آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday, 31 May 2021

Mere Qabil e Tahsin Abba

 


نام تحسین عثمانی اسم با مسمیٰ
کشادہ پیشانی،الجھے ہوئے بال،کھڑی ناک، صاف و شفاف چہرہ یہ ہیں میرے پاپا۔ مونچھیں کبھی بڑھ کر ہونٹوں تک آجاتی تھیں کبھی سلیقے سے تراش دی جاتی تھیں۔ آنکھیں ہر وقت کچھ سوچتی رہتی تھیں۔ میرے والد پیشے سے صحافی تھے اور ان کا دماغ شاید ہر وقت کچھ نہ کچھ تعمیری فکر میں لگا رہتا تھا۔ سماج میں بکھری ہوئی غریبی اور بدحالی اور ملت کا انتشار ہر وقت ان کے ذہن پر چھایا رہتا تھا اور وہ اس کے حل  اور سماج میں بیداری پیدا کرنے  کے لیے اپنے قلم کو مصرف میں لانے پر غور کرتے رہتے تھے۔ ان کا قلم جب لکھنے پر آتا تھا تو ایسے ایسے باریک نکتوں پران کی نگاہ جاتی تھی کہ قاری دم بخود رہ جاتا اور اس کی سوچ میں ایک نمایا مشبت تبدیلی پیدا ہوتی۔ 
یہی وجہ تھی کہ صحافتی  دنیا میں انہیں  ایک خاص مقام حاصل تھا۔ غور و فکر ان کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔ ہم بہنیں جب بھی ان سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے وہ فوری کسی سوال کا جواب نہیں دیتے۔ وہ ایک لمحہ کو کچھ سوچتے تھے اور پھر اس سوال کو کسی دوسرے وقت کے لیے ٹال دیتے تھے۔ ایسا نہیں کہ وہ ہمارے سوالوں کا جواب دینا نہیں چاہتے بلکہ اُن کی منشا یہ ہوتی کہ کسی بھی سوال کا تشفّی بخش جواب دیں۔ 
اور پھر جب اپنی سوچ سے آزاد ہوتے تھے تو پوچھے گئے سوال کا مفصل جواب سمجھاتے تھے۔
وہ اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ ان کی یہ کوشش رہتی تھی کہ ان کی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ اپنی تینوں بیٹیوں کو ایک نظر سے دیکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کسی کو ایک دوسرے سے شکایت نہ ہو۔ اپنی بیٹیوں کی فرمائش پوری کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے حد تو یہ تھی کہ عمر کا لحاظ کیے بغیر صرف اس لیے کہ ہم ایک دوسرے کو کم نہ سمجھیں تینوں کو ایک ایک موبائل دے رکھا تھا ۔ ہاں وہ اس بات کا دھیان ضرور رکھتے تھے کہ ہم اس کا منفی استعمال نہ کریں۔
میری بڑی بہن نے تو اپنے بورڈ کے امتحان میں ان سہولتوں کا بھرپور استعمال کیا اور بورڈ میں اپنے نمبرات حاصل کرکے یہ ثابت کیا کہ میرے پاپا کی سوچ غلط نہیں تھی کہ بچوں کو سہولتیں دی جائیں اور ان کی اچھی تربیت کی جائے تو نتائج ہمیشہ شاندار ہوتے ہیں۔
 میرے پاپا ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم کبھی یہ مت بھولو کہ تم کون ہو،کیا ہو۔اگر اپنے باپ اور دادا کو نظر میں رکھوگی تو کبھی کوئی غلط کام نہیں کرو گی۔

Saturday, 13 March 2021

Ibtedai Urdu Class 5 NCERT Urdu Content

(اس صفحہ پر کام جاری ہے)
ترتیب


کسان کی دعا  افسر میرٹھی
نادان کچھوا
بی بی فاطمہ
 ترانۂ ہندی (نظم) محمد اقبال
لڑکا لڑکی ایک سمان
ہمدردی ڈپٹی نظیر احمد
میری پسند (نظم) محبوب راہی
 صحت اور صفائی
درختکی گواہی
نونہالو(نظم) شاد عارفی
گرونانک
زیرو ناٹ آؤٹ مشتاق احمد یوسفی
کتابیں (نظم) ظفر کمالی
آئیے لغت دیکھیں عصمت جاوید
پہلی جنگ آزادی کا سپہ سالار
دریا کنارے چاندنی (نظم) اختر شیرانی
کیرالا کی سیر
ننھی پجارن (نظم) اسرار الحق مجاز
 اچھے خیالات
ڈاکٹر مختار اےمد انصاری
قدرتی آفات

Sunday, 17 January 2021

Duniya Meri Bala Jane by Fani Badayuni Class 10 Nawa e Urdu

 دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے
فانی بدایونی

دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے 
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے 

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں 
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے 

جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں 
آگے مرضی گاہک کی، ان داموں تو سستی ہے 

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا 
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے 

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے 
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے 

دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم 
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے 

فانیؔ! جس میں آنسو کیا، دل کے لہو کا کال نہ تھا 
ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے

فانی بدایونی
(1879  - 1941)
شوکت علی خاں نام، پہلے شوکت اور بعد میں فانی تخلص اختیار کیا۔ اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد پولس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ فانی نے 1897 میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1901 میں بریلی کالج بریلی سے بی۔ اے۔ پاس کرنے کے بعد ملازمت اختیار کی۔ کچھ عرصے تک مدرس رہے، بعد میں ملازمت ترک کر دی اور 1908 میں ایم ۔ اے۔ او کالج علی گڑھ (موجودہ مسلم یونیورسٹی) سے ایل ایل ۔ بی۔ کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد لکھنؤ، آگرہ، اٹاوہ، بریلی اور بدایوں میں وکالت کی، لیکن فانی کو وکالت سے دل چسپی نہ تھی۔ اس لیے اس پیشے میں انھیں کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ 1932 میں مہاراجہ کشن پرشاد کی دعوت پر حیدر آباد پہنچے ۔ مہاراجہ کے دربار سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ وہ حیدر آباد کے ایک سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔ فانی کے آخری ایام تنگ دستی اور پریشانی میں گزرے۔ ان کا انتقال حیدر آباد میں ہوا۔ فانی کا یہ مقطع ان کی زندگی پر صادق آتا ہے
فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں ہے گورو کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا
 فانی نے پہلی غزل 1890 میں یعنی گیارہ سال کی عمر میں کہی۔ ان کے والد شاعری کے خلاف تھے۔ اس لیے فانی چھپ کر شعر کہتے تھے۔ زیادہ تر کلام تلف ہو گیا، جو کچھ بچا وہ " باقیات فانی‘‘ (1926) کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں دیگر اور مجموعے" عرفانیات فانی" (1939) اور "وجدانیات فانی (1940) کے نام سے منظر عام پر آئے۔
فانی کا شمار اردو کے ممتاز غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ شاعری میں درد وغم کے مضامین کی کثرت کے باعث فانی کو یاسیات کا امام کہا گیا ہے۔

تشریح:
دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے 
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح:- فانی کی مشہور غزل کا مطلع ہے۔ فانی بدایونی کے کلام میں موت اور دردوغم کے مضامین کی فراوانی ہے۔ اس مطلع میں موت کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ان کی خودداری صاف ظاہر ہوگئی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ دنیا کتنی مہنگی یاسستی ہے۔ مجھے کوئی چیز مفت نہیں چاہے، یہاں تک کہ موت بھی مفت میں نہیں لوں گا۔ جب زندگی دوں کا تبھی موت ملے گی۔

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں 
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح:- فانی کہتے ہیں کہ ہم نے آبادی بھی دیکھی ہے اور ویرانے بھی ۔ ویرانے آبادی میں بدل جاتے ہیں اور آبادی ویران ہو جاتی ہے۔ مگردل ایسی نرالی بستی ہے جو اجڑ جائے تو پھر نہیں بستی، یعنی عشق ایک مرتبہ ہوتا ہے اور اس عشق میں عاشق ناکام ہو جائے تو پھر عاشق کی روتے روتے گزرتی ہے اس دل میں دوبارہ کوئی نہیں بستا۔

جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں 
آگے مرضی گاہک کی، ان داموں تو سستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- سچا عاشق محبوب کی ایک نظر کا محتاج ہوتا ہے محبوب اسے نظر بھر کر دیکھ لے تو وہ اپنی جان بھی قربان کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں گاہک سے مراد محبوب ہے۔ عاشق نے اپنی جان کی قیمت محبوب کی ایک نظر رکھی ہے اور یہ قیمت انتہائی کم ہے۔

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا 
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- فانی بحیثیت عاشق کہہ رہے ہیں کہ محبوب کے بغیر یہ پوری دنیا سونی ہوگئی اور اسے یاد کر کے روتے روتے آنکھوں کا برا حال ہو گیا۔ یہ دنیا پہلے بھی تھی اور یہی دنیا اب بھی ہے لیکن جب محبوب سامنے تھادنیا پر رونق نظر آتی تھی اور اب محبوب کے نہ ہونے سے دنیا سونی ویران ہوگئی ہے۔

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے 
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- فانی نے اس شعر میں گھٹا کی اس کیفیت سے فائدہ اٹھایا ہے جب آسمان پر سیاہ بادل چھا جاتے ہیں مگر برستے نہیں اور نہ برسنے والے بادلوں کی وجہ سے فضا بوجھل ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مجبوب کیلئے آنسو خشک ہو گئے ۔ جی چاہتا ہے کہ کھل کر روؤں لیکن اب آنسو ہی نہیں لگتا ہے کہ دل پر ایسی گھٹا چھائی ہے کہ نہ تو کھلتی ہے اور نہ بارش ہوتی ہے۔ رونے کی خواہش کے باوجود آنکھ سے آنسو نہیں آتے۔ بستی ہے یعنی اس بسنے میں وقت لگتا ہے اور اسے اجاڑ نے میں اتنا وقت صرف نہیں ہوتا۔

دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم 
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- اس غزل کے مقطع میں فانی کہہ رہے ہیں کہ ایک وقت تھا جب ہماری آنکھوں میں آنسوؤں کی بہتات تھی اور دل کے لہو کی بھی کمی نہیں تھی۔ یعنی جب آنسو نہیں نکلتے تھے تو ان کی جگہ دل کا خون آنسو بن کر ان آنکھوں سے بہتا تھا لیکن اب روتے روتے یہ حال ہو گیا ہے کہ اب آنکھوں میں دو قطرے آنسو بھی نہیں آتے ، رونے کی کثرت کی وجہ سے آنکھیں خشک ہوگئی ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ شاعر نے دل کو نرالی بستی کیوں کہاہے؟
جواب:کیونکہ دل ایسی بستی ہے کہ اجڑنے کے بعد دوبارہ نہیں بستی جبکہ دنیا میں ایسی ان گنت بستیاں
ہیں جو ویران ہونے کے بعد پھر بس گئیں مگر دل کے ساتھ یہ معاملہ نہیں اسلئے دل نرالی دنیا ہے۔
2۔"ہستی" کیا ہستی ہے؟ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:"ہستی" کے پہلے معنی ہیں وجود، زندگی اور دوسرے معنی ہیں 'مجال، طاقت، حیثیت، قیمت مصرعے کے اس حصے سے مراد یہ ہے کہ زندگی کی کیا مجال، زندگی کی کیا حیثیت ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں زندگی کو انمول شے نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔
3۔ بستی بسناکھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے، اس مصرعے میں پہلے لفظ بستی اور دوسرے لفظ
بستی کے فرق کو واضح کیجئے۔
جواب:بستی کے معنی آباد ہونے کا عمل ہے۔ یعنی پہلا لفظ بستی کے معنی آباد جگہ یا گاؤں قصبے کے ہیں اور دوسرے لفظ بستی کے معنی آباد ہونے کاعمل ہے یعنی پہلا لفظ اسم ہے اور دوسرا لفظ فعل ( کام کا کرنا یا ہونا ) ظاہر کرتا ہے۔

Dhoondo ge agar mulkon mulkon by Shad Azimabadi Class10 Nawa e Urdu

 ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
شاد عظیم آبادی

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے نفسو!وہ خواب ہیں ہم 

اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا 
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم 

ہے دل میں تڑپتے جی بھر کر پر ضعف نے مشکیں کس دی ہیں 
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم 

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر 
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم 

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو اک 
اے اہل زمانہ قدر کرو، نایاب نہیں کم یاب ہیں ہم 

مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے 
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

شادعظیم آبادی
(1846- 1927)
علی محمد شاد عظیم آباد(پٹنہ ) میں پیدا ہوئے۔ گھر پر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصے تک انگریزی بھی پڑھی علوم اسلامی کی تحصیل کے ساتھ ساتھ انھوں نے عیسائیوں، پارسیوں اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا۔
نثر ونظم دونوں میں شادنے کئی تصانیف اپنی یادگار چھوڑیں ہیں ۔ شاد کی غزلوں کا دیوان ان کی وفات کے بعد 1938 میں" نغمہ الہام‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں ان کی خودنوشت اور متعدد مجموعے منظر عام پر آئے۔
شاد نے مثنوی، غزل ، قصیده، مرثیہ اور دوسری اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی شہرت کا اصل باعث ان کی ساده ، مترنم اور شیریں غزلیں ہیں۔

Saturday, 16 January 2021

Adab Ne Dil Ke Taqaze Uthaye Hain Kya Kya By Yaas Yagana Changezi

 ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیاکیا
یاس یگانہ چنگیزی
ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا 
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور 
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا 
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے 
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا 
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا 
خوشی میں اپنے قدم چوم لوں تو زیبا ہے 
وہ لغزشوں پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا
خدا ہی جانے یگانہؔ میں کون ہوں کیا ہوں 
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا

یاس یگانہ چنگیزی
(1883 - 1956)
مرزا واجد حسین نام، پہلے یاس تخلص کرتے تھے، بعد میں یگانہ ہو گئے۔ ابتدا میں مولوی سید علی خاں بیتاب سے اصلاح سخن لیتے تھے۔ بعد میں شاد عظیم آبادی کے شاگرد ہو گئے ۔ 1904 میں کلکتہ گئے، وہاں بیماری نے طول کھینچا تو علاج کے لیے لکھنؤ آئے لکھنؤ ہی میں شادی کی اور یہیں بس گئے لکھنؤ کے زمانہ قیام میں کئی ہم عصروں سے ان کے معرکے رہے۔ لکھنؤ میں غالب کے کلام کی مقبولیت کے باعث یگانہ مرزا غالب کے خلاف ہو گئے ۔ خود کو غالب شکن کہتے تھے۔
ان کی شخصیت میں خود پسندی بہت تھی۔ آزاده روی ان کے مزاج کی خاصیت تھی ۔ کلام میں قوت اور زور کے ساتھ ساتھ تلخی بہت ہے۔ ان کی شاعری میں ایک خاص طرح کی انفرادیت کا رنگ حاوی ہے۔ بول چال کے ایسے الفاظ بھی جو ادبی زبان کا حصہ نہیں ہیں، معنی میں تیزی اور تندی لانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان کی رباعیاں بھی مشہور ہیں ۔ کلام کے مجموعے ” آیات وجدانی‘‘ اور" گنجینہ" کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کا کلیات اردو کے نامور محقق مشفق خواجہ نے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔

Sindbad Jahazi Ka Ek Safar NCERT Class 9

 سندباد جہازی کا ایک سفر

سوچیے اور بتائیے:
سوال: لکڑہارے نے خدا سے کیا شکایت کی؟
جواب: لکڑہارے نے شکایت کی کہ اے خدا یہ کہاں کا انصاف ہے؟ میں صبح سے شام تک محنت کرتا ہوں پھر بھی پیٹ بھر روٹی نہیں ملتی اور امیر لوگ سارا دن آرام کرتے ہیں پھر بھی روزانہ ہزاروں پیسہ اڑاتے ہیں-

سوال:لکڑہارے نے سندباد کے محل میں کیا دیکھا؟
جواب: لکڑہارے نے سندباد کہ محل  میں دیکھا کہ دسترخوان بچھا ہوا ہے اور اس پر طرح طرح کے کھانے لگے ہیں اور وہاں بہت سے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ طرح طرح کےکھانوں کا لطف اٹھا رہے ہیں اور انہوں نے قیمتی کپڑے پہن رکھے ہیں۔

