آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday, 1 July 2022

Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-1)

 آئینہ پیش کرتا ہے آج سے 10ذوالحجہ تک روزانہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام (از خلیل احمد جامعی)کی مختصر حالاتِ زندگی۔ اپنے بچّوں اور اہل خانہ کو بلند آواز میں پڑھ کر سنائیں یا اُن سے سنیں تاکہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے گھر والوں،اپنی حکومت اور اپنی قوم کی دشمنی کے باعث کن مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح آپ ان سے عہدہ بر آہوئے اور کس انہماک اور لگن کے ساتھ آپ نے اپنے فرائض کو انجام دیا، یہ ایک بڑی دلچسپ اور سبق آموز داستان ہے،عام مسلمانوں اور طلبہ کو اس سے عبرت و نصیحت حاصل ہوگی ۔
 اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام 
کےحالاتِ زندگی

حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ، بہت بڑے پیغمبر گزرے ہیں آپ ہی کی اولاد میں ، اللہ کے آخری نبی اور رسول، ہم سب کے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہٖ وسلّم ہیں اپنی اسی نسبت کے لحاظ سے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:
ا۔ میں نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو دیکھا ، میں آپ کی اولاد میں آپ سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔(حدیث)
۲- میں اولاد ابراہیمؑ میں، اُن (ابراہیمؑ) سے بہت زیادہ مشابہ ہوں۔ (حدیث)
۳۔ ابراہیم علیہ السّلام کو دیکھنا ہو تو مجھے دیکھ لو۔ (حدیث)
بعض علماء نے کہا ہے کہ
”مقام ابراہیمؑ پر، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے جو نشاناتِ قدم ہیں، وہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہٖ وسلّم کے قدموں سے ملتے جلتے ہیں۔ “
فضائل ابراہیمؑ
 قرآن مجید میں جگہ جگہ ، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیمؑ کا ذکر کیا ہے اور ہر ذکر سے ، آپ کی عظمت، بزرگی، دیانت، صداقت، پاکبازی و قربانی وغیرہ جیسے اوصاف کا اظہار ہوتا ہے ، یہاں صرف ان قرآنی آیتوں کے مفہوم کے درج کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
(۱)کتاب اللہ میں ابراہیمؑ کے ذکر کو پڑھو ، وہ سچے نبی تھے۔
(۲)ہم نے ابراہیمؑ کو پہلے ہی سے سیدھی راہ دکھا دی اور ہم اُسے (ابراہیمؑ کو) جانتے تھے۔ 
(۳)ابراہیمؑ بردبار، یاد الہٰی کے لیے بے چین رہنے والے اور ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف ایک اللہ کی طرف متوجہ ہونے والے تھے۔
(۴) بلحاظ مذہب، اس سے اچھا کون؟ جو اللہ کا مطیع و فرماں بردار بن گیا اور نیکوکاری اس کا شیوہ ہو گیا، اسی کے ساتھ ساتھ ملّت ابراہیمیؑ کا خلوص قلب کے ساتھ پیرو بن گیا ، کیونکہ ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنالیا ہے۔ 
(۵)ابراہیم اخلاص کے ساتھ اللہ کے مطیع تھے۔ انھوں نے کبھی بھی خدا کی یکتائی اور بڑائی میں کسی کو شریک نہیں بنایا بلکہ وہ ہمیشہ اللہ کے شکر گزار رہے، اللہ نے انھیں نبوّت و رسالت کے لیے چُن لیا اور انھیں سیدھی راہ دکھادی، وہ دنیا میں نیک رہے اور آخرت میں بھی،وہ اللہ کے نیک بندوں میں سے ہیں۔ 
(۶) اللہ نے چند بار ابراہیمؑ کے ایمان کا امتحان لیا اور وہ ہر امتحان میں پورے اُترے، تو اللہ نے فرمایا، ”میں تجھے (ابراہیمؑ کو) لوگوں کا امام و پیشوا بناؤں گا، ابراہیمؑ نے (اللہ کی جناب میں) عرض کیا ”اور میری اولاد کو بھی “جواب ملا کہ "میرا عہد ظالموں کو نہیں ملے گا۔ “
(۷) یاد کرو! جب ہم نے گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع ہونے اور امن کی جگہ بنایا۔ مقامِ ابراہیمؑ (کعبہ کے متّصل ایک جگہ) کو جاے نماز بناؤ!
