آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 20 June 2020

Nadan Dost By Prem Chand NCERT urdu class IX Chapter 3

نادان دوست
کیشو کے گھر میں ایک کارنس کے اوپر ایک چڑیا نے انڈے دیے تھے۔ کیشو اور اس کی بہن شیاما دونوں بڑے غور سے چڑیا کو وہاں آتے جاتے دیکھا کرتے ۔ سویرے دونوں آنکھ ملتے کارنس کے سامنے پہنچ جانتے اور چڑا اور چڑیا دونوں کو وہاں بیٹھا پاتے۔ ان کو دیکھنے میں دونوں بچوں کو نہ معلوم کیا مزہ ملتا تھا۔ دودھ اور جلیبی کی بھی سدھ نہیں رہی تھی۔ دونوں کے دل میں طرح طرح کے سوالات اٹھتے ” انڈے کس رنگ کے ہوں گے؟ کتنے ہوں گے؟ کیا کھاتے ہوں گے؟ ان میں سے بچے کس طرح نکل آئیں گے بچوں کے پر کیسے نکلیں گے گھونسلا کیسا ہے؟ لیکن ان باتوں کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا، نہ اماں کو گھر کے کام دھندے سے فرصت تھی، نہ بابو جی کو پڑھنے لکھنے سے۔ دونوں بچے آپس میں سوال و جواب کر کے اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتے تھے۔ شیاما کہتی کیوں بھیا !  بچے نکل کر پھر سے اڑ جائیں گے "
کیشو عالمانہ غرور سے کہتا " ہیں رے پگلی ، پہلے پر نکلیں گے۔ بغیر پروں کے بیچارے کے کیسے اڑ جائیں گے " شیاما: بچوں کو کیا کھلائے گی بیچاری؟
کیشو اس پیچیدہ سوال کا جواب کچھ نہ دے سکا تھا۔
            اس طرح تین چار دن گذر گئے۔ دونوں بچوں کی خواہش تحقیقات دن بدن بڑھتی جاتی تھی۔ انڈوں کو دیکھنے کے لیے وہ بے تاب ہو اٹھے تھے۔ انھوں نے قیاس کیا اب بچے ضرور نکل آئے ہوں گے بچوں کے چارے کا سوال اب ان کے سامنے کھڑا ہوا ۔ چڑیا بیچاری اتنا دانہ کہاں پائے گی کہ سادے بچوں کا پیٹ بھرے ۔ غریب بچے بھوک کے مارے چوں چوں کرکے مر جائیں گے۔
اس مصیبت کا اندازہ کرکے دونوں نے فیصلہ کیا کہ کارنس پر تھوڑا سا دانہ رکھ دیا جائے۔ شیاما خوش ہوکر بولی تب تو چڑیوں کو چارے کے لیے کہیں اڑ کر نہ جانا پڑے گا۔
کیشو نہیں تب کیوں جائے گی؟
شیاما کیوں کیوں بھیا بچوں کو دھوپ نہ لگتی ہوگی ؟
کیشو کا دھیان اس تکلیف کی طرف نہ گیا تھا بولا" ضرور تکلیف ہوتی ہوگی۔ بچارے پیاس کے مارے تڑپتے ہوں گے، اوپر سایہ بھی نہیں ۔
آخر یہ فیصلہ ہوا کہ گھونسلے کے اوپر کپڑے کی چھت بنادینی چاہیے ۔ پانی کی پیالی اور چاول رکھ دینے کی تجویز منظور ہوگئی ۔
      دونوں بچے بڑے شوق سے کام کرنے لگے ۔ شیاما ماں کی آنکھ بچا کر مٹکے سے چاول نکال لائی ۔ کیشور نے پتھر کی پیالی کا تیل چپکے سے زمین پر گرا دیا اور اسے خوب صاف کر کے اس میں پانی بھرا۔ اب چاندنی کے لیے کپڑ ا کہاں سے آئے ۔ پھر اوپر بغیر چھڑیوں کے ٹھہر ے گا کیسے؟ اور چھڑیاں کھڑی کیسے ہوں گی؟
کیشو بڑی دیر تک اسی ادھیڑ بن میں رہا۔ آخر اس نے یہ مشکل بھی حل کرلی۔ شیاما سے بولا" جا کر کوڑا پھینکنے والی ٹوکری اٹھا لاؤ ، اماں کو مت دکھانا ۔"
شیاما دوڑ کر ٹوکری اٹھالائی۔ کیشو نے اس کے سوراخ میں تھوڑا سا کاغذ ٹھونس دیا اور ٹوکری کو ایک ٹہنی سے لٹکا کر بولا دیکھ ایسے ہی گھونسلے پر اس کی آڑ کروں گا تو کیسے دھوپ چاۓ گی ۔
شیاما نے دل میں سوچا ، بھیا کیسے چالاک ہیں۔
گرمی کے دن تھے۔ بابوجی دفتر گئے ہوئے تھے۔ ماں دونوں  بچوں کو سلا کر خود سوگئی تھی۔ لیکن دونوں بچوں کی آنکھوں میں نیند کہاں؟ اماں جی کو بہلانے کے لیے دونوں دم روکے ، آنکھیں بند کیے موقعے کا انتظار کر رہے تھے۔ جوں ہی معلوم ہوا کہ اماں جی اچھی تھی طرح سوگئی ہیں، دونوں چپکے سے اٹھے اور بہت آہستہ سے دروازے کی چٹکنی کھول کر باہر نکل آئے۔ انڈوں کی حفاظت کی تیاریاں ہونے لگیں ۔
کیشو کمرے سے جا کر ایک اسٹول اٹھالا یا۔ لیکن اس سے کام نہ چلا تو نہانے کی چوکی لا کر اسٹول کے نیچے رکھی اور ڈرتے ڈرتے اسٹول پر چڑھا۔ شیاما دونوں ہاتھوں سے اسٹول پکڑے ہوئے تھی۔ اسٹول چاروں ٹانگیں برابر نہ ہونے کی وجہ سے جس طرف زیادہ دباؤ پاتا تھا، ذرا ساہل جاتا تھا۔ اس وقت کیشو کو کس قدر تکلیف برداشت کرنی پڑتی تھی، یہ اسی کا دل جانتا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے کارنس کر پکڑ لیتا تھا اور شیاماں کو دبی آواز سے ڈانتا۔" اچھی طرح پکڑو ورنہ اتر کر بہت ماروں گا۔ مگر بے چاری شیاما کا دل تو اوپر کارنس پر تھا۔ بار بار اس کا دھیان ادھر چلا جاتا اور ہاتھ ڈھیلے پڑ جاتے۔
کیشو نے جوں ہی کارنس پر ہاتھ رکھا، دونوں چڑیاں اڑ گئیں ۔
کیشو نےدیکھا کہ کارنس پر تھوڑے سے تنکے بچھے ہوئے ہیں اور اس پر تین انڈے پڑے ہوئے ہیں۔ جیسے گھونسلے - اس نے درخت پر دیکھے تھے ویسا کوئی گھونسلا نہیں ہے
شیاما نے نیچے سے پوچھا "بچے ہیں بھیا" کیشو : تین انڈے ہیں والے ہیں، بچے ابھی تک نہیں نکلے
شیاما : ذرا  ہمیں دکھا دو بھیا ، کتنے بڑے ہیں؟
کیشو: دکھا دوں گا، پہلے ذرا جھنڈی لے کر آ نہ نیچے بچھادوں، بچارے انڈے تنکوں پر پڑے ہیں۔"
شیاما دوڑ کر اپنی پرانی دھوتی پھاڑ کر ایک ٹکڑا لائی ۔ کیشو نے جھک کر کپڑا لے لیا اور اسے تہہ کر کے ایک گدی بنائی اور اسے تنکوں پر بچھا کرتہہ کر کے تینوں انڈے
اس پر رکھ دیے ۔ شیاما نے پھر کہا:" ہم کو بھی دکھا دو بھیا ۔"
کیشو : دکھادوں گا ۔ پہلے ذرا ٹوکری تو دے او پر سایہ تو کردوں۔
  شیاما نے ٹوکری نیچے سے تھما دی اور بولی "اب تم أتر آؤ میں بھی دکھوں" ۔
  کیشو نے ٹوکری کو ایک ٹہنی سے لگا کر کہا۔ "جا، دانہ اور پانی کی پیالی لے آ، میں اتر آؤں گا تو تجھے دکھا دوں گا"۔
   شیاما پیالی اور چاول بھی لے آئی۔
    کیشو نے ٹوکری کے نیچے دونوں چیزیں رکھ دیں اور آہستہ سے اتر آیا۔
     شیاما نے گڑگڑا کر کہا۔" اب ہم کو بھی چڑھا دو بھیا ؟ کیشو : تو گر پڑے گی ۔
شیاما : نہ گروں گی بھیا تم نیچے سے پکڑے رہنا۔
کیشو : کہیں تو گرگرا  پڑی تو اماں جی میری چٹنی ہی
کر ڈالیں گی۔ کہیں گی کہ تو نے ہی چڑھا یا تھا ۔ کیا کرے گی دکھ کر؟ اب انڈے بڑے آرام سے ہیں ۔ جب بچے نکلیں گے تو ان کو پالیں گے۔
دونوں پرندے بار بار کارنس پر آتے تھے اور بغیر بیٹھے ہی اڑ جاتے تھے۔ کیشو نے سوچا ہم لوگوں کے ڈر سے یہ نہیں پٹھتے ۔ اسٹول اٹھا کر کمرے میں آیا۔ چوکی چہان کی تھی وہیں رکھے دی۔
شیاما نے آنکھ میں آنسو بھر کر کہا۔" تم نے مجھے نہیں دکھا یا اماں جی سے کہہ دوں گی" ۔
کیشو۔ :  اماں جی سے کہے گی تو بہت ماروں گا کہے دیتا ہوں۔
شیاما: تو تم نے مجھے دکھایا کیوں نہیں؟
کیشو : اگر گر پڑتی تو چار سر نہ ہوتے۔
شیاما : ہو جاتے تو ہو جاتے۔ دکھ لینا میں کہہ دوں گی۔
اتنے میں کوٹھری کا دروازہ کھولا اور ماں نے دھوپ سے آنکھوں کو بچاتے ہوئے کہا تم دونوں باہر کب نکل آئے؟  میں نے کہا تھا دو پہر کو نہ نکلنا؟ کس نے یہ کواڑ کھولا ؟
کواڑ کیشو نے کھولا تھا ۔ لیکن شیاما نے ماں سے بات نہیں تھی۔ اسے خوف ہوا کہ بھیاپٹ جائیں گے۔ کیشو دل میں کانپ رہا تھا کہ کہیں شیاما کہہ نہ دے انڈے نہ دکھائے تھے۔ اس وجہ سے اب اس کو شیاما پر اعتبار نہ تھا۔ شیاما صرف محبت کے مارے چپ تھی یا اس قصور میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے، اس کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ شاید دونوں ہی باتیں تھیں۔
مال نے والوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر پھر کمرے میں بند کر دیا اور آہستہ آہستہ آنھیں پنکھا جھلنے لگی۔ ابھی صرف دو بجے تھے۔ باہر تیز لو چل رہی تھی اب دونوں کو نیند آگئی۔
چار کے یکا یک شیاما کی آنکھ کھلی ۔ کواڑ کھلے ہوئے تھے ۔ وہ دوڑتی ہوئی کارنس کے پاس آئی اوپر کی طرف تکنے لگی۔ ٹوکری کا پتہ نہ تھا اتفاقاً اس کی نگاہ نیچے گئی اور وہ الٹے پاؤں دوڑتی ہوئی کمرے میں جا کر زور سے بولی۔
"بھیا انڈے تو نیچے پڑے ہیں بچے اڑ گئے۔"
کیشو گھبرا کراٹھا اور دوڑتا ہوا باہر آیا ۔ دیکھتا ہے کہ تینوں انڈے نیچے ٹوٹے پڑے ہیں۔ پانی کی پیالی بھی ایک طرف ٹوٹی پڑی ہے۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ سہمی ہوئی آنکھوں سے زمین کی طرف دیکھنے لگا۔
شیاما نے پوچھا " بچے کہاں اڑ گئے بھیا ؟"
کیشو نے افسوسناک لہجے میں کہا" انڈے تو پھوٹ گئے۔"
شیاما ؛ اور بچے کہاں گئے؟
کیشو : تیرے سر میں دیکھی نہیں ہے انڈوں سے اجلا اجلا پانی نکل آیا ہے۔ وہی تو دو چار دن میں بچے بن  جاتے۔ ماں نے سوئی ہاتھ میں لیے ہوئے پوچھا تم دونوں وہاں دھوپ میں کیا کر رہے ہو؟
  شیاما نے کہا " اماں جی ! چڑیا کے انڈے پڑے ہیں۔
  ماں نے آکر ٹوٹے ہوئے انڈوں کو دیکھا اورغصے سے بولی: " تم لوگوں نے انڈوں کو چھوا ہو گا ۔
اب تو شیاما کو بھیا پر ذرا بھی ترس نہ آیا ۔ اسی نے شاید انڈوں کو اس طرح رکھ دیا کہ وہ نیچے گر پڑے۔ اس کی سزا انھیں ملنی چاہیے۔ انہوں نے انڈوں کو چھیڑا تھا اماں جی “
ماں نے کیشو سے پوچھا " کیوں رے کیشو ! بھیگی بلی بنا کھڑا ہے تو وہاں پہنچا کیسے؟"
شیاما : چوکی پر اسٹول رکھ کر چڑھے تھے سماجی ۔
کیشو تو اس کو تھامے نہیں کھڑی تھی ۔
شیاما: تم ہی نے تو کہا تھا۔
ماں : تو اتنا بڑا ہو گیا تجھے نہیں معلوم چھونے سے چڑیا کے انڈے گندے ہو جاتے ہیں ۔ چڑیا پھر انہیں نہیں سیتی ۔
شیاما نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو کیا چڑیا نے انڈے گرائے ہیں ، اماں جی
  اماں : اور کیا کرتی ؟ کیشو کے سر اس کا پاپ پڑے گا۔ ہابا ! تین جانیں لے لیں دشٹ نے۔
کیشو : روئی صورت بنا کر بولا: میں نے تو صرف انڈوں کو گدی پر رکھ دیا تھا اماں "
ماں کو ہنسی آگئی ۔ مگر کیشو کو کئی دن تک اپنی غلطی کا افسوں رہا۔ انڈوں کی حفاظت کرنے کے زعم میں اس نے ان کا ستیا ناس کرڈالا ۔ اس کو یاد کر کے کبھی کبھی وہ رو پڑتا۔
دونوں چڑیاں پھر وہاں نہ دکھائی دیں ۔

