آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday, 20 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-2

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

(دوسری محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن

کھانے میں آپ کو گھی، پنیراورکھجور میں ڈال کر پکائی ہوئی غذا بہت پسند تھی۔ سرکہ، شہد، حلوا،روغن زیتون اور کدوکی طرف رغبت تھی۔ کھجوراور روٹی بہت شوق سے کھاتے۔
گوشت میں مرغ، بٹیڑ، بکری، دنبہ ،بھیڑ اور اونٹ وغیرہ کا گوشت کھاتے۔ مچھلی بھی آپؐ نے کھائی ہے۔ فرماتے سب کھانوں میں سردار کھانا گوشت ہے ۔ اس سے یہ دھوکہ نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم برابر مرغ اور بٹیر کھاتے  تھے۔ ان پسندیدہ کھانوں کا موقع بہت کم آتھا ۔حضورؐ کے دن اکثر روزوں میں اور فاقوں میں بسر ہوتے تھے ۔
کھانا کھا کر دعاء فرماتے کہ اے اللہ اس سے بہتر کھانا دے لیکن جب دودھ پیتے تو فرماتے اے اللہ! ایسی ہی نعمت پھر دے۔ دودھ کبھی خالص استعمال فرماتے اور کبھی اس میں ذرا سا پانی ملادیتے۔ ٹھنڈا پانی بہت پسندتھا۔ کشمش، کھجور یا انگور کبھی پانی میں بھگو دیئے جاتے اوراسی سے پانی کو نتھار کر  آپؐ پیتے ۔تربوز کو کبھی کبھی کھجور کے ساتھ نوش فرماتے۔ آپ تین انگلیوں سے کھاتے تھے۔ کسی اونچی جگہ پر رکھ کر کھانا کھانا آپؐ کو پسند نہ تھا۔ بہت آہستہ آہستہ  چبا کر کھانا کھاتے۔ جو کچھ سامنے ہوتا، اسی کو کھاتے۔ کبھی اکڑوں بیٹھتے اور بھی ایک زانو پر بیٹھتے ۔لہسن اور پیاز سے بہت نفرت کرتے۔ مٹی کی چھوٹی  سی کوٹھری تھی جو آپ کا گھر تھا۔ زینت کے لئے ایک بار دیوار پر چادر لٹکائی گئی تو آپ نے منع فرمايااور  بتایا کہ کپڑے اس لیے نہیں کہ دیواروں کی زینت ہوں۔
گھوڑے کی سواری آپ کو بہت پسندتھی۔ گھوڑوں اور اونٹوں کو دوڑانے کے مقابلہ  میں آپ شریک ہوتے۔ تیراندازی کے مشق میں  بھی حصّہ لیتے۔آپ کشتی بھی لڑے ہیں اورعرب کے مشہور پہلوان رکانہ کو آپ نے کئی بار پچھاڑا ہے۔
آپ کبھی کبھی مزاح بھی فرماتے۔ ایک شخص نے آپؐ سے سواری مانگی۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں تم کو اونٹنی کا بچّہ دوں گا۔ اس نے کہا حضورمیں اونٹنی  کا بچہ کیا کروں گا۔ آپ نے فرما یاکوئی  اونٹ ایسا بھی ہے جواونٹنی کا بچّہ  نہ ہو؟
ایک بار ایک بوڑھی عورت نے درخواست کی کہ آپؐ اس کے لئے جنت کی دعاء فرمادیں۔ آپؐ نے کہا بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ وہ عورت یہ جواب سُن کر روتی ہوئی واپس ہوئی، تو آپ نے فرمایا کہ اُس کو پکا رکر کہہ دو کہ بوڑھی عورتیں جنت میں جوان ہو کر جائیں گی، بوڑھی نہیں رہیں گی۔
اُسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
آپ فرماتے، میں اچھے اخلاق کو مکمل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ یعنی  اچھی عادتوں کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں۔ قرآن میں ہے ”بے شک اچھی عادتوں میں آپؐ کا درجہ بڑا ہے۔“ اور قرآن میں یہ بھی ہے کہ اے لوگو! رسول کی زندگی میں ایسی باتیں ہیں جن کی تم پیروی کرو۔ اور یہ بھی ہے کہ اے لوگو تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آئے ہیں‘وہ ایسے نرم دل ہیں کہ تمہاری تکلیف دیکھ کر ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ ان کو لالچ ہے تو اس بات کی کہ وہ تمہارا کچھ بھلا کر دیں۔ اور وہ ایمان والوں پر شفقت اور مہربانی فرماتے ہیں۔ اور قرآن میں یہ بھی ہے کہ اللہ کی مہربانی سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نرم دل بناکر بھیجا گیا ہے۔ اگر آپ دل کے سخت ہوتے تو لوگ آپ کے چاروں طرف جمع نہ ہوتے( اور لوگ اچھی باتیں  جان نہ سکتے )۔ آپ کی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنها کا کہنا ہے کہ آپ کی عادتیں وہی تھیں جن کی تعلیم قرآن میں ہے۔
رعایت مروت:
ایک مرتبہ آپ اونٹ پر سوار تھے۔ ایک صحابی( یعنی آپ کے سنگ میں رہنے والے) آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا”آؤ سوار ہو لو ۔“انھوں نے اس وجہ سے انکار کیا کہ حضور کی بے ادبی ہوگی۔ آپ نے کئی بار کہا ۔ جب نہ مانے تو آپؐ اتر گئے۔ مجبوراً صحابی کو سوار ہونا پڑا۔
حضرت زینبؓ کے نکاح میں آپ نے دعوت ولیمہ کی ،کچھ لوگ دعوت کے  بعدبھی بیٹھے رہے۔حضرت زینبؓ بھی وہیں تھیں( اس وقت تک پردہ کا حکم نہیں ہوا تھا)۔ آپؐ چاہتے تھے کہ لوگ چلے جائیں۔ لوگوں کو خیال نہیں تھا۔ آپؐ کبھی باہر جاتے کبھی اندر آتے لیکن زبان سے لوگوں کو کہہ  نہ سکے کہ چلے جاؤ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ میں کتنی مروت تھی اور آپ چپ چاپ کتنی تکلیف اٹھا لیتے تھے۔
مدینہ میں ایک مرتبہ کال پڑا۔ ایک شحض بھوک سے نڈھال ہو کر ایک کھجور کے باغ میں گھس گیا۔ خوب کھجوریں کھائیں اور کچھ گھرلانے کے لئے رکھیں۔ اتنے میں باغ کا مالک آپہنچا اور سب کچھ چھین لیا۔ آپ کو جب معلوم ہوا تو باغ کے مالک کو بلا بھیجا اور فرمایا ”یہ بے چارہ جاہل تھا اسے تم بتاتے ، یہ بھوکا تھا اس کو کھانا کھلاتے۔“ اور پھر کھجوروں کے بدلہ میں باغ کے  مالک کو حضور نے غلّہ دیا۔ حضورؐ ہمیشہ اسی طرح لوگوں کے ساتھ رعایت اور مہربانی سے پیش  آتے تھے۔
ایک شخص آپؐ کے پاس آیا۔ آپؐ نے بڑی نرمی اورمحبت سے بات چیت کی۔ جب وہ چلا گیا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ تو اس شخص کو اچھانہیں سمجھتے تھے۔حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :۔
” اللہ سب سے برا اس کو سمجھتا ہے جس کی بات چیت کڑی اور سخت ہو اور اس کی سخت بات سے لوگ اس کے پاس اُٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیں ۔“
نیک برتاؤ اور اچھا سلوک کرنے میں آپؐ مسلمان، کافر، دوست، دشمن  سب کو برابر سمجھتے۔ ہر سے ایک طرح  ملتے۔
(جاری : کل تیسری محفل میں پڑھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر اوصاف)

Monday, 19 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-1

  مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(پہلی محفل)
وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
بشکریہ حسنین مبشر
میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

میلاد کا مقصد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کو  سنیں اور ان کو اپنی زندگی کے لیے نمونہ بنائیں اس لیے
ضروری ہدایت 
مجلس میں ادَب سے با وضو بیٹھنا چاہئے، فضول باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے، شور نہیں مچانا چاہئے، جھگڑا نہیں کرنا چاہئے، آہستہ آہستہ درُود پڑھنا چاہیے، توجہ سے میلاد کے مضامین کو سننا چاہئے، میلاد کی کتاب کے کئی حصّے کرکے پڑھیں تو بہتر ہے۔ آخر میں خوب جی لگاکر عاجزی و انکساری سے دعاء کرنی چاہئے۔ 
حمد باری تعالیٰ
وحده لا شریک، تیرے سوا
نہ زمیں تھی نہ یہ زمانہ تھا

نہ ستاروں کی تھیں یہ قندیلیں
آسماں کا نہ شامیانہ تھا 

ابخرے تھے، کہیں نہ  دَل بادل
بجلیوں کا نہ تازیانہ   تھا

نہ ملک تھے کہیں نہ آدم زاد
نہ کسی کا کہیں ٹھکانہ تھا

 نہ کہیں نام تھاعناصِر کا
نہ کہیں اس کا آشیانہ تھا

 نہ کہیں ہائے  وہوئے مستانہ
نہ کہیں نالہ عاشقانہ تھا 

نہ کہیں گل  نہ بلبلوں کا ہجوم
گلشنِ دہربے ترانہ تھا 

ہائے  کیا جی میں آگیا تیرے
دَم کے دَم میں یہ کارخانہ تھا

 دُرّ و گو ہروجودکے نکلے 
گویا مدفون اک خزانہ تھا
(حافظ عظیم آبادیؒ)

