آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday, 13 April 2020

Bol - Faiz Ahmad Faiz - NCERT Solutions Class IX Urdu

(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
بول
فیض احمد فیض

بول ، کہ لب آزاد ہیں تیرے
 بول، زباں اب تک تیری ہے

 تیرا سُتواں جسم ہے تیرا 
بول کہ جاں اب تک تیری ہے

 دیکھ کہ آہن گھر کی دکان میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن

کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
 پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن

بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے 
جسم وزبان کی موت سے پہلے

 بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
 بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

فیض احمد فیض
(1911ء - 1984 ء)
فیض سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن اسکول، سیالکوٹ سے حاصل کی ۔ انگریزی سے ایم ۔ اے کرنے کے بعد امرتسر کے ایک کالج میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے فوج میں ملازمت کی ۔ پھر انگریزی صحافت میں سرگرم رہے۔ انھیں راولپنڈی سازش کیس میں شریک ہونے کی جرم میں کئی سال تک قید و بند کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔ فیض کا انتقال لاہور میں ہوا۔
فیض غزل اور نظم دونوں میں ممتاز ہیں۔ انھوں نے غزل کی کلاسیکی روایت سے استفادہ کیا اور اسے انقلابی فکر سے ہم آہنگ کر کے ایک بالکل نئی کیفیت پیدا کی ۔ فیض اہم ترین ترقی پسند شاعر تھے۔ انھوں نے جلا وطنی کی زندگی بھی گزاری لیکن وہ حق و انصاف کے لیے برابر آواز اٹھاتے رہے۔ ان کی شاعری میں دردمندی ، دل آویزی اور تاثیر ہے۔ مختلف زبانوں میں ان کے کلام کے ترجمے ہو چکے ہیں ۔ ان کے مجموعے’ نقش فریادی‘،’ دست صبا‘ ، ’زنداں نامہ‘،’دستِ تہِ سنگ‘، ’سرِ وادی سینا’،‘ شامِ شہر یاران‘ اور ’مرے دل مرے مسافر‘ وغیرہ ہیں۔ ان کا کلیات نسخہ ہائے وفا کے نام سے شائع ہوا۔

مشق
الفاظ و معانی

سُتواں : سیدھا۔ عام طور پر یہ لفظ سوتوا سیدھا اور سیدھی ناک کے لیے بولا جاتا ہے (جیسے ستواں ناک ) لیکن شاعر نے یہاں ستواں جسم لکھا ہے۔
آہن گر : لوہار
تند : تیز
آہن : لوہا
دہانہ : دہن، جبڑے

 غور کرنے کی بات
* اس نظم میں اظہار خیال کی آزادی پر زور دیا گیا ہے۔
* دنیامیں حق و باطل کی جنگ برابر جاری رہتی ہے لیکن دنیا کی فلاح کے لیے حق یعنی سچ کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔
*  سچ کو زندہ رکھنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور آزادی اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔
*  سچ کو دبانے کے لیے سچ کے خلاف بہت سی طاقتیں اپنا کام کرتی رہتی ہیں ۔ انھیں کچلنا ضروری ہے اور اس کے لیے حق بات بولتے رہنا لازمی ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. وہ کون سے حالات ہیں جن کے خلاف انسان کا بولنا ضروری ہے؟
جواب: جب انسان پر جبر اور ظلم و ستم بڑھ جائے تو اسے اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ فیض کا ماننا ہے کہ مزدوروں کو اپنے استحصال کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ اور انہیں خموشی سے ہر ظلم برداشت نہیں کرنا چاہیے۔

2. بولنافوری طور پر کیوں ضروری ہے؟ اور اسے کیوں نہیں ٹالا جاسکتا؟
جواب: فوری طور پر بولنا اس لیے ضروری ہے کہ ابھی اس کے لب آزاد ہیں ۔ اگر وہ نہیں بولا تو ایک دن اس کی زبان پر تالا لگا دیا جائے کا اور پھر وہ کبھی ظلم و ستم کے خلاف آواز نہیں اٹھا پائے گا۔

3. تمام مخالفتوں کے باوجود ایک چیز بولنے والے کے حق میں بھی جاتی ہے، وہ کیا ہے؟
جواب: تمام مخالفتوں کے بعد ایک چیز بولنے والوں کے حق میں جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ سچ ابھی زندہ ہے۔اگر وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو حق کی حمایت کرنے والے اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

 عملی کام
*  اس نظم کو بلند آواز سے پڑھیے اور زبانی یاد کیجیے۔
*  اس نظم کا خلاصہ اپنی زبان میں لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Ek Aarzu - Muhammad Iqbal - NCERT Solutions Class IX Urdu


(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)

ایک آرزو
محمد اقبال

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

 شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا 
 ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
 دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھوپڑا ہو

