آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday 2 April 2020

Roshan Jamaal e Yaar Se Hai Anjuman Tamam - Hasrat Mohani - NCERT Solutions Class IX


Roshan Jamal e Yaar Se Hai Anjuman Tamam by Hasrat Mohani  Chapter 13 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
حسرت موہانی

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
 دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

 حیرت غرورحسن سے شوخی سے اضطراب
 دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن تمام

 دیکھو تو چشم یار کی جادو نگا ہیاں
 بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام

 نشو و نمائے سبزہ وگل سے بہار میں
 شادابیوں نے گھیر لیا ہے چمن تمام

 اچھا ہے اہل جور کیے جائیں سختیاں
 پھیلے گی یونہی شورش حُبّ وطن تمام

سمجھے ہیں اہل شرق کو شاید قریب مرگ 
مغرب کے کیوں ہیں جمع یہ زاغ وزغن تمام

شیرینی نسیم ہے سوز و گداز میر 
حسرت ترے سخن پہ ہے لطفِ سخن تمام

حسرت موہانی
(1881ء -1951ء)
سید فضل حسن حسرت ،قصبہ موہان ضلع اتاک (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے عربی ، فارسی گھر پر پڑھی اور انگریزی تعلیم اسکول میں حاصل کی۔ علی گڑھ سے بی۔ اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے ایک ادبی ماہنامہ اردوئے معلی‘ جاری کیا جو عرصہ دراز تک اردو زبان وادب کی خدمت کرتا رہا۔ حسرت مذہبی انسان تھے۔ ان کا ذبان ہم کے تعصبات سے پاک تھا۔ ان میں کمال کی اخلاقی جرات کی۔ جو بات دل میں ہوتی وہی زبان پر لاتے ۔ منافقت او تصنع سے انھیں دور کا واسطہ نہ تھا۔ خودداری، بے باکی ، اصول پسندی سادگی اور خلوس ان کے نمایاں اوصاف تھے۔

حسرت کو طالب علمی کے زمانے سے شعروشاعری کا شوق تھا لیکن وہ تحریک آزادی میں بھی عملی طور پر شریک رہے ۔ قوم کے بڑے رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے رسالے اردوئے معلی کی ضمانت ضبط کر لی گئی۔ انھوں نے کئی بار قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن آزادی کامل کے سلسلے میں کسی سمجھوتے کے قائل نہ تھے۔ عمل آزادی کا نعرہ سب سے پہلے انھوں نے ہی بلند کیا تھا۔

اردو غزل کو از سر نو مقبول بنانے میں حسرت موہانی کا بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے غزل کو تہذیب عاشقی کی شائستہ زبان سے آشنا کیا اور در دو اثر کے ساتھ شیر ینی ، دل کشی اور طرز ادا میں شانتی و لطافت پیدا کیا ۔ حسرت موہانی نے اپنی غزل میں عشقیہ مضامین کے علاوہ قومی سیاست اور قومی یک جہتی پر مبنی مضامین بھی داخل کیے۔ انھوں نے پرانے شعرا کا ایک بہت عمدہحسرت موہانی روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام . انتخاب انتخاب جن کے نام سے چودہ جلدوں میں شائع کیا اور اس انتخاب کے ذریعے کئی ایسے شعرا کا کلام محفوظ ہو گیا اور دور دور تک پہنچا جو پردہ گم نامی میں تھے۔
حسرت موہانی نے نواب اصغرعلی خان تھیم کے شاگردنشی امیر الله تایم کی شاگردی اختیار کی۔
Roshan Jamal e Yaar Se Hai Anjuman Tamam by Hasrat Mohani  Chapter 13 NCERT Solutions Urdu
لفظ و معنی
انجمن  : محفل
چلن : طریقه، ڈھنگ
اضطراب : بے چینی
 نشوونما : پھلنا پھولنا، فروغ پانا
ابل جور : ظلم کرنے والے
شورش : ہنگامہ، شور
زاغ : کوا
زغن  : چیل

غور کرنے کی بات
* حسرت کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت سادگی ہے۔ ان کی زندگی جتنی سخت کوشی میں گزری ان کی شاعری اس قدر نشاط انگیز ہے۔
* مقطعے میں تم سے مراد نواب اصغر علی خاں نسیم دہلوی ہیں جوکہ حسرت موہانی کے استادمنشی امیر اللہ تسلیم کے استاد تھے۔ وہ جس طرح نسیم کی شیرینی  کے قائل تھے اسی طرح میر کے سوز وگداز کے بھی معترف تھے۔ شیرینی سے مراد زبان کی صفائی اور اس کا بامحاورہ اور سلیسہونا ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے:
 1. دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام اس مصرعے میں آتش گل سے کیا مراد ہے؟
جواب:

2. اہل جور سے شاعر کا کیا مطلب ہے؟
جواب:

 3. غزل کے کس شعر میں تعلقی کا اظہار کیا گیا ہے؟
جواب:

4. شاعر کے خیال میں وطن سے محبت کا شورکن وجوہ سے پھیل رہا ہے؟
جواب:

عملی کام
* غزل کی بلندخوانی کیجیے۔
* پسندیدہ اشعار یاد کیجیے۔
* غزل کے اشعار کوخوش خط تھے۔
* اس غزل کے قافیوں کی نشاندہی کیجیے اور ان سے ملتے جلتے تین اور قافیے لکھیے ۔
* اشعار میں مختلف جگہوں پراضافت کا استعمال ہوا ہے، ایسے الفاظ تلاش کر کے لکھے ۔
* جن اشعار میں حرف عطف کا استعمال ہوا ہے ان شعروں کی نشاندہی کیجیے۔
* مقطع میں جن تین شعراس لص آئے ہیں ان کے پورے نام لکھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Charpai - Rasheed Ahmad Siddiqui - NCERT Solutions Class IX Urdu

Charpai by Rasheed Ahmad Siddiqui  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
چارپائی
رشید احمد صدیقی
چارپائی اور مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ہم اس پر پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے مدرسے، آفس، جیل خانے، کونسل، یا آخرت کا راستہ لیتے ہیں۔ چارپائی ہماری گھٹّی میں پڑی ہوئی ہے۔ ہم اس پر دوا کھاتے ہیں، دعا و بھیک بھی مانگتے ہیں ۔ کبھی فکرسخن کرتے ہیں اور کبھی فکر قوم ۔ اکثر فاقہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ہم کو چارپائی پر اتنا ہی اعتماد ہے جتنا برطانیہ کو آئی۔ سی ۔ ایس پر، شاعر کو قافیہ پر یا طالب علم کو غل غپاڑے پر۔
چارپائی کی مثال ریاست کے ملازم سے دے سکتے ہیں ۔ یہ ہر کام کے لیے ناموزوں ہوتا ہے، اس لیے ہر کام پر لگادیا جاتا ہے۔ ایک ریاست میں کوئی صاحب ولایت پاس ہو کر آئے۔ ریاست میں کوئی آسامی نہ تھی جو ان کو دی جاسکتی ۔ آدمی سوجھ بوجھ کے تھے، راجا صاحب کے کانوں تک یہ بات پہنچا دی کہ کوئی جگہ نہ ملی تو وہ لاٹ صاحب سے طے کر آئے ہیں، راجا صاحب ہی کی جگہ پر اکتفا کریں گے۔ ریاست میں ہلچل مچ گئی ۔ اتفاق سے ریاست کے سول سرجن رخصت پر گئے ہوئے تھے، یہ ان کی جگہ پرتعینات کر دیے گئے۔ کچھ دنوں بعد سول سرجن صاحب واپس آئے تو انجینئر صاحب پرفالج  گرا۔ ان کی جگہ ان کو دے دی گئی۔ آخری بار یہ خبر سنی گئی کہ وہ ریاست کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہو گئے تھے اور اپنے ولی عہد کو ریاست کے ولی عہد کا مصاحب بنوا دینے کی فکر میں تھے۔
یہی حالت چار پائی کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان ملازم صاحب سے کہیں زیادہ کارآمد ہوتی ہے۔ فرض کیجیے آپ بیمار ہیں ، سفر آخرت کا سامان میسر ہو یا نہ ہو، اگر چار پائی آپ کے پاس ہے تو دنیا میں آپ کو کسی اور چیز کی حاجت نہیں ۔ دوا کی پڑیا تکیے کے نیچے ، جوشاندے کی دیگچی سرہانے رکھی ہوئی ، چار پائی سے ملا ہوا بول و براز کا برتن ، چارپائی کے نیچے میلے کپڑے، بچوں کے کھلونے ، جھاڑو، آش جو، روئی کے پھائے، کاغذ کے ٹکڑے، مچھر، بھنگے، گھر یا محلے کے دو ایک بچّے ، جن میں ایک آدھ زکام خسرے میں مبتلا۔ ا چھے ہو گئے تو بیوی نے چار پائی کھڑی کر کے غسل کرادیا۔ ورنہ آپ کے دشمن اسی چارپائی پرلب گورلائے گئے۔
ہندوستانی گھرانوں میں چار پائی کو ڈرائنگ روم، سونے کا کمرہ ،غسل خانہ، قلعہ، خانقاه ، خیمہ، دواخانہ، صندوق، کتاب گھر، شفاخانہ ، سب کی حیثیت کبھی کبھی بہ یک وقت ورنہ وقت وقت پر حاصل رہتی ہے۔ کوئی مہمان آیا، چار پائی نکالی گئی ۔ اس پر ایک نئی دری بچھا دی گئی، جس کے تہہ کے نشان ایسے معلوم ہوں گے جیسے کسی چھوٹی سی اراضی کو مینڈوں اور نالیوں سے بہت سے مالکوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور مہمان صاحب مع اچکن ، ٹوپی، بیگ ، بغچی کے بیٹھ گئے۔ اورتھوڑی دیر کے لیے یہ معلوم کرنا دشوار ہوگیا کہ مہمان بے وقوف ہے یا میز بان بد نصیب ! چار پائی ہی پران کا منہ ہاتھ دھلوایا اور کھانا کھلایا جائے گا اور اسی چارپائی پر یہ سورہیں گے۔ سوجانے کے بعد ان پر سے مچھر مکھی  اسی طرح اڑائی جائے گی جیسے کوئی پھیری والا اپنے خوانچے پر سے جھاڑو نما مور چھل سے مکھیاں اڑارہا ہو۔
چارپائی پر سوکھنے کے لیے اناج پھیلایا جائے گا، جس پر تمام دن چڑیاں حملے کرتی ، دانے چگتی اور گالیاں سنتی رہیں گی۔ کوئی تقریب ہوئی تو بڑے پیمانے پر چار پائی پر آلو چھیلے جائیں گے ۔ ملازمت میں پنشن کے قریب ہوتے ہیں تو جو کچھ رخصت جمع ہوتی رہتی ہے، اس کو لے کر ملازمت سے سبک دوش ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح چار پائی پنشن کے قریب پہنچتی ہے تو اس کو اسیکال کوٹھری میں داخل کر دیتے ہیں اور اس پر سال بھر کا پیاز کا ذخیرہ جمع کر دیا جا تا ہے۔ ایک دفعہ دیہات کے ایک میزبان نے پیاز ہٹا کر اس خاکسار کو ایسی ہی ایک پنشن یافتہ چار پائی پر اسی کال کوٹھری میں بچھا دیا تھا اور پیاز کو چارپائی کے نیچے اکٹھا کردیا گیا تھا۔ اس رات کو مجھ پر آسمان کے اتنے ہی طبق روشن ہو گئے تھے جتنی ساری پیازوں میں چھلکے تھے اور وہ یقیناً چودہ سے زیادہ تھے۔
چار پائی ایک اچھے بکس کا بھی کام دیتی ہے، تکیے کے نیچے ہر قسم کی گولیاں ، جن کے استعمال سے آپ کے سوا کوئی واقف نہیں ہوتا، ایک آدھ روپیہ، چند دھیلے پیسے، اسٹیشنری ، کتابیں ، رسالے، جاڑے کے کپڑے، تھوڑا بہت ناشتہ، نقش سلیمانی ، فہرست دواخانہ،سمن، جعلی دستاویز کے کچھ مسوّدے، یہ سب چار پائی میں آباد ملیں گے۔ میں ایک ایسے صاحب سے واقف ہوں جو چارپائی پر لیٹے لیٹے ان میں سے ہر ایک کو ، اجالا ہو یا اندھیرا ، اس صحت کے ساتھ آنکھ بند کر کے نکال لیتے اور پھر رکھ دیتے، جیسے حکیم نابینا صاحب مرحوم اپنے لمبے چوڑے بکس میں سے ہر مرض کی دوائیں نکال لیتے اور پھر رکھ دیتے تھے۔
حکومت بھی چار پائی ہی پر سے ہوتی ہے۔ خاندان کے کرتا دھرتا چار پائی ہی پر براجمان ہوتے ہیں ۔ وہیں سے ہر طرح کے احکام جاری ہوتے رہتے ہیں اور گناہ گار کو سزا بھی وہیں سے دی جاتی ہے۔ آلات سزامیں ہاتھ ، پاؤں ، زبان کے علاوہ ڈنڈا، جوتا، تاملوٹ بھی ہیں جن میں اکثر پھینک کر مارتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ توقف کرنے میں غصّے  کا تاؤ  مدھم نہ پڑ جائے اور ان آلات کو مجرم پر استعمال کرنے کے بجائے اپنے اوپر استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگے۔
چار پائی ہی کھانے کا کمرہ بھی ہوتی ہے ۔ باورچی خانے سے کھا نا چلا اور اس کے ساتھ پانسات چھوٹے بڑے بچے ، اتنی ہی مرغیاں، دو ایک کتے، بلی، اور بے شمار مکھیاں آ پہنچیں۔ سب اپنے قرینے سے بیٹھ گئے ۔ صاحب خانہ صدر دستر خوان ہیں ۔ ایک بچہ زیادہ کھانے پر مار کھاتا ہے، دوسرا بدتمیزی سے کھانے پر، تیسرا کم کھانے پر، چوتھا زیادہ کھانے پر اور بقیہ اس پر کہ ان کو مکھیاں کھائے جاتی ہیں ۔ دوسری طرف بیوی مکھی اڑاتی جاتی ہے اور شوہر کی بد زبانی سنتی اور بدتمیزی سہتی جاتی ہے۔ کھانا ختم ہوا۔ شوہر شاعر ہوئے تو ہاتھ دھوکر فکرسخن میں چار پائی ہی پر لیٹ گئے کہیں دفتر میں ملازم ہوئے تو اس طرح جان لے کر بھاگے جیسے گھر میں آگ لگی ہے۔ اور کوئی مذہبی آدمی ہوئے تو اللہ کی یاد میں قیلولہ کرنے لگے، بیوی بچے بدن دبانے لگے۔
چارپائی ہندوستان کی آب و ہوا، تمدن و معاشرت ،ضرورت اور ایجاد کا سب سے بھر پور نمونہ ہے۔ ہندوستان اور ہندوستانیوں کے مانند ڈھیلی ڈھالی ، شکستہ حال، بے سروسامان لیکن ہندوستانیوں کی طرح غالب اور حکمراں کے لیے ہر قسم کا سامان راحت فراہم کرنے کے لیے آمادہ، کوچ اور سوفے کے دلدادہ اور ڈرائنگ روم کے اسیر اس راحت و عافیت کا کیا اندازہ لگا سکتے ہیں جو چار پائی پر میسر آتی ہے شعرا نے انسان کی خوشی اور خوش حالی کے لیے کچھ باتیں منتخب کر لی ہیں ، مثلا سچے دوست ، شرافت ، فراغت، اور گوشہ چمن۔ ہندوستان جیسے ملک کے لیے عیش وفراغت کی فہرست اس سے مختصر ہونی چاہیے۔ میرے نزدیک تو صرف ایک چار پائی ان تمام لوازم کو پورا کرسکتی ہے۔

