| داستان | |
| سر گذشت آزاد بخت بادشاہ کی | میر امن |
| ادبی تاریخ | |
| مرزا مظہر جان جاناں | محمد حسین آزاد |
| طنز و مزاح | |
| سویرے جو کل آنکھ میری کھلی | پطرس بخاری |
| یادش بخیریا | مشتاق احمد یوسفی |
| خاکہ | |
| میر باقر علی داستان گو | شاہد احمد دہلوی |
ترتیب داستان سر گذشت آزاد بخت بادشاہ کی میر امن ادبی تاریخ مرزا مظہر جان جاناں محمد حسین آزاد طن...
| داستان | |
| سر گذشت آزاد بخت بادشاہ کی | میر امن |
| ادبی تاریخ | |
| مرزا مظہر جان جاناں | محمد حسین آزاد |
| طنز و مزاح | |
| سویرے جو کل آنکھ میری کھلی | پطرس بخاری |
| یادش بخیریا | مشتاق احمد یوسفی |
| خاکہ | |
| میر باقر علی داستان گو | شاہد احمد دہلوی |
میر باقر علی داستان گو
سوال 1: مصنف نے میر باقر علی کا جو حلیہ بیان کیا ہے اسے اپنے لفظوں میں لکھئے؟
جواب:مصنف نے میر باقر علی کا حلیہ اس انداز میں بیان کیا ہے ۔ ’دبلے پتلے سے آدمی تھے ۔سفید چھوٹی سی داڑھی، سر پر دو پلی ، پاؤں میں دیسی جوتی ، انگرکھا اور چست پاجامہ پہنتے تھے ۔ عمر ساٹھ اور ستر کے درمیان ، کھلتا ہوا رنگ ،سواسی ناک ، میانہ قد ، با تیں کرتے تو منہ سے پھول جھڑتے ۔“
سوال2: میر باقر علی داستان کس طرح سنایا کرتے تھے؟
جواب:میر صاحب بزم اور رزم کو اس انداز سے بیان کرتے کہ آنکھوں کے سامنے پورا نقشہ کھینچ جاتا۔ داستان کہتے جاتے اور موقع بہ موقع ایکٹنگ کرتے جاتے ۔ آواز کے زیروبم اور لب و لہجے سے بھی اثر بڑھاتے ۔ امیر حمزہ اور عیاروں کا جب بیان کرتے تو ہنساتے ہنساتے لٹادیتے ۔ ہتھیاروں کے نام گنانے شروع کرتے تو سوڈیڑھ سو نام ایک سانس میں لے جاتے ۔ پھر کمال یہ کہ نا م صرف طوطے کی طرح رٹے ہوۓ نہیں ہوتے تھے بلکہ آپ جب چاہیں ، ٹوک کر کسی ہتھیار کی شکل اور اس کا استعمال دریافت کر سکتے تھے۔ میر صاحب پو چھنے سے چڑتے نہ تھے بلکہ خوش ہوتے اور تفصیل سے بتاتے ۔ مثلا منجنیق کو بیان کرنے ہی میں پندرہ منٹ صرف کر دیتے ۔عورت کا حسن بیان کرنے پر آئیں تو زمین آسمان کے قلابے ملا دیں اور کچھ نہیں تو چال کی ہی سیکڑوں قسمیں بتاتے ۔ بیگم بن سنور کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آ رہی ہیں ۔ ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ، بیگم دہلیش نہیں پھلانگتی ۔ پھر کیا مجال کہ آپ میر صاحب کے بیان سے اپرانے یا اکتانے لگیں ۔
سوال3: میر باقر علی کی داستان سننے کیلئے کیا کیا اہتمام کیا جا تا تھا؟
جواب:میر صاحب کی داستان جہاں ہوتی وہاں اجلی چاندنیوں کا فرش بچھا یا جاتا ۔ میر صاحب کے لئے تخت بچھا یا جا تا۔ جس پر قالین اور گاؤ تکیہ لگا ہوتا ۔ مہمانوں کے لئے بھی گاؤ تکیوں کا اہتمام کیا جا تا تھا۔ گرمیوں میں شربت اور سردیوں میں چاۓ سے مہمانوں کی خاطر مدارات کی جاتی تھی ۔ میر صاحب افیون کا انٹا کھاتے اور چائے پی کر داستان گوئی کا آغاز کیا کرتے تھے۔