اَنبیاء علیہم السَّلام اور حَضرت محمّد رسُول اللہ صَلّی اللہ عَلیہ وسَلم
ایک اور پاک اور بے عیب اللہ نے ہم کو پیدا کیا اور ہماری ہدایت اور ہمیں اچھی باتیں بتانے اور بُری باتوں سے روکنے کے لئے ہم ہی میں سے رسول اورنبی بھیجے۔
یہ نبی اور رسول  اللہ کے حکم پرخود چلتے اور ہم کو چلاتے اور ہم  سے ان کو کوئی گزندبھی پہنچتا، کوئی تکلیف بھی ہوتی تو اس کی کوئی پروا نہیں کرتے اور ہم کو برابر بُری باتوں پرٹوکتے اور اچھی باتوں کی ترغیب دیتے۔
یہ  نبی اور رسول ہر زمانہ  میں اور ہر ملک میں پیدا ہوئے ۔ ان میں مشہورنبی اور رسول یہ نو ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام 
حضرت نوح علیہ السلام 
حضرت ابراہیم علیہ السلام
 حضرت یوسف علیہ السلام 
حضرت موسیٰ  علیہ السلام 
حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت سلیمان علیہ السلام 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم 
حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی اور رسول ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں پر ہماری ہدایت کے لئے کتابیں بھی ا تاریں۔ حضرت محمد رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کا نام قرآن (شریف) ہے ۔ قرآن الله تعالىٰ کی آخری کتاب ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی کو ئی کتاب نازل نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔
حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے  جتنےنبی اور رسول آئے  ان کا پورا پوراحال اب کسی کو معلوم نہیں کیونکہ وہ اپنے زمانہ اور اپنے علاقہ کی ہدایت اور رہنمائی  کے لئے آئے تھے۔ ان کا کام ہر زمانہ اور ہر ملک کے لئے نہ تھا۔ ان پر جو کتابیں اتریں، نہ ہمارے زمانہ میں ان کی ضرورت ہے، نہ اپنی شکل میں پوری پوری موجود ہیں ۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں اوران کی ہدایت رہتی دنیا تک  اورساری دنیا کے لئے ہے ، اس لئے ان کا پورا پورا حال کتابوں میں موجود ہے اور ہم سب پران کی پیروی لازم ہے اور ان پر جو کتاب اُتری وہ بھی اسی لئے اپنی اصلی شکل میں حرف حرف اور لفظ لفظ موجود ہے اور اس میں سرمو کوئی فرق نہیں ہوا ہے۔
ہم پر اللہ تعالی ٰکا شکر واجب ہے جس نے ہم کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی  اُمّت میں بنایا ۔ 
الحمد للہ الذی ھدانا لھٰذا قف وما کنا لنھتدی لو لا ان ھدانا اللہ۔
(سب حمد ہے اس اللہ تعالٰ ی کے لئے جس نے ہمیں ہدایت دی اور اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم ہدایت نہ پاتے)
وَصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وَّ اٰلہ و اصحابہ وبارک وسلم
سراپائے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نہ بہت  لانبے تھے  نہ بہت چھوٹے۔ آپ کا قد بیچ بیچ میں  تھا۔جلد کا رنگ سرخ و سپید تھا، پیشانی چوڑی تھی، ناک اونچی اور خوبصورت، دانت صاف اور الگ الگ، گردن لانبی، سر بڑا ، سینہ چوڑا ،آنکھیں سیاہ اورسرمگیں، پلکیں بڑی بڑی، داڑھی  گھنی اور چہرے پر ہر وقت روشنی معلوم ہوتی تھی۔
سر کے بال گھنگھریالے تھے لیکن ان میں زیادہ بل نہ تھا۔ یہ بال کبھی کانوں کی لَو تک لٹکتے اور کبھی بڑھ کر کندھوں تک آجاتے ۔ہاتھ کی ہتھیلیاں گوشت سے بھری ہوئی اور چوڑی تھیں، پاؤں کے تلوے اتنے خالی تھے، کہ اندر سے پانی نکل جاتا تھا ۔آپ کا شکم مبارک  ہموار تھا اور پیٹ اور سینہ کے درمیان بالوں کا ایک باریک خط تھا۔
آپ کے پسینے سے ایک خاص قسم کی خوشبو آتی تھی۔  سر میں  اکثر تیل ڈالتے اور تیسرے دن کنگھی کرتے اوربیچ سے مانگ نکالتے۔
آپ زیادہ تر  کُرتا اور تہبند (لنگی) استعمال کرتے، کُرتاپر چادر پڑی ہوتی، سرسے سٹی ہوئی ٹوپی اور اس پر  پگڑی ہوتی۔ کبھی عبا بھی زیب تن فرماتے، پاوؤں میں موزوں کی عادت نہ تھی۔ شاہ نجاشی نے آپ کو موزے بھیجے تھے  تو آپ  نے استعمال فرمالیاتھا۔
 بچھونا چمڑے کاگدّا ہوتا جس میں کھجور کے پتّے بھرے ہوتے اوربان کی بُنی ہوئی چارپائی۔ پاوؤں  میں چپّل پہنتے جس میں تسمے لگے ہوتے۔
خوشبو آپ کو پسندتھی۔ برابر عطر لگاتے،  سر میں خوشبودار تیل ڈالتے، اپنے یہاں خوشبو کی انگیٹھیاں جلواتے، صاف کپڑے پہنتے، ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتے، بولی میٹھی تھی۔ سُننے والے کا جی نہیں بھرتا۔ بات کرتے وقت کبھی کبھی ہاتھ بھی ہلاتے۔ 
خوشی کے وقت آنکھیں  نیچی ہو جاتیں اور ہنسی آتی تو ذرا سا مسکرا دیتے۔
(جاری)

Sunday, 18 October 2020

Meelad e Rasool Maqboolﷺ

میلاد رسول مقبول ﷺ 
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

آج ہلال عید (میلادالنبی ﷺ)مطلع انوار پر جلوہ  افروزہوکر دنیا کوامن و سلامتی، محبت و خلوص اور آفات و بلا سے نجات کا پیغا م دے رہا ہے۔ یہ ماہ مقدس پیغمبر آخرالزماں،رحمةللعالمین ، سید المرسلین، آقائے دوجہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مہینہ ہے۔

اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے دنیائے انسانیت کواپنے مقبول رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺکے ذریعہ اپنی وحدت کا سچّا انعام دیا اور ایسے رسول کی امت بنایا جو سب نبیوں اور رسولوں سے افضل ہیں اور جن پر خود اللہ اور اس کے فرشتے درود  پڑھتے ہیں۔

جیسا ہمارا دین سچّا، مکمل اور اللہ کی سب نعمتوں کا خزانہ ہے ویسے ہی اس دین کے لانے والے پیغمبربھی پورے کامل اور پروردگار کی نعمتوں سے بھر پور ہیں۔ اور ان کو ہم مسلمانوں کے ساتھ جو ان کی امت ہیں بڑی محبت ہے۔

خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں:

اگرچہ اب وہ خدا کے اچھے رسولﷺجسم کی زندگی میں زمین پر موجود نہیں مگر اُن کی باطنی اور روحانی زندگی اب بھی اس دنیا میں موجود ہے اور ہماری حالتوں کی خبر خدا کی دی ہوئی قوت سےان کو رہتی ہے۔آٹھ دن کے اندر دو دفعہ امت کے نیک و بد حالات کی اطلاع فرشتے ان کو دیتے ہیں  اور جب وہ اپنی امت کی نیکی دیکھتے ہیں اچھے عمل ملاحظہ فرماتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور ہمارے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں۔اور جب ہمارے گناہوں کی خبر ان کو دی جاتی ہے تو بہت رنجیدہ ہوتے ہیں۔اور ان کے دل کو بہت تکلیف ہوتی ہے کیوں کہ وہ اپنی امت کی بھلائی کےعاشق زار ہیں۔وہ گوارا نہیں کرسکتے کہ ان کی امت برے کام کرکےدوزخ میں جائے اور قیامت کے دن کالے منہ ہوکر اٹھے۔

پس جب ہمارے رسول ﷺ کو ہمارا ایسا خیال ہے تو ہم کو یہی چاہیے کہ اپنے محبت کرنے والے پیغمبر خداﷺکو ہمیشہ یاد رکھیں اور ہر ہفتہ یا ایک مہینہ یا ایک سال میں تو اُن کا ذکر خیر ضرور کریں۔ آپ ﷺ کی اچھی باتیں سنیں۔اُن ﷺسے جی لگائیں اور جہاں تک ہو سکے اُن کی پیروی کریں۔ جن باتوں کا انہوںﷺ نےحکم دیا ہے اُن کو مانیں،جن سے منع کیا ہے ان کو نہ کریں۔ 

میلاد شریف کی محفلیں اسی ذکر خیر کے لیے ہوتی ہیں تاکہ مسلمانوں کے چھوٹوں ،بڑوں ،عورت ،مرد میں ہادی رسولﷺکی یاد قائم رہے۔

آئینہ محسن انسانیت ہادی برحق کی سیرت پاک اور اسوۂ حسنہ سے آپ کے قلوب کو روشن ومنور کرنے کے لیے آج سے 12 ربیع الاول تک روزانہ سیرت مبارکہ ﷺ پر ایک باب آسان زبان میں لے کر حاضر ہو رہاہے۔  اپنے بچّوں اور اہل خانہ کو بلند آواز میں پڑھ کر سنائیں  یا اُن سے سنیں تاکہ ہم سب کے دل جو زنگ آلود ہوچکے ہیں آپ ﷺ کے ذکر کی برکت سے روشن ہوسکیں اور ہم پر مسلط کی گئیں دنیاوی پریشانیوں سے ہمیں نجات ملے اور ہمارا دل اپنے رسول ﷺ کی محبت میں سرشار ہوکر ایک بار پھر خوشیوں اور خوشحالیوں سے لبریز ہو۔