Charpai by Rasheed Ahmad Siddiqui  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
رشید احمد صدیقی
(1977ء - 1876ء)
رشید احمد صدیقی اتر پردیش کے شہر جون پور کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم جون پور میں حاصل کی اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ایم ۔ اے کرنے کے بعد وہیں ملازم ہو گئے ۔ جب علی گڑھ یونیورسٹی میں شعبہ اردو قائم ہوا، تو رشید احمد صدیقی اس کے صدر بنائے گئے۔ انھیں علی گڑھ بہت عزیز تھا اور انھوں نے ساری زندگی وہیں گزاری۔
رشید احمدصدیقی نے طالب علمی کے زمانے ہی سے لکھنا شروع کردیا تھا۔ ان کے مضامین طنز اور ظرافت کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ وہ عموماً اشاروں، کنایوں اور چبھتے ہوئے جملوں میں اپنی بات کہتے ہیں ۔ ملتے جلتے لفظوں اور متضاد لفظوں کو وہ ایک نئے انداز سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں تنوّع ہے۔ معاشرتی ، سیا سی اور ادبی مسائل پر جب وہ قلم اٹھاتے ہیں تو ان کے طرزتحریر کو سمجھنے والا قاری ان کی نُکتہ رسی کی داد دئیے بغیر نہیں رہتا۔ ان کے یہاں دلچسپ فقروں، نادر تشبیہوں، معنی خیز اشاروں ، برجستہ لطیفوں اور پر لطف انداز بیان کی وجہ سے نرالی ادبی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ رشید احمد صدیقی کو ”ادبی مزاح نگاری“ کے میدان میں سب سے پہلا اوربعض لوگوں کی نظر میں اہم ترین مصنف قرار دیا جاتا ہے ۔ ان دنوں مشتاق احمد یوسفی اس طرز کے بہتر ین نمائندے ہیں۔
رشید احمد صدیقی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے 1963ء میں انھیں’   پدم شری‘ کا اعزاز عطا کیا۔ ان کو ساہتیہ اکادمی کے ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ ان کا انتقال علی گڑھ میں ہوا۔
’مضامین رشید‘ ( مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ) ’خنداں‘ (ریڈ بائی تقریروں کا مجموعہ )’ گنج ہائے گراں مایہ‘ اور ’ہم نفسان رفتہ‘ (خاکوں کے مجموعے )’طنزيات ومضحکات‘ اور ’جدید غزل‘ (تنقید) اور ’آشفتہ بیانی میری‘ (خودنوشت ) رشید احمد صدیقی کی اہم تصانیف ہیں۔

لفظ ومعنی 
فکر سخن کرنا : شعر کہنا، شعر کہنے کی کوشش کرنا
آئی۔سی۔ایس : انڈین سول سروس، انگریزوں کے زمانے کی انتظامی ملازمت کی سروس جسے اب آئی۔اے۔ ایس (انڈین ایڈمنسٹریٹو سرویس) کہتے ہیں
غل غپاڑے : شوروغل
اسامی : نوکری ، منصب
اکتفا کرنا : قناعت کر تا مطمئن رہنا
مصاحب : در باری
بول : پیشاب
براز : پاخانہ
پانسات : پانچ سات یافظ بول چال کے ہے یا بے تکلف تحریر میں استعمال ہوتا ہے
چودہ طبق روشن ہونا : چودہ طبق کے معنی سات زمین سات آسمان ، مراد د ماغ یا طبیعت کا خوب مل جاتا، مزاج میں پوری طرح بحالی آجانا۔
آشِ جو : جو کا جوش دیا ہوا پانی جو کمزور مریضوں کو دیا جا تا ہے
لب گور : مرنے کے قریب (لفظی معنی قبر کے کنارے)
آراضی : زمین ، کھیت
سبک دوش : فارغ
نقش سلیمانی : تعویذ یا دعا، عملیات کی مشہور کتاب
تاملوٹ : بغیر ٹونٹی کا لوٹا، ڈونگا
سمّن : عدالت میں حاضر ہونے کا تحریری حکمنامہ
قیلولہ : دوپہر کے کھانے کے بعد کی مختصر نیند



Charpai  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
غور کرنے کی بات 
*   رشید احمد صدیقی کا شمار اردو کے معروف انشائیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی نثر ظرافت کا  اعلیٰ نمونہ ہے۔ وہ عام طور پر اپنی تحریروں میں سیاسی ، معاشرتی اور ادبی مسائل کا ذکر کرتے ہیں اور ان کو دلچسپ بنانے کے لیے نادر تشبیہات متضاد الفاظ   اور رمز واشارہ سے کام لیتے ہیں۔ ان کے طنز کا وار بھر پور ہوتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے 
1. رشید احمد صدیقی نے چارپائی کو ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا کیوں کہا ہے؟ 
جواب: کیونکہ ہم اس پر پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے مدرسے آفس، جیل خانے، کونسل، یا آخرت کا راستہ لیتے ہیں۔

2. رشید احمد صدیقی نے چار پائی کی مثال ریاست کے ملازم سے کیوں دی ہے؟
جواب: کیوں کہ چارپائی ہر کام کے لئے ناموزوں ہوتی ہے اس لیے ہر کام پر اسے لگا دیا جاتا ہے مثلاً کسی ریاست میں کوئی شخص ولایت پاس کر کے لوٹا ریاست میں اس وقت کوئی آسامی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کسی دوسرے شخص کی ملازمت پر لگا دیا گیا چونکہ وہ آدمی سوجھ بوجھ والے اور سمجھدار تھے ٹھیک یہی مثال چارپائی کی ہے کہ وہ گھر کے تمام ناموزوں کاموں کیلئے مستعمل ہے۔

 3. ہندوستانی گھرانوں میں چار پائی کو کس کس کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟
جواب: ہندوستانی گھرانوں میں چارپائی کو ڈرائینگ روم، سونے کا کمرہ، غسل خانہ، قلعہ، خانقاہ، خیمہ، دواخانہ، صندوق، کتاب گھرسب کی حیثیت کبھی کبھی بیک وقت ورنہ وقت وقت پر حاصل ہے۔

 4. مصقف نے چار پائی کو ضرورت اور ایجاد کا سب سے بھر پور نمونہ کیوں کہا ہے؟ 
جواب: کیونکہ چارپائی بھی ہندوستان اور ہندوستانیوں کی طرح ڈھیلی ڈھالی، شکستہ حال، بے سروسامان لیکن ہندوستانیوں کی طرح غالب اور حکمران کیلۓ ہر قسم کا سامان راحت فراہم کرنے کیلئے آمادہ،کوچ اور سوفے پر بیٹھنے والے حضرات چارپائی کی راحت کا اندازہ نہیں لگا سکتے اور روز مرہ کی زندگی میں چارپائی ہر ناموزوں کاموں کے لئے موزوں ہے۔

5. چارپائی میں رشید احمد صدیقی نے عام ہندوستانی رہن سہن کا جو نقشہ کھینچا ہے، اسے مختصر لکھیے۔
جواب: رشید احمد صدیقی نے چارپائی کو ہندوستانی تہذیب اور اس کے رہن سہن کا بہترین نمونہ بتلایا ہے مثلاً اگر کوئی شخص بیمار ہے اسے سفر آخرت میسر ہو یا نہ ہو اگر چارپائی اسکے پاس ہے تو اسے دنیا کی کوئی دوسری چیز کی حاجت نہیں۔اسی طرح اگر کوئی مہمان آیا تو چارپائی نکالی گئی اور اس پر ایک نئ دری بچھا دی گئی اور مہمان صاحب اسی چارپائی پر جلوہ افروز ہوئے، اسی طرح روز مرہ کے ہر چھوٹے بڑے کام کو چارپائی سے منسلک کیا ہے جس میں ہندوستانی تہذیب ابھر کر سامنے آتی ہے مثلاً ہندوستانی تہذیب میں خاندان کے بڑے حضرات چارپائی پر ہی براجمان ہوتے ہیں اور وہیں سے ہر طرح کے احکام جاری کرتے ہیں چاہے جزا کے ہوں یا سزا کے، چارپائی سے بکس کا کام بھی لیا جاتا ہے مثلاً حوائج یومیہ کے تمام تر اشیاء اس کے نیچے محفوظ کی جاتی ہیں خواہ وہ طبیب کا نسخہ ہو، ایک آدھ روپیہ، اسٹیشنری، کتابیں، رسالے، جاڑے کے کپڑے، تہوڑا بہت ناشتہ، جعلی دستاویز کے کچھ مسودے وغیرہ وغیرہ الغرض یہ سارے ہندوستانی تہذیب سے وابستہ ہیں۔
Charpai  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
عملی کام
چار پائی کا جو پیراگراف آپ کو پسند ہو اسے اپنی کاپی میں خوش خط نقل کیجیے۔
 اس سبق میں جو محاورے استعمال کیے گئے ہیں ، ان میں سے کوئی پانچ محاورے تلاش کیجیے اور ان کے معنی بھی لکھیے۔

