آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday, 9 December 2021

Interview Ek Sahafi Se

 انٹرویو  ایک صحافی سے

2018

تحسین عثمانی رسالہ اسپین کے مدیر ہیں۔یہ رسالہ امریکی سفارت خانے سے شائع ہوتا ہے ۔آپ نے دہلی میں روزنامہ عوام سے اپنی صحافتی ز ندگی کا آغا زکیا اور دہلی کے کئی دیگر بڑے اخبارات میں بھی صحافتی  خدمات انجام دیں۔آپ نے روز نامہ عوام،ہندوستان ایکسپریس اور خبررساں ایجنسی یو۔این۔آئی میں کام کیا۔ آپ نے صحافتی امور کے لئے بیرونی ممالک کے دورے بھی کئے۔وہ ہفت  روزہ ویوزٹائمز کے پبلیشراور مدیر بھی رہے۔پیش ہیں ان سے لئے گئے  ایک انٹرویو کے اقتباسات۔


سوال۔آپ کو صحافت کا شوق کیسے ہوا؟

جواب۔صحافت کا شوق مجھے بچپن سے  تھا۔اسکول سے ہی مجھے مضامین لکھنے کا شوق رہا   اور جب میں آٹھویں کلاس میں تھا  تب میں نے مضمون نویسی کے ایک مقابلہ میں حصہ لیا جس میں ضلع بھر کے تمام اسکولوں کے طلبہ نے شرکت کی۔مقابلہ کا موضوع تھا"اقبال کی وطنی شاعری"اس میں مجھے اول انعام حاصل ہوا۔جب میں دلی آیا تو یہاں  رہنے کے لئے کچھ کام کرنا ضروری تھا۔دہلی میں گزر بسر آسان نہیں تھی اور مجھے رہنے کے لئے نوکری کی ضرورت تھی لکھنے پڑھنے کا شوق شروع  ہی سے تھا اس لیےاعلیٰ تعلیم  جاری رکھنے کے لیےمیں نے یہاں جامعہ  ملیہ اسلامیہ میں ایم۔اے میں ایڈمیشن لیا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری کا سلسلہ بھی جاری رکھا یہ میرا شوق بھی تھا اور میری ضرورت  بھی۔


سوال۔اگر آپ صحافی نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟

جواب۔صحافت  میرا شوق تھا اور اس شوق نےمجھے کسی اور جانب جانے نہیں دیا۔ورنہ اگر میں صحافی نہیں ہوتا تو   آج میں کسی کالج میں لیکچرر اور پروفیسر ہوتا  لیکن صحافت کا شوق اس درجہ غالب تھا کہ میں نے مدرسی کا پیشہ چھوڑ کر صحافت  کےمیدان میں جانے کو ترجیح دی۔صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں آپ ہمیشہ  مظلوموں اور کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اردو صحافت نے ہمیشہ ہی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی۔حق کے لئے آواز اٹھانے کا جو جذبہ تھا اس نے مجھے ہمیشہ اس بات کے لئے مجبور کیا کہ میں اپنے قلم سے  ان تمام لوگوں کی آواز بنوں  جو کہ اپنے حق سے محروم ہیں۔


سوال۔آپ کی نظر میں ایک اچھا صحافی بننے کے لئے کن باتو ں کا ہونا ضروری ہے؟

جواب۔ایک اچھا  صحافی وہی ہوسکتا ہے جس کے دل میں کمزوروں کی محبت ہو وہ کمزوروں کے حق کے لئے آواز اٹھانے کا جذبہ اپنے دل میں رکھتا ہو۔وہ سماج میں کچھ بہتر ہوتا دیکھنا چاہتا ہو۔وہ  صرف حکومت کی مخالفت نہ کرے بلکہ اس کی غلطیوں کی نشان دہی  بھی ضرور ی سمجھے ۔اس لئے ایک اچھے صحافی کو  حکومت  کی  کمزوریوں پر اپنی نظر رکھنی چاہئے اور اس کی نشان دہی  کے ساتھ اس کے حل کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہئے۔ سماج کے لئے جو بہتر ہو اسے اپنی تحریر میں  لانا چاہئے۔ ایک صحافی کے لئے یہ بھی  ضروری ہے کہ وہ جس زبان میں صحافت کرتا ہے اس زبان پر اسےعبورحاصل ہو۔ آج کل دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جو صحافی ہیں  وہ اپنے سبجیکٹ میں کمزور ہیں اس لئے جو اخبارات  ہیں اس میں ایسی غلطیاں نظرآتی ہیں جو افسوسناک ہیں۔