 آزادفکر سے ہوں ، عزلت میں دن گزاروں
 دنیا کے غم کا دل سے کا نٹا نکل گیا ہو

 لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں 
 چشمے کی شورشوں میں باجا سابج رہا ہو

گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجکو جہاں نما ہو

 ہو ہاتھ کا سرہانا سبزہ کا ہو بچھونا!
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو

 مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
 ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو

 صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
 ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو

 ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ 
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو 

آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ 
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو

پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی  ٹہنی
 جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

 راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
اُمید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو

 بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب  آسماں پر ہر سو بادل  گھرا  ہوا ہو

پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی مؤذّن 
میں اس کا ہم نوا ہوں ، وہ میری ہم نوا ہو

 کانوں پر ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں!
 روزن ہی جھونپڑی کا مجکو سحر نما ہو

 پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
 رونا   مرا  وضو ہو، نالہ مری دعا ہو!

 اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
 تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو

ہر درد مند   دل کو رونا  مرا    رُلا    دے
 بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انھیں جگادے

محمد اقبال
(1877ء - 1938ء)
علامہ ڈاکٹر مہ اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے سیالکوٹ ہی میں امتیاز کے ساتھ انٹرنس کا امتحان پاس کیا پھر لاہور میں اعلی تعلیم پائی ۔ کچھ دن بعد وہ یوروپ گئے اور انگلستان سے قانون کی اور جرمنی سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
ابتدائی تعلیم کے زمانے ہی سے اقبال شعر کہنے لگے تھے۔ اقبال نے شاعری کی ابتدا غزل سے کی اور داغ سے اصلاح لی۔ آگے چل کر انھوں نے اپنی شاعری کو اپنے پیغام اور فکر کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ وہ حرکت و عمل اور خودی کی تعلیم دیتے ہیں اور ان خوبیوں کو انسانیت کی بقا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں ۔ ان کے کلام میں موسیقیت اور زور بیان ہے۔ انھوں نے لفظوں کے انتخاب میں بڑی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ اسی لیے ان کے اشعار میں خوش آہنگی بہت ہے۔ اردو میں ان کے مجموعے بانگ درا ، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز ہیں۔ فارسی میں ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔
اقبال کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا ہندوستانی شاعر کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ہندوستانیوں اور خاص کر ہندوستانی مسلمانوں کو ذہنی اور تہذیبی غلامی سے آزاد کرایا اور یورپ کے علوم سے مرعوب ہونے کے بجائے یورپ سے استفادہ کرنا سکھایا اور یہ بتایا کہ یورپ کی تہذیب مادہ پرستی اور بے انصافی پر مبنی ہے اور اسے بہت جلد زوال آجائے گا۔
اقبال کی شاعری میں فلسفۂ تغزل، ڈراما، پیغامِ عمل اور مذہب اسلام سب اس طرح گھل مل کر ایک ہوگئے ہیں کہ وہ اپنی طرح کی بےنظیر چیز بن گئی ہے۔

خلاصہ:
اقبال نے اپنی نظم ’ایک آرزو‘ کے میں اپنی خواہشات کا ذکر کیا ہے اور اپنے دردمند دل کی داستان بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ دنیا سے اکتا چکے ہیں اور گوشہ تنہائی کی تلاش میں ہیں۔ وہ ایک ایسی جگہ جانا چاہتےجہاں سکون ہی سکون ہو اور ایسی سکون کی جگہ پہاڑ کے دامن ہی میں ہو سکتی ہے اور وہیں انسان قدرت کے آغوش میں ہر فکر سے بے نیاز ہو کر رہ سکتا ہے۔ اقبال ایک ایسی پرسکون جگہ کی تلاش میں ہیں جہاں وہ سکون سے قدرتی ماحول میں زندگی کا لطف اٹھا سکیں۔اقبال کی یہ خواہش ہے کہ پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی سی جھونپڑی ہو، جہاں وہ قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوں، ہر فکر سے آزاد ہوں ، جانوروں اور پرندوں سے قربت حاصل کریں۔ قدرتی نظاروں کا جی بھر کے لطف لے سکیں اور اس پر سکوت ماحول میں اپنے معبودحقیقی کی بارگاہ میں اپنے نالہ ہا ۓ نیم شبی پہنچا سکیں۔ایسی جگہ ہو جہاں چاروں طرف سبزہ زار ہو۔ اور وہاں ایسی تنہائی ہو کہ جس میں محفل بھی شرما جائے یعنی وہاں اس تنہائی میں پرندوں کی چہچہاہٹ ہو۔بلبل مجھ سے اتنی مانوس ہو کہ اسے میرا کوئی خوف نہ ہو۔شاعر نے اس نظم میں قدرتی مناظر کی مکمل تصویر کشی کی ہے جو قاری کو موہ لیتی ہے۔وہ کہتے ہیں میری جھونپڑی کا روشن دان ہی مجھے صبح ہونے کی گواہی دے اور ۔میری زبان کوئل کی طرح صبح کی اذان کی موذن ہو۔ می شبنم سے وضو کروں اور میرا چہرہ میرےنالوں اور آنسوؤں سے تر ہو۔ اقبال چاہتے ہیں کہ ان کی یہ آرزو نہ صرف اُن کی بلکہ ہر درد مند دل کی آواز بنے۔اور جو لوگ بھی خواب غفلت میں ہیں وہ بیدار ہوجائیں۔
مشق
الفاظ ومعانی
شورش : شور و غل، اتھل پتھل
سکوت : خاموشی
تقریر : بیان، بات
عزلت : تنہائی ، گوشہ
سرود : گانا، نغمہ
جہاں نما : جس میں یا جس سے تمام دنیا نظر آئے
جلوت : محفل ، لوگوں کی موجودگی
خلوت : تنہائی
دل فریب : دل کو لبھانے والا ، من موہن
قبا : پوشاک
ہم نوا : ہم آواز
روزن : سوراخ، روشن دان
سحر نما : صبح کا دیدار کرانے والا
ناله : فریاد، رونے کی آواز
درا : قافلے کے روانہ ہونے سے پہلے بجنے والا گھنٹہ ، جرس