 درج ذیل الفاظ کے واحد لکھیے : 
ملازمین  ملازم
 طلبا  طالب علم
 کتب  کتاب
تقاریب  تقریب
مجرمین  مجرم
انشائیہ ’چارپائی‘کا مرکزی خیال لکھیے۔
چارپائی رشید احمد صدیقی کا لکھا ہوا انشائیہ ہے۔ اس میں رشید احمد صدیقی نے چارپائی کو انسانی زندگی کا ایک اٹوٹ حصّہ بتلایا ہے یہ کہا ہے کہ چارپائی انسان کی گھٹی میں شامل ہے خاص کر ہندوستان کی تہذیب وتمدن میں شامل ہے یہاں تک کہ روز مرہ کے ہر چھوٹے بڑے کاموں کو چارپائی سے منسوب کیا ہے مثلاً چارپائی پر انسان پیدا ہوتا ہے اور اسی پر مر جاتا ہے اگر بیمار ہوتا ہے تو ‌چارپا‌ئی پر ہی ہوتا ہے،حکومت بھی چارپائی سے ہی ہوتی ہے،خاندان کے بڑے حضرات بھی چارپائی پر ہی تشریف فرما ہوتے ہیں،چھوٹی چھوٹی استعمال کی چیزیں اگر انہیں چارپائی کے نیچے رکھ دیں تو یہ ایک بکس کا کام بھی کرتی ہیں،کبھی ہم چارپائی پر فکر قوم کرتے ہیں تو کبھی فکر سخن، دعا،دوا،فقیری ،خاکساری، حاجت مندی وامیری غرض چارپائی انسانی زندگی کے تمام مراحل کی بہترین ساتھی ہےاور انسانی زندگی کا صاف وشفاف آئینہ ہے۔

چارپائی (خلاصہ)
چارپائی رشید احمد صدیقی کا ایک انشائیہ ہے جس میں انہوں نے چار پائی کو بنیاد بناکر ہندوستانیوں کے رہن سہن کے انداز اور ان کے طور طریقوں پر اپنے مخصوص انداز میں طنز کے تیر چلائے ہیں ۔ ان کے کہنا ہے کہ مذہب اور چار پائی ہندوستانیوں کے لئے لازم وملزوم ہیں ۔ ان دو چیزوں کے بغیر کسی ہندوستانی کا تصور بھی محال ہے۔ رشید احمد صدیقی چارپائی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم یہیں پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے دنیا جہان کے کام کرتے ہیں بلکہ حکم بھی چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہد سے لحدتک یعنی پیدائش سے موت تک کے تمام کام چار پائی پر ہی انجام دیے جاتے ہیں۔
وہ ہندوستانی گھروں میں چارپائی کی اہمیت بیان کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ چار پائی صندوق بھی ہے اور بستر بھی ، سونے سے لے کر سامان رکھنےتک کا ہر کام چار پائی ہی پرانجام پاتا ہے۔ کتا ہیں ، دوائیں، اناج ، آلو، پیاز ،کھاناغرض ہر کام کے لئے چار پائی حاضر ہو جاتی ہے۔ ہمارےگھروں میں چار پائی ڈرائنگ روم بھی ہے اور باتھ روم تھی ، لائبریری بھی ہے اور دوا خانہ بھی محض ایک چار پائی ہزار کام انجام دیتی ہے۔
ہندوستانی اپنی ضرورت کے مطابق چار پانی کا استعمال کرتے ہیں ۔ گھروں میں یہ ملاقات کرنے ، سونے، بول و براز کرنے ، بزرگوں کے رہنے، کتابیں اور دوائیں وغیرہ رکھنے ،نیچے سامان رکھنے، اناج سکھانے اور پیاز کا ذخیرہ کرنے کے لئے اسی چار پانی کا استعمال ہوتا ہے۔ چار پائی اور سرکاری ملا زم میں بہتری مشترک با تیں ہیں اور ان مشترک باتوں سے طنز و مزاح پیدا ہوتا ہے۔رشید احمد صدیقی کے مطابق ایک سرکاری ملازم جتنا حکم کا غلام ہے اسی طرح چارپائی بھی ہر کام کے لیے مجبور ہے۔ ایک سرکاری ملازم کی طرح چارپائی سے بھی ہر طرح کا کام لیا جاتا ہے۔
چار پائی ہندوستانیوں کی زندگی میں ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ہندوستان کی پہچان قالینوں اور صوفہ سیٹوں سے نہیں بلکہ چارپائی سے ہے جسے کروڑوں ہندوستانی استعمال کرتے ہیں۔ اور جس کے بغیر کسی بھی ہندوستانی کی زندگی نامکمل ہے۔
کلک برائے دیگر اسباق

Wednesday 1 April 2020

Ham hain mata e koocha o bazaar ki tarah - Majrooh - NCERT Solutions Class IX Urdu

Ham Hain Mata e Koocha o Baar Ki Tarah by Majrooh Sultanpuri  Chapter 15 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
مجروح سلطان پوری

ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
 اٹھتی ہے ہر نگاه خریدار کی طرح

 وہ تو کہیں ہے اور اگر دل کے آس پاس
 پھرتی ہے کوئی شے نگہ یار کی طرح

 سیدھی ہے راو شوق پہ یوں ہی کہیں کہیں
خم ہوگئی ہے گیسوئے دل دار کی طرح

بے تیشے نظر نہ چلو راه رفتگاں
 ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح

 اب جا کے کچھ کھلا ہنر ناخن جنوں
 زخم جگر ہوئے لب و رخسار کی طرح

مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
 ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح


مجروح سلطان پوری
اسرارحسن خاں مجروح سلطان پوری ، سلطان پور، اتر پردیش میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ پھر انھوں نے لکھنؤ سے طلب کی سند حاصل کی اور طبابت کا پیشہ اختیار کیا لیکن بچپن سے ہی انھیں شاعری سے لگاؤ تھا اور بہت جلد وہ طبابت چھوڑ کر صرف شاعری کرنے لگے ۔ بعد میں ممبئی چلے گئے اور انھوں نے فلم کے لیے بہت سے مقبول اورمشہور گیت لکھے۔ ان کا شعر پڑھنے کا انداز ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ ان کا شمار ترقی پسند غزل کے نمائندہ شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کے کلام کے مجموعے غزل اور مشعل جان کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔
مجروح کو اقبال اعزاز (جسے عام طور پر اقبال سمان کہتے ہیں) اور دادا صاحب پینا کے ایوارڈ کے علاوہ بھی دیگر کئی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔
Ham Hain Mata e Koocha o Baar Ki Tarah by Majrooh Sultanpuri  Chapter 15 NCERT Solutions Urdu
لفظ ومعنی
متاع : سامان، پونجی
کوچہ : گلی
راہ شوق : محبت کا راستہ
خم : ٹیڑھ، بل، پیچ
گیسوئے دلدار : محبوب کی زلفیں
تیشہ : کدال، لہذا بے تیشہ نظر نہ چلو کے معنی ہوئے غور کرنے والی نگاه کو اس طرح استعمال کرو جس طرح کدال استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی پرانے خیالات جو دیوار کی طرح ہیں، انھیں اپنے غور وفکر کی طاقت سے برابر اور ہموار کر دو۔
رفتگاں : گزرے ہوئے لوگ
نقش پا : قدموں کے نشان
اہل وفا : وفاکرنے والے لوگ

غور کرنے کی بات
* اس غزل کے اشعار میں انسان کی مختلف حیثیتوں کو ظاہرکیا گیا ہے۔ بہ حیثیتیں ہیں : عاشق،انقلا بی، نئی راہیں نکالنے والا
* مجروح کا شمار اس دور کے اہم ترین غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین سے تھا۔ ان کا کلام پر اثر ہے اورتصنع سے پاک ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے:
1.  راہِ شوق سے کیا مراد ہے؟ ایک جملے میں لکھیے۔
جواب:

2.  د دوسرے شعر میں وہ تو کہیں ہے اور کس کی طرف اشارہ ہے؟
جواب:

 3. غزل کے مقطعے میں شاعر نے کیا بات کہی ہے؟
جواب:


عملی کام
* غزل کو بآواز بلند پڑھیے۔
* غزل کے اشعار کو خوش خط لکھیے
* اس غزل کوزبانی یاد کیجیے۔
* غزل میں استعمال کی گئی تشبیہات اور استعارات کی نشاندہی کیجیے۔

مطلب لکھیے۔
 ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

سیدھی ہے راہ شوق پہ یوں ہی کہیں کہیں
خم ہو گئی ہے گیسوئے دلدار کی طرح


کلک برائے دیگر اسباق

Sar Mein Sauda Bhi Nahin Dil Mein Tamanna Bhi Nahin- Firaq Gorakhpuri - NCERT Solutions Class IX

Sar mein sauda bhi nahin dil mein tamanna bhi nahin by Firaq Gorakhpuri  Chapter 14 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
(فراق گورکھپوری)

سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنا بھی نہیں 
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

 ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
 اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ، ایسا بھی نہیں

 یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق
 مگراے دوست ، کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں

 دل کی گنتی نہ یگانوں میں، نہ بیگانوں میں
 لیکن اس جلوہ گہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں 

آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
 آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں

ہم اسے منھ سے برا تو نہیں کہتے کہ فراق
 دوست تیرا ہے ، مگر آدمی اچھا بھی نہیں

فراق گورکھپوری
(1896ء- 1982 ء)
ان کا نام رگھوپتی سہائے ، اور فراق تخلص تھا۔ شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی اور ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت گورکھپوری اپنے وقت کے مشہور شاعر تھے۔ فراق بھی بچپن ہی سے شعر کہنے لگے اور انھوں نے نظم، غزل، رباعی وغیرہ شعری اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کا شمار اردو کے اہم
شعرا میں ہوتا ہے۔ 1917 ء میں کانگریس میں شامل ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے۔
فراق کا کلام انسانی عظمت اور درد مندی کے احساس سے بھرا ہوا ہے۔ انھوں نے عشقیہ معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ان کی زبان میں گھلاوٹ اور مٹھاس ہے۔ انھوں نے عشق کے معاملات کو اکثر بالکل نئے ڈھنگ سے پیش کیا ہے اور بعض نئے مضامین بھی استعمال کیے ہیں۔ رباعی میں انھوں نے سنسکرت کے سنگھار رس سے استفادہ کرتے ہوئے معشوق کو ایک نئے اور دلکش گھر یلو رنگ میں پیش کیا۔

نغمۂ ساز، غزلستان، شعرستان، شبنمستان، روح کائنات، گل نغمہ، روپ اور گلبانگ کے نام سے کئی شعری مجموعے شائع ہو کر قبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ انھوں نے اعلا درجے کی تنقید بھی لکھی۔ ان کی نثری کتابوں میں اندازے اور اردو کی عشقیہ شاعری معروف ہیں۔ فراق گورکھپوری کو گیان پیٹھ ایوارڈ اور دوسرے کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
Sar mein sauda bhi nahin dil mein tamanna bhi nahin by Firaq Gorakhpuri  Chapter 14 NCERT Solutions Urdu
لفظ و معنی 
سودا : جنون، دیوانگی
تمنا : آرزو خوابش
ترک کرنا : چھوڑنا
یگانہ : اس لفظ کے اصل معنی ہیں جس کی کوئی نظیر نہ ہو، واحد لیکن شاعر نے یہاں و اسے بیگانہ کی ضد کے طور پر استعمال کیاہے
بیگانہ : غیر
جلوہ گہ : جلوہ صورت، یا صورت کی جھلک نظر آنے کی جگہ
ناز : ادا
شکیبا : جسے صبر حاصل ہو، جسے صبر آ جائے
خاطر : دل
رنجش : ناراضگی
بےجا : نامناسب ، بلا وجہ بے سبب