سوال4:میر باقر علی نے اپنے گھر پر داستانیں کہنی کیوں شروع کیں؟
جواب : ایک دور ایسا آیا کہ لوگوں کو دوروپے بھی اکھر نے لگے تو میر صاحب نے اپنے گھر پر داستان کہنی شروع کر دی اور ایک آنہ ٹکٹ لگا دیا۔ دس بیس شائقین آجاتے اور میر صاحب کو روپیہ سوا روپیہ مل جاتا۔ جب میر صاحب دہلی میں کہیں داستان کہنے جاتے تو دو روپے لیا کرتے تھے۔ جب لوگوں کو دو رو پے بھی اکھر نے لگے تو میر صاحب نے گھر پر ہی داستان کہنی شروع کر دی ۔کسی ایک داستان کا میر صاحب کو رو پیہ سوا رو پیہ مل جا تا ۔
سوال5 میر باقر علی نے کون کون سی کتابیں لکھیں؟
جواب:میر باقر علی نے گاڑے خان نے ململ جان کو طلاق دے دی‘’ پاجی پڑوس‘’مولا بخش ہاتھی“ جیسی کتابیں لکھیں ۔
سوال6: چاۓ کی خوبی یہ ہے کہ وہ لب بند ،لب ریز اورلب سوز ہو، ان الفاظ کی وضاحت کیجئے
جواب: لب بند سے مراد میٹھی ،لب ریز سے مراد بھری ہوئی پیالی اورلب سوز سے مراد بہت زیادہ گرم ہے ۔ مراد یہی ہے کہ صاحب بھری ہوئی پیالی میں میر میٹھی اور گرم چائے پیا کرتے تھے
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
سوال 1: سویرے جو کل آنکھ میری کھلی میں مصنف نے کیا پیغام دیا ہے؟
جواب: اس مضمون میں کاہلوں اور دل لگا کر نہ پڑھنے والوں پرطنز ہے جو مزاج میں بھی شدت پیدا کرتا ہے اورایسے لوگوں کو دل لگا کر پڑھنے کی ترغیب و تحریص بھی دلاتا ہے۔
سوال 2: لفظ ”قم اور حضرت عیسی میں کیا تعلق ہے؟
جواب: یہ ایک تلمیح ہے جس کا تعلق حضرت عیسی سے ہے ۔ حضرت عیسی مردوں کوقم باذن اللہ (اٹھ اللہ کے حکم سے ) کہہ کر زندہ کر دیا کرتے تھے۔
سوال 3: لالہ جی نے مصنف کو جگانے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا؟
جواب: لالہ جی نے زورزور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ جس سے مصنف نیند سے ںیدار ہو جائیں
سوال 4: سبق کے آخر میں مصنف نے صبح اٹھنے کا مسئلہ کس طرح طے کیا ؟
جواب: سبق کے آخر میں مصنف نے صبح اٹھنے کا مسئلہ اس طرح طے کیا کہ پہلے لالہ جی کہ پکارنے پر چھ بجے اٹھ جاتے تھے اور پھر دوبارہ سو جاتے تھے اور دس بجے اٹھتے تھے اور اگر اس بیچ لالہ جی ان کو آواز دیتے تھے تو وہ نماز کا بہانا بنا دیا کرتے تھے۔
مرزا مظہر جان جاناں
سوال 1: مصنف نے مرزا مظہر جان جاناں کے نام ونسب سے متعلق کیا اظہار خیال کیا؟
جواب: مرزا مظہر جان جاناں کے والد عالمگیر کے دربار میں صاحب منصب تھے ۔ نسب ان کا باپ کی طرف سے محمد حنیفہ سے ملتا ہے جو کہ حضرت علی کے بیٹے تھے ۔ ماں بہالپور کے شریف گھرانے سے تھیں ۔دادس بھی دربارشاہی میں صاحب منصب تھے ۔دادی اسد خاں وزیر کی خالہ زاد بہن تھیں۔ پر دادا سے اکبر بادشاہ کی بیٹی منسوب ہوئی تھیں ۔ ان رشتوں سے میموری خاندان کے نواسے تھے۔