دینی و دنیاوی فائدے کے لیےمیلادرسول ﷺ کی پاک محفلیں  آج وقت کی اہم ضرورت ہیں۔نام نمود اور نمائش اور ڈھول تاشوں  سے پاک عشق رسول ﷺسے منورو مامور پاکیزہ ماحول میں سادہ طور پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ  سیرت النبیﷺ کا ذکر کریں۔ کثرت سے درود پڑھیں اور اللہ سے انسانیت کی بھلائی، امن و امان،دشمنوں کے شر سے حفاظت، وباؤں اور بلاؤں سے نجات کی دعا کریں۔ 

سلام
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

سلام اس پرکہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

سلام اس پر کہ دشمن کو حیات جاوداں دے دی
سلام اس پر، ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی

سلام اس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اس پر، ہوا مجروح جو بازار طائف میں

سلام اس پر، وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے

سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا

سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اس پر، جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا

سلام اس پر، جو امت کے لئے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر، جو فرش خاک پر جاڑے میں سوتا تھا

سلام اس پر جو دنیا کے لئے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے

سلام اس پر کہ جس نے جھولیاں بھردیں فقیروں کی
سلام اس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی

سلام اس پر کہ جس کی چاند تاروں نے گواہی دی
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی

سلام اس پر، شکستیں جس نے دیں باطل کی فوجوں کو
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی

سلام اس پر کہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا
سلام اس پر کہ جو خود بدر کے میدان میں آیا

سلام اس ذات پر، جس کے پریشاں حال دیوانے
سناسکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے

درود اس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی

درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں

درود اس پر، جسے شمع شبستان ازل کہئے
درود اس ذات پر، فخرِ بنی آدم جسے کہئے​
​​
(ماہر القادری)
(جاری)

Parts of Urdu Poetry

 شاعری کے اجزاء

قافیہ اور ردیف
قافیہ:
قافیہ ان حروف اور حرکت کا وہ مجموعہ ہےجو ہم آواز ہوتے ہیں مگر الفاظ بدلے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ غیر مستقل طور پر اشعار کے دوسرے مصرعے کے آخر میں مگر ردیف سے پہلے بار بار آتے ہیں۔
ردیف:
  ردیف وہ حرف یا حروف ہیں جو شعر کے دوسرے مصرعے کے سب سے آخر میں یعنی قافیہ کے بعد مستقل طور پر آتے ہیں۔ ردیف کے حرف یا حروف بدلتے نہیں۔
ذیل کی غزل کے چند اشعار سے ردیف اور قافیہ  دونوں کی مثالیں واضح ہو جائیں گی۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اوپر کی غزل کے دوسرے مصرعےمیں ہم آواز الفاظ کاروبار،یار، غمگسار،دار ایسے الفاظ ہیں جو تقریباً ہم آواز ہیں مگر الفاظ بدلے ہوئے ہیں۔ یہی قافیہ کہلاتے ہیں جو ردیف ”چلے“ سے پہلے آتے ہیں۔اسی طرح ہر شعر کے دوسرے مصرعہ کے آخر میں لفظ ”چلے“ بار بار آیا ہے یہی ردیف ہیں جو قافیہ کے بعد بار بار آتے ہیں۔
مطلع:
 مطلع کے لغوی معنی ہیں طلوع ہونے کی جگہ مگر علم بیان میں غزل یا قصیدے کے سب سے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم ردیف اور ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ مثلاً فیض کی مذکورہ غزل کا سب سے پہلا شعر
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
مطلع کا شعر ہے آپ اس میں دیکھیں گے کہ دونوں مصرعوں میں قافیہ بہار اور " کاروبار موجود ہے اس کے علاوہ دونوں مصرعے ہم ردیف ہیں یعنی دونوں مصرعوں میں چلے ردیف ہے۔ مطلع اور مقطع کے علاوہ غزل کے باقی اشعار فرد کہلاتے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ان دونوں مصرعوں میں ہم ردیف یا ہم قافیہ نہیں ہیں۔
حسنِ مطلع
غزل میں مطلع اوّل کے فوراً بعد جو مطلع کا شعر آتا ہے اس کو حسنِ مطلع کہتے ہیں۔ کبھی کبھی غزل میں حسنِ مطلع کے بعد بھی مطلع کے اشعار آجاتے ہیں وہ الترتیب مطلع ثانی اور مطلع ثالث کہلاتے ہیں۔
شاہ بیت: 
غزل کا سب سے عمدہ شعر شاہ بیت یا بیت الغزل کہلاتا ہے مثلاً مومن کی غزل کا مندرجہ ذیل شعر شاہ بیت کہلاتا ہے اسی شعر کو سن کر مرزا غالب نے اتنا پسند کیا تھا کہ انھوں نے مومن سے کہا کہ تم میرا پورا دیوان لے لو اور  یہ شعر مجھے دے دو
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مقطع: 
مقطع غزل یا قصیدہ کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص لاتا ہے مقطع کہلاتا ہے
جیسے جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

طول غم حیات سے گھبرانہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو
مصرعہ:
شاعری کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔موزوں کلام کی ایک سطر (لائن) کو مصرعہ کہا جاتا ہے۔
شعر:
موزوں کلام کی دو سطروں یعنی دو مصرعوں کو ملا کر ایک شعر بنتا ہے پہلا مصرعہ اوّل اور دوسرا مصرعہ ثانی کہلاتا ہے۔
وزن و بحر:
وزن کی شرط،پہلے شاعری کے لئے ضروری سمجھی جاتی تھی۔اب بے وزن اور نثری شاعری بھی کی جاتی ہے۔ وزن سے مراد وہ مقررہ پیمانہ ہے جس پر ہم شعر کو پرکھتے ہیں۔عروض(شعر کے پہلے مصرعے کا آخری جز) کے ماہروں نے کچھ پیمانے یا اوزان مقرر کیے ہیں۔ ہر شعر کا کسی پیمانے کے مطابق ہونا ضروری ہے۔شاعری میں آہنگ اور نغمگی پیدا کرنے کے لئے اور نثر سے فرق پیدا کرنے کے لیے اوزان کی پابندی کی جاتی ہے جب یہ اوزان قافیے کی پابندی کے ساتھ استعمال کیے جاتی ہیں تو بحر کہلاتے ہیں۔گویا وزن اور قافیہ ہم آہنگ ہو کر بحر پیدا کرتے ہیں۔
تخلص:
وہ مختصر نام جو شاعر اپنے نام کی جگہ اپنی پہچان کے لئے شاعری میں لاتا ہے،تخلص کہلاتا ہے۔
مثلاً اسداللہ خاں کا تخلص غالب۔کبھی شاعر اپنے نام کا ہی کوئی حصہ اپنا تخلص بنا لیتا ہے۔مثلاً میر تقی کا تخلص میر اور مومن خاں کا تخلص مومن ہے۔تخلص کی پہچان کے لیے اس پر ایک مخصوص نشان بنا دیا جاتا ہے۔

Saturday, 17 October 2020

Red Cross Society NCERT Class 9 Jaan Pehchan

 ریڈ کراس سوسائٹی

جوڑ کا لال نشان آپ نے اکثر دیکھا ہوگا۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ شان کس طرح ڈاکٹروں کے لیے مخصوص ہو گیا۔ یہ بھی جاننا مناسب ہوگا کہ کس طرح کسی ایک شخص کے ذہن میں خدمت خلق کا جذ بہ ادارے کی شکل میں بدل جاتا ہے۔ اور بڑھتے بڑھتے دنیا کے ہر گوشے میں پھیل جاتا ہے ۔ آج ریڈ کر اس سوسائٹی صرف علاج کا ادارہ نہیں بلکہ انسانی ہمدردی اور خدمت کا سب سے بڑا عوارمی مور چہ بھی ہے ۔ آیئے اس سوسائٹی اوراس کے قائم کرنے والےکے بارے میں بعض معلومات حاصل کریں۔
      سو سال پہلے کی بات ہے۔ اٹلی کے ایک چھوٹے شہر سلفر ینو پر آسٹریا کی طاقتور فوج کا قبضہ تھا۔ فرانس نے اپنے دوست ممالک کی مدد سے آسٹریا کی فوج پر حملہ کر دیا۔ بڑی خوں ریز لڑائی ہوئی ۔ صرف پندرہ گھنٹے کی لڑائی کے نتیجے میں دونوں طرف کے چالیس ہزار سپاہی زخمی ہو چکے تھے۔ پورا میدان جنگ لاشوں اور زخمیوں سے اٹا پڑا تھا۔ لڑائی بند ہونے کے بہ ظاہر کوئی آثارنظرنہ آتے تھے۔ لیکن بارش اور ہوا کا ایک طوفان آیا اور اس رحمت خداوندی نے فریقین کو جنگ بند کرنے پر مجبور کردیا۔
         انھی دنوں سلفر ینو میں فرانس کے کسی بینک کا ایک عہدے دار جین ہنری ڈونان بھی موجود تھا۔ وہ شہنشاہ فرانس نیپولین سے ملنے سلفرینوگیا تھا۔ ڈو نان کو الجزائر میں اپنے کیمپوں میں پانی کا معقول بندوبست کرنا تھا۔ اور اسی لیے وہ نپولین سے مل کر خاص سہولتیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ڈونان نے جب جنگ کی ان تباہ کاریوں کو دیکھا تو وہ اپنا کام بھول بیٹھا۔ ہزاروں سپاہیوں کو خاک و خون میں نہ تڑپتا ہوا دیکھ کر اس کا دل رو پڑا۔ زمین آب پاشی، بینک اب اسے کوئی چیز یاد نہ رہی ۔ اب اس کے سامنے یہی مقصد تھا کہ وہ کسی طرح ان تڑپتے ہوئے زخمی سپاہیوں کی مدد کرے اور انھیں موت سے بچائے ۔ اسی مقصد کے لیے وہ فوراً سلفرینو کی سمت روانہ ہو گیا۔ وہاں اور اس کے قریب کے گاؤں کے لوگوں سے ملا۔ انھیں انسانیت بھائی چارے کا واسطہ دے کر اس بات پر راضی کیا کہ وہ زخمی سپاہیوں کی خبرگیر کرنے میں اسکاہاتھ بٹائیں۔"ہم سب بھائی ہیں"۔ ڈوٹان کے اس نعرے نے آخر لوگوں کے دلوں میں محبت کا جذبہ پیدا کردیا۔ تین سو افراد اکٹھا ہوئے ۔ بہت سی خواتین نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
        میدان جنگ میں ہزاروں زخمی سپاہی بھوک، پیاس اور درد کی تکلیف میں کراہتے نیم مردہ پڑے تھے۔ ڈونان کے گروہ نے زخمیوں کی مرہم پٹی کی اور ابتدائی طبی امداد بہم پہنچائیں زخمی سپاہیوں کو اٹھا کر قریب کے  دیہاتوں میں لے جایاگیا جہاں ان کا باقاعدہ علاج کیا گیا۔