(۸) ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ سے اس بات کا عہد لیا کہ میرے گھر (کعبہ) کو طواف کرنے والوں ، عبادت گزاروں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف کرو!
(۹) ابراہیمؑ اللہ کے اطاعت گزاروں میں ہے، وہ اپنے پروردگار کے حضور قلب سلیم لے کر آیا۔
(۱۰) ہم نے کہا ، اے آگ! ٹھنڈی ہوجا ابراہیم کے لیے اور سلامتی بن جا۔
مزکورہ بالا آیات کے ملخّص و مفہوم سے، جہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پوری زندگی سامنے آجاتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو کیسی کیسی فضیلتیں اور بزرگیاں عنایت کی تھیں اور یہاں سے تو صرف چند آیات کا خلاصہ دیا گیا ہے ۔ اگر ان تمام آیتوں کو جن کا تعلق حضرت ابراہیمؑ کے ذکر سے ہے ، ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو حضرت کی بے شمار فضیلتیں اور بزرگیاں سامنے آجاتی ہیں اور آپ کی بڑائی اور غیر معمولی شخصیت ہونے کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔
نسب نامہ 
اللہ کے خلیل کا سلسلۂ نسب اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔
ابراہیم ابن آزر ابن تاجور ابن سروج ابن رعو ابن فالح ابن عامر ابن شالح ابن ارفکشاذ ابن سام ابن نوح۔
 آزر کے علاوہ حضرت ابراہیمؑ کے باپ کے دو اور نام تاریخوں میں آتے ہیں ۔ ایک تارخ دوسرا تارح ، یہ تینوں نام ایک ہی شخصیت کے ہیں۔آزر، آوار کا مُعرّب ہے ، کالدی زبان میں بڑے پجاری کو آوار کہتے تھے۔ عربی میں وہی آوار، آزر کہلایا کیونکہ تارخ بت تراش بھی تھا اور سب سے بڑا پجاری بھی، اسی لیے لقب نے اتنی شہرت پائی کہ وہ اصلی نام سمجھا جانے لگا ۔ اسی لیے قرآن نے بھی اس کو اسی نام سے پکارا۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام چونکہ بڑے مہمان نواز بھی تھے،اسی لیے آپ کو اَبُوالضيفان بھی کہتے تھے۔
وطن 
کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام غُوطَۂ دمشق کے کسی گاؤں میں پیدا ہوئے ، جو قَاسِیون پہاڑ پر آباد تھا۔ لیکن یہ صحیح نہیں،بَرُزَہ جس کا نام بطور جاے پیدایش لیا جاتا ہے ، کسی مغالطہ کا نتیجہ ہے ۔ ہاں آپ بَرُزہ تشریف ضرور لے گئے، کیونکہ وہ آپ کے بھتیجے لوطؑ مسکن تھا۔
آپ کی پیدایش کے سلسلے میں تورات کا بیان ہے کہ ابرامیم عراق کے قصبہ اُور کے باشندے تھے۔ کھیتی باڑی پیشہ تھا، اور جس قوم کے آپ ایک فرد تھے وہ بت پرست تھی۔ انجیل بَرنَابا کی تصریح کے مطابق آپ کے والد کا پیشہ نجّاری تھا اور اپنی قوم کے مختلف قبیلوں کے بت لکڑی کے بناتے اور فروخت کرتے تھے لیکن حضرت ابراہیمؑ،اللہ کی عطا کی ہوئی بصیرت کی موجودگی میں ، ابتداۓ شعور ہی سے اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ بت سننے دیکھنے اور کسی کو نقصان پہنچانے اور کسی قسم کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے، اس لیے اعلانِ نبوّت کے بعد، آپ نے سب سے پہلے اسی کی طرف توجہ فرمائی۔ ملاحظہ ہو، سورۂ انبیا کی آیت ۵۱  تا ۵۶   ارشاد ہوا:-
”اور بلا شبہہ ہم نے پہلے ہی سے، ابراہیمؑ کو رشد و ہدایت عطا کردی تھی اور ہمیں اس بات کا علم ہے، جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا ، یہ مجسّمے کیا ہیں، جن کو لیے بیٹھے ہو ... تو انھوں نے جواب دیا .... ہم نے اپنے باپ دادا کو انھیں کی پرستش کرتے پایا ہے.... ابراہیمؑ نے کہا.... یقیناً تم اور تمھارے باپ دادا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں.... تو انھوں نے کہا کیا تو ہمارے لیے کوئی امر حق لایا ہے یا یہ محض مزاق ہے.... ابراہیمؑ نے کہا (یہ بُت تمھارے معبود نہیں ہیں) بلکہ تمھارا پالن ہار آسمانوں اور زمینوں کا پالن ہار ہے، جس نے اِن سب کو پیدا کیا ہے اور میں اُسی کا قائل ہوں۔ “