سوال۔آپ اپنے کچھ نمایا ںکام بتائے؟

جواب۔بچپن سے مجھے آن لائن یعنی انٹرنیٹ پہ کام کرنے کا شوق رہا اس لئے میں اپنے شروعاتی دور میں جب کہ انٹرنیٹ کا آغاز تھااور اردو اخبارات اس سے آشنا نہیں تھےمیں نے انٹرنیٹ پر ویب سائٹ بنانے کا کام کیا۔جو ہندوستان میں اردو اخبارات کے لیے ایک  مشعل راہ بنی تھی۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر مکمل طور سے دسترس رکھنے والے صحافیوں کی جو کھیپ تھی  ان میں شاید میں پہلا صحافی تھا جو دوسروں کی بہ نسبت   اس میدان میں کہیں زیادہ ممتاز تھا۔اور یہی سبب ہے کہ میں آج اس مقام پر ہوں۔


سوال: اردو ادب میں آپ کی پسندیدہ شخصیت کون سی ہے؟

جواب: میری پسند ایک ایسی شخصیت ہے جسے ادب والوں نے ادب کا حصہ قبول کرنے میں کنجوسی سے کام لیا۔ میں جاسوسی ادب کا دلدادہ ہوں اور میں نے ابن صفی کو اپنے بچپن سے ہی خوب پڑھا۔ اور آج جو زبان ہم بولتے ہیں یا لکھتے ہیں اس میں کم از کم میرے فن کی تخلیق میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ایک اچھے طالب علم کو چاہیے کہ وہ خوب مطالعہ کرے۔ اس لیے کہ  آپ کامطالعہ جتنا وسیع ہوگا آپ کا قلم اتناہی تیز رفتار ہوگا۔آپ کے پاس الفاظ کا ایک خزانہ ہوگا جن کو آپ  الگ الگ مواقع پر استعمال کر سکیں گے۔


سوال: آپ کی نظر میں ایک اچھے طالب علم کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب: ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ بہترین ادب پڑھے، اصلاحی ادب پڑھے۔خاص طور سے لڑکیوں کو مطالعہ میں اصلاحی کتابوں پر زیادہ زور دینا چاہیے۔دینی کتابیں ،اسلامی حکایات، اسلامی قصے، اسلامی طرز زندگی ،اسلامی طرز رہائش اور ساتھ ہی ساتھ انہیں چاہیے کہ ان پرانی لکھنے والی خواتین کے ناولوں کا مطالعہ کریں جو اپنے عہد کی سماجی زندگی کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔


سوال:  آپ نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ کن کاموں میں صرف کیا؟

جواب: میری زندگی کا ایک بڑاحصہ پڑھنے لکھنے میں گزرا۔ میں نے سیکڑوںمضامین لکھے۔ اخبارات میں کام کرتے ہوئے دن کیا ہوتا ہے اور رات کیا یہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ میں ڈھائی تین بجے رات میں اخبار مکمل کرکے جب کوئی سواری نہیں ملتی تو  حضرت نظام الدین سے اوکھلا پیدل گھر آتا۔میرے ساتھ میری ہی طرح کے کچھ اور دیوانے ہوتے جو اسی اوکھلا کے علاقے میں رہتے ہیں۔وہ سب لوگ وہ تھے جن کو تنحواہ کی فکر نہیں تھی۔ آج کے نظریے سے دیکھا جائے تو سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی کم تنخواہ میں اتنازیادہ وقت ہم کس طرح دیا کرتے تھے۔آج لوگ ۸ گھنٹے کی ڈیوٹی کرکے اس سے فاضل کام کرنا نہیں چاہتے لیکن ہم بغیر کسی اوور ٹائم کےصرف  اور صرف اپنے شوق کی خاطر بہترین سے بہترین اخبار نکالنے کی کوشش کرتے۔