      لڑائی ختم ہوگئی لیکن ڈونان کی بے چینی قائم رہی۔ اس نے جنیوا میں دوبارہ اپنے کاروبار میں دلچسپی لینے کی کوشش کی لیکن زخمی سپاہیوں کا دکھ اور تکلیف دہ نہ بھول سکا۔ اب وہ ایک ایسی با قاعدہ تنظیم کا خواب دیکھنے لگا جو عالمی پیمانے پر زخمی سپاہیوں کی مدد کر سکے۔ 1861 میں اس نے " سلفرینو کی یاد میں“ نامی ایک کتابچہ تیار کیا اوراس کی ہزاروں کا پیاں چھپوا کر یوروپ میں تقسیم کروادیں ۔ اس کتابچے نے یوروپ میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ جنگ کے بھیانک نتائج کو پڑھ کر با شعور طبقہ چونک پڑا اور سبھوں نے ایسی سوسائٹی کی ضرورت محسوس کی جو زخمی سپاہیوں کی مدد کے لیے منظم طریقے سے کچھ کر سکے ۔ ڈونان نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ایک کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی نے جنیوا میں ایک کانفرنس بلائی ۔ ڈونان نے اس کی کامیابی کے لیے انتھک کوشش کی ۔ وہ لوگوں سے ملتا۔ انھیں کانفرنس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا اور اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے ان کی مدد مانگتا۔ اس نے ہزاروں خطوط دنیا بھر میں بھیجے۔ اس کی مخالفت بھی ہوئی لیکن وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔ آخر اکتوبر 1863 میں کانفرنس ہوئی ۔ جس میں سترہ ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ جلسے میں سوسائٹی کے اغراض و مقاصد پر غور کیا گیا۔ اس کے بعد جنیوا کی دوسری میٹنگ میں ایک تجویز منظور ہوئی۔ ایک عالمی قانون بنایا گیا ۔ آج تک اس قانون کی پابندی ہوتی ہے۔ اس طرح ریڈ کراس سوسائٹی وجودمیں آئی1864 سے ریڈ کراس کے افراد کو اسی نشان سے پہچانا جانے لگا۔
   ریڈ کراس سوسائٹی اس طرح اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور اس کی ترقی ہوتی گئی۔ لیکن اس کی کامیابی کے پیچھے ہنری ڈونان کی قربانی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ریڈ کراس سوسائٹی کی وجہ سے وہ اپنے کاروبار پر توجہ نہ دے سکا۔ اس کا کاروبار تباہ ہو گیا ۔ سب سے تکلیف دہ بات تو یہ ہوئی کہ ریڈ کراس سوسائٹی نے اسے کچھ عرصے کے لیے نظر انداز کر دیا اور ڈو نان کسی نامعلوم جگہ پر چلا گیا۔
    پندرہ سال بعد سوسائٹی کا سالانہ اجلاس روم میں ہوا۔ اجلاس جاری تھا کہ صدر کو کسی اسکول کے ایک معلم کا خط موصول ہوا جس میں ڈونان کا پتہ درج تھا۔ سوسائٹی کے افراد نے یہ محسوس کیا کہ ڈونان کو قابل عزت جگہ دی جانی چاہیے۔ اسے نوبل پرائز دیا گیا لیکن پندرہ سال کے اس عرصے میں اس کی صحت کافی گر چکی تھی ۔ وہ دوبارہ صحت یاب نہ ہوسکا۔ آخر 1910 میں اس کا انتقال ہوگیا۔
    ریڈ کراس سوسائٹی انسانیت کی خدمت آج بھی اسی طرح کر رہی ہے۔ یہ سوسائٹی دنیا کے ہر ملک میں قائم ہے۔ کہیں سیلاب آجاۓ ، قدرتی آفات میں انسانی زندیگی کا  نقصان ہوجائے یا قتل وخون ک واقعات ہوں ہر جگہ ریڈ کراس سوسائٹی کی شاخیں انسانی خدمت کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔
غور کیجیے
خدمت خلق کو اپنی زندگی میں مشن بنا لینا بڑا کام ہے۔ ذاتی نقصانات کے باوجود ڈونان نے دنیا کے لیے جو نمایاں کام کیےایسے کاموں کی زیادہ مثال نہیں ملتی۔ ایسے لوگ قابل قدر ہوتے ہیں ۔
ڈونان نے ایک چھوٹے سے شہر میں جس کام کی بنیاد رکھی ، وہ پوری دنیا میں پھیلا ۔ اس کا پیغام آج ہر خاص و عام جانتا ہے ۔
 

سوچیے اور بتائیے:

سوال1:ہنری ڈونان نپولین سے کس مقصد سے ملنے گیا تھا؟

جواب: ہنری ٹونان شہنشاہ فرانس نپولین سے ملنے خاص سلفرینوگیا تھا۔ ڈونان کو الجزائر میں اپنے کیمپوں میں پانی کا معقول بندوبست کرنا تھا۔ اور اسی لیے وہ نپولین سے مل کر خاص سہولتیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔

سوال2:ڈونان کو ریڈ کراس سوسائیٹی قائم کرنے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟

جواب:میدان جنگ میں ہزاروں زخمی سپاہی بھوک، پیاس اور درد کی تکلیف میں کراہتے اور نیم مردہ  دیکھ کر ٹوان کا دل کانپ اٹھا اور اس نے ایک ٹیم بناکرزخمیوں کی مرہم پٹی کی اور ابتدائی طبی امداد بہم پہنچائیں زخمی سپاہیوں کو اٹھا کر قریب کے  دیہاتوں میں لے جایاگیا جہاں ان کا باقاعدہ علاج کیا گیا۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد بھی ڈونان کی بے چینی قائم رہی۔ اس نے جنیوا میں دوبارہ اپنے کاروبار میں دلچسپی لینے کی کوشش کی لیکن زخمی سپاہیوں کا دکھ اور تکلیف دہ نہ بھول سکا۔ اب وہ ایک ایسی با قاعدہ تنظیم کا خواب دیکھنے لگا جو عالمی پیمانے پر زخمی سپاہیوں کی مدد کر سکے۔ اور اسی طرح اسے ریڈ کراس سوسائٹی قائم کرنے کا خیال آیا۔

سوال3:ریڈ کراس سوسائی کے مقاصد کیا ہیں؟

جواب: ریڈ کراس سوسائٹی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔  یہ سوسائٹی دنیا کے ہر ملک میں قائم ہے۔ کہیں سیلاب آجاۓ ، قدرتی آفات میں انسانی زندیگی کا  نقصان ہوجائے یا قتل وخون ک واقعات ہوں ہر جگہ ریڈ کراس سوسائٹی کی شاخیں انسانی خدمت کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔

سوال4:ڈونان کو کون سا انعام دیا گیا اور کیوں؟

جواب:ٹونان کو ریڈ کراس سوسئٹی کے قیام کے اعتراف میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔



Bansuri Wala NCERT Class 9 Chapter 10

بانسری والا


 سوال 1 : لوگ چوہوں کی شرارت سے کیوں تنگ آگئے تھے؟ 

جواب: لوگ چوہوں کی شرارت سے اس لیے تنگ آگئے تھے کیونکہ چوہے کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑوں کو کتر کرخراب کردیتے تھے۔ سوتے ہوئے بچوں کو کاٹ لیتے تھے۔


سوال 2 : چوہوں کو بھگانے کے لیے کون سی ترکیب نکالی گئی؟ 

جواب: چوہوں کو بھگانے کے لیے لوگوں نے یہ ترکیب نکالی کہ وہ بانسری والے کو بلائیں گے جو اپنی بانسری کی دھن پر چوہوں کو کہ یہاں سے کہیں دور لے جائے گا۔