سوال 3 : سند باد جزیرے پر اکیلا کیوں رہ گیا تھا؟
جواب:
سوال:لوگ گھاٹی سے جواہرات کیسے حاصل کرتے تھے؟
جواب:لوگ گھاٹی میں گوشت کے ٹکڑے پھینکتے تھے ان ٹکڑوں پر جواہرات چپک جاتے تھے۔ پرندے گوشت کو اپنے گھونسلے ۔یں لاتے تھے جس میں چپک کر جوہرات جھونپڑوں میں آجاتے اوروہاں سے لوگ جواہرات چن لیتے تھے۔

  سوال:رخصت ہوتے وقت سند باد نے لکڑہارے سے کیا کہا ؟
جواب:رخصت ہوتے وقت سندباد نے لکڑہارے سے کہا محنت کے بغیر انسان کو راحت نصیب نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر زندگی میں امن و سکون کے لیے خوب محنت کرنی چاہیے۔

Kahawaton Ki Kahani By Furqat Kakorvi NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

کہاوتوں کی کہانی
غلام احمد فرقت کا کوروی
ہم روز مرہ اپنی آپس کی بول چال میں ایسی کہاوتیں اور محاورے بولتے ہیں جن کا مطلب تو سمجھ لیتے ہیں مگر ہم کو نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کہاوتیں اور محاورے کس طرح ہماری زبان میں آئے اور انھیں ہم کب سے بولتے چلے آرہے ہیں ۔ تم کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ان محاوروں اور کہاوتوں میں بعض ایسے ہیں جن کے پیچھے بڑے دل چسپ لطیفے اور قصے چھپے ہوئے ہیں۔
ہم اپنی روز مرہ کی گفتگو میں"  وہی مرغے کی ایک ٹانگ" بولتے ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی بس اپنی ہی بات پر اڑا رہے، چاہے حقیقت اس کے خلاف ہو۔ اس مقولے کے پیچھے جو قصہ چھپا ہے، وہ بڑا دلچسپ ہے۔
  ایک انگریز کے یہاں ایک خانساماں نے ایک مسلم مرغ پکا کر اس کی ایک ٹانگ خود کھالی اور ایک اپنے صاحب کے سامنے کھانے کی میز پر رکھ دی ۔ صاحب نے ایک ٹانگ دیکھ کر کہا:
  ’’ول خانساماں! اس مرغ کی ایک ٹانگ کہاں ہے۔؟“ "حضور! اس مرغے کی ایک ہی ٹانگ تھی۔ "خانساماں نے جواب دیا۔"
  اس پر صاحب کو ہنسی تو آئی مگر وہ خاموش ہو کر برآمدے میں ٹہلنے لگا۔ برآمدے کے سامنے کچھ مرغ اور مرغیاں دا ناچنگ رہی تھیں۔ ان میں ایک مرغ اپنا ایک پاؤں سمیٹے دوسرے پاؤں سے کھڑا تھا۔ خانساماں کو اچھا موقع ملا۔ اس نے کہا۔” دیکھیے صاحب یہ مرغ بھی ایک ہی ٹانگ کا ہے۔‘‘
  یہ سن کر صاحب، مرغ کے پاس گئے اور انھوں نے ہش ہش‘‘ کیا۔ مرغ نے دوسری ٹانگ بھی نکال دی۔ خانساماں نے یہ دیکھ کر کہا۔ ”حضور ! کھانا کھاتے وقت سرکار سے بڑی چوک ہوگئی ۔ اگر آپ اس پکے ہوئے مرغ کے سامنے ” ہش ہش" کرتے تو وہ بھی اپنی دوسری ٹانگ نکال لیتا‘‘
  اس وقت سے یہ فقره ضرب المثل بن گیا۔
  اسی طرح ایک دوسری مثل ہے” اونٹ کس گل بیٹھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھیے کیا ظہور میں آتا ہے اور کیا انجام ہوتا ہے۔ اس سے متعلق یہ مشہور ہے کہ ایک کمھار اور ایک سبزی فروش نے مل کر ایک اونٹ کرائے پرلیا اور اس کے ایک ایک طرف اپنا سامان لاد دیا۔ راستے میں سبزی بیچنے والے کی ترکاری کو اونٹ گردن موڑ کر کھانے لگا۔ یہ دیکھ کر کمھار مسکراتا رہا۔ جب اونٹ منزل پر پہنچا تو جدھر کمھار کے برتنوں کا بوجھ تھا، اونٹ اسی کروٹ بیٹھا جس سے بہت سے برتن ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اس وقت سبزی بیچنے والے نے کمھار سے ہنس کر کہا۔
  کیوں گھبراتے ہو، دیکھو اب آئندہ اونٹ کس کل بیٹھتا ہے؟‘‘
  ہم اکثر کہتے ہیں "حضور آپ ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے"۔ یہ فقره اس وقت بولتے ہیں جب بہت زیادہ انکساری ظاہر کرنی ہوتی ہے۔ اب اس مقولے سے متعلق جو لطیفہ ہے اسے سن لیجیے۔ ایک مرتبہ ایک مسخرے کو دل لگی سوجھی۔ جھٹ پٹ اس نے چند دوستوں کی دعوت کردی۔ جب وہ لوگ آ کر بیٹھ گئے تو اس نے سب کے جوتے لے کر ایک شخص کے حوالے کیے۔ اسے پہلے ہی سے مقرر کر رکھا تھا۔ وہ شخص سارے جوتے کباڑی بازار میں جا کر بیچ آیا۔ یہ رقم دعوت کے کھانے کی تیاری میں کام آئی۔ جب دستر خوان پر کھانا چنا گیا تو سب مہمانوں نے مسخرے سے کہا۔ آپ نے اتنی تکلیف کیوں کی؟" مسخرے نے نہایت عاجزی سے کہا۔ ” یہ سب آپ ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔"
   کھانا کھانے کے بعد جب سب لوگ جوتے پہننے کے لیے اٹھے تو جوتے غائب تھے۔ اس پر مسخرے نے کہا۔ "حضور! وہ تو میں آپ سے پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ یہ سب آپ کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔“
   ایک اور کہاوت ہے” اونٹ کے گلے میں بلی"۔ یہ مقولہ اس وقت بولا جاتا ہے جب انسان کسی مشکل میں پڑ جاتا ہے اور اس سے نکلنے کی فکر کرتا ہے ۔ چناں چہ مشہور ہے کہ ایک شخص کا اونٹ کھو گیا ۔ جب با وجود انتہائی تلاش کے اونٹ نہ ملا تو اس نے قسم کھائی کہ اگر اونٹ مل جائے گا تو اسے ٹکے کا بیچ دے گا۔ اتفاق سے وہ اونٹ مل گیا۔ اس وقت یہ شخص گھبرا گیا کہ اب تو بہ ہر حال اونٹ کو ایک ٹکے میں بیچنا پڑے گا۔ یہ دیکھ کر ایک آدمی نے اس کو یہ صلاح دی ۔ ” تم اس کے گلے میں ایک بلی باندھ دو اور اس طرح آواز لگاؤ کہ ایک ٹکے کا اونٹ ہے اور سو روپے کی بلی، لیکن یہ دونوں ایک ساتھ بکیں گے۔ اس شخص نے ایسا ہی کیا جس کے بعد اس کو مصیبت سے نجات مل گئی۔