غور کرنے کی بات
 *  کسی شعر یا شعر کے کسی مصرعے میں دو متضاد الفاظ کے استعمال کو صنعت تضاد کہتے ہیں ۔ اس نظم میں کئی اشعار ایسے ہیں جن میں دو متضاد الفاظ آئے ہیں ۔ جیسے
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا 
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو 

ہو   ہاتھ کا سر ہانا، سبزہ کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو

*  ’جہاں نما‘ ایک مرکب ہے جو ’جہاں‘ بمعنی دنیا اور ’نما‘ بمعنی دکھانے والا ، سے مل کر بنا ہے۔
جب دو مختلف الفاظ ایک ساتھ مل کر ایک ترکیب بتاتے ہیں تو اسے ’مرکب‘ کہتے ہیں۔
*  شعر میں کسی تاریخی واقعے، مشہور شخصیت یا شے کا ذکر کیا جائے تو اسے صنعت تلمیح کہتے ہیں۔ ’ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو‘ اس مصرعے میں صنعت تلمیح  کا استعمال کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ قدیم ایرانی بادشاہ جمشید کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں وہ پوری دنیا کو دیکھ لیتا تھا۔ یہاں کلی کو استعارتاً ساغر کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور ساغر کے لیے جہاں نما کی تلمیح سے مدد لی گئی ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے 
1. شاعر نے تنہائی کی کیا خوبیاں بیان کی ہیں؟ وضاحت کیجیے۔
جواب:

2. پہاڑ کے دامن میں وہ کون سی چیز میں ہیں جن میں شاعر کو خاص دلچسپی ہے؟
جواب:

 3. شاعر کی آرزو کے مطابق رات کے مسافروں کی آمد کیا ہوگی؟
جواب:

4. آخری شعر میں شاعر کیا بات کہنا چاہتا ہے؟
جواب:

عملی کام
* نظم ایک آرزو بلند آواز سے پڑھیے۔
*  اقبال کے مجموعے بانگ درا میں کئی نظمیں بچوں کے لیے ہیں۔ آپ ان نظموں کو تلاش کر کے پڑھیے۔
ایک پہاڑ اور گلہری
*  درج ذیل اشعار کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی مؤذّن
 میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو 


کانوں پر ہو نا میرے دیر و حرم کا احساں
 روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحرنما ہو


 مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

* نظم سے ایسے دو اشعار تھے جن میں تشبیہہ کا استعمال ہوا ہے۔

* درج ذیل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:
لفظ : معنی : جملہ
جہاں نما : جس میں یا جس سے تمام دنیا نظر آئے : جمشید اپنے جہاں نما میں دنیا دیکھ رہا تھا۔
سحر نما : صبح کی مانند : میری جھونپڑی کا روشن دان میرا سحر نما ہو۔
ہم نوا : ہم آواز : اقبال بلبل کے ہم نوا بننے کے آرزو مند تھے۔
دل فریب : دل کو لبھانے والا : کوئل دل فریب آواز کی مالک ہے۔
جلوت : محفل : جلوت کی ہوس نے رقاصہ کو رسوا کردیا
خلوت : خلوت : رضیہ خلوت پسند تھی۔

کلک برائے دیگر اسباق

Sunday, 12 April 2020

Ramayan Ka Ek Scene - Pandit Brij Narayan Chakbast - NCERT Solutions Class IX Urdu

Ramayan Ka Ek Scene by Brij Narayan Chakbast  Chapter 17 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)