سوال3:بانسری والے نے چوہوں کو بھگانے کے لیے کون سی شرط ر کھی؟ 

جواب:بانسری والے نے شرط رکھی کہ وہ چوہے بھگانے کا  ایک ہزار گولڈر لے گا۔


سوال4:بانسری والے نے وعدہ پورا نہ ہونے پر کیا کیا؟

جواب:بانسری والے نے ایسی بانسری بجائی کہ سارے بچے اس کہ پیچھے چلنے لگے اور اس طرح اس نے سارے بچوں کو ایک غار میں قید کر دیا

Tuesday, 13 October 2020

Jalwa e Darbar e Dehli-Akbar Allahabadi-Nazm-Class 9

جلوۂ دربار دہلی
اکبر الہ آبادی
سر میں شوق کا سودا دیکھا 
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا

جمنا جی کے پاٹ کو دیکھا
اچھے ستھرے گھاٹ کو دیکھا
سب سے اونچے لاٹ کو دیکھا
حضرت ڈیوک کناٹ کو دیکھا

پلٹن اور رسالے دیکھے
گورے دیکھے کالے دیکھے
سنگینیں اور بھالے دیکھے
بینڈ بجانے والے دیکھے

خیموں کا اِک جنگل دیکھا
اس جنگل میں منگل دیکھا
برھما اور ورنگل دیکھا
عزت خواہوں کا دنگل دیکھا

سڑکیں تھیں ہر کمپ سے جاری
پانی تھا ہر پمپ سے جاری
نور کی موجیں لمپ سے جاری
تیزی تھی ہر جمپ سے جاری

ڈالی میں نارنگی دیکھی 
مخمل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی بارنگی دیکھی 
دہر کی رنگا رنگی دیکھی

اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا 
بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا
منھ کو اگر چہ لٹکا دیکھا 
دل دربار سے اٹکا دیکھا

ہاتھی دیکھے بھاری بھرکم
ان کا چلنا کم کم تھم تھم
زرّیں جھولیں نور کا عالم 
میلوں تک وہ چم چم چم چم

پُر تھا پہلوۓ مسجد جامع
روشنیاں تھیں ہر سو لامع
کوئ نہیں تھا کسی کا سامع 
سب کے سب تھے دید کے طامع

سرخی سڑک پے کٹتی دیکھی 
سانس بھی بھیڑ میں گھٹتی دیکھی
آتش بازی چھٹتی دیکھی 
لطف کی دولت لٹتی دیکھی

چوکی اِک چولکھّی دیکھی
 خوب ہی چکھی پکھی دیکھی
ہر سو نعمت رکھی دیکھی
 شہد اور دودھ کی مکھی دیکھی

ایک کا حصہ منّ و سلوا
ایک کا حصہ تھوڑا حلوا
ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا 
میرا حصہ دور کا جلوا

اوج برٹیش راج کا دیکھا
 پرتو تخت و تاج کا دیکھا
رنگ زمانہ آج کا دیکھا 
 رُخ کرزن مہراج کا دیکھا

پہنچے پھاند کے سات سمندر
 تحت میں ان کے بیسیوں بندر
حکمت و دانش ان کے اندر 
 اپنی جگہ ہر ایک سکندر

اوج بخت ملاقی ان کا 
 چرخ ہفت طباقی اُن کا
محفل ان کی ساقی اُن کا 
 آنکھیں میری باقی اُن کا

ہم تو ان کے خیر طلب ہیں 
ہم کیا، ایسے ہی سب کے سب ہیں
ان کے راج کے عمدہ ڈھب ہیں 
 سب سامان عیش و طرب ہیں

—اکبر الہ آبادی
 
نظم کی تشریح
سر میں شوق کا سودا دیکھا 
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا

جمنا جی کے پاٹ کو دیکھا
اچھے ستھرے گھاٹ کو دیکھا
سب سے اونچے لاٹ کو دیکھا
حضرت ڈیوک کناٹ کو دیکھا

پلٹن اور رسالے دیکھے
گورے دیکھے کالے دیکھے
سنگینیں اور بھالے دیکھے
بینڈ بجانے والے دیکھے

خیموں کا اِک جنگل دیکھا
اس جنگل میں منگل دیکھا
برھما اور ورنگل دیکھا
عزت خواہوں کا دنگل دیکھا


تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ ہمیں بھی شوق ہوا کہ دہلی جا کر دربار دہلی کا جلوہ دیکھیں۔ وہ دہلی آئے، دریائے جمنا کا پاٹ اور صاف ستھرے گھاٹ دیکھے۔ سب سے اونچے لاٹ (لارڈ)اور ڈیوک کناٹ کے دیدار کیے ۔ پلٹن، فوجی رسالے، ہتھیار بند گورے، کالے فوجی تھے اور انہیں کے ساتھ بینڈ باجے والے بھی موجود تھے۔ دور تک (کشمیری گیٹ تاکنگزوے کیمپ) خیموں کا جنگل تھا، جدھر نظر جاتی تھی خیمے ہی خیمے تھے۔ اس دربار دہلی کے لئے بلند مرتبہ عزت دار لوگوں کے درمیان مقابلہ ہور ہا تھا کہ وہ کس مقام پر رہے گا، اس کا خیمہ کہاں ہوگا، وہ انگریز حکمران کے کس قدر نزدیک رہے گا۔


سڑکیں تھیں ہر کمپ سے جاری
پانی تھا ہر پمپ سے جاری
نور کی موجیں لمپ سے جاری
تیزی تھی ہر جمپ سے جاری

ڈالی میں نارنگی دیکھی 
مخمل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی بارنگی دیکھی 
دہر کی رنگا رنگی دیکھی

اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا 
بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا
منھ کو اگر چہ لٹکا دیکھا 
دل دربار سے اٹکا دیکھا

ہاتھی دیکھے بھاری بھرکم
ان کا چلنا کم کم تھم تھم
زرّیں جھولیں نور کا عالم 
میلوں تک وہ چم چم چم چم
تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ خیمے لگانے میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ہر کیمپ کا الگ راستہ تھا جو سڑک تک جاتا تھا۔ ہر طرف پانی کے پمپ لگے ہوئے تھے ، روشنی کے لیے لیمپ تھے۔ ہر شخص تیزی سے دوڑ دوڑ کر کام کر رہا تھا۔
کہیں سجاوٹ زیادہ تھی اور کہیں کم۔ماحول کو خوبصورت بنانے کے لیے درختوں ٹہنیوں پر مصنوعی نارنگیاں لگائی گئی تھی۔محفل میں موسیقی میں سارنگی بج رہی تھی۔اس قدر  لوگ تھے اور رونق تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پوری دنیا یہاں سمٹ آئی ہے، لوگوں کے ہجوم میں اچھے اچھے بھٹک رہے تھے۔ بھیڑ میں دھکے لگ رہے تھے۔ اس وجہ سے لوگوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے مگر دل دربار میں اٹکا ہوا تھا۔ بھاری بھرکم ہاتھیوں کی کمر پرسنہری کام والی جھولیں پڑی ہوئی تھیں ۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر آہستہ آہستہ چل رہے تھے، جدھر نظر جاتی تھی میلوں تک رونق نظر آرہی تھی۔


پُر تھا پہلوۓ مسجد جامع
روشنیاں تھیں ہر سو لامع
کوئ نہیں تھا کسی کا سامع 
سب کے سب تھے دید کے طامع

سرخی سڑک پے کٹتی دیکھی 
سانس بھی بھیڑ میں گھٹتی دیکھی
آتش بازی چھٹتی دیکھی 
لطف کی دولت لٹتی دیکھی

چوکی اِک چولکھّی دیکھی
 خوب ہی چکھی پکھی دیکھی
ہر سو نعمت رکھی دیکھی
 شہد اور دودھ کی مکھی دیکھی

ایک کا حصہ منّ و سلوا
ایک کا حصہ تھوڑا حلوا
ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا 
میرا حصہ دور کا جلوا

تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ جامع مسجد کے اطراف میں بھی لوگ موجود تھے۔ ہر طرف روشنی سے علاقہ جگمگا رہا تھا۔ اس قدر بھیڑ تھی کہ کوئی کسی کی بات سننا نہیں چاہتا تھا۔ سب کے سب اس بات کے خواہش مند تھے کہ کسی طرح دربار کا جلوہ دیکھیں۔ سڑکوں پرسرخ بجری کوٹ کر ڈالی گئی تھی۔ بھیڑ میں سانس لینا محال تھا، آتش بازی چھوڑی جارہی تھی ۔ مفت میں لطف اندوز ہونے کے سامان تھے۔ لطف کی دولت لٹتی دیکھی سے مراد ہے بغیر کوئی پیسہ خرچ کیے لطف حاصل کرنا۔
دربار کے لیے ایک بہت قیمتی چوکی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہر طرف نعمتیں رکھی ہوئی تھیں ( کھانے پینے کا سامان ) اسی کے ساتھ شہد اور دودھ  پر بیٹھنے والی مکھی بھی موجود تھی (اکبرکا طنز ) مگر عالم یہ تھا کہ کسی کے حصے میں لذیذ کھانے آرہے تھے تو کسی کو صرف حلوے پر اکتفا کرنا پڑ رہا تھا۔ کوئی بھیڑ اور ہنگاموں کا حصہ بنا ہوا تھے۔اکبر کہتے ہیں کہ اُن کے حصے میں دور کا جلوہ آیا یعنی اُنہونے دور ہی سے دربارِ دہلی منعقد ہوتے دیکھا۔


اوج برٹیش راج کا دیکھا
 پرتو تخت و تاج کا دیکھا
رنگ زمانہ آج کا دیکھا 
 رُخ کرزن مہراج کا دیکھا

پہنچے پھاند کے سات سمندر
 تحت میں ان کے بیسیوں بندر
حکمت و دانش ان کے اندر 
 اپنی جگہ ہر ایک سکندر