غور کرنے کی بات
*  فراق کی غزل گوئی منفرد آہنگ و انداز رکھتی ہے۔
* فراق کی غزل میں روایت کا پاس بھی ہے اور جدت کا اظباربھی ہے۔
*  فراق کے اسلوب میں صفائی اور بے ساختگی ہے جس کی ایک مثال یہ غزل ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. مطلع میں شاعر نے کس کیفیت کا اظہار کیا ہے؟
جواب:

2. خاطر پیار سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:

 3. غزل کے تیسرے شعر میں محبت کرنے والے کی کسی نفسیاتی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے؟
جواب:

 4. جلوہ گاہ ناز سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب:


عملی کام
استادکی مدد سے شعروں کی صحیح قرأت کیجیے۔

غزل کے اشعار خوش خط لکھیے۔

ذیل میں دیے گئے اشعار کومکمل کیجیے:
آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سےسوا آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں
دل کی گنتی نہ یگانوں میں ، نہ بیگانوں میں لیکن اس جلوہ گہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں




کلک برائے دیگر اسباق

Sunday 29 March 2020

Nawa e Urdu Class IX Content


ترتیب

 انشائیہ
 گزرا ہوا زمانہ  سرسیداحمد خاں
 چارپائی  رشید احمد صدیقی
 افسانہ
 حجِ اکبر  منشی پریم چند
 مگر وہ ٹوٹ گئی  صالحہ عابدحسین
 مختصرمضمون
 دیہات کی زندگی  عبدالحلیم شرر
 نذیر احمد کی کہانی ،کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی  مرزا فرحت اللہ بیگ
 جینے کا سلیقہ  خواجہ غلام السیّدین
 انفارمیشن ٹیکنالوجی   ادارہ
 ڈراما
 خداحافظ  شوکت تھانوی
 حصّہ نظم
 غزل
 مفلسی سب بہار کھوتی ہے  ولی محمد ولی
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا  میر تقی میر
 درد منت کش دوا نہ ہوا  مرزا غالب
 روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام  حسرت موہانی
 سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں  فراق گورکھپوری
 ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح  مجروح سلطان پوری
 نظم
 تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ  الطاف حسین حالی
 راماین کا ایک سین  چکبست لکھنوی
 ایک آرزو  محمد اقبال
بول  فیض احمد فیض
 گیت
 سکھ کی تان  میرا جی
 قطعہ
 دعوت انقلاب  وحید الدین سلیم
امکانات
آرزو
شبِ پُر بہار
 اختر انصاری
 مثنوی
 داستان شہزادے کے غائب ہونے کی  میرحسن

Saturday 28 March 2020

Haj e Akbar - Prem Chand - NCERT Solutions Class IX Urdu

Haj e Akbar by Munshi Prem Chand  Chapter 3 NCERT Solutions Urdu
حج اکبر
منشی پریم چند

