آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 29 March 2020

Nawa e Urdu Class IX Content


ترتیب

 انشائیہ
 گزرا ہوا زمانہ  سرسیداحمد خاں
 چارپائی  رشید احمد صدیقی
 افسانہ
 حجِ اکبر  منشی پریم چند
 مگر وہ ٹوٹ گئی  صالحہ عابدحسین
 مختصرمضمون
 دیہات کی زندگی  عبدالحلیم شرر
 نذیر احمد کی کہانی ،کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی  مرزا فرحت اللہ بیگ
 جینے کا سلیقہ  خواجہ غلام السیّدین
 انفارمیشن ٹیکنالوجی   ادارہ
 ڈراما
 خداحافظ  شوکت تھانوی
 حصّہ نظم
 غزل
 مفلسی سب بہار کھوتی ہے  ولی محمد ولی
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا  میر تقی میر
 درد منت کش دوا نہ ہوا  مرزا غالب
 روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام  حسرت موہانی
 سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں  فراق گورکھپوری
 ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح  مجروح سلطان پوری
 نظم
 تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ  الطاف حسین حالی
 راماین کا ایک سین  چکبست لکھنوی
 ایک آرزو  محمد اقبال
بول  فیض احمد فیض
 گیت
 سکھ کی تان  میرا جی
 قطعہ
 دعوت انقلاب  وحید الدین سلیم
امکانات
آرزو
شبِ پُر بہار
 اختر انصاری
 مثنوی
 داستان شہزادے کے غائب ہونے کی  میرحسن

Saturday 28 March 2020

Haj e Akbar - Prem Chand - NCERT Solutions Class IX Urdu

Haj e Akbar by Munshi Prem Chand  Chapter 3 NCERT Solutions Urdu
حج اکبر
منشی پریم چند