سوال: آپ نے اپنے اہم فیصلوں میں کس کس سے صلاح مشورہ کیا؟

جواب: زندگی کے ہر فیصلے میں میری سب سے بڑی صلاح کار اور مددگارمیری امی تھیں۔ انہوں نے آگے بڑھنے میں میری ہر طرح سے مدد کی اور میری کامیابی میں جو سب سے بڑا حصہ ہے وہ میرے والد کی دعاؤں کا ہے۔اگر آج ان کی دعا ئیں شامل حال نہیں ہوتی تو میں اس مقام پر نہیں ہوتا۔عملی طور میری امی نے نہ صرف  اپنے  مفیدمشوروں سے نوازا  بلکہ مالی طور پر میرا ہر طرح سے ساتھ دیا۔جب دلی میں رہنا دشوار تھا تو ان کے بھیجے ہوئے روپے ہی میرا سہارا تھے۔اور اگر یہاں میں اپنے بھائیوں کا ذکر نہ کروں تو یہ نا انصافی ہوگی۔ میری بیگم  بھی میرے مشوروں میں شامل رہیں اور آہستہ آہستہ اللہ کے فضل وکرم اور اپنی بیٹیوں کی قسمت سے ہم آج اس مقام پر ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نام بھی دیا،عزت بھی دی اور شہرت بھی۔


صحبہ عثمانی


Saturday, 4 December 2021

Meri Nazar- Sketches By Sehba Usmani

میری نظر












 

Monday, 29 November 2021

Lai Hayat Aae Qaza Le Chali Chale by Ibrahim Zauq

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے
شیخ محمد ابراہیم ذوق
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 

 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بد قمار 
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے ابھی چلے 

نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے، ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانشوری چلے

دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ 
 تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے 

جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی  بلا  سے باد صبا  اب  کبھی  چلے




Monday, 31 May 2021

Mere Qabil e Tahsin Abba

 


نام تحسین عثمانی اسم با مسمیٰ
کشادہ پیشانی،الجھے ہوئے بال،کھڑی ناک، صاف و شفاف چہرہ یہ ہیں میرے پاپا۔ مونچھیں کبھی بڑھ کر ہونٹوں تک آجاتی تھیں کبھی سلیقے سے تراش دی جاتی تھیں۔ آنکھیں ہر وقت کچھ سوچتی رہتی تھیں۔ میرے والد پیشے سے صحافی تھے اور ان کا دماغ شاید ہر وقت کچھ نہ کچھ تعمیری فکر میں لگا رہتا تھا۔ سماج میں بکھری ہوئی غریبی اور بدحالی اور ملت کا انتشار ہر وقت ان کے ذہن پر چھایا رہتا تھا اور وہ اس کے حل  اور سماج میں بیداری پیدا کرنے  کے لیے اپنے قلم کو مصرف میں لانے پر غور کرتے رہتے تھے۔ ان کا قلم جب لکھنے پر آتا تھا تو ایسے ایسے باریک نکتوں پران کی نگاہ جاتی تھی کہ قاری دم بخود رہ جاتا اور اس کی سوچ میں ایک نمایا مشبت تبدیلی پیدا ہوتی۔ 
یہی وجہ تھی کہ صحافتی  دنیا میں انہیں  ایک خاص مقام حاصل تھا۔ غور و فکر ان کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔ ہم بہنیں جب بھی ان سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے وہ فوری کسی سوال کا جواب نہیں دیتے۔ وہ ایک لمحہ کو کچھ سوچتے تھے اور پھر اس سوال کو کسی دوسرے وقت کے لیے ٹال دیتے تھے۔ ایسا نہیں کہ وہ ہمارے سوالوں کا جواب دینا نہیں چاہتے بلکہ اُن کی منشا یہ ہوتی کہ کسی بھی سوال کا تشفّی بخش جواب دیں۔ 
اور پھر جب اپنی سوچ سے آزاد ہوتے تھے تو پوچھے گئے سوال کا مفصل جواب سمجھاتے تھے۔
وہ اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ ان کی یہ کوشش رہتی تھی کہ ان کی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ اپنی تینوں بیٹیوں کو ایک نظر سے دیکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کسی کو ایک دوسرے سے شکایت نہ ہو۔ اپنی بیٹیوں کی فرمائش پوری کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے حد تو یہ تھی کہ عمر کا لحاظ کیے بغیر صرف اس لیے کہ ہم ایک دوسرے کو کم نہ سمجھیں تینوں کو ایک ایک موبائل دے رکھا تھا ۔ ہاں وہ اس بات کا دھیان ضرور رکھتے تھے کہ ہم اس کا منفی استعمال نہ کریں۔
میری بڑی بہن نے تو اپنے بورڈ کے امتحان میں ان سہولتوں کا بھرپور استعمال کیا اور بورڈ میں اپنے نمبرات حاصل کرکے یہ ثابت کیا کہ میرے پاپا کی سوچ غلط نہیں تھی کہ بچوں کو سہولتیں دی جائیں اور ان کی اچھی تربیت کی جائے تو نتائج ہمیشہ شاندار ہوتے ہیں۔
 میرے پاپا ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم کبھی یہ مت بھولو کہ تم کون ہو،کیا ہو۔اگر اپنے باپ اور دادا کو نظر میں رکھوگی تو کبھی کوئی غلط کام نہیں کرو گی۔