منشی صابر حسین کی آمدنی کم تھی اور خرچ زیادہ، اپنے بچے کے لیے دایہ رکھنا گوارا نہیں کر سکتے تھے، لیکن ایک تو بچے کی صحت کی فکر اور دوسرے اپنے برابر والوں سے ہٹیے بن کر رہنے کی ذلت اس خرچ کو برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا۔ ہر دم اس کے گلے کا ہر بنارہتاتھا۔ اس وجہ سے دایہ اور بھی ضروری معلوم ہوتی تھی۔ مگر شاید سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ مروت کے باعث دایہ کو جواب دینے کی جرأت نہ کر سکتے تھے۔ بڑھیا ان کے یہاں تین سال سے نوکرتھی۔ اس نے ان کے اکلوتے بچے کی پرورش کی تھی۔ اپنا کام دل و جان سے کرتی تھی۔ اسے نکالنے کا کوئی حیلہ نہ تھا اور خواہ مخواہ کیڑے نکالنا صابر جیسے حلیم شخص کے لیے غیر ممکن تھا۔مگر شاکرہ اس معاملہ میں اپنے شوہر سے متفق نہ تھی ۔ اسے شک تھا کہ دایہ ہم کو لوٹے لیتی ہے۔ جب دا یہ بازار سے لوٹتی تو وہ ہلیز میں چھپی رہتی کہ دیکھوں آٹا چھپا کر تو نہیں رکھ دیتی ۔ لکڑی تو نہیں چھپا دیتی۔ اس کی لائی ہوئی ہر چیز کوگھنٹوں دیکھتی - بار بار پوچھتی اتنا ہی کیوں؟ کیا بھاؤ ہے؟ کیا اتنا مہنگا ہو گیا؟ دایہ کبھی توان بدگمانیوں کا جواب ملائمیت سے دیتی لیکن جب بیگم زیادہ تیز ہو جاتیں تو وہ بھی کڑی پڑ جاتی تھی۔قسمیں کھاتی۔ صفائی کی شہادتیں پیش کرتی ۔ تردید اور حجت میں گھنٹوں لگ جاتے ۔ قریب قریب روزانہ یہی کیفیت رہتی تھی اور روز یہ  ڈراما دایہ کی خفیف سی اشک ریزی کے بعد ختم ہوجاتا تھا۔ دایہ کا اتنی سختیاں جھیل کر پڑے رہنا شاکرہ کے شکوک کی آبیاری کرتا تھا۔ اسے بھی یقین نہ آتا تھا کہ یہ بڑھیا محض بچّے  کی محبت سے پڑی ہوئی ہے۔ وہ دایہ کو ایسے لطیف جذ بہ کا  اہل نہیں سمجھتی تھی۔
اتفاق سے ایک روز دایہ کو بازار سے لوٹنے میں ذرا دیر ہوگئی ۔ وہاں دو کنجڑنوں میں بڑے جوش و خروش سے مناظرہ تھا۔ ان کا مصّور طرزادا، ان کا اشتعال انگیز استدلال، ان کی متشکل تضحیک ، ان کی روشن شہادتیں اور منور روایتیں ، ان کی تعریف اور تر دید بے مثال تھیں ۔ زہر کے دو در یا تھےیا دو شعلے جو دونوں طرف سے امڈ کر باہم گتھ گئے تھے۔ کیا روانیٔ زبان تھی ! گویا کوزے میں در یا بھرا ہو۔ ان کا جوش اظہار ایک دوسرے کے بیانات کو سننے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ ان کے الفاظ کی  رنگینی ، تخیل کی ایسی نوعیت ، اسلوب کی ایسی جدت ، مضامین کی ایسی آمد، تشبیہات کی ایسی موزونیت اور فکر کی ایسی پرواز پر ایسا کون سا شاعر ہے جو رشک نہ کرتا۔ صفت یہ تھی کہ اس مباحثہ میں تلخی  یا د لآویزی کا شائبہ بھی نہ تھا۔ دونوں بلبلیں اپنے اپنے ترانوں میں  محوتھیں۔ ان کی متانت، ان کا ضبط، ان کا اطمینان ِقلب حیرت انگیز تھا۔ ان کے ظرفِ دل میں اس سے کہیں زیادہ کہنے کی اور بدر جہا زیادہ سننے کی گنجائش معلوم ہوتی تھی۔ الغرض یہ خالص دماغی ذ ہنی مناظرہ تھا۔ اپنے اپنے کمالات کے اظہار کے لیے ایک خالص زور آزمائی تھی اپنے اپنے کرتب اورفن کے جوہر دکھانے کے لیے۔
تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ و مبتذل کنایات و اشارے جن پر بے شرمی کو شرم آتی اورکلمات رکیک جن سےعفونت بھی دور بھاگتی، ہزاروں رنگین مزاجوں کے لیے محض باعث تفریح تھے۔
دایہ بھی کھڑی ہوگئی کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے، پر تماشا اتنا دلآو یز تھا کہ اسے وقت کا مطلق احساس نہ ہوا۔ یکا یک نو بجنے کی آواز کان میں آئی تو سحر ٹوٹا۔ وہ لپکی ہوئی گھر کی طرف چلی۔
شاکر ہ بھری بیٹھی تھی ۔ دایہ  کو دیکھتے ہی تیور بدل کر بولی کیا بازار میں کھوگئی تھیں؟ دایہ نے خطا وارانہ انداز سے سر جھکا لیا اور بولی ” بیوی ایک جان پہچان کی ماما سے ملاقات ہوگئی اور باتیں کرنے لگی ‘‘
شاکرہ جواب سے اور بھی برہم ہوئی۔ یہاں دفتر جانے کو دیر ہورہی ہےتمہیں سیر سپاٹے کی سو جھی ہے۔ مگر دایہ نے اس وقت دبنے میں خیر یت سمجھی ۔ بچّے  کو گود میں لینے چلی ۔ پر شاکرہ نے جھڑک کر کہا۔ رہنے دو تمھارے بغیر بے حال نہیں ہوا جاتا۔
دایہ نے اس حکم کی تعمیل ضروری نہ سمجھی بیگم صاحبہ کا غصّہ فروکر نے کی اس سے زیادہ کارگر کوئی تدبیر ذہن میں نہ آئی۔ اس نے نصیر کو اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلائے لڑکھڑاتا ہوا اس کی طرف چلا ۔ دایہ نے اسے گود میں اٹھا لیا۔ اور دروازہ کی طرف چلی لیکن شا کره باز کی طرح جھپٹی اور نصیر کو اس کی گود سے چھین کر بولی ۔’’ تمہارا یہ  مکر بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں۔ یہ تماشے کسی اور کو دکھایئے۔ یہاں طبیعت سیر ہوگئی۔
دایہ نصیر پر جان دیتی تھی اور سمجھتی تھی کہ شاکرہ اس سے بے خبر نہیں ہے ۔ اس کی سمجھ میں شاکرہ اور اس کے درمیان یہ ایسا مضبوط تعلق تھا جسے معمولی ترشیاں کمزور نہ کر سکتی تھیں ۔ اسی وجہ سے با وجود شاکرہ کی سخت زبانیوں کے اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ واقعی مجھے نکالنے پر آمادہ ہے۔ پر شاکرہ نے یہ باتیں کچھ اس بے رخی سے کہیں اور بالخصوص نصیر کو اس بے دردی سے چھین لیا کہ دایہ سے ضبط نہ ہو سکا۔ بولی۔” بیوی مجھ سے کوئی ایک بڑی خطا تو نہیں ہوئی ۔ بہت ہو گا تو پا ؤ گھنٹہ کی دیر ہوئی ہوگی۔ اس پر آپ اتنا جھلّا رہی ہیں ۔ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ دوسرا  دروازہ دیکھو۔ اللہ نے پیدا کیا ہے تو رزق بھی دے گا۔ مزدوری کا کال تھوڑ اہی ہے۔
 شاکرہ:’’ تو یہاں تمھاری کون پر وا کرتا ہے ۔ تمھاری جیسی ماما ئیں گلی گلی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں ۔
دایہ:” ہاں خدا آپ کو سلامت رکھے۔  مامائیں، دائیاں بہت ملیں گی۔ جو کچھ خطا ہوئی ہو۔ معاف کیجے گا۔ میں جاتی ہوں ۔
شاکرہ :  ” جاکر مردانے میں اپنی تنخواہ کا حساب کرلو “
 دایہ :” میری طرف سے نصیر میاں کو اس کی مٹھائیاں منگوا دیجئے گا‘‘
 اتنے میں صابرحسین بھی باہر سے آگئے۔ پوچھا۔ ” کیا ہے؟
 دایہ:”کچھ ہیں ۔ بیوی نے جواب دے دیا ہے۔ گھر جاتی ہوں ۔“
صابر حسین خانگی تر ددات سے یوں بچتے تھے جیسے کوئی برہنہ پا کانٹوں سے بچے۔ انھیں سارے دن ایک ہی جگہ کھڑے رہنا منظورتھا۔ پرکانٹوں میں پیر رکھنے کی جرأت نہ تھی ۔ چیں بہ جبیں ہو کر بولے۔ ” کیا بات ہوئی ؟
شاکرہ: کچھ نہیں ۔ اپنی طبیعت۔ نہیں جی چاہتا نہیں رکھتے۔کسی کے ہاتھوں بک تو نہیں گئے۔
صابر : تمھیں بیٹھے بٹھائے ایک نہ ایک کھچڑ سوجھتی رہتی ہے۔
شاکرہ :” ہاں مجھے تو اس بات کا جنون ہے ۔ کیا کروں؟ خصلت ہی ایسی ہے۔ تمہیں یہ بہت پیاری ہے ۔ تو لیجا کر گلے با ندھو میرے یہاں ضرورت نہیں ہے۔
دایہ گھر سے نکلی تو اس کی آنکھیں لبر یز تھیں ۔ دل نصیر کے لیے تڑپ رہا تھا کہ ایک بار بچّے کو گود میں لے کر پیار کر لوں ۔ پر یہ حسرت لیے اسے گھر سے نکلنا پڑا۔
نصیر دایہ کےپیچھے پیچھے دروازہ تک آیا لیکن جب دایہ نے دروازہ باہر سے بند کر دیا تو مچل کر زمین پر لیٹ گیا۔ اور انّا انّا  کہہ کر رونے لگا۔ شاکر ہ نے چمکارا پیار کیا گود میں لینے کی کوشش کی ۔ مٹھائی کا لالچ دیا۔ میلہ دکھانے کا وعدہ کیا ۔ اس سے کام نہ چلا تو بندر اور سپاہی اور لولو اور ہوّا کی دھمکی دی مگرنصیر پرمطلق اثر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ شاکرہ کو غصہ آ گیا۔ اس نے بچے کو وہیں چھوڑ دیا۔ اور آ کر گھر کے دھندوں میں مصروف ہوگئی ۔ نصیر کا منھ اور گال لال ہوگئے ۔ آنکھیں سوج گئیں ۔ آخر وہ وہیں زمین پر سسکتے سسکتے سو گیا۔
شاکر ہ نے سمجھا تھاتھوڑی دیر میں بچّہ رو دھو کر چپ ہوجائے گا۔ پر نصیر نے جاگتے ہی  پھر انّاکی رٹ لگائی۔ تین بجے صا برحسین دفتر سے آئے اور بچے کی یہ حالت دیکھی تو بیوی کی طرف قہر کی نگاہوں سے دیکھ کر اسے گود میں اٹھا لیا۔ اور بہلانے لگے۔ آخر نصیر کو جب یقین ہو گیا کہ دایہ مٹھائی لینے گئی تو اسے تسکین ہوئی ۔ مگر شام ہوتے ہی اس نے پھر چیخنا شروع کیا۔ اناّ مٹھائی لائی؟
اس طرح دو تین دن گزر گئے ۔ نصیر کوانّا کی رٹ لگانے اور رونے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا۔ وہ بے ضرر کتا جو ایک لمحہ کے لیے اس کی گود سے جدا نہ ہوتا تھا۔ وہ بے زبان بلی جسے طاق پر بیٹھے دیکھ کر وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ وہ طائر بے پرواز جس پر وہ جان دیتا تھا۔ سب اس کی نظروں سے گر گئے۔ وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ انّا جیسی جیتی جاگتی پیار کرنے والی، گود میں لے کر گھمانے والی ، تھپک تھپک کر سلانے والی ، گا گا کر خوش کرنے والی چیز کی جگہ ان بے جان، بے زبان چیزوں سے پُر نہ ہوسکتی تھی۔ وہ اکثر سوتے سوتے چونک پڑتا اور انّانّا پکا ر کے رونےلگتا۔کبھی دروازہ پر جاتا اورا نّا انّا پکار کر ہاتھوں سے اشارہ کرتا ۔ گویا اسے بلا رہا ہے۔ انّا کی خالی کوٹھری میں جا کر گھنٹوں بیٹھا رہتا۔ اسے امید ہوتی تھی کہ  انّا یہاں آتی ہوگی ۔ اس کوٹھری کا دروازہ بند پا تاتو جا کر کواڑ کھٹکھٹا تا کہ شایدانّا  اندرچھپی بیٹھی ہو۔ صدر دروازہ کھلتے سنتا تو انّا انّاکہہ کر دوڑتا۔ سمجھتا کہ انّا آگئی۔ اس کا گدرایا ہوا بدن گھل گیا۔ گلاب کے سے رخسار سوکھ گئے۔ ماں اور باپ دونوں اس کی موہنی ہنسی کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے ۔ اگر بہت گدگدانے اور چھیڑنے سے ہنستا بھی تو ایسا معلوم ہوتا دل سے نہیں محض دل رکھنے کے لیے ہنس رہا ہے ۔ اسے اب دودھ سے رغبت تھی نہ مصری سے ، نہ میوہ سے ، نہ میٹھے بسکٹ سے ، نہ تازی امرتوں سے ۔ ان میں مزہ تھا جب انّا اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی۔ اب ان میں مزہ نہ تھا۔ دو سال کا ہونہار کہلاتا ہوا شاداب پودا مرجھا کر رہ گیا۔ وہ لڑکا جسے گود میں اٹھاتے ہی نرمی گرمی اور وزن کا احساس ہوتا تھا۔ اب استخواں کا ایک پتلا رہ گیا تھا۔ شاکرہ بچے کی یہ حالت دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتی اور اپنی حماقت پر پچھتاتی ۔ صابر حسین جوفطر تا ًخلوت پسند آدمی تھے۔ اب نصیرکو گود سے جدا نہ کرتے تھے ۔ اسے روز ہوا کھلانے جاتے نت نئے کھلونے لاتے۔ پر مرجھایا ہوا  پودا کسی طرح نہ پنپتا تھا ۔ دایہ اس کی دنیا کا آفتاب تھی۔ اس قدرتی حرارت اور روشنی سے محروم ہو کر سبزہ کی بہار کیوں کر دکھاتا؟ دایہ کے بغیر اسے چاروں طرف اندھیرا، سناٹا نظر آتا تھا۔ دوسری انّا تیسرے ہی دن رکھ لی  گئی تھی۔ پرنصیراس کی صورت دیکھتے ہی منہ چھپالیتا تھا۔ گویا وہ کوئی دیونی یا بھُتنی ہے۔
عالم وجود میں دایہ  کو نہ دیکھ کر نصیر اب زیادہ تر عالم خیال میں رہتا۔ وہاں اس کی اپنی انّا چلتی پھرتی نظر آتی تھی ۔ اس کی وہی گودتھی ۔  وہی محبت، وہی پیاری باتیں، وہی پیارے پیارے گیت، وہی مزےدار مٹھائیاں ، وہی سہانا سنسار، وہی دلکش لیل و نہار، اکیلے بیٹھے انّا سے باتیں کرتا ۔ انّا کتنا بھو نکے ۔ انّاگائے دودھ دیتی ۔ انّا اجلا اجلا گھوڑا دوڑتا ۔ سویرا ہوتے ہی لوٹا لے کر دایہ کی کوٹھری میں جاتا اور کہتا۔” انّا پانی پی ۔ دودھ کا گلاس لے کر اس کی کوٹھری میں رکھ آتا اور کہتا۔انّادودھ پلا ۔اپنی چارپائی پر تکیہ رکھ کر چادر سے ڈھانک دیتا اور کہتا ’’انّاسوتی‘‘ شاکره کھانے بیٹھتی تو رکابیاں اٹھا اٹھا انّاکی کوٹھری میں لے جاتا اور کہتا انّاکھانا کھائے گی۔ انّااس کے لیے اب ایک آسمانی و جودتھی جس کی واپسی کی اسے مطلق امید نہ تھی۔ وہ محض گزشتہ خوشیوں کی دلکش یادگارتھی جس کی یاد ہی اس کا سب کچھ تھی۔ نصیر کے انداز میں رفتہ رفتہ لطفلانہ شوخی اور بیتابی  کی جگہ ایک حسرت ناک تو کل ، ایک مایوسانہ خوشی نظر آنے لگی۔ اس طرح تین ہفتے گزر گئے۔ برسات کا موسم تھا۔کبھی شدت کی گرمی ، کبھی ہوا کے ٹھنڈے جھو نکے، بخار اور زکام کا زور تھا۔ نصیر کی نقاہت اس موسمی تغیرات کو برداشت نہ کرسکی ۔ شاکرہ احتیاطاً اسے فلالین کا کرتا پہنائے رکھتی۔ اسے پانی کے قریب نہ جانے دیتی ۔ ننگے پاؤں ایک قدم نہ چلنے دیتی ۔ مگر رطوبت کا اثر ہو ہی گیا نصیر کھانسی اور بخار میں مبتلا ہو گیا۔
صبح کا وقت تھا۔ نصیر چارپائی پر آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ ڈاکٹروں کا علاج بے سود ہورہاتھا۔ شاکرہ چار پائی پر بیٹھی اس کے سینے پرتیل کی مالش کر رہی تھی اور صابرحسین صورتِ غم بنے ہوئے بچے کو پر درد نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس طرف وہ شاکرہ سے بہت کم بولتے تھے۔ انہیں اس سے ایک نفرت سی ہوگئی تھی ۔ وہ نصیر کی اس بیماری کا سارا الزام اسی کے سر رکھتے تھے۔ وہ ان کی نگاہوں میں نہایت کم ظرف ، سفلہ مزاج، بے حس عورت تھی۔
شاکر ہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔” آج بڑے حکیم صاحب کو بلا لیتے ۔ شایدا نھیں کی دوا سے فائدہ ہو “ صابر حسین نے کالی گھٹاؤں کی طرف دیکھ کر ترشی سے جواب دیا۔
”بڑے حکیم نہیں ۔ لقمان بھی آئیں تو اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا ۔“
شاکرہ :” تو کیا اب کسی کی دوائی نہ ہوگی ؟“
 صابر :’’ بس اس کی ایک ہی دوا ہے اور وہ نایاب ہے۔“
شاکرہ : ”تمھیں تو وہی دھن سوار ہے۔ کیا عباسی امرت پلا دے گی؟ “
صابر : ”ہاں وہ تمھارے لیے چاہے زہر ہو لیکن بچے کے لیے امرت ہی ہوگی ۔“
 شاکرہ :” میں نہیں سمجھتی کہ اللہ کی مرضی میں اسے اتنادخل ہے۔ “
صابر : ”اگر نہیں سمجھتی ہو اور اب تک نہیں سمجھا تو روؤ گی۔ بچّے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔“
شاکرہ: ”چپ بھی رہو کیسا شگون زبان سے نکالتے ہو اگر ایسی جلی کٹی سنانی ہے تو یہاں سے چلے جاو ٔ“
صابر : ”ہاں تو میں جانا ہوں ۔ مگر یاد رکھو یہ خون تمھاری گردن پر ہوگا۔ اگر لڑکے کو پھر تندرست دیکھنا چاہتی ہو تو اس عباسی کے پاس جاؤ۔ اس کی منت کرو۔ التجا کرو تمھارے بچے کی جان اسی کے رحم و کرم پر منحصر ہے۔“
شاکرہ نے کچھ جواب نہ  دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ صابر حسین نے پوچھا۔ ”کیا مرضی ہے۔جاؤں، اسے تلاش کروں؟‘‘
شاکرہ :” تم کیوں جاؤ گے۔ میں خود چلی جاؤں گی ۔“
صابر : ” نہیں معاف کرو۔ مجھے تمھارے اوپر اعتبارنہیں ہے۔ نہ جانے تمھارے منھ سے کیا نکل جائے کہ وہ آتی بھی ہو تو نہ آئے ۔“
شاکرہ نے شوہر کی طرف نگاہ ملامت سے دیکھ کر کہا۔ ” ہاں اور کیا مجھے اپنے بچے کی بیماری کا قلق تھوڑے ہی ہے۔ میں نے شرم کے مارے تم سے کہا نہیں لیکن میرے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہوا ہے۔ اگر مجھے دایہ کے مکان کا پتہ معلوم ہوتا تو میں اسے کب کی منالائی ہوتی ۔ وہ مجھ سے کتنی ہی ناراض ہولیکن نصیر سے اسے محبت تھی ۔ میں آج ہی اس کے پاس جاؤں گی۔ اس کے قدموں کو آنسوؤں سے تر کر دوں گی ۔ اور وہ جس طرح راضی ہوگی اسے راضی کروں گی ۔“
شاکرہ نے بہت ضبط کر کے یہ باتیں کہیں ۔مگر امڈے ہوئے آنسو اب نہ رک سکے۔
صابرحسین نے بیوی کی طرف ہمدردانہ نگاہ سے دیکھا اور نادم ہو کر بولے۔ ” میں تمھارا جا نا مناسب نہیں سمجھتا، خود ہی جانا ہوں “
عباسی دنیامیں اکیلی تھی ۔ کسی زمانے میں اس کا خاندان گلاب کا سرسبز شاداب درخت تھا۔ مگر رفتہ رفتہ خزاں نے سب پتیاں گرادیں۔ با دِ حوادث نے درخت کو پامال کردیا ۔ اور اب یہی سوکھی ٹہنی ہرے بھرے درخت کی یاد گار باقی تھی۔
مگر نصیر کو پا کر اس کی سوکھی ٹہنی میں جان سی پڑگئی تھی۔ اس میں ہری ہری پتیاں نکل آئی تھیں۔ وہ زندگی جو اب تک خشک اور پامال تھی۔ اس میں پھر رنگ و بو کے آثار پیدا ہو گئے تھے۔ اندھیرے بیاباں میں بھٹکے ہوئے مسافر کو شمع کی جھلک نظر آنے لگی تھی۔ اب اس کا جوئے حیات سنگ ریزوں سے  نہ ٹکراتا تھا۔ وہ اب ایک گلزار کی آبیاری کرتا تھا۔ اب اس کی زندگی محمل نہیں تھی۔ اس میں معنی پیدا ہو گئے تھے۔
عباسی نصیر کی بھولی بھولی باتوں پر نثار ہوگئی۔ مگر وہ اپنی محبت کو شاکرہ سے چھپاتی تھی۔ اس لیے کہ ماں کے دل میں رشک نہ ہو۔ وہ نصیر کے لیے ماں سے چھپ کر مٹھائیاں لاتی اور اسے کھلا کر خوش ہوتی۔ وہ دن میں دو دو تین تین بار اسے ابٹن ملتی کہ بچّہ خوب پروان چڑھے۔ وہ اسے دوسروں کے سامنے کوئی چیز نہ کھلاتی کہ بچّہ کو نظر نہ لگ جائے۔ ہمیشہ دوسروں سے بچے کی کم خوری کا رونا رویا کرتی۔ اسے نظر بد سے بچانے کے لیے تعویذ اور گنڈے لاتی رہتی ۔ یہ اس کی خالص مادرانہ محبت تھی۔ جس میں اپنے روحانی احتظاظ کے سوا اور کوئی غرض نہ تھی۔
اس گھر سے نکل کر آج عباسی کی وہ حالت ہوگئی جوتھیٹر میں یکایک بجلیوں کے گل ہوجانے سے ہوتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی صورت ناچ رہی تھی ۔ کانوں میں وہی پیاری پیاری باتیں گونج رہی تھیں، اسے اپنا گھر پھاڑے کھاتا تھا۔ اس کال کوٹھری میں دم گھٹا جاتا تھا۔
رات جوں توں کر کے کٹی ۔صبح کو وہ مکان میں جھاڑو دے رہی تھی ۔ یکایک تازے حلوے کی صدا سن کر بے اختیار باہر نکل آئی ۔ معاً یاد آ گیا۔ آج حلوہ کون کھائے گا؟ آج گود میں بیٹھ کرکون چہکے گا ۔ وہ نغمہ مسرت سننے کے لیے، جوحلوہ کھاتے وقت نصیر کی آنکھوں سے ، ہونٹوں سے، اور جسم کے ایک ایک عضو سے برستا تھا، عباسی کی روح تڑپ  اٹھی ۔ وہ بے قراری کے عالم میں گھر سے نکلی کہ چلوں۔ نصیر کو دیکھ آؤں، پرآدھے راستہ سے لوٹ گئی۔
نصیر عباسی کے دھیان سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں اترتا تھا۔ وہ سوتے سوتے چونک پڑتی۔ معلوم ہوتا نصیر ڈنڈے کا گھوڑا دبائے چلا آتا ہے۔ پڑوسنوں کے پاس جاتی تو نصیر ہی کا ذکرکرتی۔ اس کے گھر کوئی آتا تو نصیر ہی کا ذکر کرتی نصیر اس کے دل اور جان میں بسا ہوا تھا۔ شاکرہ کی بے رخی اور بدسلوکی کے ملال کے لیے اس میں جگہ  نہ تھی۔
وہ روز ارادہ کرتی کہ آج نصیر کو دیکھنے جاؤں گی ۔ اس لیے بازار سے کھلونے اور مٹھائیاں لاتی ۔ گھر سے چلتی ۔ لیکن کبھی آدھے راستے سے لوٹ آتی ۔ کبھی دو چار قدم سے آگے نہ بڑھا جاتا۔ کون منہ لے کر جاؤں؟ جومحبت کوفریب سمجھتا ہو اسے کون منہ دکھاؤں !کبھی سوچتی ،  کہیں نصیر مجھے نہ  پہچانے تو ! بچوں کی محبت کا اعتبار کیا؟ نئی دایہ سے رچ گیا ہو۔ یہ خیال اس کے پیروں میں زنجیر کا کام کر جاتا تھا۔
اس طرح دو ہفتے گزر گئے ۔ عباسی کا دل ہر دم اچاٹ رہتا۔ جیسے اسے کوئی لمبا سفر در پیش ہو۔ گھر کی چیزیں جہاں کی تہاں پڑی رہتیں ۔ نہ کھانے کی فکر نہ کپڑے کی ۔ بدنی ضروریات بھی خلا ء دل کو پر کرنے میں لگی ہوتی تھیں ۔ اتفاق سے اسی اثنا میں حج کے دن آگئے ۔ محلے میں کچھ لوگ حج کی تیاریاں کرنے لگے ۔ عباسی کی حالت اس وقت پالتو چڑیا کی سی تھی ۔ جوقفس سے نکل کر پھر کسی گوشہ کی تلاش میں ہو۔ اسے اپنے تئیں بھلا دینے کا یہ ایک بہانہ  مل گیا ۔ وہ آماده ٔسفر ہوگئی ۔
آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں ۔ اور ہلکی ہلکی پھواریں پڑ رہی تھیں ۔ دہلی اسٹیشن پر زائرین کا ہجوم تھا۔ کچھ گاڑیوں میں بیٹھے تھے۔ کچھ اپنے گھر والوں سے رخصت ہورہے تھے۔ چاروں طرف اک کہرام سا مچا ہوا تھا۔ دنیا اس وقت بھی جانے والوں کے دامن پکڑے ہوئے تھی۔ کوئی بیوی سے تاکید کر رہا تھا۔ ’’ دهان کٹ جائے تو تالاب والے کھیت میں مٹر بو دینا اورباغ کے پاس گیہوں ‘‘ کوئی اپنے جوان لڑکے کو سمجھا رہا تھا۔” آسامیوں پر بقایا لگان کی تالش کرنے میں دیر نہ کرنا اور دور و پیے سیکٹر ہ سودضرور مجرا کر لینا‘‘ ایک بوڑ ھے تا جر صاحب اپنے منیم سے کہہ رہے تھے۔ مال آنے میں دیر ہو تو خود چلے جائے گا اور چلتو مال  لیجیے گا  ورنہ رو پیہ پھنس جائے گا۔ مگر خال خال ایسی صورتیں بھی نظر آتی تھیں جن پر مذہبی ارادت کا جلوہ تھا۔ وہ یا تو خاموش آسمان کی طرف تاکتی تھیں، یا محوتسبیح خوانی تھیں ۔ عباسی بھی ایک گاڑی میں بیٹھی سوچ رہی تھی ۔ ان بھلے آدمیوں کو اب بھی دنیا کی فکرنہیں چھوڑتی ۔ وہی خرید وفروخت لین دین کے چرچے نصیر اس وقت یہاں ہوتا تو بہت روتا۔ میری گود سے کسی طرح نہ اتر تا۔ لوٹ کر ضرور اسے دیکھنے جاؤں گی یا اللہ کسی طرح گاڑی چلے ۔ گرمی کے مارے کلیجہ بھُنا جاتا ہے۔ اتنی گھٹا امڈی ہوئی ہے۔ برسنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ معلوم نہیں یہ ریل والے کیوں دیر کر رہے ہیں؟ جھوٹ موٹ ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ چٹ پٹ گاڑی کھول دیں ۔ مسافروں کی جان میں جان آئے ۔ یکا یک اس نے صابر حسین کو بائیسکل لیے پلیٹ فارم پر آتے دیکھا۔ ان کا چہرہ اترا ہوا تھا اور کپڑے تر تھے۔ وہ گاڑیوں میں جھانکنے لگے۔ عباسی محض یہ دکھانے کے لیے کہ میں بھی حج کرنے جارہی ہوں ، گاڑی سے باہر نکل آئی ۔ صابر حسین اسے دیکھتے ہی لپک کر قریب آئے اور بولے ” کیوں عباسی ! تم بھی حج کو چلیں؟“
عباسی نے فخریہ انکسار سے کہا۔ ” ہاں ! یہاں کیا کروں؟ زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ۔ معلوم نہیں کب آنکھیں بند ہو جائیں ۔ خدا کے یہاں منہ دکھانے کے لیے بھی تو کوئی سامان چاہیے۔ نصیر میاں تو اچھی طرح ہیں؟“
صابر :” اب تو تم جارہی ہو نصیر کا حال پوچھ کر کیا کروگی۔ اس کے لیے دعا کرتی رہنا۔ عباسی کا سینہ دھڑکنے لگا۔ گھبرا کر بولی۔” کیا دشمنوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے؟“
صابر :” اس کی طبیعت تو اسی دن سے خراب ہے جس دن تم وہاں سے نکلیں ۔ کوئی دو ہفتہ تک تو انّا انّا کی رٹ لگاتا رہا۔ اور اب ایک ہفتہ سے کھانسی اور بخار میں مبتلا ہے ۔ ساری دوائیں کر کے ہار گیا۔ کوئی نفع ہی نہیں ہوتا۔ میں نے ارادہ کیا تھا چل کر تمہاری منت سماجت کر کے لے چلوں ۔ کیا جانے تمہیں دیکھ کر اس کی طبیعت کچھ سنبھل جائے لیکن تمھارے گھر پر آیا تو معلوم ہوا کہ تم حج کرنے جارہی ہو۔ اب کس منہ سے چلنے کو کہوں تمھارے ساتھ سلوک ہی کون سا اچھا کیا تھا ؟ کہ اتنی جرأت کر سکوں اورپھر کا رِثواب میں رخنہ ڈالنے کا بھی خیال ہے۔ جاؤ ! اس کا خدا حافظ ہے۔ حیات باقی ہے تو صحت ہو ہی جائے گی ورنہ مشیت ایزدی سے کیا چارہ؟“
عباسی کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ سامنے کی چیز یں تیرتی ہوئی معلوم ہوئیں۔ دل پر ایک عجیب وحشت کا غلبہ ہوا۔ دل سے دعا مانگی – ’اللہ میری جان کے صدقے ، میرے نصیرکا بال ببکانہ ہو رقت سے گلا بھر آیا ”میں کیسی سنگ دل ہوں پیارا بچہ رو رو کر ہلکان ہو گیا اور میں اسے دیکھنے تک نہ گئی۔ شاکرہ بد مزاج سہی ، بد زبان سہی نصیر نے میرا کیا بگاڑا تھا؟ میں نے ماں کا بدلہ نصیر سے لیا۔ یا خدا میرا گناه  بخشيو ! پیار انصیر میرے لیے ہڑک رہا ہے( اس خیال سے عباسی کا کلیجہ مسوس اٹھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ) مجھے کیا معلوم تھا کہ اسے مجھ سے اتنی محبت ہے۔ ورنہ شاکرہ کی جوتیاں کھاتی اور گھر سے قدم نہ نکالتی آه! نہ معلوم ! بچارے کی کیا حالت ہے؟ انداز وحشت سے بولی۔” دودھ تو پیتے ہیں نا؟“
صابر :” تم دودھ پینے کو کہتی ہو۔ اس نے دو دن سے آنکھیں تو کھولی نہیں ۔“
عباسی : ’یا میرے اللہ ! ارے او قلی قلی ! بیٹا! آ کے میرا اسباب گاڑی سے اتار دے۔ اب مجھے حج وج کی نہیں سوجھتی۔ ہاں بیٹا! جلدی کر۔ میاں! ویکھیے کوئی یکہ ہوتو ٹھیک کر لیجیے۔“
یکہ روانہ ہوا۔ سامنے سڑک پر  کئی بگھیاں کھڑی تھیں ۔ گھوڑا آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ عباسی بار بار جھنجھلاتی تھی اور یکہ بان سے کہتی تھی۔ ”بیٹا ! جلدی کر میں تھے کچھ زیادہ دے دوں گی ۔ راستہ میں مسافروں کی بھیڑ دیکھ کر اسے غصہ آتا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا گھوڑے کے پرلگ جاتے۔ لیکن جب صابر حسین کا مکان قریب آگیا تو عباسی کا سینہ زور سے اچھلنے لگا۔ سرتیورا گیا۔ بار بار دل سے دعا نکلنے لگی ۔ خدا کرے سب خیر و عافیت ہو۔
یکہ صابرحسین کی گلی میں داخل ہوا۔ دفعتاً عباسی کے کان میں کسی کے رونے کی آواز آئی۔ اس کا  کلیجہ منہ کو آگیا۔ سر تیورا گیا ۔ معلوم ہوا دریا میں ڈوبی جاتی ہو۔ جی چاہا یکہ سے کود پڑوں مگر ذرا دیر میں معلوم ہوا کہ عورت میکے سے وداع ہورہی ہے تسکین ہوئی۔
آخر صابر حسین کا مکان آپہنچا ۔ عباسی نے ڈرتے ڈرتے دروازے کی طرف تاکا ۔ جیسے کوئی گھر سے بھاگا ہوا یتیم لڑ کا شام کو بھوکا پیاسا گھر آئے اور دروازے کی طرف سہمی ہوئی نگاہ سے دیکھے کہ کوئی بیٹھا تو نہیں ہے۔ دروازہ پر سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ باورچی بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ عباسی کو ذرا ڈھارس ہوئی ۔ گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ نئی دایہ بیٹھی پولس پکا رہی ہے۔ کلیجہ مضبوط ہوا۔ شاکرہ کے کمرے میں گئی تو اس کا دل گرمی کی دو پہری دھوپ کی طرح کانپ رہا تھا۔ شاکر ہ نصیر کو گود میں لیے دروازے کی طرف  ٹکٹکی  لگائے تاک رہی تھی غم اوریاس کی زندہ تصویر۔
عباسی نے شاکرہ سے کچھ نہیں پوچھا۔ نصیر کو اس کی گود سے لے لیا اور اس کے منہ کی طرف چشم پرنم سے دیکھ کر کہا۔ ”بیٹا! نصیر! آنکھیں کھولو ‘‘
نصیر نے آنکھیں کھولیں ۔ ایک لمحہ تک دایہ کو خاموش دیکھتا رہا۔ تب یکا یک دایہ کے گلے سے لپٹ گیا اور بولا ’’انّا آئی ۔ انّا آئی۔“
نصیر کا زرد مرجھایا ہوا چہرہ روشن ہو گیا ۔ جیسے بجھتے ہوئے چراغ میں تیل پڑ جائے۔ ایسا معلوم ہوا گویا وہ کچھ بڑھ گیا ہے۔
ایک ہفتہ گزر گیا ۔ صبح کا وقت تھا۔ نصیر آنگن میں کھیل رہا تھا۔ صابر حسین نے آکر اسے گود میں اٹھالیا اور پیار کر کے بولے ۔ تمھاری انّا کو مارکر بھگا دیں؟ نصیر نے منہ بنا کر کہا۔ ”نہیں روئے گی۔“
عباسی بولی ” کیوں بیٹا! مجھے تو تو نے کعبہ شریف نہ جانے دیا۔ میرے حج کا ثواب کون دے گا؟”
صابرحسین نے مسکرا کر کہا تمہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہو گیا۔ اس حج کا نام حج اکبر ہے۔