سوال 2: محمدحسین آزاد نے مرزا مظہر جان جاناں کی شخصیت کے کن پہلوؤں کواجاگر کیا ہے؟
جواب: مصنف نے مرزا مظہر جان جاناں کی نازک مزاجی ، لطافت مزاج ،سلامتی طبع ، وضعداری سلیقے توکل اور قناعت جیسے اوصاف کو جوان کی شخصیت کے جز تھے اجاگر کیا ہے ۔
3: مرزا مظہر کا نام جان جاناں کس نے رکھا اور کیوں؟
جواب : اس زمانے میں آئین سلطنت تھا کہ امراء کی اولاد کا نام بادشاہ رکھا کرتا تھا چنانچہ حسب روایت عالمگیر نے کہا کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے ۔ باپ مرزا جان ہے ۔اس لئے اس کا نام ہم نے جان جاناں رکھ دیا۔۔
سوال 4: مرزا مظہر جان جاناں بے ڈھنگی بات کو پسند نہ کرتے تھے ۔اس بیان کی دلیل میں کوئی مثال پیش کیجئے
جواب: جس چار پائی میں کان ہو اس پر بیٹھا نہ جاتا تھا،گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ چنانچہ دلی دروازے کے پاس ایک دن ہوادار میں سوار چلے جارہے تھے ۔راہ میں ایک بننے کی چار پائی کے کان پر نظر جا پڑی۔ وہیں ٹھہر گئے اور جب تک اس کی کان نہ نکلوالی آگے نہ بڑھے ۔اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا مظہر جان جاناں کوئی بے ڈھنگی بات پسند نہ کرتے تھے۔
سوال5: مرزا مظہر جان جاناں پر چند جملے لکھئے اوران کے انتقال کا واقعہ اپنے الفاظ میں لکھئیے
جواب: مرزا مظہر جان جاناں بہت ہی وضع دار انسان تھے۔ وہ کوئی بے ڈھنگی بات پسند نہ کرتے تھے۔ ٹیڑھی ٹوپی پہن لینے سے ان کے سر میں درد ہو جا تا تھا۔ جب دنیا نے دلی کو چھوڑا تو بھی آپ نے بزرگوں کے آستانے کو نہ چھوڑا۔ ساتویں محرم کی رات کے وقت ایک شخص مٹھائی لے کر آیا اور اس نے مرید بن کر آواز دی اور انہیں باہر آنے کو کہا۔ وہ باہر نکلے تو ایک قراین ماری کی گولی سینے کے پار ہوگئی اور بھاگ گیا ۔ کافی زخم آیا ، تین دن تک زندہ ہے اوراپنے قاتل کو سزا نہ دینے کی وصیت کرتے ہوۓ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔
سر گذشت آزاد بخت بادشاہ کی
سوال 1: داستان کسے کہتے ہیں اور اس کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟
جواب: داستان ایک طویل اور مسلسل قصے کو کہتے ہیں ۔اس میں واقعات کو پرکشش انداز میں پیش کیا جا تا ہے تا کہ پڑھنے والے کی دلچسپی برقرار رہے اور پڑھنے والا سوچتا رہے کہ آگے کیا ہوگا ۔ داستان میں سیدھی سادی باتوں کے علاوہ مافوق الفطری واقعات بھی پیش کیے جاتے ہیں ۔حسن وعشق کی باتیں، شہزادوں اور پریوں کی ملاقاتیں، زندگی کی چھوٹی بڑی وارداتیں، پیچیدگیاں ، الجھنیں اور عجیب وغریب باتیں ہوتی ہیں ۔ زبان و بیان کی دلکشی اور لطف داستان کے لیے ضروری ہے ۔ عام طور سے داستانوں کے اندر کئی قصے ہوتے ہیں یا ایک قصے کے اندر دوسرے قصے بیان کیے جاتے ہیں ۔
سوال 2: میرامن کے طرز تحریر کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟
جواب: میر امن کا طرز تحریر سادہ سلیس اور رواں دواں ہے ان کے اسلوب میں شگفتگی اور تازگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ان کی عبارت سے اجنبیت ظاہر نہیں ہوتی ۔ ان کی زبان سادہ سلیس اور با محاورہ زبان ہے ۔ان کی تحریر میں آج کی سی تازگی اور رعنائی ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بول چال کی آسان زبان استعمال کی ہے مثلا شب برات کو انہوں نے شبرات لکھنا زیادہ پسند کیا ہے ۔اس لئے آج بھی ان کے اسلوب کی دلکشی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ میر امن کا اسلوب سادہ پسلیس اور رواں دواں ہے یا یوں کہئے کہ میر امن کے یہاں سادگی میں پر کاری نظر آتی ہے۔
سوال 3: بادشاہ نے سوداگرکو کیا کیا سہولتیں دے رکھی تھیں؟
جواب : بادشاہ نے سوداگر کوسند راه داری لکھ کر دی تھی جس کا مطلب تھا وہ اس کے پورے ملک میں بغیر روک ٹوک تجارت کر سکتا تھا اور اس سے کوئی ٹیکس وصول نہ کیا جائے ۔اس کے علاوہ ہر جگہ اس کے آرام کا خیال رکھا جاۓ ۔ بادشاہ نے سوداگر کو دربار میں حاضر ہونے کی بھی اجازت دے رکھی تھی۔
سوال 4: وزیر نے بادشاہ کو کیا نصیحت کی؟
جواب : وزیر نے بادشاہ کو یہ نصیحت کی کہ بادشاہوں کو ایک حقیر سے پتھر کی اس قدر تعریف نہیں کرنی چاہئے کیونکہ آپ کے دربار میں بہت سے ملکوں کے سفیر حاضر ہیں جب یہ لوگ اپنے ملکوں میں جا کر آپ کے اس عمل کے بارے میں بتائیں گے تو وہاں کے لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے۔
سوال: بادشاہ نے وزیرکوسزا کیوں دی؟
جواب : وزیر نے بادشاہ کو بتایا کہ آپ کے جواہر سے بڑے سات جواہر ایک سوداگر نے اپنے کتے کے پٹے میں لگا کر اس کے گلے میں ڈال رکھے ہیں ۔ بادشاہ کو وزیر کی یہ بات پسند نہیں آئی بلکہ اسے یہ بات بالکل جھوٹ لگی ۔اس لئے اس نے وزیر کوسزادی
سوال: فرنگ کے بادشاہ کے سفیر نے وزیرکوسزاۓ موت سے کیسے بچایا؟
جواب: فرنگ کے بادشاہ کے سفیر نے کہا کہ جب تک اس کا جرم ثابت نہ ہو جاۓ اس وقت تک اسے سزاۓ موت نہ دی جاۓ اور اس طرح اس نے وزیرکوموت کی سزا سے بچالیا۔
کےحالاتِ زندگی
اعلانِ حج
حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر سے فارغ ہو گئے تو جبریل علیہ السلام آئے، تمام مقامات حج کی نشاندہی کی، اور اسی موقع پر اللہ کا حکم پہنچا کہ لوگوں کو حج کے لیے پکارو! قرآن کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے:-
( لوگوں میں اعلان کردو حج کے لیے، وہ آئیں گے پیدل اور دُبلی اونٹنیوں پر سوار، جو آئیں گی ہر چوڑے اور گہرے راستے سے)
صاحب تفسیر ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ:-
جب خدا کا حکم ابراہیم کو پہنچا تو انھوں نے عرض کیا پروردگار میری آواز لوگوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے۔ ارشاد ہوا، تم پکارو! ہم تمھاری آواز لوگوں تک پہنچا دیں گے۔