منشی صابر حسین کی آمدنی کم تھی اور خرچ زیادہ، اپنے بچے کے لیے دایہ رکھنا گوارا نہیں کر سکتے تھے، لیکن ایک تو بچے کی صحت کی فکر اور دوسرے اپنے برابر والوں سے ہٹیے بن کر رہنے کی ذلت اس خرچ کو برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا۔ ہر دم اس کے گلے کا ہر بنارہتاتھا۔ اس وجہ سے دایہ اور بھی ضروری معلوم ہوتی تھی۔ مگر شاید سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ مروت کے باعث دایہ کو جواب دینے کی جرأت نہ کر سکتے تھے۔ بڑھیا ان کے یہاں تین سال سے نوکرتھی۔ اس نے ان کے اکلوتے بچے کی پرورش کی تھی۔ اپنا کام دل و جان سے کرتی تھی۔ اسے نکالنے کا کوئی حیلہ نہ تھا اور خواہ مخواہ کیڑے نکالنا صابر جیسے حلیم شخص کے لیے غیر ممکن تھا۔مگر شاکرہ اس معاملہ میں اپنے شوہر سے متفق نہ تھی ۔ اسے شک تھا کہ دایہ ہم کو لوٹے لیتی ہے۔ جب دا یہ بازار سے لوٹتی تو وہ ہلیز میں چھپی رہتی کہ دیکھوں آٹا چھپا کر تو نہیں رکھ دیتی ۔ لکڑی تو نہیں چھپا دیتی۔ اس کی لائی ہوئی ہر چیز کوگھنٹوں دیکھتی - بار بار پوچھتی اتنا ہی کیوں؟ کیا بھاؤ ہے؟ کیا اتنا مہنگا ہو گیا؟ دایہ کبھی توان بدگمانیوں کا جواب ملائمیت سے دیتی لیکن جب بیگم زیادہ تیز ہو جاتیں تو وہ بھی کڑی پڑ جاتی تھی۔قسمیں کھاتی۔ صفائی کی شہادتیں پیش کرتی ۔ تردید اور حجت میں گھنٹوں لگ جاتے ۔ قریب قریب روزانہ یہی کیفیت رہتی تھی اور روز یہ  ڈراما دایہ کی خفیف سی اشک ریزی کے بعد ختم ہوجاتا تھا۔ دایہ کا اتنی سختیاں جھیل کر پڑے رہنا شاکرہ کے شکوک کی آبیاری کرتا تھا۔ اسے بھی یقین نہ آتا تھا کہ یہ بڑھیا محض بچّے  کی محبت سے پڑی ہوئی ہے۔ وہ دایہ کو ایسے لطیف جذ بہ کا  اہل نہیں سمجھتی تھی۔
اتفاق سے ایک روز دایہ کو بازار سے لوٹنے میں ذرا دیر ہوگئی ۔ وہاں دو کنجڑنوں میں بڑے جوش و خروش سے مناظرہ تھا۔ ان کا مصّور طرزادا، ان کا اشتعال انگیز استدلال، ان کی متشکل تضحیک ، ان کی روشن شہادتیں اور منور روایتیں ، ان کی تعریف اور تر دید بے مثال تھیں ۔ زہر کے دو در یا تھےیا دو شعلے جو دونوں طرف سے امڈ کر باہم گتھ گئے تھے۔ کیا روانیٔ زبان تھی ! گویا کوزے میں در یا بھرا ہو۔ ان کا جوش اظہار ایک دوسرے کے بیانات کو سننے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ ان کے الفاظ کی  رنگینی ، تخیل کی ایسی نوعیت ، اسلوب کی ایسی جدت ، مضامین کی ایسی آمد، تشبیہات کی ایسی موزونیت اور فکر کی ایسی پرواز پر ایسا کون سا شاعر ہے جو رشک نہ کرتا۔ صفت یہ تھی کہ اس مباحثہ میں تلخی  یا د لآویزی کا شائبہ بھی نہ تھا۔ دونوں بلبلیں اپنے اپنے ترانوں میں  محوتھیں۔ ان کی متانت، ان کا ضبط، ان کا اطمینان ِقلب حیرت انگیز تھا۔ ان کے ظرفِ دل میں اس سے کہیں زیادہ کہنے کی اور بدر جہا زیادہ سننے کی گنجائش معلوم ہوتی تھی۔ الغرض یہ خالص دماغی ذ ہنی مناظرہ تھا۔ اپنے اپنے کمالات کے اظہار کے لیے ایک خالص زور آزمائی تھی اپنے اپنے کرتب اورفن کے جوہر دکھانے کے لیے۔
تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ و مبتذل کنایات و اشارے جن پر بے شرمی کو شرم آتی اورکلمات رکیک جن سےعفونت بھی دور بھاگتی، ہزاروں رنگین مزاجوں کے لیے محض باعث تفریح تھے۔
دایہ بھی کھڑی ہوگئی کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے، پر تماشا اتنا دلآو یز تھا کہ اسے وقت کا مطلق احساس نہ ہوا۔ یکا یک نو بجنے کی آواز کان میں آئی تو سحر ٹوٹا۔ وہ لپکی ہوئی گھر کی طرف چلی۔
شاکر ہ بھری بیٹھی تھی ۔ دایہ  کو دیکھتے ہی تیور بدل کر بولی کیا بازار میں کھوگئی تھیں؟ دایہ نے خطا وارانہ انداز سے سر جھکا لیا اور بولی ” بیوی ایک جان پہچان کی ماما سے ملاقات ہوگئی اور باتیں کرنے لگی ‘‘
شاکرہ جواب سے اور بھی برہم ہوئی۔ یہاں دفتر جانے کو دیر ہورہی ہےتمہیں سیر سپاٹے کی سو جھی ہے۔ مگر دایہ نے اس وقت دبنے میں خیر یت سمجھی ۔ بچّے  کو گود میں لینے چلی ۔ پر شاکرہ نے جھڑک کر کہا۔ رہنے دو تمھارے بغیر بے حال نہیں ہوا جاتا۔
دایہ نے اس حکم کی تعمیل ضروری نہ سمجھی بیگم صاحبہ کا غصّہ فروکر نے کی اس سے زیادہ کارگر کوئی تدبیر ذہن میں نہ آئی۔ اس نے نصیر کو اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلائے لڑکھڑاتا ہوا اس کی طرف چلا ۔ دایہ نے اسے گود میں اٹھا لیا۔ اور دروازہ کی طرف چلی لیکن شا کره باز کی طرح جھپٹی اور نصیر کو اس کی گود سے چھین کر بولی ۔’’ تمہارا یہ  مکر بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں۔ یہ تماشے کسی اور کو دکھایئے۔ یہاں طبیعت سیر ہوگئی۔
دایہ نصیر پر جان دیتی تھی اور سمجھتی تھی کہ شاکرہ اس سے بے خبر نہیں ہے ۔ اس کی سمجھ میں شاکرہ اور اس کے درمیان یہ ایسا مضبوط تعلق تھا جسے معمولی ترشیاں کمزور نہ کر سکتی تھیں ۔ اسی وجہ سے با وجود شاکرہ کی سخت زبانیوں کے اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ واقعی مجھے نکالنے پر آمادہ ہے۔ پر شاکرہ نے یہ باتیں کچھ اس بے رخی سے کہیں اور بالخصوص نصیر کو اس بے دردی سے چھین لیا کہ دایہ سے ضبط نہ ہو سکا۔ بولی۔” بیوی مجھ سے کوئی ایک بڑی خطا تو نہیں ہوئی ۔ بہت ہو گا تو پا ؤ گھنٹہ کی دیر ہوئی ہوگی۔ اس پر آپ اتنا جھلّا رہی ہیں ۔ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ دوسرا  دروازہ دیکھو۔ اللہ نے پیدا کیا ہے تو رزق بھی دے گا۔ مزدوری کا کال تھوڑ اہی ہے۔
 شاکرہ:’’ تو یہاں تمھاری کون پر وا کرتا ہے ۔ تمھاری جیسی ماما ئیں گلی گلی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں ۔
دایہ:” ہاں خدا آپ کو سلامت رکھے۔  مامائیں، دائیاں بہت ملیں گی۔ جو کچھ خطا ہوئی ہو۔ معاف کیجے گا۔ میں جاتی ہوں ۔
شاکرہ :  ” جاکر مردانے میں اپنی تنخواہ کا حساب کرلو “
 دایہ :” میری طرف سے نصیر میاں کو اس کی مٹھائیاں منگوا دیجئے گا‘‘
 اتنے میں صابرحسین بھی باہر سے آگئے۔ پوچھا۔ ” کیا ہے؟
 دایہ:”کچھ ہیں ۔ بیوی نے جواب دے دیا ہے۔ گھر جاتی ہوں ۔“
صابر حسین خانگی تر ددات سے یوں بچتے تھے جیسے کوئی برہنہ پا کانٹوں سے بچے۔ انھیں سارے دن ایک ہی جگہ کھڑے رہنا منظورتھا۔ پرکانٹوں میں پیر رکھنے کی جرأت نہ تھی ۔ چیں بہ جبیں ہو کر بولے۔ ” کیا بات ہوئی ؟
شاکرہ: کچھ نہیں ۔ اپنی طبیعت۔ نہیں جی چاہتا نہیں رکھتے۔کسی کے ہاتھوں بک تو نہیں گئے۔
صابر : تمھیں بیٹھے بٹھائے ایک نہ ایک کھچڑ سوجھتی رہتی ہے۔
شاکرہ :” ہاں مجھے تو اس بات کا جنون ہے ۔ کیا کروں؟ خصلت ہی ایسی ہے۔ تمہیں یہ بہت پیاری ہے ۔ تو لیجا کر گلے با ندھو میرے یہاں ضرورت نہیں ہے۔
دایہ گھر سے نکلی تو اس کی آنکھیں لبر یز تھیں ۔ دل نصیر کے لیے تڑپ رہا تھا کہ ایک بار بچّے کو گود میں لے کر پیار کر لوں ۔ پر یہ حسرت لیے اسے گھر سے نکلنا پڑا۔
نصیر دایہ کےپیچھے پیچھے دروازہ تک آیا لیکن جب دایہ نے دروازہ باہر سے بند کر دیا تو مچل کر زمین پر لیٹ گیا۔ اور انّا انّا  کہہ کر رونے لگا۔ شاکر ہ نے چمکارا پیار کیا گود میں لینے کی کوشش کی ۔ مٹھائی کا لالچ دیا۔ میلہ دکھانے کا وعدہ کیا ۔ اس سے کام نہ چلا تو بندر اور سپاہی اور لولو اور ہوّا کی دھمکی دی مگرنصیر پرمطلق اثر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ شاکرہ کو غصہ آ گیا۔ اس نے بچے کو وہیں چھوڑ دیا۔ اور آ کر گھر کے دھندوں میں مصروف ہوگئی ۔ نصیر کا منھ اور گال لال ہوگئے ۔ آنکھیں سوج گئیں ۔ آخر وہ وہیں زمین پر سسکتے سسکتے سو گیا۔
شاکر ہ نے سمجھا تھاتھوڑی دیر میں بچّہ رو دھو کر چپ ہوجائے گا۔ پر نصیر نے جاگتے ہی  پھر انّاکی رٹ لگائی۔ تین بجے صا برحسین دفتر سے آئے اور بچے کی یہ حالت دیکھی تو بیوی کی طرف قہر کی نگاہوں سے دیکھ کر اسے گود میں اٹھا لیا۔ اور بہلانے لگے۔ آخر نصیر کو جب یقین ہو گیا کہ دایہ مٹھائی لینے گئی تو اسے تسکین ہوئی ۔ مگر شام ہوتے ہی اس نے پھر چیخنا شروع کیا۔ اناّ مٹھائی لائی؟
اس طرح دو تین دن گزر گئے ۔ نصیر کوانّا کی رٹ لگانے اور رونے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا۔ وہ بے ضرر کتا جو ایک لمحہ کے لیے اس کی گود سے جدا نہ ہوتا تھا۔ وہ بے زبان بلی جسے طاق پر بیٹھے دیکھ کر وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ وہ طائر بے پرواز جس پر وہ جان دیتا تھا۔ سب اس کی نظروں سے گر گئے۔ وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ انّا جیسی جیتی جاگتی پیار کرنے والی، گود میں لے کر گھمانے والی ، تھپک تھپک کر سلانے والی ، گا گا کر خوش کرنے والی چیز کی جگہ ان بے جان، بے زبان چیزوں سے پُر نہ ہوسکتی تھی۔ وہ اکثر سوتے سوتے چونک پڑتا اور انّانّا پکا ر کے رونےلگتا۔کبھی دروازہ پر جاتا اورا نّا انّا پکار کر ہاتھوں سے اشارہ کرتا ۔ گویا اسے بلا رہا ہے۔ انّا کی خالی کوٹھری میں جا کر گھنٹوں بیٹھا رہتا۔ اسے امید ہوتی تھی کہ  انّا یہاں آتی ہوگی ۔ اس کوٹھری کا دروازہ بند پا تاتو جا کر کواڑ کھٹکھٹا تا کہ شایدانّا  اندرچھپی بیٹھی ہو۔ صدر دروازہ کھلتے سنتا تو انّا انّاکہہ کر دوڑتا۔ سمجھتا کہ انّا آگئی۔ اس کا گدرایا ہوا بدن گھل گیا۔ گلاب کے سے رخسار سوکھ گئے۔ ماں اور باپ دونوں اس کی موہنی ہنسی کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے ۔ اگر بہت گدگدانے اور چھیڑنے سے ہنستا بھی تو ایسا معلوم ہوتا دل سے نہیں محض دل رکھنے کے لیے ہنس رہا ہے ۔ اسے اب دودھ سے رغبت تھی نہ مصری سے ، نہ میوہ سے ، نہ میٹھے بسکٹ سے ، نہ تازی امرتوں سے ۔ ان میں مزہ تھا جب انّا اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی۔ اب ان میں مزہ نہ تھا۔ دو سال کا ہونہار کہلاتا ہوا شاداب پودا مرجھا کر رہ گیا۔ وہ لڑکا جسے گود میں اٹھاتے ہی نرمی گرمی اور وزن کا احساس ہوتا تھا۔ اب استخواں کا ایک پتلا رہ گیا تھا۔ شاکرہ بچے کی یہ حالت دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتی اور اپنی حماقت پر پچھتاتی ۔ صابر حسین جوفطر تا ًخلوت پسند آدمی تھے۔ اب نصیرکو گود سے جدا نہ کرتے تھے ۔ اسے روز ہوا کھلانے جاتے نت نئے کھلونے لاتے۔ پر مرجھایا ہوا  پودا کسی طرح نہ پنپتا تھا ۔ دایہ اس کی دنیا کا آفتاب تھی۔ اس قدرتی حرارت اور روشنی سے محروم ہو کر سبزہ کی بہار کیوں کر دکھاتا؟ دایہ کے بغیر اسے چاروں طرف اندھیرا، سناٹا نظر آتا تھا۔ دوسری انّا تیسرے ہی دن رکھ لی  گئی تھی۔ پرنصیراس کی صورت دیکھتے ہی منہ چھپالیتا تھا۔ گویا وہ کوئی دیونی یا بھُتنی ہے۔
عالم وجود میں دایہ  کو نہ دیکھ کر نصیر اب زیادہ تر عالم خیال میں رہتا۔ وہاں اس کی اپنی انّا چلتی پھرتی نظر آتی تھی ۔ اس کی وہی گودتھی ۔  وہی محبت، وہی پیاری باتیں، وہی پیارے پیارے گیت، وہی مزےدار مٹھائیاں ، وہی سہانا سنسار، وہی دلکش لیل و نہار، اکیلے بیٹھے انّا سے باتیں کرتا ۔ انّا کتنا بھو نکے ۔ انّاگائے دودھ دیتی ۔ انّا اجلا اجلا گھوڑا دوڑتا ۔ سویرا ہوتے ہی لوٹا لے کر دایہ کی کوٹھری میں جاتا اور کہتا۔” انّا پانی پی ۔ دودھ کا گلاس لے کر اس کی کوٹھری میں رکھ آتا اور کہتا۔انّادودھ پلا ۔اپنی چارپائی پر تکیہ رکھ کر چادر سے ڈھانک دیتا اور کہتا ’’انّاسوتی‘‘ شاکره کھانے بیٹھتی تو رکابیاں اٹھا اٹھا انّاکی کوٹھری میں لے جاتا اور کہتا انّاکھانا کھائے گی۔ انّااس کے لیے اب ایک آسمانی و جودتھی جس کی واپسی کی اسے مطلق امید نہ تھی۔ وہ محض گزشتہ خوشیوں کی دلکش یادگارتھی جس کی یاد ہی اس کا سب کچھ تھی۔ نصیر کے انداز میں رفتہ رفتہ لطفلانہ شوخی اور بیتابی  کی جگہ ایک حسرت ناک تو کل ، ایک مایوسانہ خوشی نظر آنے لگی۔ اس طرح تین ہفتے گزر گئے۔ برسات کا موسم تھا۔کبھی شدت کی گرمی ، کبھی ہوا کے ٹھنڈے جھو نکے، بخار اور زکام کا زور تھا۔ نصیر کی نقاہت اس موسمی تغیرات کو برداشت نہ کرسکی ۔ شاکرہ احتیاطاً اسے فلالین کا کرتا پہنائے رکھتی۔ اسے پانی کے قریب نہ جانے دیتی ۔ ننگے پاؤں ایک قدم نہ چلنے دیتی ۔ مگر رطوبت کا اثر ہو ہی گیا نصیر کھانسی اور بخار میں مبتلا ہو گیا۔
صبح کا وقت تھا۔ نصیر چارپائی پر آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ ڈاکٹروں کا علاج بے سود ہورہاتھا۔ شاکرہ چار پائی پر بیٹھی اس کے سینے پرتیل کی مالش کر رہی تھی اور صابرحسین صورتِ غم بنے ہوئے بچے کو پر درد نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس طرف وہ شاکرہ سے بہت کم بولتے تھے۔ انہیں اس سے ایک نفرت سی ہوگئی تھی ۔ وہ نصیر کی اس بیماری کا سارا الزام اسی کے سر رکھتے تھے۔ وہ ان کی نگاہوں میں نہایت کم ظرف ، سفلہ مزاج، بے حس عورت تھی۔
شاکر ہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔” آج بڑے حکیم صاحب کو بلا لیتے ۔ شایدا نھیں کی دوا سے فائدہ ہو “ صابر حسین نے کالی گھٹاؤں کی طرف دیکھ کر ترشی سے جواب دیا۔