Haj e Akbar by Munshi Prem Chand  Chapter 3 NCERT Solutions Urdu
افسانہ
اردو میں افسانے کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی کے شروع میں ہوا۔ ناول کی طرح اس صنف پربھی مغربی ادب کا گہرا اثر ہے ۔ تیزی سے بدلتے ہوئے زمانے کا ساتھ دینے اور مصروف رہنے والوں کے لیے مختصر افسانہ، ناول اور داستان سے زیادہ کشش رکھتا ہے۔
مختلف نقادوں نے افسانے کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ ایک نقاد نے کہا ہے کہ افسانہ ایسی نثری کہانی ہے جو ایک ہی نشست میں پڑھی جا سکے۔ ایک اور نقاد کا قول ہے کہ افسانے میں بنیادی چیز وحدت تاثر ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ افسانے کی شکل بھی تبدیل ہوئی ہے۔
ایک اچھا افسانہ اختصار کے ساتھ زندگی کے کسی گوشے کو قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔ مختصر ہونے کی وجہ سے کہانی میں جھول پیدا ہونے کا اندیشہ بھی کم ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کا مشاہدہ اور انسانی نفسیات کا مطالعہ گہرا ہونا چاہیے ۔ کردار اور واقعات ایسے ہوں جو ہماری زندگی اور ہمارے تجربوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔
اردو کے افسانہ نگاروں میں پریم چند، علی عباس حسینی ، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی ، کرشن چندر ، غلام عباس، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین بہت اہم ہیں۔