Monday, 20 June 2022

Ibtedai Urdu Class 1 NCERT Solutions Chapter 1

    سبق ۔1

ا آ
ا




آ




:تدریسی اشارے
 آپ جانتے ہیں کہ ا (الف ) تحریری علامت ہے۔ اس کی اپنی کوئی آواز نہیں ہے جب تک اس پر اعراب نہ لگایا جائے۔ اس سبق میں طالبِ علم کو صرف اس حرف کا نام الف بتایا جاۓ اور تصویروں کے ذریعے حرف کی پہچان کرائی جاۓ ۔ طالب علموں کو بتا یا جاۓ کہ اس نشان کو مد کہتے ہیں ۔اس کا استعمال صرف الف پر ہوتا ہے اور آ کی آواز دیتا ہے۔ ہر سبق میں متعارف کیے جانے والے حروف کو بار بار پڑھوا یا جاۓ اور لکھنے کی مشق کرائی جاۓ دکھاتے ہیں۔
مشق
1.ان حروف کو لکھوائیے:
2.نیچے دی ہوئی تصویروں کا پہلا حروف لکھوائے:


3.نیچے دی ہوئی تصویروں کا پہلا حروف لکھوائے:



ا




آ




Saturday, 11 June 2022

Ibtedai Urdu Class 1 NCERT Urdu Solutions


ترتیب

 1. ا۔۔۔آ
 2. ب۔۔پ ۔۔ت ۔۔ٹ۔۔ث
 3.ن---ی---ے
 4. ج---چ---ح---خ
 5.د---ڈ---ذ---و
 6.ر---ڑ---ز---ژ
 7. زبر---زیر---پیش
 8.س---ش
 9. جزم
 10.ص---ض  
 11.ط---ظ
 12.ع---غ
 13.ف---ق
 14.تشدید
 15.ک---گ
 16.ل---م
 17.ہ
 18.بھ---پھ---تھ---ٹھ
 19.جھ---چھ
 20.دھ---ڈھ---ڑھ
 21.کھ---گھ
 22.نون غنّہ
 23.  ہمزہ 
 24.حروفِ تہجّی
 25. حمد
 26.  یہ میرا گھر ہے میرا گھر
 27.  گِنتی

Monday, 3 January 2022

Hazrat Shah Helal Ahmed Quadri Aur Khanwada Deora Simla Ke Rawabit-Al Mujeeb

 حضرت شاہ ہلال احمد قادری اور خانوادہ دیورہ سملہ کے روابط
شاہ مبشر ابن طاہر عثمانی فردوسی 
خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ اورنگ آباد
مطبوعہ۔المجیب
شمارہ نمبر۲۔۴

Thursday, 9 December 2021

Interview Ek Sahafi Se

 انٹرویو  ایک صحافی سے

2018

تحسین عثمانی رسالہ اسپین کے مدیر ہیں۔یہ رسالہ امریکی سفارت خانے سے شائع ہوتا ہے ۔آپ نے دہلی میں روزنامہ عوام سے اپنی صحافتی ز ندگی کا آغا زکیا اور دہلی کے کئی دیگر بڑے اخبارات میں بھی صحافتی  خدمات انجام دیں۔آپ نے روز نامہ عوام،ہندوستان ایکسپریس اور خبررساں ایجنسی یو۔این۔آئی میں کام کیا۔ آپ نے صحافتی امور کے لئے بیرونی ممالک کے دورے بھی کئے۔وہ ہفت  روزہ ویوزٹائمز کے پبلیشراور مدیر بھی رہے۔پیش ہیں ان سے لئے گئے  ایک انٹرویو کے اقتباسات۔