رامائن کا ایک سین
برج نارائن چکبست

رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام 
راو وفا کی منزل ازل ہوئی تمام

 منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام 
دامن سے اشک پونچھ کر دل سے کیا کلام

اظہار ہے کسی سے ختم ہوگا اور بھی
دیکھا میں اداس تو غم ہوگا اور بھی

 دل کو سنجالتا ہوا آخر وہ نونہال
 خاموش ماں کے پاس گیا صورت خیال

 دیکھا تو ایک دور میں ہے بیٹی وہ خستہ حال
 سکتہ سا ہو گیا ہے ، یہ ہے شدت ملال

تن میں ابو کا نام نہیں، زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویرسنگ ہے 

کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
 نور نظر پر دیده حسرت سے کیا نگاه 

جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
 کی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ

چہرے کا رنگ حالت دل کھولنے لگا
ہر موئے تن، زباں کی طرح بولنے لگا

 روکر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جان 
میں جانتی ہوں جس لیے آئے ہوم یہاں

 سب کی خوشی نہیں ہے تو صحرا کو ہو رہوں 
لیکن میں اپنے منہ سے نہ ہرگز ہوں گی ہاں

کس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو تج دوں
 جوگی بنا کے راج دلارے کو بھیج دوں

 لیتی کسی فقیر کے گھر میں اگر جنم
 ہوتے نہ میری جان کو سامان یہ ہم 

ستا نہ سانپ بن کے مجھے شوکت چشم 
تم میرے لال تھے مجھے کسی سلطنت سے کم

میں خوش ہوں پھونک دے کوئی اس تخت وتاج کو
تم ہی نہیں تو آگ لگاؤں گی راج کو

 سرزد ہوئے تھے مجھ سے خدا جانے کیا گناه
 منجدھار میں جو یوں مری کشتی ہوئی تباہ 

آتی نظر نہیں کوئی امن و امان کی راہ 
اب یہاں سے کوچ ہو تو عدم میں ملے پناہ

تقصیر میری خالتي عالم مکمل کرے
آسان مجھ غریب کی مشکل آبل کرے

 سن کر زبان سے ماں کی یہ فریاد در ونیز 
اس خستہ جاں کے دل پر چل نم کی تین تیزر 

عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہوں اشک ریز 
لیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز

سوچا نہیں کہ جان سے ہے کس گزر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائے

 پھر عرض کی یہ مادر ناشاد کے حضور 
مایوس کیوں ہیں آپ الم کا ہے یہ وفور

 صدمہ بہ شاق عالم پیری میں ہے ضرور
 لیکن نہ دل سے کیسے صبر و قرار دور

شاید خزاں سے شکل عیاں ہو بہار کی
کچھ مصلحت اسی میں ہو پروردگار کی

 پڑتا ہے جس غریب پر رن من کا بار 
کرتا ہے اس کو صبر عطا آپ کردگار 

مایوس ہو کے ہوتے ہیں انساں گناہ گار 
ہی جانتے ہیں وہ دانائے روزگار

انسان اس کی راہ میں ثابت قدم رہے 
گردن وہی ہے امیر رضا میں جو ثم رہے

 اکثر ریاض کرتے ہیں پھولوں پر باغباں
 ہے دن کی دھوپ رات کی شبنم انھیں گراں 

لیکن جو رنگ باغ بدلتا ہے نا گہاں 
وہ گل ہزار پردوں میں جاتے ہیں رائیگاں

رکھتے ہیں جو عزیز نھیں اپنی جاں کی طرح
ملتے ہیں دست یاس وہ برگ خزاں کی طرح

 لیکن جو پھول کھلتے ہیں صحرا میں بے شمار 
موقوف کچھ ریاض پر ان کی نہیں بہار 

دیکھو یہ قدرت چین آرائے روزگار 
وہ ابر و باد و برف میں رہتے ہیں برقرار

ہوتا ہے ان پر فضل جو رب کریم کا 
 موج سموم بنتی ہے جھونکا سیم کا

 اپنی نگاہ ہے کرم کارساز پر 
مرا چون بنے گا وہ ہے مہرباں اگر

 جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہو حضر 
رہتا نہیں وہ حال سے بندے کے بے خبر

اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں 
دامان دشت ،دامن مادر سے کم نہیں