صاحب تفسیر جلالین نے لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جبل بوقبیس پر پڑھ کر اس طرح اعلان کیا:-
”لوگو اللہ نے ایک گھر بنایا ہے اور تم پر حج فرض کیا ہے لہذا تم اپنے پروردگار کی پکار پر لبیک کہو“
خدا کی قدرت آپ کا یہ اعلان یورپ ،پچھم ، اُتّر، دکھن کی آخری حدوں تک سنا گیا اور سننے والوں نے لبیک کہا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام خود بھی ہر سال حج کے لیے آتے، آپ کے بعد انبیا اور ان کی اُمّتیں حج کے لیے آتی رہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اپنے تمام حج پیدل کیے۔
ایک روایت ہے کہ پچھتر انبیائے کرام علیہم السلام نے حج کیا اور منیٰ میں نماز ادا کی۔
عجائبات کا ظہور
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بہت سے عجائبات کا تعلق ہے ان سب کا احاطہ اس میں نہیں کیا جا سکتا، صرف چند کا اختصار کے ساتھ یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
(۱) سب سے پہلے آپ نے مکہ کو آ باد کیا، اپنی اولاد کو وہاں بسایا،پہلے وہاں کوئی آبادی نہ تھی۔
(۲) خانہ کعبہ جو ایک سرخ ٹیلا کی شکل میں تھا اسے تعمیر کیا۔
(۳)کعبہ کی تعمیر کے بعد، اللہ کے حکم سے آپ حج کا اعلان کیا اور اللہ تعالی نے آپ کے اعلان کی آواز کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔
عمر میں اختلاف
وقت وفات، آپ کی عمر کے بارے میں کئی قول ہیں، کسی مورخ نے ایک سو پچھتر سال، کسی نے نوّے اور کسی نے دو سو سال بتائی ہے۔
حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق نے حضرت سارہ کی قبر کے پاس آپ کو دفن کیا۔
|
آئینہ پیش کرتا ہے آج سے 10ذوالحجہ تک روزانہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام(از خلیل احمد جامعی) کی مختصر حالاتِ زندگی۔
اپنے بچّوں اور اہل خانہ کو بلند آواز میں پڑھ کر سنائیں یا اُن سے سنیں تاکہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے گھر والوں،اپنی حکومت اور اپنی قوم کی دشمنی کے باعث کن مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح آپ ان سے عہدہ بر آہوئے اور کس انہماک اور لگن کے ساتھ آپ نے اپنے فرائض کو انجام دیا، یہ ایک بڑی دلچسپ اور سبق آموز داستان ہے،عام مسلمانوں اور طلبہ کو اس سے عبرت و نصیحت حاصل ہوگی ۔
|
(Day-1) اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام
|
آئینہ پیش کرتا ہے آج سے 10ذوالحجہ تک روزانہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام (از خلیل احمد جامعی)کی مختصر حالاتِ زندگی۔