سوال۔آپ کو صحافت کا شوق کیسے ہوا؟

جواب۔صحافت کا شوق مجھے بچپن سے  تھا۔اسکول سے ہی مجھے مضامین لکھنے کا شوق رہا   اور جب میں آٹھویں کلاس میں تھا  تب میں نے مضمون نویسی کے ایک مقابلہ میں حصہ لیا جس میں ضلع بھر کے تمام اسکولوں کے طلبہ نے شرکت کی۔مقابلہ کا موضوع تھا"اقبال کی وطنی شاعری"اس میں مجھے اول انعام حاصل ہوا۔جب میں دلی آیا تو یہاں  رہنے کے لئے کچھ کام کرنا ضروری تھا۔دہلی میں گزر بسر آسان نہیں تھی اور مجھے رہنے کے لئے نوکری کی ضرورت تھی لکھنے پڑھنے کا شوق شروع  ہی سے تھا اس لیےاعلیٰ تعلیم  جاری رکھنے کے لیےمیں نے یہاں جامعہ  ملیہ اسلامیہ میں ایم۔اے میں ایڈمیشن لیا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری کا سلسلہ بھی جاری رکھا یہ میرا شوق بھی تھا اور میری ضرورت  بھی۔


سوال۔اگر آپ صحافی نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟

جواب۔صحافت  میرا شوق تھا اور اس شوق نےمجھے کسی اور جانب جانے نہیں دیا۔ورنہ اگر میں صحافی نہیں ہوتا تو   آج میں کسی کالج میں لیکچرر اور پروفیسر ہوتا  لیکن صحافت کا شوق اس درجہ غالب تھا کہ میں نے مدرسی کا پیشہ چھوڑ کر صحافت  کےمیدان میں جانے کو ترجیح دی۔صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں آپ ہمیشہ  مظلوموں اور کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اردو صحافت نے ہمیشہ ہی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی۔حق کے لئے آواز اٹھانے کا جو جذبہ تھا اس نے مجھے ہمیشہ اس بات کے لئے مجبور کیا کہ میں اپنے قلم سے  ان تمام لوگوں کی آواز بنوں  جو کہ اپنے حق سے محروم ہیں۔


سوال۔آپ کی نظر میں ایک اچھا صحافی بننے کے لئے کن باتو ں کا ہونا ضروری ہے؟

جواب۔ایک اچھا  صحافی وہی ہوسکتا ہے جس کے دل میں کمزوروں کی محبت ہو وہ کمزوروں کے حق کے لئے آواز اٹھانے کا جذبہ اپنے دل میں رکھتا ہو۔وہ سماج میں کچھ بہتر ہوتا دیکھنا چاہتا ہو۔وہ  صرف حکومت کی مخالفت نہ کرے بلکہ اس کی غلطیوں کی نشان دہی  بھی ضرور ی سمجھے ۔اس لئے ایک اچھے صحافی کو  حکومت  کی  کمزوریوں پر اپنی نظر رکھنی چاہئے اور اس کی نشان دہی  کے ساتھ اس کے حل کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہئے۔ سماج کے لئے جو بہتر ہو اسے اپنی تحریر میں  لانا چاہئے۔ ایک صحافی کے لئے یہ بھی  ضروری ہے کہ وہ جس زبان میں صحافت کرتا ہے اس زبان پر اسےعبورحاصل ہو۔ آج کل دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جو صحافی ہیں  وہ اپنے سبجیکٹ میں کمزور ہیں اس لئے جو اخبارات  ہیں اس میں ایسی غلطیاں نظرآتی ہیں جو افسوسناک ہیں۔


سوال۔آپ اپنے کچھ نمایا ںکام بتائے؟

جواب۔بچپن سے مجھے آن لائن یعنی انٹرنیٹ پہ کام کرنے کا شوق رہا اس لئے میں اپنے شروعاتی دور میں جب کہ انٹرنیٹ کا آغاز تھااور اردو اخبارات اس سے آشنا نہیں تھےمیں نے انٹرنیٹ پر ویب سائٹ بنانے کا کام کیا۔جو ہندوستان میں اردو اخبارات کے لیے ایک  مشعل راہ بنی تھی۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر مکمل طور سے دسترس رکھنے والے صحافیوں کی جو کھیپ تھی  ان میں شاید میں پہلا صحافی تھا جو دوسروں کی بہ نسبت   اس میدان میں کہیں زیادہ ممتاز تھا۔اور یہی سبب ہے کہ میں آج اس مقام پر ہوں۔