پنڈت برج نرائن چکبست
(1882ء - 1926 ء)
پنڈت برج نرائن چکبست کی ولادت ایک کشمیری خاندان میں بہ مقام فیض آباد، (اتر پردیش) میں ہوئی ۔ انھوں نے لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی ۔ ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لکھنؤ ہی میں وکالت کرنے لگے۔ ان کا انتقال بریلی میں ہوا اور آخری رسومات لکھنؤ میں ادا کی گئیں۔
چکبست نے روایتی انداز سے شاعری شروع کی اور غزلیں بھی کہیں ۔ جلد ہی وہ نظم گوئی کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ وطن پرستی کو موضوع بنایا۔ چکبست نے ہوم رول کے موضوع پر بہت سی نظمیں کہی ہیں ۔ ان کی نظموں میں قدرتی مناظر کی عکاسی ، بیداری وطن کے جذبات، آزادی کی تڑپ اور دردمندی کے پہلو نمایاں ہیں۔ ان کے کلام میں سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے احباب ، بزرگوں اور قومی رہنماؤں پر مرثیے لکھ کر ان کی سیرت کی عمدہ عکاسی کی ہے۔ ان کی نظموں کا مجموعہ ”صبح وطن“ اور مضامین کا مجموعہ ”مضامین چکبست“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

Ramayan Ka Ek Scene by Brij Narayan Chakbast  Chapter 17 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی
زیارت : کسی متبرک مقام، چیز یاشخص کو عقیدت سے دیکھنا، کسی مقدس مقام کا سفر کرنا
ستم : ظلم
نونہال : پودا کم عمر بچہ
سکتہ : بے حس و حرکت ہوجانے کا مرض
ملال : رنج
بشر : انسان
تصویرِ سنگ : مجسمہ، پتھر کی تصویر، پتھر کی مورت
دیدهٔ حسرت : حسرت بھری نگاہ
گوشہ ہائے چشم : آنکھ کے کونے
موئے تن : جسم کے بال
جوگی : فقیر
بہم : ساتھ ساتھ، اکٹھے
شوکت و حشم : شان و شکوه، رعب داب
سرزد ہونا : پیش آنا ، واقع ہونا
منجدھار : بھنور ، دریا کے بیچوں بیچ
کوچ کرنا : روانہ ہونا
عدم : آخرت، غیر موجود ہونا
تقصیر : قصور، غلطی
بحل کرنا : معاف کرنا
اجل : موت
درد خیز : درداٹھانے والا
گریز : بچنا
ناشاد : ناخوش
الم : غم
وفور : زیادتی
شاق : سخت، دشوار
عیاں : ظاہر
رنج و محن : دکھ درد، غم ، تکلیف
امر رضا : اللہ کی مرضی
خم : ٹیڑھاپن
ریاض : بہت سے باغ
ناگہاں : اچانک
رائیگاں : بے کار
دستِ یاس ملنا : افسوس سے ہاتھ ملانا
برگِ خزاں : خزاں کے پتّے
موقوف : منحصر، ملتوی
موجِ سموم : گرم ہوا، جھلسا دینے والی ہوا ،لؤ
نسیم : ٹھنڈی ہوا
کارساز : کام بنانے والا یعنی اللہ
حضر : ایک جگہ، قیام ٹھہراؤ
دشت : جنگل
دامنِ مادر : ماں کی گود ، ماں کی آغوش

غور کرنے کی بات 
*  اس نظم میں ماں اور بیٹے کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔
*   ایودھیا کے راجہ دشرتھ کی تین بیویاں تھیں کوشلیا بھائی اور مترا۔ رام چندر منی کوشلیا کے بیٹے تھے۔ جب تخت پر رام چندر جی کے بیٹھنے کا وقت آیا تو ان کی سوتیلی ماں لیلائی نے اپنا لیا ہوا وعده را جا دشرتھ کو یاد دلایا۔ آخر کار رام چندر جی کو چودہ برس کا بن باس ملا نظم کے اس سین میں رام چندری کا اپنی ماں کوشلیا سے رخصت ہونا بہت پر درد انداز میں دکھایا گیا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھے
1. ”راو وفا کی منزل اوّل ہوئی تمام“  یہ کہہ کر شاعر نے کسی کی طرف اشارہ کیا ہے؟
جواب:

 2. مندرجہ ذیل الفاظ شاعر نے کس کے لیے استعمال کیے ہیں؟
 صورت خیال، خستہ حال ،شدت ملال ، تصویر سنگ
جواب:

3. شاعر کے خیال میں شوکت وحشم سانپ بن کر کس طرح ڈس رہا ہے؟
جواب:

4. موئے تن زبان کی طرح بولئے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:

5. چھٹے اور ساتویں بند کی تشریح کیجیے؟
جواب:

عملی کام

*  اس نظم سے متضاد الفاظ تلاش کر کے لکھے۔
*  نظم میں ایک لفظ ماشاء آیا ہے جس کے معنی خوش نہ ہونے کے ہیں لیکن اگر ہم اس میں سے ناک ہٹا دیں تو لفظ شاؤ بن جائے گا جس کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ آپ بھی ایسے ہی کچھ الفا الکھے جس میں نا کا استعمال کیا گیا ہو۔
*  اضافت کی تعریف اس سے پہلے آپ پڑھ چکے ہیں۔ اس نظم میں بھی کچھ اضافتیں آئی ہیں۔ جیسے خالق عالم ۔ آپ نظم میں آئی اضافتوں کی نشاندہی کیجیے۔
*   اسی طرح کچھ الفاظ ایسے آئے ہیں جن میں دو الفاظ کے درمیان میں کا استعمال ہوا ہے جیسے شوکت وشم ۔ یہ لکھتے تو لگا کر ہیں لیکن پڑھتے ہیں ملاکر جیسے (شوکتواستم ) ولفظوں کو اس طرح ملانے والے وکوحرف عطف کہتے ہیں ۔ آپ اس نظم میں سے اس طرح کے الفاظ کو تلاش کر کے لکھے جن میں عطف کا استعمال ہوا ہو۔

*  مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی لکھیے اور انھیں جملوں میں استعمال کیے:
لفظ : معنی : جملہ
بہم : ں : ں
اشک ریز : ں : ں
خالق عالم : ں : ں
عیاں : ں : ں
رنج و محن : ں : ں
منجدھار : ں : ں
الم : ں : ں
وفور : ں : ں

کلک برائے دیگر اسباق

Saturday, 11 April 2020

Hakeem Shah Tahir Usmani


حکیم شاہ محمدطاہرعثمانی فردوسیؒ
نام : محمد طاہر عثمانی
ولدیت : حضرت شاہ محمد قاسم فردوسی علیہ الرحمہ
سکونت : موضع سملہ ضلع اورنگ آباد (بہار)
ولادت: 1926ء
فراغت: 1946ء
تعلیم گاه: گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ

بہار کے ضلع اورنگ آبادمیں سملہ عثمانی فردوسی خانوادے کی قدیم بستی ہے۔ اس خانوادے میں علماء صوفیاء پیدا ہوتے رہے ہیں۔ انہیں حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملك شرف الدین بہاری علیہ الرحمة کے سلسلہ سہروردیہ فردوسیہ کی نسبت کا شرف حاصل رہا ہے۔ ہند و بیرون ہند کےاکثر سلاسل کی اجازت و خلافت بھی اس خانوادے کے اکابرین کو حاصل تھی۔ رشد و ہدایت کے ساتھ ساتھ فن طب کے ساتھ وابستگی بھی ان کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ حکیم شاہ محمدطاہر عثمانی صاحب کے جد امجد حکیم شاہ مجیب الحق کمالی فردوسی علیہ الرحمة نے رشد و ہدایت کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ کا سلسلہ ہمیشہ قائم رکھا۔ آپ کا شمار علاقہ کے مشاہیراطباء میں تھا۔ آپ کے چھوٹے چچا حکیم شاہ محمد فردوسی مشہور کامیاب طبیب گذرے ہیں۔
حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی صاحب کی ابتدائی تعلیم خانقاہ کے مدرسہ میں ہوئی۔آپ نے فارسی مولانا حفیظ الرحمن صاحب اور درسیات اپنے محترم جناب شاہ صاحب فردوسی سے پڑھی۔ 1942ء میں طب کی تعلیم کے لئے گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ میں داخل ہوئے اور1946ء میں جی یو ایم ایس کی فائنل ڈگری امتیازی حیثیت سے حاصل کی اور گولڈ مڈل حاصل کیا۔ نسخہ نویسی میں اول آئے اور جمالی دواخانہ سبزی باغ پٹنہ کا عطا کردہ گولڈمیڈل حاصل کیا۔
آپ کے ایام تعلیم میں کالج ماہرِفن اساتذہ سے معمور تھا جناب حکیم محمدادریس صاحب پرنسپل تھے۔ شفاء الملک حکیم سید مظاہراحمدصاحب، زبدة الحکما حکیم مولانا سید احمد حسین صاحب برکاتی، آفتاب حکمت حکیم عبدالشکور صاحب، ڈاکٹر ذکریاصاحب، ڈاکڑسید محمد صاحب مجنون رحمہماللہ علیہم اجمعین۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرمناظر احسن صاحب، ڈاکٹر احسن الہدیٰ صاحب، حکیم عبدالاحدصاحب ، ماسر عبد العزیز صاحب جیسے مایۂ ناز اساتذہ سے تلّمذ کا شرف آپ کو حاصل ہے ۔
حکیم صاحب شعروشاعری کا پاکیزه ذوق رکھتے ہیں۔ آپ کے ادبی مضامین اورغزلیں مؤقر علمی وادبی جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ مطب کی مشغولیت اور دینی و سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے اس طرف توجہ کم ہوگئی ہے لیکن آج بھی مشق سخن جاری ہے۔
حکیم صاحب 1946 میں گورنمنٹ طبّی کالج پٹنہ سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ علیل رہے اس کے بعد مطب کی طرف توجہ کی ۱۹۵۰ سے جھریامیں مطب کرتے ہیں مطب کامیاب ہے۔ وہاں کی مذہبی تعلیمی سماجی تحریکوں کے روح رواں ہیں. ہرطبقہ میں مقبولیت حاصل ہے۔ امراء وغرباء سب کے ساتھ یکساں سلوک ہے۔ قدرت نے دست شفابخشاہے۔ مخلوق خدا آپ سے فیضیاب ہورہی ہے۔ مزاج میں انکساری و عاجزی ہے۔ ہر چھوٹے بڑے سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ آپ خانقاه امامیہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ کے سجادہ نشیں بھی ہیں۔ آپ کے مریدین و معتقدین کا وسیعحلقہ نہ صرف بہار بلکہ بیرون بہار میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ آپ کے فیوض و برکات ظاہری و باطنی سے مخلوق خدا فیضیاب ہورہی ہے۔
(مندرجہ بالا مضمون ان کے صاحبزادےخبیب عثمانی سلمہ نے بھیجا ہے جس میں ضرورت کے مطابق میں نے ہلکی سی ترمیم کردی ہے۔)
تاریخ اطبائے بہار (جلد دوم)
حکیم محمد اسرار الحق،
ریٹائرڈ پروفیسرگورنمنٹ طبّی کالج پٹنہ