اوج بخت ملاقی ان کا 
 چرخ ہفت طباقی اُن کا
محفل ان کی ساقی اُن کا 
 آنکھیں میری باقی اُن کا

ہم تو ان کے خیر طلب ہیں 
ہم کیا، ایسے ہی سب کے سب ہیں
ان کے راج کے عمدہ ڈھب ہیں 
 سب سامان عیش و طرب ہیں

تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں اس موقع پر برٹش حکومت کا عروج نظر آیا۔ تخت و تاج کی چمک دیکھ کر آج کے زمانے کے رنگ کا خیال آیا (وقت کس قدر بدل گیا ہے) کبھی یہاں مغلوں کی حکومت تھی اور اب تخت پر لارڈ کرزن تشریف فرما ہیں۔
انگریز ہندوستان میں سات سمندر پار سے آئے تھے، ان کے ساتھ بیسیوں اعلیٰ افسر تھے، جن میں عقلیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ہر ایک اپنی جگہ سکندر تھا۔ اس وقت انگریزوں کی خوش نصیبی پورے عروج پر تھی ان کی وسیع حکومت اور سلطنت کودیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ ساتویں آسمان تک انگریزوں کی حکومت ہے۔ انگریزوں کی محفل تھی اور اس محفل میں وہی چھائے ہوئے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اُن کی آنکھیں ان سب چیزوں کو دکھ رہتی تھیں ۔ آخری بند میں اکبر کہتے ہیں کہ وہ تو ان کے خیر خواہ ہیں اور صرف وہ ہی نہیں سب ہی لوگ اُن کی طرح بہی خواہ ہیں کیونکہ اُن کے حکومت کرنے کے طریقے شاندار ہیں اور عیش و عشرت کے سامان کی کوئی کمی نہیں۔(یہاں بھی اکبر نے طنز کیا ہے)۔

اکبر الہ آبادی
(1846تا1921) 
سید اکبر حسین رضوی نام، اکبر تخلص تھا۔ ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن ضلع شاہ آباد میں گزرا۔ 1855 میں اپنے خاندان کے ساتھ الہ آباد گئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ یہاں پہلے ایک مکتب اور پھر جمنا مشن اسکول میں داخل ہوئے لیکن 1857 کے انقلاب کے باعث تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ ملازمت کی ابتدا عرضی نویسی سے کی۔ کچھ مدت کے بعد الہ آباد ضلع میں نائب تحصیلدار ہو گئے ۔ ہائی کورٹ کی وکالت کا امتحان پاس کر کے وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ منصف کے عہدے پر بھی مامور ہوئے۔ 1898 میں انھیں حکومت سے خان بہادر کا خطاب ملا۔ اکبر کی زندگی کا آخری زمانہ ذہنی و جسمانی تکالیف اور پریشانیوں میں گزرا۔ پچھتّر برس کی عمر میں الہ آباد ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
اکبر کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ انھوں نے عام رواج کے مطابق شاعری کی ابتدا غزل گوئی سے کی۔ کلام پر اصلاح غلام حسین وحید سے لی جو آتش کے شاگرد تھے۔ اکبر کے کلام میں غزلوں کی تعداد کافی ہے اور ان میں اتنی جان ہے کہ انھیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کی انفرادیت ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں نظر آتی ہے۔ یہی شاعری ان کی دائمی شہرت کا باعث بنی اور اس میں کوئی دوسرا شاعر ان کا ہم سر نہ ہو سکا۔ اکبر کی ظریفانہ شاعری محض ہنسنے ہنسانے کا ذر یعہ نہیں۔ انھوں نے اس کے ذریعے انگریزی تعلیم کے منفی اثرات اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید پر بھرپور وار کیے اور چھوٹی چھوٹی نظموں سے وہ کام لیے جو بڑی بڑی تقریروں سے نہیں لیا جاسکتا تھا۔ اکبر الہ آبادی اگرچہ طنزیہ اور مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں لیکن ان کی شاعری کا ایک بڑا حصّہ سنجیدہ شاعری پر مشتمل ہے۔ انھوں نے بہت سی نظموں کے ترجمے بھی کیے ہیں۔

غور کرنے کی بات:
٭دسمبر 1898 میں لارڈ کرزن نئے وائسرائے کی حیثیت سے ہندوستان آئے۔ انھوں نے 1903 میں دربار کیا۔ اسی دربار پر اکبر الہ آبادی نے نظم لکھی ہے۔
٭دوسرے بند میں لاٹ اور ڈیوک دو لفظ آئے ہیں ہندوستان میں لارڈ ( Lord ) کو عام لوگ لاٹ کہتے تھے۔ یہ برطانیہ کا اعزازی خطاب ہے۔ اس کے معنی مالک اور آقا کے بھی ہیں ۔ گورنر یا حاکم صوبہ کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا تھا اسی طرح ڈیوک ( Duke ) بھی خطاب ہے نواب رئیس یا امیر کے لیے بھی یہ خطاب استعمال ہوتا تھا۔ 
٭جنگل میں منگل ہونا محاورہ ہے۔ جس کے لغوی معنی ہیں ویرانے میں عیش و عشرت کا سامان ہونا یا غیر آباد جگہ میں رونق اور چہل پہل ہونا۔ دربار دہلی کے موقع پر کشمیری گیٹ سے باہر کنگزوے کیمپ تک خیمے لگائے گئے تھے۔ اس وقت یہ جگہ غیر آباد اور ویران تھی۔ خیمے لگنے کے بعد جب دربار کے لیے لوگ یہاں آئے تو خوب رونق اور چہل پہل ہو گئی۔  مصرعے میں اسی جانب اشارہ ہے۔
٭ اکبر الہ آبادی انگریزی الفاظ کا استعمال معنی خیز انداز میں کرتے ہیں ۔ اس نظم میں بھی انھوں نے بہت سے انگریزی الفاظ استعمال کیے ہیں ۔

سوالوں کے جواب لکھیے :

1-”سر میں شوق کا سودا دیکھا“ سے کیا مراد ہے؟
جواب۔ اکبرالہ آبادی نے اس مصرعہ میں جلوۂ دربار دہلی دیکھنے کے لیے اپنے اس شوق کا ذکر کیا ہے جو انہیں دہلی کھینچ لایا۔ یہاں انہوں نے پایا کہ  دہلی کے لوگوں میں بھی اپنے مقصد کو پانے کے لیے وہی دیوانگی پائی جاتی ہے۔
2- ”خیموں کا اک جنگل دیکھا“ اس مصرعے میں شاعر نے کس منظر کی عکاسی کی ہے؟ 
جواب۔ اس مصرعہ میں شاعر نے دربار دہلی کی تصویر کھینچتے ہوئے اس کی رونق کا ذکر کیا ہے ۔ جب وہ دہلی آئے تو یہاں چاروں جانب سپاہیوں کے خیمے لگے تھے یعنی خیموں کا ایک جنگل آباد تھا۔شاعر نے اسی لیے اس کی جنگل سے مثال دی جہاں قطاروں میں درخت لگے ہوتے ہیں۔ یہ خیمے ویرانے میں لگے تھے اوراپنی چہل پہل سے جنگل میں منگل کا سماں پیش کر رہے تھے۔
3-”میرا حصّہ دور کا جلوہ“ شاعر نے کیوں کہا ہے؟ وضاحت کیجیے۔
جواب۔  اس مصرعے میں اکبر الہ آبادی دربار دہلی کی رونق اور چہل پہل کا ذکر کر رہے ہیں جہاں ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا دربار میں طرح طرح کی پکوانیں تھیں جس پر ایک ہجوم ٹوٹا پڑتا تھا اور ان پکوانوں کا لطف اٹھا رہا تھا۔ اکبر بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے ان پکوانوں تک نہیں پہنچ پاتے اور دور سے ہی ان کا دیدار کرتے ہیں۔اپنی اسی محرومی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سب کے حصّے میں تو اُن کی خواہش کے مطابق چیزیں آگئیں لیکن اُن کے حصّے میں صرف دور کا جلوہ ہی آیا۔
     :مزید دیکھیں
 ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد    اکبر الہ آبادی
 طنز و اصلاح کا شاعر

Monday, 12 October 2020

Hazarat Khizr (AS) (From Tareekh e Islam)

 حضرت خضر علیہ السلام اور آبِ حیات

حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔ ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔ ''خضر'' کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ آپ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔

آپ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور آپ کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔

(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)

ہو سکےتو آپ بھی اس کنیت کو یاد رکھئے گا۔ ابوالعباس بلیا بن ملکان۔

حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔

(صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)

تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔

کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔ اس میں کچھ علماء نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن جمہور علماء (یعنی کثیر علماء) کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپ کا دور حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سو برس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان 400 سال کا فرق ہے۔ تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے۔ واللہ تعالی اعلم۔ امام بدر الدین عینی صاحب شرح بخاری نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے اور صحیح بھی یہ ہے کہ وہ نبی ہیں اور زندہ ہیں ۔

(عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی ۔کتاب العلم،باب ما ذکرفی ذہاب موسی، ج۲،ص۸۴،۸۵)

خدمت بحر (یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) انہیں سے متعلق (یعنی انہیں کے سپرد) ہے اور اِلیاس علیہ السلام '' بَرّ ''(خشکی) میں ہیں۔

(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ،حرف الخاء المعجمۃ،باب ماوردفی تعمیرہ،ج۲،ص۲۵۲)

اسی طرح تفسیر خازن میں ہے (اور اکثر عُلَماء اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے) کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں۔ یہ بھی اسی میں منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔ اسی طرح تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ صحابی بھی ہیں۔