”بڑے حکیم نہیں ۔ لقمان بھی آئیں تو اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا ۔“
شاکرہ :” تو کیا اب کسی کی دوائی نہ ہوگی ؟“
 صابر :’’ بس اس کی ایک ہی دوا ہے اور وہ نایاب ہے۔“
شاکرہ : ”تمھیں تو وہی دھن سوار ہے۔ کیا عباسی امرت پلا دے گی؟ “
صابر : ”ہاں وہ تمھارے لیے چاہے زہر ہو لیکن بچے کے لیے امرت ہی ہوگی ۔“
 شاکرہ :” میں نہیں سمجھتی کہ اللہ کی مرضی میں اسے اتنادخل ہے۔ “
صابر : ”اگر نہیں سمجھتی ہو اور اب تک نہیں سمجھا تو روؤ گی۔ بچّے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔“
شاکرہ: ”چپ بھی رہو کیسا شگون زبان سے نکالتے ہو اگر ایسی جلی کٹی سنانی ہے تو یہاں سے چلے جاو ٔ“
صابر : ”ہاں تو میں جانا ہوں ۔ مگر یاد رکھو یہ خون تمھاری گردن پر ہوگا۔ اگر لڑکے کو پھر تندرست دیکھنا چاہتی ہو تو اس عباسی کے پاس جاؤ۔ اس کی منت کرو۔ التجا کرو تمھارے بچے کی جان اسی کے رحم و کرم پر منحصر ہے۔“
شاکرہ نے کچھ جواب نہ  دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ صابر حسین نے پوچھا۔ ”کیا مرضی ہے۔جاؤں، اسے تلاش کروں؟‘‘
شاکرہ :” تم کیوں جاؤ گے۔ میں خود چلی جاؤں گی ۔“
صابر : ” نہیں معاف کرو۔ مجھے تمھارے اوپر اعتبارنہیں ہے۔ نہ جانے تمھارے منھ سے کیا نکل جائے کہ وہ آتی بھی ہو تو نہ آئے ۔“
شاکرہ نے شوہر کی طرف نگاہ ملامت سے دیکھ کر کہا۔ ” ہاں اور کیا مجھے اپنے بچے کی بیماری کا قلق تھوڑے ہی ہے۔ میں نے شرم کے مارے تم سے کہا نہیں لیکن میرے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہوا ہے۔ اگر مجھے دایہ کے مکان کا پتہ معلوم ہوتا تو میں اسے کب کی منالائی ہوتی ۔ وہ مجھ سے کتنی ہی ناراض ہولیکن نصیر سے اسے محبت تھی ۔ میں آج ہی اس کے پاس جاؤں گی۔ اس کے قدموں کو آنسوؤں سے تر کر دوں گی ۔ اور وہ جس طرح راضی ہوگی اسے راضی کروں گی ۔“
شاکرہ نے بہت ضبط کر کے یہ باتیں کہیں ۔مگر امڈے ہوئے آنسو اب نہ رک سکے۔
صابرحسین نے بیوی کی طرف ہمدردانہ نگاہ سے دیکھا اور نادم ہو کر بولے۔ ” میں تمھارا جا نا مناسب نہیں سمجھتا، خود ہی جانا ہوں “
عباسی دنیامیں اکیلی تھی ۔ کسی زمانے میں اس کا خاندان گلاب کا سرسبز شاداب درخت تھا۔ مگر رفتہ رفتہ خزاں نے سب پتیاں گرادیں۔ با دِ حوادث نے درخت کو پامال کردیا ۔ اور اب یہی سوکھی ٹہنی ہرے بھرے درخت کی یاد گار باقی تھی۔
مگر نصیر کو پا کر اس کی سوکھی ٹہنی میں جان سی پڑگئی تھی۔ اس میں ہری ہری پتیاں نکل آئی تھیں۔ وہ زندگی جو اب تک خشک اور پامال تھی۔ اس میں پھر رنگ و بو کے آثار پیدا ہو گئے تھے۔ اندھیرے بیاباں میں بھٹکے ہوئے مسافر کو شمع کی جھلک نظر آنے لگی تھی۔ اب اس کا جوئے حیات سنگ ریزوں سے  نہ ٹکراتا تھا۔ وہ اب ایک گلزار کی آبیاری کرتا تھا۔ اب اس کی زندگی محمل نہیں تھی۔ اس میں معنی پیدا ہو گئے تھے۔
عباسی نصیر کی بھولی بھولی باتوں پر نثار ہوگئی۔ مگر وہ اپنی محبت کو شاکرہ سے چھپاتی تھی۔ اس لیے کہ ماں کے دل میں رشک نہ ہو۔ وہ نصیر کے لیے ماں سے چھپ کر مٹھائیاں لاتی اور اسے کھلا کر خوش ہوتی۔ وہ دن میں دو دو تین تین بار اسے ابٹن ملتی کہ بچّہ خوب پروان چڑھے۔ وہ اسے دوسروں کے سامنے کوئی چیز نہ کھلاتی کہ بچّہ کو نظر نہ لگ جائے۔ ہمیشہ دوسروں سے بچے کی کم خوری کا رونا رویا کرتی۔ اسے نظر بد سے بچانے کے لیے تعویذ اور گنڈے لاتی رہتی ۔ یہ اس کی خالص مادرانہ محبت تھی۔ جس میں اپنے روحانی احتظاظ کے سوا اور کوئی غرض نہ تھی۔
اس گھر سے نکل کر آج عباسی کی وہ حالت ہوگئی جوتھیٹر میں یکایک بجلیوں کے گل ہوجانے سے ہوتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی صورت ناچ رہی تھی ۔ کانوں میں وہی پیاری پیاری باتیں گونج رہی تھیں، اسے اپنا گھر پھاڑے کھاتا تھا۔ اس کال کوٹھری میں دم گھٹا جاتا تھا۔
رات جوں توں کر کے کٹی ۔صبح کو وہ مکان میں جھاڑو دے رہی تھی ۔ یکایک تازے حلوے کی صدا سن کر بے اختیار باہر نکل آئی ۔ معاً یاد آ گیا۔ آج حلوہ کون کھائے گا؟ آج گود میں بیٹھ کرکون چہکے گا ۔ وہ نغمہ مسرت سننے کے لیے، جوحلوہ کھاتے وقت نصیر کی آنکھوں سے ، ہونٹوں سے، اور جسم کے ایک ایک عضو سے برستا تھا، عباسی کی روح تڑپ  اٹھی ۔ وہ بے قراری کے عالم میں گھر سے نکلی کہ چلوں۔ نصیر کو دیکھ آؤں، پرآدھے راستہ سے لوٹ گئی۔
نصیر عباسی کے دھیان سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں اترتا تھا۔ وہ سوتے سوتے چونک پڑتی۔ معلوم ہوتا نصیر ڈنڈے کا گھوڑا دبائے چلا آتا ہے۔ پڑوسنوں کے پاس جاتی تو نصیر ہی کا ذکرکرتی۔ اس کے گھر کوئی آتا تو نصیر ہی کا ذکر کرتی نصیر اس کے دل اور جان میں بسا ہوا تھا۔ شاکرہ کی بے رخی اور بدسلوکی کے ملال کے لیے اس میں جگہ  نہ تھی۔
وہ روز ارادہ کرتی کہ آج نصیر کو دیکھنے جاؤں گی ۔ اس لیے بازار سے کھلونے اور مٹھائیاں لاتی ۔ گھر سے چلتی ۔ لیکن کبھی آدھے راستے سے لوٹ آتی ۔ کبھی دو چار قدم سے آگے نہ بڑھا جاتا۔ کون منہ لے کر جاؤں؟ جومحبت کوفریب سمجھتا ہو اسے کون منہ دکھاؤں !کبھی سوچتی ،  کہیں نصیر مجھے نہ  پہچانے تو ! بچوں کی محبت کا اعتبار کیا؟ نئی دایہ سے رچ گیا ہو۔ یہ خیال اس کے پیروں میں زنجیر کا کام کر جاتا تھا۔
اس طرح دو ہفتے گزر گئے ۔ عباسی کا دل ہر دم اچاٹ رہتا۔ جیسے اسے کوئی لمبا سفر در پیش ہو۔ گھر کی چیزیں جہاں کی تہاں پڑی رہتیں ۔ نہ کھانے کی فکر نہ کپڑے کی ۔ بدنی ضروریات بھی خلا ء دل کو پر کرنے میں لگی ہوتی تھیں ۔ اتفاق سے اسی اثنا میں حج کے دن آگئے ۔ محلے میں کچھ لوگ حج کی تیاریاں کرنے لگے ۔ عباسی کی حالت اس وقت پالتو چڑیا کی سی تھی ۔ جوقفس سے نکل کر پھر کسی گوشہ کی تلاش میں ہو۔ اسے اپنے تئیں بھلا دینے کا یہ ایک بہانہ  مل گیا ۔ وہ آماده ٔسفر ہوگئی ۔
آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں ۔ اور ہلکی ہلکی پھواریں پڑ رہی تھیں ۔ دہلی اسٹیشن پر زائرین کا ہجوم تھا۔ کچھ گاڑیوں میں بیٹھے تھے۔ کچھ اپنے گھر والوں سے رخصت ہورہے تھے۔ چاروں طرف اک کہرام سا مچا ہوا تھا۔ دنیا اس وقت بھی جانے والوں کے دامن پکڑے ہوئے تھی۔ کوئی بیوی سے تاکید کر رہا تھا۔ ’’ دهان کٹ جائے تو تالاب والے کھیت میں مٹر بو دینا اورباغ کے پاس گیہوں ‘‘ کوئی اپنے جوان لڑکے کو سمجھا رہا تھا۔” آسامیوں پر بقایا لگان کی تالش کرنے میں دیر نہ کرنا اور دور و پیے سیکٹر ہ سودضرور مجرا کر لینا‘‘ ایک بوڑ ھے تا جر صاحب اپنے منیم سے کہہ رہے تھے۔ مال آنے میں دیر ہو تو خود چلے جائے گا اور چلتو مال  لیجیے گا  ورنہ رو پیہ پھنس جائے گا۔ مگر خال خال ایسی صورتیں بھی نظر آتی تھیں جن پر مذہبی ارادت کا جلوہ تھا۔ وہ یا تو خاموش آسمان کی طرف تاکتی تھیں، یا محوتسبیح خوانی تھیں ۔ عباسی بھی ایک گاڑی میں بیٹھی سوچ رہی تھی ۔ ان بھلے آدمیوں کو اب بھی دنیا کی فکرنہیں چھوڑتی ۔ وہی خرید وفروخت لین دین کے چرچے نصیر اس وقت یہاں ہوتا تو بہت روتا۔ میری گود سے کسی طرح نہ اتر تا۔ لوٹ کر ضرور اسے دیکھنے جاؤں گی یا اللہ کسی طرح گاڑی چلے ۔ گرمی کے مارے کلیجہ بھُنا جاتا ہے۔ اتنی گھٹا امڈی ہوئی ہے۔ برسنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ معلوم نہیں یہ ریل والے کیوں دیر کر رہے ہیں؟ جھوٹ موٹ ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ چٹ پٹ گاڑی کھول دیں ۔ مسافروں کی جان میں جان آئے ۔ یکا یک اس نے صابر حسین کو بائیسکل لیے پلیٹ فارم پر آتے دیکھا۔ ان کا چہرہ اترا ہوا تھا اور کپڑے تر تھے۔ وہ گاڑیوں میں جھانکنے لگے۔ عباسی محض یہ دکھانے کے لیے کہ میں بھی حج کرنے جارہی ہوں ، گاڑی سے باہر نکل آئی ۔ صابر حسین اسے دیکھتے ہی لپک کر قریب آئے اور بولے ” کیوں عباسی ! تم بھی حج کو چلیں؟“
عباسی نے فخریہ انکسار سے کہا۔ ” ہاں ! یہاں کیا کروں؟ زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ۔ معلوم نہیں کب آنکھیں بند ہو جائیں ۔ خدا کے یہاں منہ دکھانے کے لیے بھی تو کوئی سامان چاہیے۔ نصیر میاں تو اچھی طرح ہیں؟“
صابر :” اب تو تم جارہی ہو نصیر کا حال پوچھ کر کیا کروگی۔ اس کے لیے دعا کرتی رہنا۔ عباسی کا سینہ دھڑکنے لگا۔ گھبرا کر بولی۔” کیا دشمنوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے؟“
صابر :” اس کی طبیعت تو اسی دن سے خراب ہے جس دن تم وہاں سے نکلیں ۔ کوئی دو ہفتہ تک تو انّا انّا کی رٹ لگاتا رہا۔ اور اب ایک ہفتہ سے کھانسی اور بخار میں مبتلا ہے ۔ ساری دوائیں کر کے ہار گیا۔ کوئی نفع ہی نہیں ہوتا۔ میں نے ارادہ کیا تھا چل کر تمہاری منت سماجت کر کے لے چلوں ۔ کیا جانے تمہیں دیکھ کر اس کی طبیعت کچھ سنبھل جائے لیکن تمھارے گھر پر آیا تو معلوم ہوا کہ تم حج کرنے جارہی ہو۔ اب کس منہ سے چلنے کو کہوں تمھارے ساتھ سلوک ہی کون سا اچھا کیا تھا ؟ کہ اتنی جرأت کر سکوں اورپھر کا رِثواب میں رخنہ ڈالنے کا بھی خیال ہے۔ جاؤ ! اس کا خدا حافظ ہے۔ حیات باقی ہے تو صحت ہو ہی جائے گی ورنہ مشیت ایزدی سے کیا چارہ؟“
عباسی کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ سامنے کی چیز یں تیرتی ہوئی معلوم ہوئیں۔ دل پر ایک عجیب وحشت کا غلبہ ہوا۔ دل سے دعا مانگی – ’اللہ میری جان کے صدقے ، میرے نصیرکا بال ببکانہ ہو رقت سے گلا بھر آیا ”میں کیسی سنگ دل ہوں پیارا بچہ رو رو کر ہلکان ہو گیا اور میں اسے دیکھنے تک نہ گئی۔ شاکرہ بد مزاج سہی ، بد زبان سہی نصیر نے میرا کیا بگاڑا تھا؟ میں نے ماں کا بدلہ نصیر سے لیا۔ یا خدا میرا گناه  بخشيو ! پیار انصیر میرے لیے ہڑک رہا ہے( اس خیال سے عباسی کا کلیجہ مسوس اٹھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ) مجھے کیا معلوم تھا کہ اسے مجھ سے اتنی محبت ہے۔ ورنہ شاکرہ کی جوتیاں کھاتی اور گھر سے قدم نہ نکالتی آه! نہ معلوم ! بچارے کی کیا حالت ہے؟ انداز وحشت سے بولی۔” دودھ تو پیتے ہیں نا؟“
صابر :” تم دودھ پینے کو کہتی ہو۔ اس نے دو دن سے آنکھیں تو کھولی نہیں ۔“
عباسی : ’یا میرے اللہ ! ارے او قلی قلی ! بیٹا! آ کے میرا اسباب گاڑی سے اتار دے۔ اب مجھے حج وج کی نہیں سوجھتی۔ ہاں بیٹا! جلدی کر۔ میاں! ویکھیے کوئی یکہ ہوتو ٹھیک کر لیجیے۔“
یکہ روانہ ہوا۔ سامنے سڑک پر  کئی بگھیاں کھڑی تھیں ۔ گھوڑا آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ عباسی بار بار جھنجھلاتی تھی اور یکہ بان سے کہتی تھی۔ ”بیٹا ! جلدی کر میں تھے کچھ زیادہ دے دوں گی ۔ راستہ میں مسافروں کی بھیڑ دیکھ کر اسے غصہ آتا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا گھوڑے کے پرلگ جاتے۔ لیکن جب صابر حسین کا مکان قریب آگیا تو عباسی کا سینہ زور سے اچھلنے لگا۔ سرتیورا گیا۔ بار بار دل سے دعا نکلنے لگی ۔ خدا کرے سب خیر و عافیت ہو۔
یکہ صابرحسین کی گلی میں داخل ہوا۔ دفعتاً عباسی کے کان میں کسی کے رونے کی آواز آئی۔ اس کا  کلیجہ منہ کو آگیا۔ سر تیورا گیا ۔ معلوم ہوا دریا میں ڈوبی جاتی ہو۔ جی چاہا یکہ سے کود پڑوں مگر ذرا دیر میں معلوم ہوا کہ عورت میکے سے وداع ہورہی ہے تسکین ہوئی۔
آخر صابر حسین کا مکان آپہنچا ۔ عباسی نے ڈرتے ڈرتے دروازے کی طرف تاکا ۔ جیسے کوئی گھر سے بھاگا ہوا یتیم لڑ کا شام کو بھوکا پیاسا گھر آئے اور دروازے کی طرف سہمی ہوئی نگاہ سے دیکھے کہ کوئی بیٹھا تو نہیں ہے۔ دروازہ پر سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ باورچی بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ عباسی کو ذرا ڈھارس ہوئی ۔ گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ نئی دایہ بیٹھی پولس پکا رہی ہے۔ کلیجہ مضبوط ہوا۔ شاکرہ کے کمرے میں گئی تو اس کا دل گرمی کی دو پہری دھوپ کی طرح کانپ رہا تھا۔ شاکر ہ نصیر کو گود میں لیے دروازے کی طرف  ٹکٹکی  لگائے تاک رہی تھی غم اوریاس کی زندہ تصویر۔
عباسی نے شاکرہ سے کچھ نہیں پوچھا۔ نصیر کو اس کی گود سے لے لیا اور اس کے منہ کی طرف چشم پرنم سے دیکھ کر کہا۔ ”بیٹا! نصیر! آنکھیں کھولو ‘‘
نصیر نے آنکھیں کھولیں ۔ ایک لمحہ تک دایہ کو خاموش دیکھتا رہا۔ تب یکا یک دایہ کے گلے سے لپٹ گیا اور بولا ’’انّا آئی ۔ انّا آئی۔“
نصیر کا زرد مرجھایا ہوا چہرہ روشن ہو گیا ۔ جیسے بجھتے ہوئے چراغ میں تیل پڑ جائے۔ ایسا معلوم ہوا گویا وہ کچھ بڑھ گیا ہے۔
ایک ہفتہ گزر گیا ۔ صبح کا وقت تھا۔ نصیر آنگن میں کھیل رہا تھا۔ صابر حسین نے آکر اسے گود میں اٹھالیا اور پیار کر کے بولے ۔ تمھاری انّا کو مارکر بھگا دیں؟ نصیر نے منہ بنا کر کہا۔ ”نہیں روئے گی۔“
عباسی بولی ” کیوں بیٹا! مجھے تو تو نے کعبہ شریف نہ جانے دیا۔ میرے حج کا ثواب کون دے گا؟”
صابرحسین نے مسکرا کر کہا تمہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہو گیا۔ اس حج کا نام حج اکبر ہے۔