سوال: اردو ادب میں آپ کی پسندیدہ شخصیت کون سی ہے؟

جواب: میری پسند ایک ایسی شخصیت ہے جسے ادب والوں نے ادب کا حصہ قبول کرنے میں کنجوسی سے کام لیا۔ میں جاسوسی ادب کا دلدادہ ہوں اور میں نے ابن صفی کو اپنے بچپن سے ہی خوب پڑھا۔ اور آج جو زبان ہم بولتے ہیں یا لکھتے ہیں اس میں کم از کم میرے فن کی تخلیق میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ایک اچھے طالب علم کو چاہیے کہ وہ خوب مطالعہ کرے۔ اس لیے کہ  آپ کامطالعہ جتنا وسیع ہوگا آپ کا قلم اتناہی تیز رفتار ہوگا۔آپ کے پاس الفاظ کا ایک خزانہ ہوگا جن کو آپ  الگ الگ مواقع پر استعمال کر سکیں گے۔


سوال: آپ کی نظر میں ایک اچھے طالب علم کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب: ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ بہترین ادب پڑھے، اصلاحی ادب پڑھے۔خاص طور سے لڑکیوں کو مطالعہ میں اصلاحی کتابوں پر زیادہ زور دینا چاہیے۔دینی کتابیں ،اسلامی حکایات، اسلامی قصے، اسلامی طرز زندگی ،اسلامی طرز رہائش اور ساتھ ہی ساتھ انہیں چاہیے کہ ان پرانی لکھنے والی خواتین کے ناولوں کا مطالعہ کریں جو اپنے عہد کی سماجی زندگی کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔


سوال:  آپ نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ کن کاموں میں صرف کیا؟

جواب: میری زندگی کا ایک بڑاحصہ پڑھنے لکھنے میں گزرا۔ میں نے سیکڑوںمضامین لکھے۔ اخبارات میں کام کرتے ہوئے دن کیا ہوتا ہے اور رات کیا یہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ میں ڈھائی تین بجے رات میں اخبار مکمل کرکے جب کوئی سواری نہیں ملتی تو  حضرت نظام الدین سے اوکھلا پیدل گھر آتا۔میرے ساتھ میری ہی طرح کے کچھ اور دیوانے ہوتے جو اسی اوکھلا کے علاقے میں رہتے ہیں۔وہ سب لوگ وہ تھے جن کو تنحواہ کی فکر نہیں تھی۔ آج کے نظریے سے دیکھا جائے تو سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی کم تنخواہ میں اتنازیادہ وقت ہم کس طرح دیا کرتے تھے۔آج لوگ ۸ گھنٹے کی ڈیوٹی کرکے اس سے فاضل کام کرنا نہیں چاہتے لیکن ہم بغیر کسی اوور ٹائم کےصرف  اور صرف اپنے شوق کی خاطر بہترین سے بہترین اخبار نکالنے کی کوشش کرتے۔


سوال: آپ نے اپنے اہم فیصلوں میں کس کس سے صلاح مشورہ کیا؟

جواب: زندگی کے ہر فیصلے میں میری سب سے بڑی صلاح کار اور مددگارمیری امی تھیں۔ انہوں نے آگے بڑھنے میں میری ہر طرح سے مدد کی اور میری کامیابی میں جو سب سے بڑا حصہ ہے وہ میرے والد کی دعاؤں کا ہے۔اگر آج ان کی دعا ئیں شامل حال نہیں ہوتی تو میں اس مقام پر نہیں ہوتا۔عملی طور میری امی نے نہ صرف  اپنے  مفیدمشوروں سے نوازا  بلکہ مالی طور پر میرا ہر طرح سے ساتھ دیا۔جب دلی میں رہنا دشوار تھا تو ان کے بھیجے ہوئے روپے ہی میرا سہارا تھے۔اور اگر یہاں میں اپنے بھائیوں کا ذکر نہ کروں تو یہ نا انصافی ہوگی۔ میری بیگم  بھی میرے مشوروں میں شامل رہیں اور آہستہ آہستہ اللہ کے فضل وکرم اور اپنی بیٹیوں کی قسمت سے ہم آج اس مقام پر ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نام بھی دیا،عزت بھی دی اور شہرت بھی۔