Saturday, 13 March 2021

Ibtedai Urdu Class 5 NCERT Urdu Content

(اس صفحہ پر کام جاری ہے)
ترتیب


کسان کی دعا  افسر میرٹھی
نادان کچھوا
بی بی فاطمہ
 ترانۂ ہندی (نظم) محمد اقبال
لڑکا لڑکی ایک سمان
ہمدردی ڈپٹی نظیر احمد
میری پسند (نظم) محبوب راہی
 صحت اور صفائی
درختکی گواہی
نونہالو(نظم) شاد عارفی
گرونانک
زیرو ناٹ آؤٹ مشتاق احمد یوسفی
کتابیں (نظم) ظفر کمالی
آئیے لغت دیکھیں عصمت جاوید
پہلی جنگ آزادی کا سپہ سالار
دریا کنارے چاندنی (نظم) اختر شیرانی
کیرالا کی سیر
ننھی پجارن (نظم) اسرار الحق مجاز
 اچھے خیالات
ڈاکٹر مختار اےمد انصاری
قدرتی آفات

Sunday, 17 January 2021

Duniya Meri Bala Jane by Fani Badayuni Class 10 Nawa e Urdu

 دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے
فانی بدایونی

دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے 
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے 

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں 
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے 

جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں 
آگے مرضی گاہک کی، ان داموں تو سستی ہے 

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا 
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے 

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے 
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے 

دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم 
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے 

فانیؔ! جس میں آنسو کیا، دل کے لہو کا کال نہ تھا 
ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے

فانی بدایونی
(1879  - 1941)
شوکت علی خاں نام، پہلے شوکت اور بعد میں فانی تخلص اختیار کیا۔ اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد پولس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ فانی نے 1897 میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1901 میں بریلی کالج بریلی سے بی۔ اے۔ پاس کرنے کے بعد ملازمت اختیار کی۔ کچھ عرصے تک مدرس رہے، بعد میں ملازمت ترک کر دی اور 1908 میں ایم ۔ اے۔ او کالج علی گڑھ (موجودہ مسلم یونیورسٹی) سے ایل ایل ۔ بی۔ کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد لکھنؤ، آگرہ، اٹاوہ، بریلی اور بدایوں میں وکالت کی، لیکن فانی کو وکالت سے دل چسپی نہ تھی۔ اس لیے اس پیشے میں انھیں کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ 1932 میں مہاراجہ کشن پرشاد کی دعوت پر حیدر آباد پہنچے ۔ مہاراجہ کے دربار سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ وہ حیدر آباد کے ایک سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔ فانی کے آخری ایام تنگ دستی اور پریشانی میں گزرے۔ ان کا انتقال حیدر آباد میں ہوا۔ فانی کا یہ مقطع ان کی زندگی پر صادق آتا ہے
فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں ہے گورو کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا
 فانی نے پہلی غزل 1890 میں یعنی گیارہ سال کی عمر میں کہی۔ ان کے والد شاعری کے خلاف تھے۔ اس لیے فانی چھپ کر شعر کہتے تھے۔ زیادہ تر کلام تلف ہو گیا، جو کچھ بچا وہ " باقیات فانی‘‘ (1926) کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں دیگر اور مجموعے" عرفانیات فانی" (1939) اور "وجدانیات فانی (1940) کے نام سے منظر عام پر آئے۔
فانی کا شمار اردو کے ممتاز غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ شاعری میں درد وغم کے مضامین کی کثرت کے باعث فانی کو یاسیات کا امام کہا گیا ہے۔

تشریح:
دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے 
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح:- فانی کی مشہور غزل کا مطلع ہے۔ فانی بدایونی کے کلام میں موت اور دردوغم کے مضامین کی فراوانی ہے۔ اس مطلع میں موت کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ان کی خودداری صاف ظاہر ہوگئی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ دنیا کتنی مہنگی یاسستی ہے۔ مجھے کوئی چیز مفت نہیں چاہے، یہاں تک کہ موت بھی مفت میں نہیں لوں گا۔ جب زندگی دوں کا تبھی موت ملے گی۔