                                                          (پریم چند)
پریم چند
( 1880 - 1936)
پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا۔ وہ بنارس کے قریب ایک گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شمار اردو کے ابتدائی اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے روپ اپنے حقیقی مسائل اور کرداروں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ غربت اور افلاس میں جینے والا عام انسان خصوصاً دیہاتی کسان اور مزدور، ان کے افسانوں کا اہم کردار ہوا کرتا ہے۔
پریم چند نے سیکڑوں افسانے اور کئی ناول لکھے ہیں ۔ پریم پچپیسی ، پریم چالیسی، دودھ کی قیمت اور واردات ان کے اہم افسانوی مجموعے ہیں۔گئودان، غبن، میدان عمل بیوہ اور بازارحسن ان کے اہم ناول ہیں۔

سوچیے اور بتائیے
1. گھونسلہ دیکھ کر بچوں کے دل میں کیا خواہش پیدا ہوئی؟
جواب:گھونسلہ دیکھ کر بچوں کہ دل میں  خواہش پیدا ہوئی کہ انڈوں کو دھوپ سے بچایا جائے  اور کھانے کی چیزوں کو گھونسلے کے قریب ہی رکھ دیا جائے تاکہ چڑیا اور اس کے بچوں کو کوئی پریشانی نہ ہو ۔

2.گھونسلے تک پہنچنے کی کیشو نے کیا ترکیب کی؟
جواب:گھونسلے تک پہنچنے کے لیے ان لوگوں نے اسٹول پر چوکی رکھی اور اس کے بعد کیشو گھونسلے تک پہنچا شیاما نے اسٹول کو پکڑا تاکہ وہ گر نہ جائےاس طرح کیشو گھونسلے تک پہنچ گیا-

3.شیاما  کو اپنے بھائی کیشو  پر ترس کیوں  نہیں آیا؟
جواب:چونکہ کیشو نے شیاما کو انڈے نہیں دکھائے تھے  اس لیے جب ماں نے کیشو کو ڈانٹا تو شیاما  کو بالکل ترس نہیں آیا اور اس نے ماں سے شکایت کردی کہ بھیا نے انڈوں کو چھیڑا تھا۔

4.پرندوں کے انڈوں کو کیوں نہیں چھونا چاہیے؟
جواب:پرندوں کے انڈوں کو چھونے سے وہ گندے ہو جاتے ہیں اور پرندے انہیں چھوڑ دیتے ہیں اس لیے انھیں نہیں چھونا چاہیے۔

5.گھونسلے سے زمین پر انڈے کس نے گرا دیے اور کیوں؟
جواب:چڑیا ہی نے انڈے زمین پر گرا دیے کیوں کہ بچوں کہ چھیڑنے سے انڈے گندے ہو گئے تھے  اور گندے انڈوں سے بچّے نہیں نکلتے۔

نیچے لکھے لفظوں کی مدد سے خالی جگہوں کو بھریے:

بچے##### پاپ#####  ٹوٹی#####  دفتر#####  کانپ

کیشو دل میں کانپ رہا تھا۔
پیالی کی پیالی بھی ایک طرف ٹوٹی پڑی ہے۔
کیشو کے سراس کا پاپ پڑے گا
بچے نکل کر پھر سے اڑ جائں گے
بابوجی دفتر گئے ہوئے تھے
نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے واحد اور جمع بنائیے:

سوالات :  سوال
موقع : مواقع
تکلیف : تکلیف
خواہش :  خواہشات 
پرندے : پرندہ
چیز :چیزیں

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کےمزکر اور مونث لکھیے:
اماں :  ابا
چڑا :  چڑیا
بہن :  بھائی
بچہ : بچے
بلی : بلا
نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے:

دھوپ : چھاوں
تکلیف :  آرام
سزا  : انام
پاپ : پُنیہ
جواب :  سوال

ایک سچّا واقعہ
نادان دوستوں کی کہانی آپ نے اپنے سبق میں پڑھی آئیے اب آپکو ایک سچا واقعہ سناتا ہوں ۔ پرندوں کے گھونسلا بنانے کی عادت کا ایک ویڈیو ان دنوں سوشل میڈیا میں تیزی سے وائرل ہو رہا ہے جس میں ایک چڑیا نے ایک کار کی ونڈو شیلڈ پر ہی گھونسلا بنا دیا اور اس میں انڈے دے دیے۔ اور جانتے ہو بچّو! یہ مہنگی اور قیمتی گاڑی کس کی تھی یہ ہم تمہیں آگے بتائیں گے۔
پرندہ ہو یا کوئی جانور انہیں اس بات کاعلم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔ ہماری بالکونی میں لگے پودوں کو گلہری اس بے دردی سے کتر ڈالتی ہے کہ کیا بتائیں۔ ان کی یہ حرکتیں کسی بھی انسان کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ کیونکہ انہیں نہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخر کیا کر رہی ہیں۔ پھر چاہے کسانوں کے کھیت میں بوئے گئے بیجوں کو چگنا ہو یا پھر کسی کے گھر کی بالکونی میں گھونسلا بنانا۔ پرندے اکثر کسی بھی گھر میں ایسے مقام پر گھونسلا بناتے ہیں جو انہیں اپنی اور اپنے بچوں کے تحفظ کی کوئی فکر نہ ہو لیکن انسان ایسی مخلوق ہے جو کہیں بھی پہنچ جاتی ہے بھلے ہی انسان پرندوں کو نقصان نہ پہنچائیں باوجود اس کے پرندوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے۔
پرندوں کے گھونسلا بنانے کی عادت کا ایک ویڈیو ان دنوں سوشل میڈیا میں تیزی سے وائرل ہو رہا ہے جس میں ایک چڑیا نے ایک کار کی ونڈو شیلڈ پر ہی گھونسلا بنا دیا اور اس میں انڈے دے دیے۔ یہ کار دبئی کے ولی عہد شہزادہ ایگزیکٹو کونسل کے صدر شیخ حمدان بن محمد بن راشد المکتوم کی تھی۔ در اصل چڑیا نے ولی عہد شہزادہ کی مرسڈیز ایس یو وی کی ونڈ شیلڈ پر گھونسلا بنا لیا۔
جیسے ہی اس بات کا ولی عہد شہزادہ کو پتہ چلا تو انہوں نے کار کو ایک طرف کھڑا کروادیا۔ تاکہ پرندے امن سے رہ سکیں اور ان کے بچوں کو کوئی پریشانی نہ آئے۔ گزشتہ ہفتے ، ولی عہد شہزادہ نے کار کے بونٹ پر ماں پرندے کا ویڈیو اپنے انسٹاگرام اسٹوری پر شیئر کیا تھا کہ وہ تب تک اس کار کا استعمال نہیں کریں گے جب تک بچے انڈوں سے نہ نکل جائیں۔
اس ویڈیو کے سامنے آںے کے بعد سوشل میڈیا کے صارفین ولی عہد شہزادے کی جم کر تعریف کر رہے ہیں۔ ایک صارف نےلکھا آپ سچ میں پرنس ہیں۔ پرندوں کے لئے آپ کے دل میں بہت محبت ہے۔ وہیں دوسرے یوزر نے لکھا آپ کا دل سونے کا ہے، آج کے زمانے میں کون اتنی چھوٹی بات کو سوچتا ہے۔ آپ نے جو کیا اس سے میرا دل بھر آیا۔ آپ کو بہت سارا پیار۔

Sunday, 14 June 2020

Hazrat Amir Khusrau


چھاپ تلک سب چھینی رے مجھ سے نینا ملا کے
فضا میں ستار، ہارمونیم اور ڈھولک کی تھاپ پر عشق و محبت کے درد میں ڈوبا یہ نغمہ بکھر رہا ہے،کہیں دور  سے’ زحال مسکیں مکن تغافل در آئی نیناں بنائے بتیاں‘ کی سریلی آواز دل کو گرما رہی ہے رات کے پچھلے پہر’ نہ آپ آئے نہ بھیجی پتیاں‘ کی درد بھری سسکاری محبوب کی یاد میں خون کے آنسو رُلا رہی ہے۔اور جس کی تان
گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس 
چل خسرو گھر آپنے رین بھئی چہوں دیس 
پر جا کر ٹوٹ جاتی ہے۔
دہلی کے حضرت نظام الدین کی گلیوں سے نکال کر پوری دنیا میں پھیل جانے والی یہ آواز طوطی ہند حضرت امیر خسرو ؒ کی ہے۔ جو اپنے زمانے کے مشہور صوفی بزرگ محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکے مرید و خلیفہ تھے۔
خسرو کی پیدائش1253ء میں اتر پردیش کے قصبے پٹیالی  میں ہوئی۔یہ قصبہ ضلع ایٹہ      میں دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے۔ ان کا لقب ابو الحسن تھا اور نام امین الدولہ ۔ان کے والدامیر سیف الدین محمود  لاچین قوم کے ایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی میں سکونت اختیار کی۔جب وہ ہندوستان آئے تو یہاں سلطان شمس الدین التمش کی حکومت تھی۔
خسرو کے والد ترک نسل کے تھےاور اُن  کی والدہ ہندوستانی تھیں۔وہ وزیر عماد الملک کی بیٹی تھیں۔  خسروآٹھ سال کی عمر میں یتیم ہوگئے اور  کچھ عرصہ بعد یہ خاندان آگرہ سے دہلی منتقل ہو گیا اور خسرو اپنے نانا عماد الملک کے ساتھ رہنے لگے۔۔ امیرخسرو نے سلطنت دہلی کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا جن میں خاندان غلامان، خلجی اورتغلق شامل ہیں  ۔خسرو نےبرصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔خسرو 20سال کے تھے کہ ان کے نانا کا انتقال ہوگیا اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑا۔
حضرت امیرخسرو محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کے بڑے چہیتے مرید تھے اور  خسرو کو بھی  اپنے مرشد سے انتہائی عقیدت تھی ۔
سیّد محمد بن مبارک کرمانیؒ سیر الاولیاء میں لکھتے ہیں:
راقم الحروف نے اپنے والد بزرگوارسے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ جس دن امیر خسرو پیدا ہوئے امیر خسرو کے باپ امیر لاچین کے گھر کے پاس ہی ایک دیوانہ رہتا تھا بڑا خدا رسیدہ۔امیر خسرو کے باپ نے اس بچّے کو کپڑے میں لپیٹا اور اس دیوانے کے پاس لے گیادیوانے نے کہا لے آؤ ایسے آدمی کو جو خاقانی سے دو قدم آگے ہوگا۔غرضیکہ جب سن بلوغت کو پہنچےتو سلطان المشائخ کی عقیدت و ارادت میں رنگے گئے اور ان کی شفقتوں اور کرم فرمائیوں کے لیے مخصوص ہوئے۔
حضرت امیر خسرو نےسلطان المشائخ سے عقیدت و ارادت میں اس صدق و خلوص سے کوشش کی کہ مرشد کے محرم اسرار بن گئے۔ حضرت امیر خسرو کوسلطان المشائخ کے ہاں انتہائی قرب اور خاص مقام حاصل تھا۔
کہتے ہیں کہ خسرو نے  ایک دن سلطان المشائخ کی مدح میں اُن کے سامنے شعر پڑھے۔ آپ نے فرمایا کیا چاہتے ہو۔ کیونکہ خسرو کو شعر و شاعری کی ہی تمنّا تھی۔شیرینی اتاثیر ِ شعر کی درخواست کی فرمایا کہ شَکر کا جو طشت کھاٹ کے نیچے ہے لاؤ اور اپنے سر پر نثار کرواور اس میں سے کچھ کھا بھی لو۔ امیر خسرو نے ایسا ہی کیا اور اسی کے کلام کی شیرینی کا شہرہ مشرق و مغرب میں پھیل گیا۔اور  وہ اگلے پچھلے شاعروں کے لیے باعث فخر بن گئے۔خسرو اس درخواست کے قبول ہونے سے آخری عمر تک نادم رہےکہ اس وقت اس سے بہتر کوئی چیز کیوں نہ مانگ لی۔
بتاتے ہیں کہ سلظان المشائخ نے ذوق و شوق سے پُر نہ جانے کتنے خطوط امیر خسرو کو اپنے ہاتھ سے خود لکھے ہیں۔
خسرو نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے ،پہیلیاں، گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگارچھوڑے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ کہتے یہ کہ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔
امیر خسروفارسی اور اردو کے  بہت ہی مشہورصوفی شاعر تھے۔وہ  ماہر موسیقی تھے اور انہیں نے نہ جانے کتنے راگ ایجاد کیے ۔ ستار بھی آپ ہی کی ایجاد ہے جو آج بھی موسیقی کے دکدادہ افراد کا پسندیدہ ساز ہے۔خسرو کو طوطی ہند کہا جاتا ہے۔
فارسی کلام کی مثالیں
اگر فردوس بر روۓ زمین است ##### ہمین است و ہمین است و ہمین است
کافر عشقم، مسلمانی مرا در کار نیست##### ہر رگ من تار گشتہ، حاجت زُنار نیست
از سر بالین من برخیز ای نادان طبیب ##### دردمند عشق را دارو بہ جز دیدار نیست
ناخدا بر کشتی ما گر نباشد، گو مباش ##### ما خدا داریم ما ناخدا در کار نیست
خلق می‌گوید کہ خسرو بت‌پرستی می‌کند #####آری! آری! می‌کنم! با خلق ما را کار نیست
خسرو نے اردو میں دوہے بھی کہے:
خسرو دریا پریم کا، اُلٹی وا کی دھار##### جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار
سیج وُہ سونی دیکھ کے رووُوں میں دن رین ##### پیا پیا میں کرت ہوں پہروں، پل بھر سکھ نا چین