Haj e Akbar by Munshi Prem Chand  Chapter 3 NCERT Solutions Urdu
افسانہ
اردو میں افسانے کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی کے شروع میں ہوا۔ ناول کی طرح اس صنف پربھی مغربی ادب کا گہرا اثر ہے ۔ تیزی سے بدلتے ہوئے زمانے کا ساتھ دینے اور مصروف رہنے والوں کے لیے مختصر افسانہ، ناول اور داستان سے زیادہ کشش رکھتا ہے۔
مختلف نقادوں نے افسانے کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ ایک نقاد نے کہا ہے کہ افسانہ ایسی نثری کہانی ہے جو ایک ہی نشست میں پڑھی جا سکے۔ ایک اور نقاد کا قول ہے کہ افسانے میں بنیادی چیز وحدت تاثر ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ افسانے کی شکل بھی تبدیل ہوئی ہے۔
ایک اچھا افسانہ اختصار کے ساتھ زندگی کے کسی گوشے کو قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔ مختصر ہونے کی وجہ سے کہانی میں جھول پیدا ہونے کا اندیشہ بھی کم ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کا مشاہدہ اور انسانی نفسیات کا مطالعہ گہرا ہونا چاہیے ۔ کردار اور واقعات ایسے ہوں جو ہماری زندگی اور ہمارے تجربوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔
اردو کے افسانہ نگاروں میں پریم چند، علی عباس حسینی ، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی ، کرشن چندر ، غلام عباس، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین بہت اہم ہیں۔