(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)

اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت بھی فرمائی تھی ۔ کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اور باطن مساوی نہ ہو تو منافق ہوتا ہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے۔ یہ سن کر عمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔

(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مساواتہم السر والعلانیۃ،ص39)

اور بھی بزرگان دین نے ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ واللہ تعالی اعلم

آب حیات کے متعلق بہت اختلاف ہے۔ بعض لوگ اس کو ایک افسانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ۔ کیونکہ آب حیات کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی کسی صیحح حدیث میں۔ ہاں کچھ علماء کرام نے اس کا تذکرہ اپنی تفسیر میں حضرت ذوالقرنین کے پہلے سفر کے ذمرے میں کیا ہے۔ جیسے کہ تفسیر خزائن العرفان پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸ میں نقل ہے۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہءحیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ''ناسک'' کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کر دیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔

اسی طرح تفسیر خازن اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر اور الیاس جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ اور یہ کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا۔ بس آب حیات یا چشمہ حیات کی اتنی حقیقت ہی کتب میں لکھی ہے۔ مگر اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم

(تاریخ اسلام کے فیس بُک صفحہ سے شکریہ کے ساتھ)

Lai Hayat Aae Qaza Le Chali Chale by Ibrahim Zauq - Nawa e Urdu Class 10

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 
 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بد قمار 
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے ابھی چلے 
نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے، ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانشوری چلے
دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ 
 تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے 
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی  بلا  سے باد صبا  اب  کبھی  چلے

تشریح:
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے شیخ محمد ابراہیم ذوق کی مشہور غزل ہے جس میں شاعر نے زندگی کی حقیقت کا ذکر بیان کیا ہے۔ اس غزل میں شاعر نے بتایا ہے کہ انسان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آتا ہے نہ اپنی مرضی سے جاتا ہے۔
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 
 شاعر کہتا ہے کہ وہ دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آیا ہے نہ اپنی خوشی سے جائے گا۔ اُس کی حیات اُسے دنیا میں لے کر آئی اور اب اُسے اس کی قضا دنیا سے لے جائے گی ان دونوں کاموں میں اُس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں۔
 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا ایک بے وفا جگہ ہے اور اس سے دل لگانا اچھا نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا سے دل لگائے بغیر کام بھی نہیں چلتا ہے۔ ہر انسان اس دنیا سے دل لگانے کے لیے مجبور ہے۔
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بد قمار 
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
 شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں ہم جیسے بدقمار یعنی ناکام جواری شاید ہی ہوں گے جس نے جو بھی چال چلی ہمیشہ ہی اُلٹی چلی۔ یہاں شاعر اپنی ناکامیوں کا ذکر کر رہا ہے۔ دنیا اُسے ایک بساط کی طرح نظر آتی ہے جہاں ہرشخص اپنی چالیں چل رہا ہے۔ شاعر کو لگتا ہے کہ وہ ایک ایسا ناکام کھلاڑی ہے جس کا کوئی بھی حربہ کوئی بھی چال کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔
ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے، ابھی چلے 
 شاعر کہتا ہے کہ اُس کی عمر اگر حضرت خضر علیہ السلام کی طرح بھی ہو تب بھی ہر انسان یہی کہتا ہے کہ وہ دنیا میں زیادہ دنوں تک نہیں رہا۔ یعنی دنیا میں رہنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی اُسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ وہ ابھی دنیا میں آیا تھا اور ابھی ہی اس کے جانے کا وقت آگیا۔ یعنی شاعر حضرت خضر علیہ السلام کا ذکر کرکے اُن کی طویل العمری کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ اتنی طویل عمر پانے کے بعد بھی مرنے کے وقت ہر انسان یہی رونا روتا ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور ابھی اُس کے جانے کا وقت آگیا۔
نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے، ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانشوری چلے
اس شعر میں شاعر کا کہنا ہے کہ اپنی ہوشیاری اور عقلمندی پر ناز کرنا فضول ہے۔ ہمیں اپنی عقلمندی پر ناز نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہاں تمہاری سوجھ بوجھ، ہوشیاری یا عقلمندی کچھ کام آنے والی ہے نہ میری۔ اس دنیا میں تو وہی چلے گا جو اللہ کو منظور ہوگا۔
دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ 
 تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے 
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت کس نے کسی کا ساتھ دیاہے۔ یہ دنیا ایک سرائے فانی ہے اور ہر کسی کو جانا ہے۔ یہ زندگی جب تک ہے تم بھی اسے جیے جاؤ۔ جب موت آئے گی تو کوئی تمہاری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ اس لیے جب تک زندہ ہو اس کا لطف اٹھاؤ۔
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی  بلا  سے باد صبا  اب  کبھی  چلے
مقطع میں ذوق کہتے ہیں کہ وہ اب شوق کی ہواؤں پر سوار ہوکر اس چمن سے رخصت ہورہے ہیں یعنی اپنی خواہشات کے ساتھ دنیا سے جا رہے ہیں اب یہاں ٹھنڈی ہوائیں چلیں تو چلیں اُس کا اُسے اب کوئی انتظار نہیں اور اب وہ اس چمن سے جانے کے لیے تیار ہے۔  
 ذوق کی یہ غزل پوری طرح انسان کی بے بساعتی کو ظاہر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ دنیا میں انسان محض ایک کھلاڑی ہے جو دوسروں کی انگلیوں کے اشارے پر چلتا ہے اور کہیں بھی اس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق
(1854 - 1789)
شیخ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ذوق نے ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول سے حاصل کی۔ اسی زمانے میں شاعری کا شوق پیدا ہوا اور اپنے وقت کے مستند استاد شاہ نصیر کے شاگردوں میں شامل ہو گئے۔ رفتہ رفتہ مشق سخن اور اپنی ذہانت کے باعث وہ بہت کم عمری میں استادی کے مرتبے کو پہنچ گئے ۔ بہادر شاہ ظفر کی استادی کا فخر بھی حاصل ہوا اور خاقانی ہند اور ملک الشعرا کے خطابات سے سرفراز کیے گئے ۔ بادشاہ کی سر پرستی میں ذوق کی زندگی آرام و آسائش سے بسر ہوئی ۔ ذوق کو موسیقی اور علمِ نجوم سے کافی دلچسپی تھی عربی و فارسی اور دیگر مشرقی علوم کے عالم تھے۔ لیکن ان کا اصل کمال ان کی شاعری سے ظاہر ہوا ۔ شاعری ان کی معاش کا ذریعہ بنی اور  یہی فن ان کی قدر و قیمت کا وسیلہ بھی ثابت ہوا۔ 
ذوق نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ، قصیدہ ان کا اصل میدان ہے۔ اس صنف میں صرف سودا ان سے آگے ہیں ۔ انھوں نے اپنے قصیدوں میں شوکت الفاظ، بلند خیالی اور معنی آفرینی کے ساتھ مختلف علوم کی اصطلاحات سے بھی کام لیا ہے۔ غزل گوئی میں بھی ذوق کا ایک خاص مقام ہے۔ زبان پر قدرت ، بیان کی سلاست، روز مرہ اور محاورے پر اپنی گرفت کے لحاظ سے وہ ممتاز ہیں ۔
مزید:
بہادر شاہ ظفر نے انہیں ’ملک الشعراء‘ اور ’خاقانی ہند‘ کے خطابات دیے۔ ذوق نے کئی اصناف میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی اصل پہچان قصیدہ نگار کی ہے بالخصوص بہادر شاہ ظفر پر لکھے ہوئے قصائد کا مرتبہ بلند ہے۔ لیکن وہ غزل کے بھی ایک قابل ذکر شاعر ہیں۔ذوق دہلی میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔وہ ایک سپاہی کے بیٹے تھے۔
ذوق نے اپنے کلام میں نیا پن پیدا کرنے اور زبان اور محاورے کی صفائی پر خاص توجہ دی ہے۔
غزل
عام طور پر غزل سے شاعری کی وہ صنف مراد لی جاتی ہے جس میں عورتوں سے  یا محبوب سے باتیں کی گئی ہوں ، گویا کہ بنیادی طور پر غزل کی شاعری عشقیہ شاعری ہے ۔ عاشقانہ مضامین اور غنائیت غزل کی خاص پہچان ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ غزل میں دوسرے مضامین بھی داخل ہوتے گئے ۔ آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزل میں تقریباً ہر طرح کے مضامین بیان کیے جا سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ
غزل آج بھی اردو کی سب سے زیادہ مقبول صنف سخن ہے۔ غزل کا ہر شعر اپنے مفہوم کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے ۔ اسی لیے سب سے زیادہ یاد رہ جانے والے اشعار بھی غزل کے ہی ہوتے ہیں۔ 
جس طرح غزل میں مضامین کی قید نہیں ہے اسی طرح اشعار کی تعداد بھی مقرر نہیں ہے۔ غزل میں عام طور پر پانچ یا سات شعر ہوتے ہیں لیکن کئی غزلوں میں زیادہ اشعار بھی ملتے ہیں کبھی کبھی ایک ہی بحر اور ردیف و قافیہ میں شاعر ایک سے زیادہ غزلیں کہہ دیتا ہے۔ اس کو دو غزلہ ،سہ غزلہ اور چہار غزلہ کہا جاتا ہے۔ 
 غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع کہلاتا ہے۔ غزل میں ایک سے زیادہ مطلعے بھی ہو سکتے ہیں۔ غزل بغیر مطلع کے بھی سکتی ہے۔ غزل کا وہ آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اس شعرکو مقطع کہتے ہیں کبھی کبھی مطلع میں یا غزل کے درمیان بھی کسی شعر میں شاعر اپنا نام استعمال کر لیتا ہے لیکن ایسے شعر و مقطع نہیں کہیں گے مثال کے طور پر
میر تقی میر کا مطلع
پھر موج ہوا پیچاں اے میر نظر آئی 
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی
 غزل کا سب سے اچھا شعر بیت الغزل یا شاه بیت کہلاتا ہے۔ جس غزل میں ردیف نہ ہو اور شعر قافیے پر ہی ختم ہو جاتے ہوں اس غزل کو غیر مردف غزل کہتے ہیں۔
معنی یاد کیجیے: 
حیات : زندگی
قضا : موت، حکمِ خدا
عمر خضر : مرادلمبی عمر
بوقتِ مرگ : موت کے وقت
فغاں : آہ و زاری، واویلا
بادِ صبا : صبح کی ٹھنڈی ہوا، پُروائی
بساط : وہ خانے دار کپڑا جو چوسر یا شطرنج کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
بدقمار : ناکام جواری
نازاں ہونا : ناز کرنا، فخر کرنا
خرد : عقل
دانش : سمجھ بوجھ
دانش وری : ہوشیاری ،سمجھ داری، زیادہ علم رکھنا