امیر خسرو شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم ساز، طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔ اور فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہی کی ایجاد ہے۔
دنیا میں اردو کا پہلا شعر حضرت امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے ۔
جب سلطان المشائخ کا انتقال ہواتو خسرو دلّی میں نہ تھے۔دلّی واپس آنے پر اُن کی موت کی المناک خبر سنی اور شدّتِ غم سے بے حال ہوگئے۔ اُن کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ انہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور چہرے پر خاک مل لی۔اسی حالت میں پیر کی قبر پرپہنچے اور بے ساختہ یہ دوہا پڑھا
گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے رین بھئی چہوں دیس

(گوری(حضرت نظام الدین اولیاء)اپنے منہ پر بالوں کو بکھیر ے سیج پر سورہی ہے۔ اے خسرو اب اپنے گھر چل ،چاروں طرف رات کا اندھیرا چھا گیا ہے۔)
محبوب الٰہی کے انتقال کے بعد امیر خسرو زیادہ دن زندہ نہیں رہے اور 6 ماہ بعد1325ء  میں وہ بھی اپنے شیخ کے قدموں میں ابدی نیند سو گئے۔

خسرو کی شہرہ آفاق تصانیف
”تحفۃ الصغر“،”وسطالحیات“،”غرۃالکمال“،”بقیہ نقیہ“،”قصہ چہار درویش“”نہایۃالکمال“،”ہشت بہشت“،”قران السعدین“،”مطلع الانوار“،”مفتاح الفتوح“،”مثنوی ذوالرانی-خضرخان“،”نہ سپہر“،”تغلق نامہ“،”خمسہ نظامی“،”اعجاز خسروی“،”خزائن الفتوح“،”افضل الفوائد“،”خالق باری“،”جواہر خسروی“،”لیلیٰ مجنوں“،”آئینہ سکندری“،”ملا الانور“،”شیریں خسرو“
حوالہ جات:
1. سَیر الاولیاء
2. امیر خسرو از شیخ سلیم احمد
3. آزاددائرة المعارف، ویکی پیڈیا

Sunday, 7 June 2020

ّAazmaish By Md. Mujeeb NCERT Solutions Class 10 Urdu Chapter 5


ڈراما
ڈراما یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں’ کرنا‘ ۔ ادب میں  یہ  ایسی صنف ہے جس میں کرداروں، مکالموں اور مناظر کے ذریعے کسی کہانی کو پیش کیا جاتا ہے۔ قدیم ہندوستان میں سنسکرت کا ویہ میں بھی اس کی روایت بہت مضبوط تھی اور اس کو ” نا ٹیہ“ کہا جاتا تھا۔
ارسطو نے ڈرامے کو زندگی کی نقّالی کہا ہے۔ داستان ، ناول اور افسانے کے مقابلے میں ڈراما اس لحاظ سے حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے کہ اس میں الفاظ کے ساتھ ساتھ کردار، ان کی بول چال اور زندگی کے مناظر بھی دیکھنے والوں کے سامنے آتے ہیں ۔ کرداروں کی ذہنی اور جذباتی کشمکش کو مکا لمے اور آواز کے اُتار چڑھاؤ کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ ڈراما بنیادی طور پر اسٹیج کی چیز ہے لیکن ایسے بھی ڈرامے لکھے گئے ہیں اور لکھے جاتے ہیں جو صرف سنانے اور پڑھنے کے لیے ہوتے ہیں ۔ ریڈیو کی وجہ سے ڈراموں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ اور ٹیلی وژن پر جس طرح کے سیریل سب سے زیادہ پیش کیے جاتے ہیں، ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح ڈرامے ہی کی صنف سے ہوتا ہے۔
ارسطو نے ڈرامے کے اجزائے ترکیبی میں چھ چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ قصہ، کردار، مکالمہ، خیال، آرائش اور موسیقی ۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر ڈرامے میں سنگیت یا موسیقی کا عنصر ہو۔ پلاٹ، کردار، مکالموں اور مرکزی خیال کا ہونا البتہ ضروری ہے۔ ڈرامے کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں واقعات کی کڑیاں اس طرح ملائی جائیں کہ بتدریج نقطۂ عروج تک پہنچ سکیں اور ناظرین کی توجہ ایک نکتے  یا خیال پر مرکوز ہو جائے ۔ اس کے بعد ڈراما انجام کی طرف بڑھتا ہے۔ واقعات سے جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے ، وہ انجام کے ذریعے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حق و باطل اور خیر و شر کی کشمکش، بنیادی انسانی اقدار اور سماجی ، قومی و سیاسی مسائل کو ڈراموں میں پیش کیا جاتا ہے۔
اردو میں ڈرامےکا آغاز واجد علی شاہ کے زمانے میں ہوا جب ”رادھا کنھیا‘‘ کا قصہ اسٹیج کیا جانے لگا۔ امانت کی” اندر سبھا‘‘ بھی اسی زمانے میں لکھی گئی جو بے حد مقبول ہوئی ۔” اندر سبھا “کے اثر سے بعد کے  پارسی اردو تھیٹر میں بھی رقص و موسیقی کا  خاصا زور رہا۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں اردو تھیٹر نے بہت ترقی کی اور آغا حشر کے ڈرامے بہت مقبول ہوئے ۔ اس کے بعد امتیاز علی تاج ، حکیم احمد شجاع ، ڈاکٹر سیّد عابد حسین ، پروفیسر محمد مجیب ، مرزا ادیب ، اشتیاق حسین قریشی اور فضل الرحمٰن نے ڈراما نگاری پر خصوصی توجہ کی ۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور ریوتی سرن شرما نے بھی ریڈیائی ڈرامے  لکھے اور ڈراما نگاری کی روایت کو مزید استحکام بخشا۔

محمد مجیب
(1902 - 1985)
محمد مجیب لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد ایک معروف وکیل تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم لکھنؤ کے لاریٹو کانونٹ میں حاصل کی۔ اس کے بعد دہرہ دون کے ایک پرائیوٹ اسکول سے سینیر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔ 1919 میں محمد مجیب نے آکسفورڈ سے جد ید تاریخ میں بی۔ اے (آنرز) کیا۔ برلن میں ان کی ملا قات ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر سیّد عابد حسین سے ہوئی۔ وہیں انھوں نے جرمن اور روسی زبانیں سیکھیں ۔ فرانسیسی زبان وہ آکسفورڈ میں سیکھ چکے تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھ انھوں نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں کام کرنے کا عہد کیا۔ فروری 1926 میں وہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ ( وائس چانسلر) بنائے گئے اور وہ اس عہدے پر چوبیس برس تک فائز رہے۔ ان کا انتقال دہلی میں ہوا۔
مجیب صاحب انتظامی امور کے ساتھ تصنیف و تالیف کے کام میں بھی برابر لگے رہے۔ اردو اور انگریزی میں ان کی بہت سی کتا بیں شائع ہوئیں ۔ مجیب صاحب نے آٹھ ڈرامے لکھے جن کے نام ہیں : ”کھیتی“ ،” انجام‘‘، ”خانہ جنگی“،”حبہ خاتون “، ”،ہیروئن کی تلاش“، ”آزمائش“ اور ”دوسری شام“، اور بچوں کے لیے ایک ڈراما ”آؤڈراما کریں“ ۔ مجیب صاحب صاف، سادہ اور سلیس نثر لکھتے تھے۔ ان کے مکالموں میں بول چال کا فطری انداز ہے۔
نصاب میں جو ڈرامہ شامل ہے وہ مجیب صاحب کے ڈرامے آزمائش کا آخری ایکٹ ہے۔ یہ ڈراما 1857 کے الم ناک تاریخی واقعات پرمبنی ہے۔ جنرل بخت خاں اور اس کی ہندوستانی فوجوں کو شکست ہو چکی ہے۔ بہادر شاہ ظفر گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ انگریزوں کا دہلی پر قبضہ ہو جانے کے بعد  پکڑ دھکڑشروع ہو چکی ہے۔ رام سہائے کی بیوی بھاگ وتی نے جنگ آزادی کی دو مجاہد خواتین سلمیٰ  اور کشن کنور کو پناہ دے رکھی ہے۔ بخت خاں کے سپاہی اگر چہ ہار گئے ہیں لیکن ان کے حوصلے بلند ہیں۔