صحبہ عثمانی


Saturday, 4 December 2021

Meri Nazar- Sketches By Sehba Usmani

میری نظر












 

Monday, 29 November 2021

Lai Hayat Aae Qaza Le Chali Chale by Ibrahim Zauq

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے
شیخ محمد ابراہیم ذوق
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 

 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بد قمار 
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے ابھی چلے 

نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے، ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانشوری چلے

دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ 
 تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے 

جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی  بلا  سے باد صبا  اب  کبھی  چلے




Monday, 31 May 2021

Mere Qabil e Tahsin Abba

 


نام تحسین عثمانی اسم با مسمیٰ
کشادہ پیشانی،الجھے ہوئے بال،کھڑی ناک، صاف و شفاف چہرہ یہ ہیں میرے پاپا۔ مونچھیں کبھی بڑھ کر ہونٹوں تک آجاتی تھیں کبھی سلیقے سے تراش دی جاتی تھیں۔ آنکھیں ہر وقت کچھ سوچتی رہتی تھیں۔ میرے والد پیشے سے صحافی تھے اور ان کا دماغ شاید ہر وقت کچھ نہ کچھ تعمیری فکر میں لگا رہتا تھا۔ سماج میں بکھری ہوئی غریبی اور بدحالی اور ملت کا انتشار ہر وقت ان کے ذہن پر چھایا رہتا تھا اور وہ اس کے حل  اور سماج میں بیداری پیدا کرنے  کے لیے اپنے قلم کو مصرف میں لانے پر غور کرتے رہتے تھے۔ ان کا قلم جب لکھنے پر آتا تھا تو ایسے ایسے باریک نکتوں پران کی نگاہ جاتی تھی کہ قاری دم بخود رہ جاتا اور اس کی سوچ میں ایک نمایا مشبت تبدیلی پیدا ہوتی۔ 
یہی وجہ تھی کہ صحافتی  دنیا میں انہیں  ایک خاص مقام حاصل تھا۔ غور و فکر ان کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔ ہم بہنیں جب بھی ان سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے وہ فوری کسی سوال کا جواب نہیں دیتے۔ وہ ایک لمحہ کو کچھ سوچتے تھے اور پھر اس سوال کو کسی دوسرے وقت کے لیے ٹال دیتے تھے۔ ایسا نہیں کہ وہ ہمارے سوالوں کا جواب دینا نہیں چاہتے بلکہ اُن کی منشا یہ ہوتی کہ کسی بھی سوال کا تشفّی بخش جواب دیں۔ 
اور پھر جب اپنی سوچ سے آزاد ہوتے تھے تو پوچھے گئے سوال کا مفصل جواب سمجھاتے تھے۔
وہ اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ ان کی یہ کوشش رہتی تھی کہ ان کی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ اپنی تینوں بیٹیوں کو ایک نظر سے دیکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کسی کو ایک دوسرے سے شکایت نہ ہو۔ اپنی بیٹیوں کی فرمائش پوری کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے حد تو یہ تھی کہ عمر کا لحاظ کیے بغیر صرف اس لیے کہ ہم ایک دوسرے کو کم نہ سمجھیں تینوں کو ایک ایک موبائل دے رکھا تھا ۔ ہاں وہ اس بات کا دھیان ضرور رکھتے تھے کہ ہم اس کا منفی استعمال نہ کریں۔
میری بڑی بہن نے تو اپنے بورڈ کے امتحان میں ان سہولتوں کا بھرپور استعمال کیا اور بورڈ میں اپنے نمبرات حاصل کرکے یہ ثابت کیا کہ میرے پاپا کی سوچ غلط نہیں تھی کہ بچوں کو سہولتیں دی جائیں اور ان کی اچھی تربیت کی جائے تو نتائج ہمیشہ شاندار ہوتے ہیں۔
 میرے پاپا ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم کبھی یہ مت بھولو کہ تم کون ہو،کیا ہو۔اگر اپنے باپ اور دادا کو نظر میں رکھوگی تو کبھی کوئی غلط کام نہیں کرو گی۔