غلام احمد فرقت کا کوروی
(1910 - 1973)
فرقت کا کوروی کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ بچپن میں ہی باپ کے سایے سے محروم ہو جانے کی وجہ سے ابتدائی عمر معاشی تشنگی میں بسر ہوئی مگر تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ لکھنؤ اور علی گڑھ کی دانش گاہوں سے ایم اے، بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تاریخ کے استاد کے طور پر انگلو عربک اسکول ، دہلی میں تقر یا تیس سال تک درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔
طنز و مزاح ان کا خاص میدان تھا۔ وہ نثر ونظم دونوں میں یکساں قدرت رکھتے تھے۔ ان کا طرز تحریر دل چسپ اور عام فہم ہے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ادیبوں میں ہوتا ہے۔
’’كف گل فروشان، " قد مچے"، ناروا" ان کے نثری اور شعری مجموعے ہیں۔

 

Chutti Ka Din By Hamid Hasan Quadri NCERT Urdu Class 9Jaan Pehchan

 چھٹی کا دن 
حامد حسن قادری


حامد حسن قادری
(1887 - 1964)
مولوی حامد حسن قادری قصبہ بچھراؤں ضلع مراد آباد کے ایک زمین دار خاندان میں پیدا ہوئے۔ بچھراؤں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ عالیہ، رام پور میں داخل ہوئے۔ 1909 میں دسویں درجہ کا امتحان پاس کیا۔ منشی کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی سے 1910 میں اول پوزیشن حاصل کر کے کامیاب ہوئے ۔ منشی فاضل اور اردو میں خصوصی صلاحیت کے امتحانات 1911 میں لاہور سے پاس کیے۔
مہو چھاونی کے ایک پارسی اسکول میں 1912 میں بحیثیت استاد تقرر ہوا۔ اگلے سال اسلامیہ ہائی اسکول، اٹاوہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1927 - 1913 کے دوران حلیم مسلم ہائی اسکول، کان پور کے ہیڈ مولوی کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ سینٹ جانس کالج، آگرہ میں 1927 میں لکچرر مقرر ہوئے اور 1945 میں اسی کالج میں صدر، | شعبہ فارسی اور اردو مقرر ہوئے۔ 1954 میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔ موصوف اردو زبان کے ادیب، ناقد ، مبصر، شاعر، مترجم، مؤرخ اور تاریخ گو تھے۔ انھوں نے لگ بھگ 60 کتابیں تصنیف کیں ۔ جس زمانے میں وہ کان پور میں مقیم
تھے اسی عرصے میں انھوں نے بچوں کا اردو رسالہ ”سعید" جاری کیا جو کئی برس تک جاری رہا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے بہت ہی سبق آموز کہانیاں تصنیف کیں ۔ کئی اہم فارسی کی کتابوں کے ترجمے اردو میں شائع کیے۔
موصوف کی نہایت اہم تصنیف ”داستان تاریخ اردو " ہے جس میں اردو نثر کی تاریخ ابتدائی دور سے لے کر 1960 تک مع نمونہ نثر دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔

Saturday, 26 December 2020

Waqt By Deputy Nazir Ahmad NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