آزمائش
(آخری ایکٹ)
 رام سہائے مل کے مکان میں ایک چھوٹا سا دالان ۔ رات ہوگئی ہے ۔ ڈیوَٹ پر ایک دیا جل رہا ہے۔ رام سہائے مل اس کی روشنی میں کھانا کھا رہا ہے۔ بھاگ وتی ، اس کی بیوی، آنچل سے منھ بند کیے کھڑی ہے، اس کو پنکھا جھل رہی ہے اور چپکے چپکے رو رہی ہے۔ رام سہائے مل کو اس کے رونے کا احساس نہیں ہے اور وہ کھانا کھاتا رہتا ہے۔
رام سہائے مل  :  کہو، آج پانی کافی مل گیا؟
 بھاگ وتی : (روہانسی آواز میں ) ابھی شام کو رام پرشاد لے آیا۔ بہت دور جانا پڑا، آس پاس کے کنوؤں میں لاشیں پڑی ہیں ۔
 رام سہائے مل : رام رام ، رام رام ۔۔۔۔(اس کی طرف دیکھ کر ) مگرتم رو کیوں رہی ہو؟
بھاگ وتی : میرا بھی مر جانے کو جی چاہتا ہے۔
رام سہائے مل : کیوں ، تم کیوں بیٹھے بیٹھے جان سے بیزار ہوگئی ہو؟
بھا گ وتی : کیا بتاؤں؟
رام سہائے مل  : پر ماتما کا شکر کرو ۔ اتنی بڑی مصیبت آئی اور گزرگئی۔
بھاگ وتی : ہاں۔
رام سہائے مل : مگر ابھی بہت چوکس رہنا ہے۔ دیکھتی رہنا دروازے سے پہرے والے نہ ہٹیں۔
بھاگ وتی : نہیں ، میں تو برابر چکر لگاتی رہتی ہوں ۔
رام سہائے مل : اور کوئی اندر نہ آنے پائے ۔ مرد، عورت، بچہ۔
بھاگ وتی :  نہیں ، قصور ہوگا تو میرا ہو گا۔ میں کہہ دوں گی کہ میں نے آپ کو بتائے بغیر کیا ہے۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ جان پہچان کی کوئی عورت یا  بچّہ پناہ مانگے اور میں اسے پناہ نہ دوں ۔
رام سہائے مل : (بھاگ وتی کو دیر تک غور سے دیکھ کر )معلوم ہوتا ہے تم نے مجھے بتائے بغیر کسی کو گھر میں چھپا لیا ہے ۔ اب تو ہماری جان پر ماتما کی د یا سے ہی بچ سکتی ہے۔ تمھارا دل اتنا کمزور ہے تو تم مجھے کیوں نہیں بلا لیتی ہو؟
بھاگ وتی : میں چاہتی ہوں کہ آپ کو معلوم ہی نہ ہو۔
رام سہائے مل  : یہ کون مانے گا کہ میرے گھر میں آدمی چھپے ہیں اور مجھے معلوم نہیں۔
بھاگ وتی : آدمی نہیں، لاوارث عورتیں بھوکے پیاسے بچّے!
رام سہائے مل : کس کی عورتیں، کسی کے بچّے؟
بھاگ وتی : یہ میں پوچھتی ہی نہیں ہوں۔
رام سہائے مل : يا پوچھا ہے اور مجھے بتانا نہیں چاہتی ہو۔ ہمارے محلے میں ایسے لوگ ہیں ہی نہیں جنھوں نے بغاوت میں حصہ لیا ہو۔ یہ عورتیں اور بچے تو باہر سے آئے ہوں گے۔ (بھاگ وتی زمین پر بیٹھ کر اور اپنا منہ بند کر کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔ بتاؤ تو یہ ہیں کون؟ کبھی پوچھ تاچھ ہو تو میں جواب تو دے سکوں (بھاگ وتی سر ہلاتی ہے۔) اچھا، نہ بتاؤ۔ (خاموشی) جب لڑائی ہورہی تھی تو تمہاری زبان پر تین چار نام رہا کرتے تھے....................... بخت خاں کی آل اولاد یہاں تھی ہی نہیں، سدھاری سنگھ بھی باہر کا آدمی ہے۔ کیا کسی مسلمان عورت کو پناہ دی ہے؟.............. ہند و عورتوں میں تو تمھارے رانی کشن کنور سے تعلقات تھے۔ نہارسنگھ روپیہ وصول کرنے آنا چاہتا تو زمین تیار کرنے سے پہلے اسی کو بھیجتا تھا۔ مگر کیا معلوم رانی ب
بلّبھ گڑھ میں ہے یا یہاں ۔ بہر حال، جہاں بھی ہو، کوئی نہ کوئی اس کا پتہ دے گا ضرور ............ اگر نہار سنگھ کو پکڑ لیا ہے تو شاید اس کو تلاش نہ کرے۔
بھاگ وتی  : پکڑ لیا ہے! ( پھر زور سے روتی ہے)
رام سہائے مل :  پکڑ لیا ہے تو اب تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ اس کے برابر سونا دے کر اسے مول لینا چاہو تو نہ دیں گے ....... تو رانی کشن کنور نے تمہارے یہاں پناہ لی ہے.......... بے چاری! (رام سہائے سے اب اور کھایا نہیں جاتا۔ برتن سامنے سے کھسکا دیتا ہے۔ پانی پینا چاہتا ہے مگر پیالا دیر تک ہاتھ میں لیے رہتا ہے اور پی نہیں پاتا۔)
کیا بہت رورہی ہے؟
بھاگ وتی : (سر ہلا کر)نہیں، اس کا افسوس کر رہی ہے کہ جہادی عورتوں کے ساتھ میدان میں نہیں گئی اور ماری نہیں گئی۔
رام سہائے مل : رام رام، کیا ہمت ہے۔ اس کو اچھی طرح رکھنا۔ میں بھی کبھی اس کے درشن کروں گا۔ اس کا ہمارے گھرمیں رہنا کچھ ایسا خطرناک نہیں ہے۔ مسلمان عورت کی بات اور ہے۔
بھاگ وتی : ایک مسلمان بہن بھی ہے۔
رام سہائے مل : ہائے! کون؟
بھاگ وتی : سلمیٰ۔
رام سہائے مل : ارے وہی یوسف میاں کی منگیتر؟ وہ تو مورچوں پرلڑی بھی تھی۔
بھاگ وتی : ہاں اس نے گھروں کی چھتوں پر سے بھی گولی چلائی ۔ رانی کشن کنور بھی اس کے ساتھ بندوق چلا رہی تھیں۔پھر وہ زخمی ہوگئی ۔ رانی کشن کنور نے نہ جانے کس طرح اس کو یہاں پہنچایا۔ میں  تو سمجھتی تھی کہ مر جائے گی، مگر اب بھلی چنگی ہے۔ سوچ رہی ہے کہ کسی طرح دلّی سے نکل جائے اور بخت خاں کی فوج میں مل جائے۔رانی کشن کنور کہتی ہیں کہ وہ بھی ساتھ جائیں گی۔
 رام سہائے مل : دیکھو، یہ نہیں ہوسکتا۔ میں اس پر تیار ہوں کہ وہ یہاں چھپی رہیں، اور جب خطرہ نہ رہے تو چپکے سے چلی جائیں۔ یہاں وہ سال بھر تک رہیں ۔ مگر باہر جا کر پھر کہیں لڑائی میں شامل ہوئیں تو تم پکڑی جاؤ گی، اورمجھے تو ضرور پھانسی ہو جائے گی............... اور یوسف میاں کو کیا ہوا؟
بھاگ وتی : سلمیٰ کو کچھ معلوم نہیں۔
رام سہائے مل : اورتم کو معلوم ہوگا تو بتاؤ گی نہیں۔
بھاگ وتی : سنا ہے وہ آخر وقت تک لڑتے رہے۔ اردو بازار میں کسی گورے نے ایک عورت کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اسے جان سے مار دیا۔ اس میں نہ معلوم کتنے پکڑے گئے مگر وہ نہیں تھے۔ کہتے ہیں اب اردو بازار پر گولہ باری ہوگی ۔ ایک مکان بھی کھڑا نہ چھوڑا جائے گا۔
رام سہائے مل : اب پر ماتما بچائے ہم سب کو۔
(ایک عورت گھبرائی ہوئی اندر آتی ہے، اس کے منھ سے بات نہیں نکلتی ۔ پھر ایک ملازم آتا ہے۔)
ملازم : سرکار، دروازے پر چار سپاہی آئے ہیں۔ کہتے ہیں دروازہ کھولو، ہم تلاشی لیں گے۔
رام سہائے مل : میرے گھر میں نہیں آ سکتے۔ میرے پاس امان کا پروانہ ہے۔
ملازم : سرکار، وہ ہماری بات نہیں مانیں گے۔
بھاگ وتی : پروانہ میرے پاس ہے۔ چلو میں دکھا دوں گی۔
رام سہائے مل : تم کہاں جاؤ گی؟
بھاگ وتی : میں نہیں جاؤں گی تو اور کون جائے گا؟ میں نے مشہور کر دیا ہے کہ آپ انگر یز کمانڈروں سے بات چیت کررہے ہیں گھر پر نہیں ہیں۔
رام سہائے مل :  نہیں ، تم بیٹھو، میں جاتا ہوں۔
(بھاگ وتی جلدی سے دِیا بجھا کر بھاگ جاتی ہے۔ رام سہائے مل اندھیرے میں بیٹھا رہتا ہے۔ کچھ دیربعد دائیں طرف سے بھاگ وتی الٹے پاؤں چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چار سپاہی اسے سنگینوں سے دھمکا رہے ہیں ۔ پہلا سپاہی ان کا سردار معلوم ہوتا ہے۔)
پہلا سپاہی : بتا کہاں ہیں وہ دونوں!
بھاگ وتی : (سہمی ہوئی روہانسی ، مگر بہت دبی آواز میں ) یہاں کوئی نہیں چھپا ہے۔
پہلا سپاہی : یہاں دو عورتیں چھُپی ہیں ۔ ہمارے آدمیوں نے ان کو گولی چلاتے دیکھا، پھر وہ بھاگ کر اس گھر میں آتےہوئے دیکھی  گئیں۔ رام سرن اس عورت کو لے جا کر دیوار کے ساتھ کھڑا کرو، باقی تین آدمی فَیر کرو۔
(رام سرن بھاگ وتی کی طرف بڑھتا ہے۔)
رام سہائے مل  :  ارے تم لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ ایک بے قصور عورت کو اس طرح مار رہے ہو۔
پہلا سپاہی : اچھا، لالہ جی چھُپے بیٹھے ہیں ، سوچا تھاللائن ہم کو بہلا پھسلا کر رخصت کر دے گی۔ رام سرن! کھڑا کروا نھیں بھی للائن کے ساتھ۔
بھاگ وتی  : (چلّا کر) ا ے مجھے مار ڈالو، انھیں چھوڑ دو! یہ بالکل کچھ نہیں جانتے ! ارے یہ بالکل بے قصور ہیں۔
پہلا سپاہی : اچھا یہ بے قصور ہیں تو تمھیں تو معلوم ہے کہ دونوں عورتیں کہاں چھپی ہیں۔
بھاگ وتی : (ویسے ہی چلّا کر) ارے انھیں چھوڑ دو! ہائے میری قسمت! یہ بالکل بھی نہیں جانتے، ہائے ہائے!
(اسٹیج کے دائیں طرف کے کونے سےسلمیٰ اورکشن کنور اندر آتی ہیں۔)
سلمیٰ : ان دونوں کا پیچھا چھوڑ دو۔ ہم آگئے ہیں ہمیں جو سزا چاہو دے دو۔ سیٹھ صاحب اور ان کی بیوی بالکل بے قصور ہیں۔
پہلا سپاہی :  (سلمیٰ اورکشن کنور کو غور سے دیکھنے کے بعد) مجھے تو تم اسی گھرانے کی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔
 کشن کنور : ان دونوں کو چھوڑ دو۔ ہم تمھارے ساتھ چلنے کو تیار ہیں ۔ شہر میں ہزاروں آدمی ہم کو پہچان لیں گے۔
پہلا سپاہی : ہاں، میں تم کو لے کر باہر چلا جاؤں اور اس دوران میں اصلی مجرم نکل جائیں۔
سلمیٰ : تمھاری مرضی، بے گناہوں کا خون کرنا تو تمھارا کام ہی ہے۔
پہلا سپاہی : اچھا تو بتاؤ، کیا نام ہیں تمھارے؟
سلمیٰ : سلمیٰ
کشن کنور : کشن کنور
پہلا سپاہی : تم اپنے جرم کا اقبال کرتی ہو؟
سلمیٰ : ہم نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہم اپنے ملک کے لیے، اپنے بادشاہ کی طرف سے لڑے ہیں۔
پہلا سپاہی : تم لڑائی میں شریک ہوئی ہو؟
سلمیٰ :  دل و جان سے ہم شریک ہوئے ، ہم نے دوسروں کو لڑنے پر آمادہ کیا۔ ہم مورچوں پر لڑے، ہم نے دشمنوں کو مارا۔
کشن کنور : ہمیں افسوس اس کا ہے کہ اس سے زیادہ نہ کر سکے۔
پہلا سپاہی : تو جاؤ کھڑی ہو جا ؤ دیوار سے لگ کر۔
سلمیٰ  : ہم دیوار سے لگ کر کیوں کھڑے ہوں؟ ہم صحن میں کھڑے ہوں گے اور تمھاری بندوقوں پر ہنسیں گے۔
پہلا سپاہی : تو چلو کھڑی ہو جاو ٔ! اسی بات پر۔
(سلمیٰ اورکشن کنور  بیچ صحن میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ پہلے سپاہی کے اشارے پر تین سپاہی ان سے تین چار قدم ہٹ کر اور ایک گھٹنے کو زمین پر ٹیک کر بندوقیں تانتے ہیں ۔ بھاگ وتی چیخ مار کر سپاہیوں اور دونوں عورتوں کے بیچ میں آ جاتی ہے۔ مگر غش کھا کر گر پڑتی ہے۔ سپاہی بندوقیں تانے رہتے ہیں، مگر انھیں فائر کرنے کا حکم نہیں ملتا۔سلمیٰ کے چہرے پر مسکراہٹ ہے اور وہ بندوقوں کی طرف دیکھتی رہتی ہے ۔ کشن کنور کی نظر آسمان کی طرف ہے، اس کے چہرے پر وجد کی کیفیت ہے۔ سپاہی  فائرنہیں کرتے۔ ایک بارگی پہلا سپاہی گھٹنوں پر جاتا ہے۔)
پہلا سپاہی : (ہاتھ جوڑ کر) ہماری خطا معاف کیجیے۔ ہم صرف اس کا یقین کرنا چاہتے تھے کہ آپ وہی ہیں جنھیں ڈھونڈ کرلانے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا۔
(تقدیر کے اس انقلاب کو برداشت کر ناسلمیٰ اورکشن کنور کے بس میں نہیں ۔کرشن کنور چیخ مار کر گر پڑتی ہے۔سلمیٰ کی آنکھیں چڑھ جاتی ہیں ، ہاتھ پاؤں جواب دے دیتے ہیں اور وہ زمین پر ڈھیر ہو جاتی ہے۔)
رام سہائے مل : ظالموں! اب کب تک ان بے چاریوں کو ستاؤ گے؟ ارے مارنا ہے تو ایک دفعہ مار دو۔
پہلا سپاہی : (انتہائی ندامت کے انداز میں ) ہم انھیں تکلیف دینا نہیں چاہتے تھے، ان کے دل کی آرزو پوری کرناچاہتے تھے۔ ہمیں جنرل بخت خاں نے انگریزی فوج کی وردیاں پہنا کر بھجوایا ہے کہ انھیں جلد سے جلد تلاش کر کے ان کے پاس پہنچا دیں ۔ ہم نے ان کو صحیح سلامت نہ پہنچایا تو ہمارے گولی مار دی جائے گی، یا انگریز ہمیں پکڑ کر پھانسی دے دیں گے۔
( بھاگ وتی اس دوران میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے، اورکشن کنور اورسلمیٰ کے منھ پر پانی کے چھینٹے دیتی ہے اور ان کے سر سہلاتی ہے۔)
بھاگ وتی : اٹھو پیاری ، تمھارے بخت خاں نے تمھیں بلایا ہے۔ اپنے پیاروں کا بدلہ لو، اپنے ملک کی آبرو بڑهاؤ!
(آہستہ آہستہ سلمیٰ اورکشن کنور کو ہوش آتا ہے۔ وہ اٹھ کر بیٹھتی ہیں ۔ بھاگ وتی ا نھیں پانی پلاتی ہے۔)
پہلا سپاہی : آپ سے پھر آپ کے قدموں پر گر کر معافی مانگتا ہوں ۔ (سلمیٰ اورکشن کنور مسکرا دیتی ہیں۔) مگر ابھی ایک اور گستاخی کرنا ہے۔ ہم آپ کو شہر کے باہر صرف قیدی بنا کر لے جا سکتے ہیں۔ ہمیں آپ کی مُشکیں کسنا ہوں گی اور گلے میں رسیّاں باندھنا۔
(سلمیٰ اورکشن کنور ایک دوسرے کی طرف دیکھتی ہیں۔ پھر دونوں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ سپاہی جلدی جلدی اُن کی مشکیں کستے ہیں اور گلے میں پھندا ڈالتے ہیں ۔ پھر ایک سپاہی آگے، دو پیچھے اٹینشن ہو جاتے ہیں۔ پہلا سپاہی روانگی کا حکم دیتا ہے۔)