اپنے بچّوں اور اہل خانہ کو بلند آواز میں پڑھ کر سنائیں یا اُن سے سنیں تاکہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے گھر والوں،اپنی حکومت اور اپنی قوم کی دشمنی کے باعث کن مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح آپ ان سے عہدہ بر آہوئے اور کس انہماک اور لگن کے ساتھ آپ نے اپنے فرائض کو انجام دیا، یہ ایک بڑی دلچسپ اور سبق آموز داستان ہے،عام مسلمانوں اور طلبہ کو اس سے عبرت و نصیحت حاصل ہوگی ۔
|
|
:تدریسی اشارے
آپ جانتے ہیں کہ ا (الف ) تحریری علامت ہے۔ اس کی اپنی کوئی آواز
نہیں ہے جب تک اس پر اعراب نہ لگایا جائے۔ اس سبق میں طالبِ علم کو صرف
اس حرف کا نام الف بتایا جاۓ اور تصویروں کے ذریعے حرف کی پہچان کرائی
جاۓ ۔ طالب علموں کو بتا یا جاۓ کہ اس نشان کو مد کہتے ہیں ۔اس کا
استعمال صرف الف پر ہوتا ہے اور آ کی آواز دیتا ہے۔ ہر سبق میں متعارف
کیے جانے والے حروف کو بار بار پڑھوا یا جاۓ اور لکھنے کی مشق کرائی جاۓ
دکھاتے ہیں۔
|
| 1. | ا۔۔۔آ |
| 2. | ب۔۔پ ۔۔ت ۔۔ٹ۔۔ث |
| 3. | ن---ی---ے |
| 4. | ج---چ---ح---خ |
| 5. | د---ڈ---ذ---و |
| 6. | ر---ڑ---ز---ژ |
| 7. | زبر---زیر---پیش |
| 8. | س---ش |
| 9. | جزم |
| 10. | ص---ض |
| 11. | ط---ظ |
| 12. | ع---غ |
| 13. | ف---ق |
| 14. | تشدید |
| 15. | ک---گ |
| 16. | ل---م |
| 17. | ہ |
| 18. | بھ---پھ---تھ---ٹھ |
| 19. | جھ---چھ |
| 20. | دھ---ڈھ---ڑھ |
| 21. | کھ---گھ |
| 22. | نون غنّہ |
| 23. | ہمزہ |
| 24. | حروفِ تہجّی |
| 25. | حمد |
| 26. | یہ میرا گھر ہے میرا گھر |
| 27. | گِنتی |
انٹرویو ایک صحافی سے
2018
تحسین عثمانی رسالہ اسپین کے مدیر ہیں۔یہ رسالہ امریکی سفارت خانے سے شائع ہوتا ہے ۔آپ نے دہلی میں روزنامہ عوام سے اپنی صحافتی ز ندگی کا آغا زکیا اور دہلی کے کئی دیگر بڑے اخبارات میں بھی صحافتی خدمات انجام دیں۔آپ نے روز نامہ عوام،ہندوستان ایکسپریس اور خبررساں ایجنسی یو۔این۔آئی میں کام کیا۔ آپ نے صحافتی امور کے لئے بیرونی ممالک کے دورے بھی کئے۔وہ ہفت روزہ ویوزٹائمز کے پبلیشراور مدیر بھی رہے۔پیش ہیں ان سے لئے گئے ایک انٹرویو کے اقتباسات۔
سوال۔آپ کو صحافت کا شوق کیسے ہوا؟
جواب۔صحافت کا شوق مجھے بچپن سے تھا۔اسکول سے ہی مجھے مضامین لکھنے کا شوق رہا اور جب میں آٹھویں کلاس میں تھا تب میں نے مضمون نویسی کے ایک مقابلہ میں حصہ لیا جس میں ضلع بھر کے تمام اسکولوں کے طلبہ نے شرکت کی۔مقابلہ کا موضوع تھا"اقبال کی وطنی شاعری"اس میں مجھے اول انعام حاصل ہوا۔جب میں دلی آیا تو یہاں رہنے کے لئے کچھ کام کرنا ضروری تھا۔دہلی میں گزر بسر آسان نہیں تھی اور مجھے رہنے کے لئے نوکری کی ضرورت تھی لکھنے پڑھنے کا شوق شروع ہی سے تھا اس لیےاعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کے لیےمیں نے یہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم۔اے میں ایڈمیشن لیا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری کا سلسلہ بھی جاری رکھا یہ میرا شوق بھی تھا اور میری ضرورت بھی۔