وقت
ڈپٹی نذیر احمد
دنیا میں ہر چیز کی کچھ نہ کچھ تلافی ہے۔ مگر نہیں ہے تو وقت کی ۔ جو گھڑی گزرگئی وہ کسی طرح تمھارے قابو میں نہیں آسکتی اور وقت کے گزر جانے پرغور کریں تو اسے کسی چیز کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جاسکتی ۔ وقت ریل سے زیادہ تیز ہے، ہوا سے بڑھ کر اڑنے والا، بجلی سے سوا بھاگنے والا اور دبے پاؤں نکلا جاتا ہے کہ خبر نہیں ہوتی صبح ہوئی ، سوکر اٹھے جب تک معمولی ضرورتوں سے فراغت حاصل کرو، ذرا ناشتہ وغیرہ کھاؤ پیو، پھر دن چڑھ آیا۔ پھر گھڑی دو گھڑی ادھر ادھر اٹھے بیٹھے، گپ شپ اڑائی تو دس بجنے کو آئے۔ مدرسہ جانے کو دیر ہوتی ہے۔ جلد کھایا پیا، مدر سے گئے۔ وہاں دوستوں سے ہنسی مذاق کرتے رہے۔ استاد کی تاکید سے دو ایک مرتبہ بری بھلی طرح سبق پڑھا، چلو شام ہوئی ۔ دن رخصت ہوا گھر آئے تو پھر کھانے کو سوجھی، کھانا کھانے سے کسل پیدا ہوا، ذرا لیٹے تو پھر صبح موجود۔ کام تو کچھ بھی نہ ہوا، لیکن چوبیس گھنٹے گزرتے ہوئے معلوم نہ ہوئے اور ایک چوبیس گھنٹے کیا، ایسے ایسے صد ہا ہزاروں چوبیس گھنٹے اسی طرح گزر جاتے ہیں۔ بیت:
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں  ہی تمام  ہوتی ہے
جب وقت کی بے ثباتی کا یہ حال ہے اور جو وقت گزرا وہ ہمارے اختیار سے باہر ہوا تو نہایت ضروری ہے کہ وقت پر ہمارا اختیار ہو۔ اس کو ضائع نہ ہونے دیں۔ یہی وقت ہے کہ سونے اور کھیلنے میں گزر جاتا ہے اور آدمی کو سست اور غبی، رسوا اور خوار اور محتاج اور طرح طرح کے امراض میں مبتلا اور بداخلاقیوں میں گرفتار کر دیتا ہے۔
یہی وقت ہے کہ اگر اس کو اچھے شغل، اچھے کام، اچھی بات میں لگایا جائے تو انسان کو عالم، فاضل، لائق، ہنرمند، نام ور محترم، نیک ہر دل عزیز بنا کر طرح طرح کی خوبیوں اور بھلائیوں سے آراستہ کر سکتا ہے۔
اے لڑکو! یہ فراغت کا وقت جو تم کو اب میسر ہے بس غنیمت سمجھو۔ اب نہ تم کو کھانے کی فکر ہے نہ کپڑے کا سوچ۔ جو کچھ تم سے سیکھتے اور حاصل کرتے بن پڑے لگ لپٹ کر جلد سیکھ ساکھ لو کہ آئندہ تمھارے کام آئے ۔ ورنہ پھر کہاں تم اور کہاں یہ فراغت ۔ اس وقت تم سر پر ہاتھ رکھ کر روؤ گے اور رونا کچھ سود مند نہ ہوگا۔ بہت پچھتاؤ گے اور پچھتانا کچھ فائدہ نہ بخشے گا۔ بہت افسوس کرو گے اور افسوس سے کچھ نہ ہو گا۔ یہ وقت جو تم کو اب حاصل ہے ان وقتوں کی مانند نہیں، جو جوانی اور پیری میں تم کو آئندہ پیش آئیں گے۔ لڑکپن کا وقت جو تنے اور بونے کا وقت ہے اور جوانی اور پیری کا وقت کاٹنے اور گا ہنے کا ۔ اگر اس وقت میں تم کچھ جوت بو رکھوگے تو جوانی اور پیری دونوں میں کاٹ سکو گے۔ اس وقت کو اس طرح صرف کرو کہ جوانی اور پیری دونوں میں آرام آسائش سے رہو اور چا ہو تو اس وقت کو ایسا اکارت کرو کہ جوانی بھی خراب ہو اور پیری بھی برباد ہو۔ ایک وقت وہ آرہا ہے کہ تم فرصت کو ڈھونڈو گے اور فرصت کا پتہ نہ پاؤ گے اور فراغت کی تلاش کرو گے اور فراغت کا سراغ نہ ملے گا۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ دنیا کا بار تمھاری پیٹھ پر لدا ہوگا۔ خانہ داری کے بکھیڑوں میں تم اس طرح پھنسے ہوگے جس طرح دلدل میں گدھا۔ ایک طرف تو فکر معاش تم کو سر کھجانے کی مہلت نہ دے گی اور دوسری طرف انتظام تعلقات تم کو دم نہ لینے دے گا۔ اس وقت کسب کمال کا کیا مذکور، اگر حواس بجا رکھ کر ان ہی کاموں سے عہدہ بر آ ہو جاؤ تو صد آفریں۔
بس یہ خیال ہرگز اپنے دل میں مت آنے دو کہ ابھی سیکھنے کا بہت وقت آرہا ہے ۔ ایسی کیا بھا گڑ مچی ہے کہ رات دن لکھنے پڑھنے کے پیچھے مر مٹے۔ اگلا حال کچھ کسی کو معلوم نہیں ۔ کون جانے کہ تندرستی رہے نہ رہے۔ زمانہ فرصت دے یا نہ دے۔ یہ سب سامان جواب میسر ہیں ، میسر ہوں یا نہ ہوں ۔ بے شک وقت کی قدر و قیمت اور اس کی بھاگا بھاگ تو یہ چاہتی ہے کہ تم خواب و خور اپنے اوپر حرام کر کے رات دن کتاب پر سے سر نہ اٹھاؤ لیکن انسان کی طبیعت کو خدا نے تازگی پسند بنایا ہے۔ کیسا ہی کوئی دل چسپ شغل ہو ایک عرصے کے بعد ضرور اس سے جی گھبرا اٹھتا ہے اور طبیعت اکتانے لگتی ہے اور اگر طبیعت کو مجبور کر کے اس کام پر لگائے رہو تو وہ کام بھی اچھی طرح نہیں ہوتا اور حواس بھی کند ہو جاتے ہیں ۔ اس واسطے مناسب ہے کہ کتاب کا مطالعہ ایسے اعتدال کے ساتھ جاری رکھو کہ تندرستی کو خلل نہ پہنچے اور ہمیشہ چند قسم کا شغل رکھو۔ مثلاً نظم و نثر، تاریخ و جغرافیہ اور حساب ایک ساتھ پڑھو ۔ جب نثر سے طبیعت ملول ہوئی نظم دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر تاریخ پڑھی ۔ کچھ دیر جغرافیہ کی سیر کی، پھر حساب میں طبع آزمائی کی۔ ان سب سے گھبرائے تو کچھ لکھنے بیٹھ گئے۔ جب رات کو سونے لگو تو ضرور سوچو کہ آج ہم نے کون سی نئی بات حاصل کی ۔ اگر معلوم ہو کہ آج کچھ نہیں سیکھا تو جانو کہ دن رائیگاں گیا اور اس نقصان کی تلافی اپنے ذمے لازم سمجھو۔ کسی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ جس کے دو دن برابر ہوں یعنی ایک شخص جیسا کل تھا آج بھی ویسا ہی رہے اور اپنی حالت دیروز ہ میں ترقی نہ کرے تو وہ خسارے میں ہے۔
         