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں 
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح:- فانی کہتے ہیں کہ ہم نے آبادی بھی دیکھی ہے اور ویرانے بھی ۔ ویرانے آبادی میں بدل جاتے ہیں اور آبادی ویران ہو جاتی ہے۔ مگردل ایسی نرالی بستی ہے جو اجڑ جائے تو پھر نہیں بستی، یعنی عشق ایک مرتبہ ہوتا ہے اور اس عشق میں عاشق ناکام ہو جائے تو پھر عاشق کی روتے روتے گزرتی ہے اس دل میں دوبارہ کوئی نہیں بستا۔

جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں 
آگے مرضی گاہک کی، ان داموں تو سستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- سچا عاشق محبوب کی ایک نظر کا محتاج ہوتا ہے محبوب اسے نظر بھر کر دیکھ لے تو وہ اپنی جان بھی قربان کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں گاہک سے مراد محبوب ہے۔ عاشق نے اپنی جان کی قیمت محبوب کی ایک نظر رکھی ہے اور یہ قیمت انتہائی کم ہے۔

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا 
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- فانی بحیثیت عاشق کہہ رہے ہیں کہ محبوب کے بغیر یہ پوری دنیا سونی ہوگئی اور اسے یاد کر کے روتے روتے آنکھوں کا برا حال ہو گیا۔ یہ دنیا پہلے بھی تھی اور یہی دنیا اب بھی ہے لیکن جب محبوب سامنے تھادنیا پر رونق نظر آتی تھی اور اب محبوب کے نہ ہونے سے دنیا سونی ویران ہوگئی ہے۔

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے 
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- فانی نے اس شعر میں گھٹا کی اس کیفیت سے فائدہ اٹھایا ہے جب آسمان پر سیاہ بادل چھا جاتے ہیں مگر برستے نہیں اور نہ برسنے والے بادلوں کی وجہ سے فضا بوجھل ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مجبوب کیلئے آنسو خشک ہو گئے ۔ جی چاہتا ہے کہ کھل کر روؤں لیکن اب آنسو ہی نہیں لگتا ہے کہ دل پر ایسی گھٹا چھائی ہے کہ نہ تو کھلتی ہے اور نہ بارش ہوتی ہے۔ رونے کی خواہش کے باوجود آنکھ سے آنسو نہیں آتے۔ بستی ہے یعنی اس بسنے میں وقت لگتا ہے اور اسے اجاڑ نے میں اتنا وقت صرف نہیں ہوتا۔

دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم 
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- اس غزل کے مقطع میں فانی کہہ رہے ہیں کہ ایک وقت تھا جب ہماری آنکھوں میں آنسوؤں کی بہتات تھی اور دل کے لہو کی بھی کمی نہیں تھی۔ یعنی جب آنسو نہیں نکلتے تھے تو ان کی جگہ دل کا خون آنسو بن کر ان آنکھوں سے بہتا تھا لیکن اب روتے روتے یہ حال ہو گیا ہے کہ اب آنکھوں میں دو قطرے آنسو بھی نہیں آتے ، رونے کی کثرت کی وجہ سے آنکھیں خشک ہوگئی ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ شاعر نے دل کو نرالی بستی کیوں کہاہے؟
جواب:کیونکہ دل ایسی بستی ہے کہ اجڑنے کے بعد دوبارہ نہیں بستی جبکہ دنیا میں ایسی ان گنت بستیاں
ہیں جو ویران ہونے کے بعد پھر بس گئیں مگر دل کے ساتھ یہ معاملہ نہیں اسلئے دل نرالی دنیا ہے۔
2۔"ہستی" کیا ہستی ہے؟ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:"ہستی" کے پہلے معنی ہیں وجود، زندگی اور دوسرے معنی ہیں 'مجال، طاقت، حیثیت، قیمت مصرعے کے اس حصے سے مراد یہ ہے کہ زندگی کی کیا مجال، زندگی کی کیا حیثیت ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں زندگی کو انمول شے نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔
3۔ بستی بسناکھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے، اس مصرعے میں پہلے لفظ بستی اور دوسرے لفظ
بستی کے فرق کو واضح کیجئے۔
جواب:بستی کے معنی آباد ہونے کا عمل ہے۔ یعنی پہلا لفظ بستی کے معنی آباد جگہ یا گاؤں قصبے کے ہیں اور دوسرے لفظ بستی کے معنی آباد ہونے کاعمل ہے یعنی پہلا لفظ اسم ہے اور دوسرا لفظ فعل ( کام کا کرنا یا ہونا ) ظاہر کرتا ہے۔