غور کیجیے:
٭دوسرے شعر میں ”دل لگے“ اور ”دل لگی“ نے شعر میں بیان کا حسن پیدا کردیا ہے۔
٭کلام میں جب کسی تاریخی واقعے یہ کیسی شخصیت کا ذکر ہوتا ہے تو اُسے صنعت تلمیح کہتے ہیں یہاں حضرت خضر کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت خضر اپنی لمبی عمر کے لیے مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ قیامت تک زندہ رہیں گے اور بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھاتے رہیں گے۔



سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ اس غزل کے مطلع کا مطلب لکھیے۔
جواب:غزل کا مطلع-
  ”لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے“
غزل کے مطلع  میں شاعر کہتا ہے کہ وہ دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آیا ہے نہ اپنی خوشی سے جائے گا۔ اُس کی حیات اُسے دنیا میں لے کر آئی اور اب اُسے اس کی قضا دنیا سے لے جائے گی ان دونوں کاموں میں اُس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں۔

2۔ عمر خضر سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:عمرخضر سے مراد لمبی عمر ہے۔ شاعر حضرت خضر کا ذکر کرکے اُن کی طویل العمری کی طرف اشارہ کررہا ہے۔

3۔ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے ابھی چلے‘‘ اس مصرعے کے ذریعے شاعر نے انسانی زندگی کے کس پہلو کی نشاندہی کی ہے؟
جواب:طویل عمر پانے کے بعد بھی مرنے کے وقت ہر انسان یہی رونا روتا ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور ابھی اُس کے جانے کا وقت آگیا۔وہ دنیا میں زیادہ دنوں تک نہیں رہا۔ یعنی دنیا میں رہنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی اُسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ وہ ابھی دنیا میں آیا تھا اور ابھی ہی اس کے جانے کا وقت آگیا۔

4 ۔ غزل کے مقطع میں چمن سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:  چمن سےشاعر کی مراد دنیا اور اس کا اپنا وطن  ہے جہاں اسے صرف تکلیف ہی تکلیف اٹھانی پڑی ہے۔  وہ کہتا ہے کہ اب ٹھنڈی ہوائیں چلیں تو چلیں اُس کا اُسے اب کوئی انتظار نہیں اور اب وہ اس چمن سے جانے کے لیے تیار ہے۔                                                                                                   

عملی کام:
اس غزل کے کچھ شعر زبانی یاد کیجیے اور بلند آواز سے پڑھیے۔
اس نظم میں شاعر نے طویل عمر کے لیے تلمیح کے طور پر حضرت خضر علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔حضرت خضرعلیہ السلام کون تھے پڑھنے کے لیے نام پر کلک کریں۔


کلک برائے دیگر اسباق

Saturday, 10 October 2020

Firaq Gorakhpuri

فراق گورکھپوری
(1896-1982 )
انام رگھوپتی سہائے ، اور فراق تخلص تھا۔ اُن کی پیدائش 18 اگست 1896 گورکھپورمیں ہوئی۔ شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی اور ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت گورکھپوری اپنے وقت کے مشہور شاعر تھے۔ فراق بھی بچپن ہی سے شعر کہنے لگے اور انھوں نے نظم، غزل، رباعی وغیرہ شعری اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کا شمار اردو کے اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ 1917 ء میں کانگریس میں شامل ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے۔
فراق کا کلام انسانی عظمت اور درد مندی کے احساس سے بھرا ہوا ہے۔ انھوں نے عشقیہ معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ان کی زبان میں گھلاوٹ اور مٹھاس ہے۔ انھوں نے عشق کے معاملات کو اکثر بالکل نئے ڈھنگ سے پیش کیا ہے اور بعض نئے مضامین بھی استعمال کیے ہیں۔ رباعی میں انھوں نے سنسکرت کے سنگھار رس سے استفادہ کرتے ہوئے معشوق کو ایک نئے اور دلکش گھر یلو رنگ میں پیش کیا۔
فراق نے ایک نسل کو متاثّر کیا،نئی شاعری  کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باجود ان موضوعات  کو نئے زاویے سے دیکھا۔انہوں نے نہ صرف یہ کہ جذبات و احساسات کی ترجمانی کی بلکہ شعور و ادراک کے مختلف نتائج بھی پیش کئے۔ان کا جمالیاتی احساس دوسرے تمام غزل گو شاعروں سے مختلف ہے۔
نغمۂ ساز، غزلستان، شعرستان، شبنمستان، روح کائنات، گل نغمہ، روپ اور گلبانگ کے نام سے کئی شعری مجموعے شائع ہو کر قبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ انھوں نے اعلیٰ درجے کی تنقید بھی لکھی۔ ان کی نثری کتابوں میں اندازے اور اردو کی عشقیہ شاعری معروف ہیں۔ فراق گورکھپوری کو گیان پیٹھ ایوارڈ اور دوسرے کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
اونچے درجے کے طلبہ کے لیے:
فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916 میں جب ان کی عمر 20 سال کی تھی اور وہ بی اے کے طالب علم تھے، پہلی غزل کہی۔پریم چند اس زمانہ میں گورکھپور میں تھے اور فراق کے ساتھ ان کے گھریلو تعلقات تھے۔پریم چند نے ہی فراق کی ابتدائی غزلیں چھپوانے کی کوشش کی اور زمانہ کے ایڈیٹردیا نرائن نگم کو بھیجیں۔فراق نے بی اے سنٹرل کالج الہ آباد سے  پاس کیا اور چوتھی پوزیشن حاصل کی۔اسی سال فراق کے والد کا انتقال ہو گیا۔یہ فراق کے لئے اک بڑا سانحہ تھا۔چھوٹے  بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری فراق کے سر آن پڑی۔بے جوڑ دھوکہ کی شادی اور والد کی موت کے بعد گھریلو ذمہ داریوں کے بوجھ نے فراق کو توڑ کر رکھ دیا وہ بے خوابی کے شکار ہو گئے اورمزید تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ اسی  زمانہ میں وہ ملک کی سیاست میں شریک ہوئے۔سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920 میں ان کو گرفتار کیا گیا اور انہوں نے 18 ماہ جیل میں گزارے۔ 1922 میں وہ کانگرس کے انڈر سیکریٹری مقرر کئے گئے۔ وہ ملک  کی سیاست میں ایسے وقت پر شامل ہوئے تھے جب سیاست کا مطلب گھر کو آگ لگانا ہوتا تھا  نہرو خاندان سے ان  کےگہرے مراسم تھے اور اندرا گاندھی کو وہ بیٹی کہہ کر خطاب کرتے  تھے۔مگر آزادی کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی خدمات کو بھنانے کی کوشش نہیں کی۔وہ ملک کی محبت میں سیاست  میں گئے تھے،سیاست ان کا میدان نہیں تھی۔1930 میں انھوں نے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ اور کوئی درخواست یا انٹرویو دئے بغیر الہ آباد یونیورسٹی میں لیکچرر مقرر ہو گئے۔اس زمانہ میں الہ آباد یونیورسٹی کا انگریزی کا شعبہ سارے ملک میں شہرت رکھتا تھا۔
نغمۂ ساز، غزلستان، شعرستان، شبنمستان، روح کائنات، گل نغمہ، روپ اور گلبانگ کے نام سے کئی شعری مجموعے شائع ہو کر قبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ انھوں نے اعلیٰ درجے کی تنقید بھی لکھی۔ ان کی نثری کتابوں میں اندازے اور اردو کی عشقیہ شاعری معروف ہیں۔ فراق گورکھپوری کو گیان پیٹھ ایوارڈ اور دوسرے کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
فراق نے اردو زبان کو نئے گمشدہ الفاظ سے روشناس کرایا ان کے الفاظ زیادہ   تر روز مرّہ کی بول چال کے،نرم،سبک اور میٹھے ہیں۔فراق کی شاعری کی ایک بڑی خوبی اور خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے عالمی تجربات کے ساتھ ساتھ تہذیبی قدروں کی عظمت اور اہمیت کو سمجھا اور انہیں شعری پیکر عطا کیا۔ فراق کے شعر دل پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ دعوت فکر بھی دیتے ہیں اور ان کی یہی صفت فراق کو دوسرے تمام شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔
فراق کا انتقال 3 مارچ 1982 کو دہلی میں ہوا۔

Newer Posts Older Posts Home

خوش خبری