڑک کے اس طرف دور بجلی کے کھمبے کے پاس ایک ’’ گورا‘‘ کھڑا نظر آیا جو اسے ہاتھ سے بلا رہا تھا۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے استاد منگو کو گوروں سے بے حد نفرت تھی۔ جب اس نے اپنے تازہ گا ہک کو گورے کی شکل میں دیکھا تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہو گئے ۔
پہلے اس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اس کو خیال آیا ان کے پیسے چھوڑنا بھی بے وقوفی ہے۔ کلغی پر جو مفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ کر دیے ہیں ان کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہئیں ۔ چلو چلتے ہیں ۔"
خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگہ موڑ کر اس نے گھوڑے کو چا بک دکھا یا اور آنکھ جھپکنے میں وہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا ۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگہ ٹھہرایا۔ اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پوچھا۔
"صاحب بہادر کہاں جانا مانگتا ہے؟‘‘
اس سوال میں بلا کا طنز یہ انداز تھا۔ صاحب بہادر کہتے وقت اس کا اوپر کا مونچھوں بھرا ہونٹ نیچے کی طرف کھینچ گیا اور پاس ہی گال کے اس طرف جو مدھم سی لکیر ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصے تک چلی آرہی تھی ، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہوگئی۔ گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی۔ اس کا چہرہ ہنس رہا تھا اور اپنے اندر اس نے اس" گورے" کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔
جب "گورے‘‘ نے جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہوا کا رخ بچا کر سگریٹ سلگا رہا تھا ، مڑ کر تانگے کے پائیدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک استاد منگو اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں ۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ ایک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں سے گولیاں خارج ہوئیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اوپر کو اڑ گئیں۔
استاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اترنے والا تھا اپنے سامنے کھڑے گورے کو یوں دیکھ رہا تھا گویا وہ اس کے وجود کے ذرے ذرے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیز یں جھاڑ رہا ہے گویا وہ استاد منگو کے اس جملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گورے نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے کہا۔” جانا مانگٹا یا پھر گڑ بڑ کرے گا۔
"وہی ہے ۔ " یہ الفاظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئے ۔ اور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔
"وہی ہے۔ " اس نے یہ الفاظ اپنے منہ کے اندر ہی اندر دہرائے اور ساتھ ہی اسے پورا یقین ہوگیا کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی اور خواہ مخواہ کے جھگڑے میں جس کا با عث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی۔ اسے طوعاً و کر ہا بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں ۔ استاد منگو نے گورے کا دماغ درست کر دیا ہوتا بلکہ اس کے پرزے اڑا دیے ہوتے مگر وہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہو گیا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور پر کوچوانوں ہی پر گرتا ہے۔
استاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا۔ کہاں جانا مانگٹا ہے؟
استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔
گورے نے جواب دیا۔ ”ہیرا منڈی ‘‘
"کرایہ پانچ روپیہ ہوگا۔ " استاد منگو کی مونچھیں تھرتھرائیں۔
یہ سن کر گورا حیران ہوگیا۔ وہ چلایا۔ "پانچ روپے؟ کیا تم ........"
"پانچ روپے ‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔ کیوں جاتے ہو۔ یا بے کا ر با تیں بناؤ گے؟
استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہو گیا۔
گورا پچھلے برس کے واقعے کو پیش نظر رکھ کر استاد منگو کے سینے کی چوڑائی کو نظر انداز کر چکا تھا۔ وہ خیال کر رہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیراثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی ۔ اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پستہ قد گورے کو دیکھا۔ گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح سے اوپر کو اٹھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے گرا کر اسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔
ششدر و متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اس کی آنکھوں میں شرارے برس رہے ہیں تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ اس چیخ و پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا جو گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا۔
"پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ....... پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں ۔ اب ہمارا راج ہے بچہ!"
لوگ جمع ہو گئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو ان دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی چوڑی چھاتی پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہورہی تھی ۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہا نیتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔
وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب نیا قانون ہے میاں ۔ نیا قانون !
اور بے چارہ گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کی مانند کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔
استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے ۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ " نیا قانون ، نیا قانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
”نیا قانون" ، نیا قانون ۔ کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پرانا !"
اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔

سعادت حسن منٹو
(1912–1955)
منٹوضلع لدھیانہ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق کشمیر سے تھا۔ منٹو کی ابتدائی تعلیم امرتسر میں ہوئی ۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ آئے۔ اسی دوران تعلیم منقطع کر کے ملازمت کر لی ۔ منٹو ابتدا میں روسی ادب سے متاثر ہوئے اور کئی روسی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ ترقی پسند تحریک کے آغاز میں وہ اس تحریک سے متاثر ہوئے لیکن آگے چل کر وہ اس سے کنارہ کش ہو گئے ۔ ابتدا میں اخبار "مساوات‘‘(امرتسر) سے وابستہ رہے پھر ہفت روزہ مصور“ (بمبئی) میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا ۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی منسلک رہے۔ کچھ عرصہ علمی دنیا سے بھی وابستہ رہے۔ کئی فلموں کے لیے کہانیوں کے ساتھ مکالے اور اسکرین پلے بھی لکھے۔ ملک کی آزادی کے بعد 1948 میں وہ مستقل طور پر لاہور چلے گئے۔
’’ تماشا‘‘ منٹو کا پہلا افسانہ تھا جو انھوں نے جلیاں والا باغ کے سانحے سے متاثر ہو کر لکھا۔ منٹو نے افسانہ نگاری میں موضوع اور ہیت کے کئی ایسے تجربے کیے جو ان سے پہلے افسانہ نگاروں کے یہاں نظر نہیں آتے ۔ منٹو کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی حقیقت نگاری ہے۔ ”نیا قانون، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاوہ "سیاہ حاشیے‘‘ کے مختصر افسانے اس بات کا ثبوت ہیں کہ منٹو نے سیاسی مسائل اور موضوعات پر بھی قلم اٹھایا۔ افسانوں کے علاوہ منٹو نے ڈرامے،خاکے، ادبی اور فکاہیہ مضامین تحریر کیے اور ایک ناول "بلا عنوان" بھی شائع ہوا۔
’’ چغد‘‘ ’’سیاہ حاشیے‘‘ ’’ شکاری عورتیں،" پھندے‘‘ ’’ "سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ ’’ یزید‘ ’’ ٹھنڈا گوشت‘‘ ’’سڑک کے کنارے‘‘ ’’ دھواں‘‘ ’’ لذت سنگ‘‘ ’’ خالی بوتلیں خالی ڈبے‘‘ ’’ نمرود کی خدائی‘‘ وغیرہ ان کے افسانوں کے قابل ذکر مجموعے ہیں ۔

غور کرنے کی بات:
افسانہ نیا قانون‘ کا مرکزی کردار منگو کوچوان ہے۔ منگو کوچوان کے ذریعے منٹو نے ایک سیدھے سادے ان پڑھ تانگے والے کی سمجھ کو خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ یہ افسانہ اس دور میں لکھا گیا جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ انگریزوں کی یہ حکومت منگو کوچوان کو بہت کھلتی تھی۔ وہ
انگریزوں سے نفرت کرتا تھا اور اپنے ملک کو آزاد دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اس افسانے سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی سے پہلے ہندوستانی عوام میں انگریزوں کے خلاف غم وغصہ تھا۔ انگریزوں نے نہ صرف
حکومت کی بلکہ ہندوستانی عوام پر بہت ظلم بھی ڈھائے اور انھیں بے عزت بھی کیا۔
سوالوں کے جواب :
1- استاد منگو کون تھا اور اسے دنیا کے حالات کی خبر یں کس طرح ملا کرتی تھیں؟
2۔ منگو کوچوان انگریزوں سے کیوں نفرت کرتا تھا؟
3۔ ”نیا قانون کے آنے کی خبر سے منگو کوچوان کیوں خوش تھا؟

خوش خبری