Dhoondo ge agar mulkon mulkon by Shad Azimabadi Class10 Nawa e Urdu

 ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
شاد عظیم آبادی

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے نفسو!وہ خواب ہیں ہم 

اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا 
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم 

ہے دل میں تڑپتے جی بھر کر پر ضعف نے مشکیں کس دی ہیں 
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم 

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر 
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم 

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو اک 
اے اہل زمانہ قدر کرو، نایاب نہیں کم یاب ہیں ہم 

مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے 
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

شادعظیم آبادی
(1846- 1927)
علی محمد شاد عظیم آباد(پٹنہ ) میں پیدا ہوئے۔ گھر پر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصے تک انگریزی بھی پڑھی علوم اسلامی کی تحصیل کے ساتھ ساتھ انھوں نے عیسائیوں، پارسیوں اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا۔
نثر ونظم دونوں میں شادنے کئی تصانیف اپنی یادگار چھوڑیں ہیں ۔ شاد کی غزلوں کا دیوان ان کی وفات کے بعد 1938 میں" نغمہ الہام‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں ان کی خودنوشت اور متعدد مجموعے منظر عام پر آئے۔
شاد نے مثنوی، غزل ، قصیده، مرثیہ اور دوسری اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی شہرت کا اصل باعث ان کی ساده ، مترنم اور شیریں غزلیں ہیں۔

Saturday, 16 January 2021

Adab Ne Dil Ke Taqaze Uthaye Hain Kya Kya By Yaas Yagana Changezi

 ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیاکیا
یاس یگانہ چنگیزی
ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا 
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور 
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا 
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے 
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا 
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا 
خوشی میں اپنے قدم چوم لوں تو زیبا ہے 
وہ لغزشوں پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا
خدا ہی جانے یگانہؔ میں کون ہوں کیا ہوں 
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا

یاس یگانہ چنگیزی
(1883 - 1956)
مرزا واجد حسین نام، پہلے یاس تخلص کرتے تھے، بعد میں یگانہ ہو گئے۔ ابتدا میں مولوی سید علی خاں بیتاب سے اصلاح سخن لیتے تھے۔ بعد میں شاد عظیم آبادی کے شاگرد ہو گئے ۔ 1904 میں کلکتہ گئے، وہاں بیماری نے طول کھینچا تو علاج کے لیے لکھنؤ آئے لکھنؤ ہی میں شادی کی اور یہیں بس گئے لکھنؤ کے زمانہ قیام میں کئی ہم عصروں سے ان کے معرکے رہے۔ لکھنؤ میں غالب کے کلام کی مقبولیت کے باعث یگانہ مرزا غالب کے خلاف ہو گئے ۔ خود کو غالب شکن کہتے تھے۔
ان کی شخصیت میں خود پسندی بہت تھی۔ آزاده روی ان کے مزاج کی خاصیت تھی ۔ کلام میں قوت اور زور کے ساتھ ساتھ تلخی بہت ہے۔ ان کی شاعری میں ایک خاص طرح کی انفرادیت کا رنگ حاوی ہے۔ بول چال کے ایسے الفاظ بھی جو ادبی زبان کا حصہ نہیں ہیں، معنی میں تیزی اور تندی لانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان کی رباعیاں بھی مشہور ہیں ۔ کلام کے مجموعے ” آیات وجدانی‘‘ اور" گنجینہ" کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کا کلیات اردو کے نامور محقق مشفق خواجہ نے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔

Sindbad Jahazi Ka Ek Safar NCERT Class 9

 سندباد جہازی کا ایک سفر

سوچیے اور بتائیے:
سوال: لکڑہارے نے خدا سے کیا شکایت کی؟
جواب: لکڑہارے نے شکایت کی کہ اے خدا یہ کہاں کا انصاف ہے؟ میں صبح سے شام تک محنت کرتا ہوں پھر بھی پیٹ بھر روٹی نہیں ملتی اور امیر لوگ سارا دن آرام کرتے ہیں پھر بھی روزانہ ہزاروں پیسہ اڑاتے ہیں-