خلاصہ:



خلاصه:۔ آپ نے اس ڈرامے کے تعلق سے پڑھا ہے کہ محمد مجیب صاحب نے 1857 کے الم ناک واقعات پر مبنی ایک ڈراما لکھا تھا۔ آپ کے نصاب میں اس ڈرامے کا آخری ایکٹ ہے، اس ایکٹ سے پہلے بہادر شاہ ظفر گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ جنرل بخت خاں اور ان کی ہندوستانی فوجوں کو شکست ہو چکی ہے۔ انگریزوں کا دہلی پر قبضہ ہو جانے کے بعد پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ہے۔ لالہ رام سہائے کی بیوی بھاگ وتی نے جنگ آزادی کی دو مجاہد عورتوں سلمی اور کشن کنورکو پناہ دے رکھی ہے جس کاعلم لالہ رام سہاۓ کونہیں ہے۔
رات کا وقت ہے اور رام سہائے مل کھانا کھارہے ہیں۔ اس کی بیوی بھاگ وتی آنچل سے منہ چھپائے کھڑی ہے اور پنکھا جھلتے ہوئے چپکے چپکے رورہی ہے۔ لالہ رام سہاۓ مل اسے سمجھاتے ہیں کہ کسی کو گھر میں نہ آنے دیں ۔ بھاگ وتی کہتی ہے کہ میں ایسا نہیں کرسکتی اگر کوئی جان پہچان والا آئے اور میں اس کو پناہ نہیں دوں۔ رام سہائے مل سمجھ جاتا ہے کہ گھر میں کوئی موجود ہے۔ پوچھتا ہے تو بھاگ وتی بتاتی ہے کہ رانی کشن کنور اور سلمی جو مورچوں پرلڑی تھیں اس وقت پناہ میں موجود ہیں مگر وہ جلد از جلد یہاں سے باہر جانا چاہتی ہیں اور بخت خاں کی فوج میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ اسی دوران ایک عورت گھبرائی ہوئی آتی ہے اسکے بعد ایک ملازم آ کر اطلاع دیتا ہے کہ چار سپاہی آئے ہیں اور کہتے ہیں دروازہ کھولو تلاشی لینی ہے رام سہائے مل کہتا ہے وہ میرے گھر میں نہیں آ سکتے، میرے پاس امان کا پروانہ ہے۔ ملازم کہتا ہے کہ سرکار وہ ہماری بات نہیں مانیں گے۔ بھاگ وتی رام سہاۓ ل کو چھوڑ کر باہر جاتی ہے۔ وہ سپاہیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے
کہ ہمارے پاس امان کا پروانہ ہے اور ہمارے گھر میں کوئی نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد سپاہی اسے دھمکاتے ہوئے واپس لے آتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ وہ دونوں کہاں ہیں؟ بھاگ وتی کے نہ بتانے پر سپاہی اسے دیوار کے سہارے کھڑا کردیتے ہیں، اس پر گولی چلانے کیلئے کہا جاتا ہے، اسی دوران رام سہائے باہر نکل آتا ہے تو سپاہی اسے پکڑ لیتے ہیں، تب بھاگ وتی کہتی ہے کہ یہ کچھ نہیں جانتے، انہیں چھوڑ دو، یہ بے قصور ہیں۔ سپاہی پھر پوچھتے ہیں کہ دونوں کہاں ہیں؟ اسی وقت سلمی اورکشن کنور وہاں آجاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ انہیں چھوڑ دو، یہ بے قصور ہیں ۔ سپاہی کو یقین نہیں آتا وہ ان سے کہتا ہے کہ دیوار سے لگ کر کھڑی ہو جائیں ، تم انہیں بچانے کیلئے جھوٹ بول رہی ہو سلمی اورشن کنور آسمان کے نیچے سینہ تان کر کھڑی ہو جاتی ہیں، ان دونون کے چہروں پرخوف نہیں ، چہرے مسکراتے ہوئے ہیں تبھی پہلا سپاہی کہتا ہے کہ ہمیں بخت خاں نے بھیجا ہے اور آپ کو ڈھونڈ کر لانے کیلئے کہا ہے۔ اتنا سننے کے بعد وہ دونوں بیہوش ہو جاتی ہیں۔ بھاگ وتی انہیں اٹھاتی ہے اور ان سے کہتی ہے کہ یہ لوگ تمہیں بخت خاں کے پاس لے جانے آئے ہیں تبھی سپاہی ان سے کہتے ہیں کہ ہمیں ایک گستاخی کرنی ہوگی ، ہم آپ کو شہر کے باہر صرف قیدی بنا کر لے جا سکتے ہیں ہمیں آپ کی مشکیں کسنا ہوں گی اور گلے میں رسیاں باندھنا۔ پھر سپاہی انہیں باندھ کر اس طرح باہر لے جاتے ہیں جیسے ان کے ساتھ خطرناک قیدی ہوں۔
سوالوں کے جواب لکھیے 
1.رام سہائے اور اس کی بیوی بھاگ وتی کے خیالات میں کیا فرق تھا؟
جواب: بھاگ وتی ایک جذباتی عورت ہے وہ دوسروں کی مددکرنا بھلائی سمجھتی ہے۔ اور اپنے آپ کوخطرے میں ڈال سکتی ہے، اس کا پتی رام سہائے مل اس سے مختلف ہے وہ اپنی جان کی فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں کوئی آفت نہ آجائے۔ فطرتاً وہ کمزور دل اورڈرپوک ہے۔
2.رام سہائےمل کے دروازے پر سپاہی آئے تو اس نے کیوں کہا کہ میرے پاس امان کا پروانہ ہے؟
جواب:رام سہائے مل کے گھر جب سپاہی پہنچے تا کہ وہ گھر کی تلاشی لیں تو رام سہائےمل نے کہا کہ وہ ایسا  نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے پاس انگریزوں کا دیا ہوا وہ حکم نامہ ہے جس کے تحت اس کی حفاظت کی جائےگی۔ اور سپاہی اسے کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اسلئے اس حکم نامے کو امان کا پروانه ( آرڈر لیٹر) کہا۔
سوال 3.سپاہی سلمی اورکشن کنور کی مشکیں کس کر شہر سے باہر کیوں لے جانا چاہتے تھے؟
جواب:سپاہی سلمی اورکشن کنور کو اسلئے مشکیں کس کر شہر سے باہر لے جانا چاہتے تھے کہ کوئی انہیں پہچان کر انگریز سپاہیوں کو نہ بتادے۔ مشکیں کسنے کی صورت میں ان کے پہچاننے والے جان لیں گے کہ - انہیں انگریزوں نے گرفتار کروایا ہے اور شہر سے باہر بھیجا جارہا ہے۔

Hindu Musalman By Tilok Chand Mehroom NCERT Class IX Chapter 1

ہندو مسلمان
تلوک چند محروم

ہندو مسلمان، ہیں بھائی بھائی
تفریق کیسی، کیسی لڑائی 
ہندو ہو کوئی یا ہو مسلماں
 عزت کے قابل ہے بس وہ انساں 
نیکی ہو جس کا کار نمایاں 
اوروں کی مشکل ہو جس سے آساں
ہر اک سے نیکی ، سب سے بھلائی
ہندو مسلمان سب بھائی بھائی 
دونوں کا مسکن ہندوستاں ہے
 دوو بلبلیں ہیں اک گلستاں ہے
 اک سر زمیں ہے اک آستاں ہے
 دونوں کا یک جا سود و زیاں ہے
نا اتفاقی آزار جاں ہے
مل جل کے رہنا ہے کامرانی
 ہندو مسلمان، قومیں پرانی

تلوک چند محروم
(1887 – 1966)
تلوک چند محروم ، دریائے سندھ کے مغربی کنارے تحصیل عیسیٰ خیل، ضلع میاں والی میں پیدا ہوئے۔ وہیں ابتدائی تعلیم پائی۔ پھر بی۔ اے کی سند حاصل کی۔ 1908 میں مشن ہائی اسکول، ڈیرہ اسماعیل خاں میں استاد کے عہدے پر تقرر ہوا۔ 1944 سے 1947 تک کا رڈن کالج، راولپنڈی میں اردو ، فارسی کے لیکچرر رہے۔ 1948 میں کیمپ کا لج دہلی میں اردو کے لیکچرر بنے۔ شعر و شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ محروم قادر الکلام شاعر تھے۔ انھوں نے کئی شعری اصناف میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کلام رباعیات محروم، گنج معانی کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

مشق
معنی یاد کیجیے:
تفریق : فرق
کارِ نمایاں : وہ کام جس سے سب واقف ہوں،بڑا اور تعاریف کے قابل کام
مسکن : رہنے کی جگہ،گھر
گلستاں : باغ
سرزمیں : زمین،وطن
یک جا : ایک جگہ
سود و زیاں : فائدہ اور نقصان
نا اتفاقی : میل جول نہ ہونا
آزارِ جاں : جان کا دکھ
کامرانی : کامیابی
سوچیے اور بتائیے:
1.عزت کے قابل کون ہیں؟
جواب : شاعر نے عزت کے قابل اُسے بتایا ہے جو نیک ہو اور دوسروں کا بھلا چاہتا ہو۔  اور جس کی وجہ سے اوروں کا کام آسان ہوتا ہو۔
2.نظم میں بلبلیں اور گلستان کے الفاظ کس کے لیے استعمال کیے گئے ہیں؟
جواب: اس نظم میں بلبلیں سے مراد اس ملک میں رہنے والے  ہندو اور مسلماان ہیں اور گلستان سے مراد ہندوستان ہے۔ جس طرح دو بلبلیں ایک باغ کو خوش نما بناتی ہیں  ویسے ہی ہندو اور مسلمان  ہندوستان کی شان بڑھاتے ہیں۔ شاعر نے ہندو اور مسلم کے لیے بلبل کی مثال دی ہے اور گلستاں یعنی ہندوستان کو ان کا مسکن قرار دیا ہے۔ 
3. نااتفاقی کو آزارِ جاں کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: شاعر نے نااتّفاقی کو آزارِ جان اس لیے کہا ہے کہ اس سے انسان کے لیے بہت ساری مشکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر آپس میں اتفاق نہ ہو تو دشمن آپ پر بہت جلد قابو پا لیتا ہے اور آپ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔
4. کامرانی کا راز کیا ہے؟
جواب: آپس میں مل جل کر رہنا ہی کامرانی کا راز ہے۔ شاعر نے اس نظم میں ہندوؤں اور مسلمانوں سے آپس میں مل جل کر رہنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ اسی میں ملک کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔ شاعر نے دونوں ہی قوموں کو بھائی چارے کا سبق سکھایا ہے۔
غور کیجیے:
٭ مل جل کر رہنے میں ہی کامیابی ہے۔لڑائی جھگڑے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ تمام قوموں کو مل جُل کر رہنا چاہیے۔
نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے واحد بنائیے:
اَوروں : اَور
بلبلیں : بلبل
قومیں : قوم
نیکیاں : نیکی

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے:
اتفاق : نااتفاقی، نفاق 
آسان : مشکل
آسماں : زمیں
کامرانی :ناکامی
عزت : ذلت

عملی کام
* اس نظم کو زبانی یاد کیجیے۔

Saturday, 6 June 2020

Nawa e Urdu Class 10 Content

(اس صفحہ پر کام جاری ہے)
ترتیب
(جن اسباق پر لال نشان لگا ہے وہ اس سال جامعہ ملیہ اسلامیہ کےسلیبس سےباہر ہے۔)
افسانہ
بھولا  راجندر سنگھ بیدی
نیا قانون  سعادت حسن منٹو
بھیک حیات اللہ انصاری

سوانح
 سرسید کا بچپن  الطاف حسین حالی
 ڈراما
 آزمائش  محمد مجیب
 آپ بیتی
 چوری اور اس کا کفّارہ  سید عابد حسین
مضمون
عورتوں کے حقوق  سر سید احمد خاں
مخلوط زبان  مولوی عبد الحق
چکبست لکھنوی آلِ احمد سرور
اشتہارات’ضروری نہیں ہے‘ کے  ابن انشا
ماحول بچائیے محمد اسلم پرویز

حصّہ نظم
 غزل
بہار بے سپر جام و یار گزرے ہے  سودا
لائی حیات آئے قضا لے چلی، چلے  ذوق
 ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ،ملنے کو نہیں نایاب ہیں ہم  شاد عظیم آبادی
 دنیا میری بلا جانے،مہنگی ہے یا سستی ہے  فانی
آلامِ روزگار کو آساں بنا دیااصغر گونڈوی
 ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا  یاس یگانہ چنگیزی
 نظم
 جلوۂ دربارِ دہلی  اکبر الہ آبادی
 حقیقتِ حسن  اقبال
 گرمی اور دیہاتی بازار  جوش
او دیس سے آنے والے بتا  اختر شیرانی
آندھی کیفی اعظمی

رباعی
 گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں انیس
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہےانیس
فطرت کی دی ہوئی مسرت کھو کر تلوک چند محروم
مذہب کی زباں پر ہے نکوئی کا پیام تلوک چند محروم
اک حلقۂ زنجیر تو زنجیر نہیں فراق
ہر عیب سے مانا کہ جدا ہوجائے فراق