 ڈپٹی نذیر احمد
(1831 - 1912)
ڈپٹی نذیر احمد اتر پردیش کے ضلع بجنور، تحصیل نگینہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ریہڑ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مولوی سعادت علی تھا۔ نذیر احمد کی ابتدائی تعلیم بجنور مظفر نگر اور دہلی میں ہوئی ۔ اعلی تعلیم دلی کالج میں ہوئی جو اب ذاکر حسین کالج کے نام سے مشہور ہے۔
1854 میں تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے پنجاب کے ایک مدرسے میں مدرسی کا پیشہ اختیار کیا۔ انگریز حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں' شمس العلما' کا خطاب دیا۔ 1902 میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ۔ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔
ڈپٹی نذیر احمد ترجمہ نگار، ادیب، ناول نگار اور مقرر بھی تھے۔ اردو ادب میں ان کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ وہ اردو کے پہلے ناول نگار ہیں۔ "مراۃ العروس" بنات النعش"،" توبتہ النصوح‘‘ اور" ابن الوقت" ان کے اہم ناول ہیں۔ ان کے ناول حقیقت پسندی ، اخلاقی تربیت اور دلچسپ کرداروں سے بھر پور ہیں۔ لہجہ پر جوش اور اثر انگیز ہے۔

Mulla Nasruddin By Ahmad Jamal Pasha NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehhan

ملا نصرالدین
ملا نصرالدین کے بارے میں عجیب و غریب روایتیں ہیں۔ مثلا یہ کہ سیر و سفر کے رسیا اس ازلی سیاح نے اپنے سست رفتار گدھے پر دنیا کا سفر کیا تھا۔ ملا نے ٹٹو پر دنیا کا سفر کیا یا نہیں مگر اپنے لطائف کے دوش پر یہ سفر ضرور پورا کر لیا۔ ملا کا گدھا کسی بھی صورت میں ڈان کو یکزاٹ اور خوبی کے ٹٹو سے کم نہیں ۔ ملا کا سفر ابد تک جاری رہے گا۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ملا کے واقعات ، فیصلے ، لطیفے ، حکایتیں ، مضحک واقعات اور سفر نامے ترجمہ ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔
ملا نصرالدین اپنی حاضر جوابی ، خوش باشی، زندہ دلی کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں ۔ ملا کا مزاح لا فانی ہے اور اس وقت تک کبھی پرانا نہ ہوگا جب تک کہ ایسے لوگ باقی ہیں جو ایک ستھرے اور شستہ مذاق کو پسند کرتے ہیں ۔ ملا کے ان پر لطف واقعات اور باتوں پر آج بھی لوگ اسی طرح ہنستے ہیں جیسے ملا کے زمانے میں ان پر لوگ ہنسا کرتے تھے۔ ملا سے متعلق روایات کے مطابق انھوں نے مختلف ملکوں کا سفر کیا تھا اور مختلف در باروں سے وابستہ رہے تھے۔ اکثر تذکروں میں ملا کے تر کی ، ایران، عرب، ہندوستان، روس، چین جانے کے بارے میں روایتیں ہیں مگر آن روایتوں کی حیثیت قیاس آرائی سے زیادہ نہیں۔ ملا کب کس زمانے میں اور بادشاہ کے عہد میں کس ملک میں رہے اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔
ملا کا باقاعدہ گھر بار ہے جو بار بار بستا اور آجڑ تا ہے۔ اس میں ویرانی کے بجائے ایک چہل پہل اور فاقہ مستی ہے۔ ملا کے بیوی بچوں سے لے کر گدھے تک سب اسی رنگ میں سرشار نظر آتے ہیں۔
ملا ہر فن مولا ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا پیشہ ہو جسے ملا نے اختیار نہ کیا ہو کبھی وہ معلم کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں، کبھی منبر پر وعظ دیتے نظر آتے ہیں۔ کبھی ایک تاجر کی حیثیت سے مصروف نظر آتے ہیں کبھی معمار کی شکل میں مکان بناتے ملتے ہیں۔ کبھی درزی کی حیثیت سے کپڑے سیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی قاضی کی حیثیت سے دونوں فریقوں کے حق میں فیصلہ کرتے ہو تے ہیں اور کبھی ایک سیاح کی طرح جہاں گردی میں ٹٹو پر سوار نظر آتے ہیں ۔ ان کی زندگی ایک مسلسل سفر ہے۔
ملا نصر الدین کوئی خیالی کردار نہیں۔ البتہ بے شمار من گھڑت واقعات اس کی ذات سے منسوب کر دیے گئے ہیں۔ ملا کی زندگی میں ایسے واقعات بہت ہوئے جو اپنے انوکھے پن اور ذہانت کی وجہ سے ہمیشہ دل چسپی کا باعث رہیں گے ۔ یہی واقعات ملا کی ہر دل عزیزی اور لا زوال شہرت کا باعث ہیں۔ ہر محفل کو گرم کرنے کے لیے آج بھی ملا کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
مالا ہنسی ہنسی میں اہم اور ٹیڑھی باتیں اور بار یک نکتے ، بالکل سیدھے سادے طور پر سمجھادیتا تھا۔ اس کا مزاح اور طنز آمیز باتیں دل پر فوراً اثر کرتیں ۔ سننے والے ہنستے ہنستے زندگی کی کسی بڑی حقیقت پر غور کرنے لگتے۔
ملا نے سنجیدہ فکر کو بیدار کرنے کے لیے کبھی پند و نصائح سے کام نہیں لیا حالاں کہ ملا نے زندگی بھر صرف نصیحتیں ہی کیں مگر براہ راست نہیں۔
ملا کا نظریہ یہ تھا کہ اس رونی منہ بسورتی دنیا میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی سمجھ کے مطابق بات کی جائے اور بات سمجھانے کے لیے ہنسی مذاق کو اپنا شعار بنایا جائے ۔ ملا نصر الدین نے اپنے اس نظریے کو اس حد تک عملی جامہ پہنایا کہ وہ خود جان بوجھ کر ظرافت کے اس عمل سے گزرتے رہے جس میں تماشے اور تماشائی میں فرق نہیں رہ جاتا اور ہنسانے والے کی اعلی ظرفی اپنے اوپر قہقہے لگانے اور لگوانے پر بھی قادر ہوجاتی ہے۔ اس طور پر ملا نے عقل مندی کے ساتھ لوگوں کو اچھی باتیں ذہن نشین کرا کے لطیفے کے افادی مر تبے کو بہت بلند منزل عطا کردی۔
(احمد جمال پاشا)
 احمد جمال پاشا
(1929 -1987)
احمد جمال پاشا کا اصلی نام محمد نزہت پاشا تھا۔ وہ الہ آباد میں پیدا ہوئے ۔ لکھنو یو نیورسٹی سے بی اے اور علی گڑھ مسلم یونیورٹی سے ایم ۔ اے کیا۔ لکھنؤ سے اودھ پنچ نکالنا شروع کیا جسے اس کا تیسرا دور کہا جاتا ہے۔ بعد میں قومی آواز اخبار کے شعبہ ادارت سے منسلک ہو گئے ۔ 1976 میں سیوان (بہار) منتقل ہوگئے، جہاں ذکیہ آفاق اسلامیہ کالج میں اردو کے استاد کے طور پر خدمات انجام دیں ۔ پٹنہ میں انتقال ہوا۔
احمد جمال پاشا نے 1950 سے لکھنا شروع کیا۔ زمانہ طالب علمی میں علی گڑھ کے رسالے ” اسکالر " کے مدیر ہوئے اور اس کے ’’ پیروڈی نمبر " کی وجہ سے شہرت پائی۔ "اندیشہ شہر" ، " ستم ایجاد"، "لذت آزار"،" مضامین پاشا"، "چشم حیران" اور" پتیوں پر چھڑ کاو" وغیرہ ان کی مشہور مزاحیہ کتابیں ہیں ۔ ” ظرافت اور تنقید"  ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
احمد جمال پاشا کو ادبی خدمات کے لیے غالب ایوارڈ اور بہار اردو اکادمی کا اختر اور نیوی ایوارڈ دیا گیا۔

غور کیجیے :
لطیفے، چٹکلے یوں تو ہنسنے ہنسانے کے لیے ہوتے ہیں لیکن ان کے پیچھے سماجی ، تہذیبی اور اخلاقی مقاصد بھی پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ اسی لیے ملا نصرالدین کے لطیفے صرف ہنسنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان سے ہماری سماجی برائیوں کی اصلاح بھی ہوتی ہے۔
سوچیے اور بتایئے:
1. ملا نصر الدین کے بارے میں کیا کیا روایتیں مشہور ہیں؟
2. ملا نصر الدین کا نام آج بھی کیوں زندہ ہے؟
3۔ ملا نصر الدین کو ہرفن مولا کیوں کہا جاتا ہے؟
4۔ ملا نصر الدین کی باتیں دل پر کیوں اثر کرتی تھیں؟ 5۔ ملا نصر الدین نے ہنسی مذاق کو اپنا شعار کیوں بنایا؟

خوش خبری