منشی پریم چند
(1880ء - 1936ء)
منشی پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا۔ انھوں نے نواب رائے کے نام سے کچھ افسانے لکھے، پھر 1910 ء میں پریم چند نام اختیار کیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ وہ بنارس کے قریب ایک گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی عجائب لال ڈاک کے  محکمہ میں کلرک تھے۔ پریم چند آٹھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ جب وہ پندرہ سال کے ہوئے تو ان کے باپ نے ان کی شادی کر دی ۔ کچھ دنوں کے بعد ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھیں انٹر پاس کرنے کے بعد اپنی تعلیم چھوڑ دینی پڑی ۔ انھوں نے محکمہ تعلیم میں نوکری کر لی ۔ سرکاری ملازمت کی وجہ سے حق بات کے اظہار میں رکاوٹ محسوس ہوئی تو ملازمت ترک کر کے ساری زندگی تصنیف و تالیف کے کاموں میں صر ف کر دی۔
پریم چند نے تقریباً ساڑھے تین سو افسانے اور بارہ ناول لکھے۔ انھیں اردو افسانے کا موجد نہیں تو پہلا بڑا افسانہ نگار ضرور کہا جا سکتا ہے اور اکثر لوگوں کے خیال میں وہ اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار بھی ہیں ۔ انھوں نے مختصر افسانے کو ایک معیار عطا کیا۔ ان کے افسانے اور ناول اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں ۔ ان کے مجموعوں میں واردات ، پریم پچیسی، پریم بتیسی آخری تحفه نجات اور زاد راه قابل ذکر ہیں اور ان کے ناولوں میں چوگان ہستی، میدان عمل، بیوہ، بازارِحسن اور گودان ممتاز حیثیت رکھتے ہیں ۔
پریم چند کے ناول اور افسانے ہے مثل حقیقت نگاری کا نمونہ ہیں۔ ان کے افسانوں کا پس منظرمشرقی یوپی کا دیہات ہے۔ ہندوستانی کسان اپنی پوری شخصیت کے ساتھ پریم چند کی تصانیف میں نظر آتا ہے۔ پریم چند کی نثر سادہ اور آسان ہے۔ اپنے انداز بیان سے انھوں نے افسانوں کو بہت پُر لطف بنادیا ہے۔
Haj e Akbar by Munshi Prem Chand  Chapter 3 NCERT Solutions Urdu
لفظ و معنی
حلیم : رداشت کرنے والا، نیک مزاج کارحم کرنے والا
تردید : کسی چیز ایسی بات کو نا شمیرانا
اشک ریزی : آنسو بہانا
مناظره : بحث و مباحث
اشتعال : غصہ بھڑک اٹھنا
تضحیک : ہنسی اڑانا
تعرض : اعتراض کرنا
رکیک : بہت باریککم قیمت چھچھورا
عفونت : بدبو، بساند
بے ضرر : جس سے کوئی نقصان نہ ہو
استخواں : استخواں
لیل : رات
نہار : دن
نمی تری : رطوبت
افسوس : قلق
سنگریزہ : کنکری
زائر : زیارت کرنے والا
مشیت ایزدی : اللہ کی مرضی
کوزہ : مٹی کا پیالا
شائبہ : ہلکا سا نشان ، لہذا کا ساشه یاشک
خطاوارنہ : قصور کرنے والے کی طرح
احتظاظ; : لطف اٹھانا ، مزہ لینا;