Jaan Pehchan Class 9 Urdu

via GIPHY

ترتیب
ہندو مسلمان تلوک چند محروم
بہادر شاہ کا ہاتھی میر باقر علی دہلوی
نادان دوست منشی پریم چند
اوس خواجہ حسن نظامی
ایک دیہاتی لڑکی کا گیت اختر شیرانی
چڑیا گھر کی سیر ادارہ
بہادر بنو(نظم) سورج نرائن مہر
احسان کا بدلہ احسان ڈاکٹر ذاکر حسین
جنگل کی زندگی ادارہ
بانسری والا( ڈرامہ،جرمن کہانی) ترجمہ
ایک پودا اور گھاساسمٰعیل میرٹھی
ریڈ کراس سوسائٹی ماخوذ
سند باد جہازی کا ایک سفرترجمہ
کہاوتوں کی کہانیفرقت کاکوروی
چھٹی کا دن(نظم) حامد حسن قادری
تنکا تھوڑی ہواسے اڑ جاتا ہے محمد مجیب
دوہے کبیر
مصنوعی سیاّرہ ادارہ
بہار کے دنافسر میرٹھی
گاؤں پنچایت ماخوذ
ملا نصر الدین احمد جمال پاشا
وقتڈپٹی نذیر احمد

Bahadur Shah Ka Hathi By Mir Baqar Ali Dehlavi NCERT Class IX Chapter 2

(اس صفحہ پر کام ابھی جاری ہے)
بہادر شاہ کا ہاتھی
سوچیے اور بتائیے
1. بہادر شاہ نے لاہوری دروازہ کیوں توڑ وایا؟
جواب: بہادر شاہ کے پاس ایک بہت  بڑا ہاتھی تھا جس کا نام مولا بخش تھا۔ یہ ہاتھی اتنا اونچا تھا کہ جب اس پر عماری کسی جاتی تھی تو وہ دلّی کے کسی بھی دروازہ سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ وہ چاروں گھٹنے ٹیک کے شہر سے باہر جاتا تھا اور اسی طرح اندر داخل ہوتا تھا۔ اس لیے بہادر شاہ بادشاہ نے اسی کہ واسطے لاہوری دروازہ توڑوا کر اسے اونچا کروادیا تھاتاکہ وہ آسانی سے باہر نکل سکے۔۔

2. مولا بخش کے پاس بچّے کیوں آتے تھے؟
جواب: جب مولا بخش نے سید صاحب کو مستی میں پاؤں کے نیچے کچل دیا تو ان کی بیوہ اپنے بچے کے ساتھ آئی اور بچے کو اُسکے سامنے رکھ دیا تب تک مولا بخش کی مستی ختم ہو گئی تھی اُس کی  سید صاحب کہ بچےسے دوستی ہو گئی۔ ہاتھی کو بچّے سے کھیلتا دیکھ کر اُس بچے کے ساتھ باقی بچے بھی آنے لگے۔ مولا بخش ان بچّوں کے ساتھ کھیلتا تھا اور وہ جو کہتے تھے کرتا تھا۔

3. ہاتھی کی روٹی کیسی تھی؟
 جواب: ہاتھی کی روٹی بہت موٹی ہوتی تھی اور وہ اتنی سخت ہوتی تھی کہ بہت مشکل  سے ٹوٹتی تھی۔

4. مولا بخش نے کھانا کیوں بند کردیا تھا؟
جواب: جب فيل بان نے بادشاہ سے کہا کہ مولا بخش اپنا سارا کھانا بچوں میں بانٹ دیتا ہے اور ان کی ساری باتیں مانتا ہے اس لیے آپ حکم کیجیے کہ کوئی بچّہ اُس کے پاس نہ آئے۔ اگلے دن مولا بخش بچوں کا انتظار کرتا رہا جب کوئی بچّہ اُس کے قریب نہیں آیا تو مولا بخش نے کھانا کھانا چھوڑ دیا۔

5.بادشاہ اور مولا بخش میں کونسی باتیں ملتی جلتی تھی؟
جواب: بادشاہ اور مولا بخش میں ایک ہی بات ملتی تھی کہ بادشاہ بھی اپنا کھانا بانٹ کر کھاتا تھا اور مولا بخش بھی اپنا کھانا بچوں میں بانٹ کر کھاتا تھا۔ 

نیچے لکھے محاوروں سے جملے بنائیے
آنکھ سے اوجھل ہونا : تیز رفتار ہاتھی دیکھتے ہی دیکھتے آنکھ سے اوجھل ہوگیا

 ٹس سے مس نہ ہونا  : فضا پختہ ارادے والی لڑکی ہے ایک بار فیصلہ کرلے تو ٹس سے مس نہیں ہوتی ہے۔
 نظریں بچانا: رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر چور سپاہی سے نظریں بچانے لگا

نیچے لکھے لفظوں کے متضاد لکھیے
بلند : پست
غافل (جمع۔ غافلین) : ہوشیار، با خبر
بے قابو : قابو
سربلند : سرنگوں
صبح : شام