Ghazal - Rakhshan Abdali

<

غزل
رخشاں ابدالی

تھوڑی سی ملا دیجئے مَے بھی جو دوا میں
اکسیر ہی بَن جائے گی تاثیر و شفا میں

پیشانی پر بَل ہو نہ ذرا حکمِ قضا پر
دل! دیکھ نہ دھبّہ لگے دامانِ رضا میں

ہِر پھِر کے یہیں جاتی ہیں جَم اپنی نگاہیں
کیا جذب و کشش ہے ترےنقشِ کفِ پا میں

ہم خوگر بیداد ہیں، بیداد میں خوش ہیں
وہ اور ہیں خورسند جو ہوں لُطف و عطا میں

کیوں تم کو ستم کرنے میں اب ہے یہ تکلّف
شک تم کویہ کیوں ہونے لگا میری وفا میں

کم حوصلگی تیری غضب ہے دلِ ناداں!
آرام کی!ہے فکر!تجھے راہِ! وفا !میں

دل سوزِ یقیں سے جو ہوئے خالی تو رخشاں
لہجہ میں صداقت ہے نہ تاثیر دعا میں
(المجیب ، اگست۱۹۷۰)

Thursday, 9 April 2020

Risala e Namaz - For Children


 دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف سے شائع حضرت مولانا سید شاہ محمدآیت اللہ  قادری پھلواروی مدظلہ العالی کا مرتب کردہ اطفال کے لئے ایک بہترین تحفہ۔ آئینہ حضرت کی اجازت سے اس رسالہ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ 

Tuesday, 7 April 2020

Aaina At A Glance


لال بتی جل گیا تسنیم عثمانی سملوی
یادیں بچپن کے رمضان کی قصّہ گو
پھول شاہ ابن طاہر
علم التصوف:اللہ اور بندے کے روحانی تعلق کی بنیاد شبلی فردوسی
بچّوں کے لیے اردو کی سحر انگیز دنیا مبشرہ منصور
یہ ہے کولکتہ میری جان(سفر نامہ۔ ۱) صحبہ عثمانی
یہ ہے کولکتہ میری جان(سفر نامہ۔ ۲) صحبہ عثمانی
علامہ اقبال کی آخری رات شبلی فردوسی
اردو شاعری میں رنگ تصوف شاہ رشاد عثمانی
حضرت شاہ کمال ڈاکٹر امین چند شرما
مولانا طیب عثمانی ندوی کے اذکار صوفیانہ شاہ ہلال احمد قادری
یادگار غالب کی روشنی میں غالب تحسین عثمانی
حسرت موہانی صحبہ عثمانی
عبد القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں
عبد القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں 2
روایت اور جدّت کا خوبصورت امتزاج :افتخار راغبؔ
شاہ حسن نہری کی شعری کائنات شاہ رشاد عثمانی
غیر مسلم شعرا کی نعت نگاری ڈاکٹر کے وی نکولن
ٹوٹ گئے ستار کے تار ادارہ
شاعر اسلام اقبال۔ شخصیت اور پیام طیب عثمانی ندوی

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وصیت یومِ وصال پر خاص
حضرت امیر خسرو ایک خراج عقیدت
 دل پھر طواف کوئے محبت کو جائے ہے ابن طاہر
ملکہ بلقیس نصرت جہاں
چند سطریں پھولوں کی تعریف میں ”آرایش محفل“ سے ایک باب
شب برات مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین یحیٰ منیری ؒ
وفات کے بعد روحوں کا دنیا سے تعلق مولانا شبنم کمالی
نزلہ و زکام وبائی مسیح الملک حکیم اجمل خاں
تعلیم نسواں اقصیٰ عثمانی
دہلی کی آلودہ فضائیں ادارہ
پودوں میں رسم شادی سید ناطق قادری
صفائی سے بہتر نہیں کوئی شے صحبہ عثمانی
جمشید پور: محبت و خوبصورتی کا شہر(انگریزی) عریشہ عثمانی