منشی پریم چند
(1880ء - 1936ء)
منشی پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا۔ انھوں نے نواب رائے کے نام سے کچھ افسانے لکھے، پھر 1910 ء میں پریم چند نام اختیار کیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ وہ بنارس کے قریب ایک گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی عجائب لال ڈاک کے  محکمہ میں کلرک تھے۔ پریم چند آٹھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ جب وہ پندرہ سال کے ہوئے تو ان کے باپ نے ان کی شادی کر دی ۔ کچھ دنوں کے بعد ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھیں انٹر پاس کرنے کے بعد اپنی تعلیم چھوڑ دینی پڑی ۔ انھوں نے محکمہ تعلیم میں نوکری کر لی ۔ سرکاری ملازمت کی وجہ سے حق بات کے اظہار میں رکاوٹ محسوس ہوئی تو ملازمت ترک کر کے ساری زندگی تصنیف و تالیف کے کاموں میں صر ف کر دی۔
پریم چند نے تقریباً ساڑھے تین سو افسانے اور بارہ ناول لکھے۔ انھیں اردو افسانے کا موجد نہیں تو پہلا بڑا افسانہ نگار ضرور کہا جا سکتا ہے اور اکثر لوگوں کے خیال میں وہ اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار بھی ہیں ۔ انھوں نے مختصر افسانے کو ایک معیار عطا کیا۔ ان کے افسانے اور ناول اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں ۔ ان کے مجموعوں میں واردات ، پریم پچیسی، پریم بتیسی آخری تحفه نجات اور زاد راه قابل ذکر ہیں اور ان کے ناولوں میں چوگان ہستی، میدان عمل، بیوہ، بازارِحسن اور گودان ممتاز حیثیت رکھتے ہیں ۔
پریم چند کے ناول اور افسانے ہے مثل حقیقت نگاری کا نمونہ ہیں۔ ان کے افسانوں کا پس منظرمشرقی یوپی کا دیہات ہے۔ ہندوستانی کسان اپنی پوری شخصیت کے ساتھ پریم چند کی تصانیف میں نظر آتا ہے۔ پریم چند کی نثر سادہ اور آسان ہے۔ اپنے انداز بیان سے انھوں نے افسانوں کو بہت پُر لطف بنادیا ہے۔
Haj e Akbar by Munshi Prem Chand  Chapter 3 NCERT Solutions Urdu
لفظ و معنی
حلیم : رداشت کرنے والا، نیک مزاج کارحم کرنے والا
تردید : کسی چیز ایسی بات کو نا شمیرانا
اشک ریزی : آنسو بہانا
مناظره : بحث و مباحث
اشتعال : غصہ بھڑک اٹھنا
تضحیک : ہنسی اڑانا
تعرض : اعتراض کرنا
رکیک : بہت باریککم قیمت چھچھورا
عفونت : بدبو، بساند
بے ضرر : جس سے کوئی نقصان نہ ہو
استخواں : استخواں
لیل : رات
نہار : دن
نمی تری : رطوبت
افسوس : قلق
سنگریزہ : کنکری
زائر : زیارت کرنے والا
مشیت ایزدی : اللہ کی مرضی
کوزہ : مٹی کا پیالا
شائبہ : ہلکا سا نشان ، لہذا کا ساشه یاشک
خطاوارنہ : قصور کرنے والے کی طرح
احتظاظ; : لطف اٹھانا ، مزہ لینا;

غور کرنے کی بات
اس افسانے میں منشی پریم چند نے متوسط طبقے کے مسلم گھرانے کی روزمرہ زندگی کی عکاسی کی ہے۔ 
افسانے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں مصنف نے عورت کی ممتا کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ 
افسانے میں عورتوں اور بچوں کی نفسیات کو بڑی خوبی سے پیش کیا گیا ہے۔ 
مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ صرف مذہبی فرائض ادا کرنے سے ہی ثواب نہیں ماتا بلکہ انسانی حقوق کی ادائیگی بھی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ 
اس افسانے میں پریم چند نے خدمت خلق کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ جس کا درجہ اور ثواب البعض حالات میں عبادت سے بھی بڑھ کر ہو جاتا ہے۔
 به انسان میں بھی بتاتا ہے کہ غریب اور جو لوگوں کو نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ انسانی زندگی  کا ایک اہم اور ضروری حصہ ہوتے ہیں۔