غور کرنے کی بات
اس افسانے میں منشی پریم چند نے متوسط طبقے کے مسلم گھرانے کی روزمرہ زندگی کی عکاسی کی ہے۔ 
افسانے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں مصنف نے عورت کی ممتا کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ 
افسانے میں عورتوں اور بچوں کی نفسیات کو بڑی خوبی سے پیش کیا گیا ہے۔ 
مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ صرف مذہبی فرائض ادا کرنے سے ہی ثواب نہیں ماتا بلکہ انسانی حقوق کی ادائیگی بھی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ 
اس افسانے میں پریم چند نے خدمت خلق کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ جس کا درجہ اور ثواب البعض حالات میں عبادت سے بھی بڑھ کر ہو جاتا ہے۔
 به انسان میں بھی بتاتا ہے کہ غریب اور جو لوگوں کو نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ انسانی زندگی  کا ایک اہم اور ضروری حصہ ہوتے ہیں۔

 سوالوں کے جواب لکھے . 
شاکرہ عباسی سے کیوں ناراض تھی ؟
جواب:شاکرہ کا خیال تھا کہ دایہ عباسی انہیں لوٹ رہی ہے،بازار سے جو چیزیں لاتی ہے قیمت زیادہ بتاتی ہے یا سامان میں سے کچھ چیزیں اپنے لیے چھپا لیتی ہے بازار جاتی ہے تو دیر سے گھر پہنچتی ہے۔
2. نصیر کی بیماری کا کیا سبب تھا؟
جواب:نصیر عباسی سے بہت مانوس تھا اسی کے ہاتھ سے کھاتا پیتا تھا ۔عباسی کو بھی اس بچے سے بہت محبت تھی۔عباسی کے گھر سے چلے جانے کی وجہ سے نصیر کو بہت صدمہ لگا۔اس لیے وہ بیمار ہو گیا۔
3. عباسی نے حج پر جانا کیوں ملتوی کر دیا تھا؟
جواب: صابر نے اسٹیشن پہنچ کر عباسی کو بتایا کہ جب سے وہ آئی ہے نصیر بیمار ہے۔ ایک ہفتے سے
کھانسی اور بخار میں مبتلا ہے۔ دوائیں کیں مگر نصیر کی طبیعت نہیں سنبھلی۔ شاید تمہیں دیکھ کر اس کی طبیعت سنبھل جائے نصیر کی یہ حالت سن کر عباسی بے قرار ہوگئی اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ مج کرنے کے بجائے نصیر کے پاس جائے گی۔
4. عباسی کی واپسی سے نصیر پر کیا اثر ہوا؟
جواب:عباسی کو دیکھ کر نصیر کا زرد مرجھایا ہوا چہرہ روشن ہو گیا۔ جیسے بجھتے ہوئے چراغ میں تیل پڑ جائے۔
ایسا معلوم ہوا کہ وہ کچھ بڑھ گیا ہے۔ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بیمارنصیر تندرست ہو کر آنگن میں کھیل رہا تھا۔
5. صابرحسین نے عباسی سے یہ کیوں کہا؟
تمھیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہوگیا۔ اس کا نام حج اکبر ہے ۔“
جواب:حج اکبر سے مراد ہے ایسا حج جس میں زیادہ ثواب ہو، جمعہ کے روز جب حج ہوتا ہے اسے حج اکبر کہتے ہیں۔ چونکہ عباسی نےحج پر نہ جا کر بیمارنصیر کی خدمت کی اور وہ پہلے سے زیادہ تندرست ہو گیا، اس لیے صابر نے اس خدمت کو حج اکبر کہا۔ حج کرنا ذاتی مذہبی فریضہ ہے۔ اور دوسروں کی خدمت کرنا ان کے سکھ دکھ کا خیال کرنا بندوں کا حق ہے۔ اللہ کے بندوں کی خدمت کرنے سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے۔
 عملی کام
 افسانے کو غور سے پڑھیے۔

ذیل میں دیئے گئے محاوروں کے جملے بنائے:
خوشی سے پھولا نہ سمانا : اپنا رزلٹ دیکھ کر عاصم خوشی سے پھولا نہ سمایا
آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا :  ٹیچر نے  میری طرف آ؞کھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔
کانوں میں پیر رکھنا : ٹیچر ٹیچر میری طرف آ؞کھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا
گلے کا بار ہونا :فرزانہ ہر وقت اپنے بھائی کے گلے کا ہار بنی رہتی۔
• افسانے کا مرکزی خیال بتایئے۔

درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیے:
نفرت۔۔۔محبت
سستا۔۔۔مہنگا
ہوش۔۔۔بے ہوش
. اس افسانے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