مرزا محمد رفیع سودا
شیخ ابراہیم ذوق
شادعظیم آبادی

خیرات غیاث احمد گدی
اس کے روزوشب غیاث احمد گدی
گیان سید ناطق قادری


شاہ منصور ؒ: دنیائے تصوف کے بادشاہ ابن طاہر
تاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملویؒ از تاریخ اطبائے بہار
تاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملویؒ ڈاکٹر محمد اقبال
ؒحضرت مولانا حکیم شاہ منصور احمد فردوسی سید شاہ ہلال احمد قادری


تھوڑی سی ملا دیجئے مے بھی جو دوا میں رخشاں ابدالی
وہ چاہےکوئی بلا سے نہ چاہے یا چاہے ڈاکٹر کلیم عاجز
عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے نظیر اکبر آبادی
میاں دل تجھے لے چلے حسن والے نظیر اکبر آبادی
اس کے شرار حسن نے جلوہ جو اک دکھادیا نظیر اکبر آبادی
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس جگر مراد آبادی
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ناصر کاظمی
بہک بھی سکتا ہوں توبہ کی چاہتیں لکھ دے جوگا سنگھ انور
ہم چپکے چپکے اشک بہانے سے بچ گئے تاجور سلطانہ
مجھے راز درونِ دل عیاں کرنا نہیں آتا تاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہرعثمانی فردوسی
ابر گھر آتا ہے جب رازِچمن کھلتا ہے کامل القادری
اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں خمار بارہ نکوی
دولت غم اپنے اوپر ہم نے خوب لُٹائی دانش مامون
اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو ڈاکٹر کلیم عاجز

الوداع راحت خستۂ جاں امیمہ قادری
عید کی خوشی نظیر اکبر آبادی
جس دن سے گئی ہیں وہ میکے سید حسن عسکری طارق
او دیس سے آنے والے بتا اختر شیرانی
خوشحال نامہ نظیر اکبر آبادی
ہولی نظیر اکبر آبادی
اک مس سیمیں بدن سے کرلیا لندن میں عقد اکبر الہ آبادی
ریلیاں ہی ریلیاں رضا نقویواہی
ترانۂ بَہار جوش ملیح آبادی
اک جرم ہوا ہے ہم سے راشدہ خان

کہانی ایک چور کی اقبال حسن آزاد کی فیس بُک وال سے
اردو میں ’ہ‘ اور ’ھ‘ کا مناسب استعمال نامعلوم
اسرار جامعی کی یاد میں عمیر منظر
اسرار جامعی کے آخری ایّام معصوم مرادآبادی
پرنسپل کا خط والدین کے نام شاہ رشاد عثمانی کے فیس بک صفحہ سے


شگفتہ خاطر کا اجراء شبلی فردوسی
خدیجة الکبریٰ گرلس پبلک اسکول میں سرمائی میلہ
عالمی تجارتی میلہ 2017
جامعہ ملیہ میں نووارد طلبہ کا استقبال
جامعہ ملیہ میں 2006 میں منعقدہ مشاعرہ کی روداد
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 97ویں یوم تاسیس کے موقع پر دو روزہ پروگرام کا انعقاد
یعنی تو کی تقریب رونمائی
عرس کا مطلب عاشق سے معشوق کا وصال ہوتا ہے۔سیف الدین فردوسی

Rooh Ka Duniya Se Taaluq - Maulana Shabnam Kamali


وفات کے بعد روحوں کا دنیا سےتعلق
 مولانا شبنم کمالی مظفرپوری نے اپنے  اس گراں قدرمضمون   میں اس غورطلب مسئلہ  پر روشنی ڈالی  ہے کہ  جب انسان کی روح جسد خاکی سے نکل کر اپنی منزل اور قرارگاہ کو پا لیتی ہے تو کیا سیرو تفریح ہی کے لئے ہی سہی کبھی کبھی اپنے قدیم دنیاوی گھر میں آتی ہے یا نہیں. وہ اپنے رشتہ مندوں سے  ملنے پہونچتی ہے یا نہیں۔ سیدھے سادھے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کی روحیں اپنے گھروں میں بھی آتی ہیں یا نہیں ؟
شب برأت کی مناسبت سے یہ مضمون رسالہ المجیب ،پھلواری شریف کے شکریہ کے ساتھ قارئین آئینہ  کے لیے پیش ہے۔

خوش خبری