 سوالوں کے جواب لکھے . 
شاکرہ عباسی سے کیوں ناراض تھی ؟
جواب:شاکرہ کا خیال تھا کہ دایہ عباسی انہیں لوٹ رہی ہے،بازار سے جو چیزیں لاتی ہے قیمت زیادہ بتاتی ہے یا سامان میں سے کچھ چیزیں اپنے لیے چھپا لیتی ہے بازار جاتی ہے تو دیر سے گھر پہنچتی ہے۔
2. نصیر کی بیماری کا کیا سبب تھا؟
جواب:نصیر عباسی سے بہت مانوس تھا اسی کے ہاتھ سے کھاتا پیتا تھا ۔عباسی کو بھی اس بچے سے بہت محبت تھی۔عباسی کے گھر سے چلے جانے کی وجہ سے نصیر کو بہت صدمہ لگا۔اس لیے وہ بیمار ہو گیا۔
3. عباسی نے حج پر جانا کیوں ملتوی کر دیا تھا؟
جواب: صابر نے اسٹیشن پہنچ کر عباسی کو بتایا کہ جب سے وہ آئی ہے نصیر بیمار ہے۔ ایک ہفتے سے
کھانسی اور بخار میں مبتلا ہے۔ دوائیں کیں مگر نصیر کی طبیعت نہیں سنبھلی۔ شاید تمہیں دیکھ کر اس کی طبیعت سنبھل جائے نصیر کی یہ حالت سن کر عباسی بے قرار ہوگئی اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ مج کرنے کے بجائے نصیر کے پاس جائے گی۔
4. عباسی کی واپسی سے نصیر پر کیا اثر ہوا؟
جواب:عباسی کو دیکھ کر نصیر کا زرد مرجھایا ہوا چہرہ روشن ہو گیا۔ جیسے بجھتے ہوئے چراغ میں تیل پڑ جائے۔
ایسا معلوم ہوا کہ وہ کچھ بڑھ گیا ہے۔ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بیمارنصیر تندرست ہو کر آنگن میں کھیل رہا تھا۔
5. صابرحسین نے عباسی سے یہ کیوں کہا؟
تمھیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہوگیا۔ اس کا نام حج اکبر ہے ۔“
جواب:حج اکبر سے مراد ہے ایسا حج جس میں زیادہ ثواب ہو، جمعہ کے روز جب حج ہوتا ہے اسے حج اکبر کہتے ہیں۔ چونکہ عباسی نےحج پر نہ جا کر بیمارنصیر کی خدمت کی اور وہ پہلے سے زیادہ تندرست ہو گیا، اس لیے صابر نے اس خدمت کو حج اکبر کہا۔ حج کرنا ذاتی مذہبی فریضہ ہے۔ اور دوسروں کی خدمت کرنا ان کے سکھ دکھ کا خیال کرنا بندوں کا حق ہے۔ اللہ کے بندوں کی خدمت کرنے سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے۔
 عملی کام
 افسانے کو غور سے پڑھیے۔

ذیل میں دیئے گئے محاوروں کے جملے بنائے:
خوشی سے پھولا نہ سمانا : اپنا رزلٹ دیکھ کر عاصم خوشی سے پھولا نہ سمایا
آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا :  ٹیچر نے  میری طرف آ؞کھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔
کانوں میں پیر رکھنا : ٹیچر ٹیچر میری طرف آ؞کھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا
گلے کا بار ہونا :فرزانہ ہر وقت اپنے بھائی کے گلے کا ہار بنی رہتی۔
• افسانے کا مرکزی خیال بتایئے۔

درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیے:
نفرت۔۔۔محبت
سستا۔۔۔مہنگا
ہوش۔۔۔بے ہوش
. اس افسانے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

خلاصہ:
منشی صابرحسین کی آمدنی کم تھی مگر اس کے باوجود اپنے بچے کے لئے ایک آیار کھنے  پرمجبور تھے مگر ان کی  بیوی شاکرہ کو آیا عباسی  ایک آنکھ نہ بھا تی تھی ۔ وہ اسے بے ایمان سمجھتی تھی  اور بات بے بات اس سے لڑتی بھی رہتی  تھی آخر کا رایک دن منشی نصیر حسین کی ایک نہ چلی اورشا کرہ نے عباسی کو نکال ہی کر دم لیا۔
عباس سے ان کا بیٹا نصیر بہت مانوس تھا۔ اس کے جاتے ہی صابر نے انّا  انّاکی ضد پکڑ لی۔ کھانا پیا کھیلنا کودنا سب چھوڑ دیا۔ آیا کی جدائی میں اس نے کچھ ہی دنوں میں بستر پکڑ لیا۔ جان کے لالے پڑگئے۔ دا وا دار و حکیم کوئی کام نہ آیا۔ تھک ہار کرمنشی صابر حسین نے عباسی کو بلا لانے کی بات کہی ۔ بادل نخواستہ شاکرہ بھی راضی ہوگیں۔ ادھربچے کی جدائی میں عباسی بھی تڑپ رہی تھی۔ اس غم کو بھلانے کے لئے وہ بھی عازم ہوگئی ۔ ادھر جب مشی صابرحسین پوچھتے ہوئے جب اس کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا وہ حج کے لئے جانے والی ہے۔ وہ بھاگم بھاگ اسٹیشن پہنچے عباسی کو نصیر کا حال سنایا اور اس کے لئے حج پر دعا کرنے کے لئے کہا نصیر کی بیماری کا حال سن کر عباسی سے نہ رہا گیا اور  حج کا خیال چھوڑ کرنصیر کو دیکھنے کے لئے صابر حسین کے ساتھ ان کے گھر کے لئے روانہ ہوئی۔ آیا کے آتے ہی نصیر کے چہرے پررونق آگئی

اور وہ تیزی سے صحت یاب ہونے لگا اور کچھ ہی دنوں میں بالکل تندرست ہو گیا۔ ایک ہفتہ گزر گیا صبح کا وقت تھا نصیر آنگن میں کھیل رہاتھا۔ صابر حسین نے اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار کر کے بولے تمہاری انّاکومار کر بھگا دیں ؟ نصیر نے منہ بنا کر کہا نہیں ، روئے گی عباس بولی کیوں بیٹا! مجھے تو تو نے کعبہ شریف نہ جانے دیا۔ میرے حج کا ثواب کون دے گا؟ صابر حسین نے مسکرا کر کہا تمہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہو گیا۔ اس کا جج   کا  نام حج اکبر ہے

کلک برائے دیگر اسباق

Thursday 26 March 2020

Wabayi Nazla - Coronavirus?


نزلہ و زکام وبائی
مسیح الملک حکیم اجمل خاں ؒ
  انفلوانزا   (Infinenza)
عیاذ باللہ جس طرح کہ طاعون ہیضہ اور دیگر وبائی امراض بعض ایام میں وہاء کے طور پر ظاہر ہو کر دفعتاً صدہا جانوں کو لقمہ اجل بنادیتے ہیں۔ تحقیق جدید سے یہ بات ثابت ہے کہ نزلہ اور زکام کا حملہ بھی بعض دفعہ وبائی طور پر ہوتا ہے۔

اسباب: اس مرض کا باعث ہوا میں ایک سمیت اور زہریلے اثر کا پیدا ہو جانا ہے جو سانسلینے کے ساتھ ہوا کے ہمراہ جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ مرض اکثر جاڑوں میں ہوتا ہے۔ بعض مرطوب نشیبی جگہوں میں یہ مرض اکثر پیدا ہوتا ہے اور ایک مقام سے پیدا ہوکر فوراً ہی بہت سے مقامات میں پھیل جاتا ہے۔ جوان آدی کی بہ نسبت بوڑھے اور بچے اس مرض میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔

علامات:  پیشانی اور کمر میں درد ہو کر دفعتا مریض کو بخار چڑھ جاتا ہے۔ بعض مریضوں کو یہ بخار لرزہ سے ہوتا ہے اور بعض کو بغیر لرزے کے۔ آنکھوں اور تمام عضلات جسم میں درد معلوم ہوتا ہے اور دوران سر کی شکایت ہوتی ہے گلا درد کرتا ہے۔ آواز بیٹھ جاتی ہے۔ سینے پر بوجھ اور تناؤ معلوم ہوتا ہے۔ خشک کھانسی ہوتی ہے۔ سانس مشکل سے آتا ہے۔ مریض کی بھوک زائل ہو جاتی ہے۔ ابکائیاں آتی ہیں۔ کبھی قے اور دست آنے لگتے ہیں۔ منہ کا ذا لقہ بگڑ جاتا ہے اگر عوارضات شدید ہوں تو انجام اچھا نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ ناک اور حلق کی سوزش آگے ہوا کی نالیوں تک بڑھ کر شدید کھانسی اور نمونیا پیدا کر دیتی ہیں۔ اس مرض کے حملے سے مریض بہت جلد کمزور ہو جاتا ہے۔ عام زکام کی نسبت زکام وبائی میں تکلیف اور کمزوری زیادہ ہوتی ہے اور دفعتا مرض کا حملہ ہونا اور دفعتاً  بہت سے اشخاص  مبتلاۓ مرض ہو جانا اور بخار کا ہونا اس کی خاص تشخیصی علامت ہے۔ اگر عوارضات شدید نہ ہوں اور اس مرض کے ساتھ کوئی دوسرا مرض شامل نہ ہو جائے تو ایک ہفتہ کے اندر اندر مریض کو آرام ہوجاتا ہے۔

علاج : بطور حفظ ماتقدم اس وباء کے زمانہ میں چائے کا استعمال ضرور رکھنا چاہئے۔ غذا میں احتیاط رکھنا بھوک سے کم کھانا قبض نہ ہونے دینا اور کھلی تازہ ہوا میں رہنا لباس صاف رکھنا اس مرض کے حملے سے بچاتا ہے۔ حالتِ مرض میں مریض کو ایک علیحدہ کمرے میں آرام سے لٹائیں۔ شروع میں معدہ اور آنتوں کے صاف کرنے کے لئے قرص ملین 4 عدد نیم گرم پانی کے ہمراہ مریض کو کھلائیں۔ تاکہ دو تین دست آکر معدہ کی صفائی ہو جائے۔ اس کے بعد به دانہ 3 ماشہ عناب 5 دانہ سپستان نو دانہ پانی میں ہلکا جوش دے کر صاف کر کے شربت بنفشہ 2 تولہ ملا کر نیم گرم صبح و شام پلائیں۔ بخار کے لئے خاکسی 5 ماشہ اس نسخہ میں چھڑک کر دیں- رفع درد سر اور جسم کے لئے پاشویہ کریں یعنی گل بنفشہ ایک تولہ اکلیل الملک ایک تولہ گل بابونہ ایک تولہ مرزنجوش ایک تولہ گل خطمی ایک تولہ بیری کے پتے 5 تولہ پانی 10 سیرمیں جوش کر کے اس گرم پانی میں مریض کے پاؤں پنڈلیوں تک 10 منٹ ڈبوئے رکھیں بعده خشک کر کے بستر میں لپیٹ دیں۔ اگر کھانسی کی شدید تکلیف ہو تو بجائے شربت بنفشہ 2 تولہ کے خشخاش 2 تولہ یا شربت اعجاز 2 تولہ اسی نسخہ میں ملا کر دیں- یا خمیرہ خشخاش 7 ماشہ اول کھلا کر اوپر سے یہی نسخہ پلا دیں۔ اگر درد گلو کی شکایت ہو تو بجائے شربت بنفشه 2 تولہ کے شربت توت سیاه 2 تولہ شامل کر کے دیں۔ تقویت کے لئے خمیرہ گاؤ زباں ایک تولہ ورق نقرہ ایک عدد میں لپیٹ کر یا خمیره گاؤزبان جواہر والا 5 ماشہ اسی نسخہ کے ہمراہ کھلا دیں۔ کھانسی کے لئے دوسرے وقت یہ نسخہ دیں لعوق سپستان ایک تولہ لعوق معتدل ایک تولہ پانی یا عرق گاؤزبان 12 تولہ میں جوش دے کر گرم گرم سے ناک اور سر کو بھپارہ دیں۔ اگر کھانسی کے ساتھ سینہ میں درد بھی ہو توقیروطی آرد کرسنہ ایک تولہ میں زعفران ایک ماشہ ایلوا ایک ماشہ باریک پیس کر ملا کر نیمگرم ضماد کریں اور سینے کو روئی کے پہل سے گرم کر کے سینکیں۔ تلئین طبع مطلوب ہو تو شربت بنفشہ کی بجائے شربت ملین چار تولہ پینے کے نسخے میں دیں۔

پرہیز: جن چیزوں سے زکام اور نزلہ میں پرہیز کرنا واجب ہے وہی ملحوظ خاطر رکھیں۔

غذا: لطیف اور سریع الہضم مثلاً شوربہ یخنی آش جو میں شربت بنفشہ ملا کر یا مونگ کی دال چپاتی کے ساتھ دیں۔ پانی کی جگہ عرق مکوہ عرق گاؤزبان نیم گرم پلائیں۔


(شاہد الاسلام کے فیس بک صفحہ سے شکریہ کے ساتھ۔)



خوش خبری