سوال:لکڑہارے نے سندباد کے محل میں کیا دیکھا؟
جواب: لکڑہارے نے سندباد کہ محل  میں دیکھا کہ دسترخوان بچھا ہوا ہے اور اس پر طرح طرح کے کھانے لگے ہیں اور وہاں بہت سے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ طرح طرح کےکھانوں کا لطف اٹھا رہے ہیں اور انہوں نے قیمتی کپڑے پہن رکھے ہیں۔

سوال 3 : سند باد جزیرے پر اکیلا کیوں رہ گیا تھا؟
جواب:
سوال:لوگ گھاٹی سے جواہرات کیسے حاصل کرتے تھے؟
جواب:لوگ گھاٹی میں گوشت کے ٹکڑے پھینکتے تھے ان ٹکڑوں پر جواہرات چپک جاتے تھے۔ پرندے گوشت کو اپنے گھونسلے ۔یں لاتے تھے جس میں چپک کر جوہرات جھونپڑوں میں آجاتے اوروہاں سے لوگ جواہرات چن لیتے تھے۔

  سوال:رخصت ہوتے وقت سند باد نے لکڑہارے سے کیا کہا ؟
جواب:رخصت ہوتے وقت سندباد نے لکڑہارے سے کہا محنت کے بغیر انسان کو راحت نصیب نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر زندگی میں امن و سکون کے لیے خوب محنت کرنی چاہیے۔

Kahawaton Ki Kahani By Furqat Kakorvi NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

