مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
(دوسری محفل)
شاعری کے اجزاء
ریڈ کراس سوسائٹی
سوچیے اور بتائیے:
سوال1:ہنری ڈونان نپولین سے کس مقصد سے ملنے گیا تھا؟
جواب: ہنری ٹونان شہنشاہ فرانس نپولین سے ملنے خاص سلفرینوگیا تھا۔ ڈونان کو الجزائر میں اپنے کیمپوں میں پانی کا معقول بندوبست کرنا تھا۔ اور اسی لیے وہ نپولین سے مل کر خاص سہولتیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔
سوال2:ڈونان کو ریڈ کراس سوسائیٹی قائم کرنے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟
جواب:میدان جنگ میں ہزاروں زخمی سپاہی بھوک، پیاس اور درد کی تکلیف میں کراہتے اور نیم مردہ دیکھ کر ٹوان کا دل کانپ اٹھا اور اس نے ایک ٹیم بناکرزخمیوں کی مرہم پٹی کی اور ابتدائی طبی امداد بہم پہنچائیں زخمی سپاہیوں کو اٹھا کر قریب کے دیہاتوں میں لے جایاگیا جہاں ان کا باقاعدہ علاج کیا گیا۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد بھی ڈونان کی بے چینی قائم رہی۔ اس نے جنیوا میں دوبارہ اپنے کاروبار میں دلچسپی لینے کی کوشش کی لیکن زخمی سپاہیوں کا دکھ اور تکلیف دہ نہ بھول سکا۔ اب وہ ایک ایسی با قاعدہ تنظیم کا خواب دیکھنے لگا جو عالمی پیمانے پر زخمی سپاہیوں کی مدد کر سکے۔ اور اسی طرح اسے ریڈ کراس سوسائٹی قائم کرنے کا خیال آیا۔
سوال3:ریڈ کراس سوسائی کے مقاصد کیا ہیں؟
جواب: ریڈ کراس سوسائٹی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔ یہ سوسائٹی دنیا کے ہر ملک میں قائم ہے۔ کہیں سیلاب آجاۓ ، قدرتی آفات میں انسانی زندیگی کا نقصان ہوجائے یا قتل وخون ک واقعات ہوں ہر جگہ ریڈ کراس سوسائٹی کی شاخیں انسانی خدمت کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔
سوال4:ڈونان کو کون سا انعام دیا گیا اور کیوں؟
جواب:ٹونان کو ریڈ کراس سوسئٹی کے قیام کے اعتراف میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔
بانسری والا
سوال 1 : لوگ چوہوں کی شرارت سے کیوں تنگ آگئے تھے؟
جواب: لوگ چوہوں کی شرارت سے اس لیے تنگ آگئے تھے کیونکہ چوہے کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑوں کو کتر کرخراب کردیتے تھے۔ سوتے ہوئے بچوں کو کاٹ لیتے تھے۔
سوال 2 : چوہوں کو بھگانے کے لیے کون سی ترکیب نکالی گئی؟
جواب: چوہوں کو بھگانے کے لیے لوگوں نے یہ ترکیب نکالی کہ وہ بانسری والے کو بلائیں گے جو اپنی بانسری کی دھن پر چوہوں کو کہ یہاں سے کہیں دور لے جائے گا۔
سوال3:بانسری والے نے چوہوں کو بھگانے کے لیے کون سی شرط ر کھی؟
جواب:بانسری والے نے شرط رکھی کہ وہ چوہے بھگانے کا ایک ہزار گولڈر لے گا۔
سوال4:بانسری والے نے وعدہ پورا نہ ہونے پر کیا کیا؟
جواب:بانسری والے نے ایسی بانسری بجائی کہ سارے بچے اس کہ پیچھے چلنے لگے اور اس طرح اس نے سارے بچوں کو ایک غار میں قید کر دیا
| :مزید دیکھیں | ||
| ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد | اکبر الہ آبادی طنز و اصلاح کا شاعر |
حضرت خضر علیہ السلام اور آبِ حیات
حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔ ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔ ''خضر'' کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ آپ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔
آپ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور آپ کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔
(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)
ہو سکےتو آپ بھی اس کنیت کو یاد رکھئے گا۔ ابوالعباس بلیا بن ملکان۔
حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔
(صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)
تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔
کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔ اس میں کچھ علماء نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن جمہور علماء (یعنی کثیر علماء) کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپ کا دور حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سو برس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان 400 سال کا فرق ہے۔ تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے۔ واللہ تعالی اعلم۔ امام بدر الدین عینی صاحب شرح بخاری نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے اور صحیح بھی یہ ہے کہ وہ نبی ہیں اور زندہ ہیں ۔
(عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی ۔کتاب العلم،باب ما ذکرفی ذہاب موسی، ج۲،ص۸۴،۸۵)
خدمت بحر (یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) انہیں سے متعلق (یعنی انہیں کے سپرد) ہے اور اِلیاس علیہ السلام '' بَرّ ''(خشکی) میں ہیں۔
(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ،حرف الخاء المعجمۃ،باب ماوردفی تعمیرہ،ج۲،ص۲۵۲)
اسی طرح تفسیر خازن میں ہے (اور اکثر عُلَماء اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے) کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں۔ یہ بھی اسی میں منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔ اسی طرح تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ صحابی بھی ہیں۔
(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)
اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت بھی فرمائی تھی ۔ کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اور باطن مساوی نہ ہو تو منافق ہوتا ہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے۔ یہ سن کر عمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔
(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مساواتہم السر والعلانیۃ،ص39)
اور بھی بزرگان دین نے ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ واللہ تعالی اعلم
آب حیات کے متعلق بہت اختلاف ہے۔ بعض لوگ اس کو ایک افسانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ۔ کیونکہ آب حیات کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی کسی صیحح حدیث میں۔ ہاں کچھ علماء کرام نے اس کا تذکرہ اپنی تفسیر میں حضرت ذوالقرنین کے پہلے سفر کے ذمرے میں کیا ہے۔ جیسے کہ تفسیر خزائن العرفان پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸ میں نقل ہے۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہءحیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ''ناسک'' کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کر دیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔
اسی طرح تفسیر خازن اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر اور الیاس جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ اور یہ کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا۔ بس آب حیات یا چشمہ حیات کی اتنی حقیقت ہی کتب میں لکھی ہے۔ مگر اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم
(تاریخ اسلام کے فیس بُک صفحہ سے شکریہ کے ساتھ)
| حیات | : | زندگی |
| قضا | : | موت، حکمِ خدا |
| عمر خضر | : | مرادلمبی عمر |
| بوقتِ مرگ | : | موت کے وقت |
| فغاں | : | آہ و زاری، واویلا |
| بادِ صبا | : | صبح کی ٹھنڈی ہوا، پُروائی |
| بساط | : | وہ خانے دار کپڑا جو چوسر یا شطرنج کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے |
| بدقمار | : | ناکام جواری |
| نازاں ہونا | : | ناز کرنا، فخر کرنا |
| خرد | : | عقل |
| دانش | : | سمجھ بوجھ |
| دانش وری | : | ہوشیاری ،سمجھ داری، زیادہ علم رکھنا |
| کلک برائے دیگر اسباق |