Friday, 5 June 2020

Sir Syed Ka Bachpan By Altaaf Hussain Hali NCERT Class 10 Chapter 4

(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
سرسید کا بچپن
خواجہ الطاف حسین حالی
سرسیّد کے خاندان کا حال جس قدر ہم نے لکھا ہے شاید ناظرین کتاب اس کو قدرے ضرورت سے زیادہ خیال کریں لیکن بائیوگرافی کا اصل مقصد جو ہیرو کے اخلاق و عادات و خیالات کا دنیا پر روشن کرنا ہے وہ اْس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک یہ نہ کہا جائے کہ ہیرو میں اخلاق و عادات اور خیالات کہاں سے آئے؟ اور اْن کی بنیاد اْس میں کیونکر پڑی؟ انسان میں کچھ خصلتیں جبلّی ہوتی ہیں جو آباواجداد سے بطور میراث کے اْس کو پہنچتی ہیں ۔ اور زیادہ تر وہ اخلاق و عادات ہوتے ہیں جو بچپن میں نامعلوم طور پر وہ اپنے خاندان کی سوسائٹی سے اکتساب کرتا ہے اور جو رفتہ رفتہ اس درجہ تک پہنچ جاتے ہیں جس کی نسبت حدیث میں آیا ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو ٹل جائے لیکن آدمی اپنی جبلّت سے نہیں ٹل سکتا۔ پس ہیرو کے خاندان کا حال جس میں وہ پیدا ہوا اور اْس سوسائٹی کا حال جس میں اس نے نشوونما پائی درحقیقت ہیرو کے اخلاق و عادات پر ایک ایسی روشنی ڈالتا ہے جس کے بعد کسی اور ثبوت کے پیش کرنے کی چنداں ضرورت باقی  نہیں رہتی ۔
         سرسیّد کے پیدا ہونے ے پہلےان کی بہن صفیتہ النسااور ان کے بھائی سیّد محمد خاں پیدا ہو چکے تھے۔ سید محمد خاں کے پیدا ہونے کی اْن کو نہایت خوشی ہوئی۔ سرسیّد سے چند مہینے پہلے اْن کے ماموں نواب زین العابدین خان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جس کا نام حاتم علی خاں تھا۔ سرسیّد کو اوّل حاتم علی خان کی والدہ نے دودھ پلایا اور پھر خود سرسیّد کی والدہ نے۔ وہ اپنے خاندان کے اکثربچوں کی نسبت ز یا دہ قوی  اور توانا اور ہاتھ پاؤں سے تندرست پیدا ہوۓ تھے۔
             سرسیّد کے بیان سےمعلوم ہوتا تھا کہ ان کے بچپن میں جسمانی صحت اور فزیکل قابلیت کے سوا کوئی ایسی خصوصیت جس سے اْن کے بچپن کو معمولی لڑکوں کے بچپن پر بے تکلف فوقیت دی جا سکےنہیں پائی جا تی تھی ۔یعنی جیسے کہ بعضے بچےابتدامیں نہایت ذکی اور طبّاع اور اپنے ہمجولیوں میں سب سے زیادہ تیز اور ہوشیار ہوتے ہیں سرسید میں کوئی اس قسم کا صریح امتیاز نہ تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے قوائے ذہنیہ کومحض دماغی ریاضت اور لگاتار غور وفکر سے بتدریج ترقی دی تھی اور اسی لیے ان کی لائف کا آغاز معمولی آدمیوں کی زندگی سے کچھ زیاد و چمکدار معلوم نہیں ہوت۔لیکن جس قدر آگے بڑھتے جایئے اْسی قدر اس میں زیاد وعظمت پیدا ہوتی جاتی ہے ، یہاں تک کہ  ہیرو کو  معمولی آدمیوں کی سطح سے بالاتر کر دیتی ہے۔ اسی لیے بعض حکما کی یہ رائے ہے کہ محنت سے آدمی جو چاہے سو ہوسکتا ہے۔  
      سرسیّد کو مسماة ماں بی بی نے جو ایک قدیم خیر خواہ خادمہ اْن کے گھرانے کی تھی، پالا تھا۔ اس لیے ان کو ماں بی بی سے نہایت محبت تھی۔ وہ پانچ برس کے تھے جب ماں بی بی کا انتقال ہوا۔ اْن کا بیان ہے کہ "مجھے خوب یاد ہے ماں بی بی مرنے سے چند گھنٹے پہلے فالسے کا شربت مجھ کو پلا رہی تھی۔ جب وہ مرگئی تو مجھے اْس کے مرنے کا نہایت رنج ہوا۔ میری والدہ نے مجھے سمجھایا کہ وہ خدا کے پاس گئی ہے۔ بہت اچھے مکان میں رہتی ہے۔ بہت سے نوکر چاکر اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کی بہت آرام سے گزرتی ہے تم کچھ رنج مت کرو۔ مجھ کو ان کے کہنے سے پورا یقین تھا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے۔ مدت تک ہر جمعرات کو اْس کی فاتحہ ہوا کرتی تھی اور کسی محتاج کو کھانا دیا جاتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ سب کھانا ماں بی بی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس نے مرتے وقت کہا کہ میرا تمام زیور سیّد کا ہے مگر میری والدہ اس کو خیرات میں دینا چاہتی تھیں۔ ایک دن انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر تم کہو تو یہ گہنا ماں بی بی کے پاس بھیج دوں ، میں نے کہا ہاں بھیج دو۔ والدہ نے وہ سب گہنا مختلف طرح سے خیرات میں دے دیا۔
     بچپن میں سرسیّد پر نہ تو ایسی قید تھی کہ کھلنے کودنے کی بالکل بندی ہو اور نہ ایسی کی آزادی تھی کہ جہاں چاہیں اور جن کے ساتھ چاہیں کھیلتے کودتے پھر یں ۔ ان کی بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ خود ان کے ماموں ان کی خالہ اور دیگر نزدیکی رشتہ داروں کے چودہ پندرہ لڑکے ان کے ہم عمر تھے جو آپس میں کھیلنے کودنے کے لیے کافی تھے۔ اس لیے ان کو نوکروں اور اجلافوں کے بچوں اور اشرافوں کے آوارہ لڑکوں سے ملنے جلنے اور ان کے ساتھ کھیلنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ ان کے بزرگوں نے یہ اجازت دے رکھی تھی کہ جس کھیل کو تمھارا جی چاہے شوق  سے کھیلومگرکسی کھیل کو چھپا کر مت کھیلو ۔ اس لیے سب لڑ سکے جو کھیل کھیلتے تھے اپنے بڑوں کے سامنے کھیلتے تھے۔ ان کے کھیلوں میں کوئی بات ایسی نہ ہوتی تھی جو اپنے بزرگوں کے سامنے نہ کرسکیں ۔ خواجہ فرید کی حویلی جس میں وہ اور ان کے ہم عمر لڑکے رہتے تھے اس کا چوک اور اس کی چھتیں ہرقسم کی بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے لیے کافی تھیں ۔ ابتدا میں وہ اکثر گیند،
بلا، کبڈی ، گیڑ یاں، آنکھ مچولی، چیل چلو وغیرہ کھیلتے تھے۔ اگر چہ گیڑیاں کھیلنےکواشراف معیوب جانتے تھے مگر ان کے بزرگوں نے اجازت دے رکھی تھی کہ آپس میں سب بھائی مل کر گیڑیاں بھی کھیلوتو کچھ مضائقہ نہیں۔
           ان کا بیان تھا کہ" باوجود اس قدر آزادی کے بچپن میں مجھے تنہا باہر جانے کی اجازت نہ تھی ، جب میری والدہ نے اپنے رہنے کی جداحویلی بنائی اور وہاں آرہیں تو باوجود یہ کہ اس حویلی میں اور نانا صاحب کی حویلی میں صرف ایک سڑک در میان تھی۔ جب کبھی میں اْن کی حویلی میں جاتا تو ایک آدمی میرے ساتھ جاتا۔ اسی لیے بچپن میں مجھے گھر سے باہر جانے اور عام صحبتوں میں بیٹھنے یا آوارہ پھرنے کا بالکل اتفاق نہیں ہوا۔ٗ ٗ
           سرسید لکھتے ہیں کہ " میرے نانا صبح  کا کھانا اندر زنانے میں کھاتے تھے ۔ ایک چوڑا  چکلا دسترخوان بچھتا تھا۔ بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور بیٹوں کی بیویاں سب ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، بچوں کے آ گےخالی رکابیاں ہوتی تھیں ۔ نانا صاحب ہرایک سے پوچھتے تھے کون سی چیز کھاؤ گے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اس کی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے بہت ادب اور صفائی سے ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئی چیز گرنے نہ پائے ہاتھ کھانے میں زیادہ نہ بھرے، اور نوالا چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ باہر دیوان خانے میں کھاتے تھے۔ زنانہ ہو جاتا تھا، میری والدہ اور میری چھوٹی خالا کھانا کھلانے آتی تھیں ۔ ہم سب لڑ کے ان کے سامنے بیٹھتے تھے۔ ہم کو بڑی مشکل پڑتی تھی۔ کسی کے پائوں کا دھبّا سفید چاندنی پر لگ جاتا تھا تو نہایت ناراض ہوتے تھے۔ روشنائی وغیرہ کا دھبّا کسی کے کپڑے پر ہوتا تھا تو اس سے بھی ناخوش ہوتے تھے۔ شام کو چراغ جلنے کے بعد اْن کے پوتے اور نواسے جو مکتب میں پڑھتے تھے اور جن میں سے ایک میں بھی تھا، ان کوسبق سنانے جاتے تھے۔ جس کا سبق اچھا یا د ہوتا اس کو کسی قسم کی عمدہ مٹھائی ملتی اور جس کو یاد نہ ہوتا اس کو کچھ نہ دیتے اور گْھڑک دیتے۔"
          گرمی اور برسات کے موسم میں اب بھی دلّی کے اکثر باشندے سہ پہر کو جمنا پر جا کر پانی کی سیر دیکھتے ہیں اور تیرنے والے تیرتے ہیں ، مگر پچاس برس پہلے وہاں اشراف تیرنے والوں کے بہت دلچپ جلسے ہوتے تھے۔ سرسیّد کہتے تھے کہ میں نے اور بڑے بھائی نے اپنے والد سے تیرنا سیکھا تھا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ایک طرف دلّی کے مشہور  تیراک مولوی علیم اللہ کا غول ہوتا تھا جن میں مرزا مغل اور مرز الطفل بہت سر برآورده نامی تھے ۔ اور دوسری طرف ہمارے والد کے ساتھ سوسواسو شاگردوں کا گروہ ہوتا تھا۔ یہ سب ایک ساتھ دریا میں کودتے تھے اور مجنوں کے ٹیلے سے شیخ محمدکی بائیں تک یہ سارا گروہ تیرتا جاتا تھا۔ پھر جب ہم دونوں بھائی تیرنا سیکھتے تھے تو اس زمانے میں بھی تیس چالیس آدمی والد کے ساتھ ہوتے تھے۔ انھیں دونوں میں نواب اکبر خاں اور چند اور رئیس زادے بھی تیرنا سیکھتے تھے۔ زینت المساجد کے پاس نواب احمد بخش خاں کے باغ کے نیچے جمنا بہتی تھی۔ وہاں سے تیرنا شروع ہوتا تھا۔ مغرب کے وقت سب تیراک زینت المساجد میں جمع ہوجاتے تھے اور مغرب کی نماز جماعت سے پڑھ کر اپنے اپنے گھر چلے آتے تھے۔ میں ان جلسوں میں اکثر شریک ہوتا تھا ۔‘‘
     تیراندازی کی صحبتیں بھی سرسید کے ماموں زین العابدین خاں کے مکان پر ہوتی تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے اپنے ماموں اور والد کے شوق کا وہ زمانہ جب کہ نہایت دھوم دھام سے تیر اندازی ہوتی تھی یا دنہیں ۔مگر جب دوباره تیراندازی کا چرچا ہوا وہ بخوبی یاد ہے۔ اس زمانے میں دریا کا جانا موقوف ہو گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد تیراندازی شروع ہوتی تھی ۔ نواب فتح اللہ بیگ خاں، نواب سید عظمت اللہ خاں ، نواب ابراہیم علی خاں اور چند شاہزادے اور رئیس اور شوقین اس جلسہ میں شریک ہوتے تھے۔ نواب شمس الدین خاں رئیس فیروز پور جھر کہ جب دلّی میں ہوتے تھے تو وہ بھی آتے تھے۔ میں نے بھی اسی زمانے میں تیراندازی سیکھی اور مجھ کو خاصی مشق ہوگئی تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ میر ا   نشا نہ جوتو دے میں نہایت صفائی اور خوبی سے جا کر بیٹھا تو والد بہت خوش ہوئے اور کہا مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے" یہ جلسہ  برسوں تک رہا پھر موقوف ہو گیا۔
        دلّی سے سات کوس مغل پور ایک جاٹوں کا گاؤں ہے ۔ وہاں سرسیّد کے والد کی کچھ ملک بطور معافی کے تھی۔ اگر کبھی فصل کے موقع پر ان کے والد مغل پور جاتے تو ان کو بھی اکثر اپنے ساتھ لے جاتے اور ایک ہفتہ گاؤں میں رہتے۔ سرسید کہتے تھے کہ "اس عمر میں گاؤں میں جا کر رہنا، جنگل میں پھرنا، عمدہ دودھ اور دہی اور تازہ تازگھی اور جاٹنیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی باجرے یا مکئی کی روٹیاں کھانا نہایت ہی مزہ دیتا تھا۔ ٗ           ٗ
        سرسیّد کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا۔ مگر اخیر میں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، انھوں نے دربار کا جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سرسید کو باوجود یہ کہ ان کی عمرکم تھی دلوانا شروع کر دیا تھا۔ سر سید کہتے تھے کہ ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا اتفاق ہوا کہ والد بہت سویرے اٹھ کر قلعے چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اٹھا ۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہوگئی ۔ جب لال پردے کے قریب پہنچا تو قاعدے کے موافق اوّل دربار میں جا کر آداب بجالانے کا وقت نہیں رہا تھا ۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو در بار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اٹھ کر ہوادار پر سوار ہوچکے تھے  بادشاہ نے مجھےدیکھ والد سے جواس وت ہوادارک پاس ہی تھے کہا کہ تمہارابیٹا ہے؟‘انھوں نے کہا"  حضور کا خانہ زاد ٗ                     بادشاه چپکے ہور ہے ۔ لوگوں نے جانا کہ بس اب محل میں چلے جائیں گے مگر جب تسبیح خانے میں پہنچے تو وہاں ٹھہرگئے تسبیح خانے میں بھی ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی در بار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترے پر بیٹھ گئے، جواہر خانے کے داروغہ کو کشتی جواہرحاضر کرنے کاحکم ہوا ، میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا ۔ بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلایا اورکمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا  کہ دیر کیوں کی ؟ حاضرین نے کہا عرض کروکہ تقصیرہوئی مگر میں چپکا کھڑا رہا۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ سو گیا تھا۔ بادشاہ مسکرائے اور فرمایا بہت سویرے اٹھا کرو۔ اور ہاتھ چھوڑ دیے۔ لوگوں نے کہا آداب بجا لاؤ میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے بنائیں۔ میں نے نذ ردی اور بادشاہ اٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلےگئے۔ تمام درباری میر والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے۔ سرسیّد کہتے تھے کہ اس زمانے میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی۔ تقر یبّا انھیں دنوں میں راجہ رام موہن رائے جو بر ہموسماج کے بانی تھے، ان کو اکبرشاه نے کلکتہ سے بلایا تھا تا کہ اضافئہ پنشن بادشاہی کے لیے ان کو لندن بھیجا جائے۔ چنانچہ وہ بادشاہ کی طرف سے لندن بھیجے گئے اور 1831 ء میں وہاں پہنچے۔ سرسیّد نے لندن جانے سے پہلے ان کو متعدد  دفعہ دربار شاہی میں دیکھا تھا۔
         سرسیّد کہتے تھے کہ "مجھ کو اپنی بسم اللہ کی تقریب بخوبی یاد ہے۔ سہ پہر کا وقت تھا اور آدمی کثرت سے جمع تھے۔ خصوصاً حضرت شاہ غلام علی صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ مجھ کو لا کر حضرت کے سامنے بٹھا دیا تھا۔ میں اس  مجمع کو دیکھ کر ہکّا بکّا سا ہوگیا۔ میر ے سامنےتختی رکھی گئی اور غا لباً شاه صاحب ہی نے فرمایا کہ پڑھو بسم الله الرحمٰن الرحیم ۔ میں کچھ نہ بولا اور حضرت صاحب کی طرف دیکھتا رہا۔ انھوں نے اٹھا کر مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ ہمارے پاس بیٹھ کر پڑھیں گے اور اوّل بسم اللہ پڑھ کر اقراء کی اوّل آیتیں مالم یعلم تک پڑھیں ۔ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ پڑھتا گیا۔ سرسیّد نے جب  یہ ذکر کیا بطور فخر کے اپنا یہ فارسی شعر جو خاص اسی موقع کے لیے انھوں نے بھی کہا تھا ، پڑھا۔

 بہ مکتب  رفتم  و  آموختم اسرار یزدانی
 زفیضِ      نقش   بندِ  وقت جان ِجان  جانانی

      سرسید کہتے تھے کہ شاہ صاحب اپنی خانقاہ سے کبھی نہیں اْٹھتے تھے اور کسی کے ہاں نہیں جاتے تھے۔ الا ماشاء اللہ۔ صرف میرے والد پر جو غایت درجہ کی شفقت تھی اس لیے کبھی کبھی ہمارے گھر قدم رنجہ فرماتے تھے۔ بسم اللہ ہونے کے بعد سرسید نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔ ان کی ننھیال میں قدیم سے کوئی نہ کوئی استانی نو کر رہتی تھی ۔ سرسید نے استانی ہی سے جو ایک اشراف گھر کی پردہ نشین بی بی تھی ، سارا قرآن ناظرہ پڑھا تھا۔ وہ کہتے تھے میرا قرآن ختم ہونے پر ہد یےکی مجلس جو زنانہ میں ہوئی تھی وہ اس قدر دلچسپ اور عجیب تھی کہ پھرکسی ایسی مجلس میں وہ کیفیت میں نے نہیں دیکھی ۔ قرآن پڑھنے کے بعد وہ باہر مکتب میں پڑھنے لگے ۔ مولوی حمید الدین ایک ذی علم اور بزرگ آدمی ان کے نانا کے ہاں نوکر تھے جنھوں نے ان کے ماموں کو پڑھایا تھا۔ اْن سے معمولی کتا بیں کر یما، خالق باری، آمد نامہ وغیرہ پڑھیں ۔ جب مولوی حمید الدین کا انتقال ہو گیا تو اور لوگ پڑھانے پر نوکر ہوتے رہے۔ اْنھوں نے فارسی میں گلستاں، بوستاں، اور ایسی ہی ایک آدھ اور کتاب سے زیادہ نہیں پڑھا۔ پھر عربی پڑھنی شروع کی ۔ مگر طالب علموں کی طرح نہیں بلکہ نہایت بے پروائی اور کم توجہی کے ساتھ ۔ اس کے بعد اْن کو اپنے خاندانی علم یعنی ریاضی پڑھنے کا شوق ہوا جس میں ان کی ننھیال کے لوگ دلّی میں اپنا مثل نہ رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے ماموں 
نواب زین العابدین خاں سے حساب کی  معمولی درسی کتاب چند مقالے پڑھے ۔ اْسی زمانے میں طب پڑھنے کا شوق ہو گیا۔ جب انھوں نے پڑھنا چھوڑا ہے اس وقت ان کی عمر اٹھارہ انیس برس کی تھی۔ اس کے بعد بطور خود کتابوں کے مطالعے کا برابر شوق رہا۔ اور دلی  میں جواہل علم اور فارسی دانی میں نام آور تھے جیسے صہبائی، غالب، اور آزردہ وغیرہ ان سے ملنے کا اورعلمی مجلسوں میں بیٹھنےاکثرموقع ملتا رہا۔(تلخیص(


سوالوں کے جواب لکھیے :
1. سرسید نے اپنا بچپن کیسے گزارا؟
جواب: سرسید نے اپنا بچپن ایک معتدل ماحول میں گزارا۔ نہ تو ان کو اتنی آزادی تھی کہ وہ جہاں چاہیں آزادانہ گھوم پھر سکیں اور نہ ہی اُن پر ایسی پابندی تھی کہ وہ کھیلنے بھی نہ جا سکیں۔انہوں نے اپنے بچپن ہی میں  تیراندازی اور تیراکی کا فن بھی سیکھا۔ بچپن میں سرسید کو تنہا باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

2. سرسید کے نانا کے یہاں دستر خوان کے آداب کیا تھے؟
جواب: سرسید کے نانا صبح کا کھانا اندر زنانے میں کھاتے تھے ۔ ایک چوڑا چکلا دسترخوان بچھتا تھا۔ بیٹے بیٹیاں ، پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں اور بیٹوں کی بیویاں سب ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، بچوں کے آگے خالی رکا بیاں ہوتی تھیں ۔ نانا صاحب ہر ایک سے پوچھتے تھے کہ کون سی چیز کھاؤ گے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اس کی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے بہت ادب اور صفائی سے ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئی چیز گرنے نہ پائے ، ہاتھ میں کھانا زیادہ نہ بھرے، اور نوالا چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ باہر دیوان خانے میں کھاتے تھے۔