Saturday, 13 March 2021

Ibtedai Urdu Class 5 NCERT Urdu Content

(اس صفحہ پر کام جاری ہے)
ترتیب


کسان کی دعا  افسر میرٹھی
نادان کچھوا
بی بی فاطمہ
 ترانۂ ہندی (نظم) محمد اقبال
لڑکا لڑکی ایک سمان
ہمدردی ڈپٹی نظیر احمد
میری پسند (نظم) محبوب راہی
 صحت اور صفائی
درختکی گواہی
نونہالو(نظم) شاد عارفی
گرونانک
زیرو ناٹ آؤٹ مشتاق احمد یوسفی
کتابیں (نظم) ظفر کمالی
آئیے لغت دیکھیں عصمت جاوید
پہلی جنگ آزادی کا سپہ سالار
دریا کنارے چاندنی (نظم) اختر شیرانی
کیرالا کی سیر
ننھی پجارن (نظم) اسرار الحق مجاز
 اچھے خیالات
ڈاکٹر مختار اےمد انصاری
قدرتی آفات

Sunday, 17 January 2021

Duniya Meri Bala Jane by Fani Badayuni Class 10 Nawa e Urdu

 دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے
فانی بدایونی

دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے 
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے 

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں 
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے 

جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں 
آگے مرضی گاہک کی، ان داموں تو سستی ہے 

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا 
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے 

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے 
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے 

دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم 
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے 

فانیؔ! جس میں آنسو کیا، دل کے لہو کا کال نہ تھا 
ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے

فانی بدایونی
(1879  - 1941)
شوکت علی خاں نام، پہلے شوکت اور بعد میں فانی تخلص اختیار کیا۔ اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد پولس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ فانی نے 1897 میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1901 میں بریلی کالج بریلی سے بی۔ اے۔ پاس کرنے کے بعد ملازمت اختیار کی۔ کچھ عرصے تک مدرس رہے، بعد میں ملازمت ترک کر دی اور 1908 میں ایم ۔ اے۔ او کالج علی گڑھ (موجودہ مسلم یونیورسٹی) سے ایل ایل ۔ بی۔ کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد لکھنؤ، آگرہ، اٹاوہ، بریلی اور بدایوں میں وکالت کی، لیکن فانی کو وکالت سے دل چسپی نہ تھی۔ اس لیے اس پیشے میں انھیں کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ 1932 میں مہاراجہ کشن پرشاد کی دعوت پر حیدر آباد پہنچے ۔ مہاراجہ کے دربار سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ وہ حیدر آباد کے ایک سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔ فانی کے آخری ایام تنگ دستی اور پریشانی میں گزرے۔ ان کا انتقال حیدر آباد میں ہوا۔ فانی کا یہ مقطع ان کی زندگی پر صادق آتا ہے
فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں ہے گورو کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا
 فانی نے پہلی غزل 1890 میں یعنی گیارہ سال کی عمر میں کہی۔ ان کے والد شاعری کے خلاف تھے۔ اس لیے فانی چھپ کر شعر کہتے تھے۔ زیادہ تر کلام تلف ہو گیا، جو کچھ بچا وہ " باقیات فانی‘‘ (1926) کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں دیگر اور مجموعے" عرفانیات فانی" (1939) اور "وجدانیات فانی (1940) کے نام سے منظر عام پر آئے۔
فانی کا شمار اردو کے ممتاز غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ شاعری میں درد وغم کے مضامین کی کثرت کے باعث فانی کو یاسیات کا امام کہا گیا ہے۔

تشریح:
دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے 
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح:- فانی کی مشہور غزل کا مطلع ہے۔ فانی بدایونی کے کلام میں موت اور دردوغم کے مضامین کی فراوانی ہے۔ اس مطلع میں موت کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ان کی خودداری صاف ظاہر ہوگئی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ دنیا کتنی مہنگی یاسستی ہے۔ مجھے کوئی چیز مفت نہیں چاہے، یہاں تک کہ موت بھی مفت میں نہیں لوں گا۔ جب زندگی دوں کا تبھی موت ملے گی۔

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں 
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح:- فانی کہتے ہیں کہ ہم نے آبادی بھی دیکھی ہے اور ویرانے بھی ۔ ویرانے آبادی میں بدل جاتے ہیں اور آبادی ویران ہو جاتی ہے۔ مگردل ایسی نرالی بستی ہے جو اجڑ جائے تو پھر نہیں بستی، یعنی عشق ایک مرتبہ ہوتا ہے اور اس عشق میں عاشق ناکام ہو جائے تو پھر عاشق کی روتے روتے گزرتی ہے اس دل میں دوبارہ کوئی نہیں بستا۔

جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں 
آگے مرضی گاہک کی، ان داموں تو سستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- سچا عاشق محبوب کی ایک نظر کا محتاج ہوتا ہے محبوب اسے نظر بھر کر دیکھ لے تو وہ اپنی جان بھی قربان کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں گاہک سے مراد محبوب ہے۔ عاشق نے اپنی جان کی قیمت محبوب کی ایک نظر رکھی ہے اور یہ قیمت انتہائی کم ہے۔

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا 
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- فانی بحیثیت عاشق کہہ رہے ہیں کہ محبوب کے بغیر یہ پوری دنیا سونی ہوگئی اور اسے یاد کر کے روتے روتے آنکھوں کا برا حال ہو گیا۔ یہ دنیا پہلے بھی تھی اور یہی دنیا اب بھی ہے لیکن جب محبوب سامنے تھادنیا پر رونق نظر آتی تھی اور اب محبوب کے نہ ہونے سے دنیا سونی ویران ہوگئی ہے۔

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے 
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- فانی نے اس شعر میں گھٹا کی اس کیفیت سے فائدہ اٹھایا ہے جب آسمان پر سیاہ بادل چھا جاتے ہیں مگر برستے نہیں اور نہ برسنے والے بادلوں کی وجہ سے فضا بوجھل ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مجبوب کیلئے آنسو خشک ہو گئے ۔ جی چاہتا ہے کہ کھل کر روؤں لیکن اب آنسو ہی نہیں لگتا ہے کہ دل پر ایسی گھٹا چھائی ہے کہ نہ تو کھلتی ہے اور نہ بارش ہوتی ہے۔ رونے کی خواہش کے باوجود آنکھ سے آنسو نہیں آتے۔ بستی ہے یعنی اس بسنے میں وقت لگتا ہے اور اسے اجاڑ نے میں اتنا وقت صرف نہیں ہوتا۔

دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم 
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے 
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- اس غزل کے مقطع میں فانی کہہ رہے ہیں کہ ایک وقت تھا جب ہماری آنکھوں میں آنسوؤں کی بہتات تھی اور دل کے لہو کی بھی کمی نہیں تھی۔ یعنی جب آنسو نہیں نکلتے تھے تو ان کی جگہ دل کا خون آنسو بن کر ان آنکھوں سے بہتا تھا لیکن اب روتے روتے یہ حال ہو گیا ہے کہ اب آنکھوں میں دو قطرے آنسو بھی نہیں آتے ، رونے کی کثرت کی وجہ سے آنکھیں خشک ہوگئی ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ شاعر نے دل کو نرالی بستی کیوں کہاہے؟
جواب:کیونکہ دل ایسی بستی ہے کہ اجڑنے کے بعد دوبارہ نہیں بستی جبکہ دنیا میں ایسی ان گنت بستیاں
ہیں جو ویران ہونے کے بعد پھر بس گئیں مگر دل کے ساتھ یہ معاملہ نہیں اسلئے دل نرالی دنیا ہے۔
2۔"ہستی" کیا ہستی ہے؟ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:"ہستی" کے پہلے معنی ہیں وجود، زندگی اور دوسرے معنی ہیں 'مجال، طاقت، حیثیت، قیمت مصرعے کے اس حصے سے مراد یہ ہے کہ زندگی کی کیا مجال، زندگی کی کیا حیثیت ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں زندگی کو انمول شے نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔
3۔ بستی بسناکھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے، اس مصرعے میں پہلے لفظ بستی اور دوسرے لفظ
بستی کے فرق کو واضح کیجئے۔
جواب:بستی کے معنی آباد ہونے کا عمل ہے۔ یعنی پہلا لفظ بستی کے معنی آباد جگہ یا گاؤں قصبے کے ہیں اور دوسرے لفظ بستی کے معنی آباد ہونے کاعمل ہے یعنی پہلا لفظ اسم ہے اور دوسرا لفظ فعل ( کام کا کرنا یا ہونا ) ظاہر کرتا ہے۔

خوش خبری