خلاصہ:
منشی صابرحسین کی آمدنی کم تھی مگر اس کے باوجود اپنے بچے کے لئے ایک آیار کھنے  پرمجبور تھے مگر ان کی  بیوی شاکرہ کو آیا عباسی  ایک آنکھ نہ بھا تی تھی ۔ وہ اسے بے ایمان سمجھتی تھی  اور بات بے بات اس سے لڑتی بھی رہتی  تھی آخر کا رایک دن منشی نصیر حسین کی ایک نہ چلی اورشا کرہ نے عباسی کو نکال ہی کر دم لیا۔
عباس سے ان کا بیٹا نصیر بہت مانوس تھا۔ اس کے جاتے ہی صابر نے انّا  انّاکی ضد پکڑ لی۔ کھانا پیا کھیلنا کودنا سب چھوڑ دیا۔ آیا کی جدائی میں اس نے کچھ ہی دنوں میں بستر پکڑ لیا۔ جان کے لالے پڑگئے۔ دا وا دار و حکیم کوئی کام نہ آیا۔ تھک ہار کرمنشی صابر حسین نے عباسی کو بلا لانے کی بات کہی ۔ بادل نخواستہ شاکرہ بھی راضی ہوگیں۔ ادھربچے کی جدائی میں عباسی بھی تڑپ رہی تھی۔ اس غم کو بھلانے کے لئے وہ بھی عازم ہوگئی ۔ ادھر جب مشی صابرحسین پوچھتے ہوئے جب اس کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا وہ حج کے لئے جانے والی ہے۔ وہ بھاگم بھاگ اسٹیشن پہنچے عباسی کو نصیر کا حال سنایا اور اس کے لئے حج پر دعا کرنے کے لئے کہا نصیر کی بیماری کا حال سن کر عباسی سے نہ رہا گیا اور  حج کا خیال چھوڑ کرنصیر کو دیکھنے کے لئے صابر حسین کے ساتھ ان کے گھر کے لئے روانہ ہوئی۔ آیا کے آتے ہی نصیر کے چہرے پررونق آگئی

اور وہ تیزی سے صحت یاب ہونے لگا اور کچھ ہی دنوں میں بالکل تندرست ہو گیا۔ ایک ہفتہ گزر گیا صبح کا وقت تھا نصیر آنگن میں کھیل رہاتھا۔ صابر حسین نے اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار کر کے بولے تمہاری انّاکومار کر بھگا دیں ؟ نصیر نے منہ بنا کر کہا نہیں ، روئے گی عباس بولی کیوں بیٹا! مجھے تو تو نے کعبہ شریف نہ جانے دیا۔ میرے حج کا ثواب کون دے گا؟ صابر حسین نے مسکرا کر کہا تمہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہو گیا۔ اس کا جج   کا  نام حج اکبر ہے

کلک برائے دیگر اسباق

Thursday 26 March 2020

Wabayi Nazla - Coronavirus?


نزلہ و زکام وبائی
مسیح الملک حکیم اجمل خاں ؒ
  انفلوانزا   (Infinenza)
عیاذ باللہ جس طرح کہ طاعون ہیضہ اور دیگر وبائی امراض بعض ایام میں وہاء کے طور پر ظاہر ہو کر دفعتاً صدہا جانوں کو لقمہ اجل بنادیتے ہیں۔ تحقیق جدید سے یہ بات ثابت ہے کہ نزلہ اور زکام کا حملہ بھی بعض دفعہ وبائی طور پر ہوتا ہے۔

اسباب: اس مرض کا باعث ہوا میں ایک سمیت اور زہریلے اثر کا پیدا ہو جانا ہے جو سانسلینے کے ساتھ ہوا کے ہمراہ جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ مرض اکثر جاڑوں میں ہوتا ہے۔ بعض مرطوب نشیبی جگہوں میں یہ مرض اکثر پیدا ہوتا ہے اور ایک مقام سے پیدا ہوکر فوراً ہی بہت سے مقامات میں پھیل جاتا ہے۔ جوان آدی کی بہ نسبت بوڑھے اور بچے اس مرض میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔

علامات:  پیشانی اور کمر میں درد ہو کر دفعتا مریض کو بخار چڑھ جاتا ہے۔ بعض مریضوں کو یہ بخار لرزہ سے ہوتا ہے اور بعض کو بغیر لرزے کے۔ آنکھوں اور تمام عضلات جسم میں درد معلوم ہوتا ہے اور دوران سر کی شکایت ہوتی ہے گلا درد کرتا ہے۔ آواز بیٹھ جاتی ہے۔ سینے پر بوجھ اور تناؤ معلوم ہوتا ہے۔ خشک کھانسی ہوتی ہے۔ سانس مشکل سے آتا ہے۔ مریض کی بھوک زائل ہو جاتی ہے۔ ابکائیاں آتی ہیں۔ کبھی قے اور دست آنے لگتے ہیں۔ منہ کا ذا لقہ بگڑ جاتا ہے اگر عوارضات شدید ہوں تو انجام اچھا نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ ناک اور حلق کی سوزش آگے ہوا کی نالیوں تک بڑھ کر شدید کھانسی اور نمونیا پیدا کر دیتی ہیں۔ اس مرض کے حملے سے مریض بہت جلد کمزور ہو جاتا ہے۔ عام زکام کی نسبت زکام وبائی میں تکلیف اور کمزوری زیادہ ہوتی ہے اور دفعتا مرض کا حملہ ہونا اور دفعتاً  بہت سے اشخاص  مبتلاۓ مرض ہو جانا اور بخار کا ہونا اس کی خاص تشخیصی علامت ہے۔ اگر عوارضات شدید نہ ہوں اور اس مرض کے ساتھ کوئی دوسرا مرض شامل نہ ہو جائے تو ایک ہفتہ کے اندر اندر مریض کو آرام ہوجاتا ہے۔

علاج : بطور حفظ ماتقدم اس وباء کے زمانہ میں چائے کا استعمال ضرور رکھنا چاہئے۔ غذا میں احتیاط رکھنا بھوک سے کم کھانا قبض نہ ہونے دینا اور کھلی تازہ ہوا میں رہنا لباس صاف رکھنا اس مرض کے حملے سے بچاتا ہے۔ حالتِ مرض میں مریض کو ایک علیحدہ کمرے میں آرام سے لٹائیں۔ شروع میں معدہ اور آنتوں کے صاف کرنے کے لئے قرص ملین 4 عدد نیم گرم پانی کے ہمراہ مریض کو کھلائیں۔ تاکہ دو تین دست آکر معدہ کی صفائی ہو جائے۔ اس کے بعد به دانہ 3 ماشہ عناب 5 دانہ سپستان نو دانہ پانی میں ہلکا جوش دے کر صاف کر کے شربت بنفشہ 2 تولہ ملا کر نیم گرم صبح و شام پلائیں۔ بخار کے لئے خاکسی 5 ماشہ اس نسخہ میں چھڑک کر دیں- رفع درد سر اور جسم کے لئے پاشویہ کریں یعنی گل بنفشہ ایک تولہ اکلیل الملک ایک تولہ گل بابونہ ایک تولہ مرزنجوش ایک تولہ گل خطمی ایک تولہ بیری کے پتے 5 تولہ پانی 10 سیرمیں جوش کر کے اس گرم پانی میں مریض کے پاؤں پنڈلیوں تک 10 منٹ ڈبوئے رکھیں بعده خشک کر کے بستر میں لپیٹ دیں۔ اگر کھانسی کی شدید تکلیف ہو تو بجائے شربت بنفشہ 2 تولہ کے خشخاش 2 تولہ یا شربت اعجاز 2 تولہ اسی نسخہ میں ملا کر دیں- یا خمیرہ خشخاش 7 ماشہ اول کھلا کر اوپر سے یہی نسخہ پلا دیں۔ اگر درد گلو کی شکایت ہو تو بجائے شربت بنفشه 2 تولہ کے شربت توت سیاه 2 تولہ شامل کر کے دیں۔ تقویت کے لئے خمیرہ گاؤ زباں ایک تولہ ورق نقرہ ایک عدد میں لپیٹ کر یا خمیره گاؤزبان جواہر والا 5 ماشہ اسی نسخہ کے ہمراہ کھلا دیں۔ کھانسی کے لئے دوسرے وقت یہ نسخہ دیں لعوق سپستان ایک تولہ لعوق معتدل ایک تولہ پانی یا عرق گاؤزبان 12 تولہ میں جوش دے کر گرم گرم سے ناک اور سر کو بھپارہ دیں۔ اگر کھانسی کے ساتھ سینہ میں درد بھی ہو توقیروطی آرد کرسنہ ایک تولہ میں زعفران ایک ماشہ ایلوا ایک ماشہ باریک پیس کر ملا کر نیمگرم ضماد کریں اور سینے کو روئی کے پہل سے گرم کر کے سینکیں۔ تلئین طبع مطلوب ہو تو شربت بنفشہ کی بجائے شربت ملین چار تولہ پینے کے نسخے میں دیں۔

پرہیز: جن چیزوں سے زکام اور نزلہ میں پرہیز کرنا واجب ہے وہی ملحوظ خاطر رکھیں۔

غذا: لطیف اور سریع الہضم مثلاً شوربہ یخنی آش جو میں شربت بنفشہ ملا کر یا مونگ کی دال چپاتی کے ساتھ دیں۔ پانی کی جگہ عرق مکوہ عرق گاؤزبان نیم گرم پلائیں۔