کہاوتوں کی کہانی
غلام احمد فرقت کا کوروی
ہم روز مرہ اپنی آپس کی بول چال میں ایسی کہاوتیں اور محاورے بولتے ہیں جن کا مطلب تو سمجھ لیتے ہیں مگر ہم کو نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کہاوتیں اور محاورے کس طرح ہماری زبان میں آئے اور انھیں ہم کب سے بولتے چلے آرہے ہیں ۔ تم کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ان محاوروں اور کہاوتوں میں بعض ایسے ہیں جن کے پیچھے بڑے دل چسپ لطیفے اور قصے چھپے ہوئے ہیں۔
ہم اپنی روز مرہ کی گفتگو میں"  وہی مرغے کی ایک ٹانگ" بولتے ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی بس اپنی ہی بات پر اڑا رہے، چاہے حقیقت اس کے خلاف ہو۔ اس مقولے کے پیچھے جو قصہ چھپا ہے، وہ بڑا دلچسپ ہے۔
  ایک انگریز کے یہاں ایک خانساماں نے ایک مسلم مرغ پکا کر اس کی ایک ٹانگ خود کھالی اور ایک اپنے صاحب کے سامنے کھانے کی میز پر رکھ دی ۔ صاحب نے ایک ٹانگ دیکھ کر کہا:
  ’’ول خانساماں! اس مرغ کی ایک ٹانگ کہاں ہے۔؟“ "حضور! اس مرغے کی ایک ہی ٹانگ تھی۔ "خانساماں نے جواب دیا۔"
  اس پر صاحب کو ہنسی تو آئی مگر وہ خاموش ہو کر برآمدے میں ٹہلنے لگا۔ برآمدے کے سامنے کچھ مرغ اور مرغیاں دا ناچنگ رہی تھیں۔ ان میں ایک مرغ اپنا ایک پاؤں سمیٹے دوسرے پاؤں سے کھڑا تھا۔ خانساماں کو اچھا موقع ملا۔ اس نے کہا۔” دیکھیے صاحب یہ مرغ بھی ایک ہی ٹانگ کا ہے۔‘‘
  یہ سن کر صاحب، مرغ کے پاس گئے اور انھوں نے ہش ہش‘‘ کیا۔ مرغ نے دوسری ٹانگ بھی نکال دی۔ خانساماں نے یہ دیکھ کر کہا۔ ”حضور ! کھانا کھاتے وقت سرکار سے بڑی چوک ہوگئی ۔ اگر آپ اس پکے ہوئے مرغ کے سامنے ” ہش ہش" کرتے تو وہ بھی اپنی دوسری ٹانگ نکال لیتا‘‘
  اس وقت سے یہ فقره ضرب المثل بن گیا۔
  اسی طرح ایک دوسری مثل ہے” اونٹ کس گل بیٹھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھیے کیا ظہور میں آتا ہے اور کیا انجام ہوتا ہے۔ اس سے متعلق یہ مشہور ہے کہ ایک کمھار اور ایک سبزی فروش نے مل کر ایک اونٹ کرائے پرلیا اور اس کے ایک ایک طرف اپنا سامان لاد دیا۔ راستے میں سبزی بیچنے والے کی ترکاری کو اونٹ گردن موڑ کر کھانے لگا۔ یہ دیکھ کر کمھار مسکراتا رہا۔ جب اونٹ منزل پر پہنچا تو جدھر کمھار کے برتنوں کا بوجھ تھا، اونٹ اسی کروٹ بیٹھا جس سے بہت سے برتن ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اس وقت سبزی بیچنے والے نے کمھار سے ہنس کر کہا۔
  کیوں گھبراتے ہو، دیکھو اب آئندہ اونٹ کس کل بیٹھتا ہے؟‘‘
  ہم اکثر کہتے ہیں "حضور آپ ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے"۔ یہ فقره اس وقت بولتے ہیں جب بہت زیادہ انکساری ظاہر کرنی ہوتی ہے۔ اب اس مقولے سے متعلق جو لطیفہ ہے اسے سن لیجیے۔ ایک مرتبہ ایک مسخرے کو دل لگی سوجھی۔ جھٹ پٹ اس نے چند دوستوں کی دعوت کردی۔ جب وہ لوگ آ کر بیٹھ گئے تو اس نے سب کے جوتے لے کر ایک شخص کے حوالے کیے۔ اسے پہلے ہی سے مقرر کر رکھا تھا۔ وہ شخص سارے جوتے کباڑی بازار میں جا کر بیچ آیا۔ یہ رقم دعوت کے کھانے کی تیاری میں کام آئی۔ جب دستر خوان پر کھانا چنا گیا تو سب مہمانوں نے مسخرے سے کہا۔ آپ نے اتنی تکلیف کیوں کی؟" مسخرے نے نہایت عاجزی سے کہا۔ ” یہ سب آپ ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔"
   کھانا کھانے کے بعد جب سب لوگ جوتے پہننے کے لیے اٹھے تو جوتے غائب تھے۔ اس پر مسخرے نے کہا۔ "حضور! وہ تو میں آپ سے پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ یہ سب آپ کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔“
   ایک اور کہاوت ہے” اونٹ کے گلے میں بلی"۔ یہ مقولہ اس وقت بولا جاتا ہے جب انسان کسی مشکل میں پڑ جاتا ہے اور اس سے نکلنے کی فکر کرتا ہے ۔ چناں چہ مشہور ہے کہ ایک شخص کا اونٹ کھو گیا ۔ جب با وجود انتہائی تلاش کے اونٹ نہ ملا تو اس نے قسم کھائی کہ اگر اونٹ مل جائے گا تو اسے ٹکے کا بیچ دے گا۔ اتفاق سے وہ اونٹ مل گیا۔ اس وقت یہ شخص گھبرا گیا کہ اب تو بہ ہر حال اونٹ کو ایک ٹکے میں بیچنا پڑے گا۔ یہ دیکھ کر ایک آدمی نے اس کو یہ صلاح دی ۔ ” تم اس کے گلے میں ایک بلی باندھ دو اور اس طرح آواز لگاؤ کہ ایک ٹکے کا اونٹ ہے اور سو روپے کی بلی، لیکن یہ دونوں ایک ساتھ بکیں گے۔ اس شخص نے ایسا ہی کیا جس کے بعد اس کو مصیبت سے نجات مل گئی۔

غلام احمد فرقت کا کوروی
(1910 - 1973)
فرقت کا کوروی کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ بچپن میں ہی باپ کے سایے سے محروم ہو جانے کی وجہ سے ابتدائی عمر معاشی تشنگی میں بسر ہوئی مگر تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ لکھنؤ اور علی گڑھ کی دانش گاہوں سے ایم اے، بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تاریخ کے استاد کے طور پر انگلو عربک اسکول ، دہلی میں تقر یا تیس سال تک درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔
طنز و مزاح ان کا خاص میدان تھا۔ وہ نثر ونظم دونوں میں یکساں قدرت رکھتے تھے۔ ان کا طرز تحریر دل چسپ اور عام فہم ہے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ادیبوں میں ہوتا ہے۔
’’كف گل فروشان، " قد مچے"، ناروا" ان کے نثری اور شعری مجموعے ہیں۔

 

خوش خبری