سوال۔اگر آپ صحافی نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
جواب۔صحافت میرا شوق تھا اور اس شوق نےمجھے کسی اور جانب جانے نہیں دیا۔ورنہ اگر میں صحافی نہیں ہوتا تو آج میں کسی کالج میں لیکچرر اور پروفیسر ہوتا لیکن صحافت کا شوق اس درجہ غالب تھا کہ میں نے مدرسی کا پیشہ چھوڑ کر صحافت کےمیدان میں جانے کو ترجیح دی۔صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں آپ ہمیشہ مظلوموں اور کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اردو صحافت نے ہمیشہ ہی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی۔حق کے لئے آواز اٹھانے کا جو جذبہ تھا اس نے مجھے ہمیشہ اس بات کے لئے مجبور کیا کہ میں اپنے قلم سے ان تمام لوگوں کی آواز بنوں جو کہ اپنے حق سے محروم ہیں۔
سوال۔آپ کی نظر میں ایک اچھا صحافی بننے کے لئے کن باتو ں کا ہونا ضروری ہے؟
جواب۔ایک اچھا صحافی وہی ہوسکتا ہے جس کے دل میں کمزوروں کی محبت ہو وہ کمزوروں کے حق کے لئے آواز اٹھانے کا جذبہ اپنے دل میں رکھتا ہو۔وہ سماج میں کچھ بہتر ہوتا دیکھنا چاہتا ہو۔وہ صرف حکومت کی مخالفت نہ کرے بلکہ اس کی غلطیوں کی نشان دہی بھی ضرور ی سمجھے ۔اس لئے ایک اچھے صحافی کو حکومت کی کمزوریوں پر اپنی نظر رکھنی چاہئے اور اس کی نشان دہی کے ساتھ اس کے حل کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہئے۔ سماج کے لئے جو بہتر ہو اسے اپنی تحریر میں لانا چاہئے۔ ایک صحافی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جس زبان میں صحافت کرتا ہے اس زبان پر اسےعبورحاصل ہو۔ آج کل دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جو صحافی ہیں وہ اپنے سبجیکٹ میں کمزور ہیں اس لئے جو اخبارات ہیں اس میں ایسی غلطیاں نظرآتی ہیں جو افسوسناک ہیں۔
سوال۔آپ اپنے کچھ نمایا ںکام بتائے؟
جواب۔بچپن سے مجھے آن لائن یعنی انٹرنیٹ پہ کام کرنے کا شوق رہا اس لئے میں اپنے شروعاتی دور میں جب کہ انٹرنیٹ کا آغاز تھااور اردو اخبارات اس سے آشنا نہیں تھےمیں نے انٹرنیٹ پر ویب سائٹ بنانے کا کام کیا۔جو ہندوستان میں اردو اخبارات کے لیے ایک مشعل راہ بنی تھی۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر مکمل طور سے دسترس رکھنے والے صحافیوں کی جو کھیپ تھی ان میں شاید میں پہلا صحافی تھا جو دوسروں کی بہ نسبت اس میدان میں کہیں زیادہ ممتاز تھا۔اور یہی سبب ہے کہ میں آج اس مقام پر ہوں۔
سوال: اردو ادب میں آپ کی پسندیدہ شخصیت کون سی ہے؟