(شاہد الاسلام کے فیس بک صفحہ سے شکریہ کے ساتھ۔)



Wednesday 25 March 2020

Aaina The Mirror

 ہم اردو پڑھاتے ہیں
 ہم تہذیب سکھاتے ہیں
ncert solutions,ncert solutions 10th,ncert solution,ncert,ncert books in urdu,ncert chapterss in urdu,cbse solutions,complete ncert solution 10th urdu,solution,ncert book in urdu,ncert urdu class 7,all solution,chapters in urdu,ncert books for upsc,Chapters basics in urdu,urdu 6,class 7 urdu,class 8 urdu,class 9 urdu,class 10 urdu,ncert maths,application for ncert books,chapters question solution,download ncert books in online,ncert audio books,aaina academy, aaina academy youtube
Aaina Academy Presents
         
 Class 10  class 9  Class 8  Class7  Class 6
         
 زیرِ تعمیر  Class 10  زیرِ تعمیر  Class 10  Class 9
         
 class 10  Class 9  class 8  Class 7  Class 6
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ امتحانات کی تاریخوں کا اعلان

تازہ ترین   
حضرت شیخ جلال الدین کبیرالاولیا پانی پتیؒ
 قسط-4
آج کی آڈیو/ویڈیو کہانی  
عظیم بیگ چغتائی کی ایک خوبصورت کہانی کا پرکشش ویڈیو
مکمل سیریز دیکھنے کے لیے کلک کریں
فقیر
عظیم بیگ چغتائی کا ایک دلچسپ افسانہ
گلّی ڈنڈا
پریم چند
میرا پسندیدہ کھیل
برائے نصاب
میرا پسندیدہ شاعر
برائے نصاب
یادوں کے جھروکے سے
 
لال بتی جل گیا تسنیم عثمانی سملوی
یادیں بچپن کے رمضان کی قصّہ گو
پھول شاہ ابن طاہر
تعلیمی تاش  مبشرہ منصور 
   
   
   
مقالات
 
علم التصوف:اللہ اور بندے کے روحانی تعلق کی بنیاد شبلی فردوسی
بچّوں کے لیے اردو کی سحر انگیز دنیا مبشرہ منصور
یہ ہے کولکتہ میری جان(سفر نامہ۔ ۱) صحبہ عثمانی
یہ ہے کولکتہ میری جان(سفر نامہ۔ ۲) صحبہ عثمانی
علامہ اقبال کی آخری رات شبلی فردوسی
اردو شاعری میں رنگ تصوف شاہ رشاد عثمانی
حضرت شاہ کمال ڈاکٹر امین چند شرما
مولانا طیب عثمانی ندوی کے اذکار صوفیانہ شاہ ہلال احمد قادری
یادگار غالب کی روشنی میں غالب تحسین عثمانی
حسرت موہانی صحبہ عثمانی
عبد القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں  
عبد القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں 2  
روایت اور جدّت کا خوبصورت امتزاج :افتخار راغبؔ  
شاہ حسن نہری کی شعری کائنات شاہ رشاد عثمانی
غیر مسلم شعرا کی نعت نگاری ڈاکٹر کے وی نکولن
ٹوٹ گئے ستار کے تار ادارہ
شاعر اسلام اقبال۔ شخصیت اور پیام طیب عثمانی ندوی
   
   
مضامین
 
پریم چند کی شخصیت فراق گورکھپوری
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وصیت یومِ وصال پر خاص
حضرت امیر خسرو ایک خراج عقیدت
 دل پھر طواف کوئے محبت کو جائے ہے ابن طاہر
ملکہ بلقیس نصرت جہاں
چند سطریں پھولوں کی تعریف میں ”آرایش محفل“ سے ایک باب
شب برات مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین یحیٰ منیری ؒ
وفات کے بعد روحوں کا دنیا سے تعلق مولانا شبنم کمالی
نزلہ و زکام وبائی مسیح الملک حکیم اجمل خاں
تعلیم نسواں اقصیٰ عثمانی
دہلی کی آلودہ فضائیں ادارہ
پودوں میں رسم شادی سید ناطق قادری
صفائی سے بہتر نہیں کوئی شے صحبہ عثمانی
جمشید پور: محبت و خوبصورتی کا شہر(انگریزی) عریشہ عثمانی
   
مشاہیر   
مرزا محمد رفیع سودا  
شیخ ابراہیم ذوق  
شادعظیم آبادی  
اسماعیل میرٹھی  
کنہیا لال کپور  
نظیر اکبر آبادی  
منشی پریم چند  
میر تقی میر  
پروفیسر محمد مجیب  
مرزا غالب  
کہانیاں  
دو بیل منشی پریم چند
خیرات غیاث احمد گدی
اس کے روزوشب غیاث احمد گدی
گیان سید ناطق قادری
   
   
   
   
   
   
شخصیات
 
شاہ منصور ؒ: دنیائے تصوف کے بادشاہ ابن طاہر
تاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملویؒ از تاریخ اطبائے بہار
تاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملویؒ ڈاکٹر محمد اقبال
ؒحضرت مولانا حکیم شاہ منصور احمد فردوسی سید شاہ ہلال احمد قادری
   
   
   
   
   
   
غزلیں  
جہاں میں ہوں وہاں وحشت ہے یا دیوانہ پن ساقی ڈاکٹر کلیم عاجز
خدائی میں حاجت روا ایک ہے نوح ناروی
تھوڑی سی ملا دیجئے مے بھی جو دوا میں رخشاں ابدالی
وہ چاہےکوئی بلا سے نہ چاہے یا چاہے ڈاکٹر کلیم عاجز
عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے نظیر اکبر آبادی
میاں دل تجھے لے چلے حسن والے نظیر اکبر آبادی
اس کے شرار حسن نے جلوہ جو اک دکھادیا نظیر اکبر آبادی
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس جگر مراد آبادی
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ناصر کاظمی
بہک بھی سکتا ہوں توبہ کی چاہتیں لکھ دے جوگا سنگھ انور
ہم چپکے چپکے اشک بہانے سے بچ گئے تاجور سلطانہ
مجھے راز درونِ دل عیاں کرنا نہیں آتا تاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہرعثمانی فردوسی
ابر گھر آتا ہے جب رازِچمن کھلتا ہے کامل القادری
اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں خمار بارہ نکوی
دولت غم اپنے اوپر ہم نے خوب لُٹائی دانش مامون
اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو ڈاکٹر کلیم عاجز
   
   
   
   
نظمیں  
الوداع راحت خستۂ جاں امیمہ قادری  
عید کی خوشی نظیر اکبر آبادی
جس دن سے گئی ہیں وہ میکے سید حسن عسکری طارق
او دیس سے آنے والے بتا اختر شیرانی
خوشحال نامہ نظیر اکبر آبادی
ہولی نظیر اکبر آبادی
اک مس سیمیں بدن سے کرلیا لندن میں عقد اکبر الہ آبادی
ریلیاں ہی ریلیاں رضا نقویواہی
ترانۂ بَہار جوش ملیح آبادی
اک جرم ہوا ہے ہم سے راشدہ خان
   
فیس بُکی ادب  
کہانی ایک چور کی اقبال حسن آزاد کی فیس بُک وال سے
اردو میں ’ہ‘ اور ’ھ‘ کا مناسب استعمال نامعلوم
اسرار جامعی کی یاد میں عمیر منظر
اسرار جامعی کے آخری ایّام معصوم مرادآبادی
پرنسپل کا خط والدین کے نام شاہ رشاد عثمانی کے فیس بک صفحہ سے
   
   
رپورٹیں اور خبریں  
شگفتہ خاطر کا اجراء شبلی فردوسی
خدیجة الکبریٰ گرلس پبلک اسکول میں سرمائی میلہ  
عالمی تجارتی میلہ 2017  
جامعہ ملیہ میں نووارد طلبہ کا استقبال  
جامعہ ملیہ میں 2006 میں منعقدہ مشاعرہ کی روداد  
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 97ویں یوم تاسیس کے موقع پر دو روزہ پروگرام کا انعقاد  
یعنی تو کی تقریب رونمائی  
عرس کا مطلب عاشق سے معشوق کا وصال ہوتا ہے۔سیف الدین فردوسی  
   

خوش خبری