3.  سرسید نے بچپن میں کون کون سے کھیل کھیلے؟
جواب: سرسید نے بچپن میں  اکثر گیند ، بلا ، کبڈی ، گیڑیاں، آنکھ مچولی، چیل چِلو وغیرہ کھیلتے تھے۔انہیں تیر اندازی کا فن بھی آتا تھا۔اُن کو ہر طرح کا کھیل کھیلنے کی آزادی تھی۔بس اُن کھیلوں پر پابندی تھی جو چھپا کر کھیلیں جائیں۔

4. سرسید کو گاوں میں جا کر رہنا کیوں پسند تھا؟
جواب: سرسید کو گاؤں میں جا کر رہنااس لیے بہت پسند تھا کہ وہاں انہیں  جنگل میں  آزاد پھرنے کا موقع ملتا ، ساتھ ہی گاؤں میں انہیں عمدہ دودھ اور دہی  اور تازہ تازہ گھی  اور جاٹنیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی باجرے یا مکئی کی روٹیاں کھانا نہایت ہی مزہ دیتا تھا۔

Tuesday, 2 June 2020

Lal Batti Jal Gaya By Tasneem Usmani Simlawi


تسنیم عثمانی سملوی

مضمون کی ” سرخی “  ذرا بے تکی اور بے قاعدہ معلوم ہو رہی ہوگی ، مگر اس سرخی کے پس منظر بہت ہی خوبصورت ، پیاری اور دلکش و دل نشین یادیں ہیں ، جنہیں جان کر یقیناً آپ بھی کہہ اٹھیں گے ” لال بتی جل گیا “،” لال بتی جل گیا “۔
رمضان المبارک کے ایام ہیں، عصر کے بعد کا وقت ہے۔ ” دارالشرف “ (ہمارا مسکن، اوپر کلہی جھریا ) کا صدردروازہ کھول دیا جاتا  ہے تاکہ روزہ دار مہمان تشریف لے آئیں۔افطار کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ، امی جان مدظلہا اور چھوٹی بہن زنیرہ سلمہا کے خلوص و محبت بھرے ہاتھوں سے روزہ داروں کی ضیافت کے لیے بنائی ہوئی اشیاء جیسے پھلکیاں ، گلگلے ، گھنگھنی( تلے ہوئے چنے)، کچے چنے، بونٹ (چنا) کی میٹھی دال، نمکین دال،کچی بھی اور تلی ہوئی بھی،کچے چنے لیمون اور پیاز کے ساتھ ، کھجور اور انڈوں وغیرہ کے سموسے، بیگنیاں، کونہڑے کے پکوڑے، سنگھاڑے (تکونے)،  دہی بڑے، منگوچھیاں(رس گلوں کی طرح ہوتی ہیں اور ہمارے یہاں صرف  رمضان المبارک میں بنائی جاتی ہیں )، ان سب کے علاوہ موسم کے پھل جیسے کیلے، تربوز، خربوزے، امرود،ناشپاتی، سیب،سنترے وغیرہ، الغرض جس دن جو میسر ہوتا دسترخوان پر چنا جاتا ۔
     اب دسترخوان کے اطراف بیٹھنے کا حال سنیے۔۔۔باہر بڑے کمرے یا برآمدہ میں دسترخوان بچھایا جاتا  ۔ حضرت اباجان  رحمة الله عليه (تاج العرفان حضرت مولانا الحاج حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی، زیب سجادہ  خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ،اورنگ آباد، بہار) کی نشست مخصوص تھی، دسترخوان کے آخری سرے پر  پچھم کی جانب اس طرح تشریف فرما ہوتے کہ مسجد نظروں کے سامنے ہو، بڑے بزرگ اور سبھی مہمان اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتے،ہم  سب بھائی اور گھر کے دوسرےبچے دسترخوان پر ایسی جگہوں پر بیٹھنا چاہتے جہاں اپنی اپنی پسند کی چیزیں ہوں، دسترخوان پر بڑی ترتیب سے ساری اشیاء رکھی جاتیں ،مہمان آتے جاتے دسترخوان لمبا ہوتا جاتا اور ہم سب سمٹتے چلے جاتے،  افطار کا وقت قریب ہوتا ، سب لوگ افطار کی دعا پڑھتے،بڑوں  کی نظریں گھڑیوں پر اور توجہ مغرب کی اذان کی طرف ، اور بچوں کی نگاہیں ”چھوٹی مسجد“........جو پتہ نہیں کس زلزلہ میں چھوٹی مسجد سے ”نوری مسجد“ ہوگئی........کے درمیانی گنبد سےبندھے بانس پر ٹک جاتیں، افطار کا وقت جیسے جیسے قریب ہوتا جاتا محلہ کے بچے گھروں  سے  باہر آکر اپنے اپنے دروازوں، برآمدوں اور ہمارے گھر کے چبوترے پر کھڑے ہو جاتے جہاں سے مسجد صاف نظر آتی ،سب کی نگاہیں مسجد کے بانس پرہوتیں ، جیسے ہی افطار کا وقت ہوتا بانس پر بندھی لال بتی جل جاتی، سارے بچے چیختے چلاتے اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگتے ”لال بتی جل گیا“، ”لال بتی جل گیا “ .........لال بتی عام طور سے رکنے اور ٹھہر جانے کا اشارہ ہوتی
 ہے مگر یہ عجیب لال بتی ہے جو شروع ہو جانے کی علامت ہے۔
خاندانی روایت کے مطابق سب لوگ پہلے آب زم زم سے روزہ کھولتے ،پھر حصول برکت کے لئے مدینہ منورہ کی کھجوریں کھائی جاتیں، بچے اپنی اپنی پسند کے مطابق تاک لگائے افطار کرتے، ایک پھلکی منھ میں دوسری ہاتھ میں ایک نشانہ پر ، اگر کسی اور نے اسے شکار کرلیا تو فوراً کسی تیسرے پر نشانہ سادھ لیا جاتا، پسند کی چیزیں ختم اور سارے بچے یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھ دیکھ کراٹھ جاتے اور اندر جاکر زنانہ دسترخوان پر دھاوا بول دیتے، بڑے ہماری حرکتوں پر مسکراتے اور چنے چباتے رہتے، برا ماننے یا ڈانٹنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا، بلکہ مغرب کی باجماعت نماز کے بعد چائے کا دور چلتا اور ہماری حرکتوں پر تبصرے اور خوش گپیاں اور کچھ نصیحتیں ہوتیں،  پھر سب عشاء کی نماز اور تراویح کی تیاری میں لگ جاتے۔۔۔۔۔       
  ہمارے نانا ابا حضرت مولانا الحاج قاری حکیم شاہ محمد ابراہیم عثمانی فردوسی دیوروی رحمة الله عليه ( زیب سجادہ خانقاہ برہانیہ کمالیہ ، حضرت دیورہ،گیا ) کو ہمارے جھریا شہر کا رمضان اور تراویح بہت پسند تھی اور اس ماہ مبارک میں یہاں ضرور تشریف لاتے تھے، ٹھیک اسی طرح بڑے ماموں جان حضرت مولانا الحاج قاری حکیم شاہ منصور احمد عثمانی فردوسی دیوروی رحمة الله عليه (زیب سجادہ خانقاہ برہانیہ کمالیہ، حضرت دیورہ ،گیا) بھی ماہ رمضان کے مبارک ایام جھریا میں گزارنا پسند فرماتے تھے، افطار کےبعد ، مغرب کی نماز کبھی حضرت ابا جانؒ اور کبھی حضرت بڑے ماموں جانؒ کی اقتدا میں ادا کی جاتی ، جب ناچیز اس لائق ہوا تو اسے بھی یہ سعادت حاصل ہوئی۔۔تراویح اور رات کے کھانے کے بعد حضرت بڑے ماموں جان  پوری پوری رات دین کی باتیں اور بزرگوں کے واقعات سنایا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔                        
ہر سال 20 رمضان المبارک کوافطار کی ایک  دعوت کا اہتمام ہوتا جس میں کولفیلڈ یعنی شہر جھریا   اور اس کے  اطراف جیسے ہورلا ڈیہہ، بنیاہر،پھوس بنگلہ، لودنا،جاما ڈوبا، رمضان پور، پاتھر ڈیہہ،سودام ڈیہہ،  سندری ، کتراس موڑ، ائینہ کوٹھی، دھنباد،وغیرہ کے عوام و خواص،اعزا و اقربا،حضرت ابا جان کے مریدین و معتقدین اور اُن کے احباب شرکت کرتے  جن کی فہرست یہاں ممکن نہیں ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد مولائے کائنات  سیدنا حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا سالانہ فاتحہ نہایت تزک و احتشام کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس دعوت اور فاتحہ کی سادگی اور رونق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔جس نے شرکت کی ہے وہی جانتا ہے۔
یہی ہیں وہ یادیں اور وہ باتیں، خدا بھلا کرے اس لاک ڈاؤن کا ، جس نے سب کچھ تو ” لاک ڈاؤن ” کررکھا ہے لیکن اس نے یادوں کے جھروکوں کو پوری طرح ” ان لاک ” کردیا ہے۔۔ جی چاہتا ہے پھر وہی وقت ہوتا، ویسے ہی لوگ ہوتے ، ویسی ہی سحر ہوتی، ویسے ہی جگانے والے مخلص اور سریلے درویش اور سنجیدہ قافلے ہوتے، حلال وحرام کے بے جا فتووں سے محفوظ و مامون محبت بھری اور میٹھی میٹھی عید ہوتی اور افطار کے وقت بچوں کی ویسی ہی پیاری  پیاری چیخ و پکار ہوتی ” لال بتی جل گیا،  لال بتی جل گیا “
  

Saturday, 30 May 2020

Dil Phir Tawaaf e Koye Aqeedat Ko jaye Hai - A memory on Urs e Makhdoom jehan - Chiraghaan۔p4

دل پھر طواف کوئے ”عقیدت“ کو جائے ہے
حضرت مخدوم جہاں ؒ کے ”چراغاں“ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے نکلی ایک تحریر
(4)

1975 سے 1995ء کا دور بہار کی تین خانقاہوں   کا زریں  دور رہا ہے۔خانقاہ معظم مخدوم جہاں بہار شریف کے جنابحضور سید شاہ محمد امجاد فردوسی ، خانقاہ برہانیہ کمالیہ،دیورہ کے سجادہ نشیں حضرت مولانا شاہ منصور احمد فردوسیؒ،اور خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ ،سملہ کے  سجادہ نشیں حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ  کی ذات گرامی نے بہار کی خانقاہوں میں چار چاند لگا دیے دنیا کی نگاہیں ان کی جانب متوجہ ہونے لگیں۔ دنیائے تصوف کے یہ تین درخشاں ستارے ایک سال رجب المرجب میں   خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کےسالانہ  عرس کے موقع پر یکجا ہوئے تو ا ن کی تابانی دیکھنے کے قابل تھی۔ اس سال پہلی بار خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ میں جنابحضور سید شاہ محمد امجاد فردوسی   ؒ کی شرکت کا پروگرام بنا تھا۔ اباجان اور ہم سب بھائیوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ جناب حضور کو لانے کے لیے بڑے بھائی جان شاہ محمد صہیب عثمانی فردوسی ابّاجان کی  ذاتی  ایمبیسڈر کار کو خود چلاکر جنابحضور کو لانے کے لیے بہار شریف گئے تھے مقصد صرف ”سارتھی“ بننے کی سعادت حاصل کرنا تھا۔وہ بڑی محبت و عقیدت سے جنابحضور کو سملہ لے کر آئے۔ جنابحضور ؒ نے عرس کی سبھی تقریبات میں انتہائی ذوق و شوق سے حصّہ لیا۔ مریدین جب اپنے پیر کی جنابحضور سے یہ محبت و عقیدت دیکھتے تو پھر اُن کی وارفتگی کا بھی ٹھکانہ نہ رہتا۔اُس سال عرس میں مخدوم جہاں کا خاص فیضان جاری تھا۔ عرس کی مجالس میں ان تینوں بزرگوں کی نشست کا انداز یہ تھا کہ وسط میں جنابحضور سید شاہ امجاد فردوسی ؒ تشریف رکھتے تھے۔اُن کے بائیں طرف اباجان پیر و مرشد حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانیؒ اور دائیں طرف  بڑے ماموں جان حضرت  شاہ منصور احمد فردوسی ؒ بیٹھتے۔ بچّوں اور دیگر عزیزان کوحجرۂ قطب العصر کے صحن میں جگہ ملتی اور مریدین و متوسلین ایک دائرے کی شکل میں حجرہ اور مسجد سے ملحق سماع خانے میں بیٹھتے۔سامنے میدان، مسجد اور سڑک مریدین کے ہجوم سے بھری ہوئی تھی۔ ۸ رجب کو پیران سلاسل کے فاتحہ کے دوران مجھے اتفاقاً کسی کام سے اٹھ کر باہر جانا پڑا۔حجرے کی جانب واپس آتے ہوئے جب سامنے سے میری نظر ان تین بزرگوں پر پڑی تو یہ حسین اور بارعب  منظر میرے دل میں نقش ہوگیا۔ وہ منظر کتنا حسین تھا اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ فردوسی سلسلہ کے ان تین بزرگوں کے چہروں کی تابانی کا کیا عالم تھا اسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ہمیں ناز ہے  ان آنکھوں پر کہ جس نے  ان بزرگوں کو نہ صرف اتنے قریب سے دیکھا  بلکہ ان کی صحبت سے فیض بھی اٹھایا۔اور اُن سے خوب دعائیں بھی لیں۔
گاہے گاہے بازخواں ایں قصّہ پارینہ را۔

(جاری)

خوش خبری