جواب: میری پسند ایک ایسی شخصیت ہے جسے ادب والوں نے ادب کا حصہ قبول کرنے میں کنجوسی سے کام لیا۔ میں جاسوسی ادب کا دلدادہ ہوں اور میں نے ابن صفی کو اپنے بچپن سے ہی خوب پڑھا۔ اور آج جو زبان ہم بولتے ہیں یا لکھتے ہیں اس میں کم از کم میرے فن کی تخلیق میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ایک اچھے طالب علم کو چاہیے کہ وہ خوب مطالعہ کرے۔ اس لیے کہ آپ کامطالعہ جتنا وسیع ہوگا آپ کا قلم اتناہی تیز رفتار ہوگا۔آپ کے پاس الفاظ کا ایک خزانہ ہوگا جن کو آپ الگ الگ مواقع پر استعمال کر سکیں گے۔
سوال: آپ کی نظر میں ایک اچھے طالب علم کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ بہترین ادب پڑھے، اصلاحی ادب پڑھے۔خاص طور سے لڑکیوں کو مطالعہ میں اصلاحی کتابوں پر زیادہ زور دینا چاہیے۔دینی کتابیں ،اسلامی حکایات، اسلامی قصے، اسلامی طرز زندگی ،اسلامی طرز رہائش اور ساتھ ہی ساتھ انہیں چاہیے کہ ان پرانی لکھنے والی خواتین کے ناولوں کا مطالعہ کریں جو اپنے عہد کی سماجی زندگی کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔
سوال: آپ نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ کن کاموں میں صرف کیا؟
جواب: میری زندگی کا ایک بڑاحصہ پڑھنے لکھنے میں گزرا۔ میں نے سیکڑوںمضامین لکھے۔ اخبارات میں کام کرتے ہوئے دن کیا ہوتا ہے اور رات کیا یہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ میں ڈھائی تین بجے رات میں اخبار مکمل کرکے جب کوئی سواری نہیں ملتی تو حضرت نظام الدین سے اوکھلا پیدل گھر آتا۔میرے ساتھ میری ہی طرح کے کچھ اور دیوانے ہوتے جو اسی اوکھلا کے علاقے میں رہتے ہیں۔وہ سب لوگ وہ تھے جن کو تنحواہ کی فکر نہیں تھی۔ آج کے نظریے سے دیکھا جائے تو سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی کم تنخواہ میں اتنازیادہ وقت ہم کس طرح دیا کرتے تھے۔آج لوگ ۸ گھنٹے کی ڈیوٹی کرکے اس سے فاضل کام کرنا نہیں چاہتے لیکن ہم بغیر کسی اوور ٹائم کےصرف اور صرف اپنے شوق کی خاطر بہترین سے بہترین اخبار نکالنے کی کوشش کرتے۔
سوال: آپ نے اپنے اہم فیصلوں میں کس کس سے صلاح مشورہ کیا؟
جواب: زندگی کے ہر فیصلے میں میری سب سے بڑی صلاح کار اور مددگارمیری امی تھیں۔ انہوں نے آگے بڑھنے میں میری ہر طرح سے مدد کی اور میری کامیابی میں جو سب سے بڑا حصہ ہے وہ میرے والد کی دعاؤں کا ہے۔اگر آج ان کی دعا ئیں شامل حال نہیں ہوتی تو میں اس مقام پر نہیں ہوتا۔عملی طور میری امی نے نہ صرف اپنے مفیدمشوروں سے نوازا بلکہ مالی طور پر میرا ہر طرح سے ساتھ دیا۔جب دلی میں رہنا دشوار تھا تو ان کے بھیجے ہوئے روپے ہی میرا سہارا تھے۔اور اگر یہاں میں اپنے بھائیوں کا ذکر نہ کروں تو یہ نا انصافی ہوگی۔ میری بیگم بھی میرے مشوروں میں شامل رہیں اور آہستہ آہستہ اللہ کے فضل وکرم اور اپنی بیٹیوں کی قسمت سے ہم آج اس مقام پر ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نام بھی دیا،عزت بھی دی اور شہرت بھی۔
صحبہ عثمانی